ideal_man
رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 258
- ری ایکشن اسکور
- 498
- پوائنٹ
- 79
محترم گڈ مسلم بھائی!
غیر ضروری باتوں سے اجتناب کرتےہوئے براہ راست موضوع اور مقصد پر آتے ہیں۔
لیکن ایک چھوٹی بات ذاتی طور پر کرنا چاہتا ہوں۔
میں بحث ومباحثوں کا قائل نہیں ہوں اور نہ پوسٹ پر پوسٹ مقابلے پر یقین رکھتا ہوں، جب محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی بات مکمل کرچکا، فوائد سمیٹ چکا ہوں اور مقصد پورا ہوگیا ہے تو پھر اپنی بات اس حد تک ختم کردیتا ہوں۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ اس مسئلہ طلاق میں دونوں فریق دلائل سے تھک جاتے ہیں تو پھر جذباتی انداز اختیار کیا جاتا ہے اور لوگوں کو مشتعل کیا جاتا ہے۔ان کے جذبات ابھارے جاتے ہیں ۔ پھر بحث لڑائی جھگڑے کی نظر ہوجاتی ہے۔ ایسے وقت میں عموما اہل حدیث مکتبہ فکر کے مناظر یا وکیل کی طرف سے احناف کے استعمال شدہ لفظ بدعت کی غلط تشریح کرتے ہوئے بار بار بڑی شدت سے یہ کہا جاتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے کہ
کیا قرآن نے بدعت کا حکم دیا ہے۔ کیا قرآن بدعت کے جائز ہونے کا حکم دیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس موضوع کو سلیکٹ کرنے کا مقصد لفظ بدعت کی تشریح اور وضاحت ہے۔ تاکہ ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ہم احتیاط کریں۔
اگر آپ نے بھی کوئی ذاتی وضاحت کرنی ہے تو کرسکتے ہیں۔(ابتسامہ) شکریہ
اب موضوع کی طرف آتے ہیں
اس بات کو ذہن نشین فرمالیں ہمارے درمیان بات لفظ بدعت پر ہورہی ہے، یعنی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع پر لفظ بدعت کا اثرکا مرتب ہونا نہ ہونا ہے۔
آپ کی طرف سے طلاق پر لائے گئے لفظ بدعت کی معنوی تعریف یا وضاحت لغو بیان ہوا ہے۔ یعنی آپ کے مطابق یہاں بدعت کا استعمال لغو کے معنوں میں ہوا ہے۔ شکریہ
لیکن میری نظر میں وضاحت مکمل نہیں ہوئی۔
نمبر ایک : کیا آپ لفظ بدعت کو یہاں لغوی معنی میں استعمال کرتے ہیں یا شرعی معنی میں ؟؟؟
( یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ آپ نے خود دوسرے دھاگہ میں بدعت کو دوحصوں میں بیان کیا ہے ۔ )
بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم مولانا عبدالہادی مدنی ملاحظ فرمائیں
نمبر دو: آپ کے ہاں اس لفظ بدعت کا اثر واقع ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے تو کس صورت اور کس حد تک؟؟؟
یہی سوال جو آپ نے مجھ سے پوچھے ہیں آپ کی طرف لوٹاتا ہوں۔ آپ بھی انہی سوالات پر اپنا واضح موقف بیان فرمادیں۔
میرا موقف:
قرآن وسنت میں شرعی طریقہ اور سنت طریقہ طلاق دینے کا جو بیان ہوا ہے اسے ہم طلاق سنت کہتے ہیں، اور اس کے علاوہ باقی صورتوں میں طلاق بدعت کہتے ہیں۔ لیکن ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔
مختصر تفصیل ملاحظہ فرمائیں
اس کے علاوہ آپ نے مجھ سے طلاق پر لائے گئے لفظ بدعت کی معنوی تعریف پوچھی ہے۔
میں پہلے بھی بیان کرچکا، دوبارہ آسان انداز میں وضاحت کردیتا ہوں۔
طلاق بدعت کو ہم لغوی معنوں میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اصل اصطلاحی معنوں میں اس جگہ لفظ بدعت کےاستعمال کی کوئی گنجائش ہی نہیں، جس کی تفصیل میں پہلے ہی دے چکا ہوں ، اہل حدیث عالم دین مولانا محمد اقبال کیلانی صاحب کی کتاب کے ایک اقتباس سے۔
لہذا لغوی معنوں میں بدعت سے مراد وہ طلاق جو ناپسندیدہ ہے، معصیت ہے، اور طلاق دینے والا گنہگار ہے۔
محترم گڈ مسلم بھائی !
مجھے امید ہے آپ غیر ضروری باتوں سے اجتناب فرمائیں گے اور آپ سے کئے گئے سوال کی مزید وضاحت فرمائیں گے۔
شکریہ
غیر ضروری باتوں سے اجتناب کرتےہوئے براہ راست موضوع اور مقصد پر آتے ہیں۔
لیکن ایک چھوٹی بات ذاتی طور پر کرنا چاہتا ہوں۔
میں بحث ومباحثوں کا قائل نہیں ہوں اور نہ پوسٹ پر پوسٹ مقابلے پر یقین رکھتا ہوں، جب محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی بات مکمل کرچکا، فوائد سمیٹ چکا ہوں اور مقصد پورا ہوگیا ہے تو پھر اپنی بات اس حد تک ختم کردیتا ہوں۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ اس مسئلہ طلاق میں دونوں فریق دلائل سے تھک جاتے ہیں تو پھر جذباتی انداز اختیار کیا جاتا ہے اور لوگوں کو مشتعل کیا جاتا ہے۔ان کے جذبات ابھارے جاتے ہیں ۔ پھر بحث لڑائی جھگڑے کی نظر ہوجاتی ہے۔ ایسے وقت میں عموما اہل حدیث مکتبہ فکر کے مناظر یا وکیل کی طرف سے احناف کے استعمال شدہ لفظ بدعت کی غلط تشریح کرتے ہوئے بار بار بڑی شدت سے یہ کہا جاتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے کہ
کیا قرآن نے بدعت کا حکم دیا ہے۔ کیا قرآن بدعت کے جائز ہونے کا حکم دیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس موضوع کو سلیکٹ کرنے کا مقصد لفظ بدعت کی تشریح اور وضاحت ہے۔ تاکہ ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ہم احتیاط کریں۔
اگر آپ نے بھی کوئی ذاتی وضاحت کرنی ہے تو کرسکتے ہیں۔(ابتسامہ) شکریہ
اب موضوع کی طرف آتے ہیں
محترم بھائی!اب آپ کے مطالبے پر سوال کا جواب پیش ہے کہ ہم اس کو '' لغو '' کہتے ہیں۔ اور مولانا نے بھی جو اس کےلیے '' بدعت '' کا لفظ استعمال کیا ہے۔ وہ بھی '' لغو '' کے معنیٰ میں ہے۔۔۔ ہاں مولانا آکر خود وضاحت کردیں، کہ میں نے یہاں پر لفظ بدعت سے مراد یہ لی ہے۔۔۔ تب مولانا کی بات مانی جائے گی۔
اس بات کو ذہن نشین فرمالیں ہمارے درمیان بات لفظ بدعت پر ہورہی ہے، یعنی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع پر لفظ بدعت کا اثرکا مرتب ہونا نہ ہونا ہے۔
آپ کی طرف سے طلاق پر لائے گئے لفظ بدعت کی معنوی تعریف یا وضاحت لغو بیان ہوا ہے۔ یعنی آپ کے مطابق یہاں بدعت کا استعمال لغو کے معنوں میں ہوا ہے۔ شکریہ
لیکن میری نظر میں وضاحت مکمل نہیں ہوئی۔
نمبر ایک : کیا آپ لفظ بدعت کو یہاں لغوی معنی میں استعمال کرتے ہیں یا شرعی معنی میں ؟؟؟
( یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ آپ نے خود دوسرے دھاگہ میں بدعت کو دوحصوں میں بیان کیا ہے ۔ )
بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم مولانا عبدالہادی مدنی ملاحظ فرمائیں
وضاحت فرمادیں۔بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی"بدعتِ حسنہ اورسیئہ"کی تقسیم کو درست نہیں جانتا،
نمبر دو: آپ کے ہاں اس لفظ بدعت کا اثر واقع ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے تو کس صورت اور کس حد تک؟؟؟
محترم بھائی!1۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو آپ سنت سمجھتے ہیں یا بدعت ؟
اسی طرح آپ نے جو حنفی بھائی صاحب کاسوال پوسٹ کیا کہ
2۔آپ کے نزدیک اس طریقہ پر دی گئی طلاق سنت ہے یا بدعت ؟
3۔طلاق کس طرح دی جائے تو سنت ہوتی ہے۔ اور کس کس طرح دی جائے تو بدعت میں آجاتی ہے؟
یہی سوال جو آپ نے مجھ سے پوچھے ہیں آپ کی طرف لوٹاتا ہوں۔ آپ بھی انہی سوالات پر اپنا واضح موقف بیان فرمادیں۔
میرا موقف:
قرآن وسنت میں شرعی طریقہ اور سنت طریقہ طلاق دینے کا جو بیان ہوا ہے اسے ہم طلاق سنت کہتے ہیں، اور اس کے علاوہ باقی صورتوں میں طلاق بدعت کہتے ہیں۔ لیکن ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔
مختصر تفصیل ملاحظہ فرمائیں
اس کے علاوہ آپ نے مجھ سے طلاق پر لائے گئے لفظ بدعت کی معنوی تعریف پوچھی ہے۔
میں پہلے بھی بیان کرچکا، دوبارہ آسان انداز میں وضاحت کردیتا ہوں۔
طلاق بدعت کو ہم لغوی معنوں میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اصل اصطلاحی معنوں میں اس جگہ لفظ بدعت کےاستعمال کی کوئی گنجائش ہی نہیں، جس کی تفصیل میں پہلے ہی دے چکا ہوں ، اہل حدیث عالم دین مولانا محمد اقبال کیلانی صاحب کی کتاب کے ایک اقتباس سے۔
لہذا لغوی معنوں میں بدعت سے مراد وہ طلاق جو ناپسندیدہ ہے، معصیت ہے، اور طلاق دینے والا گنہگار ہے۔
محترم گڈ مسلم بھائی !
مجھے امید ہے آپ غیر ضروری باتوں سے اجتناب فرمائیں گے اور آپ سے کئے گئے سوال کی مزید وضاحت فرمائیں گے۔
شکریہ
اٹیچمنٹس
-
118.1 KB مناظر: 656