مقلد چونکہ عقل و بصیرت سے عاری ہوتا ہے ،اسلئے کوئی علمی بات اس کے آئے بھی تو اس رھنمائی لینے کی بجائے
اس کا الٹا مطلب اخذ کرتا ہے،
اسی پوسٹ کو دیکھ لیجئے جس میں صحیح بخاری کی ایک حدیث شریف نقل کی ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے عجلت کے ساتھ نماز ادا کرنے والے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو " اطمینان " سے اورسنوار کر نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے ،اور تمام ارکان نماز کو تعدیل سے ادا کرنے کو ضروری قرار دیا حالانکہ حنفی فقہ نماز کے ارکان کی تعدیل کے سخت خلاف ہے، چند افراد کر چھوڑ کر تمام حنفی صدیوں سے "تیز گام اٹھ بیٹھک " کو نماز کہتے ہیں ،دو تین منٹ میں چار رکعت گزار کر "ہاتھ سر پر رکھ لیتے ہیں "پوری سورہ فاتحہ ایک سانس میں پڑھتے ہیں ،
بلکہ ان کے امام محمد کے بقول چار رکعتی فرض کی آخری دو رکعتوں میں اگر کچھ نہ پڑھے تو بھی نماز ہوجائے گی ،
بس منہ بند کرکے کھڑا رہے ،
قال محمد: السنة أن تقرأ في الفريضة في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، وفي الأخريين بفاتحة الكتاب، وإن لم تقرأ فيهما أجزأك، وإن سبحت فيهما أجزأك، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله (مؤطا محمد )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس حدیث میں تعدیل ارکان کی فرضیت و وجوب ظاہر ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہنا ہے کہ :
تعدیل ارکان بالکل ضروری نہیں ،
صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
وأما الاستواء قائما فليس بفرض، وكذا الجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله
(یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں ، اسی طرح دو سجدوں کے درمیان جلسہ ،اور رکوع ،سجدہ طمانینت بھی ضروری نہیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اس حدیث میں نماز میں قراءت کا حکم بھی دیا ہے ،جس سے امام الفقہاء امام بخاری ؒ نے نماز میں وجوب قراءت پر دلیل اخذ کی ہے
فرماتے ہیں :
باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها، في الحضر والسفر، وما يجهر فيها وما يخافت
تمام نمازوں میں امام ،مقتدی ، کیلئے قراءت کا واجب ہونا ،سفر و حضر ،اور جہری و مخفی قراءۃ والی ہر نماز میں ۔۔
اب مقلد صاحب نے تقلید کے نشے میں امام بخاری کے ترجمہ باب کا ترجمہ ہی نہیں کیا،