• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس نے بھی یہ حدیث سنی پھر بھی رفع الیدین کیا تو وہ شریر گھوڑا ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کوئی حنفی اگر نماز میں تعدیل نہیں کرتا تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے نہ کہ فقہ حنفی کی تعلیم
یہاں " کسی حنفی " کا ذاتی و انفرادی فعل ذکر نہیں ،بلکہ بانیانِ مذہب حنفی کا فرمان مبارک ہے کہ اطمینان سے اور تعدیل سے نماز ادا کرنا ضروری نہیں ،
جبکہ ہمارے مقلد بھائی کی پوسٹ میں جو حدیث بیان کی گئی ہے۔
اس حدیث میں تعدیل ارکان کی فرضیت و وجوب ظاہر ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہنا ہے کہ :
تعدیل ارکان بالکل ضروری نہیں ،
صاحب " ھدایہ " لکھتے ہیں :
وأما الاستواء قائما فليس بفرض، وكذا الجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله
(یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں ، اسی طرح دو سجدوں کے درمیان جلسہ ،اور رکوع ،سجدہ اطمینان کے ساتھ ضروری نہیں ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی پوسٹ والی حدیث سے نماز کی ہر رکعت میں قراءت ضروری ہونا ظاہر ہے
لیکن بانیانِ مذہب حنفی یعنی ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد امام محمد کے بقول چار رکعتی فرض کی آخری دو رکعتوں میں اگر کچھ نہ پڑھے تو بھی نماز ہوجائے گی ،
بس منہ بند کرکے کھڑا رہے ،
قال محمد: السنة أن تقرأ في الفريضة في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، وفي الأخريين بفاتحة الكتاب، وإن لم تقرأ فيهما أجزأك، وإن سبحت فيهما أجزأك، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله (مؤطا محمد )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
بانیانِ مذہب حنفی کا فرمان مبارک ہے کہ اطمینان سے اور تعدیل سے نماز ادا کرنا ضروری نہیں ،
۔۔۔۔حدیث میں تعدیل ارکان کی فرضیت و وجوب ظاہر ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہنا ہے کہ :
تعدیل ارکان بالکل ضروری نہیں ،
صاحب " ھدایہ " لکھتے ہیں :
وأما الاستواء قائما فليس بفرض، وكذا الجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله
(یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں ، اسی طرح دو سجدوں کے درمیان جلسہ ،اور رکوع ،سجدہ اطمینان کے ساتھ ضروری نہیں ،
اسحاق بھائی ۔اعتراض آپ کا حق ہے لیکن الفاظ ایسے چنیں کے آپ کے خلوص پہ مسلکی شدت کا شک نہ ہو ۔
مثلاََ لیس بفرض۔۔۔کی تشریح کیا ’’بالکل ضروری نہیں ‘‘ ہے ۔؟
بانیان مذہب میں سے ۔۔۔بالکل ضروری نہیں ۔۔۔کا تو کوئی بھی قائل نہیں ۔
ایک تیسرے بانی ابو یوسفؒ ہیں ان کے نزدیک تو فرض ہے ۔اسی جملے سے اگلا جملہ ہے جو آپ نے نقل کیا ۔
باقی دو کی دو روایتیں ہیں ۔ایک سنت ۔دوسری واجب
اگرچہ بعد کے تمام فقہا نے واجب والی کو ترجیح دی ہے ۔اور حق بھی یہی ہے ۔
لیکن اگر سنت بھی ہو جو کہ مرجوح روایت ہے ۔ تو کیا اس کے لئے بھی یہ لفظ بول سکتے ہیں ۔ کہ ۔۔بالکل ضروری نہیں ۔۔۔؟
بالکل نہیں بول سکتے ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانیانِ مذہب حنفی یعنی ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد امام محمد کے بقول چار رکعتی فرض کی آخری دو رکعتوں میں اگر کچھ نہ پڑھے تو بھی نماز ہوجائے گی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک غیرمقلد (یعنی عالم نہ ہونے کے باوجود براہ راست خود سے مسائل اخذ کرنے والا)اور حنفی بھی ۔۔۔
میری مراد عبد الرحمٰن بھائی ہیں ۔۔۔سے بحث کرتے ہوئے ۔۔۔ بیچار ےبانیان کو کیا کہنے کی ضرورت پیش آگئی ۔
ان بانیان نے بھی اپنا مذہب اپنے بانیان حضرت علیؓ و ابن مسعودؓ سے لیا ہے ۔۔انہوں نے معلوم نہیں کہاں سے لیا ہے ۔۔۔چونکہ اس میں قیاس کا دخل نہیں ۔۔اسلئے امید ہے ۔۔اپنے بانی ﷺ سے لیا ہوگا ۔۔۔۔ چاہے آپ نہ مانیں ۔۔کئی حنفی مثلاََ ابن ہمامؒ وغیرہ بھی نہیں مانتے ۔
 
Last edited:

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
ہوسکتا ہے امام ابو حنیفہ کو یہ حدیث نہ پہنچی ہو
آخر یہ بھی انھوں نے ہی فرمایا
جب صحیح حدیث پہنچے تو وہ میرا مذہب ہے
یہ قول کا مفہوم ہے اگر کسی بھائی کو ان کے الفاظ یاد ہوں تو وہ بھیج دے


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اسحاق بھائی ۔اعتراض آپ کا حق ہے لیکن الفاظ ایسے چنیں کے آپ کے خلوص پہ مسلکی شدت کا شک نہ ہو ۔
مثلاََ لیس بفرض۔۔۔کی تشریح کیا ’’بالکل ضروری نہیں ‘‘ ہے ۔؟
بانیان مذہب میں سے ۔۔۔بالکل ضروری نہیں ۔۔۔کا تو کوئی بھی قائل نہیں ۔
ایک تیسرے بانی ابو یوسفؒ ہیں ان کے نزدیک تو فرض ہے ۔اسی جملے سے اگلا جملہ ہے جو آپ نے نقل کیا ۔
باقی دو کی دو روایتیں ہیں ۔ایک سنت ۔دوسری واجب
اگرچہ بعد کے تمام فقہا نے واجب والی کو ترجیح دی ہے ۔اور حق بھی یہی ہے ۔
لیکن اگر سنت بھی ہو جو کہ مرجوح روایت ہے ۔ تو کیا اس کے لئے بھی یہ لفظ بول سکتے ہیں ۔ کہ ۔۔بالکل ضروری نہیں ۔۔۔؟
بالکل نہیں بول سکتے ۔۔


ایک غیرمقلد (یعنی عالم نہ ہونے کے باوجود براہ راست خود سے مسائل اخذ کرنے والا)اور حنفی بھی ۔۔۔
میری مراد عبد الرحمٰن بھائی ہیں ۔۔۔سے بحث کرتے ہوئے ۔۔۔ بیچار ےبانیان کو کیا کہنے کی ضرورت پیش آگئی ۔
ان بانیان نے بھی اپنا مذہب اپنے بانیان حضرت علیؓ و ابن مسعودؓ سے لیا ہے ۔۔انہوں نے معلوم نہیں کہاں سے لیا ہے ۔۔۔چونکہ اس میں قیاس کا دخل نہیں ۔۔اسلئے امید ہے ۔۔اپنے بانی ﷺ سے لیا ہوگا ۔۔۔۔ چاہے آپ نہ مانیں ۔۔کئی حنفی مثلاََ ابن ہمامؒ وغیرہ بھی نہیں مانتے ۔
محترم و مکرم

آپ بهی انصاف نا کر سکے ، بغیر معذرت کے ۔ دیکہیں کہ اس تہریڈ کو شروع کسطرح کیا گیا ۔ اس کا عنوان کیا تخلیق کیا گیا ۔ اس میں حدیث مبارک کی کیا تفیہیم پیش کی گئی ۔ اس میں جناب خضر حیات ، جناب اسحاق سلفی ، جناب طہ اور جناب عمر اثری نے کیا جوابات دئیے اور کیا کوششیں کی ہیں ؟ ان تمام علمی دلائل کا رد محترم بهٹی صاحب نے کس کس طرح کیا اور کیا کیا چنندہ و پسندیدہ فقرے لکہے ۔ خیر مجہے اب بهی عبالرحمن بهائی سے شکایت نہیں کہ یہ آزادانہ ماحول ہے اور آپ آزاد ہیں ۔خود میں نے کئی بار کہا کہ کافی سے زیادہ سمجہا دیا گیا ہے اور شاید اس سے زیادہ کی ضرورت بهی نہیں تہی ۔ لیکن ایسا بهی نا ہو سکا اور یہ سلسلہ اب تک عبدالرحمن صاحب جاری رکہے ہوئے ہیں ۔
اب آمد بر سر مقصد اس تمہید کے بعد کہ آپ نے یا دیگر فورم پر موجود غیر اہل حدیث افراد نے حدیث کے غلط فہم پر کہنے کی جرات ہی نہیں کی ، نا کسی نے مداخلت کی نا ہی کسی نے انداز تحریر جو واقعتا مشتعل کر دینے والا ہے پر کہا ۔ ہاں آپ سب کو جو برا لگا ، لگنا بهی چاہئیے کہ تربیت کا تقاضا ہے ، وہ اسحاق سلفی صاحب کا بانیان مذہب حنفی کے اقوال جو کہ مستند ہیں ان پر کہنا ۔یہ حقیقت ہے ۔
آخر آپ سب کسی بهی حدیث کے فہم غلط پر خاموش کسطرح رہ گئے اور بانیان مذہب حنفی کے مستند اقوال پر تنقید سے اس قدر کیوں بے چین ہو گئے ؟
کہنا وہاں تہا جہاں آپ سب خاموش رہے ۔
والسلام
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ہوسکتا ہے امام ابو حنیفہ کو یہ حدیث نہ پہنچی ہو
آخر یہ بھی انھوں نے ہی فرمایا
جب صحیح حدیث پہنچے تو وہ میرا مذہب ہے
یہ قول کا مفہوم ہے اگر کسی بھائی کو ان کے الفاظ یاد ہوں تو وہ بھیج دے


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
1-ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﮧ:
1-ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺬﮨﺐ ﮨﮯ-(ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﺍﺑﻦ ﻋﺎﺑﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﺍﻟﺤﺎﺷﯽﮦ(1-23)ﺍﻭﺭﺭﺳﻢ ﺍﻟﻤﻔﺘﯽ1-4)ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﻟﺢ ﺍﻟﻔﻼ‌ﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﻘﺎﻁ ﺍﻟﮭﻤﻢ ﺹ 26ﻣﯿﮟ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ)
2-ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﻮﻝ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺟاﺌﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﻮﻝ ﮐﺎ ﻣﺎﺧﺬ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ-(ﺍﻻ‌ﻧﺘﻘﺎﺀ ﻻ‌ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﻟﺒﺮ ﺹ145،ﺍﻋﻼ‌ﻡ ﺍﻣﻮ ﻗﻌﯿﻦ ﻻ‌ ﺑﻦ ﻗﯿﻢ309-2،ﺣﺎﺷﯿﮧ ﺍﻟﺒﺤﺮﺍﻟﺮﺍﺋﻖ ﺍﺑﻦ ﻋﺎﺑﺪﯾﻦ293-6ﺭﺳﻢ ﺍﻟﻤﻔﺘﯽ ﺹ 32،29)
3-ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻮﮞ ﺟﻮ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺧﻼ‌ﻑ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ-(ﺍﻻ‌ ﯾﻘﺎﻁ ﻟﻠﻔﻼ‌ﻧﯽ ﺹ 50)

ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻦ ﺍﻧﺲ ﺭﺣﮧ ﮐﮯ ﺍﻗﻮﺍﻝ:
1-ﻣﯿﮟ ﺑﺸﺮ ہوں مجہ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﺮﺯﺩ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﻘﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺋﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﮔﺮ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﻮﻓﻖ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﺱ ﭘﺮﻋﻤﻞ ﭘﯿﺮﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ-(ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ ﻻ‌ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﻝ ﺍﻟﺒﺮ 32-2،ﺍﻻ‌ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻓﯽ ﺍﺻﻮﻝ ﺍﻻ‌ ﺣﮑﺎﻡ ﻻ‌ ﺑﻦ ﺣﺰﻡ 149-6،ﺍﻻ‌ ﯾﻘﻆ ﺹ 76)2-ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﮯ ﻋﻼ‌ﻭﮦ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺩ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﷺ ﮐﮯ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﺭﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ-(ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺍﻟﺴﻠﮏ(227-1ﻣﯿﮟ)ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ(91-6ﻣﯿﮟ)ﺍﺻﻮﻝ ﺍﻻ‌ﺣﮑﺎﻡ(179،145-6)ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﺭﺣﮧ ﮐﮯ ﺍﻗﻮﺍﻝ:1-ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻨﺖ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺨﻔﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻮﮞ،ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺻﻮﻝ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻭﮞ ،ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺭﺳﻮﻟﷺ ﮐﮯ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮐﮯ ﺧﻼ‌ﻑ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺭﺳﻮﻟﷺ ﮐﮯ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻭ ﻭﮨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ-(ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﻣﺸﻖ ﻻ‌ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ3-1-1-15،ﺍﻋﻼ‌ﻡ ﺍﻟﻤﻮﻗﻌﯿﻦ 363-2،ﺍﻻ‌ﯾﻘﺎﻅ ﺹ 100)2-ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﺘﻔﻖ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯ ﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺳﻨﺖ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮﮮ-(ﺍﻻ‌ ﺣﮑﺎﻡ ﻓﯽ ﺍﺻﻮﻝ ﺍﻻ‌ﺣﮑﺎﻡ ﻻ‌ ﺑﻦ ﺣﺰﻡ 118-6)3- ﺟﺐ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻟﷺ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺧﻼ‌ﻑ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺎﻭ ﺗﻮ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﺘﺎﺑﻖ ﭼﻠﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ -ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﺍﺗﺒﺎﻉ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﻟﺘﻔﺎﺕ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ-(ﺫﻡ ﺍﻟﮑﻼ‌ﻡ ﻟﻠﮭﺮﻭﯼ 1-47-3،ﺍﻻ‌ ﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﺎﻟﺸﺎﻓﻌﯽ ﻟﻠﺨﺘﯿﺐ 2-6،ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ10-9-15،ﺍﻟﻤﺠﻤﻮﻉ ﻟﻠﻨﻮﯼ23-1،ﺍﻋﻼ‌ﻡ ﺍﻟﻤﻮﻗﻌﯿﻦ ﻻ‌ ﺑﻦ ﻗﯿﻢ 361-2،ﺍﻟﻔﻼ‌ﻧﯽ ﺹ 100)ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﯾﺖ(ﺍﻟﺤﻠﯿﮧ ﻻ‌ ﺑﯽ ﻧﻌﯿﻢ 107-9،ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ284-3،ﺍﻻ‌ ﺣﺴﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﻨﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﮯ)4-ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺬﮨﺐ ﮨﮯ-(ﻧﻮﻭﯼ ﺍﻟﻤﺼﺪﺭ ﺍﻟﺴﺎﺑﻖ،ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﻧﯽ 57-1)ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞٖ ﺭﺣﮧ:1-ﻧﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﻟﮏ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﺍﻭﺫﺍﻋﯽ ﺛﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﻠﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﻋﻠﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻭ-(ﺍﻟﻔﻼ‌ﻧﯽ ﺹ 113،ﺍﻋﻼ‌ﻡ ﺍﻟﻤﻮﻗﻌﯿﻦ 302-2)2-ﺍﻭﺯﺍﻋﯽ،ﻣﺎﻟﮏ ،ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺑﺎﺭﺍﺑﺮ ﮨﮯ ﺣﺠﺖ ﺗﻮ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮨﯿﮟ-(ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ ﻻ‌ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺒﺮ 149-2)
3-


کاپی پیسٹ کیا ہے
بدون مسؤولية
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جبکہ ہمارے مقلد بھائی کی پوسٹ میں جو حدیث بیان کی گئی ہے۔
محترم! حدیث جس تناظر میں پیش کی گئی وہ اس تھریڈ کے موضوع کے مطابق تھی۔ آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ اس تھریڈ کے موضوع کو اپنے پسندیدہ موضوع کی طرف لے جانے کی کوشش ہے جیسا کہ ایک پوسٹ میں خضر حیات صاحب نے کہا تھا کہ ہر تھریڈ گھوم پھرکر ایک ہی پسندیدہ موضوع پر آجاتا ہے۔
محترم! اس تھریڈ میں نماز میں کی جانے والی رفع الیدین کی ممانعت کے بارے میں بات چل رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فاعل کو شریر گھوڑے سے تشبیہ دی ہے۔ اب اگر کسی کو اس میں اشکال ہے تو وہ اپنے اصول کے مطابق دلیل دے۔ یاد رہے کہ اہلحدیث کہلانے والوں کا اصول ”صحیح صریح مرفوع غیرمجروح“ حدیث ہی ہے۔ امتیوں کے اقوال لکھنے سے گریزاں رہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
مندرجہ ذیل کلام اگرچہ اس جاری تہریڈ سے تعلق نہیں رکہتا ۔ لیکن اوپر ہوئے جناب ابن عثمان کے تبصرے اور آئندہ کسی بهی مزید تبصرہ سے قبل بحیثیت تمہید سمجہا جائے ۔ یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے اگر ادارہ کو اعتراض ہو تو اسے حذف کرنے کا اختیار ہے ۔

(ساری تحریر ماخوذ ہے)

ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﻧﻌﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺍﻟﮑﻮﻓﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺍﺧﺘﻼ‌ﻑ ﮐﮯ ﺍﺋﻤﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺗﻤﺎﻡ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﮐﺎ ﺁﭘﮑﯽ ﺟﻼ‌ﻟﺖِ ﻗﺪﺭ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﭘﺮ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﮯ-
ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ: "ﺍﮔﺮ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ ﺳﮯﻭﺯﻥ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ"
ﺍﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ: "ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﻓﻘﯿﮧ ﺗﮭﮯ"
ﺷﺎﻓﻌﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ: "ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮒ ﻓﻘﮧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﯿﮟ"
ﺧﺮﯾﺒﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ: "ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺳﺪ ﯾﺎ ﺟﺎﮨﻞ ﮨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺭﺍﺯﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ"
ﺫﮨﺒﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ: "ﻓﻘﮧ ﺍﻭﺭ ﺩﻗﯿﻖ ﻓﻘﮩﯽ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺁﭘﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ،ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﮔﺮﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﮨﺎﮞ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ.
ﺁﭘﮑﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﮐﻮ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭ ﺟﻠﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺿﺨﯿﻢ ﮐﺘﺎﺏ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ، ﺁﭖ 150 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﭧ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ" ﺍﻧﺘﮩﯽ، ﻣﺰﯾﺪ ﮐﯿﻠﺌﮯ "ﺳﯿﺮ ﺍﻋﻼ‌ﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼ‌ﺀ"(6/390-403) ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ

ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ، ﺗﻮﺣﯿﺪ، ﺍﺛﺒﺎﺕِ ﺻﻔﺎﺕ ، ﺗﺮﺩﯾﺪِ ﺟﮩﻤﯿﮧ ، ﺗﻘﺪﯾﺮ، ﻣﻘﺎﻡِ ﺻﺤﺎﺑﮧ ، ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﻋﻼ‌ﻭﮦ ﺩﯾﮕﺮ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻧﯽ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮩﺞ ﺍﻟﺴﻠﻒ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﻮﺍﻓﻖ ﺍﻭﺭ ﺍﺋﻤﮧ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﮯ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ،ﭼﻨﺪ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﻨﮩﺞ ﺍﻟﺴﻠﻒ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﻧﻘﻞ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﻣﺜﻼ‌: ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ،ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺻﺮﻑ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻋﻤﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ -ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻌﺰ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻥ ﻧﻈﺮﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ- ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ: "ﺍﻟﺘﻤﮩﯿﺪ"(9/247)، "ﺷﺮﺡ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻃﺤﺎﻭﯾﮧ"ﺻﻔﺤﮧ (395)

ﺍﯾﺴﮯﮨﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺨﻤﯿﺲ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ "ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺍﻻ‌ﺋﻤﮧ ﺍﻻ‌ﺭﺑﻌﮧ" ﺻﻔﺤﮧ (3-8)ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﻮﮔﺎ-

ﺷﯿﺦ ﺍﻻ‌ﺳﻼ‌ﻡ ﺍﺑﻦ ﺗﯿﻤﯿﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ: "ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺍﺋﻤﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺕ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﮐﻼ‌ﻡ ﮨﮯ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ ﮔﺎ، ﯾﮩﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ، ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ، ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﻧﻘﺶِ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ، ﯾﮩﯽ ﺍﻥ ﺍﺋﻤﮧ ﮐﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮐﺎﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ، ﻣﺜﻼ‌: ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻦ ﺍﻧﺲ، ﺛﻮﺭﯼ، ﻟﯿﺚ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﺍﻻ‌ﻭﺯﺍﻋﯽ، ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ، ﺷﺎﻓﻌﯽ، ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺍﺳﺤﺎﻕ---"ﺍﻧﺘﮩﯽ، "ﻣﻨﮩﺎﺝ ﺍﻟﺴﻨﺔ ﺍﻟﻨﺒﻮﯾﺔ" (2/54)
ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻃﺤﺎﻭﯾﮧ ﺟﺴﮑﮯ ﻣﺆﻟﻒ ﺍﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﺍﻟﻄﺤﺎﻭﯼ ﺣﻨﻔﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﻮ ﭼﻨﺪ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﮯ ﻋﻼ‌ﻭﮦ ﻣﻨﮩﺞ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺍﺳﻼ‌ﻡ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﺑﮩﺖ ﻧﺸﺮ ﮨﻮﺋﯽ، ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻣﺴﺎﺟﺪ، ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ-ﺍﻣﺎﻡ ﻃﺤﺎﻭﯼ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﮯ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﺻﻔﺤﮧ (1)ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ:"ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﻓﻘﮩﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﻧﻌﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺍﻟﮑﻮﻓﯽ ، ﺍﺑﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﯾﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﻻ‌ﻧﺼﺎﺭﯼ ، ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺸﯿﺒﺎﻧﯽ، -ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ-ﮐﮯ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺻﻮﻝِ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ" ﺍﻧﺘﮩﯽ

ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﭘﯿﺮﻭﮐﺎﺭ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﻌﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺗﺮﯾﺪﯼ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺟﺴﮑﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺣﻨﻔﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻒ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﺁﮔﺌﯽ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﯿﺌﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻧﺴﺒﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ-
ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺍﻟﻌﺰ ﺍﻟﺤﻨﻔﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ:"ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﺨﺎﻟﻔﺎﺕ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮨﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺩﺭﺟﮧ ﺳﮯ ﮔﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ" ﺷﺮﺡ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻃﺤﺎﻭﯾﮧ"ﺻﻔﺤﮧ (226)

ﺷﯿﺦ ﺍﺑﻦ ﺟﺒﺮﯾﻦ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ: "ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ‌ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﻟﮑﮭﻮﺍﯾﺎ ﮨﻮ، ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﻧﮑﮯ ﮐﺴﯽ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﻧﮯ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﮨﻮ، ﺟﺴﮑﺎ ﻧﺎﻡ (ﺍﻟﻔﻘﮧ ﺍﻻ‌ﮐﺒﺮ)ﮨﮯ ﺍﺱ ﺭﺳﺎﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﮐﭽﮫ ﻋﺒﺎﺭﺗﯿﮟ ﺷﯿﺦ ﺍﻻ‌ﺳﻼ‌ﻡ ﺍﺑﻦ ﺗﯿﻤﯿﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺣﻤﻮﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﻞ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺍﻟﻌﺰ ﻃﺤﺎﻭﯾﮧ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﻣﯿﮟ- ﻟﯿﮑﻦ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺳﮯ ﻣﻨﺤﺮﻑ ﮐﭽﮫ ﻣﺘﺎﺧﺮﯾﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺗﺎﻭﯾﻠﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﺩﯼ ﮔﺌﯿﮟ، ﮐﭽﮫ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺷﺮﺡ ﺍﺷﻌﺮﯼ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮯ ﻣﻨﮑﺮﯾﻦِ ﺻﻔﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﭘﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺷﺮﺡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻠﻒ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ،ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﺳﮯ ﻋﻠﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺗﺎﻭﯾﻞ ، ﺗﺤﺮﯾﻒ ِ ﺻﻔﺎﺕ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﺗﮭﮯ" ﺍﻧﺘﮩﯽ "ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺍﻟﺸﯿﺦ ﺍﺑﻦ ﺟﺒﺮﯾﻦ"(63/14)

ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ:"ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺋﻤﮧ ﺍﺭﺑﻌﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﻠﻔﯽ ﻣﻨﮩﺞ ﭘﺮ ﺗﮭﮯ، ﮨﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﯾﮏ ﻓﻄﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﺍﺋﻤﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﯿﮟ"ﺍﻧﺘﮩﯽ . ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺘﻔﻘﮧ ﺍﺋﻤﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺟﻨﮑﯽ ﺟﻼ‌ﻟﺖ ﻗﺪﺭ، ﻋﺪﻝ ﭘﺴﻨﺪﯼ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﭘﺮ ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﮨﮯﺍﻧﮑﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺭﺍﺯﯼ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺮﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﮨﻮﻧﯿﻮﺍﻟﯽ ﭼﻐﻠﯿﺎﮞ ﺭﺍﺋﯿﮕﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻋﻼ‌ﻭﮦ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻟﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺍﮨﻨﻤﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ، ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺻﺤﯿﺢ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﺮﮎ ﮐﺮﺩﮮ، ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎﺀ، ﺻﻠﺤﺎﺀ، ﻭ ﻓﻀﻼ‌ﺋﮯ ﺍﻣﺖ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺁﺑﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺘﮧ ﭼﯿﻨﯽ ﮐﺮﻧﮯﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﺖ ﮐﺮﮮ-ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺫﮨﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﺭﺣﻤﮩﻤﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﺆﺭﺧﯿﻦِ ﺍﺳﻼ‌ﻡ ﻧﮯ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺳﻮﺍﻧﺢ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﺫﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻤﯽ ﺁﺋﮯ، ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺗﻘﻮﯼ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﻭ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﯾﮩﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﭘﺮ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ-ﮐﭽﮫ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺑﺎﻻ‌ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﻓﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺫﮐﺮ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ، ﻣﺜﻼ‌ ﺧﻠﻖِ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ، ﺗﻮ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺳﮯ ﺧﻠﻖِ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺎﯾﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ، ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﻮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐا ﻋﺰﺕ ﻭ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﺭﺟﮧ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ-
ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﻤﻌﻠﻤﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﭼﮭﺎﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ: "ﺣﮑﻤﺖ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﮯ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﮩﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ" ﺍﻧﺘﮩﯽ "ﺍﻟﺘﻨﮑﯿﻞ" (1/101)
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ: ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﻋﻠﻢ ﻭ ﻓﻀﻞ ﺍﺋﻤﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺭﺍﺯﯼ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﺟﺮﻡ ﮐﺎ ﻣﺮﺗﮑﺐ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺳﺰﺍ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻗﺒﯿﺢ ﻓﻌﻞ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺎ ﺟﺎﺋﮯ-ﻣﺰﯾﺪ ﺗﻔﺼﯿﻠﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﻟﺨﻤﯿﺲ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ "ﺃﺻﻮﻝ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﻋﻨﺪ ﺍﻹ‌ﻣﺎﻡ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ" ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮﯾﮟ-

islamqa
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم! حدیث جس تناظر میں پیش کی گئی وہ اس تھریڈ کے موضوع کے مطابق تھی۔ آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ اس تھریڈ کے موضوع کو اپنے پسندیدہ موضوع کی طرف لے جانے کی کوشش ہے جیسا کہ ایک پوسٹ میں خضر حیات صاحب نے کہا تھا کہ ہر تھریڈ گھوم پھرکر ایک ہی پسندیدہ موضوع پر آجاتا ہے۔
محترم! اس تھریڈ میں نماز میں کی جانے والی رفع الیدین کی ممانعت کے بارے میں بات چل رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فاعل کو شریر گھوڑے سے تشبیہ دی ہے۔ اب اگر کسی کو اس میں اشکال ہے تو وہ اپنے اصول کے مطابق دلیل دے۔ یاد رہے کہ اہلحدیث کہلانے والوں کا اصول ”صحیح صریح مرفوع غیرمجروح“ حدیث ہی ہے۔ امتیوں کے اقوال لکھنے سے گریزاں رہیں۔
اب تک کیا ھم لوگ کھیل رھے تھے؟؟؟
آپ کو دلائل دۓ گۓ لیکن وہ آپ کے حلقوم سے نیچے اتر ھی نہیں رھے تو اسمیں ھمارا کیا قصور.
رھی صحیح بخاری والی روایت تو اسکے بارے میں بھی عرض وگذاشت ھو چکی ھے.
اور آپ نے اسکے جواب میں کیا الفاظ استعمال کۓ یہ اس تھریڈ پر موجود ھے خود ملاحظہ فرما لیں.
آپ نے مجھے کیچڑ میں لوٹ پوٹ ھونے کے لۓ کہا اور نجانے کتنی باتیں کہیں اگر اسکو ذکر کرنے بیٹھوں تو ایک نیا تھریڈ شروع کرنا پڑے گا.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ نے یا دیگر فورم پر موجود غیر اہل حدیث افراد نے حدیث کے غلط فہم پر کہنے کی جرات ہی نہیں کی
محترم! یہ بات حقیقتا آپ لوگوں پر فٹ آتی ہے کہ ”ہم مسلک“ جتنی بھی دور ازکار بات کہے اس پر ”جزاک اللہ خیرا“ لکھتے نہیں تھکتے اور جو دلیل حقائق پر مبنی ہو اس کو رد کرنے کے لئے جتنے جتن ممکن ہوسکتے ہیں وہ کرتے ہودوسروں کی کردار کشی اور تضحیک تک سے باز نہیں آتے۔
اس کی مثال میں آپ شیخ کفایت اللہ کے اسی مذکورہ حدیث کی توضیحات دیکھ لیں کس قدر بودے انداز کی ہیں جو میرے نقد سے واضح ہیں جو میں نے اسی تھریڈ میں ان کے اقتباسات لے کر کی ہیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top