• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس نے بھی یہ حدیث سنی پھر بھی رفع الیدین کیا تو وہ شریر گھوڑا ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح مسلم میں سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث (جس میں سرکش گھوڑوں کی دموں کاذکر آیا ہے) کے بارے میں محمود حسن دیوبند ی تقلیدی صاحب فرماتے ہیں:
" باقی اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے"
( تقاریر شیخ الہند ص 65 مطبوعہ ادارۃ تالیفات اشرفیہ ' ریلوے روڈ ملتان )

اور اس حدیث کے بارے میں
محمد تقی عثمانی دیوبندی تقلیدی صاحب فرماتے ہیں :
لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے ۔کیونکہ ابن القبطیہ کی روایت میں سلام کے وقت جو تصریح موجود ہے اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عندالسلام ہی سے متعلق ہے"
(درس ترمذی ج 2ص 36)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل توجہ ::
مولوی محمود حسن دیوبند ی تقلیدی ۔۔۔اور۔۔مولوی محمد تقی عثمانی دیوبندی تقلیدی صاحب بھی شریر گھوڑے قرار پائے۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
صحیح مسلم میں سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث (جس میں سرکش گھوڑوں کی دموں کاذکر آیا ہے) کے بارے میں محمود حسن دیوبند ی تقلیدی صاحب فرماتے ہیں:
" باقی اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے"
( تقاریر شیخ الہند ص 65 مطبوعہ ادارۃ تالیفات اشرفیہ ' ریلوے روڈ ملتان )

اور اس حدیث کے بارے میں
محمد تقی عثمانی دیوبندی تقلیدی صاحب فرماتے ہیں :
لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے ۔کیونکہ ابن القبطیہ کی روایت میں سلام کے وقت جو تصریح موجود ہے اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عندالسلام ہی سے متعلق ہے"
(درس ترمذی ج 2ص 36)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل توجہ ::
مولوی محمود حسن دیوبند ی تقلیدی ۔۔۔اور۔۔مولوی محمد تقی عثمانی دیوبندی تقلیدی صاحب بھی شریر گھوڑے قرار پائے۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا اسحاق بهائی

یہ بات علم میں انکے بهی ہے جو لا یعنی بحث کر رہے ہیں ۔ لیکن ۔۔۔۔!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آٹھویں صدی ہجری کے جلیل القدر محدث جناب سراج الدين أبو حفص ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
محترم!میں تینوں حدیثیں ذکر کر دیتا ہوں۔ آپ خود از راہِ انصاف دیکھ لیں۔
خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ قَالَ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ قَالَ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا قَالَ يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ
محترم! اس میں ”رفع الیدین“ کا بھی ذکر ہے (رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) کے الفاظ سے اور نماز کے اندر اس کی ممانعت کا بھی ذکر ہے (اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ) کے الفاظ سے۔
اب آئیے دوسری دو احادیث جس سے آپ لوگوں کو اشتباہ ہو رہا ہے وہ یہ ہیں۔
كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَى يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ
صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا قُلْنَا بِأَيْدِينَا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ وَلَا يُومِئْ بِيَدِهِ
محترم! یہاں اس اشارہ کی ممانعت کی جو وہ سلام کے وقت کر رہے تھے۔ یہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعہ کی ہیں جب کہ صدراً پیش کی گئی حدیث الگ موقعہ کی ہے۔
یہ دو مختلف اوقات کی حدیثیں ہیں جن میں کچھ مشترکات کی وجہ سے ان کو سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے۔ ایک میں صحابہ کرام نماز (نوافل وغیرہ) پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف لائے اور صحابہ کرام کو ایسا کرتے دیکھ کر انہیں منع کیا۔خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے الفاظ اس کی دلالت کر رہے ہیں۔ دوسری حدیث جس سے آپ کو اشتباہ ہے اس میں ہے كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور دوسری حدیث میں ہے صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
واضح حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آجانے کے باوجودادھر ادھر ٹکریں مارنا کہاں کی عقلمندی ہے جب کہ اہلحدیثوں کہلانے والوں کا دعویٰ ”اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول“ کا ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
واضح حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آجانے کے باوجودادھر ادھر ٹکریں مارنا کہاں کی عقلمندی ہے جب کہ اہلحدیثوں کہلانے والوں کا دعویٰ ”اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول“ کا ہے۔
امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے متعلق کیا فتوی دینگے آپ؟
اہل حدیث بے عقل ہیں اسکی سند تو دے دی ہے آپ نے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ویسے صدیوں سے "ادہر ادهر" ٹکریں کہانے کے باوجود ، مخلص و منصف علماء کی وضاحتوں کے باوجود ، محض خود کو اعظمی سمجہنے اور عالم اسلام سے منوانے کی ضد میں کون ہیں؟ اتنی صدیوں بعد بهی اپنی ضد پر کون قائم ہیں ؟ ان جیسے معاملات پر ہی بحث کیوں کرتے ہیں جن پر پہلے ہی بهت ساری تحریریں موجود ہیں جن پر علمی مہریں مثبت ہیں ؟
کیا اسکے پیچہے تعصب اور عناد کار فرما نہیں ؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻤﺪ ﺗﻘﯽ ﻋﺜﻤﺎﻧﯽ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﺗﻘﻠﯿﺪﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺣﻨﻔﯿﮧ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﺪﻻ‌ﻝ ﻣﺸﺘﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﮯ -ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻘﺒﻄﯿﮧ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻼ‌ﻡ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺟﻮ ﺗﺼﺮﯾﺢ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻇﺎﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﺒﺎﺩﺭ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺎﺑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺭﻓﻊ ﻋﻨﺪﺍﻟﺴﻼ‌ﻡ ﮨﯽ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮨﮯ"(ﺩﺭﺱ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺝ 2ﺹ 36)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ جیسوں کے تعاقب میں مخلص تحریریں ، بمع حوالہ موجود ہیں ۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
رفع الیدین کرنے کی احادیث کو صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے نقل کیا ہے، جن کی تعداد 30 صحابہ کرام تک چا پہنچتی ہے، ان صحابہ کرام میں : ابو حمید رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سمیت دس صحابہ کرام کی موجودگی میں رفع الیدین کیساتھ نماز پڑھی تو سب نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز پڑھی ہے" اسی طرح رفع الیدین کی احادیث کو عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن عمر، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابوہریرہ ، ابو اسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابو موسی، اور جابر بن عمیر لیثی ۔۔۔۔سمیت متعدد صحابہ کرام ہیں۔

چنانچہ صحابہ کرام کی اتنی بڑی جماعت کے روایت کرنے کی وجہ سے رفع الیدین کی احادیث متواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہے، پھر صحابہ کرام نے اس پر عمل بھی کیا، اور رفع الیدین نہ کرنے والوں کی تردید بھی کی۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو رفع الیدین نہ کرتے ہوئے دیکھتے تو اسے حصباء کنکریاں مارتے -حصباء ان چھوٹی چھوٹی کنکریوں کو کہا جاتا ہے جو مسجد کے صحن میں بچھائی جاتی تھیں- اور اسے یہ بھی حکم دیتے کہ نماز میں رفع الیدین کرو، ان کے اس واقعہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "جزء رفع الیدین " میں بیان کیا ہے، اور اس کی سند کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس کی سند صحیح ہے" المجموع (3/375)

اور احناف کہتے ہیں کہ رفع الیدین صرف تکبیرِ تحریمہ میں کہنا ہی درست ہے، اور مذکورہ صحیح احادیث کے مقابلے میں دو احادیث لے کر آتے ہیں، ان میں سے ایک براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ہے، اور دوسری عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، لیکن یہ دونوں احادیث ہی ضعیف ہیں، ان سے دلیل اخذ کرنا ہی درست نہیں ہے۔

چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کو سفیان بن عیینہ، امام شافعی، امام احمد، یحیی بن معین، اور بخاری سمیت دیگر محدثین نے ضعیف نے کہا ہے۔

جبکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو عبد اللہ بن مبارک، امام احمد، بخاری، دارقطنی، اور بیہقی سمیت بہت سے محدثین نے ضعیف کہا ہے۔

دوم:

اس بارے میں خلفائے راشدین سے منقول موقف کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ عمر بن خطاب، اور علی رضی اللہ عنہما دونوں ان صحابہ کرام میں شامل ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کی احادیث بیان کرتے ہیں، اس لئے یقیناً دونوں ہی رفع الیدین بھی کرتے تھے، ان کے بارے میں کوئی اور گمان رکھنا ویسے ہی مناسب نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے انہیں ایسے صحابہ کرام میں شمار کیا ہے جو نماز میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کے بارے میں ایک روایت ملتی ہے، جس میں رفع الیدین کرنے کے متعلق واضح ترین اشارہ موجود ہے، چنانچہ ابن المنذر نے " الأوسط " (3/304) میں امام عبد الرزاق صنعانی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: "اہل مکہ نے نماز کی ابتدا میں ، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرنے کا طریقہ ابن جریج سے لیا ہے، ابن جریج نے عطاء سے لیا ہے، اور عطاء نے ابن زبیر سے لیا،اور ابن زبیر نے ابو بکر صدیق سے لیا، اور ابو بکر صدیق نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا"

بیہقی نے (2535) میں کچھ صحابہ کرام سے رفع الیدین کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:
"اور اسی طرح ہمیں رفع الیدین کے بارے میں ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، جابر بن عبد اللہ، عقبہ بن عامر، اور عبد اللہ بن جابر بیاضی رضی اللہ عنہم سے روایات ملتی ہیں، جبکہ کچھ لوگوں نے ابو بکر ، عمر، اور علی رضی اللہ عنہم سے یہ نقل کیا ہے کہ وہ نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے، تو یہ بات اِن صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت نہیں ہے" یعنی : ابن مسعود اور علی رضی اللہ عنہما سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی جگہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے، یہ ثابت نہیں ہے۔

بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے نماز میں رفع الیدین نہیں کیا"
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے، رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا ہے"
حسن بصری رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حسن بصری رحمہ اللہ نے کسی ایک صحابی کو بھی رفع الیدین کرنے کے عمل سے مستثنی نہیں کیا"
بلکہ کچھ ائمہ کرام نے خلفائے راشدین سے رفع الیدین کے ثبوت کو بڑے وثوق سے ذکر کیا ہے، حتی کہ بیہقی نے اس مسئلے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سب سے آخر میں جو روایت کی ہے وہ امام ابو بکر بن اسحاق فقیہ کی ہے وہ کہتے ہیں:
"رفع الیدین کا ثبوت [ان جگہوں میں] نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، پھر خلفائے راشدین سے بھی ثابت ہے، اور پھر دیگر صحابہ کرام سمیت تابعین سے بھی ثابت ہے" انتہی

مزید کیلئے دیکھیں: " الأوسط " از: ابن المنذر (3/299-308) ، " المجموع " از: نووی (3/367-376) اور " المغنی "از: ابن قدامہ (2/171-174)

واللہ اعلم.

https://islamqa.info/ur/224635
مجھے یہ سمجھ نہی آرہی کہ کیا صحابہ کی بڑی تعداد اور تابعین کی بڑی تعداد ان سب کو رفع یدین کی منسوخی کا علم نہی تھا
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
رفع الیدین کرنے کی احادیث کو صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے نقل کیا ہے، جن کی تعداد 30 صحابہ کرام تک چا پہنچتی ہے، ان صحابہ کرام میں : ابو حمید رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سمیت دس صحابہ کرام کی موجودگی میں رفع الیدین کیساتھ نماز پڑھی تو سب نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز پڑھی ہے" اسی طرح رفع الیدین کی احادیث کو عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن عمر، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابوہریرہ ، ابو اسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابو موسی، اور جابر بن عمیر لیثی ۔۔۔۔سمیت متعدد صحابہ کرام ہیں۔

چنانچہ صحابہ کرام کی اتنی بڑی جماعت کے روایت کرنے کی وجہ سے رفع الیدین کی احادیث متواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہے، پھر صحابہ کرام نے اس پر عمل بھی کیا، اور رفع الیدین نہ کرنے والوں کی تردید بھی کی۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو رفع الیدین نہ کرتے ہوئے دیکھتے تو اسے حصباء کنکریاں مارتے -حصباء ان چھوٹی چھوٹی کنکریوں کو کہا جاتا ہے جو مسجد کے صحن میں بچھائی جاتی تھیں- اور اسے یہ بھی حکم دیتے کہ نماز میں رفع الیدین کرو، ان کے اس واقعہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "جزء رفع الیدین " میں بیان کیا ہے، اور اس کی سند کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس کی سند صحیح ہے" المجموع (3/375)

اور احناف کہتے ہیں کہ رفع الیدین صرف تکبیرِ تحریمہ میں کہنا ہی درست ہے، اور مذکورہ صحیح احادیث کے مقابلے میں دو احادیث لے کر آتے ہیں، ان میں سے ایک براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ہے، اور دوسری عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، لیکن یہ دونوں احادیث ہی ضعیف ہیں، ان سے دلیل اخذ کرنا ہی درست نہیں ہے۔

چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کو سفیان بن عیینہ، امام شافعی، امام احمد، یحیی بن معین، اور بخاری سمیت دیگر محدثین نے ضعیف نے کہا ہے۔

جبکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو عبد اللہ بن مبارک، امام احمد، بخاری، دارقطنی، اور بیہقی سمیت بہت سے محدثین نے ضعیف کہا ہے۔

دوم:

اس بارے میں خلفائے راشدین سے منقول موقف کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ عمر بن خطاب، اور علی رضی اللہ عنہما دونوں ان صحابہ کرام میں شامل ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کی احادیث بیان کرتے ہیں، اس لئے یقیناً دونوں ہی رفع الیدین بھی کرتے تھے، ان کے بارے میں کوئی اور گمان رکھنا ویسے ہی مناسب نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے انہیں ایسے صحابہ کرام میں شمار کیا ہے جو نماز میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کے بارے میں ایک روایت ملتی ہے، جس میں رفع الیدین کرنے کے متعلق واضح ترین اشارہ موجود ہے، چنانچہ ابن المنذر نے " الأوسط " (3/304) میں امام عبد الرزاق صنعانی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: "اہل مکہ نے نماز کی ابتدا میں ، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرنے کا طریقہ ابن جریج سے لیا ہے، ابن جریج نے عطاء سے لیا ہے، اور عطاء نے ابن زبیر سے لیا،اور ابن زبیر نے ابو بکر صدیق سے لیا، اور ابو بکر صدیق نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا"

بیہقی نے (2535) میں کچھ صحابہ کرام سے رفع الیدین کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:
"اور اسی طرح ہمیں رفع الیدین کے بارے میں ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، جابر بن عبد اللہ، عقبہ بن عامر، اور عبد اللہ بن جابر بیاضی رضی اللہ عنہم سے روایات ملتی ہیں، جبکہ کچھ لوگوں نے ابو بکر ، عمر، اور علی رضی اللہ عنہم سے یہ نقل کیا ہے کہ وہ نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے، تو یہ بات اِن صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت نہیں ہے" یعنی : ابن مسعود اور علی رضی اللہ عنہما سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی جگہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے، یہ ثابت نہیں ہے۔

بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے نماز میں رفع الیدین نہیں کیا"
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے، رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا ہے"
حسن بصری رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حسن بصری رحمہ اللہ نے کسی ایک صحابی کو بھی رفع الیدین کرنے کے عمل سے مستثنی نہیں کیا"
بلکہ کچھ ائمہ کرام نے خلفائے راشدین سے رفع الیدین کے ثبوت کو بڑے وثوق سے ذکر کیا ہے، حتی کہ بیہقی نے اس مسئلے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سب سے آخر میں جو روایت کی ہے وہ امام ابو بکر بن اسحاق فقیہ کی ہے وہ کہتے ہیں:
"رفع الیدین کا ثبوت [ان جگہوں میں] نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، پھر خلفائے راشدین سے بھی ثابت ہے، اور پھر دیگر صحابہ کرام سمیت تابعین سے بھی ثابت ہے" انتہی

مزید کیلئے دیکھیں: " الأوسط " از: ابن المنذر (3/299-308) ، " المجموع " از: نووی (3/367-376) اور " المغنی "از: ابن قدامہ (2/171-174)

واللہ اعلم.

https://islamqa.info/ur/224635
مجھے یہ سمجھ نہی آرہی کہ کیا صحابہ کی بڑی تعداد اور تابعین کی بڑی تعداد ان سب کو رفع یدین کی منسوخی کا علم نہی تھا
جزاک اللہ خیرا

مجہے یقین ہے کہ سب جاننے کے باوجود یہ ضد پر قائم ہی رہینگے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم!میں تینوں حدیثیں ذکر کر دیتا ہوں۔ آپ خود از راہِ انصاف دیکھ لیں۔
محترم میں نے نہ صرف مذکورہ تینوں حدیثیں دیکھ رکھی ہیں ۔۔بلکہ بارہ سال قبل ان احادیث کے موضوع پر اللہ کی توفیق سے سات گھنٹے مسلسل تین فاضل دیوبندی مولویوں سے مناظرہ بھی کر چکا ہوں ۔جس میں تینوں دیوبندی حضرات نے تسلیم کیا کہ واقعی یہ روایت رکوع والے رفع یدین کے متعلق نہیں ۔
آپ ان احادیث کے کو رکوع والے رفع یدین کے خلاف پیش کرنے والوں کے خلاف ایک عظیم محدث کا تبصرہ ہمیشہ یاد رکھیں :
وأما احتجاج بعض من لا يعلم بحديث وكيع عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة قال: دخل علينا النبي صلى الله عليه وسلم , ونحن رافعي أيدينا في الصلاة فقال: «ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة، فإنما كان هذا في التشهد لا في القيام» كان يسلم بعضهم على بعض فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن رفع الأيدي في التشهد , ولا يحتج بمثل هذا من له حظ من العلم، هذا معروف مشهور لا اختلاف فيه , ولو كان كما ذهب إليه لكان رفع الأيدي في أول التكبيرة , وأيضا تكبيرات صلاة العيد منهيا عنها؛ لأنه لم يستثن رفعا دون رفع
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top