فقہی مسائل میں اختلاف کی شرعی حیثیت
ان مسائل میں اختلاف کی دو قسمیں ہیں:
1۔اختلاف تنوع 2 :اختلاف تضاد
اختلاف تنوع:
بعض مسائل ایسے ہیں جن میں دو مختلف اقوال ہوتے ہیں اور دونوں ہی شریعت سے ثابت ہوتے ہیں آدمی کو اختیار ہے کہ جو مرضی عمل اختیار کرے مثلاً نماز میں دعائے استفتاع،رکوع اور سجدے کی تسبیحات اور تشہد کی دعائیں،سفر میں روزے کا رکھنا یا نہ رکھنا۔بنو نضیر سے جنگ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے کافروں کے کچھ درخت کاٹے اور کچھ چھوڑ دیے تو اللہ تبارک و تعالی ٰ نے دونوں عمل کو درست قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىِٕمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ﴾(سورۃ الحشر:۵)
‘‘تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا ، یہ سب اللہ ہی کے اِذن(حکم) سے تھا اور اس لیے کہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے’’
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘‘کہ ہم نے رسول اللہﷺکے ساتھ رمضام میں جہاد کا سفر کیا ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں رکھا۔روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے پر اعتراض نہ کرتا تھا اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والا روزہ دار پر اعتراض کرتا تھا‘‘(صحیح بخاری:۱۹۴۷،صحیح مسلم:۱۱۱۸)
اسی اختلاف میں افضل اور مفضول کا اختلاف بھی ہے جیسے کہ عورت کی نماز اگرچہ گھر میں افضل ہے لیکن مسجد میں جا کر نماز پڑھنا اس کے لئے جائز ہے۔حج اور عمرہ کے بعد اگرچہ سر کے بال منڈوانا افضل ہے مگر بال کٹوانا بھی جائز ہے۔بعض اوقات آیت یا حدیث کے دو مفہوم نکلتے ہیں اور دونوں ہی معانی پر عمل کرنا جائز ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ النَّبِيُّ يَوْمَ الْأَحْزَابِ : " لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ "، فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ(صحیح بخاری:۴۱۱۹،صحیح مسلم:۱۷۷۰)
‘‘نبی کریمﷺنےجنگ خندق کے بعد فرمایا تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز بنو قریظہ میں جا کر پڑھے،اب نماز کا وقت راستے میں ہو گیا تو بعض نے کہا کہ جب تک ہم بنو قریظہ پہنچ نہ لیں عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے اور بعضوں نے کہا کہ ہم نماز پڑھ لیتے ہیں کیونکہ آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں۔رسول اللہﷺسے امر کا ذکر کیا گیا۔آپ نے کسی پر خفگی نہیں کی‘‘
گویا بعض صحابہ کرام نے یہ سمجھا کہ رسول اللہﷺکے الفاظ عام ہیں جن کا منشا یہ ہے کہ نماز بنو قریظہ ہاں جا کر ہی ادا کرنی چاہیے۔
اگرچہ ایسا کرنے میں نماز کا وقت ہی کیوں نہ چلا جائے اور بعض نے ان الفاظ کا یہ مطلب سمجھا کہ وہاں جلد پہنچ کر بنو قریظہ کا محاصرہ کر لینا چاہیے۔یہ اس قسم کا اختلاف ہے جس میں دونوں طریقے صحیح ہو تے ہیں البتہ قابل مذمت بات یہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف کی بنا پر جھگڑا کیا جائے۔
اختلاف تضاد:
اس امت کے اہل علم میں فقہی عملی مسائل میں اختلاف ہمیشہ رہا ہےان مسائل میں حق اگرچہ ایک ہی بات ہوتی ہے اور باقی سب اقوال غلط ہوتے ہیں
اس لیے یہ کہنا تو غلط ہے کہ جس اہل علم کا قول چاہو اختیار کر لو بلکہ ان مسائل میں کتاب و سنت کو ہی دیکھنا ہو گااگر یقین ہو جائےکہ فلاں قول قرآن و سنت کے مطابق ہے تو اسے اختیار کرنا واجب ہےاور باقی اقوال کو چھوڑ دیا جائے گا۔