• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع بین الصلاتین کی متعلق روایات میں اھل حدیث علماء کی تاویل

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
السلام علیکم رسول اللہ مبارک نے امت پر آسانی کیلیے ایک اجازت دی ھے اب آپ اس میں عذر لاووگے تو آسانی کھاں رھیگی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ھر وقت جمع بین الصلوتین کون پاگل کریگا!!!!!!!!!!!! احناف کی طرح عذرشدید
کی قیود کھاں سے لاے گیے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
ابن داود صاحب آپ اھل حدیث ھے تو ھم کھاں کی غیر اھل حدیث یا مقلد یا کافر ھے ؟؟؟؟؟ آپ ڈانٹو نھی سمجھایا کرو بھای ھم کو شاید آپ کی شاگرد بن جاے ھم
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
بھائی نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں عذر کا لفظ دکھاو تو آپ اس حدیث میں یہ دکھا دیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ٢٣ سالہ زندگی میں ایک دفعہ سے زائد بغیر عذر کے نمازوں کو جمع کیا ہو۔ پس طرح آپ حدیث کے ظاہر ہی سے مسئلہ نکالنا چاہتے ہیں تو وہ تو کچھ یوں بنتا ہے کہ اگر اگر زندگی میں بغیر عذر کے جمع کر لے تو کوئی یہ حدیث میں ہے۔

اگر آپ ایک دفعہ سے زیادہ بغیر عذر کے جمع کرنے کے قائل ہیں تو اس کو ذرا اسی روایت سے ثابت کریں۔ اور اگر آپ زندگی ایک دفعہ بغیر عذر جمع کرنے کے قائل ہیں تو شاید یہاں کسی کو بھی آپ سے حقیقی اختلاف نہیں ہے، پھر لفظی اختلاف ہے۔

لیکن اگر آپ ایک سے زائد بار جمع کے قائل ہیں تو برائے مہربانی اس کی تعداد بان کرنے ہیں کہ کتنی مرتبہ بغیر عذر کے جمع ہو سکتی ہے کیا دن میں ایک دفعہ ہو سکتی ہے یا ہفتہ میں ایک دفعہ یا مہینہ میں ایک دفعہ یا اس سے کم یا اس سے زیادہ، اور اس کی دلیل بھی بیان کر دیں۔
جزاکم اللہ
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا
عام ھالات میں نا جناب ابوالحسن علوی صاحب

گر میرے بھائی یہ مطلقا ہی جائز ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی زندگی میں ایک دفعہ کی بجائے سینکڑوں دفعہ بغیر عذر کے ایسا کرنا ثابت ہوتا کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ جب دونوں معاملات جائز ہوتے تھے تو اس میں آسان کو اختیار کرتے تھے۔
جناب ابوالحسن علوی صاحب !!!!!!!!! بھت سارے کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی مین صرف ایک دفعہ کی ھے تو کیا اس کا مطلب یہ ھوگا کہ اس نے امت کو ایک دفعہ کرنا ھوگا
اور بس؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
نفی کی دلایل اگر صریحی ھے تو لیکر آییے مھربانی ھوگی
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثمانیا جمیعاوسبعا جمیعا متفق علیہ (اللوء اللوء والمرجان رقم الحدیث٤١١
حدیث میں ظھر اورعصر اور مغرب اور عشاء مراد ھے نا تو عذر کا لفظ موجود ھے اور نا حدیث میں منع کیا گیاھے
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم،
مفتی صاحب کی بحث یہ ہے کہ اس حدیث میں عذر کی بات نہیں اور علمائے اہل حدیث عذر کی شرط عائد کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کی پیش کردہ حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
مسلم شریف کی حدیث نمبر٥٤)(٧٠٥)میں ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بارش اور خوف کی بغیر نمازیں جمع کی الفاظ ھے من غیر مرض ولا علۃ یعنی نا تو کوی بیماری تھی اور نا کوی علت
مفتی صاحب سے گزارش ہے کہ وضاحت فرما دیں کہ جن الفاظ کو ہائی لائیٹ کیا گیا ہے وہ روایت کا حصہ ہیں یا ان کا فہم ہے؟ دوسری وضاحت یہ فرما دیں کہ ان کے نزدیک کیا کسی حدیث کو سمجھنے کے لئے صرف اس کے الفاظ کافی ہیں یا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا اس حدیث پر فہم بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے؟ مفتی صاحب اگر مہربانی فرما کر ان باتوں کی وضاحت فرما دیں تو امید ہے کہ جلد مسئلہ واضح ہو جائے گا یا کم از کم ان لوگوں کا نقطہ نظر واضح ہو جائے گا جو عذر یا کسی حرج سے بچنے کی شرط جمع بین الصلاتین میں لگاتے ہیں۔ والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا
عام ھالات میں نا جناب ابوالحسن علوی صاحب
مفتی عبداللہ بھائی! ہم بھی تویہی بات کہہ رہے ہیں کہ عام حالات میں" إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا " کے حکم کا اطلاق ہو گا، اور خاص حالات میں جمع بین الصلاتین کی اجازت ہے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ کچھ تو امور ہیں جو حالات کو عام حالات سے خاص حالات میں تبدیل کرتے ہیں۔ بس ان ہی امور کو عذر سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور یہ وہ امور ہیں جن کا ذکر جمع بین الصلاتین کے حوالے سے قرآن و حدیث میں نہیں!
میرے بھائی! میرے طرز تحریر اور اسلوب پرمعذرت قبول فرمائیں کہ بس اسے آپ میرے مزاج کی شدت سمجھیں۔
مگر یاد رہے، یہ معذرت اہل بدعت حضرات سے نہیں۔ ان کے لئے میں دانستہ متشدد ہوں!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ جناب ابن داود صاحب وسب اھل ذوق واھل علم حضرات وخواتین اسلام تعصب سے ھٹ کر میرے بات پر غور فرماے پہلی آپ ذھن سے زبیر علی زی صاحب یا کسی بھی مسلک کی تابعداری سے چند منٹ کیلیے ذھن کو خالی کریں پھر میرے استفسار پر غور فرماے اگر میں غلطی پر ھوں توپلیز میرا اصلاح کریں
١ ) ان راویات سے معلوم ہوا کہ شدید ضرورت اور شرعی عذر کی بنا پر حضر میں بھی کبھی کبھار جمع بین الصلاتین جائز ہے (٢) (زع) یعنی نا گزیر قسم کے حالات (شرعی عذر) میں حالت اقامت میں بھی دو نمازیں جمع کر کے پڑھی جا سکتی ہیں۔١١١١١١١ یہ دونوں عبارات نماز نبوی کی ھے آپ خود سوچیں اور فیصلہ کریں کہ کیا حدیث میں عذر کا لفظ ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟کیاحدیث میں شدید ضرورت کا لفط ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟کیاحدیث میں ناگزیر حالات کا ذکرھے؟؟؟؟؟؟؟؟ تویہ تاویل نھی تو اور کیا؟؟؟؟؟؟؟؟ تحریف نھی تو اور کیاھے؟؟؟؟؟؟؟؟تاویلون کا طوفان نھی تو اور کیاھے؟؟؟؟؟؟؟؟ پھر کھتاھے ضرورت بھی شدید ھو استغفراللہ پیغمبر اآسانی کیلیے حکم دے رھاھے اور شیخ زبیر صاحب ان کو مشکل بنارھاھے
پھر صحیح نماز نبوی والے نے اوپر والی کتاب پر رد کیاھے ملاحظہ فرماے ان کی عبارت!!!!!!!!!!!!!!!!!!!بعض علماء حضر میں بغیر عذر کے دو نمازیں جمع کرنے کو کبیرہ گناہ شمار کرتے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں، رسول اللہ ﷺ سے حضر میں بغیر عذر کے دو نمازیں جمع کرنا ثابت ہے۔ "سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر و عصر کو اکھٹا کر کے پڑھا۔" ابو زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہی سوال میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تھا تو انھوں نے فرمایا: آپ ﷺ چاہتے تھے کہ میری امت میں سے کوئی شخص مشکل میں نہ پڑے۔" [ مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب الجمع بین الصلاتين فی الحضر 50/705 ]!!!!!١١١!!!!!!!! کیا یہ اوپر والی کتاب کی قول کا تردید نھی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اچھا جی غور کریں حدیث میں صاف الفاظ ھے کہ نا بارش تھی نا خوف یعنی کوی عذر نھی تھا بلکہ تاکہ امت پر آسانی ھو
اب فیصلہ ناظرین وقاریین ناظرات وقاریات کریں
مفتی عبداللہ بھائی آپ کو شیخ عبدالرحمن عزیز کی عبارت سے یہ صاف معلوم ہو رہا ہو گا کہ بلا عذر ایسا کرنا بھی جائز ہے۔
رہ گئی بات شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی، تو وہ شیخ زبیر کے نزدیک ہی قابل قبول نہیں کیونکہ اس کے آخر میں ان کے دستخط موجود نہیں۔ لہذا اس کتاب کی کسی بھی عبارت کا ذمہ دار شیخ زبیر کو ٹھہرانا غلط ہے۔
 
Top