• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنت پکارتی ہے

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رضی الدین سید​
جنت پکارتی ہے
نیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ
C/o صراط مستقیم فاؤنڈیشن، 26اسٹریٹ ، نزد مزار عبداللہ شاہ غازی، کلفٹن ، کراچی۔
فون: 021-4500039 موبائل: 0300-2397571​
فہرست
نمبرشمار عنوان صفحہ نمبر
۱۔ پیش لفظ 3
۲۔ تقریظ (علامہ جمیل احمد نعیمی)
۳۔ تقریظ (حافظ محمد سلفی)
۴۔ مولانا عبد الرئوف
۵۔ آیات برائے جنت
۶۔ احادیث برائے جنت 39
۷۔ خلاصہ ٔ انعامات 56
٭ جنت کے انعامات کی جامع فہرست 56
۸۔ جنتیوں کی صفات 63
٭ جنت اور اس کے انعامات کن لوگوںکو حاصل ہوں گے؟ 63
٭ جنتیوں کی صفات قرآن مجید سے 64
٭ جنتیوں کی صفات احادیث مبارکہ سے 75
۹۔ خلاصہ ٔ صفات
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پیش لفظ
بہت طویل عرصے پہلے کسی دینی رسالے میں ایک خاتون کا تبصرہ پڑھنے کو ملا تھا جس میں انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ یہاں انگلینڈ میں جو مرد حضرات درس دینے آتے ہیں (جس میں خواتین بھی شریک ہوتی ہیں) ان کا موضوع زیادہ تر قرآن پاک کا، دوزخ کا، عذاب و وعید کا ہوتا ہے۔ ان خاتون نے لکھا تھا کہ ان مدرس حضرات کو دوزخ اور عذاب کے علاوہ کسی اور موضوع پر درس دینا ہی نہیںآتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دل قبر کے تصور سے خوفزدہ ہوجاتا ہے، درس سننے کا دل نہیں چاہتا اور اپنے اعمال سے مایوسی چھا جاتی ہے۔
یہ لب لباب ہے اس خط کا جو کافی عرصے قبل راقم نے کسی رسالے میں پڑھا تھا۔ اور تب ہی سے اسے اندازہ ہوا تھا کہ مدرسین کو درس قرآن کے ذریعے مسلمانوںکو ہولناک عذاب ہی سے ہر وقت باخبر نہیں رکھنا چاہیئے بلکہ دوسرے موضوعات، خصوصاً جنت اور اس کے انعامات کا بھی تفصیلی ذکر کرنا چاہیئے تاکہ ان کے دلوں میں اطمینان اور چہروں پر خوشی نمایاں ہو۔ راقم کے خیال میں ہم مسلمانوں کو نیک کاموں پر محض عذابِ قبر و جہنم سے ڈرا ڈرا کر ہی نہیں ابھارنا چاہیئے بلکہ انہیں جنت کی طلب اور انعامات کی تڑپ کے ذریعے بھی اس جانب متوجہ کرنا چاہیئے۔
لہٰذا اس خط کے بعد راقم نے اپنے درسوں کا انداز بڑی حد تک بدل دیا اور سننے والوں کے سامنے زیادہ تر جنت اور اس کے انعامات پر مشتمل آیات کی تفسیر بیان کرنی شروع کردی۔ اس تبدیلی کا نتیجہ بہت خوشگوار نکلا اور لوگ کہنے لگے کہ جنت کی اتنی تفصیل تو ہم نے پہلے کبھی نہ سنی تھی اور یہ کہ آپ نے تو فی الواقع ہمیں جنت کے اندر پہنچا دیا ہے۔
راقم نے اس کتاب میں تمام تر آیات و احادیث جنت سے متعلق منتخب کی ہیں۔ دوزخ سے متعلق آیات اور حدیث کو اس کتاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے تاکہ قاری پر جنت اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ نمایاں ہوسکے۔ جہاں تک قرآنی آیات کا تعلق ہے، کوشش کی گئی ہے کہ تمام متعلقہ آیات شامل کرلی جائیں تاہم کہیں کہیںآیات کے چھوٹ جانے کا بھی احتمال موجود ہے۔ البتہ موضوع سے متعلق حدیثیں چونکہ بے شمار ہیں اس لئے تمام حدیثیں اس کتاب میں شامل نہیں کی جا سکی ہیں۔ تاہم جو حدیثیں بھی منتخب کی گئی ہیں، وہ بھی جنت کی صفات بیان کرنے میں بہت زیادہ رہنمائی کرتی ہیں۔
دوران ترتیب دین کا درد رکھنے والے ہمارے ایک عزیز دوست جناب عبدالغفار بھٹو نے راقم کی توجہ ایک اہم نکتے کی طرف دلائی۔ انہوں نے کہا کہ جب اس کتاب میں جنت اور اس کے انعامات کی اس قدر تفصیل بیان کی جا رہی ہے تو بہتر ہے کہ ان انعامات کو پانے والے اہالیانِ جنت کی صفات کا ذکر بھی کردیا جائے تاکہ قارئین کو اپنے اعمال پرکھنے کا بھی موقع مل سکے۔
مشورہ کیونکہ بہت صائب تھا اس لئے اس ضمن میں قرآن و حدیث کی متعلقہ آیات و تفصیلات بھی زیر نظر کتاب میںجمع کردی گئی ہیں۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اب یہ کتاب بڑی حد تک مکمل ہوگئی ہے اور کئی لحاظ سے یہ اپنے مقاصد کو پورا کرسکے گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ راقم کی اس مخلصانہ کوشش کو شرف ِ قبولیت عطا فرمائے اور لوگوں میں جنت کے حصول کی تڑپ تیز سے تیز تر کردے۔ آمین
٭٭٭٭٭
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تقریظ
انسان کے لئے حصولِ علم اور اکتساب علم کے لئے بظاہر تین ہی ذرائع ہیں : (۱) عقل (۲) حواس خمسہ (۳) وحیِ الٰہی ۔
ان تینوں اسباب میں سب سے محفوظ ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ اسی لئے تعلیمات ِ اسلام کا منبع و محور عقلِ سلیم اور حواسِ سلیم بھی ہیں۔ لیکن وحیِ الٰہی کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ عقلِ محض اور حواسِ محض میں خطاء کا امکان موجود ہے جبکہ وحیِ الٰہی اس خطاء سے مصئون و محفوظ ہے ۔ نیز یہ کہ دین ِ اسلام دینِ فطرت ہے، اس لئے کتاب ِ ہدایت میں انسان کیلئے پیدائش سے لے کر موت اور اس کے بعد تک کے مسائل کا حل بھی موجود ہے اور بیان بھی ۔ جیسے (۱) ایمان باللہ (۲) ایمان بالرسول (۳) ایمان بالکتب (۴) ایمان بالملائکۃ (۵) ایمان بالآخرت ( ۶) اچھی بری تقدیر اور دوبارہ زندہ ہونا۔ اس کے علاوہ قرآن و حدیث میں جنت و جہنم، عذابِ قبر و ثواب ِ قبر ، حوران و غلمانِ بہشت اور جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب کا ذکر بھی موجود ہے ، نیز دین ِ اسلام میں امید و خوف کا تصور بھی موجود ہے ۔ لیکن ہمارے مخدوم و محترم دوست رضی الدین سید صاحب کی خدمت میں کسی ہماری بہن صاحبہ نے یہ نوازش نامہ ارسال فرمایا کہ علماء کرام اور دین کا کام کرنے والے جہنم سے ڈراتے رہتے ہیں ۔ا سی گرامی نامہ سے متاثر ہوکر ہمارے محترم بھائی نے یہ مضمون تحریر فرمایا ہے ، جس میں قرآن عظیم کی متعدد آیات ِ کریمہ کے ساتھ احادیث ِ مقدسہ سے بھی جنت اور جنت کی نعمتوں کی بشارت دی گئی ہے ۔
اس کو بڑی وضاحت کے ساتھ اس مقالے میں ذکر کیا گیا ہے اور موصوف نے جنت اور جنت کی نعمتوں اور فضیلتوںکو نہ صرف بیان کیا بلکہ موقع بموقع اس کی تشریح و تفصیل بھی موثر انداز میں کی جس سے پڑھنے والے کے دل سے نہ صرف خوف و ملال دور ہو بلکہ ایک طرح کا سکون و اطمینان ، حوصلہ افزائی اور دلجوئی بھی ہو۔ اسی لئے اللہ کے مقدس کلام واجب الاذعان میں یہ اعلان فرمایا گیا ہے کہ اے میرے محبوب ﷺ میرے بندوں اور اپنے غلاموں کو یہ مژدئہ جانفزا سُنا دیجئے ۔
قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ط ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا ط انہ ھوا الغفور الرحیم
(ترجمہ): تم فرمائو اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے ۔
آخر میں احقر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ ِ عظمت پناہ میں دعاگو ہے کہ اپنے حبیب مکرم ﷺ کے صدقے موصوف کو صحت و عافیت اور سلامتیء ایمان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دینِ متین کی خدمات سر انجام دینے کی توفیق مرحمت فرمائے ، آمین ثم آمین ۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
عذر ہائے روزِ محشر من پذیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر۱؎
علامہ جمیل احمد نعیمی (دارالعلوم نعیمیہ ،کراچی)
سابق صدر جمعیت علماء پاکستان (سندھ)
رکن سنی سپریم کونسل جماعت اہلسنت پاکستان
۱؎ اے اللہ تو ہر دوجہاں سے بے نیاز ہے جبکہ میں ایک فقیرہوں اسلئے محشر کے دن تومیرے عذرات کو قبول فرمالے ۔ اگر تو سمجھتا ہے کہ میرا حساب کتاب ناگزیر ہے تو نگاہ مصطفی ؐکے توسط سے میری دستگیری فرمالے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تقریظ
بسم اللّٰہ والصّلاۃ والسّلام علی رسول اللّٰہ،وبعد
آج مادی زندگی میں ٹھوس دلیل کی صورت میں بات پیش کرنا انتہائی اہم ہو گیا ہے۔ اہل علم تو ترغیب، افادیت اور ترہیب کی ضرورت کو خوب سمجھتے ہیں مگر جناب رضی الدین سید نے ترغیب کی آیات و احادیث کو جمع کر کے بہت مفید پیش رفت کی ہے۔ رب ذوالجلال اس کتاب کو امت میں اصلاح کے پہلو کو اُجاگر کرنے کا سبب بنائے اور ہم سب کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔
حافظ محمد سلفی
پرنسپل جامعہ ستاریہ اسلامیہ، کراچی
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحیم
نحمدہ ونصلّی علی رسولہ الکریم۔ امّابعد

تقریظ
اسلامی عقیدے اور تعلیمات کے مطابق دنیا کی زندگی دارالعمل ہے۔ اس دنیا کو بالآخر فنا ہوجانا ہے اور پھر ایک اور جہاں قائم ہوگا جو ہمیشہ رہے گا اور جسے دارالقرار یاآخرت کی زندگی کہتے ہیں۔ اُس جہاں میں کامیابی اور ناکامی کا سارا دارومدار اِس دنیا میں انسان کے اعمال پر ہوگا۔ کامیاب انسان جنت اور ناکام انسان جہنم میں جائے گا۔ ان دومقامات کے علاوہ تیسری کوئی جگہ نہ ہوگی جہاں انسان جاسکے۔
قرآن وحدیث میں جہاں انسانوں کو متنبہ کرتے اور خوف دلانے کے لئے جہنم اور اصحاب جہنم کے احوال بیان کئے گئے ہیں وہاں جنت اور اصحاب جنت کے احوال بھی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اجتناب کرتے ہوئے جنت کے حصول کو اپنا مقصد حیات بنا کر پوری عمر اللہ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق گذارے اور کسی لمحہ دنیا کی ظاہری چمک سے مرعوب ہوکر آخرت سے غافل نہ ہوجائے۔
رضی الدین سیّد ایک معروف مصنف، محقق اور صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے زیر نظر کتاب ''جنت پکارتی ہے'' ایک منفرد انداز میں لکھی ہے تاکہ قاری کے چشم تصور میں جنت کے دل آویز مناظر سما جائیں اور اس کے قلب وذہن میں جنت کے حصول کی تڑپ پیدا ہوجائے۔
زیر نظر کتاب میں وہ تمام آیات جمع کی گئی ہیں جن میں جنت اور اہل جنت کا ذکر ہے۔ مقصد اس کتاب کا بقول مؤلف جنت کا شوق دلانا ہے۔
موصوف مصنف کا خیال ہے کہ آج کے دور میں جنت کا شوق بیدار کیا جائے اور اس کے لئے اصحاب جنت کی خصوصیات اور خوبیاں بیان کی جائیں۔ یہ نقطہ نظر اپنی جگہ درست مگر قرآن کا اسلوب یہی ہے کہ جہاں کہیں دوزخ کا ذکر ہے وہیں جنت کا بھی ذکر ہے۔ گویا ترہیب کے ساتھ ساتھ ترغیب بھی ہے یا اس کے برعکس مثلاً ترجمہ:
(پھر جب قیامت برپا ہوگی تو)جو مقربین میںہے ہوگا اس کے لئے راحت اور (فراغت کا)عمدہ رزق اور نعمت بھری جنت ہے۔ اور اگر وہ داہنے ہاتھ والوں میں سے ہوگاتو اس سے استقبال کے طور پر کہا جائے گا' سلام ہے تجھ پر کہ تو اصحاب یمین میں سے ہے، اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں میں سے ہوگا تو اس کی تو اضع کے لئے کھولتا ہوا پانی ہے اور وہ جہنم میں جھونکا جائے گا'۔
(سورۃ واقعہ آیات ۸۸ تا ۹۴)
غرض قرآن کریم میں جہاں دورخ کا ہولناک نقشہ ہے اور اہل دوزخ کے بھیانک احوال کا ذکر ہے وہیں جنت کا روح پرور منتظر ہے اور اصحاب جنت کے دل کو خوش کرنے والے احوال کا بیان ہے ہم قرآن پڑھتے ہیں مگر ان احوال سے متاثر نہیں ہوتے۔
رضی الدین سیّد نے مستحسن کا وش کی ہے کہ جنت اور اصحاب جنت سے متعلق قرآن وحدیث میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اُس کا بہت سا حصہ اپنے منفرد اور حقوق کو مہمیز کرنے والے انداز میں یک جا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول کرے اور پڑھنے والوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔
مولانا عبدالرؤف
نائب صدر جمیعت اتحاد العلماء سندھ
صدر جمیعت اتحاد العلماء کراچی​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
باب اول۔ آیات برائے جنت
(۱) وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُط کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا لا قَالُوْا ہٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُلا وَ اُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًاط وَ لَہُمْ فِیْہَآ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ لاق وَّ ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o
'' اور اے پیغمبر! جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں (اور اس کے مطابق) اپنے عمل درست کرلیں انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ شکل و شباہت میں ان باغوں کے پھل دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ (لہٰذا) جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ اس سے پہلے دنیا میں ہمیں ایسے ہی پھل دیئے جاتے تھے۔ وہاں ان کے لئے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ '' (بقرہ۔۲۴۔۲۵)
(۲) وَ اَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْہُہُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اﷲِ ط ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَo
''رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے، تو انہیں اللہ کے دامنِ رحمت میں جگہ ملے گی، اور وہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیںگے۔'' ( آلِ عمران۔۱۰۷)
وضاحت: اس آیت سے مردِ مومن کی ایک صفت یہ ظاہر ہورہی ہے کہ قیامت میں اس کے چہرے سے روشنی ظاہر ہو رہی ہو گی جو تمام انسانوں میں اسے ممتاز کردے گی۔ مذکورہ روشنی کو دیکھ کر ہی آدمی جان لے گا کہ یہ شخص جنتی ہے۔ اور پھر اسے وہاں ہمیشہ کے لئے اللہ کی رحمت نصیب ہوتی رہے گی۔
(۳) وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاط لَہُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ز وَّ نُدْخِلُہُمْ ظِلًّا ظَلِیْلاً o
''اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کئے، انہیں ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہیں گے۔ اور(وہاں) انہیں پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم (وہاں) گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔'' ( ـالنساء۔۵۷)
وضاحت: ان آیات اور اس سے پہلے والی آیت میں اہل جنت کو باغ، پاکیزہ بیویاں اورگھنی چھاؤں دینے کا وعدہ کیا گیا ہے جو ان کے لئے بہت بڑی نعمتیں ہیں۔
(۴) وَ مَنْ یُّطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاط
''اور جو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ کتنے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو مسیر آجائیں۔'' (پارہ۵۔ نساء۔۶۹)
وضاحت: انبیاء، صدیقین، صلحاء اور شہداء کا مقام عام جنتیوں سے بہت بلند ہے۔ تاہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کرنے والے بندوں کا مقام جنت میں انہی نیک نفس ہستیوں کے ساتھ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ جنہیں ایسے بلند مرتبہ ساتھی میسر آجائیں، ان کی عظمت کے کیا کہنے!
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۵) وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاز اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِج ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُج وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدٰ نَا لِہٰذَا قف وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰ نَا اﷲُج لَقَدْ جَآئَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّط وَنُودُوْآ اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o وَ نَادٰٓی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّاط قَالُوْا نَعَمْج فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌم بَیْنَہُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ o
''جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کئے ہیں، اور اس ضمن میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت کے مطابق ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، وہ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کدورت ہوگی، اسے ہم نکال دیں گے۔ ان کے نیچے نہریںبہتی ہوں گی (جسے پاکر) وہ کہیں گے کہ ''ساری تعریفیں خدا تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں (اس جنت کا) راستہ دکھایا، ورنہ ہم خود تو راہ نہ پاسکتے تھے۔ بیشک ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول حق ہی لے کر آئے تھے۔'' اس وقت آواز آئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو، تمہیں ان اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم (دنیا میں) کرتے رہے تھے۔ پھر جنت کے یہ لوگ دوزخ والوں کو پکار کر پوچھیں گے کہ ہم نے تو ان سارے وعدوں کو ٹھیک پالیا جو ہمارے رب نے ہم سے کئے تھے (لیکن) کیا تم نے بھی ان وعدوں کو درست پایا جو تمہارے رب نے (تم سے) کئے تھ؟ وہ جواب دیں گے کہ ''ہاں''۔ پھر پکارنے والا کہے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (پارہ۸۔ اعراف۔۴۲۔۴۴)
وضاحت: فطری تقاضوں کے تحت اہل ایمان کے درمیان بھی ناچاقیاں، رنجشیں اور کدورتیں ابھر آتی ہیں جو بعض اوقات طویل عرصے تک قائم رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں انہیں بتایا ہے کہ جنت میں داخلے کے بعد ان کی باہمی رنجشیں ختم کردی جائیں گی تاکہ وہ وہاں کسی طرح سے بھی افسردہ نہ ہوں اور تاکہ وہ جنت کی قیام گاہوں کا بھرپور لطف اٹھاسکیں۔
جنت کو ان کی وراثت بتایا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل مالک حضرت آدم علیہ السلام تھے، جن سے یہ وراثت منتقل ہو کر ان تک پہنچی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۶) اِنَّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ یَہْدِیْہِمْ رَبُّہُمْ بِاِیْمَانِہِمْ ج تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ o دَعْوٰہُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰہُُمَّ وَ تَحِیَّتُہُمْ فِیْھَا سَلٰمٌج وَ ٰاخِرُ دَعْوٰہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o
''حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد نیک اعمال میں مصروف رہے، ان کے ایمان کی وجہ سے ان کا رب انہیںسیدھی راہ پرچلائے گا، ان کے نیچے نعمت بھری جنتوں میں نہریں بہیں گی اور وہاں ان کی صدا ہوگی کہ ''پاک ہے تو اللہ تعالیٰ''۔ ان کی باہمی دعا یہ ہو گی کہ ''سلامتی ہو'' ۔ اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ''ساری کی ساری تعریفیں اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہیں۔'' (پارہ۱۱۔ یونس ۔۹۔۱۰)
وضاحت: یہاں جنٰت النعیم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیںجو بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اول تو جنت کی بجائے جنٰت کہا گیا ہے یعنی ایک نہیں بلکہ کئی باغ (یا کئی جنتیں)۔ اس کے علاوہ اپنی اتنی عزت افزائی دیکھ کر مومنین بے اختیار پکار اُٹھیں گے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور یقینا وہی ہے جو تمام تعریفوں کا حق دار ہے۔
(۷) لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ ط وَ لاَ یَرْہَقُ وُجُوْہَہُمْ قَتَرٌ وَّ لاَذِلَّۃٌط اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِج ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o
''جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا، ان کے لئے (بدلے میں بھی) بھلائی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ فضل ہے۔ ان کے چہروں پر روسیاہی اور ذلت نہیں چھائے گی۔ یہی لوگ ہیں جو جنت کے حق دار ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔'' (پارہ۱۱۔ یونس۔۲۶)
(۸) وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآئَ رَبُّکَ ط عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ o
''رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ہمیشہ وہیں رہیں گے۔ اس وقت تک جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں۔ الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے ۔ انہیں ایسی بخشش ملے گی کہ اس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیںہوگا۔'' (پارہ۱۲۔ ہود۔۱۰۸)
وضاحت: ''جب تک زمین و آسمان قائم ہیں'' کے الفاظ اللہ تعالیٰ نے محض ہمیں سمجھانے کے لئے ادا کئے ہیں یعنی ابد الآباد تک۔ نیز انہیں وہاں کبھی منقطع نہ ہونے والی بخشش یعنی انعامات بھی نصیب ہو ں گے۔
(۹) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ ٰابَآئِہِمْ وَ اَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیّٰتِہِمْ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍجo سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِط o
''باغِ عدن، جو ان کی ابدی قیام گاہ ہو گی۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد، اور ان کی بیویاں اور ان کی اولادوں میں سے بھی جو صالح ہیں، وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لئے آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا، اسی کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو۔ پس کیا ہی خوب ہے آخرت کا یہ گھر۔'' (پارہ۱۳۔ رعد۔۲۳۔۲۴)
وضاحت: جنت کا اعلیٰ درجہ جنت الفردوس ہے جبکہ جنت کا ایک دوسرا خوبصورت حصہ جنت العدن ہے۔ یہاں اسی جنت کا ذکر ہے۔ نیز یہاں ایک انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ اہل ایمان سے جنت میں نہ صرف ان کی نیک بیویوں اور اولادوں کو ملا دیا جائے گا بلکہ ان کے نیک اور پارسا آباؤ اجداد کو بھی ان سے ملا دیا جائے گا تاکہ خاندان ہر لحاظ سے مکمل ہوجائے۔ اس میں کچھ تخصیص مرد اور عورت کی نہیں ہے۔ یہ بشارت ہر ایک کے لئے عام ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱۰) مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَط تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُط اُکُلُہَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّہَاط تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا صلے ق
''خداترس انسانوں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں، اور اس کا سایہ لازوال ہے۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔'' (پارہ۱۳۔ رعد۔۳۵)
وضاحت: اس ایک ہی آیت میں جنت کی تین خصوصیات بیان کی گئی ہیں:
(i) نہریں (ii) دائمی پھل اور (iii) لازوال سایہ جو ان پر سدا چھایا رہے گا۔ ایسی ہی جنت متقیوں کا انتظار کررہی ہے۔
(۱۱) اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍط O اُدْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ ٰامِنِیْنَ O وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ O لاَ یَمَسُّہُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّ مَا ہُمْ مِّنْہَا بِمُخْرَجِیْنَ O
''متقی لوگ یقینا باغوں اور چشموں میںہوں گے۔ ان سے کہا جائے گا کہ داخل ہوجاؤ اس میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر۔ تھوڑی بہت کدورت بھی جو ان کے دلوں میں ہوگی، ہم اسے نکال دیں گے۔ وہ (وہاں) آپس میںبھائی بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ انہیں وہاں نہ کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔'' (پارہ۱۴۔ حجر ۴۵۔۴۸)
وضاحت: جنت کی نعمتوں میں چشموں اور نہروں کا ذکر اکثر و بیشتر آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گھنے باغات اور ہرے بھرے میدان کے ساتھ ابلتا اور بہتا ہوا پانی اور ٹھنڈی ٹھنڈی خوشبودار ہوا منظرِ فطرت کو انتہائی سہانا کردیتے ہیں۔ مومنوں کے دلوں سے کدورتیں نکالنے کا تذکرہ بھی اللہ تعالیٰ نے تین چار مقامات پرفرمایا ہے۔ گویا مومنوں کے لئے یہ ایک خصوصی انعام ہوگا کیونکہ اگر کدورتیں نہ نکالی جائیںتو اہل جنت ایک دوسرے کو دیکھ کر کسی حد تک کڑھا کریں گے اور جنت کا لطف مدہم پڑ جائے گا۔
(۱۲) لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌط وَ لَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌط وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ لا O جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ لَہُمْ فِیْھَا مَا یَشَآئُ وْْنَ ط کَذٰلِکَ یَجْزِیَ اﷲُ الْمُتَّقِیْنَ لا O
''اس طرح کے نیک کام کرنے والوں کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے جب کہ آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ بڑا ہی اچھا گھر ہے وہ جو متقیوں کے لئے ہے۔ دائمی قیام کی جنتیں، جن میں وہ داخل ہوں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور سب کچھ وہاں ان کی عین خواہش کے مطابق ہوگا۔ ایسی جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو۔'' (پارہ۱۴۔ نحل ۳۰۔۳۱)
وضاحت: دنیا میں عام طور پر سب کچھ ہماری خواہشات کے برعکس ہی ہوتاہے۔ جو کچھ ہم نہیں چاہتے، وہ ہوجاتا ہے اور جو کچھ ہم چاہتے ہیں، وہ نہیں ہوتا۔ پھر اگر بالفرض اتفاق سے چند باتیں ہماری توقع کے عین مطابق ہوجاتی ہیں تو ہمیں انتہائی خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔ البتہ جنت ایسی جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق، سب کچھ ٹھیک ٹھیک اسی کے مطابق ہوگا، جیسا ہم چاہتے ہیں۔ پھر محرومی کیسی؟ اور دکھ کون سا؟ آج دنیا میں ہر چیز ہمارے خلاف جا رہی ہے جب کہ جنت میں سب کچھ ہمارے ارمانوں کے عین مطابق ہوگا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱۳) اِنَّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ اِنَّا لاَ نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلاًج o اُولٰٓئِکَ لَہُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّ یَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَّکِئِیْنَ فِیْھَا عَلَی الْاَرَآئِکِ ط نِعْمَ الثَّوَابُ ط وَ حَسُنَتْ مُرْتَفَقًاع o
''رہے وہ لوگ جو مان لیںاور نیک عمل کریں، تو ایسے نیک کام کرنے والوں کے اجر ہم ضائع نہیں کیا کرتے۔ ان کے لئے عدن کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ (ڈیکوریٹ) کئے جائیں گے۔ باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیںگے اور اونچی مسندوں پر تکئے لگا کے بیٹھیں گے۔ یہ ہے بہترین اجر اور یہ ہے اعلیٰ درجے کی قیام گاہ۔'' (پارہ۱۵۔ کہف۔ ۳۰۔۳۱)
وضاحت: یہاں لباسوں میں ایک نئے لباس کا تعارف کرایا گیا ہے یعنی باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے لباس جو سبز رنگ کے ہوںگے۔ اس کے بعد انہیں وہاں سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیا جائے گا۔ کنگن، گویا ہار اور تاج سب کچھ! جنت الفردوس کے مقابلے میں یہاں جنت العدن کا ذکر کیا گیا ہے جو جنت کی ایک اور خوبصورت قسم ہے۔ دنیا میں مردوں پر سونا اور ریشم دونوں حرام کردیئے گئے تھے لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ یہ دونوں ممنوعہ اشیاء خود اہلیانِ جنت کو پیش کرے گا۔ گویا جو کچھ دنیا میں حرام تھا، اعلیٰ کارگزاریوں کے طفیل جنت میں وہ سب کچھ جائز و طیب ہوگیا ہے۔
(۱۴) جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَیْبِطاِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّاo لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًاط وَ لَہُمْ رِزْقُہُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّ عَشِیًّاo تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّاo
''ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کا رحمان نے اپنے بندوں سے درپردہ وعدہ کررکھا ہے اور یقینا یہ وعدہ پورا ہو کر رہنا ہے۔ وہاں وہ کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے، بلکہ جو کچھ بھی سنیں گے، ٹھیک ٹھیک ہی سنیں گے۔ ان کا رزق صبح و شام انہیں پیہم ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے بنائیں گے جو پرہیزگار رہا ہے۔'' (پارہ۱۶۔ ـمریم ۶۱۔۶۳)
(۱۵) یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًالا o
''وہ دن آنے والا ہے جب متقیوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمان کے حضور پیش کریں گے۔'' (پارہ۱۶۔ مریم ۸۵)
وضاحت: گویا اہل جنت وفد کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حضور خصوصی ملاقات کے لئے پیش کئے جائیں گے۔ یہ ایک بڑا شرف ہو گا جو اہل جنت کو حاصل ہو گا۔
(۱۶) اِنَّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا o
''یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں، عنقریب رحمان ان کے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔'' (پارہ۱۶۔ مریم ۹۶)
وضاحت: دنیا میں دینی افراد کے درمیان بھی دورانِ زندگی رنجش اور ناراضگی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں اللہ ہمیں خوش خبری دے رہا ہے کہ جنت میں ہم ان کی آپس کی ناراضگیاں دور کردیں گے اور وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں گے کیونکہ جنت خوشیوں کا مقام ہے، غموں اور دکھوں کا نہیں۔
 
Top