• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنت پکارتی ہے

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴۳) یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ بِاَیْمَانِہِمْ بُشْرٰکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَاط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ج o
''اس دن جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا۔ (ان سے کہا جائے گا کہ) آج بشارت ہے تمہارے لئے۔ جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔'' (پارہ ۲۷۔ حدید۔۱۲)
(۴۴) یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِط وَ مَنْ یُّؤْمِنْم بِاﷲِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o
''جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔'' (پارہ ۲۸۔ تغابن ۔۹)
(۴۵) یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اﷲِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُلا یَوْمَ لاَیُخْزِیَ اﷲُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مَعَہٗج نُوْرُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَاج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ سے توبہ کرو۔ خالص توبہ۔ بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہو گا جب اللہ اپنے نبی کو، اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب۔ ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما۔ بیشک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔'' (پارہ ۲۸۔ تحریم۔۸)
(۴۶) اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوْرًاجo عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اﷲِ یُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِیْرًاo یُوفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًاo وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اﷲِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّ لاَ شُکُوْرًاo اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًاo فَوَٰقہُمُ اﷲُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَ لَقّٰہُمْ نَضْرَۃً وَّ سُرُوْرًاجo وَ جَزٰہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّ حَرِیْرًالاo مُّتَّکِئِیْنَ فِیْھَا عَلَی الْاَرَآئِکِج لاَ یَرَوْنَ فِیْھَا شَمْسًا وَّلاَ زَمْہَرِیْرًاجo وَدَانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلٰلُہَا وَ ذُلِّلَتْ قُطُوْفُہَا تَذْلِیْلاً o وَ یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّ اَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَاْلاo قَوَارِیْرَا ْ مِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوْہَا تَقْدِیْرًاo وَ یُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنجَبِیْلاًجo عَیْنًا فِیْھَا تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلاًo وَ یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَج اِذَا رَاَیْتَہُمْ حَسِبْتَہُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُوْرًاo وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّ مُلْکًا کَبِیْرًاo عٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌز وَّ حُلُّوْآ اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍج وَسَقٰہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوْرًاo اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَآئً وَّ کَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًاعo
''نیک لوگ (جنت) میں شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب ِ کافور کی آمیزش ہوگی۔ یہ ایک بہتا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے۔ اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔
... پس اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے بچالے گا اور انہیںتازگی اور سرور بخشے گا اور ان کے صبر کے بدلے، جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ وہاں وہ اونچی مسندوں (اسٹیج اور صوفوں) پر تکئے لگا کے بیٹھے ہوں گے۔ نہ انہیں دھوپ کی گرمی ستائے گی اور نہ جاڑے کی ٹھنڈک۔ جنت کی چھاؤں جھکی ہوئی ان پر سایہ کررہی ہو گی۔ اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے۔ ان کے آگے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جارہے ہوں گے۔ شیشے بھی وہ جو چاندی کی قسم کے ہوں گے اور منتظمین جنت نے ٹھیک ٹھیک اندازے کے مطابق انہیں بھرا ہوگا۔ وہاں انہیں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جن میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔ یہ جنت کا ایک چشمہ ہو گا جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔ ان کی خدمت کے لئے ایسے لڑکے دوڑتے پھررہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیئے گئے ہیں۔ وہاں تم جہاں بھی نگاہ ڈالو گے، تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سروسامان نظر آئے گا۔ ان کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے۔ انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔ یہ ہے تمہاری جزا۔ اور تمہاری کارگزاری قابل قدر ٹھہری ہے۔ (پارہ ۲۹۔ دہر ۵۔۲۲)
وضاحت: یہاں ایک بار پھر انعامات کا تفصیلی بیان ہے یعنی (۱) آبِ کافور کی آمیزش والی شراب (۲) تازگی اور سرور (۳) ریشی لباس (۴) اونچی مسندیں یا صوفے (۵) تکئے (۶) دھوپ اور جاڑے کی شدت سے نجات (۷) جنت کی چھاؤں (۸) پھلوں کی ہر وقت دستیابی (۹) چاندی اور شیشے کے پیالوں کی گردش (۱۰) چاندی سے بنے ہوئے شیشے کے پیالے (۱۱) سونٹھ کی آمیزش والی شراب (۱۲) موتی کی طرح بکھرے ہوئے خدمت گزار بچے (۱۳) باریک ریشم کے سبز لباس (۱۴) اطلس و دیبا کے کپڑے (۱۵) چاندی کے کنگن (۱۶) نہایت پاکیزہ شراب اور (۱۷) وسیع و عریض سلطنت کا سامان۔
اس سے قبل دبیز ریشم کے استر کا ذکر کیا گیا تھا۔ اب یہاں باریک ریشم کے لباس کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ مصر کے عالم سید قطب شہید نے ایسی جنت کو جس میں نہ گرمی کی تپش ستائے اور نہ جاڑے کی شدت، ایئرکنڈیشنڈ جنت سے تعبیر کیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴۷) اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلٰلٍ وَّ عُیُوْنٍلاo وَّ فَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَطo کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِیْٓئًام بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنینَo
''متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں۔ جس قسم کا بھی پھل وہ کھانا چاہیں (ان کے لئے حاضر ہے)۔ کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ نیک لوگوں کو ہم ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔'' (پارہ ۲۹۔ مرسلات۔ ۴۱۔۴۴)
(۴۸) اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًالاo حَدَآئِقَ وَ اَعْنَابًا لاo وَّ کَوَاعِبَ اَتْرَابًا لاo وَّکَاْسًا دِہَاقًاطo لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّ لاَ کِذّٰبًاجo جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَآئً حِسَابًالاo
''یقینا متقیوں کے لئے کامرانی ہے۔ باغ اور انگور اور نوخیز ہم سن لڑکیاں اور چھلکتے ہوئے جام۔ وہاں وہ کوئی لغو اور بے ہودہ بات نہیں سنیں گے۔ جزا اور کافی انعام تمہارے رب کی طرف سے ۔'' (پارہ ۳۰۔ نبا ۳۱۔۳۶)
وضاحت: یہاں جاموں کو چھلکتا ہوا بتایا گیا ہے۔ یا تو اس وجہ سے کہ متقی افراد انہیں خوشی سے بھاگ بھاگ کر لے رہے ہوں گے۔ یا اس وجہ سے کہ شراب پلانے والے خادمانِ جنت (بچے) انہیں لبا لب بھر کے دے رہے ہوں گے۔ یعنی گویا وہاں ناپ تول کا حساب نہیں ہوگا بلکہ سب کچھ بے اندازہ ہوگا۔ جنت کے پھلوں میں کہیں بیروں کا ذکر آیا ہے، کہیں کیلوں کا، کہیں انگور کا اور کہیں کھجوروں کا۔ اور یہ بھی محض نمونے کے طور پر نام لئے گئے ہیں ورنہ اصل میں تو ہر قسم کا پھل وہاں دستیاب ہوگا۔ لامقطوعۃ ولا ممنوعۃ۔ کبھی نہ رکنے والے اور کبھی نہ روکے جانے والے۔
(۴۹) وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌلاo لِّسَعْیِہَا رَاضِیَۃٌلاo فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍلاo لَّاتَسْمَعُ فِیْھَا لاَغِیَۃًطo فِیْھَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌوقف لازم o فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌلاo وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌلاo وَّ نَمَارِقُ مَصْفُوفَۃٌلاo وَّ زَرَابِیُّ مَبْثُوثَۃٌ طo
''کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے۔ اپنی کارگزاری پر خوش ہوں گے۔ عالی مقام جنت میں ہوں گے۔ وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے۔ اس میں چشمے رواں ہوں گے۔ اس کے اندر اونچی مسندیں ہوں گی۔ ساغر رکھے ہوں گے، گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہو ں گی اور نفیس قالین بچھے ہوئے ہوں گے۔ '' (پارہ ۳۰۔ غاشیہ ۸۔۱۶)
وضاحت: ان آیات میں ایک بار پھر جنت کی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے جیسے کسی آرٹسٹ نے جنت کے مناظر پینٹ کر کے ہمارے سامنے رکھ دیئے ہوں۔ اہل دوزخ کے مقابلے میں کہ جن کے چہرے اس روز کالک زدہ اور خوف زدہ ہوں گے۔ اہلیانِ جنت کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے چہرے اس روز خوش و خرم اور شاداں و فرحاں ہوں گے۔ جنت کے بلند ترین مقام پر اونچی اونچی مسندوں پر دراز ہوں گے جن پر خوبصورت قالین بچھے ہوئے ہوں گے۔ اور ان کے آگے شراب کے جام اور گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی۔ عزت افزائی کا کیا شاندار اہتمام ہے۔!
٭٭٭٭٭
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
باب دوم۔ احادیث برائے جنت
قرآن پاک کے علاوہ احادیث میں بھی جنت کی نعمتوں کا تفصیلی ذکر پایا جاتا ہے۔ ذیل میں چند احادیث دی جاتی ہیں جن میں جنت کی وسعت اور نعمتوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے:
(۱) آپ ﷺ نے فرمایا کہ ''جنت میں ایک درخت ایسا ہے کہ جس کے سائے میں چلنے والا سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ ''
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ''عمدہ اور تیز رفتار گھڑ سوار بھی سو سال تک اس درخت کو طے نہیں کرسکے گا۔'' (مسلم۔ کتاب الجنۃ)
وضاحت: جنت کی یہ وسعت محض ایک درخت کی ہے۔ جب کہ وہاں ہر مومن کو دو دو باغ دیئے جائیں گے جن کے درختوں کی شاخیں ایک دوسرے کے اندر پیوست ہوں گی۔ تو خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس کی مملکت یا جاگیر کا کیا ٹھکانہ ہو گا؟
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''اللہ تعالیٰ جنت والوں کو پکارے گا۔ اے جنت والو! جنتی عرض کریں گے کہ ''ہم حاضر ہیں اے پروردگار۔ اور نیک بختی اور بھلائی سب تیرے ہی قبضے میں ہیں۔'' اللہ سوال کرے گا۔ ''کیا تم (اتنی ساری نعمتیں حاصل کرنے کے بعد) راضی ہو گئے ہو؟'' جنتی عرض کریں گے کہ ''ہم کیوں نہ راضی ہوں، حالانکہ جو نعمتیں تونے ہمیں عطا فرمائی ہیں، اپنی مخلوق میں سے وہ تونے کسی کو بھی عطا نہیں فرمائی ہیں۔'' پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا'' کیا میں تمہیں ان نعمتوں سے بڑھ کر بھی اور نعمت نہ عطا کردوں؟'' جنتی عرض کریں گے ''اے پروردگار، ان نعمتوں سے بڑھ کر اور کون سی نعمت ہو گی؟'' اللہ جواب دے گا'' میں تم سے اپنی رضامندی اور خوشی کا اعلان کرتا ہوں۔ اب اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔''
وضاحت: اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشی ہی دراصل (دنیا) اور جنت میں سب سے بڑی خوشی ہے۔ اس کے آگے تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔
(۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''جنت والے اپنے سے اوپر بالاخانے (بلندو بالا مکانات) والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ ایسا اس لئے ہو گا کہ جنت والوں کے درجات میں فرق ہو گا۔'' صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول۔ کیا وہ درجات انبیاء کے ہوں گے جن تک ان کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچ سکے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہ درجات ان لوگوں کو بھی عطا کئے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کریں۔'' (مسلم ، کتاب الجنۃ)
وضاحت: گویا اونچی اونچی عالیشان رہائش گاہیں صرف انبیاء کے لئے مخصوص نہیں ہیں بلکہ عام پرہیزگار مومنوں کا بھی ان پر یکساں حق ہو گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۴) معراج کے واقعہ کا بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ''میں جنت کی سیر کررہا تھا کہ اچانک ایک نہر دیکھی جس کے کناروں پر (بڑے بڑے) موتیوں کے گنبد تھے۔ اور یہ بھی دیکھا کہ جنت کی مٹی مشک کی تھی۔ جنت کی خوشبو کی لپٹ پانچ سو سالوں کے فاصلے سے پہنچنے لگتی ہے۔'' (مسلم)
(۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمیوں کو بلاحساب کتاب جنت میں داخل کرے گا۔'' یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ نے ارشاد کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس تعداد
میں اضافہ کردیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اچھا اتنا اور زیادہ۔'' (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر چلّو سا بنایا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے پھر عرض کیا ''یا رسول اللہ ، ہماری اس تعداد میں اور اضافہ کردیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر (چلّو بنا کر) کہا ''اچھا اتنا اور زیادہ۔'' حضرت عمر ؓ بھی اس مجلس میں موجود تھے۔ انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا کہ (بس اب) ہمیں ہمارے حال پر ہی رہنے دیجئے۔ (یعنی اتنی رعایت نہ کروایئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کرم و عنایت پر اعتماد کر کے بیٹھ جائیں اور عذابِ خداوندی کے خوف سے اس طرح بے فکر ہوجائیں کہ عمل کرنا ہی ترک کردیں)۔ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ سن کر کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم سب کو (بغیر مواخذہ) جنت میں بھیج دے تو تمہارا کیا نقصان ہے؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ اللہ عزوجل تو اپنی ساری مخلوق کو جنت میں داخل کرہی سکتا ہے (پھر بار بار اضافے کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ ''عمر ؓ نے بالکل سچ کہا۔'' (مشکوٰۃ، روایت حضرت انسؓ، باب شفاعت)
(۶) میرے حوضِ (کوثر) کی لمبائی عدن اور ''عمان البلقا'' کے درمیانی فاصلے کے برابر ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ اس کے پینے کے برتن آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں۔ جو شخص ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا، پھر اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ اس حوض پر پانی پینے کے لئے آنے والے فقراء اور مہاجرین ہوں گے جو (اس دنیا میں اپنی غربت و افلاس کی وجہ سے) پراگندہ بال، پریشان حال اور پھٹے پرانے کپڑوں میں نظر آتے ہیں، جو (اگر اپنے نکاح کا پیغام) خوشحال گھرانوں کی لڑکیوں سے بھیجیں تو وہ (ان سے) نکاح کے قابل نہیں سمجھے جاتے، اور جن کے لئے (گھروں کے) دروازے نہیں کھولے جاتے۔'' (ترمذی، ابن ماجہ، روایت حضرت ثوبانؓ، باب شفاعت)
وضاحت: تقویٰ کی زندگی گزارنیوالے عام طور پر تنگ دست اور اوسط آمدنی والے ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض غرباء بھی دین داری میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں کوئی خاص مرتبہ حاصل نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ خوشحال گھرانے کے لوگ بھی ان کے ہاں رشتہ بھیجنے کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت میں ایسے لوگوں کا بڑا اعلیٰ مرتبہ اور مقام ہو گا اور میں ان سے حوض ِ کوثر پر ملاقات کروں گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۷) ''میں یقینا اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا اور سب سے آخر میں جنت میں پہنچایا جائے گا۔ یہ ایک شخص ہو گا جو گھٹنوں کے بل پر چل کر دوزخ سے باہر آئے گا۔ اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جا اور جنت میں داخل ہو جا۔ (لیکن) جب وہ شخص وہاں پہنچے گا تو اسے جنت اس حال میں دکھائی دے گی کہ جیسے وہ بالکل بھری ہوئی ہے (اور اس میں مزید کسی فرد کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے)۔ وہ شخص عرض کرے گا کہ میرے پروردگار، مجھے تو یہ جنت بالکل بھری ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ''جا ۔ اور جنت میں داخل ہو جا۔ وہاں تیرے لئے دنیا (کے کل فاصلے) کے برابر، بلکہ اس سے دس گنا جگہ مزید مخصوص کردی گئی ہے۔ وہ شخص (انتہائی حیرت و خوشی کے باعث) کہے گا کہ (اے اللہ تعالیٰ) کیا آپ مجھ سے مذاق کررہے ہیں، حالانکہ آپ تو بادشاہ ہیں؟'' راوی کہتے ہیں کہ ''میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ کر اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیاں نظر آنے لگیں۔ اور کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہلیان جنت میں سب سے چھوٹے درجے کا جنتی ہو گا۔ '' (بخاری و مسلم، مشکوٰۃ، روایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، بابِ شفاعت )
وضاحت: دوزخ کے عذاب سہہ کر جو شخص باہر آئے گا اور پھر اسے جنت عطا کی جائے گی تو بظاہر اسے جنت لوگوں سے بھری ہوئی نظر آئے گی۔ لیکن اللہ اس سے کہے گا کہ میں نے تیرے لئے دنیا کے دس گنے کے برابر جنت مخصوص کررکھی ہے۔ یہ سن کر اس شخص کو ہنسی آجائے گی اور وہ سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ مذاق کررہا ہے۔ تاہم یہ بات حقیقت پر مبنی ہو گی۔ مذکورہ شخص کے اظہارِ تعجب اور ہنسی پر خود اللہ کے نبی کو بھی ہنسی آگئی تھی۔
(۸) ''جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا شخص جب (دوزخ سے نکل کر جنت کی طرف) چلے گا تو ایک مرتبہ چلے گا اور دوسری مرتبہ منہ کے بل گر پڑے گا۔ تیسری مرتبہ دوزخ کی آگ (کی گرمی اور تپش) اس کے جسم کو جھلسا دے گی۔ پھر جب وہ اسی طرح گرتا پڑتا دوزخ سے آگے گزر جائے گا تو مڑ کر (دوزخ کی) طرف دیکھے گا اور (شکر ادا کرتے ہوئے) کہے گا کہ بزرگ و برتر ہے خدا کی ذات جس نے مجھے تجھ سے چھٹکارا دلایا۔ خدا کی قسم میرے پروردگار نے مجھے وہ چیز عطا کی ہے جو اس نے اگلے پچھلے لوگوں میں سے کسی کو عطا نہیں کی۔ پھر اس کی نظر کے سامنے ایک درخت کھڑا کیا جائے گا۔ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب پہنچا دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمے سے پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اے آدم ؑ کے بیٹے، اگر میں تیری یہ آرزو پوری کردوں تو ہو سکتا ہے کہ تو مجھ سے کچھ اور مانگنے لگے۔ وہ عرض کرے گا کہ اے پروردگار ایسا نہیںہو گا۔ اس کے بعد
وہ اللہ تعالیٰ سے عہد کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں طلب کرے گا۔ چونکہ وہ شخص ایک ایسی چیز (درخت اور چشمہ) دیکھے گا جو اسے بے صبر کردے گی، اس لئے اس کا پروردگار اسے معذور جان کر اس سے درگذر کرے گا اور اسے اس درخت کے پاس پہنچا دے گا۔ وہ شخص اس درخت کے پاس بیٹھے گا اور اس کے چشمے سے پانی پئے گا۔ پھر اس کی نظر کے سامنے ایک (اور) درخت کھڑا کیا جائے گا جو پہلے درخت سے بہت اچھا ہو گا۔ وہ شخص (اس درخت کو دیکھ کر) کہے گا کہ اے میرے پروردگار، مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دیجئے تاکہ اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمے سے پانی پی سکوں۔ نیز میں اس درخت کے علاوہ اب تجھ سے کچھ اور نہیں مانگوں گا۔ حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ اے ابن آدم کیا تونے مجھ سے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ تو اس درخت کے علاوہ مجھ سے کچھ اور نہیں مانگے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تجھے اس درخت کے پاس بھی پہنچا دوں تو ہو سکتا ہے کہ تو مجھ سے کچھ اور مانگنے لگے۔ بہرحال اس کا پروردگار اسے معذور جان کر اس سے درگذر کرے گا کیونکہ وہ ایسی چیز (درخت اور چشمہ) دیکھ چکا ہو گا جس نے اسے بے صبر کردیا ہو گا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس درخت کے پاس پہنچا دے گا۔ وہ شخص اس درخت کے سائے میں بیٹھے گا اور اس کے چشمے سے پانی پئے گا۔ پھر (ایک) تیسرا درخت اس کے سامنے کھڑا کیا جائے گا جو جنت کے دروازوں کے قریب اور پہلے دونوں درختوں سے زیادہ اچھا ہو گا۔ وہ شخص (اس درخت کو دیکھ کر) کہے گا کہ میرے پروردگار مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمے سے پانی پی سکوں۔ حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ابن آدم کیا تونے مجھ سے عہد نہیں کیا تھا کہ (تو) اس کے علاوہ مجھ سے کچھ اور نہیں مانگے گا۔ وہ عرض کرے گا کہ ہاں۔ لیکن اب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں مانگوں گا۔ لہٰذا اس کا پروردگار اسے معذور جان کر اس سے درگذر کرے گا کیونکہ وہ شخص ایک ایسی چیز (درخت اور چشمہ) دیکھ چکا ہو گا جس نے اسے بے صبر کردیا ہو گا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے پاس پہنچا دے گا۔ پھر جب وہ اس درخت کے پاس پہنچ جائے گا اور اس کے کان میںوہ (دلچسپ اور مزے دار) باتیں پہنچیں گی جو جنتی لوگ اپنی بیویوں اور اپنے دوست احباب سے کریں گے تو وہ شخص (بے اختیار ہو کر) عرض کرے گا کہ میرے پروردگار اب مجھے جنت میں بھی پہنچا دیجئے۔ اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ اے آدم ؑ کے بیٹے کیا کوئی چیز ایسی بھی ہے جو تجھ سے میرا پیچھا چھڑا دے؟ (یعنی تیری بار بار کی خواہش سے مجھے آزاد کردے؟)۔ (اچھا یہ بتا) تواس سے بھی خوش ہوگا یا نہیں کہ میں تجھے جنت میں دنیا بھر کی مسافت کے برابر، اور اسی قدر مزید جگہ تجھے دے دوں؟ وہ شخص (انتہائی خوشی و حیرت کے عالم میں) کہے گا کہ پروردگار کہیں آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے ہیں حالانکہ آپ تمام جہانوں کے پروردگار ہیں؟ اسکے بعد راوی ہنسنے لگے اور پھر (حدیث سننے والوں سے) پوچھا کہ کیا تم یہ نہیں معلوم کروگے کہ میں کیوں ہنسا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں بتایئے آپ کیوں ہنسے تھے؟ آپؓ نے فرمایا کہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح ہنسے تھے اور جب صحابہ ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں ہنسے تھے یا رسول اللہ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں اس وجہ سے ہنسا کہ جب وہ شخص کہے گا کہ پروردگار کہیں آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے حالانکہ آپ تمام جہانوں کے بادشاہ ہیں؟ تو پروردگار عالم بھی اس پر ہنس پڑے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کہیں گے کہ نہیں میں تجھ سے مذاق نہیں کررہا ہوں لیکن (تیری حیثیت کو جاننے کے باوجود میںیہ سب کچھ اس لئے تجھے دے رہا ہوں کہ) میں جو چاہے کرسکتا ہوں۔
پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کو یاد دلائے گا اور کہے گا کہ فلاں فلاں چیز مانگ اور جب اس کی ساری آرزوئیں پوری ہولیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ نہ صرف یہ تمام چیزیں بلکہ ان کی دس گنا چیزیں اور بھی تجھے عطا کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں اپنے گھر میں داخل ہو گا، وہاں اس کے پاس حور عین میں سے اس کی دو بیویاں آئیں گی اور کہیں گی کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں تمہارے لئے اور تمہیں ہمارے لئے پیدا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص (فرط ِ مسرت سے) کہے گا کہ (یہاں سب سے زیادہ خوش نصیب میں ہی ہوں کیونکہ) جتنا مجھے عطا کیا گیا ہے اتنا کسی اور کو عطا نہیں کیاگیا۔'' (وہ یہ بات اس وجہ سے کہے گا کہ اس وقت تک اسے علم ہی نہیں ہو گا کہ دوسرے جنتیوں کے پاس اور کیا کیاسروسامان ہے؟ وہ یہی سمجھے گا کہ سب سے زیادہ نوازا جانے والا بندہ یہاں میںہی ہوں) (مسلم، روایت حضرت عبداللہؓ بن مسعود و ابو سعید خدریؓ ، باب شفاعت)
(۹) ''جنتیوں میں سے کسی کی عورت (یعنی حور) زمین کی طرف جھانک لے تو وہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری جگہ کو ( یعنی دنیا کے اس کونے سے لے کر اُس کونے تک) روشن و منور کردیگی اور مشرق سے لے کر مغرب تک کی تمام فضا کو خوشبو سے بھردیگی۔ نیز اسکے سر کی ایک اوڑھنی بھی اس دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔'' ـ(بخاری، مشکوٰۃ، باب صفات الجنت، روایت حضرت انسؓ)
وضاحت: اگر صرف ایک حور کی اتنی ساری خصوصیات ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنت کی باقی نعمتوں کا کیا حال ہو گا؟
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱۰) ''مومن کو جنت میں جو خیمہ ملے گا وہ پورا ایک کھوکھلا موتی ہو گا جس کی چوڑائی (یا دوسری روایت میں) جس کی لمبائی ساٹھ میل کے برابر ہو گی۔ اس خیمے کے ہر گوشے میں اس (مومن) کے اہل خانہ ہوں گے۔ اور (اس خیمے کے) ایک کونے کے آدمی دوسرے کونے کے آدمیوں کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ مومن اپنے ان سب اہل خانہ کے پاس آتا جاتا رہے گا۔ (اس کے لئے) دو جنتیں چاندی کی ہوں گی کہ ان جنتیوں کے برتن (جس میں تمام اشیاء شامل ہیں) سب چاندی کے ہوں گے۔ او ردو جنتیں سونے کی ہوں گی کہ ان جنتوں کے برتن (جس میں تمام اشیاء شامل ہیں) سونے کی ہوں گی۔ اور جنت العدن میں جنتیوں اور پروردگار کی طرف سے ان کے دیکھنے کے درمیان ذاتِ باری تعالیٰ کی عظمت و بزرگی کے علاوہ اور کوئی چیز حائل نہیں ہو گی۔'' (بخاری و مسلم، باب مشکوٰۃ، صفات الجنۃ، روایت حضرت ابو موسیٰ ؓ)
وضاحت: یہاں صرف ایک خیمے کی لمبائی ساٹھ میل بیان کی گئی ہے جبکہ اس سے پہلے والی حدیث میں ایک درخت کا سایہ سو سال کے برابر بیان کیا گیا تھا۔ اس سے جنت کی لمبائی اور چوڑائی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
(۱۱) جنت میں ایک بازار ہے جس میں ہر جمعے کو لوگ جمع ہوا کریں گے۔ اور وہاں ایک شمالی ہوا چلے گی جو جنتیوں کے چہروں اور کپڑوں پر طرح طرح کی خوشبوئیں ڈالے گی جس سے وہاں موجود جنتیوں کے حسن و جمال میں اضافہ ہو گا۔ پھر جب وہ لوگ بہت زیادہ حسین و جمیل ہو کر (اس بازار سے) اپنے گھروالوں میں لوٹیں گے تو وہ گھر والے ان سے کہیں گے کہ خدا کی قسم ہم سے الگ ہو کر تو تم نے اپنے حسن و جمال میں کافی اضافہ کرلیا ہے۔ اس کے جواب میں وہ کہیں گے کہ ''اور بخدا ہمارے جانے کے بعد تم نے بھی تو اپنے حسن و جمال میں اضافہ کیا ہے۔'' (مسلم، باب ِ مشکوٰۃ صفات الجنۃ، روایت حضرت انس ؓ)
وضاحت: ہم اپنی تفریح طبع کے لئے اس بازار کو جمعہ بازار بھی کہہ سکتے ہیں۔
(۱۲) ... تمام جنتیوں کے دل ایک شخص کے دل کی مانند ہوں گے ـ(یعنی سب ایک دل اور ایک جان ہوں گے)۔ نہ تو ان میں کوئی باہمی اختلاف ہو گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے بغض و عداوت رکھیں گے۔ ان میں سے ہر ایک شخص کے لئے حور ِ عین میں سے دو دو بیویاں ہوں گی (جو اتنی زیادہ حسین و جمیل اور شفاف ہوں گی کہ) ان کی پنڈلیوں کی ہڈی کا گودا، ہڈی اور گوشت کے باہر سے نظر آئے گا۔ (وہاں) تمام جنتی صبح و شام اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کریں گے۔ نہ تو وہ بیمار ہوں گے، نہ پیشاب کریں گے، نہ اجابت کریں گے، نہ تھوکیں گے اور نہ ناک صاف کریں گے۔ ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن ''اگر'' کا ہوگا (یعنی اگر کی بتی والا خوشبو دار ایندھن)۔ ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبو دار ہو گا اور سارے جنتی ایک شخص جیسی سیرت و عادت کے مالک ہوں گے۔ نیز وہ سب شکل و صورت میں اپنے باپ آدم کی طرح ہوں گے اور ساٹھ گز اونچا قد رکھتے ہوں گے۔ '' (بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ، باب صفت الجنۃ، روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ)
وضاحت: حورِ عین کے معنی ہیں وہ عورت (۱) جس کی آنکھ کی سفیدی و سیاہی بہت زیادہ سفید و سیاہ ہو ، اور وہ عورت (۲) جس کی آنکھیں بڑی بڑی ہوں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۱۳) ''... جنت کی ایک اینٹ سونے کی ہے اور ایک اینٹ چاندی کی۔ اس کا مصالحہ تیز خوشبود دار مشک کا ہے۔ اس کی کنکریاں موتی اور یاقوت ہیں اور اس کی مٹی
زعفران ہیں۔ جو شخص اس جنت میں داخل ہو گا، عیش و عشرت میں رہے گا، کبھی کوئی رنج و فکر نہیں دیکھے گا، ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی۔ نہ اس کا لباس پرانا اور بوسیدہ ہو گا اور نہ اس کی جوانی فنا ہو گی۔ (احمد، ترمذی، دارمی، باب ِ مشکوٰۃ ، صفت الجنۃ، روایت حضرت ابو ہریرہؓ)
وضاحت: جو کچھ رنج و فکر ہے، وہ سب دنیا میں ہے۔ جنت میں مومن کبھی کوئی رنج و فکر نہیں دیکھ سکے گا۔ وہاں بس عیش ہی عیش ہو گا۔
(۱۴) جنت میں جو درخت بھی ہے، اس کا تنا سونے کا ہے۔ (ترمذی، بابِ مشکوٰۃ جنتہ، روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ)
(۱۵) جنت میں سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اگر تمام دنیا کے لوگ ان میں سے کسی بھی ایک درجے میں جمع ہوجائیں تو وہ درجہ سب کے لئے کافی ہو گا۔ (ترمذی، باب ِ مشکوٰۃ ایضاً)
وضاحت: گویا جنت سو منزلہ اونچی ہو گی جس کی ہر منزل کے درمیان 100 برس کی مسافت کا فاصلہ ہے۔ یہ درجات مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں کے لحاظ سے ملیں گے۔
(۱۶) ''... ان جنتیوں میں سے ہر شخص کے لئے دو بیویاں ہوں گی اور ہر بیوی کے جسم پر (لباس کے) ستر جوڑے ہوں گے (اور وہ دونوں بیویاں اتنی شفاف و حسین و جمیل ہوں گی کہ) ان کی پنڈلیوں کے اندر کا گودا ستر جوڑوں کے اوپر سے نظر آتا ہو گا۔ '' (ترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، صفت الجنۃ، روایت حضرت ابو سعید خدری ؓ )
(۱۷) جنت کی چیزوں (یعنی زینت و آرائش کی اشیاء) میں سے اگر کوئی چیز ناخن کے برابر بھی دنیا میں آجائے تو آسمان و زمین کے (آخری کناروں تک) ہر چیز رونق پاجائے۔ اور اگر جنتیوں میں سے کوئی شخص دنیا کی طرف جھانکے اور اس کے (ہاتھوں کے) کڑے نمایاں ہوجائیں تو ان کی چمک دمک سورج کی روشنی کو بھی ماند کردے جیسے کہ سورج ستاروں کی روشنی کو ماند کردیتا ہے۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ، روایت حضرت سعد بن وقاصؓ)
(۱۸) جنتی جنت میں اس طرح داخل ہوں گے کہ ان کا بدن بالوں سے صاف ہو گا، وہ بغیر داڑھی کے جوان ہوں گے، ان کی آنکھیں سرمگیں (سرمے والی) ہوں گی اور وہ تیس یا تینتیس سال کی عمر والے لگیں گے۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ، باب جنت، روایت حضرت معاذ ؓ بن جبل)
وضاحت: تیس اور تینتیس سال کی عمر انسان کی بھرپور جوانی، شباب اور قوت کی ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ہر جنتی (مرد یا عورت) کو یہی عمر عطا کرے گا۔
(۱۹) (سدرۃ المنتہیٰ) ایک ایسا درخت ہے کہ کوئی سوار اس کی شاخوں کے سائے میں سو سال تک چلتا رہے گا (یا) اس کے سائے میں بیک وقت سو سوار دم لے سکیں گے۔ اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں ہیں اور اس کے پھل مٹکوں کے برابر ہیں۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ، باب ایضاً، روایت حضرت اسماء ؓ بنت ابوبکرؓ)
(۲۰) ایک شخص نے پوچھا ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جنت میں گھوڑے بھی ہوں گے؟'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنت میں داخل کیا اور تم نے گھوڑے پر سوار ہونے کی خواہش کی تو تمہیں جنت میں سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار کیا جائے گا، اور تم جنت میں جہاں جانا چاہو گے، وہ گھوڑا برق رفتاری کے ساتھ تمہیں اُڑا کر لے جائے گا۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اور شخص نے سوال کیا کہ کیا جنت میں اونٹ بھی ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو وہ جواب نہیں دیا جو پہلے شخص کو دیا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنت میں پہنچا دیا تو تمہیں وہاں ہر وہ چیز ملے گی جسے تمہارا دل چاہے گا اور جس کو تمہاری آنکھیں پسند کریں گی۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ، باب ایضاً، روایت حضرت بریدہ ؓ)
وضاحت: یعنی جنت میں اہل جنت کی معمولی سی بھی خواہش رد نہیں کی جائے گی تاکہ اسے محرومی کا احساس بالکل نہ ہو۔ دنیا میں تو وہ محروم رہا ہی تھا۔ اب اسے اور کتنا محروم رکھا جائے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۲۱) حضرت سعید بن مسیت تابعی ؒ سے روایت ہے کہ ایک دن بازار میں ان کی ملاقات حضرت ابوہریرہؓ سے ہوئی جس پر حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ (جس طرح مدینے کے بازار میں آج ہم دونوں کی ملاقات ہوئی ہے اسی طرح) اللہ تعالیٰ جنت کے بازار میں بھی ہم دونوں کو ملائے۔ حضرت سعید ؒ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ کیا جنت میں بازار بھی ہوگا؟ حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا ''ہاں''۔ مجھے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ جنتی لوگ جب جنت میں داخل ہوں گے تو اپنے اپنے اعمال کی فضیلت و برتری کے لحاظ سے جنت میں مقیم ہوں گے۔ (یعنی جس کے اعمال جتنے زیادہ اور جتنے اعلیٰ ہوں گے، اسی اعتبار سے اسے بلند تر اور خوب تر مکانات و منازل ملیں گے)۔ پھر انہیں دنیاوی ایام کے اعتبار سے جمعہ کے دن اجازت دی جائے گی اور وہ سب اس دن اپنے پروردگار کی زیارت کریں گے جو ان کے سامنے اپنا عرش ظاہر کرے گا۔ جنتیوں کو دیدار کرانے کے لئے وہ جنت کے ایک بڑے باغ میں جلوہ فرما ہوگا۔ اس باغ میں (مختلف درجات کے منبر یعنی) نور کے منبر، موتیوں کے منبر، یاقوت کے منبر، سونے کے منبر اور چاندی کے منبر رکھے جائیں گے جن پر جنتی بیٹھیں گے (یعنی جو جنتی جس مرتبے کا ہوگا وہ اسی لحاظ سے اپنے منبر پر بیٹھے گا)
نیز ان جنتیوں میں سے جو جنتی کم مرتبے کا ہو گا، وہ مشک و کافور کے ٹیلوں پر بیٹھے گا، لیکن ٹیلوں پر بیٹھنے والے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ منبر اور کرسیوں پر بیٹھنے والے لوگ جگہ و نشست گاہ کے اعتبار سے ان سے افضل ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اس دن اپنے پروردگار کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یقینا ۔ کیا تم دن میں سورج کو اور ۱۴ ویں رات میں چاند کو دیکھنے میں کوئی شبہ رکھتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہرگز نہیں۔ فرمایا۔ اسی طرح تمہیں اس دن اپنے پروردگار کو دیکھنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہو گا۔ دیدارِ الٰہی کی اس محفل میں کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا جس سے پروردگار تمام حجابات اٹھا کر براہِ راست ہم کلام نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حاضرین میں سے ایک شخص کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ اے فلاں بن فلاں، کیا وہ دن تجھے یاد ہے جب تونے ایسا اور ایسا کہا تھا؟ یہ سن کر وہ شخص گویا توقف کرے گا اور اپنے کئے ہوئے گناہوں کے اظہار میں تأمّل کرے گا۔ اس پر پروردگار اسے کچھ عہد شکنیاں یاد دلائے گا جس کا اس نے دنیا میں ارتکاب کیا ہو گا۔ تب وہ شخص عرض کرے گا کہ میرے پروردگار کیا آپ نے میرے وہ گناہ بخش نہیں دیئے؟ پروردگار فرمائے گا۔ بے شک میں نے تیرے وہ گناہ معاف کردیئے ہیں اور تو میری اسی معافی کے نتیجے میں آج اس مرتبے کو پہنچا ہے۔
پھر وہ لوگ اسی حالت اور مرتبے پر ہوں گے کہ ایک بادل آکر ان پر چھا جائے گا اور ایسی خوشبو برسائے گا کہ اس جیسی خوشبو انہوں نے اس سے پہلے کبھی کسی چیز میں نہیںپائی ہو گی۔ (اس کے بعد ہمارا پروردگار فرمائے گا کہ اٹھو اور اس چیز کی طرف آؤ جو ہم نے تمہاری عظمت کے باعث تیار کررکھی ہے اور تم اپنی پسند و خواہش کے مطابق جو چاہے لے لو۔ (یہ سن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) جنتی لوگ اس بازار میں پہنچیں گے جسے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے۔ اس بازار میں ایسی ایسی چیزیں موجود ہوں گی کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوگی اور نہ کسی کان نے سنی ہوگی اور نہ کسی کے دل میں ایسا تصور آیا ہوگا۔ پھر اس بازار میں سے اٹھا اٹھا کر ہمیں وہ چیزیں دے دی جائیں گی جن کی ہم خواہش کریں گے حالانکہ اس بازار میں خرید و فروخت جیسا کوئی معاملہ نہیں ہو گا۔ نیز اس بازار میں تمام جنتی آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کریںگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بلند مرتبہ شخص دوسرے نسبتاً کم درجے کے شخص کی طرف متوجہ ہوگا اور اس سے ملاقات کرے گا لیکن جنتیوں میںیہ احساس نہیں ہو گا کہ کوئی معمولی اور ذلیل خیال کیا جائے۔ بہرحال اس بلند مرتبہ شخص کو کمتر مرتبے کے شخص کا لباس پسند نہیں آئے گا۔ ابھی ان دونوں کا سلسلہ گفتگو ختم بھی نہ ہونے پائے گا کہ (یکایک) وہ بلند مرتبہ شخص محسوس کرے گا کہ میرے مخاطب کا لباس تو مجھ سے بھی بہتر ہے۔ (ایسا اس لئے ہوگا کہ جنت میں کسی شخص کو غمگین ہونے کا موقع نہیںدیا جائے گا)۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بعد ہم سب جنتی اپنے اپنے محلات اور مکانوں کی طرف واپس ہوںگے اور وہاں ہماری بیویاں ہم سے ملیں گی تو مرحبا اور خوش آمدید کہہ کر ہمارا استقبال کریںگی۔ ہر عورت اپنے شوہر یا مرد سے کہے گی کہ تم اس حال میں واپس آئے ہو کہ اس وقت تمہارا حسن و جمال اس حسن و جمال سے کہیں زیادہ ہے جو ہمارے پاس سے جاتے وقت تمہارا تھا تو ہم اپنی بیویوں سے کہیں گے کہ آج ہمیں اپنے پروردگار کے ساتھ بیٹھنے کی عزت حاصل ہوئی ہے جو جسم و بدن اور حسن و جمال کی ہر کمی کو پورا کرنے والا ہے۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۲۲) جنتیوں میں سب سے کم مرتبے کا جو شخص ہوگا، اس کے اسی ہزار خادم اور بہتّر بیویاں ہوں گی۔ اس کے لئے جو خیمہ نصب کیا جائے گا وہ موتی، زبرجد اور یاقوت سے بنا ہوگا۔ جنتیوں کے سر پر جو تاج ہوگا، اس کا سب سے معمولی موتی بھی ایسا ہوگا کہ مشرق سے مغرب تک ساری دنیا کو روشن کردے گا۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ۔ روایت حضرت ابو سعید ؓ خدری)
(۲۳) جنت میں ''حورانِ عین'' کے اجتماع کی ایک جگہ ہوگی جہاں وہ بلند آواز سے گیت گائیں گی (ان کی آواز اس قدر حسین اور دل کش ہوگی کہ) مخلوقات میں سے کسی نے ایسی آواز نہیںسنی ہوگی۔ وہ حوریں جو گیت گائیں گی وہ یہ ہوگا۔
نَحْنُ الْخٰلِدَاتُ فَلاَ نَبِیْدُ
وَنَحْنُ الْنَاعِمَاتُ فَلاَ نَبَأَسُ
وَنَحْنُ الرَّاضِیَاتُ فَلاَ نُسْخَطُ
طُوْبٰی لِمَنْ کَانَ لَنَا وَکُنَّا لَہٗ

یعنی ہمیں ہمیشہ کی زندگی حاصل ہے، اور موت ہمیں کبھی نہ آئے گی۔ ہم عیش و چین سے رہنے والی ہیں، کبھی سختی نہیں دیکھیں گی۔ ہم راضی خوشی رہنے والی ہیں، کبھی ناخوش نہیں ہوں گی۔ مبارکباد ہے ہر اس شخص کے لئے جو ہمارے لئے ہے اور ہم جس کے لئے ہیں۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ، روایت حضرت علیؓ)​
(۲۴) جنت میں پانی کا دریا ہے، اور شہد کا دریا ہے، دودھ کا دریا ہے اور شراب کا دریا ہے اور (پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد) ان دریاؤں سے مزید نہریں بہہ نکلیں گی۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ۔ روایت حکیم ابن معاویہؓ)
(۲۵) جنتی مرد ایک پہلو سے دوسرا پہلو بدلنے تک ستر مسندوں کا تکیہ لگا کر بیٹھے گا۔ پھر جنت کی عورتوں میں سے ایک عورت اس کے پاس آئے گی (اور اسے متوجہ کرنے کے لئے) اس کے کندھے پر ٹھوکا دے گی جس سے وہ مرد اس کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے رخساروں میں اپنا چہرہ دیکھے گا (جو آئینے کی طرح شفاف و روشن ہوں گے)۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عورت کے (کسی زیور یا تاج میں جڑا ہوا) ایک معمولی سا موتی بھی اگر دنیا میں آجائے تو وہ مشرق سے مغرب تک ہر چیز کو منور کردے۔
بہرحال وہ عورت اس مرد کو سلام کرے گی جس کا جواب مرد دے گا۔ پھر پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ وہ کہے گی کہ میں ''مزید'' ہی سے ہوں۔ اور صورت حال یہ ہوگی کہ اس عورت کے جسم پر ستر کپڑوں کا لباس ہوگا۔ اس مرد کی نظر عورت کے اس لباس میں سے بھی پار ہوجائے گی یہاں تک کہ وہ مرد اس عورت کی پنڈلی کے گودے کو لباس کے پیچھے سے بھی دیکھ لے گا۔ اس عورت کے سر پر تاج رکھے ہوں گے جن کا ایک معمولی سا موتی بھی اگر دنیا میں آجائے تو مشرق سے مغرب تک ہر چیز کو روشن کردے۔ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ۔ روایت حضرت ابو سعید خدریؓ)
وضاحت: یہاں ''مزید'' سے مراد وہ اضافی انعامات ہیں جو اللہ تعالیٰ اہل جنت کو عطا فرمائے گا۔ یعنی ''لھم فیھا مایشاؤن ولدینا مزید۔''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۲۶) ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی مسلمان بیٹھا تھا۔ اس وقت آپ حدیث ارشاد فرما رہے تھے کہ جنتیوں میں سے ایک شخص اپنے پروردگار سے کھیتی باڑی کرنے کی اجازت طلب کرے گا۔ خداوند تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ جو کچھ تم (پیداکرنا) چاہتے ہو، کیا وہ یہاں موجود نہیں ہے؟ وہ شخص عرض کرے گا کہ بے شک یہاں سب کچھ موجود ہے لیکن میری خواہش ہے کہ میں کھیتی باڑی کروں۔ بہرحال اس شخص کو کھیتی کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ چنانچہ وہ زمین میں بیج ڈالے گا اور پلک جھپکتے ہی سبزہ اُگ آئے گا۔ پھر اسی وقت پک کر تیار ہوجائے گا اور اس کے انبار لگ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائے گا ''اے ابن آدم تیری خواہش پوری ہوگئی۔''
یہ حدیث سن کر وہ دیہاتی کہنے لگا خدا کی قسم وہ شخص یقینا یا تو قریشیوں میں سے ہوگا یا انصاریوں میں سے۔ جہاں تک ہم دیہاتیوں کا تعلق ہے، کھیتی باڑی سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر ہنس پڑے۔ (بخاری بحوالہ مشکوٰۃ۔ روایت حضرت ابو ہریرہؓ)
(۲۷) معمولی درجے کا جنتی وہ شخص ہو گا جس کے لئے اسی ہزار خدمت گذار ہوں گے اور بہترّ بیویاں ہوں گی۔ اس کے لئے ایک خیمہ لگایا جائے گا جو موتی، زبرجد اور یاقوت کا بنا ہوا ہو گا۔ اس خیمے کا طول و عرض اتنا ہو گا جتنا جابیہ (شام کے ایک شہر) سے صنعا (یمن کے ایک شہر) تک کا فاصلہ ہے۔ (ترمذی)
(۲۸) جنتی جب جنت میں داخل کئے جائیں گے تو ایک آواز دینے والا انہیں آواز دے گا۔
(i) اے جنت والو! تم ہمیشہ ہمیشہ تندرست رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہو گے۔
(ii) تم ہمیشہ جوان رہو گے، اور تمہیں کبھی بڑھاپا نہ آئے گا۔
(iii) تم زندہ رہو گے اور تمہیں کبھی موت نہ آئے گی۔ اور
(iv) تم ہمیشہ چین اور آرام میں رہوگے اور کبھی تکلیف نہ دیکھو گے۔ (مسلم)
(۲۹) جنت کے ایک ایک دروازے کی دو چوکھٹوں کے درمیان اتنی چوڑائی ہوگی کہ اگر کوئی شخص اس کی چوڑائی میں چلے تو پورے چالیس سال میں اس کی چوڑائی ختم ہو۔ (مسلم)
٭٭٭٭٭
 
Top