• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جی بطور انتظامیہ رکن یہ ضرور گزارش کروں گا کہ ’’ زبان و دہن ‘‘ کو بگڑنے نہ دیجیے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ صاحب! اب جواب لکھیں آگے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایک عامی آدمی کیا کرے ؟
یہ بات طے کہ اس نے کسی نہ کسی سے پوچھنا ہی ہے ، پھر وہ کسی امام کے قول کے متعلق پوچھے یا پھر قرآن وسنت کے متعلق پوچھے ، یہ سب باتیں تو زیر بحث لائی جاسکتی ہیں ۔
لیکن جو آپ زیر بحث لائے ہیں میری نظر میں وہ غیر متعلقہ گفتگو ہے ۔ اور ایسے علمی نکات ہیں جو صرف نظری باتیں ہیں عملی طور پر ان کا کوئی فائدہ نہیں ۔
( آپ نے چونکہ میری رائے معلوم کی ہے ، اس لیے یہ گزارش کی ، ورنہ آپ کو حق حاصل ہے آپ جیسے چاہیں نکتے اٹھائیں اور جس طرح چاہیں بحث کریں )
بندہ آپ کی اس رائے کے بعد اپنے سوالات سے دستبردار ہوتا ہے۔

@ابن داود بھائی! اس کے بعد کیا کرنا ہے؟ یہ بتا دیجیے! اگر آپ کہتے ہیں کہ میں اس بحث کو جاری رکھوں تو صرف اس وجہ سے کہ آپ نے مجھے یہ طعنہ دیا ہے کہ میں بحث سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہوں میں اسے جاری رکھوں گا۔
اور اگر آپ کہتے ہیں کہ اس بحث کو چھوڑ دیا جائے تو میں خضر حیات بھائی سے اس تھریڈ کو لاک کرنے کی گزارش کروں گا۔
اب جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لیکن ایک چھوٹی سی گزارش ضرور کروں گا۔ چوں کہ میرا آپ سے یہ شکوہ ہے کہ آپ واضح جواب نہیں دیتے بلکہ بات کو گھما پھرا دیتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ آپ کا جواب واضح ہوتا ہے تو براہ کرم ایک منصف کو درمیان میں لائیے جو جواب کے واضح ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرے ورنہ یہ جھگڑا تو تا عمر چلتا رہے گا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قارئین پر چھوڑ دیجئے! اور تھریڈ میرے جواب سے پہلے لاک نہیں ہونا چاہئے!
اشماریہ بھائی! اگلی واری وی نسن دا بہانہ سوچ کر آئیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قارئین پر چھوڑ دیجئے! اور تھریڈ میرے جواب سے پہلے لاک نہیں ہونا چاہئے!
اشماریہ بھائی! اگلی واری وی نسن دا بہانہ سوچ کر آئیں!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
ٹھیک ہے جی میں آپ کے کہنے پر قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن یہ عرض کر دوں کہ جہاں آپ نے میرے دو بار کہنے پر کوئی بات تسلیم نہیں کی تو تیسری بار میں اسے آپ کی ضد قرار دے کر اس بات سے ہٹ جاؤں گا۔ آپ پھر اپنے قارئین کو لاتے رہیے گا کہ وہ اس کا فیصلہ کریں کہ یہ آپ کی ضد ہے یا نہیں۔
تو میں باسمہ تعالی عرض کرتا ہوں جہاں سے چھوڑا تھا!

اشماریہ بھائی! اس کی پوری تفصیل ایک بار پھر اوپر بیان ہوئی ہے۔ میرے بھائی! ہم تو آپ کی تحریر کا مطلب بالکل درست سمجھ رہے ہیں، یہ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں کوئی اور بات ہو اور اسے آپ دم تحریر میں لانے قاصر ہوں ! اگر آپ کا یہ مدعا ہے کہ ہم نے آپ کی بات کو غلط سمجھا ہے تو آپ وہ اقتباس یہاں پیش کریں ، اپنی بات کا بھی اور پھر میری تحریر کا بھی کہ میں نے اپ کی فلاں بات غلط سمجھی، اور آپ کی عبارت کے معنی و مفہوم کے برخلاف یہ بیان کیا! اس طرح ہوائی بات کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں!
اشماریہ بھائی! میں اپ کی پریشانی سمجھ سکتا ہوں کہ معاملہ کچھ یوں ہوا ہے کہ اپ جو عمارت تعمیر کرنا چاہ رہے تھے، دار العلوم دیوبند نے اس عمارت کو تعمیر کرنے پر حکم امتناع جاری کر دیا ہے!
پھر وہی بات! اور اب تو آپ کو یہ معلوم ہو گیا ہوگا کہ جواب تو آپ کو دیا جائے گا!
اشماریہ بھائی! اپنی فقہ کے خلاف دلیل آنے پر دل میں استنکار پیدا ہونا اور یہ دور دراز کی تاویلیں گڑھنا مقلدین احناف کا شیوہ ہے، وہ ایسی دور دراز تاویلیں کر کے عمارتیں کھڑی کر لیتے ہیں! لیجئے ثبوت حاضر ہے؛
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قوم مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے اُن کے قلب میں انشراح و انبساط رہتا بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسرے دلیل قوی اُس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلے میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو خود اپنے دل میں اُس تاویل کے وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لئے تاویل ضروری سمجھتے ہیں دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کر لیں بعض سنن مختلف فیہا مثلا آمین بالجہر وغیرہ پر حرب وضرب کی نوبت آجاتی ہے اور قرون ثلثہ میں اس کا شیوع بھی نہ ہوا تھا بلکہ کیف ما اتفق جس سے چاہا مسئلہ دریافت کر لیا اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اُس پر عمل جائز نہیں کہ حب داتر و منحصران چار میں ہے مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہوا ہی ہوں وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے دوسرے اگر اجماع ثابت ہوجاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 131 جلد 01 تذکرۃ الرشید – خلیل احمد سہارنپوری – بلالی سٹیم پریس ، ساڈھورہ

اشماریہ بھائی! یہی صورت کچھ آپ کی معلوم ہو رہی ہے کہ کہ قلب میں انشراح وانبساط مفقود ہو گیا ہے اور استنکار نے قلب میں جگہ لے لی ہے!
اور ایسی ایسی اٹکل لڑا کر تاویلیں لا رہے ہو کہ بس۔۔۔

ابن داود بھائی! معذرت چاہتا ہوں۔ یہ آپ کا فقط خیال ہے۔ اور آپ کا خیال مجھ پر لاگو نہیں آتا۔ اپنے لحاظ سے تو آپ جو چاہیں سوچ لیں۔

اشماریہ بھائی! آپ ہو ویسے واقعی اثر پروف، جیسا کہ آپ نے اپنے بارے میں بیان کیا تھا! اس سے پہلے بھی آپ نے دو بار ڈاکٹر کا تذکرہ کیا تھا، اور اس کا جواب بھی آپ کو ملا، مگر آپ پھر بھی ۔۔۔۔۔۔
آپ کو کوئی پرائیوٹ ہسپتال تو نہیں کہ اس کی آمدنی بڑھانے کے لئے خومخواہ لوگوں کو ڈکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ہو!
لیکن اس کا جواب تو بہر حال ہم اپ کو دیں گے!
اشماریہ بھائی! یہ نیم پاگل اور دماغی بیماری کے حالت میں اسلامی امور پر تحریر کرنا اور اسے وقت گزاری کا ذریعہ بنانا علمائے دیوبند کا شیوہ ہے، اور دیوبندی بھی ایسے ہیں کہ نیم پاگل حالت میں لکھی اس رطب و یابس کو تبلیغی نصاب بنا کر گلی گلی، شہر شہر، کفر و شرک کی دعوت دیئے جا رے ہیں!
ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے پڑھئے گا کہ محمد زکریا صاحب دیوبندی کیا فرماتے ہیں:
صفر 1357 ھ میں ایک مرض کی وجہ سے چند روز کے لئے دماغی کام سے روک دیا گیا۔ تو مجھے خیال ہوا کہ ان خالی ایام کو اس بابرکت مشغلہ میں گزاروں کہ اگر یہ اوراق پسند خاطر نہ ہوئے تب بھی میرے یہ خالی اوقات تو بہترین اور بابرکت مشغلہ میں گزر ہی جائیں گے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 17 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – اسلامک بک سرورس، نئی دہلی۔ انڈیا
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – ادارۂ دینیات، ممبئی ۔ انڈیا
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 06 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – یوسف سنز ، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 22 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – مکتبۃ البشری، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 08 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – گابا سنز، کراچی

اس پر میں نے ایک بار تعلیق بھی لکھی تھی، مختلف ویب سائٹ پر موجود ہے، شاید اسی فورم پر بھی ہو، مگر یہاں اس لئے پیش نہیں کر رہا کہ پھر اشماریہ صاحب خوامخواہ انظامیہ کو آوز دے کر ڈھنڈورا پیٹیں گے کہ ابن داود نے مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کی شان میں گستاخی کر دی!
اشماریہ بھائی!
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے

ایک چھوٹا سا مسئلہ آپ کے ساتھ بحث میں یہ ہے کہ جس چیز کو بطور جملہ معترضہ یا بطور مزاح ہی کہہ دیا جائے آپ اس پر پوری بحث لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ابن داود بھائی یہاں فضائل اعمال پر بات نہیں ہو رہی۔ جس تھریڈ میں اس پر بات ہو رہی ہوگی وہاں اس پر بحث کریں گے۔

ماشاء اللہ ! اشماریہ بھائی! ذرا تحمل کے ساتھ ہماری تحریر کو پڑھ لیتے! میں وہ اقتباس پھر پیش کر دیتا ہوں:
آپ نے فرمایا تھا:
اس کے جواب میں اپ سے عرض کیا گیا تھا:
اگر ایسا ہوتا! بلکل اسے قبول کیا جاسکتا تھا، مگر جب تک کہ اس کے بطلان کا ثبوت واضح نہ ہوجائے!! مگر صورت حال کچھ اور ہے!!
معاملہ کچھ یوں ہےکہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!! ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 386 جلد 01 الهداية في شرح بداية المبتدي - ، أبو الحسن برهان الدين المرغيناني - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي، باكستان
اب یہ بتا دیں کہ یہ بات کہ جب کوئی حنفی نماز میں تشہد کے بعد جان بوجھ کر سلام کے بجائے پاد مارے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی! اس پر قرآن کی کون سی آیت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے، اور اگر یہ قیاسی مسئلہ ہے تو اس کا مقیس علیہ کون سی آیت یا کون سی حدیث ہے؟
جبکہ اگر حادثاتاً کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسے وضوء کرکے نماز مکمل کرنی ہوتی ہے!!
یقیناً آپ اس پر نہ قرآن کی آیت پیش کر سکتے ہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اور نہ ہی اس کو قیاسی شرعی ہونے پر اس قرآن و حدیث سے اس کا مقیس علیہ!!
اور اسی طرح کی فقہ کو ہم قیاس آرائیاں اور اٹکل پچو کہتے ہیں!! یہ ایک وجہ ہے کہ ہم ان کتابوں کو معتبر نہیں سمجھتے!! دوسری وجہ اپنے استدلال و استنباط و قیاس میں نبی صلی اللہ علیہ کی احادیث کو رد کرنا بھی شامل ہیں!! جیسے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو رد کیا گیا :

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ " .
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ
حد تو یہ ہے کہ اس باب میں آپ کے امام اعظم کی روایات کردہ حدیث بھی منقول ہے۔ جو آپ کے نزدیک امام صاحب کی روایات ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْرَسِ السُّلَمِيُّ نَيْسَابُورِيٌّ ، أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ يَزِيدَ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوُضُوءُ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ وَالتَّكْبِيرُ تَحْرِيمُهَا , وَالتَّسْلِيمُ تَحْلِيلُهَا , وَلا تُجْزِئُ صَلاةٌ إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَعَهَا غَيْرُهَا " .
مسند أبي حنيفة لابن يعقوب » مُسْنَدُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيفَةَ » مَا أَسْنَدَهُ الإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ طَرِيفِ بْنِ شِهَابٍ أَبِي سُفْيَانَ ...
لہٰذا جو نام نہاد ''فقہ'' جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے پر مبنی ہو اسے ہم معتبر نہیں جانتے!!!

اپ سے جب اس کو جواب نہ بن پڑا تو آپ نے اس مسئلہ سے جان چھڑانے کے لئے عرض کیا کہ یہ مسئلہ محمد بن الحسن اشیبانی ؒ کی المبسوط میں نہیں، اور دوسرا مدعا یہ اٹھایا کہ میں اس تمت صلاته کا مطلب یہ غلط سمجھا ہوں، یا غلط بیان کر رہا ہوں:
آپ کو یہاں بتایا گیا کہ یہ مسئلہ محمد بن حسن الشیبانی ؒ کا اخذ کردہ ہو یا نہ ہو، ہے بہر حال فقہ حنفیہ کا مسئلہ، اور آپ سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آپ بتلا دیں کہ یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے؟

دیکھیے ابن داود بھائی آپ کا دعوی یہ تھا:
معاملہ کچھ یوں ہےکہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!!
اس پر آپ نے مثال پیش کی:
ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اب دعوی تھا کہ امام محمدؒ نے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کیے ہیں۔ لیکن اس مسئلہ کو آپ امام محمدؒ سے ثابت نہیں کر سکے۔ اس لیے آپ کی دی ہوئی دلیل یا مثال آپ کے دعوی کے مطابق نہیں ہے۔
اس پر آپ کہتے ہیں:
آپ کو یہاں بتایا گیا کہ یہ مسئلہ محمد بن حسن الشیبانی ؒ کا اخذ کردہ ہو یا نہ ہو، ہے بہر حال فقہ حنفیہ کا مسئلہ، اور آپ سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آپ بتلا دیں کہ یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے؟
یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ فقہ حنفیہ کا مسئلہ ہے۔ لیکن فقہ حنفیہ کے تمام مسائل سے یہاں بحث نہیں ہو رہی۔ یہاں بحث ہے امام محمدؒ کے اس مسئلہ سے جو آپ کے الفاظ میں قرآن و حدیث کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے اخذ کردہ ہو۔ اور آپ کا یہ سوال کہ یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے تو بحث میں یہ مسئلہ آپ نے پیش کیا ہے لہذا اس کا جواب آپ کی ذمہ داری ہے میری نہیں۔
اگر آپ اس پر بضد ہوں کہ یہ امام محمد کا ہی مسئلہ ہے تو آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا۔

اور آپ کے ہماری فہم پر کئے گئے اعتراض کا بحوالہ جواب دیا گیا کہ ہمارا بیان کیا گیا مطلب بالکل درست ہے، اور احناف اور دیوبندیوں نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے! اب آپ نے جو کہا تھا کہ ''ہمارےیہاں'' یہ مطلب نہیں، تو آپ کو اس کو جواب نہ بن پڑا، تو اب مسئلہ سے جان چھڑانا چاہئے ہو! اسی لئے آپ کو کہا تھا کہ کج فہمی آپ کی ہوتی ہے، اور آپ الزام دوسروں کو دیتے ہو!
آپ سے عرض کیا گیا تھا:
میں بھی در گزر کر ہی دیتا لیکن آپ نے پھر اپنی فقہ حنفیہ کی خامی تسلیم کرنے کی بجائے، ہمیں ہی قصوروار ٹھہرا دیا!
ایسے کیسے آگے چلے جائیں، اب تو رکنا پڑے گا!
بھائی جان، میں نے اس مسئلہ کا جو معنی بیان کیا ہے بلکل درست بیان کیا ہے!
اشماریہ بھائی! اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے اس دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں!!
میں نے ہدایہ کے حوالہ سے جو نماز میں جان بوجھ کر ''حدث''، یعنی ''پد'' یا ''پاد'' مارنے کا مسئلہ بیان کیا ہے، وہ بلکل درست بیان کیا ہے، نہ میں غلط سمجھ رہا ہوں ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں، مگر آپ یہ جو فرما رہے ہیں کہ ''تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔'' یہ آپ نہ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو بلکہ خود کو بھی! یا پھر آپ کے جملہ میں ''ہمارے یہاں'' سے مراد احناف کے علاوہ کوئی اور ہیں۔
اشماریہ بھائی! یہ فنکاری کم از کم میرے سامنے نہ کیجئے!!
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی


اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی

اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔

ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ

اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛
اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛
احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛
اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛

سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اشماریہ بھائی! اب بتلائیں، ہم نے جو سمجھا ہے، اور بتلایا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں؟ دوم کہ آپ نے جو فرمایا تھا۔
حنفیوں کی مراد تو میں نے آپ کو بتلا دی، اب اس کے برخلاف مراد لینے والے یہ '' ہمارے یہاں'' کن کے یہاں؟ ان کا کچھ تعارف کروا دیں!
یہ ہے اس مسئلہ کا سیاق؛ میرے بھائی جان!
یہ مسئلہ فقہ حنفیہ کا متفقہ ہے، اب اگر آپ اس پر مصر ہیں کہ یہ کسی مجتہد کا اخذ کردہ نہیں ہے، تو میرے بھائی، یہ تاویل بھی آپ کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوگی! پھر تو یہ فقہ جہلا کی کارستانی ثابت ہوگی۔ اشماریہ بھائی یہ سوال تو ہم نے آپ سے کیا ہے کہ بتایئے کہ کس مجتہد نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے؟


میرے پیارے بھائی! اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقہ حنفی پر آپ کی نظر کتنی گہری ہے۔ آپ نے اس اقتباس میں دعوی کیا کہ آپ نے اس مسئلہ کا مطلب بالکل درست بیان کیا ہے۔ پھر مطلب یہ بیان کیا کہ اگر کوئی جان بوجھ کر نماز میں حدث یعنی پد یا پاد مار لے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی۔ اور اپنے اس دعوے پراور اس مسئلہ کے متفق علیہ ہونے والے دعوی پر آپ نے دو دلیلیں دیں۔ اول یہ کہ یہ ایسی کتاب سے ہے جس پر علماء کی تقریضات و مقدمہ جات ہیں۔ ثانی یہ کہ ہدایہ کی دیگر شروح میں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے۔

میں اس پر یہ عرض کرتا ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ کا مطلب جو ہدایہ میں تحریر ہے وہ تو لکھ دیا ہے لیکن احناف کے یہاں فتوی کا یہ اصول نہیں ہے کہ وہ ہدایہ اٹھائیں اور فتوی دے دیں۔
علامہ محمد امین بن عمر ابن عابدین (ت 1252ھ) شرح عقود رسم المفتی میں ایک قاعدہ بیان کرتے ہیں:
لا ثقۃ بما یفتی بہ اکثر اہل زماننا بمجرد مراجعۃ کتاب من الکتب المتاخرۃ خصوصا غیر المحررۃ ک شرح النقایۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مع ماشتملت علیہ من السقط فی النقل فی مواضع کثیرۃ۔۔۔۔ الخ
ص 12 ط بشری

"جو ہمارے زمانے کے اکثر لوگ کتب متاخرہ میں سے کسی کتاب میں سے دیکھ کر فتوی دیتے ہیں اس کا اعتبار نہیں ہے خصوصا ان کتب سے جن کی تحقیق نہیں کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ساتھ یہ کہ ان کتابوں میں بہت سی جگہوں میں نقل میں سقط ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔ الخ"

تو پھر کس طرح فتوی دیا جاتا ہے؟ تو سب سے پہلے اصولوں تک رسائی کی جاتی ہے، پھر نکتہ غور متعین کیا جاتا ہے پھر اس پر مختلف کتب سے عبارات دیکھی جاتی ہیں، پھر ان عبارات کو اصول و قواعد کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے اور پھر فتوی دیا جاتا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل آداب فتوی نویسی مولفہ مفتی ابو لبابہ شاہ منصور میں پڑھی جا سکتی ہے۔ بد قسمتی سے میرے پاس اس وقت یہ کتاب موجود نہیں ہے ورنہ میں اس کا حوالہ بھی عرض کر دیتا۔
تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ صرف ہدایہ کو دیکھ کر ہمارے یہاں فتاوی نہیں دے دیے جاتے۔ بلکہ اکثر اوقات فتاوی تو دیے ہی "البحر الرائق"، "النہر الفائق"، "حاشیۃ ابن عابدین" اور ان جیسی کتب سے جاتے ہیں۔
لہذا میں اس مسئلہ کی تحقیق عرض کرتا ہوں:
یہ مسئلہ ترمذی کی ایک حدیث میں مذکور ہے:
حدثنا أحمد بن محمد، قال: أخبرنا ابن المبارك قال: أخبرنا عبد الرحمن بن زياد بن أنعم، أن عبد الرحمن بن رافع، وبكر بن سوادة، أخبراه عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا أحدث - يعني الرجل - وقد جلس في آخر صلاته قبل أن يسلم فقد جازت صلاته»،: «هذا حديث ليس إسناده بالقوي، وقد اضطربوا في إسناده» وقد ذهب بعض أهل العلم إلى هذا قالوا: إذا جلس مقدار التشهد وأحدث قبل أن يسلم فقد تمت صلاته " وقال بعض أهل العلم: إذا أحدث قبل أن يتشهد وقبل أن يسلم أعاد الصلاة وهو قول الشافعي"
اس حدیث کی اسناد پر امام ترمذیؒ (ت 279ھ) نے اعتراض کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ بعض اہل علم اس جانب گئے ہیں (جو کہ ظاہر ہے ان اہل علم کے نزدیک توثیق ہے اگرچہ کسی اور کے نزدیک نہ ہو)۔ اس حدیث میں اصل مسئلہ ہے راوی حدیث عبد الرحمان بن زیاد بن انعم الافریقی کا۔ ان پر بہت سے محدثین نے جرح کی ہے۔
یہ حدیث بیہقی نے بھی انہی سے روایت کی ہے۔
عبد الرحمان بن زیاد بن انعم پر جرح ان کی عدالت کے حوالے سے نہیں بلکہ ان کے حفظ کے حوالے سے ہے۔ (اور میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ دونوں چیزیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ کوئی شخص ہو سکتا ہے کہ حفظ میں مجروح ہو اور عدالت میں نہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ عدالت میں مجروح ہو اور حفظ میں نہ ہو۔) علامہ مزیؒ تہذیب الکمال میں ان کے حوالے سے یعقوب بن شیبہ کا قول نقل کرتے ہیں:
و قال يعقوب بن شيبة : ضعيف الحديث ، و هو ثقة صدوق ، رجل صالح ، و كان من
الأمارين بالمعروف الناهين عن المنكر .
اور یعقوب بن سفیان کا قول نقل کرتے ہیں:
و قال يعقوب بن سفيان : لا بأس به ، و فى حديثه ضعف . (ان دونوں جملوں کو نوٹ کر لیجیے گا۔ میں ہو سکتا ہے اسی بات کو کہیں اور عرض کروں۔)

جہاں ان کی مختلف محدثین نے تضعیف کی ہے وہیں بعض نے ان کی توثیق بھی کی ہے۔ مزی نے ہی نقل کیا ہے:
و قال محمد بن عبد الله بن قهزاذ ، عن إسحاق بن راهويه : سمعت يحيى بن سعيد
القطان يقول : عبد الرحمن بن زياد ثقة .
و قال الترمذى : ضعيف عند أهل الحديث ، ضعفه يحيى القطان و غيره ، و رأيت محمد
ابن إسماعيل يقوى أمره ، و يقول : هو مقارب الحديث .
محمد بن اسماعیل سے مراد امام بخاریؒ ہیں۔
اور احمد بن صالح نے تو ان کی توثیق میں یہ کیا ہے کہ جرح کرنے والوں کو رد ہی کر دیا ہے:
و قال أحمد بن محمد بن الحجاج بن رشدين بن سعد : قلت لأحمد بن صالح : حيى يجرى
عندك مجرى أبى هانىء فى الثقة ؟ قال : نعم . قلت : فابن أنعم ؟ قال لى أحمد بن
صالح : ابن أنعم أكبر من حيى عندى ، و رفع بابن أنعم فى الثقة . فقلت لأحمد بن
صالح : فمن يتكلم فيه عندك جاهل ؟ فقال أحمد بن صالح : من تكلم فى ابن أنعم
فليس بمقبول ، ابن أنعم من الثقات .
اور حافظؒ نے تہذیب التہذیب میں سحنون سے روایت کیا ہے:
و قال سحنون : عبد الرحمن بن زياد بن أنعم ثقة .

تو اس جرح و تعدیل کے درمیان اگر کوئی فقیہ تعدیل کو ترجیح دے کر اس مسئلہ کو اپنا مسلک بناتا ہے تو آپ یا کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ جو فقیہ علم حدیث سے واقف ہو وہ کسی محدث کے حکم یا اس کے بنائے ہوئے اصول کا پابند نہیں ہوتا کیوں کہ محدثین بھی رجال تھے اور وہ بھی ایک رجل ہے۔ ہاں آپ چاہیں تو اس فقیہ سے اس پر بحث کر سکتے ہیں۔

لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ احناف کا یہ مسلک نہیں ہے تو البحر الرائق میں یہی مسئلہ مذکور ہے:
ومعنى قوله تمت صلاته تمت فرائضها، ولهذا لم تفسد بفعل المنافي وإلا فمعلوم أنها لم تتم بسائر ما ينسب إليها من الواجبات لعدم خروجه بلفظ السلام وهو واجب بالاتفاق حتى أن هذه الصلاة تكون مؤداة على وجه مكروه فتعاد على وجه غير مكروه كما هو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة كذا في شرح منية المصلي
ج1 ص 396 ط دار الکتب

"مصنف کے قول تمت صلاتہ کا مطلب ہے نماز کے فرائض مکمل ہو گئے۔ ورنہ یہ معلوم چیز ہے کہ وہ تمام واجبات جن کی اس نماز کی جانب نسبت ہے اس کے ساتھ وہ مکمل نہیں ہوئی اس کے لفظ سلام کے ساتھ نماز سے نہ نکلنے کی وجہ سے حالاں کہ وہ بالاتفاق واجب ہے۔ یہاں تک کہ یہ نماز مکروہ طور پر ادا شدہ ہوگی لہذا اسے غیر مکروہ طور پر لوٹایا جائے گا جیسا کہ ہر اس نماز کا حکم ہے جسے کراہیت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اسی طرح مسئلہ شرح منیۃ المصلی میں ہے۔"
یہ ہے احناف کا مسلک۔ اب آپ اس پر یہ نہیں کہہ دیجیے گا (جیسا کہ ایک اور مسئلہ میں کہا تھا) کہ ان کی بات صاحب ہدایہ یا ماتن کے خلاف ہے کیوں کہ بعذر ہزار ہم آپ کی سمجھ کے نہیں اپنی سمجھ کے مکلف ہیں اور ہمارا مسلک ہماری سمجھ کے مطابق ہوتا ہے آپ کی نہیں۔ آپ کا جو دل چاہے سمجھ لیں۔ میرا کام آپ کو اپنا مسلک بتانا تھا۔

دوسری چیز آپ نے جو اس مسئلہ کا مطلب بیان کیا اور اس میں حدث کی تفصیل بیان کی پد یا پاد مارنے سے۔ حالاں کہ احناف کے نزدیک اور بھی حدث ہیں۔ بطور مثال تو چلیں اس کو پیش کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی تفصیل اسی سے کی جائے یہ درست نہیں۔ دو اور صورتیں میں عرض کرتا ہوں۔
اول: نمازی کا کوئی دانہ یا زخم تھا جسے اس نے کھجایا اور اس سے خون نکل آیا تو یہ حدث بھی ہے اور تعمد حدث بھی۔
ثانی: نمازی نے منہ میں انگلی ڈال کر قے کردی تو یہ حدث بھی ہے اور تعمد حدث بھی۔

تیسری چیز آپ کی دو دلیلیں ہیں۔ ان پر عرض یہ ہے کہ اولا تو مقدمہ یا تقریظ پوری کتاب کو لفظا لفظا پڑھ کر نہیں لکھی جاتی بلکہ چیدہ چیدہ مقامات کو دیکھ کر لکھی جاتی ہے اس کتاب کے طرز کے بارے میں۔ ثانیا تقریظ یا مقدمہ کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص کتاب کے تمام مسائل اور کتاب کی تمام تشریحات سے متفق ہے (اگر آپ اس کا یہ مطلب سمجھتے ہیں تو یہ محتاج دلیل ہے اور اگر آپ اس شخص پر اس کی تردید یا وضاحت لازمی سمجھتے ہیں تو یہ بھی محتاج دلیل ہے)۔
اور ثالثا یہ کہ ہدایہ کی کسی اردو شرح وغیرہ سے کسی مسئلے پر فتوی نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اردو شرح کے ذریعے کسی مسئلہ پر اتفاق ہوتا ہے۔ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو اصول فتوی میں سے ایسا کوئی اصول ڈھونڈ کر دکھائیے جو آپ کی بات کی تائید کرے۔

اب یہ بات یاد رکھیے گا کہ آپ جو بات بھی کریں گے وہ باحوالہ اور مدلل ہونی چاہیے کیوں کہ میں نے کتب سے اپنی بات واضح کی ہے۔ اگر آپ نے صرف اپنی بات یا اپنی سمجھ ہمارے بارے میں لکھنے کی کوشش کی تو یہ ذلک قولہم بافواہہم کے مترادف ہوگا۔ ہاں اپنے بارے میں جو چاہیے لکھیے۔
جزاک اللہ

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! آپ نے محمد بن الحسن شیبانی کا نام لے کر پوچھا تھا کہ :
ہم نے آپ کو پہلے تو یہ فرق بتلایاتھا کہ:
یہ بات آپ کو تسلیم نہ تھی، اس پر دلائل بیان کئے گئے، اور اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!
جہاں تک بات رہی کہ آپ امام الشافعی ؒ یا امام مالک ؒ کے حوالے سے یہ سوال کر لیتے، تو آپ کو اس بات کو جواب تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

چوں کہ میں نے مثال کو تبدیل کر دیا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ مثال میں امام محمدؒ کے ذکر سے رجوع کر لیا ہے تو میں ان پر مزید بحث نہیں کرتا۔
تو امام شافعی یا مالک رحمہما اللہ کے حوالے سے آپ کا مسلک یہ ہے کہ:
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
ٹھیک ہے۔ جب آپ بیان کر رہے ہیں تو ہمیں آپ کا موقف تسلیم ہے۔
آیت میں لفظ ہے "فاسئلوا"۔ اس میں مادہ سوال عام ہے۔ چاہے یہ سوال دلیل کے ساتھ ہو یا چاہے یہ سوال بغیر دلیل کے ہو۔ اور عام کے بارے میں یہ قاعدہ ہے کہ جب تک اس کا کوئی مخصص موجود نہ ہو اس کے عموم پر عمل کیا جاتا ہے۔
زکریا بن غلام قادر اپنی کتاب من اصول الفقہ علی منہج اہل الحدیث میں لکھتے ہیں:
القاعدة الثانية: الأصل في العام العمل به على عمومه حتى يوجد المخصص
1۔127 ط دار الخراز

والذي صح عندي من مذهب الشافعي رضي الله عنه أن الصيغة العامة لو صح تجردها عن القرائن لكانت نصا في الاستغراق
البرہان فی اصول الفقہ 1۔112 ط العلمیہ

وعندنا وعند الشافعي - رحمه الله - يوجب الحكم في الكل
التوضیح (شرح التلویح علی التوضیح 1۔70 ط مکتبۃ صبیح بمصر)


چوں کہ یہ عام ہے اس لیے مجتہد سے سوال دلیل کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے اور بلا دلیل بھی۔ اور جب بغیر دلیل کے کیا جائے گا تو اس پر عمل تقلید ہوگی۔ لہذا اس آیت سے تقلید ثابت ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر یہ سوال ہو کہ کسی ایک مفسر سے دکھا دیں کہ اس آیت سے تقلید پر اثبات کیا ہو (ایک تھریڈ میں ایک بھائی نے یہ دعوی کیا ہے) اس لیے عرض ہے کہ علامہ قرطبیؒ (ت 671ھ) اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں فرماتے ہیں:
لم يختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها، وأنهم المراد بقول الله عز وجل:" فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون" وأجمعوا على أن الأعمى لأبد له من تقليد غيره ممن يثق بميزه بالقبلة إذا أشكلت عليه، فكذلك من لا علم له ولا بصر بمعنى ما يدين به لا بد له من تقليد عالمه، وكذلك لم يختلف العلماء أن العامة لا يجوز لها الفتيا، لجهلها بالمعاني التي منها يجوز التحليل والتحريم.
11۔272 ط دار الکتب المصریۃ

علماء کا اس پر اختلاف نہیں ہے کہ عوام پر ان کے علماء کی تقلید (لازم) ہے، اور یہی اللہ عز و جل کے اس ارشاد فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون سے مراد ہے۔ اور ان کا اجماع ہے کہ نابینا کے لیے ضروری ہے کسی اور کی جس کی تمییز پر اعتبار کرتا ہو قبلہ میں تقلید کرے جب وہ قبلہ اس پر مشتبہ ہو جائے۔ تو اسی طرح جس شخص کے پاس علم نہ ہو اور نہ نظر ہو اس معنی میں کہ وہ اس کے ذریعے دین پر چل سکے اس کے لیے اپنے عالم کی تقلید ضروری ہے۔ اور اسی طرح۔۔۔۔۔ الخ

اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ آیت خاص موقع پر خاص لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی تو اس کے دو جواب ہیں۔
اول: قرآن کریم میں خصوص سبب کا نہیں عموم الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے (اور اس پر بھی حوالے دیے جا سکتے ہیں)۔
ثانی: قرطبیؒ کے مطابق جب اس مسئلہ پر علماء کا اجماع ہے تو اس آیت کا کسی خاص واقعہ میں ہونا اس سے استدلال کو کوئی ضرر نہیں دیتا۔

چنانچہ جس آیت کے حکم کو آپ مجتہدین کے حق میں تسلیم کرتے ہیں اسی آیت سے مجتہدین کی تقلید بھی ثابت ہوتی ہے۔
اشماریہ بھائی! آپ پھر مجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہیں! اشماریہ بھائی ! آپ کو ہدایہ کے چار اردو تراجم و شروحات کا ذکر کرے بتلایا تھا، اور وہ بھی علمائے دیوبند کی، کسی نے بھی اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کیا، اور نہ ہی کسی کا اختلاف نقل کیا! ان تراجم و شروحات کے نام ایک بار پھر نقل کرتا ہوں:
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی
اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ
اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ
شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين ابن الهمام الحنفي
العناية شرح الهداية - محمد بن محمد بن محمود البابرتي الحنفى
البناية شرح الهداية - بدر الدين العينى الحنفى
ان شروحات ہدایہ میں بھی کسی نے اس کی نکیر نہیں کی! یہ مسئلہ صرف ہدایہ میں نہیں، کنز الدقائق میں بھی موجود ہے! اور شرح وقایہ میں موجود ہے!
لہٰذا اب اگر آپ اب بھی اس بات کے قائل ہو، تو اختلافی قول پیش کریں! دوم علمائے دیوبند نے تو بہر حال اسی مسئلہ کو قبول کیا ہے!!
اشماریہ بھائی! اب آپ کی اس بات پر کیا کہوں! میان جی! جب میں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو قابل اعتبار نہیں مانتا، تو آپ کے علامہ مرغنیانی کس کھیت کی مولی ہیں! بھائی جان میں تو مرغنیانی کو عالم بھی صرف مقلدین حنفیہ کا مانتا ہوں!
بھائی جان! آپ کے مرغنیانی کا بیان کردہ مسئلہ آپ کی فقہ حنفیہ کا مسئلہ ہے!! اور وہ بھی مقبول !! بلکہ متفقہ!!
ارے بھائی! جان آپ بہت خوش فہمی کا شکار ہو، کہ ہم ''صاحب ہدایہ المرغنیانی'' کا تذکرہ میں نے ان الفاظ میں کیا تھا:
اس کے باوجود آپ کو یہ خوش فہمی کہ میں ''مرغنیانی '' کو مجتہد قرار دے دوں گا!
اشماریہ بھائی! یہ مرغنیانی صاحب ، جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں!
بھائی جان! یہ مسئلہ آپ کی فقہ کا ہے، اسی کو دیوبندی مسلک نے بھی اختیار کیا ہے!
اشماریہ بھائی! آپ بھی حد کرتے تو ! میں تو اسے اٹکل پچّو قرار دیتا ہوں! اٹکل پچّو کی بھی کوئی دلیل ہوتی ہے؟ میاں جی ! آپ اپنے گلے کی گھنٹی میرے گلے کیوں باندھنا چاہتے ہو!! مسئلہ آپ کا، کتاب آپ کی، قبول آپ کریں! اور دلیل کا مطالبہ مجھ سے! بھائی جان! دلیل اب آپ تلاش کریں، اور میرے مؤقف کو غلط ثابت کرکے بتلائیں، کہ یہ اٹکل پچّو نہیں ہے!

ہدایہ کے مسئلے پر بحث گزر چکی ہے۔
ایک بار پھر عرض ہے کہ آپ کی یہ بات بھی محتاج دلیل ہے کہ تقریظات و مقدمہ جات لکھنے سے مسئلہ کو قبول کرنا لازم آتا ہے۔ اور یہ بات بھی محتاج دلیل ہے کہ تقریظات وغیرہ لکھنے والوں پر اس مسئلہ کی تردید کرنا لازم تھا۔
ایک بار پھر یاد رہے کہ آپ کے منہ کی یا آپ کی عقل کی باتیں نہیں چلیں گی۔ ٹھوس حوالہ جات کے ساتھ بات کرنی ہوگی۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لیکن یہاں آپ کی ایک بات درست نہیں، کہ امام مالکؒ کا یہی طرز ''المدونة الكبری'' میں ہوتا ہے، کیونکہ ''المدونة الكبری'' امام مالک کی کتاب ہی نہیں!
جی آپ بالکل ٹھیک فرما رہے ہیں۔ اسی لیے میں نے یہ نہیں کہا کہ امام مالک نے مدونہ میں اس انداز میں مسائل تحریر کیے ہیں۔
مدونہ کتاب ہے امام عبد الرحمان بن القاسم کی اور ان سے سحنون نے روایت کی ہے۔ لیکن اسے امام مالک کی کتاب اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ اس میں اکثر وہ سوالات و جوابات مذکور ہیں جو امام مالکؒ سے کیے گئے اور انہوں نے ان کے جوابات دیے۔ اس کی تدوین بھی امام مالکؒ کے مسائل کو ضبط کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ چانچہ اس کے راوی ہیں سحنون، وہ روایت کرتے ہیں عبد الرحمان بن القاسم سے اور وہ روایت کرتے ہیں امام مالکؒ سے۔
دار الکتب العلمیہ کی مدونہ نیٹ سے بھی آپ ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں اور اس کے سرورق پر بھی یہ موجود ہے اور اندر تعریف کتاب میں بھی۔ اور وکی پیڈیا پر بھی آپ یہ تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔
ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ روایت شدہ کتاب قبول نہیں ہے بلکہ امام مالک کی اپنی لکھی ہوئی کتاب ہونی چاہیے تو پھر میں عرض کروں گا روایت شدہ کتاب قبول نہ ہونے پر کوئی دلیل چاہیے۔

میں نے آپ سے کہا تھا کہ :
میں مسکرایہ تو کیا کرو گے!
نہیں جناب! بات تو اب یہیں ہو گی!
میں واقعتاً اب مسکرا رہا ہوں کہ کس طرح محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے!
ضرورت اس صورت میں نہیں رہے گی کہ آپ محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو ناقابل استدلال و ضعیف و متروک، جہمی و کذاب تسلیم کر لیں گے!
جن کے ثبوت ہم پیش کر چکے ہیں! آپ کی اٹکل سے تو یہ جرح رفع نہیں ہو سکی!
جناب عالی۔ جب میں مثال سے رجوع کر چکا ہوں تو پھر مجھ پر یہ لازم نہیں ہے کہ میں اس پر یہاں بات کروں۔ رہ گئی آپ کی ہائیلائیٹڈ ضد۔۔ تو وہ آپ کے اپنے اوپر لازم ہو سکتی ہے میرے اوپر نہیں۔ اس لیے اگر آپ کو شوق ہے کہ آپ یہیں بات کریں گے تو آپ اکیلے کرتے رہیں۔ میں جواب نہیں دوں گا۔
اور اگر آپ کو واقعی امام محمدؒ پر جرح کرنی ہے تو پھر بنائیے الگ تھریڈ۔

اشماریہ بھائی! آپ کو کہا گیا ہے کہ:
آپ یہ بات ہم کئی بار بتلا چکے ہیں کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو نہیں پڑھا سکتے! اس واسطے آپ کو اسکول میں داخلہ لینا ہو گا!
مزید کہ دارالعلوم دیوبند کا حوالہ بھی پیش کر دیا گیا ہے!!
نہیں جناب والا! افسوس کے ساتھ عرض ہے کہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ محدث کی حیثیت قاضی "جیسی" ہوتی ہے اس پر دلیل تو آپ کو دینی ہوگی۔ آپ بات کر دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ لغت پڑھانے سے رہا، اسکول میں داخلہ لے لیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔
جب تک آپ دلیل نہیں دیں گے جو محدث کی حیثیت کو ثابت بھی کرے اور اس سے یہ بھی پتا چلے کہ محدث کے وظائف کیا ہیں تا کہ ہم اس میں اور قاضی میں فرق کر سکیں تب تک آپ کی بات ذلک قولہم بافواہہم کے درجے میں ہے۔ آپ کے یہ کہنے کا کہ محدث کی حیثیت قاضی جیسی ہے کوئی اعتبار نہیں۔

اشماریہ بھائی! یہ ابتسامہ تو اپنی خفگی چھپانے کے لئے ہے! چلیں، اس پر ایک غزل کا شعر عرض کرتا ہوں!
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
آنکھوں میں نمی، ہنسی لبوں پر
کیا حال ہے، کیا دکھا رہے ہو

یہ چلیں آپ کی بات مان لیں ! چہ معنی دارد! ہماری بات ہی درست ہے! اس پر بھی ایک شعر یاد آیا ہے، ممکن ہے آپ کی حالت میں شدت پیدا ہو! مگر بہت زبردست شعر ہے:
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
اشماریہ بھائی! ایک اور شعر یاد آیا ہے، مگر ذرا ترمیم کے ساتھ!
ہماری جیب سے جب بھی قلم نکلتا ہے

سیاہ کار مقلدوں کا دم نکلتا ہے

ہاتھ لا اے دوست ، کہو کیسی کہی!
یاد آیا ، میں نے کہا تھا کہ میں مسکرایا تو کیا کرو گے!

یہ آپ علمی ابحاث کر رہے ہیں یا اپنا مشاعرہ کا شوق پورا کر رہے ہیں؟ کیا مجھے پھر انتظامیہ کو آواز دینی پڑے گی؟

جاری ہے۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ تمام باتیں اس سے قبل بیان کی جا چکی ہیں! آپ کو ہماری بات پر جو اعتراض ہو پیش کریں!
جیسا کہ ہم نے آپ کے بیان پر پیش کیا تھا کہ آپ نے ضمیر غلط لوٹائی ہے! اور آپ کو بتلایا بھی تھا کہ کیسے!! اب تک تو آپ عبارت کی غلط ترکیب کر کے عامی کو مفتی کا مقلد باور کروانے پر مصر تھے، آپ کی ترکیب درست کر دی گئی، مگر پھر بھی بضد ہیں اور ہوا میں تیر چلائے جا رہے ہیں!
اشماریہ بھائی جان! ہمارے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں، یہ بات آپ کو پہلے ہی بتلا دی گئی ہے! اور آپ نے خود اعتراف کیا تھا کہ آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ شرح التلويح علی التوضيح کی عبارت پیش کیوں کی!
اور یہ وجہ ہم نے شرح التلويح علی التوضیح سے بھی بیان کر دی تھی، جبکہ ایک قرینہ تو اسی عبارت میں مو جود ہے کہ آگے کہا گیا ہے کہ (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)۔
اب اگر عامی کا مفتی کے فتوی پر عمل تقلید ہی ہوتا تو اسے عرف قرار دینا اور اصطلاح سے خارج قرار دینا، چہ معنی دارد!!
اشماریہ بھائی جان! اب ذرا کلام کو سمجھ کر مزید تحریر کیجئے گا! کیونکہ علم الکلام کے گھوڑے دوڑانے سے آپ کو پھر ندامت کا سامنہ ہو گا! اسی لئے کہتا ہوں کہ:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتےصاحب! اگر رکھتے خبر پہلے
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

جناب عالی آپ نے یہ عبارت پیش فرمائی تھی:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔۔۔۔۔۔۔
(التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل، والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع، وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً (لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه
"تقلید کسی غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے، اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ ہیں ، ورنہ عامی کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں، کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں اور یہ بات قابل اعتماد اور مشہور ہے"۔
ملاحظہ فرمائیں :عکس: مجلد 02 صفحه 432 - فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت - دار الكتب العلمية
ملون الفاظ پر غور فرمائیں کہ عامی کا مفتی کے فتوی پر اور قاضی کا گواہوں کی گواہی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے، اور ان کے تقلید نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسے نص نے واجب کیا ہے، یعنی جسے نص واجب کرے وہ تقلید نہیں ہوتی!!

اس میں جس کتاب کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں تو واضح لکھا ہوا ہے جیسا کہ میں نے ہائیلائٹ بھی کر دیا ہے کہ "یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ بعد میں اس چیز پر جو وہ اخذ کریں عمل کرنا تقلید ہے"۔ اور اس میں اس بات کی کوئی قید نہیں ہے کہ وہ قول اگر قرآن و سنت سے ثابت ہو تو پھر تقلید نہیں ہوگی اور اگر ان کا اپنا قیاس ہو تو تقلید ہوگی۔
ایجاب النص کا صرف اتنا مطلب ہے کہ چوں کہ قاضی اور عامی پر نص نے گواہوں اور مفتی کی طرف رجوع کرنا لازم کیا ہے اس لیے یہ رجوع تقلید نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس ایجاب کی نسبت سے کوئی بات موجود نہیں ہے۔ اگر آپ کوئی فرق یا کوئی بات سمجھتے ہیں تو اسے نکال کر دکھائیے۔ خود سے نہیں بیان کر دیجیے گا کہ ایسا نہیں ایسا ہے۔ واضح طور پر دکھائیے گا۔
دوسری بات یہ کہ اس میں عامی کے مفتی کی طرف رجوع کو تقلید سے خارج قرار دیا گیا ہے مجتہد کی جانب رجوع کو نہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مجتہد کی طرف رجوع بھی اس میں داخل ہے تو یہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا۔
تیسری بات یہ کہ اگر ہم اسے تسلیم کر لیں کہ مجتہد کی طرف رجوع بھی تقلید سے خارج ہے تو اس میں کتاب و سنت سے حاصل کردہ حکم اور قیاس سے حاصل کردہ حکم کا کوئی فرق مذکور نہیں ہے اس لیے پھر اسے آپ بے شک تقلید کا نام نہ دیجیے تب بھی مطلب یہ ہوگا کہ چوں کہ نص نے مجتہد کی جانب رجوع کو لازم کیا ہے اس لیے یہ تقلید نہیں ہے۔ اور آپ غیر تقلید کے جائز ہونے کے قائل ہیں تو پھر یہ بھی جائز ہے۔

باقی لکن العرف اور تلویح کی عبارت میں مجتہد کا ذکر ہے مفتی کا نہیں۔

لو جناب! الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! اول تو خود امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو بحث میں شامل کرتے ہیں، جب بحث سے تعلق قائم ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ الگ تھریڈ بنا لیں!
بھائی جان! آپ انکار کردیں کہ آپ تقلید کی اس تعریف کو جو فقہ حنفیہ کی کتب سے پیش کی گئی ہیں، نہیں مانتے!
میں تقلید کی اس تعریف کو مانتا ہوں۔ لیکن آپ کو کہا ہے کہ آپ وہ تعریف لکھیں جو آپ مانتے ہیں تاکہ ہم اسے بھی دیکھ سکیں۔
لہذا ازراہ کرم وہ تعریف تحریر فرما دیجیے جسے آپ تسلیم کرتے ہیں۔

بھائی جان! آپ کہیں مراقبہ کی حالت میں میرے مراسلہ کو نہیں پڑھتے؟
بھائی جان! یہ دلیل ہم نے اپنے جواب کی دی تھی، کہ اس طرح جواب دینا بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اور آپ کے اس سوال پر جواب یہ دیا گیا تھا:

بھائی جان! آپ نے درست فرمایا کہ آپ کی عقل عاجز ہے! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی مت تقلید نے مار دی ہے!
ایک بات یہ بتلاو ! امام ابو حنیفہ استاد ہیں یا شاگرد!! وہ کبھی حماد بن ابی سلیمان کے شاگرد بن جاتے ہیں، کبھی محمد بن حسن الشيبانی کے استاد!!


بھائی جان! ایک بات بتلاؤں کبھی کبھی سوال کا جواب سوال سے دینا آسان فہم اور واضح جواب ہوتا ہے۔ اور یہی میں نے بھی کیا ہے۔ آپ اس گورکھ دھندے کو سمجھ جائیں گے کہ امام صاحب کب ایک حدیث کی روایت میں کب شاگرد اور کب استاد بن جاتے ہیں، تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گا!

سوال یہ تھا:
محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے؟

آپ نے پھر اس کا واضح جواب نہیں دیا۔
میں نے آپ سے کہا تھا کہ کسی منصف کو بیچ میں لائیں تاکہ وہ آپ کے جواب کے واضح ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرے۔ مجھے آپ کا یہ جواب سمجھ نہیں آیا۔ اسے واضح طور پر لکھیے۔

اشماریہ بھائی! آپ کیاصرف مناظرہ میں ہی جواب دیا کرتے ہیں؟
اشماریہ بھائی! ایسے جان نہیں چھوٹے گی! آپ نے یہ جو فرمایا تھا کہ:
آپ کے اس مرض کا تریاق ہم نے محمود الحسن دیوبندی کے نسخہ سے پیش کیا تھا کہ:
لہٰذا اب آپ اپنا علاج کروائیں! اور تسلیم کریں کہ آپ کی بات غلط تھی!
یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ میں اس کا جواب نہیں دیتا! میان جی ! کوئی جواب ہو گا تو دو گے ! اس کفر و شرک پر کوئی دلیل ہو گی تو پیش کرو گے! آپ نے مقلدین دیوبندیہ کا مؤقف غلط بیان کیا تھا، ہم نے محمود الحسن دیوبندی کی عبارت پیش کرکے آپ کے بیان کی غلطی واضح کر دی ہے!
یہ عجیب کہی کہ یہ مناظرہ نہیں تو اس پر وقت ضائع نہیں کرتا! میاں جی! آپ کو پہلے اتنی لمبی لمبی چھوڑتے وقت یہ سوچنا چاہئے تھا کہ محمود الحسن دیوبندی صاحب آپ کی گپ کے راستے خود بند کر گئے ہیں!
جی ہاں جناب آپ نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ یہ مناظرہ نہیں ہو رہا۔
اشماریہ بھائی، معاملہ کچھ یوں ہے کہ آپ نے جس خیال پر مجھے ڈاکڑ کے پاس جانے کا مشورہ دیا تھا، اسی کو محمود الحسن دیوبندی صاحب واجب قرار دے رہے ہیں! آپ نے اس پر تبصرہ نہیں کیا، کوئی بات نہیں! کیونکہ یہ ہمارا کوئی مناظرہ تو ہو نہیں رہا، ہاں اگر مناطرہ ہوتا تب تو میں نے آپ کو اسی پر باندھ کر رکھنا تھا! ہم نے بہر حال آپ کو بتلا دیا ہے، باقی اس کا جواب اگر آپ دینا چاہیں تو خود دیں، اور اگر ماضی ميں آپ نے اس پر کچھ کلام کیا ہے تو آپ خود تلاش کر کے پیش کر دیں!
اور میں جس چیز پر بحث چل رہی ہو اسی پر جواب دینے کا خود کو پابند سمجھتا ہوں۔ اس پر چوں کہ بحث یا مناظرہ آپ کے بقول نہیں ہو رہا اس لیے میں اس کا جواب یہاں نہیں دے رہا۔ دل چاہے تو الگ تھریڈ بنا لیجیے۔ اور آپ بضد ہوئے کہ یہیں بحث کرنی ہے تو میں آپ کی اس ضد کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ پھر آپ اکیلے کرتے رہیے گا۔
یہاں یہ بات چل رہی ہے کہ عامی پر تقلید لازم ہے یا نہیں۔ علماء کی تقلید کا ذکر یہاں نہیں ہے لہذا میں بھی اس پر بحث نہیں کر رہا۔

ابو زید الدبوسی الحنفی المعتزلی نے جانور کی فہرست میں ''مقلدین '' کو شمار کیا ہے، یا ''غیر مقلدین'' کو؟
ابو زید الدبوسی الحنفی المعتزلی نے اپنا دماغی علاج کروانے کا ''مقلدین'' کو کہا ہے یا ''غیر مقلدین'' کو؟
میں نے اس کے جواب میں پہلے ہی وضاحت سے عرض کیا تھا کہ دبوسی کی "مقلدین" سے مراد وہ نہیں ہے جو آپ مراد لینا چاہ رہے ہیں بلکہ ان کی مراد یہ ہے:
جناب عالی! دبوسیؒ نے یہاں حجج مضلہ کا ذکر کیا ہے۔ یعنی ان چیزوں کا جنہیں مناظرہ میں بطور دلیل کے پیش کیا جائے اور وہ گمراہ کریں۔
جیسے میں مناظرہ کے دوران آپ کو کہوں کہ آپ فلاں چیز پر دلیل بیان کریں اور آپ کہیں کہ بس فلاں نے کہا ہے اور فلاں کا کہنا میرے لیے دلیل ہے، تم بھی مانو۔ تو ایسی تقلید اور ایسے الہام کے پیش کرنے کا ذکر دبوسیؒ نے یہاں کیا ہے۔ اور جناب نے یہ تقلید کے کرنے پر لا چسپاں کیا!
دبوسیؒ نے اس سے پہلے یہ عنوان قائم کیا ہے:
القول في أسماء الحجج التي هي مضلة
هذه الأسماء أربعة: التقليد، ثم الإلهام، ثم استصحاب الحال، ثم الطرد.
پھر آگے طویل بحث کی ہے۔ پھر آپ کے ذکر کردہ جملوں سے پہلے قول بالتقلید کرنے والے سے مناظرہ کرنے کا طریقہ سکھایا ہے:
ولأنا نقول للمقلد: إنك مبطل فقلدني لأني عاقل، فإن قلدك فقد رجع عن مذهبه وأقر أنه مبطل، وإن لم يقلدك فقد رجع عن حجته لأنه لما لم يقلدك فقد زعم أن التقليد باطل.
ولأنا نقول له: أتقلد إمامك على أنه محق أم على أنه مبطل، أم على أنك جاهل بحاله؟
فإن قال على أنه مبطل، أو على أني جاهل بحاله لم يناظر لأنه ممن لم يميز الحق من الباطل فيكون مجنونا، أو ممن زعم أن الباطل متبع فيكون سفيها.
فيبقى قوله على أني أتبعه على أنه محق وقط لا يعرف المحق من غيره بنفس الخبر.
فالمقلد في حاصل أمره ملحق نفسه بالبهائم في إتباع الأولاد الأمهات على مناهجها بلا تمييز فإن ألحق نفسه بها لفقده آلة التمييز فمعذور فيداوى ولا يناظر، وإن ألحقه بها ومعه آلة التمييز فالسيف أولى به حتى يقبل على الآلة فيستعملها ويجيب خطاب الله تعالى المفترض طاعته.
اور جسے میں نے ہائیلائٹ کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے "تو وہ معذور ہے سو اس کا علاج کیا جائے گا اور 'اس سے مناظرہ نہیں کیا جائے گا'"۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حشویہ کا مخصوص مذہب ہے جس کا دبوسی نے رد کیا ہے اور رد سے پہلے ان کا مذہب بھی ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمؑ کی تقلید و اتباع واجب تھی اس لیے جو ان کے بعد آتے جائیں گے ان کی تقلید بھی واجب ہے۔ ذرا سا عقل سے کام لیجیے تو اس تقلید کا کون قائل ہے ہم میں سے؟؟ کیا ہم قابیل کی تقلید کرتے ہیں؟
اس ساری بحث کو آپ نے عامی کی تقلید پر منطبق کر دیا اور دبوسیؒ کا حشویہ کے پیروکار کے بارے میں موجود حکم یہاں لا فٹ کیا۔
دوبارہ عرض کر رہا ہوں:
جناب عالی! دبوسیؒ نے یہاں حجج مضلہ کا ذکر کیا ہے۔ یعنی ان چیزوں کا جنہیں مناظرہ میں بطور دلیل کے پیش کیا جائے اور وہ گمراہ کریں۔
جیسے میں مناظرہ کے دوران آپ کو کہوں کہ آپ فلاں چیز پر دلیل بیان کریں اور آپ کہیں کہ بس فلاں نے کہا ہے اور فلاں کا کہنا میرے لیے دلیل ہے، تم بھی مانو۔ تو ایسی تقلید اور ایسے الہام کے پیش کرنے کا ذکر دبوسیؒ نے یہاں کیا ہے۔

اور جناب نے یہ تقلید کے کرنے پر لا چسپاں کیا!

دبوسی نے یہاں مقلدین کو جانوروں کے شمار نہیں کیا بلکہ قائل بالتقلید یعنی مناظرہ میں تقلید کو بطور دلیل پیش کرنے والے کو شمار کیا ہے۔
یہ کل ملا کر تین بار ہو گئے۔ اگر ابھی بھی آپ کی سمجھ میں یہ واضح بات نہیں آئی اور آپ نے دوبارہ یہ سوال کیا تو میں اسے آپ کی ضد اور اعراض عن الحق سمجھوں گا اور چوتھی بار اس کا جواب نہیں دوں گا۔

اشماریہ بھائی! میری فہم پر اعتراض کرنے سے پہلے، اپنے نسیان کا علاج کروائیں: آپ اپنی تحریر لکھ کر خود بھول جاتے ہو! یہ صحت کا معاملہ بھی فقہائےاحناف سے ماخوذ ہو سکتا ہے، بلکہ اس صحت کے ہی مسائل میں تداوی بالحرام میں فقہائے احناف کے فتاوی یاد دلاؤ ں کیا؟
کھل گیا عشقِ صنم طرزِ سُخن سے مومن
اب چھپاتے ہو عبث بات بناتے کیوں ہو

اگر وہ ڈاکٹر صاحب صرف صحت کی بات کرتے، تب بھی وہ فقہائے احناف سے ہی متاثر معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ فقہائے احناف نے اسے شہوت کے لئے بالاتفاق ممنوع قرار دیا ہے، باقی وجوہات پر فقہائے احناف نے راستہ کھلا چھوڑا ہے!
اور ذرا آپ اپنی تحریر دوبارہ پڑھیں آپ نے اسے ''جائز'' کہنے کا بھی ذکر کیا تھا! اور یہ ''جائز'' کہناتو شرعی حکم ہے میاں جی!
میں آپ کا کلام اور جواب دوبارہ پیش کرتا ہوں:
اشماریہ بھائی! آپ بھی ہو بڑے شرارتی! شرارت آپ کرتے ہوں پھر جب ہم جوا ب دیتے ہیں تو فورم کی انتظامیہ کو پکارتے ہو!مجھے تو خیر یہ معلوم نہیں تھا کہ کسی ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال بھی ہے، نہ میں کسی مبین اختر کو جانتا ہوں، ویسے آپ کو بڑی خبر ہے! لیکن آپ کو خبر نہیں ہے تو اپنے حنفی علما کی نہیں! آیئے ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ آپ کے حنفی علماء اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں:
پھر کیا زلق لگانا جائز ہے۔ تلخیص جواب عینی وغیرہ یہ ہے کہ جس شخص نے اس سے شہوت کا مزہ چاہا تو یہ حرام ہے، چنانچہ مشائخ نے حدیث لکھی کہ ناكح اليد ملعون، ہاتھ کا جماع کرنیوالا ملعون ہے، اور زیلعی رحمہ اللہ نے بعض بزرگوں سے ذکر کیا ہے کہ محشر میں بعضوں کے ہاتھ حاملہ ہونگے۔ تو میرا گمان یہ ہے کہ یہی زلق لگانے والے ہوں گے۔ بالجملہ شہوت پرستی سے یہ فعل بالاتفاق حرام ہے اور اگر اسنے اس سے غلبہ شہوت کو دبانا چاہا در حال یہ کہ اس کو حلال جماع میسر نہیں ہے۔ تو شیخ ابوبکر الاسکاف نے کہا کہ اسکو ثواب ملے گا۔ فقیہ ابو اللیث نے کہا ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت آئی کہ اس کو یہی بہت ہے کہ برابر چھوٹ جاوے، لہٰذا مشائخ نے کہا کہ امید ہے کہ عذاب نہ ہو۔ انزاری رحمہ اللہ نے غابۃ البیان میں کہا کہ میرے نزدیک قول ابو بکر الاسکاف صحیح ہے۔ عینی رحمہ اللہ نے کہا کہ امام احمد سے اجازت اور جدید قول شافعی میں حرمت ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ یہاں یہ اشکال وارد ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ وغیرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اختصاء کی اجازت چاہی تھی اور مخنث ہو جانا مقصود نہ تھا کیونکہ اسکی نفيحت تو بدیہی ہے بلکہ کمی شہوت پس اگر زلق جائز ہوتا تو یہ مقصود حاصل ہو جاتا لہٰذا صحیح وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے اور شیخ ابو بکر رحمہ اللہ وغیرہ کے قول میں تاویل یہ ہے کہ اگر اجنبیہ عورت سے تخلیہ ملا کہ خوف زنا ہے، پس اس نے زلق سے مادہ مہیجہ نکال دیا تو اِس حالت میں روا بلکہ امید ثواب ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 1112 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مکتبہ رحمانیہ، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 893 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ
کیا یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ ابو بکر الاسکاف الحنفی اور اور انزاری الحنفی نے تو کنوارے ہونے کی صورت میں، اس زلق لگانے یعنی مشت زنی کو کارِ ثواب قرار دیاہے، اس پر تفصیل بیان کرنے کی نہ میری خواہش ہے ، اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا! مگر اتنا بتلا دوں کہ ان مسائل میں نہ الجھنا!بہر حال یہ ڈاکٹر صاحب فقہائے احناف سے متاثر معلوم ہوتے ہیں!
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے

ڈاکٹر کی جانب جب جائز میں نے نسبت کی تو اس سے مراد اس کی اپنی فیلڈ میں جائز تھا نہ کہ شرع میں۔ ڈاکٹر کا شرعی احکام کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کیا اعتبار۔ اس لیے آپ نے بلا فائدہ یہ بحث اس جگہ چھیڑنے کی کوشش کی ہے۔ ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ یہاں تقلید کی بحث ہو رہی ہے اس مسئلہ کی نہیں۔
نیز میں نے یہ جملہ معترضہ کے طور پر کہا تھا اور اپنی عادت کے مطابق اس پر بھی بحث لے کر بیٹھ گئے۔
اب اگر میں اس پر بحث كروں اور نواب نور الحسن بن صدیق حسن خانؒ كی عرف الجادی ص 214 كی عبارت یہاں لکھوں جس میں کار ثواب سے بڑھ کر اسے واجب قرار دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ بعض اہل علم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے بھی اسے نقل کیا ہے تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ یہ اس بحث سے خارج ہوگا اس لیے میں یہاں یہ سب ذکر کرنا نہیں چاہتا۔
پھر بھی اگر آپ کو شوق ہے اس پر بحث کا تو الگ تھریڈ میں کیجیے۔
 
Top