السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پچھلے مراسلہ میں میں نے لفظ ''جھوٹ'' کا استعمال کیا، عموماً میں ایسا کرتا نہیں ہوں، اس سے ذرا کم درجہ کا لفظ استعمال کرتا ہوں، لیکن مجھے اشماریہ بھائی کے رویہ پر بہت غصہ تھا؛
کہ اگر انہیں انتطامیہ سے گفگتو کرنی تھی، تو وہ پہلے انتظامیہ سے گفتگو فرما لیتے ، پھر آپنے جواب کا آغاز کرتے، خود پہلے اپنے جواب کا ایک حصہ رقم کر دیا، اور مجھے اس حصہ کا جواب لکھنے سے پہلے ہی انتظامیہ کو بیچ میں داخل کر دیا! خیر اب جو ہوا سو ہوا!
خضر حیات بھائی!
اللہ آپ کو جزائے خیر دے! ایک بات مد نطر رکھیئے گا کہ میرا اور اشماریہ کا نہ بھینس کا جھگڑا ہے اور نہ روپے پیسے کا، ہمارا جھگڑا بس اس بحث میں ہونی والی گفتگو کا ہے،
اشماریہ صاحب کی شکایت یہ ہے کہ:
کیوں کہ میں نے آگے بھی نظر ڈالی ہے تو میرے سوالات کے سیدھے اور عام فہم جواب (یا عام فہم جواب کی تعیین) کے بجائے آپ نے کاپی پیسٹ کا شاندار مظاہرہ کیا ہوا ہے۔ وہ تو اگر آپ کاپی نہ کرتے تب بھی میں نے پڑھ لیا تھا۔ مجھے سیدھا جواب چاہیے تھا اور وہ آپ نے دیا نہیں، نہ پہلے اور نہ اب۔
مسئلہ یہ ہے کہ محترم ابن داود بھائی نہ تو میرے کسی سوال کا واضح جواب دے رہے ہیں، نہ کسی بات پر پیدا ہونے والے کسی اعتراض کو حل کر رہے ہیں اور نہ اپنی دلیل کو واضح کر رہے ہیں۔
اشماریہ صاحب کا یہ کہنا کہ انہیں واضح جواب نہیں دیا گیا، یہ ہمارے جواب کا نقص نہیں بلکہ اشماریہ صاحب کی آنکھوں میں جو تقلید کا موتیا آگیا ہے اس کے ہے!
اب جس کی آنکھوں میں تقلیدی موتیا ہو اسے تو وواضح نظر نہیں آنا!
اشماریہ صاحب کی ایک ایک بات کا جواب دیا گیا ہے، اور اس بات کا جواب بھی دیا گیا ہے، جس کے متعلق اشماریہ صاحب کو شاید یہ گمان تھا کہ انہیں ان باتوں کا جواب نہیں ملے گا! اشماریہ صاحب نہ یہ کہتے ہوئے کہ ان کے سوالات و اعتراضات کا جواب نہیں دیا گیا، انیس (19) سوالوں پر مبنی ایک سوال نامہ تیار کیا جو کہ
پوسٹ نمبر 80 میں ہے، اور چونکہ ہم ان تمام سوالوں کے جوابات دے چکے تھے، اور اس بات کو عیاں کرنا بھی مقصود تھا کہ اشماریہ صاحب یہ غلط بیانی کر رہے ہیں کہ ہم نے ان کے سوالات کے جوابات نہیں دیئے،
پوسٹ نمبر 92 سے پوسٹ نمبر 104 تک میں اشماریہ صاحب کے ان انیس (19) سوالوں کے جوابات دوبارہ اقتباس کی صورت میں پیش کئے، جو اس سے قبل بھی کئی بار دہرائے جا چکے تھے!
اور ہم نے اشماریہ صاحب کی باتوں کو جہاں حکمت چین و حجت بنگال قرار دیا ہے، وہاں اس کی وجہ بھی لکھی ہے!
صرف ایک مسئلہ ایسا ہے، جہاں ہم نے اشماریہ صاحب کے سوالات کے جواب نہيں دیئے ، لیکن وہاں بھی اعتراضات کے جوابات ضرور دیئے ہیں:
اور وہ مسئلہ ہے؛
کتاب کی گواہی کے قبول ہونے کا:
ہم نے اس مسئلہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث دلیل کے طور پر پیش کی تھی، وہاں اشماریہ صاحب نے کیا خوب اعتراض پیش کیے ہیں: اس کی ایک جھلک یہاں پیش کرتا ہوں:
ہماری بات چل رہی ہے محدث جیسے البانی، مسلم، بخاری، ترمذی وغیرہ کے "فیصلے" کے بارے میں جو وہ سابقہ محدثین کے اقوال ان کی یا کسی اور کی کتب میں دیکھ کر ان کے مطابق کریں۔
اس قیاس کے ارکان یہ ہوئے:
اصل: رسول اللہ ﷺ، تورات میں حکم رجم
فرع: یہ محدثین، کتب محدثین
علت: کتابت ہونا
حکم: کتابت پر گواہی کو قبول کرنا۔
میں لاحول نہ پڑھوں تو کیا کروں؟ کیا آپ محدثین کو حضور ﷺ پر قیاس کر رہے ہیں اور کتب محدثین کو آسمانی کتاب کے اس حکم پر جس کی تائید خود قرآن کریم نے کی ہوئی ہے؟ اور علت اس کی صرف کتابت ہونا ہے؟
کیسا عجیب قیاس ہے!!!
حالانکہ ہم نے کوئی قیاس نہیں کیا تھا یہ سب اشماریہ صاحب کی اپنی قیاس آرئیاں تھیں!
ہمم۔ تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ آپ نے قیاس نہیں فرمایا بلکہ ڈائریکٹ حدیث سے استدلال فرمایا ہے۔
ڈائریکٹ حدیث سے استدلال تب ہوتا ہے جب حدیث میں اس کام کا حکم یا نہی وغیرہ ہو۔ آپ کی حدیث میں آخری نبی (اللہم صل علیہ و آلہ) آسمانی کتاب سے حکم دیکھ رہا ہے۔ ڈائریکٹ استدلال میں یہی ہوگا نا کہ جو بھی آخری نبی ہو وہ آسمانی کتاب سے حکم دیکھ سکتا ہے؟؟؟ یہ استدلال کہاں سے آگیا کہ آخری نبی نے آسمانی کتاب سے حکم دیکھا ہے روایت میں اس لیے محدث حکم کی گواہی قبول کرسکتا ہے محدث کی کتاب سے۔ جو میں نے سرخ رنگ سے لکھا ہے اسے ذرا روایت سے ڈھونڈ کر دکھائیے نا۔ (سنا تھا کہ صرف قادیانی ہی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔)
سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی ميں دیکھئے اشماریہ صاحب کیا فرماتے ہیں:
میرے محترم اتباع سنت کا تو آپ کو ماشاء اللہ بہت شوق ہے۔ لیکن عمل پوری حدیث پر کیجیے نا پھر۔ پہلے کسی یہودی کو بن دیکھیں بتائیں کہ تورات میں فلاں حکم ہے پھر اس کے انکار پر تورات منگوا کر اس سے دیکھیے۔
یہ اتباع سنت کے درمیان میں تورات محدث کی کتاب سے کیوں چینج ہو رہی ہے؟؟؟
اشماریہ صاحب کے ان بیہدہ اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے!
بس صرف ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہم نے نہیں دیا، اور وہ یہ ہے:
دوسرے لفظوں میں ڈائریکٹ استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
یہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہے، اس لئے ہم نے کہا ہے کہ اگر اشماریہ صاحب کو ہمارے استدلال پر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں، لیکن اشماریہ صاحب کو استفسار اور اعتراض کا فرق نہين معلوم ، لہٰذا ہم نے انہیں فرہنگ آصفیہ کا لنک بھی فراہم کیا کہ آپ وہاں دیکھ لیں کہ استفسار اور اعتراض میں کیا فرق ہے!
اس ایک سوال کے علاوہ اشماریہ صاحب کے تمام سوالات کا جواب دیا گیا ہے!
یہاں تک کہ دار العولم دیوبند کے فتاوی سے بھی بتلایا کہ انہوں نے بھی محدثین کو قاضی فیصل بھی مانا اور کتابوں کو گواہ!
تو اشماریہ صاحب فرماتے ہیں:
اور یہاں ان مسائل اور حوالہ جات میں اس بات کا (کہ قاضی یا اس جیسی حیثیت والے محدث کی مجلس میں یہ کتابیں بطور گواہ کے قبول ہیں) ذکر کہاں ہے؟ کیا اتنا بھی نہیں سمجھ آتا کہ مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے؟؟
پھر طرہ یہ کہ وہاں ہم کہہ رہے ہیں کہ محدث کی کتاب کسی غیر کے بارے میں گواہ کے طور پر قبول ہوگی یا نہیں اور یہاں ذکر ہے عموما (یہ عموما آپ کے لیے خصوصی طور پر لکھا ہے تا کہ آپ پھر غلط نہ سمجھ بیٹھیں) مصنف کی کتاب کا مصنف کے اپنے بارے میں بطور گواہ کے ہونے کا۔ کتنا فرق ہے!!
پھر مزید یہ کہ ابھی تک تو آپ نے دلیل ہی پیش نہیں کی۔ ہماری کتابوں سے ہم پر حجت قائم کرنے کا مرحلہ تو عقلا بعد میں آتا ہے۔ آپ ڈائریکٹ یہاں پہنچ گئے؟ پہلے اپنے موقف کو تو ثابت کریں۔ آپ نے کہیں ہماری کتب سے تو اپنا موقف نہیں نکال لیا؟؟ اور وہ بھی اپنی "فہم" کے مطابق؟؟؟
اب یہ کس نے کہا تھا کہ ایک کی کتاب دوسرے کی گواہی بھی دے گی، ہاں اگر مصنف ثقہ ہے تو اس کی صحیح سند سے بیان کردہ بات کی گواہی لی جائے گی کہ مصنف نے سند بیان کی ہے، اور اسے اپنی کتاب میں ذکر کردیا!
اشماریہ صاحب نے مثال و ممثل له کا فرق نہیں بتلایا بس کہہ دیا کہ مطابق نہیں!
باقی اشماریہ صاحب یہ جو فرماتے ہیں کہ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں، یہ اشماریہ صاحب، کی غلط بیانی ہے!
جو باتیں زیر بحث آئیں؛
1: امام بخاریؒ یا امام بخاریؒ اور امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کا ''آخر ما به فرق'' کا سوال اشماریہ صاحب نے خود کیا تھا :
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
بالآخر اشماریہ صاحب کہتے ہیں کہ اس پر علیحدہ تھریڈ میں گفتگو کریں گے!
2: امام طحاویؒ کے مقلد ہونے نہ ہونے کا!
امام طحاوی رحمہ اللہ کو بھی اشماریہ صاحب خود بحث میں لائے تھے یہ کہہ کر:
میں نے مثال کے طور پر کہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک محدث بنا دے امام طحاوی کی طرح۔
آمین! لیکن اس کے لئے آپ کو تقلید ترک پڑے گا ، کیونکہ امام طحاوی کے نزدیک تو تقلید وہی کرتا ہے جو غبي ہو یاعصي ہو!
3: نماز کو تسلیم کے بجائے ''پاد مار'' کر ختم کرنے کا مسئلہ بھی اشماریہ صاحب کی اس غلط بیانی کے جواب میں تھا،
تو میں انہی کے موقف کی بات کر رہا ہوں۔ البتہ آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ کتاب میں مجتہد جو لکھتا ہے وہ اس کا اجتہاد ہوتا ہے تو اگر آپ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ صرف تحری اور غور وفکر ہوتا ہے تو یہ بات درست نہیں۔ بلکہ مجتہد نے دلائل سے یعنی قرآن و حدیث و اجماع سے جو مسائل اخذ کیے ہوتے ہیں وہ لکھتا ہے اور وہ مسائل لکھتا ہے جن میں ان ادلہ ثلاثہ پر قیاس کیا گیا ہو۔ پھر بعض مسائل وہ ہوتے ہیں جو فقط اجتہاد و تحری ہو۔ کیا آپ نے کبھی المبسوط کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر نہیں تو ہدایہ تو پڑھی ہی ہوگی جس کا آپ بار بار ذکر کر رہے ہیں۔ اس کی بنیاد قدوری اور مبسوط ہی ہیں۔ تو کیا صرف تحری والے مسائل ہیں اس میں؟؟؟
تو اب امام محمد نے جو موقف قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سے اخذ کر کے لکھا ہم اسے تو قبول کرسکتے ہیں نا آپ کے اصول کے مطابق؟
اس مسئلہ کی بحث میں اشماریہ صاحب نے مجھے الزام دے دیا کہ میں یہ غلط بیان کر رہا ہوں، اور حنفیہ کا تمت صلاتہ کا معنی وہ نہیں، جو میں بیان کیا ہے!
یہ اشماریہ صاحب یا تو فقہ حنفیہ سے جاہل ہیں، یا جھوٹ بول رہے ہیں، اس کا ثبوت تو ہم نے بحث میں پیش کر دیا ہے؛
پھر اشماریہ صاحب فرماتے ہیں:
اس كے لیے ایك الگ تهریڈ بنا دیں۔ امید ہے آپ کو بنانا آتا ہوگا۔ جب موقع ملے گا اس پر وہاں بات کریں گے۔
اس مسئلہ کا اس موضوع سے کیا تعلق ہے؟؟؟ (امید ہے اب ڈھونڈ کے تعلق لائیں گے۔)
اشماریہ صاحب کو پھر ایسے بے سرو پا دعوی نہیں کرنے چاہئیں! یہ دعوی کیوں کیا تھا ا س تھریڈ میں! گو کہ یہ بات بھی درست نہیں، تقلید من امور میں کرتے ہو؟ کیا اس مسئلہ میں تقلید نہیں کرتے؟
اب اشماریہ صاحب کہتے ہیں کہ:
میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ میں نے یہ کہا ہے کہ کسی مجتہد کا مسئلہ بمع دلیل پیش کریں میں اس کے طرز استدلال کی وضاحت کروں گا۔ آپ نے ایسے عالم کا مسئلہ پیش کیا جو آپ کے نزدیک مجتہد ہی نہیں ہے اور اس کی دلیل بھی پیش نہیں کی۔ تو میں طرز استدلال کی وضاحت کہاں سے کروں؟
بات کچھ چل رہی ہوتی ہے اور آپ کچھ کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ مانتے بھی نہیں ہیں۔
البتہ اگر آپ کو اعتراض اس مسئلہ پر ہے تو پھر آپ الگ تھریڈ میں اس کو لکھ سکتے ہیں۔
باقی الگ تھریڈ میں لکھتے وقت اسی مسئلہ کو البحر الرائق سے پڑھ لیجیے گا۔ اور دل چاہے تو حاشیۃ ابن عابدین سے بھی دیکھ لیجیے گا۔
یہاں فقہ حنفیہ کے مسائل پر بحث ہو رہی ہے یا تقلید کے موضوع پر؟؟؟
تو پھر فقہ حنفہ اور فقہائے احناف کے قصیدے یہاں کیوں پڑھنے لگ جاتے ہو!
اشماریہ صاحب کو پھر ایسی بے تکی ہانکنے سے گریز کرنا چاہئے تھا؛
اشماریہ صاحب! اس آخری بات کا جواب باقی ہے، وہ بھی آئے گا ان شاء اللہ!
4: فقہ حنفہ کا مسئلہ کا قرآن وحدیث کے خلاف ہونا واضح ہو جانے کے بعد بھی امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہونا:
یہ بات بھی اشماریہ صاحب کی سے شروع ہوئی:
البتہ آپ کی یہ بات قبول ہے: "اجتہاد میں اگر اختلاف ہو جائے تو جس کا اجتہاد درست معلوم ہو اسے ہی قبول کیا جائے گا اور دوسرے کو مخطئ قرار دیا جائے گا۔ یہ بالکل اس آیت کے ذریعے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے۔"
اور یہ بات قبول نہیں : "لیکن یہ اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ جب، کسی مجتہد کی خطاء بیان کردی جائے تب بھی اسی مجتہد کے قول سے چمٹا جائے!! بلکہ اسے ترک کرنا لازم آتا ہے۔" اور قبول نہ ہونے کی وجہ بہت سمپل ہے کہ بسا اوقات آپ کے نزدیک ایک چیز واضح ہوتی ہے اور دوسرے کے نزدیک نہیں ہوتی۔ تو اس پر یہ لازم ہے کہ جسے آپ خطاء کہہ رہے ہیں وہ اسے خطاء نہ سمجھتے ہوئے بھی جناب کی بات مانے؟؟؟ ایسا نہیں ہے اور اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ فرمائیے۔
بجائے اس بات کے کہ اشماریہ صاحب، اپنی غلطی قبول کرتے، اشماریہ صاحب یہ کہہ کر اس مسئلہ سے کنی کترا گئے!
ویسے اس مسئلہ پر میں اور بھی بحث کر چکا ہوں۔ دل چاہے تو سرچ کر لیجیے اور وہاں میرا رد بھی فرما دیجیے۔ اس مقام پر میں نے ابن تیمیہؒ کےحوالےسےبھی غالباکافی کچھ عرض کیاتھا۔
اور اس ڈاکٹر کے پاس جانے کے جواب میں تو میں نے انہیں حنفیوں کے ہی ابو زید الدبوسی کے پاس بھیج دیا تھا، جنہوں نے مقلدین کو ڈنگر بتلایا ہے! وہ تو خیر ایک ضمنی سی بات رہی!
5: تقی عثمانی صاحب کی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت کا ذکر آیا:
یہ بھی اشماریہ صاحب خود بحث میں لائے تھے:
ہاں میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ ہم لوگ بھی ہر عالم و غیر عالم کی ایک ہی طرح کی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ تفصیل کے لیے "تقلید کی شرعی حیثیت" مصنفہ مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ پڑھیے۔
6: امام بخاری پر تدلیس کی تہمت دھری اشماریہ صاحب نے:
جب امام بخاری تدلیس کر سکتے ہیں (چاہے بعد میں آنے والوں نے لاکھ توجیہات کی ہوں) تو یہاں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اس کا تو انہیں وہ جواب دیا گیا ہے کہ مراقبہ کر کر کے محمود الحسن دیوبندی کی روح سے تعلق قائم کر کے جواب مانگ رہے ہوں گے!
7: فقہ حنفی اور مشت زنی کا مسئلہ:
اشماریہ صاحب! یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی اس طرح کی باتوں سے ہم پر طعن کر سکیں گے! یہ مسئلہ بھی اشماریہ صاحب خود بحث میں لائیں ہیں:
(ویسے ایک اضافی سوال یہ ہے کہ کراچی نفسیاتی ہسپتال کا مشورہ آپ نے اس لیے تو نہیں دیا کہ وہاں کے (غالبا) ایڈ منسٹریٹر ڈاکٹر مبین اختر استمناء بالید کو جائز اور صحت کے لیے بہتر فرماتے ہیں؟؟)
اور جب اشماریہ صاحب کو یہ مسئلہ فقہ حنفی اور فقہائے احناف سے بتلایا کہ کچھ فقہائے احناف تو اسے کارِ ثواب بھی بتلاتے ہیں، تو بجائے اپنی اور فقہائے احناف کی غلطی تسلیم کرنے لینے کہ اشماریہ صاحب ایک اور جھوٹ بولتے ہیں اور الزام میری فہم کو دیتے ہیں جب کہ اپنی کھوپڑی کا یہ عالم ہے کہ اپنی ہی بات یاد نہیں کہ خود کیا لکھا تھا:
لو جی ایک بار پھر ترک تقلید کا دعوی ہے بغیر فہم فرق کے۔
یار میں نے کہا ہے کہ وہ صحت کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ اور جناب نے شرعی مسائل میں کلام شروع کر دیا۔ آپ کو فرق نظر نہیں آتا کیا صحت اور شریعت میں؟؟؟
8: تبلیغی نصاب ایک دماغی مریض کی کتاب ہے:
اس کا سہرا بھی اشماریہ صاحب کو ہی جاتا ہے:
میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنا میڈیکل چیک اپ کروا لیں تو بہت اچھا ہوگا۔
ہم نے بتلا دیا کہ نیم پاگل کیفیت میں کون تحریر فرماتے ہیں ! وہ بھی دینی کتب!
09: مدرسہ اہل الرائے کا علم الحدیث میں یتیم و مسکین ہونے کا مسئلہ!
یہ بات بھی اشماریہ صاحب کے اس بے سروپا دعوی پر شروع ہوئی، کہ خرد کا نام جنوں اور جنوں کا خرد بتلاتے ہوئے اشماریہ صاحب فرماتے ہیں:
مدرسہ اہل الرائے کا ایک طرز معروف تھا کہ یہ تمام روایات کو جمع کرکے ان سے ایک مسئلہ اخذ کرتے تھے نہ کہ اصح ما فی الباب سے فقط۔ اس کے علاوہ صحابہ و سلف کے عمل کو بھی بغور دیکھتے تھے۔ امام طحاویؒ کی شرح معانی الآثار میں مختلف مقامات پر یہی طرز نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر امام اعظمؒ کےاصولوں کی واضح جھلک ملتی ہے۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ امام طحاوی ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں۔
ابھی اس پر بحث جاری ہے، اور اب تک تو اشماریہ صاحب نے کیا خوب فنکاری دکھلانے کی کوشش کی ہے!
10:مرجیہ کی بحث:
مرجیہ کی بحث بھی اشماریہ صاحب کی اس فرمان کی وجہ سے شروع ہوئی:
بہر صورت مرجئہ کی دو قسمیں ہیں: ایک مرجئۃ البدعۃ اور دوسری مرجئۃ السنۃ۔
اس دوسری قسم کو مرجئۃ الفقہاء بھی کہا جاتا ہے۔ اور انہیں مرجئہ کہنے کی وجہ یہ بنی کہ یہ ایمان کے بسیط ہونے کے قائل تھے۔ ان کے پاس اس سلسلے میں اپنے مضبوط دلائل ہیں۔ اور ان دلائل کی روشنی میں ظاہر ہے انہیں بدعتی نہیں کہا جا سکتا۔ لہذا ابن تیمیہؒ کا یہ فتوی درست نہیں ہے۔
خضر حیاب بھائی! اب ذرا اشماریہ صاحب سے کہیں کہ وہ کوئی ایک بات ایسی بتلا دیں، جو ہم نے شروع کی ہو!
ہم نے تو اب تک اشماریہ صاحب سے کوئی اعتراضی سوال بھی نہیں کیا! سوال صرف اور صرف ''فقہ حنفی میں نماز کو سلام کے بجائے ''پاد مار کر'' ختم کرنے کو حوالہ سے کیا ہے، کہ اس کی کوئی دلیل ہو تو پیش کر دیں! اس کے علاوہ تو ہم نے کوئی ایک سوال بھی نہیں کیا!
اشماریہ صاحب کبھی کہہ دیں گے یہ کتاب دیکھ لیں ، وہ کتاب دیکھ لیں، عبارات بھی پیش نہیں کرتے بس اپنی طرف سے اناپ شناپ لکھے چلے جارہے ہیں، سوائے انہوں نے محمد بن حسن الشیبانی کی بحث کو کوئی عبارت تک پیش نہیں کی!
بس لکھ ماری، اب قارئین کو یہ بتلانے کے لئے کہ اشماریہ صاحب غلط بیانی کر رہے ہیں (غلط بیانی میں لکھ رہا ہوں، ذہن میں کچھ اور لفظ ہے) ہم کتابوں سے عبارت لکھتے ہیں اور ان کتاب کو ان لائن لنک وہ بھی متعدد اشاعت کے پیش کرتے ہیں!
اشماریہ صاحب! وہ سوال کا اقتباس پیش کریں، یا اعتراض کا سوائے اس ایک سوال کے علاوہ، کہ جس کے متعلق ہم نے کہا ہے کہ آپ ہمارے استدلال پر اعتراض کیجئے! جس کا جواب نہیں دیا گیا ہو!
خضر حیات بھائی! اشماریہ صاحب کا اصل مسئلہ کچھ اور ہے، وہ وہ مجھ سے نہیں ہے، وہ امام دارقطنی رحمہ اللہ سے ہے، کہ انہوں نے قاضی ابو یوسف کو'' اندھوں میں کاان رجا'' قرار دے کر اشماریہ صاحب کی اٹکل کے گھوڑے باندھ دیئے ہیں! اس پر مزید ہوا کچھ یوں کہ مقدمہ ابن الصلاح اور فتح المغیث نے ان کی لغت دانی کی دوڑ بھی محدود کر دی ہے!
ہمارے اشماریہ بھائی کے پاس اب سوائے کسی بہانے کہ اس بحث کو چھوڑنے کے اور کوئی راستہ نہیں!
اور یہ تو میں نے اشماریہ صاحب کو پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ :
اگلی باری وی نسن دا بہانہ سوچ کر آئیں!