السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر امام احمدؒ کے ان اقوال کو نقل کرنے سے پہلے آپ امام احمد کا یہ قول بھی دیکھ لیتے تو شاید آپ کو اتنی غلط فہمی نہ ہوتی:
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا
ترتیب المدارک (1، 22)
"احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: ہم مستقل اہل رائے کو لعن کرتے تھے اور وہ ہمیں یہاں تک کہ شافعی آئے تو انہوں نے ہمیں جمع کر دیا"
امام احمدؒ کا یہ قول بتاتا ہے کہ اہل رائے کے بارے میں موجود ان کے عجیب و غریب اقوال جن میں سے بعض جناب والا نے ذکر کیے ہیں اس زمانے کے تھے جب امام شافعیؒ نے ان کی غلطی کی اصلاح نہیں کی تھی۔ اور بعد میں ان کے یہ اقوال تبدیل ہو گئے۔
لہذا اوپر جو آپ نے اصحاب الرائے اور اصحاب ابو حنیفہ کے بغض وغیرہ کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ اس قول کے بعد قطعا بے فائدہ ہے۔ ویسے تو اس میں اور بھی علل ہیں لیکن جب اس سے قائل نے رجوع کر لیا تو پھر ان کے بیان کا کوئی فائدہ نہیں۔
رہ گئی بات جہمی ہونے کی تو جب قائل خود اس کے خلاف کہہ رہا ہے تو کسی اور کی بات کی کیا حیثیت ہے؟
اور رہا آپ کا عجیب و غریب فیصلہ کہ امام احمد کی مراد نقد ہے تو میرے بھائی! امام احمد کے الفاظ میں تو یہ موجود نہیں ہے۔ لہذا یا تو اسے ثابت کریں کسی محدث سے اور یا پھر امام احمد کی کتب سے یہ ثابت کریں کہ انہوں نے فقہ حنفی کے تمام دقیق مسائل میں نقد و رد کیا ہو۔ فقط آپ کے قول کا کیا فائدہ؟؟؟
اشماریہ بھائی ! آپ نے امام احمد بن حنبلؒ کی محمد بن الحسن الشيبانی ؒ پر جرح کو تسلیم تو کر لیا، اور اہل الرائی پر نقد کے اقوال کو بھی تسلیم کرلیا، مگر آپ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ نے بعد میں اس سے رجوع کر لیا۔ اس رجوع کے ثبوت میں آپ نے قاضی عیاض کی کتاب سے جو حوالہ پیش کیا ہے، اس کا سیاق پیش کرتے ہیں، کہ قاضی عیاضؒ نے دراصل وہاں بیان کیا کیا ہے۔
قاضی عیاض ؒ کی مکمل عبارت یہ ہے:
(فصل) وأما أبو حنيفة فإنه قال بتقديم القياس والاعتبار على السنن والآثار، فترك نصوص الأصول وتمسك بالمعقول وآثر الرأي والقياس والاستحسان، ثم قدم الاستحسان على القياس فأبعد ما شاء.
وحد بعضهم استحسان أنه الميل إلى القول بغير حجة.
وهذا هو الهوى المذموم والشهوة والحدث في الدين والبدعة، حتى قال الشافعي من استحسن فقد شرع في الدين.
ولهذا ما خالفه صاحباه محمد وأبو يوسف في نحو ثلث مذهبه إذ وجدوا السنن تخالفهم تركها لما ذكرناه عن قصد لتغليبه القياس وتقديمه أو لم تبلغه ولم يعرفها إذ لم يكن من مثقف علومه وبها شنع المشنعون عليه وتهافت الجراء على دم البراء بالطعن إليه.
ثم ما تمسك به من السنن فغير مجمع عليه، وأحاديث ضعيفة ومتروكة وبسبب هذا تحزبت طائفة أهل الحديث على أهل الرأي وأساءوا فيهم القول والرأي.
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا يريد أنه تمسك بصحيح الآثار واستعملها، ثم أراهم أن من الرأي ما يحتاج إليه وتنبني أحكام الشرع عليه، وأنه قياس على أصولها ومنتزع منها.
وأراهم كيفية انتزاعها، والتعلق بعللها وتنبيهاتها.
فعلم أصحاب الحديث أن صحيح الرأي فرع الأصل، وعلم أصحاب الرأي أنه لا فرع إلا بعد الأصل، وأنه لا غنى عن تقديم السنن وصحيح الآثار أولاً.
اور ابوحنیفہؒ اس بات کے قائل ہیں کہ قیاس و اعتبار مقدم ہے سنن و آثار پر، اسی بنا پر انہوں نے (کئی جگہ )اصول کے نصوص کو ترک کرکے معقول سے تمسک کیا ہے، اور رائے ، قیاس اور استحسان کو (نصوص پر ) ترجیح دی ہے ؛ اور (اسی نصوص گریزی میں اتنا مبالغہ کیا کہ ) پھر (کئی ایک مقام پر ) استحسان کو قیاس پر بھی مقدم کردیا ؛
اور بعض علماء نے استحسان کی تعریف یہ بیان کی ہے۔کہ استحسان (حکم کی علت سے صرف نظر کرکے )بے دلیل قول کی طرف جانے کا نام ہے ۔ اور یہ انتہائی قابل مذمت من پسندی ،اور خواہش پرستی ہے؛اور ایسا کرنا دین سازی اور بدعت ہے؛ حتی کہ امام شافعی فرماتے ہیں :جس نے استحسان کیا ،اس نے اپنی طرف سے دین گھڑا۔
اسی لئے ان کے دو اصحاب، محمدؒ ،اور ابو یوسفؒ نے ابو حنیفہؒ کے ایک تہائی مذہب کی مخالفت کی ہے ،جہاں انہوں نے سنت کو ان کے مذہب کے خلاف پایا اس کو چھوڑ دیا ۔جیسا کہ ہم نے ابوحنیفہؒ کا عمداً قیاس کا غلبہ اور قیاس کو نصوص پر مقدم کرنا بیان کیا ، یا اس لئے بھی انہوں سنن کے مخالف رائے کو اپنایا کہ انہیں ان سنن کا علم ہی نہیں تھا ۔کیونکہ وہ احادیث کے علوم و فنون کی مہارت و فطانت سے دور تھے، اور اسی سبب لوگوں نے ان کی عیب جوئی کی اور ان پر طعن کے نشتر چلے، اور جن مسائل میں انہوں نے سنت کا دامن تھاما بھی ،تو اختلافی اسانید والی احادیث کو ماخذ بنالیا، یا ضعیف و متروک روایات کو بنیاد بنایا اور اسی سبب اہل الحدیث نے اہل رائے سے علیحدگی کی راہ لی اور ان کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنا کر ان کے بارے سخت لہجہ استعمال کیا
امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ :ہم ہمیشہ (اہل الحدیث ) اہل الرائے پر ،اور وہ ہم پر لعنت ہی کرتے رہے ،حتی کہ امام شافعیؒ آئے،انہوں نے ہمیں باہم ملایا، ان کا مطلب ہے کہ انہوں ایک طرف صحیح احادیث کو فقہی امور میں قبول کیا اور ان پر عمل درآمد کیا ۔
پھر دکھایا کہ بعض جگہ رائے (یعنی قیاس و استنباط ) کی بھی حاجت ہوتی ہے اور احکام شرع اس پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ رائے دراصل، احکام کا اپنے اصولوں پر قیاس ہے ،انہوں اس کی کیفیت سمجھائی اور بتایا کہ کیسے علت حکم کو دریافت کیا جاتا ہے۔
امام شافعی ؒ (کے تدوین اصول فقہ )کے بعد اصحاب الحدیث نے سمجھا کہ صحیح رائے اصل کی فرع ہوتی ہے، اور اہل رائے نے یہ بات جان لی ۔۔کوئی فرع اصل کے بغیر نہیں ہوسکتی،اور (مصادر حکم کیلئے ) سب سے پہلےسنن اور صحیح آثار کو سب پر تقدیم دینا لازم ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 90 – 91 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - المملكة المغربية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 39 – 40 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية، بيروت
اشماریہ بھائی! اب اس عبارت سے آپ نے جو استدلال کیا تھا، وہ از خود واپس لیں لیں، کیونکہ اس عبارت نے محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، مگر ''امام صاحبؒ'' کے لئے بہت مضر ثابت ہوئی ہے! اب آپ فیصلہ کر لیں کہ کیا کرنا ہے! لہٰذا، اس پر مفصل بیان اگلی تحریر تک مؤخر کرتا ہوں!
اشماریہ بھائی! آپ کے الفاظ یاد دلاؤں؟
میرے محترم بهائی جان! یہ سیاق و سباق کو دیکھے بغیر اقتباس دینے کی عادت جناب میں کہاں سے آگئی؟؟؟
اشماریہ بھائی نے فرمایا کہ:
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا
ترتیب المدارک (1، 22)
"احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: ہم مستقل اہل رائے کو لعن کرتے تھے اور وہ ہمیں یہاں تک کہ شافعی آئے تو انہوں نے ہمیں جمع کر دیا"
اشماریہ بھائی! آپ کا یہاں سے امام احمد بن حنبلؒ کا اہل الرائے اور محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے متعلق مؤقف سے رجوع اخذ کرنا سوائے اٹکل کے گھوڑوں کو بے لگام دوڑانے کے کچھ نہیں۔
حتی جاء الشافعي، تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ امام الشافعیؒ 184 ھجری میں عراق آگئے تھے، 189 ھجری کو عراق سے واپس گئے، یعنی امام احمد بن حنبلؒ کے محمد بن حسن الشیبانی ؒ پر جرح اور اہل الرائے پر نقد کے اقوال 189 ہجری سے قبل کے ہونے لازم ہیں۔ اس قول کو اگر امام احمد بن حنبلؒ کی اپنے اقوال سے رجوع کی دلیل بنانے کے لئے تو یہ لازم ہے، مگر پھر بھی کوئی منچلہ کہہ سکتا ہے کہ امام الشافعیؒ دوبارہ بھی تو عراق آئے تھے!! تو اول تو بات یہ ہے کہ اس قول کے الفاظ ہیں،
''حتی جاء الشافعي'' یہ الفاظ امام الشافعیؒ کی پہلی آمد پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی، امام الشافعیؒ دوسری بار 195 ہجری میں تشریف لائے ، تقریباً دو سال قیام کیا اور 197 ہجری میں واپس لوٹ گئے۔ ان تاریخوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں!
اب ہم اپنی پیش کی گئی دلیل دوبارہ پیش کرتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ کے یہ اقوال صرف 189 ہجری سے پہلے کے ہیں یا بعد کے بھی ہیں؟
امام احمد بن حنبلؒ خود اسی محمد بن حسن الشیبانی ؒ کو مذہب جہم پر قرار دے رہے ہیں!
أَخْبَرَنَا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، قَالَ: أخبرنا أحمد بن عثمان بن يحيى الأدمي، قَالَ: حدثنا محمد بن إسماعيل أبو إسماعيل، قَالَ: سمعت أحمد بن حنبل، وذكر ابتداء محمد بن الحسن، فقال: كان يذهب مذهب جهم.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 569 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت
امام احمد بن حنبل رحمہ سے محمد بن الحسن الشیبانی پر ''جہمی مذہب'' اختیار کرنے کی یہ جرح روایت کرنے والے
محمد بن إسماعيل السلمي ہیں ، اور ان کی پیدائش 190 ہجری کے بعد کی ہے۔ اب اس بات کو دہرانے کی ضرورت تو نہیں، کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اس قول کو محمد بن إسماعيل السلمي نے یقیناً پیدا ہوتے ہی یہ قول نہیں سنا، بلکہ اس کے سالوں بعد امام احمد سے سنا ہے۔ اس قول سے جو 189 ہجری کے سالوں بعد امام احمد بن حنبل نے محمد بن حسن الشیبانی کو ''جہمی مذہب'' پر قرار دیا، اس سے رجوع کیسے ثابت قرار دیا جاسکتا ہے۔
امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 180 - 181 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
یہاں عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ اپنے والد احمد بن حنبلؒ سے روایت کر رہے ہیں۔ اب عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ کی پیدائش 213 ہجری کی ہے۔
عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل
المولد : 213 هـ- الوفاة : 290 هـ
اب کیا جو قول امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے 213 ہجری میں پیدا ہونے والے بیٹے کو اس کی پیدائش سے کئی سال بعد بیان کیا، اس سے رجوع اپنے بیٹے کی پیدائش سے 23 سال قبل کر لیا تھا؟ اشماریہ بھائی! میں اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ فقہ حنفیہ کے اٹکل کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے، یہاں آپ کے اٹکل کے بے لگام گھوڑے نہیں دوڑاے جا سکتے!! فتدبر
رہ گئی بات جہمی ہونے کی تو جب قائل خود اس کے خلاف کہہ رہا ہے تو کسی اور کی بات کی کیا حیثیت ہے؟
اشماریہ بھائی! محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے اس قول کی سند آپ کے سامنے ہے۔ اس کے رواة کا تعارف بیان کر دیں، جب یہ قول محمد بن الحسن الشیبانی ؒسے ثابت ہی نہیں، تو اس پر کیا بناء بنائی جائے! ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ آپ
شرح اصول السنة کی سند کے راویوں کا تعارف تو پہلے کروایں!!
اور رہا آپ کا عجیب و غریب فیصلہ کہ امام احمد کی مراد نقد ہے تو میرے بھائی! امام احمد کے الفاظ میں تو یہ موجود نہیں ہے۔ لہذا یا تو اسے ثابت کریں کسی محدث سے اور یا پھر امام احمد کی کتب سے یہ ثابت کریں کہ انہوں نے فقہ حنفی کے تمام دقیق مسائل میں نقد و رد کیا ہو۔ فقط آپ کے قول کا کیا فائدہ؟؟؟
اشماریہ بھائی! یہ تو میں نہ مانوں والی بات ہے، ہم نے آپ کو امام شافعیؒ کے حوالے سے بھی حوالہ پیش کر کے بتلایا ہے کہ مسائل کو معلوم کرنا کہ اہل الرئے کا کیا مؤقف ہے، اس مسئلہ کی توثیق کو لازم نہیں، بلکہ اس کی وجہ ان مسائل کا رد کرنا بھی ہوتا ہے، اور علمائے دیوبند کے بھی اسی طرز رہا ہے، مثلاً مرزا قادیانی کے مسئلہ میں!!
آپ کو امام احمد بن حنبلؒ کے اقوال اہل الرائے کی نقد میں پیش کر دیئے گئے ہیں!
بھائی جان! آپ یہ بتلائیں کہ یہ جو ''آپ کے قول'' میں نے بیان کیا ہے، یہ طرز عمل اسلاف سے بھی، اور علمائے دیوبند سے بھی آپ کو بیان کیا گیا یا نہیں؟ اب پھر بھی اسے تسلیم نہ کرنا، تو حکمت چین و حجت بنگال والی بات ہے!
امام احمد بن حنبلؒ کا اپناقول پیش کیا، وہ آپ کیوں بھول جاتے ہو! ایک بار پھر پیش خدمت ہے:امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہؒ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 180 - 181 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
اور یہاں کیا امام احمد حنبلؒ نے فقہ اہل لرائے، اور خاص نام لے کر امام ابو حنیفہؒ کی رائے کی کیاتعریف کی ہے؟ یہاں بالکل واضح و صریح انداز میں فقہ اہل الرائے کو متروک و مردود قرار دیا ہے۔
اشماریہ بھائی! ہم امام احمد بن حنبلؒ کا اپنا قول پیش کر رہے ہیں، اور آپ فرماتے ہو ''آپ کے قول''!! چہ معنی دارد؟
میرے محترم بھائی! ایک تو فقہ حنفیہ میں اٹکل پچو نہیں ہیں۔
اشماریہ بھائی! فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کی ایک مثال آپ کو پیش کی ہے، اس کا جواب ہنوز مطلوب ہے! دوم کہ جو فقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح ثابت حدیث کو ''عقل'' کے خلاف ہونے پر رد کرنے پر مبنی ہو اسے اٹکل پچّو قرار دینا بلکل درست ہے!
بلکہ میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ اصول فقہ (چاہے کسی بھی فقہ کے ہوں) کی بنیاد اصول حدیث کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔
اب اسے دیوانے کی بڑ نہ کہا جائے تو بھلا کیا کہا جانا چاہئے، فقہ کہ جس کی بنیاد حدیث پر ہے، اور صاحب فرماتے ہیں کہ اصول حدیث سے مظبوط اصول فقہ ہیں! یعنی آپ کے بقول بنیاد کمزور ہے اور عمارت مظبوط!! اب اس گپ پر بندہ کیا تبصرہ کرے!
خیر یہ بحث دوسر ی جانب نکل جائے گی۔ اشماریہ بھائی، کسی دن کبھی اصول فقہ حنفیہ پر بھی گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ!
نیز میں علم الحدیث سے ناواقف بھی نہیں ہوں۔ اس لیے میں جو کہہ رہا ہوں یا حوالہ دے رہا ہوں تو سوچ سمجھ کر دے رہا ہوں۔
اگر سوچ سمجھ کر یہ عالم ہے تو۔۔۔۔!
بھائی جان! ذرا یہ تو بتائیے گا کہ آپ نے علم الحدیث میں اب تک کون سی ایسی بات ہے جو بحوالہ درست فرمائی ہے؟
آپ تو امام احمد بن حنبل کے بعد کے قول کا 23 سال قبل کے قول سے رجوع ثابت کرنے لگے تھے،
آپ کو اب تک یہ نہیں معلوم کہ حافظ ، امام، بحور العلم وغیرہ سے توثیق لازم نہیں آتی! اس پر آپ نے محض اٹکل کے اور بیان کیا کیا ہے؟ ابھی آگے آپ کی وہ اٹکل دوبارہ آرہی ہے، اسی مقام پر اس کا جواب بھی آئے گا، ان شاء اللہ! اللہ کی توفیق سے۔
نہ آپ کو اس بات کا معلوم ہے کہ جس کی روایت، مطابقت کی محتاج ہو وہ راوی ضعیف ہوتا ہے!
آپ کے کلام سے تو یہی معلوم ہوتا کہ علم الحدیث کے تو قریب سے بھی گزر نہیں ہوا!
میں نے اس عبارت سے امام محمدؒ کی فصاحت پر استدلال نہیں کیا ان کی ذکاوت پر استدلال کیا ہے۔ کیوں کہ بات ہماری چلی ہے فقہ کے بارے میں اور فقہ کا ڈائریکٹ تعلق ذکاوت سے ہوتا ہے۔ میرا استدلال وَمَا نَاظَرتُ سَمِيْناً أَذكَى مِنْهُ سے تھا۔
امام شافعی کا ہی ایک اور قول ان کے بارے میں یہ ہے:
ما رأیت أعلم بكتاب الله من محمد، كأنه علیه نزل
مناقب ابی حنیفہ و صاحبیہ للذہبی (1، 81 ط احیاء المعارف)
یہ قول امام محمدؒ کے فقہ و علم کے بارے میں انتہائی واضح ہے۔
آپ کو امام شافعیؒ کا ہی محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی فقہ کا نقد بتلایا تھا۔ اور وہ بھی اصول فقہ میں، آپ کو بتلایا تھا کہ امام شافعیؒ نے ''الرسالہ'' اہل الرائے بالخصوص محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے رد میں ہی لکھی تھی! مگر آپ یہ سب باتیں بھول جاتے ہو۔ اس سے پہلے ک آپ ک اپیش کیا ہوا قول اور اس یہ قول بھی آپ نے امام الذہبیؒ کی کتاب سے نقل کیاہے، ہم بھی آپ کو امام الذہبیؒ سے ہی اس ''ذکاوت ''کا حال بتلا دیتے ہیں۔ اما الذہبیؒ نے محمد بن الحسنؒ پر امام احمد بن حنبلؒ کی جرح کے معنی بیان کئے ہیں، اسے ملاحظہ فرمائیں، کہ محمد بن الحسن الشیبانیؒ کی قرآن میں'' ذکاوت'' اس قدر تھی کہ وہ قرآن کے عموم سے استدلال کرتے، اور احادیث سے کو رد کر دیا کرتے تھے:
وقال حنبل: سمعتُ أحمد بن حنبل يقول: كان أبو يوسف منصفًا في الحديث، وأما محمد فكان مخالفًا للأثر، يعني يخالف الأحاديث ويأخذ بعموم القرآن.
وكان رحمه الله تعالى آية في الذكاء، ذا عقلٍ تامّ، وسؤدد، وكثرة تلاوة للقرآن.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 361 جلد 12 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام – امام الذهبي دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 956 جلد 04 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - امام الذهبي - دار الغرب الإسلامي
اب کیا خیال ہے؟
یہی بات امام الشافعیؒ کی ہے، امام الشافعیؒ نے بھی الرسالہ لکھ کر یہ بتلایا کہ اہل الرائے صحیح احادیث کو رد کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ امام الشافعی نے محمد بن حسن الشیبانی ؒ کی فقہ کو احادیث لکھ کر رد کیا، حوالہ اوپر گذرا!!آیئے آپ کو امام الشافعیؒ کا محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر ایک اور رد بتلاتا ہوں اور وہ بھی خاص فقہ میں:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فِيمَا كَتَبَ إِلَيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ، وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، صَاحِبُ الرَّأْيِ، فَقَالَ: قَالَ: وَضَعْتُ كِتَابًا عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ تَنْظُرُ فِيهِ؟ فَنَظَرْتُ فِي أَوَّلِهِ ثُمَّ وَضَعْتُهُ، أَوْ رَمَيْتُ بِهِ، فَقَالَ: مَا لَكَ؟ ، قُلْتُ: أَوَّلُهُ خَطَأٌ، عَلَى مَنْ وَضَعْتَ هَذَا الْكِتَابَ؟ ، قَالَ: عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ.
قُلْتُ: مَنْ أَهْلُ الْمَدِينَةِ؟ ، قَالَ: مَالِكٌ.
قُلْتُ: فَمَالِكٌ رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَقَدْ كَانَ بِالْمَدِينَةِ فُقَهَاءُ غَيْرُ مَالِكٍ: ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَالْمَاجِشُونُ، وَفُلانٌ وَفُلانٌ قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَدِينَةُ لا يَدْخُلُهَا الدَّجَّالُ، وَالْمَدِينَةُ لا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، وَالْمَدِينَةُ عَلَى كُلِّ بَيْتٍ مِنْهَا مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ»
امام الشافعیؒ نے کہا کہ اہل الرائے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ میں نے اہل مدینہ کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے، کیا آپ یعنی امام الشافعیؒ اسے دیکھیں گے؟ امام الشافعیؒ نے کہا کہ میں نے اس کے اول صفحہ ہی کو دیکھ کر اسے زمین پر پھینک دیا، محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ آپ نے اسے پھینک کیون دیا؟ امام الشافعیؒ نے فرمایاکہ اس کا سرورق ہی غلط ہے، آپ نے یہ کتاب کس کے خلاف لکھی ہے؟ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ اہل مدینہ کے خلاف، امام الشافعیؒ نے کہا کہ اہل مدینہ کون لوگ ہیں؟ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے جواب دیا کہ امام مالک بن انسؒ۔ امام الشافعیؒ نے کہا کہ امام مالکؒ تو صرف فرد واحد اور تن تنہا ایک شخص ہیں، ان پر تمام اہل مدینہ کا اطلاق کیونکر ہو سکتا ہے؟( آپ کی اس کتاب کا نام ہی غلط اور خلاف واقع ہے) مدینہ منورہ میں تو امام مالک کے علاوہ بہت سارے فقہاء امام ابن ابی ذئبؒ و ماجشونؒ وغیرہ ہیں(پھر تو آپ کی اس کتاب کا نام ہی باطل ہے کیونکہ یہ کتاب اہل مدینہ کا رد نہیں بلکہ صرف مدینہ کے فرد واحد کا رد ہے،) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی فضیلت میں فرمایا ہے کہ وہاں دجال وطاعون داخل نہیں ہو سکتے اور مدینہ منورہ کے ہر گھر پر دجال و طاعون سے حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیخ برہنہ لئے ایک ایک فرشتہ متعین ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 81 - 82 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي - دار الكتب العلمية، بيروت
اس وقعہ کو امام بیہقی ؒنے بھی اپنی سندوں سے بیان کیا ہے، اور وہاں موجود ہے کہ بسم الله الرحمٰن الرحيم کے بعد سب کے سب خطا ء!
وأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: أخبرني أبو أحمد بن أبي الحسن الدارمي، قال: حدثنا عبد الرحمن بن محمد الحنظلي قال: أخبرني عبد الله بن أحمد في كتابه، قال: سمعت أبي يقول: قال محمد بن إدريس الشافعي: وذكر محمد بن الحسن صاحب الرأي - فقال. قد وضعت كتاباً على أهل المدينة تنظر فيه. فنظرت في أوله ثم وضعته، أو رميت به.
فقال: مالك؟ فقلت: أوله خطأ. على من وضعت هذا الكتاب؟ قال: على أهل المدينة. قلت: مَنْ أهلُ المدينة؟ قال: مالك. قلت: مالك رجل واحد، قد كان بالمدينة فقهاء غير مالك: ابن أبي ذئب والمَاجشُون وفلان وفلان، وقال النبي، صلى الله عليه وسلم: «المدينة لا يدخلها الدجال والطاعون، والمدينة على كُلِّ نَقَبٍ من أنْقَابها ملك شاهر سيفه».
أخبرنا محد بن عبد الله الحافظ، قال: أخبرني أبو الوليد: حسان بن محمد الفقيه، قال: حدثنا إبراهيم بن محمود، قال: وحدثني أبو سليمان، قال: حدثني أبو ثَوْر، قال: سمعت الشافعي يقول: حضرت مجلساً، ومحمد بن الحسن بالرّقّة، وفيه جماعة من بني هاشم وقريش وغيرهم ممن ينظر في العلم؛ فقال محمد بن الحسن: قد وضعتُ كتاباً لو علمت أن أحداً يردُّ عليَّ منه شيئاً تبلغنيه الإبل لأتيته. قال: فقلت له: قد نظرت في كتابك هذا، فإذا بعد بسم الله الرحمن الرحيم خطأ كله. قال: وما ذاك؟
قلت له: قلت: قال أهل المدينة، وليس تخلو في قولك: قال أهلُ المدينة: مِنْ أن تكونَ أردتَ جميعَ أهل المدينة، أو تكونَ أردتَ بقولك: قال أهل المدينة: مالك بن أنس على انفراده.
فإن كنت أردت بقولك: قال أهل المدينة جميع أهل المدينة فقد أخطأت؛ لأن علماء أهل المدينة لم يتفقوا على ما حكيت عنهم.
وإن كنت أردت بقولك مالك بن أنس على انفراده، وجعلته أهلَ المدينة فقد أخطأت؛ لأن بالمدينة [من علمائها] مَنْ يرى استتابة مالك فيما خالفه فيه، فأي الأمرين قد قصدت له فقد أخطأت.
قال: فتبين لأهل المجلس ذلك وسُرّ به أكثر من حضر من أهل الحجاز.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 120 – 122 جلد 01 مناقب الشافعي - أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي - مكتبة دار التراث، القاهرة
یہ بھی غور سے مطالعہ فرمائیں کہ امام الشافعی نے فقہ اہل الرائے کو، احادیث کے خلاف قرار دیا، اور اہل رائے، بالخصوص محمد بن الحسن الشیبانی کو احادیث کا رد کرنے والا:
أنا أَبُو الْحَسَنِ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَوْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّبَيْرَ بْنَ سُلَيْمَانَ الْقُرَشِيَّ، يَذْكُرُ عَنِ الشَّافِعِيِّ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْفَقِيهِ، فَأَصْبَحَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَجَعَلَ يَذْكُرُ الْمَدِينَةَ وَيَذُمُّ أَهْلَهَا، وَيَذْكُرُ أَصْحَابَهُ وَيَرْفَعُ مِنْ أَقْدَارِهِمْ، وَيَذْكُرُ أَنَّهُ وَضَعَ عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ كِتَابًا، لَوْ عَلِمَ أَحَدًا يَنْقُضُ أَوْ يَنْقُصُ مِنْهُ حَرْفًا، تَبْلُغُهُ أَكْبَادُ الإِبِلِ، لَصَارَ إِلَيْهِ» .
فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، أَرَاكَ قَدْ أَصْبَحْتَ تَهْجُو الْمَدِينَةَ، وَتَذُمُّ أَهْلَهَا، فَلَئِنْ كُنْتَ أَرَدْتَهَا، فَإِنَّهَا لَحَرَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمْنُهُ، سَمَّاهَا اللَّهُ طَابَةَ، وَمِنْهَا خُلِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِهَا قَبْرُهُ، وَلَئِنْ أَرَدْتَ أَهْلَهَا، فَهُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْهَارُهُ وَأَنْصَارُهُ، الَّذِينَ مَهَّدُوا الإِيمَانَ، وَحَفِظُوا الْوَحْيَ، وَجَمَعُوا السُّنَنَ، وَلَئِنْ أَرَدْتَ مَنْ بَعْدَهُمْ أَبْنَاءَهُمْ وَتَابِعِيهِمْ بِإِحْسَانٍ، فَأَخْيَارُ هَذِهِ الأُمَّةِ، وَلَئِنْ أَرَدْتَ رَجُلا وَاحِدًا وَهُوَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، فَمَا عَلَيْكَ لَوْ ذَكَرْتَهُ، وَتَرَكْتَ الْمَدِينَةَ.
فَقَالَ: مَا أَرَدْتُ إِلا مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ.
فَقُلْتُ: لَقَدْ نَظَرْتُ فِي كِتَابِكَ الَّذِي وَضَعْتَهُ عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ، فَوَجَدْتُ فِيهِ خَطَأً.
فَقُلْتَ فِي رَجُلَيْنِ تَدَاعَيَا جِدَارًا، وَلا بَيِّنَةَ بَيْنَهُمَا، إِنَّ الْجِدَارَ لِمَنْ يَلِيهِ الْقُمُطُ، وَمَعَاقِدُ اللِّبِنِ.
وَقُلْتَ فِي الرِّفَافِ يَدَّعِيهَا السَّاكِنُ وَرَبُّ الْحَانُوتِ: إِنْ كَانَتْ مُلْزَقةً فَهِيَ لِلسَّاكِنِ، وَإِنْ كَانَتْ مَبْنِيَّةً فَهِيَ لِرَبِّ الْحَانُوتِ.
وَقُلْتَ فِي امْرَأَةٍ جَادَتْ بِوَلَدٍ، فَأَنْكَرَ الزَّوْجُ وَقَالَ: اسْتَعَرْتِهِ، وَلَمْ تَلِدِنِيهِ: إِنَّكَ تَقْبَلُ فِيهَا شَهَادَةَ الْقَابِلَةِ وَحْدَهَا.
وَرَدَدْتَ عَلَيْنَا الشَّاهِدَ وَالْيَمِينَ، وَهِيَ سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْخُلَفَاءِ، وَقَوْلِ الْحُكَّامِ عِنْدَنَا بِالْمَدِينَةِ، وَأَنْتَ تَقُولُ هَذَا بِرَأْيِكَ، وَتَرُدُّ عَلَيْنَا السُّنَنَ، وَعَدَدْتَ عَلَيْهِ الأَحْكَامَ الَّتِي خَالَفَهَا ".
وَكَانَ عَلَى الدَّارِ هَرْثَمَةُ، فَكَتَبَ الْخَبَرَ، وَدَخَلَ عَلَى الْخَلِيفَةِ، فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْخَبَرَ، فَقَالَ الْخَلِيفَةُ: أَكَانَ يَأْمَنُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَنْ يَقْطَعَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ؟ ! فَاخْرُجْ إِلَى الشَّافِعِيِّ، وَأَقْرِئْهُ سَلامِي، وَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ أَمَرَ لَكَ بِخَمْسَةِ آلافِ دِينَارٍ، وَعَجَّلَهَا لَكَ مِنْ بَيْتِ مَالِ الْحَضَرَةِ.
قَالَ: فَخَرَجَ هَرْثَمَةُ، وَأَقْرَأَنِي سَلامَهُ، وَقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ أَمَرَ لَكَ بِخَمْسَةِ آلافِ دِينَارٍ، وَقَالَ هَرْثَمَةُ: لَوْلا أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لا يُسَاوَى لأَمَرْتُ لَكَ بِمِثْلِهَا، وَلَكِنِ الْقَ غُلامِي، فَاقْبِضْ مِنْهُ أَرْبَعَةَ آلافِ دِينَارٍ.
فَقَالَ يَعْنِي الشَّافِعِيَّ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، لَوْلا أَنِّي لا أَقْبَلُ جَائِزَةً إِلا مِمَّنْ هُوَ فَوْقِي لَقَبِلْتُ جَائِزَتَكَ، وَلَكِنْ عَجِّلْ لِي مَا أَمَرَ بِهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، فَحُمِلَ إِلَيْهِ الْمَالُ.
قَالَ: ثُمَّ جَاءَنِي هَرْثَمَةُ، فَقَالَ: تَأَهَّبْ لِلدُّخُولِ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، مَعَ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، وَأَخَذْنَا مَجَالِسَنَا، فَقُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ: مَا تَقُولُ فِي الْقَسَامةِ؟ قَالَ: اسْتِفْهَامٌ، قُلْتُ: تَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَاجُ أَنْ يَسْتَفْهِمَ يَهُودَ؟ وَجَرَى بَيْنَنَا كَلامٌ، وَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ
امام الشافعیؒ نے فرمایا کہ میں فقیہ اہل الرائے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے پاس بیٹھا کرتا تھا، ایک دن وہ مدینہ و اہل مدینہ کا ذکر بطور مذمت کر رہے تھے اور اپنے اہل الرائے ہم مذہب لوگوں کا ذکر بلند دعاوئ مدح کے ساتھ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں نے اہل مدینہ کے خلاف ایسی کتاب لکھی ہے جس کا ایک حرف بھی رد کرنے والے کسی عالم کا اگر مجھے پتہ لگے جس کے پاس جانے کے لئے بڑی مشقت اٹھانی پڑے تو میں جاؤں گا، میں نے کہا کہ جناب میں دیکھتا ہوں کہ آپ مدینہ منورہ اور اس کے باشندوں کی ہجو سرائی و مذمت کر رہے ہیں، حالانکہ یہ حرم نبوی و مامن نبوی ہے، اس کا نام اللہ تعالیٰ نے طابہ رکھا ہے، اس کی مٹی میں قبر نبوی ہے اور یہاں کے باشندے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور خسر و داماد و انصار ہیں، جنہوں نے ایمان کو اپنی گود میں لے کر بلند مرتبہ حاصل کیا، انہوں نے وحی الہٰی کی حفاظت کی، سنن نبویہ کو جمع کیا، ان صحابہ کے بیٹے اور تابعین کرام اس امت کے بہترین افراد ہیں، اگر مدینہ و اہل مدینہ کے خلاف آپ کی ہجو سرائی و محاذ آرائی سے مراد امام مالکؒ کی ہجو و مذمت وتردید ہے تو پھر صرف امام مالکؒ ہی پر یہ ساری کاروائیاں کرتے اور اہل مدینہ کو اپنی نیش زنی و ہجو سرائی سے معاف رکھتے، امام الشافعیؒ کی اس بات کے جواب میں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ میرا مقصد صرف امام مالکؒ کی ہجو و مذمت وتردید و نیش زنی ہے، امام الشافعیؒ نے فرمایا ، میں نے آپ کی کتاب دیکھی ہے ، وہ تو تمام اہل مدینہ کے خلاف لکھی ہے، اس کتاب میں میں نے خطائیں دیکھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
امام الشافعیؒ کی امام محمد پر اس رد بلیغ کی روئیداد خلیفہ ہاورن الرشید کا وزیر ہرثمہ لکھ کر خلیفہ کے پاس لے گیا، خلیفہ نے امام الشافعی کے ہاتھوں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی اس روئیداد (روئیداد درگت ) کی خبر پڑھ کر کہا کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ اپنے آپ کو اس بات سے محفوظ سمجھتے تھے کہ انہیں بنو عبد مناف کا ایک آدمی امام الشافعیؒ لا جواب و ساکت کردے گا۔ اے میرے وزیر ہرثمہ! امام الشافعیؒ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور میری طرف سے انہیں پانچ ہزار اشرفیاں فی الفور بطور انعام پیش کرو، ہرثمہ نے حکم خلیفہ کی تعمیل کی اور اس نے امام الشافعیؒ سے کہا کہ اگر خلیفہ کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں بھی آپ کو پانچ ہزار اشرفیاں انعام دیتا مگر میں اپنی طرف سے آپ کو چار ہزار اشرفیاں دے رہا ہوں، امام شافعیؒ نے ہرثمہ سے کہا کہ اللہ تمہیں جزائے خیر دے میں آپ کی رقم قبول کرنے سے قاصر ہوں، البتہ خلیفہ والی رقم جلد ہی دے دو، امام الشافعیؒ نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ ہرثمہ نے مجھے آکر کہا کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کے ساتھ امیر المومنین خلیفہ کے پاس تیار ہو کر چلیں، ہم خلیفہ کے پاس آئت، میں نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے قسامہ کا مسئلہ پوچھا، محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے کہا کہ اس سلسلے میں استفہام کیا جائے گا، میں نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے لہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہود سے استفہام کے محتاج تھے؟ بہر حال ہمارے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، پھر ہم خلیفہ کے یہاں سے باہر آئے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 124 - 126 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي - دار الكتب العلمية، بيروت
جناب من! اب کیا فرمایئے گا! امام الشافعیؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی ''ذکاوت'' کا حال خود اور بہت خوب بیان کر دیا۔فتدبر!
یہاں تو صریح الفاظ ہیں کہ امام الشافعیؒ خود محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہيں:
وَأَنْتَ تَقُولُ هَذَا بِرَأْيِكَ، وَتَرُدُّ عَلَيْنَا السُّنَنَ، وَعَدَدْتَ عَلَيْهِ الأَحْكَامَ الَّتِي خَالَفَهَا "
اور تم اپنی رائے سے کہتے ہو اور ہمارے پاس جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن یعنی احادیث ہیں انہیں رد کرتے ہو، ایسے متعدد احکام و مسائل ہیں کہاں تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی مخالفت کرتے ہو!
یہ حال بیان کیا ہے ، امام الشافعیؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی ''فقہ'' کا۔ فتدبر!!
(جاری ہے)