- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
محترم بھائی اپنا موقف شاید پہلے بھی اشارتا میں بیان کر چکا ہوں اب تفصیل سے لکھ دیتا ہوںالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے جو پوچھا تھا، اس کا جواب دے دیا گیا، اب آپ میرے جواب کی تائید یا تردید کرتے ہوئے اپنا مؤقف بیان کر دیں!
پھر بات آگے کی بڑھ سکے گی! وگرنہ وضاحت در وضاحت کا سلسلہ جاری ہو جائے گا!
آپ کی پچھلی تحریر پر اسی کے بعد کچھ عرض کروں گا، ان شاء اللہ!
میں اپنا موقف بتانے سے پہلے میں وہ تمام موقف بتاتا چلوں جو اس سلسلے میں مختلف جید اور صالح سلفی علماء رکھتے ہیں میرے نزدیک یہ سارے موقف رکھنے والے اجتہاد کا حق رکھتے ہیں اور انکو گمراہ نہیں کہا جا سکتا البتہ ہر انسان اس موقف کی پیروری کر سکتا ہے جس کے دلائل اسکو زیادہ بہتر لگتے ہیں
۱۔کسی بھی جگہ مسلمانوں کی حکومت کو کافر نہیں کہا جا سکتا (چاہے ایران ہو ی کشمیر ہو یا یمن ہو یا شام ہو) اور انکی اطاعت کرنا وہاں کے رہنے والوں کے لئے ضروری ہے پس انکی مرضی کے بغیر کوئی جہاد نہیں کر سکتا پس صرف اور صرف فوجی ہی جہاد کر سکتے ہیں یا پھر حکومت بعض صورتوں میں کچھ لوگوں کو اجازت دے تو وہ جہاد کر سکتے ہیں
۲۔بعض مسلمان ممالک کافر ممالک ہیں پس وہ اسلامی ریاست نہیں ہیں مثلا شام ایران یمن کشمیر افغانستان عراق وغیرہ۔ پس انکی حکومتوں سے جہاد کے لئے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ باقی مسلمان حکومتوں کے اندر رہنے والے انکی اجازت کے بغیر جہاد بالکل نہیں کر سکتے اگر کریں گے وہ تو اس حکومت کے باغی کہلائیں گے
۳۔بعض مسلمان ممالک کافر ہیں پس وہ اسلامی ریاست نہیں ہیں مثلا شام ایران یمن کشمیر افغانستان عراق وغیرہ۔ پس جہاد کے لئے ان حکومتوں سے اجازت لینے کی تو بالکل ہی کوئی ضرورت نہیں البتہ دوسرے مسلمان ممالک (جو اسلامی ریاستیں ہیں) ان سے بھی جہاد کے معاملے میں اجازت کی ضرورت نہیں ہے البتہ اس سلسلے میں فساد اور مصلحت کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اگر اپنی اسلامی ریاست کی مرضی کے خلاف کہیں جہاد کرنے سے اسلام یا جہاد یا مدارس وغیرہ پہ کوئی بہت بڑا مفسدہ آتا ہو تو وہاں مصلحت اور مفسدہ کا جید علماء موازنہ کر کے فیصلہ کریں گے
میرا موقف:
میرا موقف وہی ہے جو اس سلسلے میں میری جماعت یعنی جماعۃ الدعوہ کا ہے اور جس کے بارے ہمارے شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ نے اپنے تازہ بیان میں وضاحت کی ہے اور جو اوپر تیسرے نمبر میں بتایا گیا ہے واللہ اعلم
نوٹ:
یہاں یہ بات واضح رہے کہ اوپر والا موقف جہاد کی اجازت کے بارے میں ہے البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جہاد کہاں ہو گا تو اس سلسلے میں ہماری جماعت کا یہ موقف شرعی موقف ہے کہ جو مسلمان ممالک اسلامی ریاست کی نہیں ہیں جیسے شام یمن کشمیر افغانستان وغیرہ وہاں پہ جہاد ہو سکتا ہے لیکن دوسرے کسی اسلامی ملک میں جہاد کرنا فساد کرنا ہی ہو گا لیکن یہ پوسٹ چونکہ صرف جہاد کی اجازت کے بارے میں ہے جہاد کی جگہوں کے تعین کے بارے نہیں ہے پس اس پہ یہاں بحث نہیں کی جا سکتی