• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی شخصیت میری نظر میں

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے کچھ عرصہ یمن کی جیل میں بھی گزارا۔جہاں شک کی بنیاد پر گرفتار کرکے حافظ زبیرعلی زئی کو انکے میزبانوں کے ساتھ قید رکھا گیا۔حافظ صاحب لکھتے ہیں: فوجی ہمیں اندر ایک جگہ لے گئے جہاں بہت اونچی عمارت تھی اور دیواروں پر لوہے کی کانٹا نما تاریں لگی ہوئی تھیں۔فوجیوں نے کہا: ’’آپ پانچوں اب جیل میں ہیں‘‘۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 13، صفحہ45 )

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ وجہ حراست بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کاغذات پر انہوں (حکام سجن)نے وجہ حراست ’’الاشتباہ‘‘ (شبہ) لکھی۔انہیں یہ شبہ تھا کہ شیخ ابو ہشام منصور چونکہ امیر تاجر ہیں۔لہذا وہ سعودیہ سے یمن آکر مدرسوں کو رقم دیتے ہیں۔اور تنظیموں کی مالی امداد کرتے ہیں۔باہر کے لوگوں کا مدرسوں کی امداد کرنا، ان لوگوں کے نزدیک بڑا جرم تھا۔ابوہشام نے خوب قسمیں کھائیں اور بتایا کہ’’میں مدرسوں کی امداد نہیں کرتا۔میں تو یمن اپنے رشتہ داروں سے ملاقات،سیر اور بڑے شیوخ کی زیارت کے لئے آیا ہوں‘‘ لیکن یہ ساری گفتگو رائیگاں گئی۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 14، صفحہ41 )

حافظ صاحب لکھتے ہیں: شیخ مطری کے علاوہ ہم سب پہلی دفعہ جیل میں پہنچے تھے ۔آزادی کی قدروقیمت کا احساس جیل جاکر ہوا۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 14، صفحہ42 )
سچ ہے کہ انسان جب تک کسی نعمت سے محروم نہیں ہوتا اس وقت تک اس نعمت کی صحیح قدر و قیمت کا اسے احساس نہیں ہوتا۔جیل میں عبادت کے تجربہ کے بارے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں: حقیقت ہے نماز پڑھنے اور اللہ کے سامنے گڑگڑانے کا جو مزہ اس جیل میں آیا اس کا تصور بھی آزادی کے عام دنوں میں محال ہے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 14، صفحہ43 )

جناب محمد اسحاق بھٹی صاحب نے علمائے اہل حدیث کی خدمات قرآن کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کومنظر عام پر لانے کے لئے ایک کتاب بنام ’’برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن‘‘ لکھی ہے ۔اور ا ن علماء کی فہرست میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا اسم گرامی بھی شامل کیا ہے جنھوں نے قرآن کے تراجم یا تفاسیر کے ذریعے کسی نہ کسی طرح قرآن کی خدمت کی سعادت حاصل کی ہے۔ چناچہ محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: یہاں حافظ زبیرعلی زئی کی صرف ان مساعی کا ذکر کرنا مقصود ہے جو وہ قرآن مجیدکے سلسلے میں انجام دے رہے ہیں،اس لئے کہ اس کتاب کا اصل موضوع یہی ہے۔حافظ صاحب ممدوح ’’صحیح التفاسیر‘‘ کے نام سے عربی میں قرآن مجید کی تفسیر لکھ رہے ہیں۔اس کا آغاز انہوں نے تیسویں پارے سے کیا ہے۔یہ خدمت وہ تفصیل سے انجام دینا چاہتے ہیں۔دعا ہے یہ سلسلہ جلد از جلد تکمیل کی منزل کو پہنچ جائے۔وہ تیز قلم اور صاحب مطالعہ عالم ہیں۔امید ہے ان شاء اللہ تھوڑے عرصے میں اس اہم کام سے فارغ ہو جائیں گے۔ مجھے یا تو ان کے بعض اخباری مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے یا عربی میں ان کی آخری پارے کی تفسیر دیکھی ہے، جس کی فوٹو کاپی انھوں نے مولانا محمد سرور (مکتبہ اسلامیہ لاہور) کے ہاتھ بھجوائی تھی۔ان کی اور کوئی تصنیف میری نظر سے نہیں گزری۔(برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن،صفحہ 186)

قابل افسوس بات یہ ہے کہ جب میں نے اسحاق بھٹی حفظہ اللہ کا یہ بیان و انکشاف پڑھا اور حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک اور ان سے مسلسل رابطہ میں رہنے والے ساتھیوں سے اس بیان کی تصدیق چاہی تو معلوم ہوا کہ نہ تو حافظ زبیرعلی زئی نے قرآن مجید کی کوئی تفسیر لکھی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اسحاق بھٹی حفظہ اللہ کو اس سلسلے میں شدید غلط فہمی اور سنگین مغالطہ لاحق ہوا ہے۔اسحاق صاحب کا بیان پڑھ کر جس قدر خوشی ہوئی تھی اس بیان کی تحقیق کے بعد اتنا ہی افسوس ہوا کیونکہ راقم کی دلی خواہش تھی کہ حافظ صاحب کی علمی اور تحقیقی تصنیفات کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہوں اور کوئی بھی صنف ایسی نہ ہو جس پر انہوں نے قلم نہ اٹھایا ہو۔اگر زندگی باقی رہتی تو شاید حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ قرآن کی تفسیر بھی لکھ دیتے۔بہرحال وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔چناچہ وقت اجل آپہنچا اور تمام کام ادھورے رہ گئے۔
اگرچہ قرآن مجید کی تفسیر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے پروگرام میں شامل نہیں تھی لیکن نماز سے متعلق تفصیلی کتاب ضرور ان کے مستقبل کے پروگرام میں شامل تھی جو وقت کی کمی کے باعث شرمندہ تعبیر نہ ہوسکی۔حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ ’’مختصر نماز نبوی‘‘ کے حرف اول میں رقمطراز ہیں: ’’مختصر صحیح نماز نبوی‘‘ اس سے قبل ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ حضرو میں چھپ چکی ہے لیکن احباب کے اصرار پر ترمیم و اضافہ کے ساتھ اب اسے کتابی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔استاذ محترم مستقبل قریب میں اس موضوع پر ایک تفصیلی کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔(ان شاء اللہ)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حفظ امان میں رکھے اور صحت و عافیت دے تاکہ کئی ایسے ارادوں کی تکمیل ہوسکے۔(آمین)۔
(مختصر صحیح نماز نبوی تکبیر تحریمہ سے سلام تک،صفحہ 4)

حالیہ دنوں میں حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ سے راقم الحروف کی کچھ اہم مسائل پر گفتگو ہوئی اور مندرجہ بالا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ۔حافظ ندیم ظہیر نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ عربی زبان میں قرآن کی تفسیر لکھ رہے تھے لیکن یہ تفسیر ادھوری ہے مکمل نہ ہوسکی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے رابطے میں رہنے والے ساتھیوں نے اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر ہی حافظ صاحب کے تفسیری کام کا انکار کیا تھا اور حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے براہ راست پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔انہوں نے سمجھا کہ اگر ان کے علم میں یہ بات نہیں تو حقیقت میں بھی نہیں ہوسکتی یعنی عدم علم کو عدم نفی پر محمول کرلیا۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
آخر میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے کچھ اہم،مفید اور منفرد فتاویٰ ہدیہ قارئین ہیں۔

1۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ تمام مچھلیوں کو حلال نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان میں سے درندہ مچھلیوں کو حرام قرار دیتے تھے۔چناچہ انہوں نے لکھا ہے: شارک مچھلی بھی درندہ ہے لہٰذا اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔(موطا امام مالک، صفحہ 198)
مزیدلکھتے ہیں: سمندر کی ساری مچھلیاں حلال ہیں،سوائے درندہ مچھلیوں کے مثلاً شارک وغیرہ۔(موطا امام مالک، صفحہ 357)

2۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کا گریبان کھلا رکھنا خلاف تہذیب سمجھا جاتا ہے۔حافظ زبیرعلی زئی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قمیص کے بٹن کھلے رکھنا، یعنی بند نہ کرنا بھی جائز اور سنت ہے۔(شمائل ترمذی، صفحہ 105)

3۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ویڈیو کو مطلقاً جائز کہتے تھے۔ حافظ صاحب اپنے موقف کی وضاحت میں رقم طراز ہیں: موجودہ دور میں ویڈیو اور کمپیوٹر سی ڈی کی ایجادیں تصویر کے حکم میں نہیں ہیں کیونکہ ان پر کوئی تصویر نظر نہیں آتی۔ یہ سائنسی اور ٹیکنیکل کمال ہے جسے انسانوں نے دریافت کرلیا ہے لہٰذا یہ ایجادات نیک مقاصد مثلاً تقریر، تعلیم، تربیت اور مناظرے وغیرہ کے لئے مباح کے حکم میں ہیں۔رہے وہ امور جو شریعت کے خلاف ہیں تو ہر حالت میں ناجائز ہیں چاہے ان کے لئے ویڈیو یا سیڈیز استعمال کی جائیں یا نہ کی جائیں۔(موطا امام مالک، صفحہ 213)

4۔ چونکہ ایک عامی علم نہ ہونے کے سبب مذہبی معاملات میں اس طرح تحقیق نہیں کرسکتا جس طرح ایک اہل علم کرتا ہے۔اس لئے اس بنیاد پر بعض اہل علم بشمول بعض اہل حدیث علماء نے بھی عامی کے لئے تحقیق کے بجائے تقلید کو ضروری قرار دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب تمام اہل حدیث تقلید کے بدعت ہونے پربھی متفق ہیں توپھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل علم کے لئے تقلیدکی بدعت ناجائز ہو اوریہی بدعت عامی کے لئے جائز ہو؟ اس سلسلے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا موقف صواب اور درست ہے کہ تقلید ہر صورت میں اور ہر کسی کے حق میں ناجائز ہے چاہے وہ عامی ہو یا غیرعامی۔ تقلید کے برعکس ہر کوئی( بلا استثناء عامی و عالم) حسب استطاعت تحقیق کرے گا۔ حافظ زبیرعلی زئی ایک حدیث سے استنباط کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: تقلید جائز نہیں ہے بلکہ استطاعت کے مطابق تحقیق ضروری ہے۔(موطا امام مالک، صفحہ 389)

جو اشخاص عامی کے لئے تقلید ہی کو واحد حل سمجھتے ہیں اور عامی کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ تحقیق و اجتہاد اسکے بس کی بات نہیں تو ایسے حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ مسئلہ پوچھنے کے لئے ایک صحیح عالم دین کی تلاش اور انتخاب ہی عامی کی تحقیق اور اجتہاد ہے۔ اس کے علاوہ اہل علم سے مسئلہ دریافت کرتے وقت عامی کا دلائل طلب کرنا بھی عامی کی تحقیق ہے۔ اسکے علاوہ عامی کا ایک ہی مسئلہ ایک سے زائد اہل علم سے دریافت کرنا پھر دلائل کی مضبوطی کی بنیاد پر ان میں سے کسی ایک اہل علم کی رائے کو اختیار کرلینا بھی عامی کی تحقیق اور اجتہاد کا ثبوت ہے۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ جو اہل حدیث علماء عامی کے لئے تقلید کے ضروری ہونے کی بات کرتے ہیں وہ بھی صرف اہل علم سے سوال کرنے کو ہی تقلید کہتے ہیں جو کہ لغوی معنوں میں تقلید ہے جبکہ مقلدوں کے چار اماموں میں سے کسی ایک کی اندھی اور کورانہ تقلیدجوکہ اصل میں اصطلاحی تقلید ہے اس سے مراد نہیں ہوتی۔اس بات کو یوں سمجھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں ہرنئے کام کو بدعت کہا جبکہ عمر رضی اللہ عنہ نے جماعت تراویح کی سنت کو ’’بدعت‘‘ کہا، حالانکہ جو چیز سنت ہے وہ بدعت کیسے ہوسکتی ہے؟ پس اس کا جواب بہت آسان ہے کہ عمررضی اللہ عنہ نے لغوی معنوں میں ’’بدعت‘‘ کا لفظ استعمال کیااور اس سے اصطلاحی بدعت ہرگز مراد نہیں تھی جیسے علمائے اہل حدیث نے لغوی معنوں میں عامی کے لئے تقلید کا لفظ استعمال کیا۔
حافظ رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت میں لکھتے ہیں: اگر کوئی کہے کہ فلاں امام مثلاً خطیب بغدادی وغیرہ نے تقلید کو جائز قرار دیا ہے۔! تو اس کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے لغوی تقلید(مثلاً جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا) جو کہ درحقیقت اصطلاحی تقلید نہیں ہے، کو جائز قرار دیا ہے ۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر55،صفحہ 3)

حالانکہ یہاں ان علماء کو مغالطہ اور شبہ ہوا ہے کیونکہ اہل علم سے سوال کرنا تقلید کے زمرے میں بالکل بھی نہیں آتابلکہ تحقیق کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس آدمی کو مسئلہ معلوم نہ ہو ، اسے چاہیے کہ عالم سے مسئلہ پوچھ لے، یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے۔(موطا امام مالک،صفحہ 357)
پس جب عامی بھی حسب استطاعت تحقیق و اجتہاد کرتا ہے اور کرسکتا ہے تو پھر عامی کے لئے تقلید کے ضروری ہونے کی بات کرنا فضول اور غلط ہے۔

5۔ ایک ویڈیو بیان میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ قرآن چومنا کیسا ہے؟ اس کے جواب میں حافظ صاحب نے فرمایا کہ قرآن چومنے کے بار ے میں ایک روایت سنن دارمی میں آئی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ عکرمہ قرآن کریم کو لیتے تھے اور اپنے چہرے پر رکھتے تھے اور فرماتے تھے: ھذا کلام ربی،ھذا کلام ربی،اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا کیونکہ یہ روایت متصل نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ قرآن کریم کی آیت ہے،اللہ فرماتا ہے: ’’َ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْب‘‘ جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ تقویٰ والی بات ہے۔(سورۃ الحج:32)
تو ہم اس آیت کی رو سے یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ قرآن چومنا جائز ہے،کیونکہ یہ رب کا کلام ہے اور اس کی عزت کی جارہی ہے۔(یوٹیوب پرویڈیو دیکھئے Questions Sheikh Zubair Ali Zai ،7:33،35)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
6۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ ایک اہم اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: صحابہ کے مقابلے میں تابعین،تابعین کے مقابلے میں تبع تابعین اور خیرالقرون کے مقابلے میں بعد والے لوگوں کے اجتہادات مردود ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر91،صفحہ 45)

7۔ شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سلف کی رائے اور فہم کو ہمیشہ اپنی رائے اور متاخرین علماء کے فہم پر ترجیح اور فوقیت دیتے تھے۔اگر کسی مسئلہ کا ثبوت قرآن وحدیث اور اجماع سے نہ ملتا لیکن۹۰۰ صدی ہجری کے علمائے سلف میں سے صرف ایک عالم سے وہ مسئلہ ثابت ہوتا توشیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اس عمل کا جواز تسلیم کرلیتے تھے۔چناچہ حافظ صاحب سے پوچھے گئے ایک سوال (کیا سلام’علیکم کہنا بھی جائز ہے؟)کے جواب میں شیخ محمد زبیر رقمطرا ز ہیں: السلام’ علیکم کہنا زیادہ بہتر ہے،جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے...سلام’‘ علیکم بھی صحیح ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے...اسی طرح صرف سلام’‘ اور سلاماً بھی آیا ہے... لیکن کسی آیت یا حدیث میں سلام’ علیکم نہیں آیا اور نہ ہی ایسے الفاظ سلف صالحین سے آئے ہیں،لہٰذا سلام’ علیکم (یعنی م کی ایک پیش کے ساتھ) نہیں بلکہ ’’السلام علیکم‘‘ کہنا چاہیے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر84،صفحہ 12)
اس فتویٰ سے ثابت ہے کہ سلام’ علیکم نہ کہنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ الفاظ سلف سے ثابت نہیں اگر سلف میں کسی سے ان الفاظ کا ثبوت دستیاب ہوتا اگر چہ قرآن و حدیث سے یہ الفاظ ثابت نہ ہوتے توپھر بھی حافظ صاحب یقیناًان الفاظ کے ساتھ سلام کوجائز قرار دیتے جیسا کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ کے دیگر فتاواجات اس پر دال ہیں۔

8۔ حافظ زبیرعلی زئی رقمطراز ہیں: وہ حلال جانور جس کی خوراک ہی گندگی نجاست ہو(یعنی جلالہ جانور) اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر90،صفحہ 15)

9۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ باطل مسالک کا رد کرتے ہوئے سختی کے جواب میں سختی کو درست سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ باطل کے خلاف انکی تحریروں میں جو شدت اور گرمی پائی جاتی ہے وہ دوسرے اہل حدیث علماء کی تحریروں میں کم نظر آتی ہے۔اس بنیاد پر بعض اہل علم کی جانب سے انہیں شدت پسندی کا طعنہ بھی دیا جاتا تھا۔ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: اگر کوئی شخص کسی کے خلاف سخت زبان استعمال کرے تو شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے سختی کے ساتھ اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔(موطا امام مالک، صفحہ 372)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: اگر مناسب نتیجہ نکلنے کی امید ہو تو کتاب وسنت کے منافی امور کا سختی سے رد کرنا بھی جائز ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر76،صفحہ3)

حافظ موصوف رحمہ اللہ کتاب وسنت کے دفاع اور اہل بدعت کے رد میں کسی نرمی اور مداہنت کے قائل نہیں تھے۔ ایک حدیث کی شرح و فوائد میں لکھتے ہیں: کتاب وسنت کے دفاع کے لئے ہروقت تیار رہنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی نرمی نہیں کرنی چاہیے۔(شمائل ترمذی،صفحہ 355)
اسی طرح لکھتے ہیں: کتاب وسنت کے خلاف امور میں مداہنت اور نرمی ناجائز ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر76،صفحہ3)

ایک مقام پر رقمطراز ہیں: اہل بدعت کے ساتھ کوئی محبت اور نرمی نہیں بلکہ ا ن سے بغض اور نفرت رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر55،صفحہ 8)

10۔ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ نماز میں اپنے اجتہاد سے بھی ذکر کیا جاسکتا ہے۔چناچہ لکھتے ہیں: ذکر کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی اگرچہ وہ ذکر اپنے اجتہاد سے کیا جائے بشرطیکہ یہ کتاب و سنت کے مخالف نہ ہو۔(موطا امام مالک،صفحہ 354)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
11۔ پانی پر دم کے مروجہ طریقہ کو حافظ زبیر علی زئی حدیث کی رو سے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں: اس حدیث میں ان لوگوں کا زبردست رد ہے جو دم و درود کے لئے پانی وغیرہ کی بوتلوں اور برتنوں میں پھونکیں مارتے ہیں۔(موطا امام مالک، صفحہ 219)

12۔ حافظ صاحب رقم طراز ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر بسم اللہ پڑھ کر بندوق وغیرہ سے فائر کیا جائے تو شکار حلال ہے بشرطیکہ شکار کا خون بہہ چکا ہو۔(موطا امام مالک،صفحہ 348)

13۔ ماضی کے بعض اہل حدیث علماء نے غلطی سے قرآنی حکم’’اگر علم نہیں تو اہل علم سے پوچھ لو‘‘ کو بھی عرفی معنوں میں تقلید کہہ دیا ہے اسی لئے ایسے علماء عامی کے لئے تقلید کوجائز و صحیح کہتے ہیں۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: حافظ ابن عبدالبراور خطیب بغدادی وغیرہما نے بعض عبارات میں عامی کے لئے (زندہ)عالم کی تقلید کو جائز قرار دیا ہے جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جاہل آدمی عالم سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3، صفحہ40)
عامی کے لئے تقلیدکے اس موقف کے رد میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تقلید کے بارے میں راجح قول یہی ہے کہ عامی کے لئے بھی تقلید جائز نہیں ہے ۔عامی پر یہ واجب ہے کہ وہ صحیح العقیدہ علماء سے قرآن وحدیث پوچھ کر اس پر عمل کرے۔قرآن وحدیث پوچھنا اور اس پر عمل کرنا تقلید نہیں کہلاتا بلکہ اتباع و اقتداء کہلاتا ہے۔(بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم،صفحہ33)

حافظ رحمہ اللہ نے بار بار اس بات اور موقف کا اعادہ فرمایا ہے چناچہ ایک اور جگہ پر رقمطراز ہیں: کتاب و سنت کے ماہر یعنی عالم دین سے مسئلہ پوچھنا کہ ’’اس میں کتاب وسنت کا کیا حکم ہے‘‘تقلید نہیں ہے بلکہ اتباع و اقتداء ہے۔اہل حدیث اسی کے قائل و فاعل ہیں کہ ہر عامی(جاہل) پر لازم ہے کہ کتاب وسنت کے عالم سے کتاب وسنت کا مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے والحمدللہ یہ سرے سے تقلید ہی نہیں ہے۔ (دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 57)

ایک اور مقام پر اس اہم اور بنیادی مسئلہ کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اہل حدیث کے دو گروہ ہیں: (۱) علماء (۲)عوام
علماء کتاب و سنت علیٰ فہم السلف الصالحین، اجماع اور اجتہاد پر عمل کرتے ہیں اور عوام ان علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں۔یہ رجوع نوع من الاجتہاد ہے تقلید نہیں ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک آل تقلید کی طرح صرف ایک امتی مجتہد کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ ہر شخص حسب استطاعت اجتہاد کرتا ہے۔
(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3، صفحہ448)

14۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ دیوبندیوں کے جہاد کو ضائع اور بے فائدہ سمجھتے تھے۔ایک حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ہر عمل کے لئے نیت کا خالص ہونا ضروری ہے ورنہ سارے اعمال باطل اور رائیگاں ہوجائیں گے۔ جہاد کے لئے عقیدے کا صحیح ہونا ضروری ہے جیسا کہ ’’اس کے کلمے کی تصدیق کے لئے نکلتا ہے‘‘ سے ثابت ہوتا ہے۔(موطاامام مالک، صفحہ 423)

دیوبندیوں کو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بدعت کبریٰ کا مرتکب انتہائی بدعقیدہ اور غالی گمراہ ثابت کیا ہے۔دیکھئے کتاب بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم
ایک جگہ بدعت کبریٰ کے مرتکبین کے اعمال کے بارے میں لکھا ہے: معلوم ہوا کہ (بدعت کبریٰ کے)مبتدعین کے اعمال باطل ہوتے ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر2،صفحہ 3)
ظاہر ہے اعمال میں نماز،روزہ،حج،زکوۃ اور جہاد سب کچھ شامل ہے لہٰذابدعقیدہ اور بدعتیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ انکی دین کے نام پر محنتیں اور جہاد کے نام پر جانیں ضائع ہیں۔انااللہ وانا الیہ راجعون!

15۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ علم بڑھنے کے ساتھ وسعت نظر پیدا ہوتی ہے اور انسان کو اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع ملتا ہے اوراضافہ شدہ علم کی روشنی میں انسان اپنے ایسے سابقہ موقفوں سے رجوع کرلیتا ہے جو کم علمی کی بنیاد پر قائم ہوئے تھے۔ ایسا ہر طالب علم کے ساتھ ہوتا ہے اور محققین کے ساتھ یہ معاملہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے کہ انہیں جدید تحقیقات کی روشنی میں کئی مرتبہ اپنی سابقہ تحقیق سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ محقق تھے اور فن اسماء الرجال ان کا خاص میدان تھا جہاں جیسے جیسے علم بڑھتا رہتا ہے ویسے ویسے سابقہ تحقیقات کا حکم بھی بدلتا رہتا ہے۔حافظ صاحب رحمہ اللہ نے کئی مشہور کتب کی تحقیق و تخریج کا کام کیا تھاجیسے :

۱۔ مولانا صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ تصنیف صلوٰۃ الرسول ﷺ (اس کتاب کو بطور خاص یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایک زمانہ میں اس کتاب کو پڑھ کر کثیر لوگوں نے مسلک اہل حدیث کو قبول کیا تھا، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: ہم اہل حدیث کیو ں ہوئے؟)
۲۔ نماز کے موضوع پر ڈاکٹر شفیق الرحمان حفظہ اللہ کی تصنیف ’’نماز نبوی‘‘ طبع دارلسلام
۳۔ سنن ابو داود اور سنن ابن ماجہ،طبع دارلسلام
۴۔ تفسیر ابن کثیر،طبع مکتبہ قدوسیہ اور فقہ الحدیث
۵۔ عمرو بن عبدالمنعم بن سلیم حفظہ اللہ کی عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد،طبع مکتبہ قدوسیہ
۶۔ نبی کریم ﷺ کے لیل و نہار

چونکہ ان کتابوں کی طباعت پر حافظ صاحب سے مراجعت یا نظر ثانی نہیں کروائی گئی اور بعض سابقہ تحقیقات تبدیل ہونے کے باوجود انہیں پرانی تحقیقات پرہی بغیر اجازت کے چھاپا جاتا رہا جس کی وجہ سے مذکورہ کتابوں کی تحقیق و تخریج سے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے کھل کراظہار براء ت فرمایا۔ ماہنامہ الحدیث میں ایک اعلان شائع کیا گیا جس میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بعض کتابیں میری مراجعت اور دستخطوں کے بغیر شائع ہوئی ہیں لہٰذا ان کتابوں کے اندر غلطیوں اور اوہام کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔میری صرف وہی کتاب معتبر ہے جسے مکتبہ الحدیث حضرو اور مکتبہ اسلامیہ لاہور /فیصل آباد سے شائع کیا گیا ہے یا پھر کتاب کے آخری پروف کی مراجعت کے بعد،اس کے آخر میں میرے دستخط اور مہر مع تاریخ موجود ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر27،صفحہ 59)

پھرایک عرصہ کے بعد اس اعلان کی دوبارہ وضاحت کی گئی چناچہ حافظ صاحب نے ’’الحدیث‘‘ میں لکھا: اس واضح اعلان کے بعد بعض الناس کا راقم الحروف کے خلاف نماز نبوی نامی کتاب یا صلوٰۃ الرسول کی تخریج کے حوالے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ (ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر68،صفحہ 11)

حیرت ہے کہ بار بار کے اعلانات اور وضاحتوں کے باوجود تقلید پرست حضرات رجوع شدہ تحقیقات کو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے ذمہ لگانے سے باز نہیں آتے۔ابوالحسن انبالوی حفظہ اللہ ایک تقلیدی دیوبندی کے اسی طرح کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: صلوٰۃ الرسول کی تخریج و تحقیق کافی عرصہ پہلے شیخ محترم رحمہ اللہ نے کی تھی،لیکن بعد میں مراجعت کا موقع نہیں ملا اور نہ ناشر نے دوبارہ مراجعت کی زحمت گوارہ کی یہی وجہ ہے کہ شیخ محترم نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ میں صرف اسی کتاب کا ذمہ دار ہوں جس کے آخر میں میرے دستخط ہوں یا پھر مکتبہ اسلامیہ کی طرف سے شائع ہو۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر119،صفحہ 60)

تقلید پرست حضرات حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی سابقہ اور جدید تحقیق کو انکا تضاد بنا کر پیش کررہے تھے جس کی وجہ سے حافظ رحمہ اللہ کو اپنی سابقہ تحقیق سے بار بار اعلانیہ رجوع کرنا پڑا۔یہ مصنف و محقق کا جائز حق ہے کہ اگر اس کی تحریر یا تحقیق میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو ناشرین متعلقہ کتابوں کی جدید اشاعتوں میں انکی اصلاح کرلیں یا وضاحت کردیں۔ لیکن روایتی ادارے و ناشرین ایک مرتبہ کسی کتاب کی تحقیق وتخریج کروانے کے بعد محقق کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے ۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ مصنف کے اس حق کے بارے میں لکھتے ہیں: بطور وضاحت اور بطور تصریح عرض ہے کہ مصنف کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی کتاب کے ہر ایڈیشن کی نظر ثانی کرے اور اگر مناسب سمجھے تو بعض مقامات کی اصلاح بھی کرے۔ اسے ’’حق التعدیل‘‘ کہا جاتا ہے اور میری تمام کتابوں و جملہ تحریرات میں حق التعدیل کا اختیار صرف مجھے ہی حاصل ہے ، لہٰذا میری اجازت ، نظر ثانی اور اصلاح کے بغیر کتاب یا تحریر شائع کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر94،صفحہ 7)

حافظ صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے: میری ہر سابقہ ، جدید اور مستقبل کی صرف وہی کتاب معتبر اور قابل اعتماد ہے جس کے ہر ایڈیشن کے آخر میں میرے دستخط مع تاریخ ہوں۔میری موت کے بعد یہ حق میری اولاد اور ورثاء کو حاصل ہے۔ میں ایسی کسی کتاب کا ذمہ دار نہیں ہوں جس کے آخر میں میرے دستخط مطبوع نہیں ہیں۔(نصر الباری فی تحقیق جزء القراء ۃ للبخاری، صفحہ 41)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
16۔ انتظامی اور تنظیمی بنیادو ں پر قائم اہل حدیث کی مختلف جماعتوں میں سے کسی میں بھی شمولیت کو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ درست نہیں سمجھتے تھے بلکہ تمام جماعتوں سے علیحدہ رہ کر مسلک اہل حدیث کی خدمت کو ہی صحیح سمجھتے تھے۔وہ خود بھی اسی پر عمل پیرا تھے اور دوسروں کو بھی اسی بات کی نصیحت فرماتے تھے۔چناچہ لکھتے ہیں: موجودہ دور میں جتنے کاغذی گروہ اور تنظیمیں ہیں، ان سب سے علیحدگی ضروری ہے۔(موطا امام مالک،صفحہ465 )

ایک سائل نے حافظ صاحب سے سوال کیا: جماعت اہل حدیث کے اندر مختلف گروہ ہیں۔آپ کے خیال میں ان میں سے کون سا گروہ بہتر ہے؟ تاکہ اس میں شامل ہوا جائے یا نہ ہوا جائے؟
اس سوال کے جواب میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: تمام گروہوں سے علیحدہ رہ کرمسلک اہل حدیث پر عمل پیرا ہو کراس کی دعوت دنیامیں پھیلائیں۔(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام،جلد2،صفحہ 48)

حافظ محترم رحمہ اللہ ایک اور مقام پر قدرے تفصیل سے اس بات کو بیان فرماتے ہیں،دیکھئے: اہل حدیث کی جتنی جماعتیں و تنظیمیں موجود ہیں ان کی حیثیت تبلیغی، اجتہادی اور اشتہاری ہے۔ان میں دخول کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں ہے ان جماعتوں کی رکنیت اور بیعت تصوف میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔سب سے بہتر اور افضل یہی ہے کہ ان تمام جماعتوں اور حزبیت (پارٹی بازی) سے علیحدہ رہ کر کتاب وسنت کی دعوت عام کی جائے اور مسلک اہلحدیث کی غیرجانبدار بھرپور خدمت کی جائے ۔سلف صالحین سے ایسی کاغذی جماعتوں اور احزاب (پارٹیوں) میں شمولیت ثابت نہیں ہے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 19، حاشیہ صفحہ نمبر43)

کسی بھی سیاسی یا مذہبی تنظیم یا جماعت کے ساتھ منسلک ہوجانے کے کتنے خطرناک نتائج اور نقصانات سامنے آتے ہیں۔اس کااندازہ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی قیمتی تصنیف ’’سیاسی و مذہبی تنظیموں سے وابستگی کا حکم‘‘ پڑھ کرباآسانی لگایاجاسکتا ہے۔ بہت سے نقصانات کے ساتھ ساتھ جماعتوں سے تعلق جوڑنے کا کم ازکم نقصان تعصب کا پیدا ہونا ہے جو اکثر حق بات کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتا ہے جو کہ بذات خود ایک عظیم نقصان ہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ان جماعتوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ تعصب اور نفرت کو ہوا دیتی ہیں۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر22، صفحہ48 )

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی جماعت یا تنظیم میں شامل شخص اپنے ذاتی افکار و نظریات و تحقیقات میں آزاد نہیں رہتا بلکہ جماعتی افکار و نظریات کا پابند ہوجاتا ہے پھر اس کے نزدیک حق وہی ہوتا ہے جو اسکی جماعت کے نزدیک حق ہو اور باطل بھی اسے ہی سمجھتا ہے جسے اسکی جماعت باطل سمجھتی ہے۔اس لئے جماعت بندی بھی تفرقہ کی ہی ایک شکل ہے جواللہ کے لئے دوستی اور دشمنی رکھنے کے بجائے جماعتی بنیادوں پر دوستی اور دشمنی رکھنے جیسے متعصبانہ رویے کو فروغ دیتی ہے۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : مسلمانوں کا مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوجانا تفرقہ کی ایک صورت ہے اور تفرقہ کی یہ شکل و صورت غیرشرعی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔(سورہ الٰ عمران:۱۰۳)
[یعنی تمام موجودہ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے علیحدہ ہوجاؤ،کسی ایک کی بھی رکنیت وغیرہ اختیار نہ کرو]

(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر22، صفحہ48 )

اہل حدیث جماعتو ں کی رکنیت اختیار کئے بغیر ان سے معروف کاموں میں تعاون کیا جاسکتا ہے۔ حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب تک روئے زمین کے تمام صحیح العقیدہ لوگ مل کر ایک ہی جماعت اور ایک ہی خلیفہ کے تحت نہ ہوجائیں ان تمام پارٹیوں میں شمولیت جائز نہیں ہے۔ ان کی رکنیت،چندہ مہم اور حزبیت سے دور دور رہ کر ان سے معروف (نیکی)میں تعاون کیا جاسکتا ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر25،صفحہ 44)

جماعت بندی کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتوں سے علیحدگی اختیار کرکے قرآن وحدیث کی دعوت کو عام کیا جائے۔تبلیغ کا کام ان جماعتوں کا محتاج ہرگزنہیں بلکہ ان جماعتوں کے بغیر یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے سر انجام دیاجاسکتا ہے۔حافظ زبیرعلی زئی فرماتے ہیں: میرے خیال میں ان امارتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ علمائے کرام ان امارتوں کے بغیر بھی دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کر سکتے ہیں۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر22، صفحہ48)

کسی انسان کے خیالات،نقاط نظر اور تحقیقات چاہے کچھ بھی ہوں ،کسی ایک جماعت کا حصہ بننے کے بعد وہ انفرادی حیثیت سے اپنے خیالات کا پرچار نہیں کرسکتا بلکہ اسکی جماعت نے حق و باطل کا جو معیار قائم کیا ہوتاہے اس کا پابند ہوکر اسے اپنے ذاتی خیالات اور نقاط نظر کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف اپنی ذات تک محدود رکھناپڑتا ہے اور ہر معاملے کو اپنے جماعتی نقطہ نظر سے دیکھنااور اسی کے مطابق لب کشائی کرنا اس کی مجبوری بن جاتا ہے ۔اسی لئے بطور خاص محقق کا کسی خاص جماعت کی رکنیت اختیار کرلینے کا نتیجہ اسکی تحقیق کی موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ جو کہ عظیم محقق تھے، کبھی بھی کسی اہل حدیث جماعت کا حصہ نہیں بنے۔انکے تلمیذ رشید حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ لکھتے ہیں: دلائل و براہین کی وجہ سے اپنے خیالات و افکار میں اس قدر مضبوط تھے کہ اس میں ادنیٰ لچک بھی گوارہ نہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ کسی کاغذی جماعت کا حصہ بننے اور اس سے دنیاوی جاہ و منصب حاصل کرنے کے بجائے تنہا اپنی ذات میں انجمن کا کردار ادا کیا اور ہمیشہ دین حنیف کی خدمت میں لیل و نہار بسر کئے۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر112،صفحہ 13)

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب جب مسلمان فرقوں میں اور اہل حدیث جماعتوں اور مختلف تنظیموں میں تقسیم ہوئے ،یہ کوئی قابل ذکر دینی کارنامہ سرانجام نہ دے سکے بلکہ اہل حق کی قوت کو کمزور کرنے کا ہی باعث بنے جبکہ جتنے بھی بڑے بڑے انقلاب آئے یا مفید کام ہوئے وہ سب انفرادی سطح پرکسی فرد واحد کی کوششوں کے سبب ہوئے اس سلسلے میں ماضی قریب سے محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہم کی امثال پیش کی جاسکتی ہیں اور موجودہ زمانے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا تحقیقی اور تصنیفی کام بھی اس کی بہت بڑی مثال ہے۔جو کام اہل حدیث کی بڑی بڑی تنظیمیں اورجماعتیں نہ کرسکیں وہ کام ایک مرد مجاہد حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے ہاتھوں سر انجام پاگیا۔جس طرح حافظ زبیرعلی زئی نے اپنی تقریروں اورتحریروں کے ذریعے عوام اور خواص پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں انکے معاصرین میں سے اسکی مثال پیش کرنا بھی بہت مشکل ہے۔اسکے برعکس جماعتوں اور تنظیموں کی توانیاں تو زیادہ سے زیادہ چندے جمع کرنے اور عہدوں کی جنگ میں ہی سرف ہوجاتی ہیں اب چاہے وہ اہل حدیث کی مختلف تنظیمیں ہوں یا کسی اور مسلمان فرقے کی،سب کا حال یکساں ہے۔ اس سلسلے میں مولانا عبدالغفار حسن رحمہ اللہ کا چشم کشا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں: یہ عجیب بات ہے کہ آج کل حدیث کے بارے میں اگر کوئی ٹھوس کام ہوا ہے تو شخصی اداروں کے ماتحت ہوا ہے،آل انڈیا یا آل پاکستان قسم کی تنظیموں کے ذریعہ،یہ علمی کام نہیں ہوسکا، کیونکہ تنظیمی مزاج کے تقاضے کچھ اور ہیں۔زیادہ تر،تنظیمی دورے ہوتے ہیں اورممبرسازی ہوتی ہے اور اسی طرح تنظیمی مناصب اور عہدوں کے لئے کشمکش بپا ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی تنظیم کے پیٹ سے کئی تنظیمیں جنم لیتی ہیں اور کوئی علمی اور تحقیقی کام نہیں ہوپاتا۔ اس کی افسوسناک مثال یہ ہے کہ مولانا عبدالحکیم نصیر آبادی اور مولانا اشرف الدین دہلوی ، دونوں کے تعاون سے مسند احمد بن حنبل کی تبویب مرتب کی گئی اور آج سے پچاس سال قبل اس کا مسودہ آل انڈیا ’’کانفرنس‘‘(اہل حدیث) کے مرکزی دفتر دہلی کے حوالے کیا گیا لیکن افسوس ہے کہ آج تک پتہ نہ چل سکا کہ مسودہ،بلکہ یہ نایاب شاہکار کہاں ضائع ہوگیا؟(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: تراجم علمائے اہل حدیث ہند،جلد۱،صفحہ ۱۸۴) اس کے برعکس علمی،تصنیفی اورتحقیقی کام،ان اداروں نے کئے ہیں،جو کسی فرد واحد نے ،یا چند احباب کے تعاون سے قائم ہوئے یا ایک ہی فرد نے مخلص احباب کے تعاون سے بڑے سے بڑا تصنیفی اور تحقیقی کام انجام دے دیا۔مثلاً
۱۔ عون المعبود: مصنفہ: مولانا شمس الحق ڈیانوی
۲۔ تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی۔مولفہ: مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
۳۔ مرعاۃ المفاتیح، مولفہ: مولانا عبیداللہ مبارکپوری حفظہ اللہ تعالیٰ
جس کی اب تک ۷ یا۸ جلدیں طبع ہوچکی ہیں، اس عظیم الشان حدیثی شاہکار کا آغاز چند مخلص احباب کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔
(ہفت روزہ الاعتصام لاہور،اشاعت خاص بیاد مولانامحمد عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ،صفحہ 568)

17۔ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: تارک الصلوۃ کی تکفیر میں سلف صالحین میں اختلاف ہے، جمہور اس کی تکفیر کے قائل ہیں، نصوص شرعیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح تحقیق یہ ہے کہ جو شخص مطلقاً نماز ترک کردے ، بالکل نہ پڑھے وہ کافر ہے،اور جو شخص کبھی پڑھے اور کبھی نہ پڑھے تو ایسا شخص کافر نہیں ہے مگر سخت مجرم اور فاسق ہے، اس کا فعل کفریہ ہے ، خلیفۃ المسلمین اس پر تعزیر نافذ کرسکتا ہے ۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 3 ، صفحہ 3)
کفر دون کفر نہ ہونے کی صورت میں کفریہ فعل کے مرتکب کا خود کافر نہ ہونا بہت ہی عجیب وغریب نظریہ ہے بلکہ سخت محل نظر ہے۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ایک سائل کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ والی روایت میں ’’فمن ترکھ امتعمداً فقد خرج من الملۃ‘‘ کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ : اگر کوئی شخص مطلقاً نماز (الصلوۃ )پڑھنا چھوڑ دے ، کبھی نہ پڑھے تو یہ شخص ملت سے خارج ہوجاتا ہے، معلوم ہوا کہ جو شخص سستی وغیرہ کی وجہ سے کبھی کبھار بعض نمازیں نہیں پڑھتا تو ایسا شخص یہاں مراد نہیں ہے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر6 ، صفحہ14 )

دوران مطالعہ حافظ صاحب کی ایک اور عبارت نظر سے گزری جو اس سلسلے میں انکے موقف کو مزید واضح کرتی ہے۔ چناچہ ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے تفقہ کے ذیل میں لکھتے ہیں: بعض نمازیں ترک کرنے والا کافر بمعنی امت مسلمہ سے خارج و مرتد نہیں ہے۔واللہ اعلم۔(موطا امام مالک،صفحہ 581)
مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک کبھی کبھی نماز ترک کرنے والے کا کفر’’ حقیقی کفر ‘‘نہیں بلکہ کفر دون کفر کے باب میں سے ہے۔لہٰذا انکا ایسے کفر کے مرتکب شخص کے فعل کو کفر کہنا اور اس شخص کی تکفیر نہ کرنا درست ہے۔واللہ اعلم

18۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا اہم ترین اور بنیاد ی اصول پیش خدمت ہے جو احادیث میں انکے تحقیقی منہج وانداز کو سمجھنے میں کافی مدد کرتا ہے۔حافظ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا دارومدار محدثین کرام پر ہے۔جس حدیث کی صحت یا راوی کی توثیق پر محدثین کا اتفاق ہے، تو وہ حدیث یقیناًو حتماً صحیح ہے اور راوی بھی یقیناًو حتماًثقہ ہے۔اور اسی طرح جس حدیث کی تضیعف یا راوی کی جرح پر محدثین کا اتفاق ہے ، تو وہ حدیث یقیناا ور حتماً مجروح ہے۔جس حدیث کی تصحیح یا تضعیف اور راوی کی توثیق و تجریح میں محدثین کا اختلاف ہو(اور تطبیق و توفیق ممکن نہ ہو) تو ہمیشہ اور ہر حال میں ثقہ ماہر اہل فن مستند محدثین کی اکثریت کی تحقیق اور گواہی کو صحیح تسلیم کیا جائے گا۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 3، صفحہ6 )

19۔ آل تقلید کے بارے میں حافظ محمد زبیررحمہ اللہ رقمطراز ہیں: عرض ہے کہ بریلوی و دیوبندی دونوں گروہ، اہل سنت نہیں ہیں، ان کے اصول و عقائد اہل سنت سے مختلف ہیں ،
تنبیہ: بریلوی و دیوبندی حضرات حنفی بھی نہیں ہیں۔
(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر 5،صفحہ 18)

حافظ صاحب رحمہ اللہ اپنی ایک کتاب میں اعلان کے تحت لکھتے ہیں: میری جس تحریر میں دیوبندیوں و بریلویوں کے ساتھ حنفی کا لفظ لکھا گیا ہے وہ عرف کے لحاظ سے لکھا گیا ہے ورنہ حقیقت میں یہ حضرات حنفی نہیں ہیں۔لہٰذا اسے منسوخ سمجھا جائے۔(نصر الباری فی تحقیق جزالقراء ۃللبخاری،صفحہ 40)

20۔ یزید کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے حافظ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یزیدکے بارے میں سکوت کرنا چاہیے،حدیث کی روایت میں وہ مجروح راوی ہے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 6 ، صفحہ8 )
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
21۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کسی کلمہ گو کی تکفیر کے قائل نہیں تھے حتی کے بریلویوں کے کلمہ کا بھی اعتبار کرتے تھے۔مسلمانوں کے گمراہ فرقوں کے بارے میں اپنا موقف یوں لکھتے ہیں: یہود کے اکہتر اور نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے جنھیں اہل کتاب سے خارج نہیں کیا گیا اور اسی طرح امت مسلمہ کے تہتر فرقے ہوئے ہیں جن میں سے بہتر فرقوں کی تکفیر کرنا اور امت مسلمہ سے خارج قرار دینا غلط ہے۔بس صرف یہ کہہ دیں کہ یہ فرقے گمراہ ہیں اور اہل بدعت میں سے ہیں یا ان کے عقائد کفریہ اور شرکیہ ہیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر33، صفحہ 13)

بریلوی جنھیں انکے کفریہ ،شرکیہ عقائد و اعمال کی وجہ سے مشرک سمجھاجاتا ہے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ انہیں مسلمان اورانکے ذبیحہ کو حلال سمجھتے تھے، چناچہ لکھتے ہیں: اہل بدعت کلمہ گو فرقوں کا ذبیحہ حلال ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر33، صفحہ 13)
جو لوگ بریلویوں او ر دیوبندیوں میں تفریق کرتے ہوئے دیوبندیوں کا ذبیحہ کھا لیتے ہیں لیکن بریلویوں کے مشرک ہونے کی وجہ سے ان کا ذبیحہ نہیں کھاتے ،ایسے لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: موجودہ دور میں اہل سنت کی طرف منسوب دو بڑے فرقوںآل دیوبند اور آل بریلی کے عام عقائد ایک جیسے ہیں ۔ ان میں سے ایک فرقے کا ذبیحہ کھانا اور دوسرے کا ذبیحہ نہ کھانا کسی واضح دلیل سے ثابت نہیں ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر33، صفحہ 13)

اس عبارت کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بریلویوں کو انکے کفریہ اور شرکیہ عقائد کی بنا پر کافر اور مشرک سمجھتے ہیں اور اس بنیاد پر انکا ذبیحہ نہیں کھاتے توانکی خدمت میں عرض ہے کہ دیوبندیوں کے بھی بعینہ وہی عقائد ہیں جو بریلویوں کے ہیں لہٰذاایسے لوگوں کو دیوبندیوں کو بھی کافر اور مشرک سمجھتے ہوئے ان کا ذبیحہ نہیں کھانا چاہیے۔اور جو لوگ دیوبندیوں کو مسلمان سمجھتے ہوئے ان کا ذبیحہ کھاتے ہیں تو انہیں بریلویوں کے ذبیحہ میں بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بریلویوں کے بھی عام عقائد وہی ہیں جو دیوبندیوں کے ہیں، اس لئے جو لوگ دیوبندیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں انہیں بریلویوں کو بھی مسلمان ہی سمجھنا چاہیے۔

22۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں لکھتے ہیں: نیک آدمی سے دعا کرانا اور اس سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔(موطاامام مالک،صفحہ 559)

اپنے جریدے ’’الحدیث‘‘ میں بھی فقہ الحدیث کے تحت رقمطراز ہیں: نیک آدمی اگر اجازت دے تو اس کی مسواک بطور تبرک استعمال کرنا جائز ہے۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر104،صفحہ 11)

23۔ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے بطور رضامندی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے نقل کیا: اگر دوران وضو کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جائے تو عطاء (بن ابی رباح رحمہ اللہ تابعی) نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3، صفحہ 605)

24۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الافطار مما دخل ولیس مما خرج‘‘ جسم میں اگر کوئی چیز (مرضی سے) داخل ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی چیز (مثلاً خون) باہر نکلے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔(الاوسط لابن المندرج۱ ص۱۸۵ ث۸۱)
اس اثر سے معلوم ہو کہ ہر قسم کا ٹیکہ اور ڈرپ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لہٰذا روزے کی حالت میں ہرقسم کے انجکشن لگانے سے اجتناب کریں۔
روزہ میں ٹوتھ پیسٹ کے استعمال کے بارے میں حافظ صاحب لکھتے ہیں: روزے کی حالت میں خشک یا تر وتازہ مسواک اور سادہ برش کرنا جائز ہے لیکن ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہٰذا ٹوتھ پیسٹ یا دانتوں کی دوائی استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔
(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3، صفحہ 608)

25۔ حافظ صاحب نے لکھا ہے: تکبیر(اقامت،دوسری اذان) کا جواب دینا صراحتاً ثابت نہیں ہے۔اگر کوئی شخص اذان پر قیاس کرکے اس کا جواب دیتا ہے تو اسی طرح جواب دے جس طرح و ہ اذان کا جواب دیتا ہے۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد3، صفحہ 74)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
المختصر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے جنھیں علم سے بہت محبت تھی اور انہوں نے عملاً اپنی زندگی کو علم نافع یعنی علم دین کے لئے وقف کیا ہوا تھا۔حافظ رحمہ اللہ نے علم کی تقریباًتمام ہی اصناف پر طبع آزمائی فرمائی تھی وہ بیک وقت محدث بھی تھے، مدرس بھی، مناظر بھی تھے اور مصنف بھی ، تذکرہ نویس بھی تھے اور سفر نامہ نگار بھی،مترجم بھی تھے اور محقق بھی۔اسکی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بطور مناظر:
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بہت سے مناظروں کا حصہ رہے جن میں زیادہ تر مناظروں میں بطور معاون اپنی خدمات پیش کیں اور کچھ مناظرے خود بھی کئے۔یہ مناظرے ہر قسم کے باطل پرستوں سے ہوئے جن میں دیوبندی، جماعت المسلمین، منکرین عذاب قبراور عیسائی وغیرہ بھی شامل ہیں۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ عیسائیوں سے اپنے ایک مناظرے کا احوال لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں: راقم الحروف کا پولس کو ماننے والے مسیحیوں کے اپنے مذہبی اسکول : زیڈ بی آئی اٹک (پاکستان) میں ایک مناظرہ ہوا تھا جس میں ان کے مناظر برکت مسیح نے دلائل سے مجبور ہو کر یہ تسلیم کرلیا تھا کہ بائبل میں تناقض و تعارض موجود ہے۔اس کے بعد برکت مسیح صاحب نے مناظرے سے انکار کردیا اور اپنے مذہبی اسکو ل میں ہمیں بیٹھا چھوڑ کر اپنے پیروکاروں کے ساتھ راہ فرار اختیار کی۔والحمدللہ(مضمون: مسیحی مذہب میں خدا کا تصور،ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر 7، صفحہ36 )

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی مناظروں میں شرکت و شمولیت اکثر بطور معاون ہوتی تھی،حافظ موصوف رقمطراز ہیں: کوہاٹ والے مناظرے میں راقم الحروف نے وتعاونواعلی البر والتقویٰ کے اصول پر طالب الرحمن صاحب کی معاونت کی تھی، جبکہ مدمقابل ماسٹر امین اوکاڑی صاحب تھے اور مناظرے کے اختتام پر سلطان نامی دیوبندی نے اہل حدیث ہونے کا اعلان کردیا تھا۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر90،صفحہ 35)

مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ شیخ زبیرعلی زئی کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب بھی اہل بدعت کے خلاف کوئی بھی مناظرے کا محاذ گرم ہوا تو شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اپنے رفقاء کے شانہ بشانہ چلے اور اپنے ساتھیوں سے بڑھ کر دلائل کی تیاری کے ساتھ میدان میں اترے۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر114،صفحہ 48)

انہوں نے طالب علموں کو فن مناظرہ کی تعلیم بھی دی۔چناچہ ذوالفقارعلی طاہر حفظہ اللہ لکھتے ہیں: جامعہ مسجد صراط مستقیم تین ہٹی کراچی میں جب معہد السلفی کا آغاز ہو اتو کچھ ماہ بعد حافظ زبیرعلی زئی سے وقت لیا گیا،آپ تشریف لائے اور تقریباً ایک ہفتہ قیام فرمایا اور طلبہ کو مناظرانہ گر سکھائے اور ان ہی ایام میں راقم کی حافظ صاحب رحمہ اللہ سے اچھی ملاقاتیں رہیں۔(ماہنامہ دعوت اہل حدیث)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بطور مترجم:
حافظ صاحب نے کئی اہم اور نافع کتب و مضامین کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا جیسے

۰۱۔ امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ کی مقبول زمانہ کتاب’’ شمائل ترمذی‘‘
۰۲۔ مالک بن انس بن مالک بن عمررحمہ اللہ کی مایہ نازتالیف ’’موطا امام مالک‘‘
۰۳۔ اسماعیل بن عمربن کثیر رحمہ اللہ کی علم حدیث میں نہایت اہم کتاب ’’اختصار علوم الحدیث‘‘
۰۴۔ امام ابومحمدعبدالرحمن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ کارسالہ ’’اصل السنۃ واعتقادالدین‘‘ (دیکھئے: الحدیث،شمارہ2،صفحہ41)
۰۵۔ الشیخ عبدالمحسن العبادکی کتاب ’’شرح حدیث جبریل فی تعلیم الدین‘‘ بنام’’شرح حدیث جبریل‘‘
۰۶۔ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ تصنیف’’نصر الباری فی تحقیق جزء القراء ۃللبخاری‘‘
۰۷۔ امام اسماعیل بن اسحاق القاضی رحمہ اللہ کی کتاب ’’فضل الصلوٰۃعلی النبیﷺ‘‘ بنام’’فضائل درود وسلام‘‘
۰۸۔ امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی رحمہ اللہ کی تصنیف ’’اثبات عذاب القبر‘‘ (دیکھئے: الحدیث،شمارہ117،صفحہ30)
۰۹۔ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کی معرکۃ الآرا کتاب ’’جز رفع الیدین‘‘
۱۰۔ ابو عبداللہ خالد بن عبداللہ الناصر کی بہترین تصنیف’’المنھاج فی یومیات الحاج‘‘ بنام ’’حاجی کے شب وروز‘‘

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ بطور محدث و محقق:
حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بہت سی کتب احادیث کی تحقیق و تخریج کی اور کئی کتب احادیث کے فوائد بھی لکھے۔جن میں کتب ستہ، موطا امام مالک اور شمائل ترمذی وغیرہ شامل ہیں۔بین الاقوامی اشاعتی ادارے ’’دارلسلام‘‘ نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے کتب اربعہ کی تحقیق و تخریج کروائی تھی۔

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سنن ابوداود کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: سنن اربعہ کی احادیث کی تحقیق کے لئے شیخ زبیرعلی زئی (حضرو، اٹک)حفظہ اللہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔شیخ زبیرعلی زئی عظیم محقق ، خدمت حدیث کے جذبے سے بہرہ ور،تحقیق حدیث کے ذوق سے آشنااور فن اسماء الرجال کے ماہر ہیں۔علوم حدیث پر بھی انکی نظر گہری ہے اور فقہائے محدثین کی طرح صحیح حدیث کو ضعیف سے ممیز کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اور اس کا م کی اہلیت و صلاحیت بھی ۔چناچہ دارلسلام کی درخواست پر مولانا موصوف نے سنن اربعہ کی مکمل تحقیق و تخریج کی ہے۔ (سنن ابو داود، جلد 1، صفحہ 53، سنن ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ 31 )

لیکن بعد میں بعض راویوں کی تحقیق تبدیل ہوجانے کی وجہ سے کئی احادیث کا حکم بدل گیا تھا ،بعض احادیث جنھیں حافظ صاحب نے صحیح قرار دیا تھا نئی تحقیق کی بنا پر وہ ضعیف قرار پائیں اور بعض ضعیف قرار دی جانے والی احادیث صحیح یا حسن ٹھہریں جس کی تفصیل حافظ صاحب نے اپنے رسالے الحدیث میں شائع کی اورجدید تحقیق کے مطابق لوگوں کواپنے اپنے نسخوں میں اصلاح کرنے کی نصیحت کی ۔سنن ابی داود اور سنن ابن ماجہ کے بارے میں حافظ صاحب لکھتے ہیں: درج ذیل روایات کے بارے میں نظر ثانی، تحقیق جدید یا کمپوزر کی غلطیوں کی وجہ سے احکامات بدل گئے ہیں لہٰذا اپنے اپنے نسخوں میں ان کی اصلاح کرلیں۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر54،صفحہ 22,23)
ان تبدیلیوں کے بارے میں ’’دارلسلام ‘‘ کو بھی فوری طور پرآگاہ کردیا گیا تھالیکن چونکہ ادارہ ’’دارلسلام‘‘ نے نئی تحقیق کے مطابق کتابوں میں ترمیم، تصحیح یا ضروری وضاحت نہیں کی جس کی وجہ سے دارلسلام کی جانب سے شائع کی گئی کتب احادیث کی تحقیق و تخریج سے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اظہار براء ت کیا اورنئی شرط عائد کرتے ہوئے صرف انہیں کتابوں کی تحقیق کو درست قرار دیا جن کتابوں کے آخر میں حافظ صاحب کے دستخط اور مہر موجود تھیں یا پھر انہیں مکتبہ اسلامیہ لاہور/فیصل آباد یا پھر مکتبۃ الحدیث حضرو نے شائع کیا تھا۔(دیکھئے: ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر94،صفحہ6 ،مضمون: راقم الحروف کی طرف منسوب کتابیں اور شروط ثلاثہ)

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق سے شائع شدہ کتب احادیث جن کی اشاعت کا اہتمام دارلسلام نے کیا،دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے جگہ جگہ احادیث کے فوائد لکھنے والے علماء نے زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق پر عدم اعتماد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے محترم محقق نے تو اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن فلاں فلاں محدث کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے یا فلاں محدث نے تو اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن ہمارے محقق کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک قاری کتب کے فوائد پڑھتے وقت سخت کوفت اور عدم اعتمادی کا شکار ہوجاتا ہے کہ کتاب کے محقق کی بات کو درست مانے یا فوائد لکھنے والے کے دعویٰ کو صحیح تسلیم کرے۔ اگراشاعتی ادارہ دارلسلام یا انکے فوائد لکھنے والے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق سے مطمئن نہیں تھے تو حافظ صاحب سے تحقیق و تخریج کروانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یا تو کتب احادیث کا محقق تبدیل کرلیتے یا فوائد کسی اور سے لکھوا لیتے۔دین کو اس طرح تماشہ تو نہ بنواتے کہ قاری احادیث سے کوئی فائد اٹھانے کے بجائے اسکی تصحیح اور تضعیف کے حکم میں ہی الجھ کر رہ جائے۔یہ تو خدمت حدیث کے بجائے عوام الناس کو احادیث سے متنفر کرنے اور منکرین حدیث کے شبہات کو تقویت پہنچانے کی کوشش زیادہ لگتی ہے۔ واللہ اعلم

مفید معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل میں بیان کی گئی باتوں کی بعض مثالیں پیش کردی جائیں۔

طباعتی ادارے دارالسلام کی جانب سے چار جلدوں میں فوائد اور مختصر شرح کے ساتھ شائع شدہ مترجم سنن ابوداود کی تحقیق و تخریج حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے کی ہے اور اسکے فوائد و شرح اور ترجمے کے فرائض ابوعمار عمرفاروق سعیدی جو کہ شیخ الحدیث ومدیر التعلیم جامعہ ابی بکر الا سلامیہ کراچی ہیں، نے سرانجام دیے ہیں۔

پہلی مثال: سنن ابوداود کی حدیث نمبر 76کے بارے میں حافظ زبیرعلی رحمہ اللہ نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے: ’’اسنادہ ضعیف‘‘ اور ساتھ میں وجہ ضعف بھی بیان کردی ہے۔(دیکھئے:سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ140)
اس تحقیق پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ابوعمارعمرفاروق سعیدی صاحب نے لکھا ہے: یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک صحیح ہے۔(دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ نمبر141)

دوسری مثال: جب سنن ابوداود کی حدیث نمبر204 کو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے ’’اسنادہ ضعیف‘‘کہاتو فائدے کے تحت عمرفاروق سعیدی صاحب نے لکھا: یہ روایت بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہے۔(سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ215)

تیسری مثال: اسی طرح حدیث نمبر 228 کو حافظ صاحب نے اپنی تحقیق میں’’اسنادہ ضعیف‘‘ کہا تو عمرفاروق سعیدی صاحب نے بطور فائدہ لکھا: ہمارے دور حاضر کے محقق اور محدثین کرام علامہ احمد شاکر اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیھما نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ229)

چوتھی مثال: حدیث نمبر 236کو بھی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے ’’اسنادہ ضعیف‘‘ لکھا ہے کیونکہ یہ حدیث حافظ رحمہ اللہ کے نزدیک اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے اور اسکا کوئی صحیح شاہد یا متابعت بھی موجود نہیں۔احادیث پر حکم لگانے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا انداز یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث سنداً ضعیف ہو لیکن اس کا کوئی صحیح شاہد موجود ہوتو اس پر ضعیف کا حکم نہیں لگاتے بلکہ اسے صحیح یا حسن قرار دیتے ہیں۔جیسا کہ سنن ابوداود کے تحقیقی مقدمہ میں حافظ صاحب بقلم خود رقمطراز ہیں: تصحیح حدیث و تحسین میں شواہد و متابعات کا بھی اعتبار کیاگیا ہے، لہٰذا بعض روایات کو شواہد و متابعات کے ساتھ صحیح اور حسن قرار دیا گیا ہے۔(سنن ابوداود،جلد 1،مقدمۃ التحقیق، صفحہ62)
اسکے باوجود بھی عمر فاروق سعیدی صاحب نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق کو مکمل نظر انداز کرکے لکھا ہے: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم یہ روایت اور بھی کئی طرق سے مروی ہے، بنا بریں بعض محققین کے نزدیک یہ روایت ان طرق کی وجہ سے قوی ہوجاتی ہے....شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تحسین کی ہے۔(سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ235)

پانچویں مثال: جب حدیث نمبر506 اور507 کو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا تو عمر فاروق سعیدی صاحب نے اسکے برخلاف لکھا: حدیث ۵۰۶اور۵۰۷کوہمارے فاضل شیخ علی زئی حفظہ اللہ نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن ان کے بعض شواہد صحیح احادیث میں موجود ہیں۔غالباً انہی شواہد کی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ان دونوں حدیثوں کی تصحیح کی ہے۔(سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ419)

عمر فاروق سعیدی صاحب کو ترجمے اور فوائد لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن موصوف نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے احادیث کی تحقیق بھی شروع کردی اور کتاب کے اصل محقق کے خلاف جابجا احادیث پر اپنی مرضی کا حکم بھی لگانا شروع کردیا۔اگر انکے نزدیک حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق ایسی ہی ناقابل اعتبار تھی تو احادیث کی تحقیق کی ذمہ داری بھی خودہی اٹھا لیتے تاکہ دو محققین کے مابین احادیث پر حکم لگانے کا اہم ترین کام بازیچہ اطفال نہ بنتا۔

چھٹی مثال: حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دو حدیثوں (720, 719) کو اپنی تحقیق میں حسن قرار دیا جس سے اختلاف کرتے ہوئے عمر فاروق صاحب نے بطور فائدہ لکھا: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں۔(سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ543)

ساتویں مثال: حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے ابوداود کی حدیث نمبر 931 کی تخریج کرتے ہوئے لکھا: اخرجہ البخاری۔(سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ677)
یہ بات حدیث کے عام طالب علموں کوبھی معلوم ہے کہ بخاری کی کوئی روایت کسی دوسری حدیث کی کتاب میں کسی دوسری سند سے بھی موجود ہو تو وہ یقیناًصحیح ہوتی ہے چاہے بخاری کی متابعت یا شاہد کی بنا پر ہو اس لئے حافظ صاحب نے اس حدیث پر حکم لگاتے ہوئے لکھا: اسنادہ حسن۔(سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ677)
لیکن عمرفاروق صاحب نے حسب روایت اختلاف کرتے ہوئے کہا: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔(سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ678)

آٹھویں مثال: حدیث نمبر940 کو جب حافظ رحمہ اللہ نے حسن کہا تو فائدے کے تحت عمر فاروق صاحب نے لکھا: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے لیکن شواہد کی بنا پر قابل استدلال ہے۔ (سنن ابوداود،جلد 1، صفحہ686)

عمرفاروق سعیدی صاحب نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق کو پس پشت ڈال کر جس طرح اپنے تئیں احادیث کی تصحیح اور تضعیف کے فیصلے کئے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کتاب کے اصل محقق زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نہیں بلکہ عمر فاروق سعیدی صاحب ہیں۔

سنن ابن ماجہ کے ترجمے اور فوائد کی ذمہ داری مولانا عطاء اللہ ساجد کے سپرد کی گئی تھی لیکن سنن ابن ماجہ میں بھی قریب قریب یہی صورتحال ہے جس کا تذکرہ سنن ابوداود کے حوالے سے کیا گیا ہے۔مثلاً

حدیث نمبر11پر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے ضعف کا حکم لگاتے ہوئے لکھا: اسنادہ ضعیف۔(سنن ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ77 )
تو عطاء اللہ ساجد صاحب نے اس حدیث کے فوائد و مسائل میں اس تحقیق کے خلاف لکھا: یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تھوڑے سے الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ مسند احمد میں ہے، اس کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ78 )

اسی طرح حدیث نمبر 90 کو بھی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اسنادہ ضعیف لکھا تو عطاء اللہ ساجد نے اس تحقیق کے جواب میں لکھا: یہ روایت بعض محققین کے نزدیک حسن درجے کی ہے جو عندالمحدثین قابل حجت ہوتی ہے۔(سنن ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ149 )

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی حدیث نمبر92کی تحقیق’’اسناد ہ ضعیف‘‘ کے جواب میں عطاء اللہ ساجد صاحب فرماتے ہیں: ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم شیخ البانی رحمہ اللہ نے شواہد کی بنیاد پر اسی روایت کو آخری جملے کے بغیر حسن کہا ہے۔(سنن ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ151 )

سنن ابن ماجہ اور سنن ابوداود سے یہ چند مثالیں صرف بطور ’’مشتے از خروارے‘‘ پیش کی گئیں ہیں ورنہ ابوداود کی چاروں جلدوں اور ابن ماجہ کی پانچوں جلدوں میں سے ہر جلد میں ہر دوسری حدیث کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا ہے کہ جس جس حدیث کو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے صحیح یا حسن قرار دیا ہے مترجمین نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور جو احادیث حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق میں ضعیف ہیں ان احادیث کو مترجمین نے صحیح بارور کروانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور یوں احادیث کی تحقیق جیسے اہم کام کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے اور قاری کے لئے ایک نہ سلجھنے والی الجھن چھوڑ دی ہے۔اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: مولانا عطاء اللہ ساجد کے ترجمہ و فوائد کے ساتھ دارالسلام کی ’’سنن ابن ماجہ(مترجم)‘‘ اس کتاب میں بعض مقامات پر صحیح احادیث کو ضعیف اور ضعیف روایات کو صحیح قرار دینے کی بلا دلیل کوشش کی گئی ہے،نیز کئی مقامات پر یہ کتاب چوں چوں کو مربہ ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر96،صفحہ 21)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
فن مغالطہ کا امام اور مشہور کذاب و دجال امین اوکاڑوی دیوبندی کے مقالات ’’تجلیات صفدر‘‘ کے نام سے چھ جلدوں میں مطبوع ہیں۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے مقالات کی جب پہلی جلد زیور طباعت سے آراستہ ہوکر مارکیٹ میں پہنچی اس وقت سے راقم الحروف مقالات کی اگلی جلد کا شدت سے منتظر رہتا تھاچونکہ حافظ زبیر ابھی جوان ہی تھے اس لئے میری شدید خواہش تھی کہ اگر امین اوکاڑی کے مقالات کی جلدیں چھ ہیں تو حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے مقالات کی جلدیں کم از کم بیس یا پچیس ہونی چاہئیں تاکہ امین اوکاڑوی اینڈ پارٹی کے پھیلائے ہوئے مغالطات کا اچھی طرح ازالہ ہوجائے۔ لیکن افسوس! حافظ رحمہ اللہ کا وہ وقت آن پہنچا جس کے سامنے انسان بے بس، مجبور اور لاچار ہے۔ اور اس طرح تحریر اور تصنیف کا یہ کام ادھورا رہ گیا۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی زندگی میں مقالات کی پانچ جلدیں شائع ہوچکی تھیں۔ مقالات کی چھٹی جلد انکی وفات کے بعد شائع ہوئی ۔جس طرح حافظ صاحب اپنے پیچھے غیرمطبوع کام چھوڑ کر گئے ہیں اس سے مجھے امید ہے کہ مقالات کی ابھی کم ازکم ایک جلد مزید شائع ہوسکتی ہے۔ان شاء اللہ

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی علمی رفتار کو دیکھتے ہوئے صرف راقم ہی نہیں بلکہ قریب قریب سب اہل حدیث ہی ان سے بڑے اور عظیم کام کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ شیخ زبیررحمہ اللہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: اللہ نے انہیں بڑی بڑی صلاحتیں عطا فرمائی تھیں۔لیکن ہر آدمی کا وقت اللہ کے یہاں مقرر ہے،آنے کا وقت بھی جانے کا وقت بھی۔لیکن آپ بہت جلد ہی چلے گئے،جتنی ان سے توقعات تھیں کہ وہ اللہ کے فضل و کرم سے بہت کچھ حدیث کی خدمت سرانجام دیں گے لیکن وہ ادھوری رہ گئی ہیں۔(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر114،صفحہ 48)

حافظ صاحب کے مقالات کی آخری جلد کے حرف اول میں جناب حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ نے زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے غیرمطبوع تصنیفی کام کو منظر عام پر لانے کا مژ دہ سنایا ہے۔لہٰذالکھتے ہیں: جس طرح محدث العصررحمہ اللہ کی تحریروں کو علمی مقالات کی صورت میں یکجا کردیا گیا ہے اسی طرح کا ایک سلسلہ ’’فوائد علمیہ‘‘ بھی ہے جس میں استاد محترم رحمہ اللہ کے شذرات وافادات اور ان بکھرے علمی و تحقیقی موتیوں کو ایک لڑی میں پرو کر منظر عام پر لایا جائے گا جو ابھی اوجھل ہیں۔اس پروگرام کا میں نے شیخ محترم رحمہ اللہ کے سامنے اظہار کیا تھا جسے آپ نے نہ صرف پسند کیا بلکہ خوب سراہا بھی تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ بھی مقبول عام ہوگا اور استاذ محترم رحمہ اللہ کے لئے صدقہ جاریہ بنے گا۔(ان شاء اللہ)۔(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد ششم،صفحہ 7)

بعض مخصوص جملے ایسے ہوتے ہیں جنھیں انسان بار بار استعمال کرتا ہے شاید ایسا ان جملوں کی کسی شخص کے نزدیک پسندیدگی کے سبب ہوتا ہے کہ وہ بار بار اسکی نوک زباں اور نوک قلم پر آجاتے ہیں اور کبھی کبھی تو یہی مخصوص جملے و الفاظ اپنے کثرت استعمال کے سبب کسی شخص کا تکیہ کلام اور اسکی پہچان ٹھہرتے ہیں۔حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ چونکہ کثیر التصانیف تھے اس لئے انہوں نے بھی کئی جملے ضرورت اور پسندیدگی کے سبب بار بار اپنی تحریروں میں دہرائے ہیں،ان میں چند ایک ملاحظہ ہوں:

۱۔ ’’ان لوگوں کی یاد تازہ کردی جنھیں بندر اور خنزیر بنا دیا گیا تھا‘‘ اس مخصوص جملے کوباطل پرستوں کے خلاف مختلف پیرائے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے کثرت سے استعمال کیا ہے ۔

۲۔ شرعی مسائل پر عمل کرتے ہوئے یا کوئی عقیدہ اختیار کرتے ہوئے یا قرآن و حدیث کی نصوص سے استدلا ل کرتے ہوئے ہمیشہ سلف صالحین کے فہم کو مدنظر رکھنا ،وہ نصیحت ہے جو حافظ محمد زبیررحمہ اللہ کی تحریروں میں جابجا موجود ہے۔

۳۔ ’’مبالغے یا جھوٹ کا ’’لک‘‘ توڑ دیا ہے‘‘ وہ منفرد جملہ ہے جسے محمدزبیررحمہ اللہ بارہااپنی تحریروں میں استعمال فرماتے تھے۔
یہاں بطورمعلومات عرض ہے کہ ’’لک‘‘ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’کمر‘‘ ہے۔ اسطرح مذکورہ جملہ یوں ہوا ’’جھوٹ کی کمر توڑدی ہے۔‘‘

۴۔ ’’دماغی ہسپتال میں علاج کروانا چاہیے‘‘ جملہ بھی حافظ صاحب رحمہ اللہ نے بطور مشورہ باطل پرستوں کے حق میں کئی مرتبہ استعمال کیا ہے۔

۵۔ ’’عدم علم کی صورت میں جاہل کو عالم کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور یہ رجوع اور عالم سے عامی کا سوال کرنا تقلید نہیں ہے‘‘ اس مفہوم کی تنبیہی عبارتیں بھی حافظ ابوطاہر محمد زبیررحمہ اللہ کی تحریروں میں بکھری پڑی ہیں۔

اسکے علاوہ اپنے منہج کی وضاحتیں بھی محمد زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریروں میں کثرت سے درج ہیں۔

مضمون کے آخر میں بعض ضروری تنبیہات درج ذیل ہیں۔

تنبیہ۱: آغاز مضمون میں ایک ضروری اور اہم وضاحت پیش کی گئی ہے بطور یاد دہانی مکرر عرض ہے کہ راقم الحروف نے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحریروں و تقریروں سے جو بھی استدلالات قائم کئے ہیں وہ میرے ذاتی فہم کا نتیجہ ہیں چناچہ اس بات کا احتمال خارج از امکان نہیں کہ میں نے اپنے فہم اور سمجھ کے مطابق حافظ صاحب کی تحریر کردہ عبارات سے جو نتیجہ اخذ کیا ہو، حقیقت میں ویسا نہ ہو۔اس لئے درخواست ہے کہ اگر دوران مطالعہ قاری کو کچھ غلط لگے تو وہ بذریعہ دلیل صحیح بات پیش کردے اور غیر ضروری بحث ومباحثہ اور بلاوجہ کی تنقید سے حتی الامکان پرہیز کرے۔

تنبیہ۲: مضمون میں بعض جگہ ’’الحدیث‘‘ اور بعض جگہ ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ کے حوالے دیے گئے ہیں جبکہ یہ ایک ہی مجلہ ہے پہلے اس کا نام ’’ماہنامہ الحدیث‘‘ تھا لیکن بقول حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کہ مجلے کے اس نام پر کافی اعتراضات کئے جارہے تھے جس کی بنا پر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی مشاورت سے ان کی زندگی ہی میں اس رسالے کا نام’’ماہنامہ الحدیث‘‘ سے بدل کر ’’ماہنامہ اشاعۃ الحدیث‘‘کردیا گیا تھا۔

تنبیہ۳: حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی مشہورکنیت ’’ابوطاہر‘‘ تھی لیکن اکثر لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم کہ حافظ صاحب نے اپنے بیٹے حافظ معاذ علی زئی کی نسبت سے ’’ ابو معاذ‘‘کنیت بھی اختیار کی ہوئی تھی اور اسی کنیت سے رسالہ ’’الحدیث‘‘ میں باقاعدگی سے لکھتے تھے۔ ایک مقام پر اپنی یہ غیر معروف کنیت بمع نام لکھتے ہیں: ابومعاذ زبیرعلیزئی۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر96،صفحہ 10)

تنبیہ۴: زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کا پورا نام ’’ حافظ ابوطاہر محمد زبیرعلی زئی‘‘ تھا۔مضمون میں اسی نام کو کبھی مختصر اور کبھی مکمل ذکر کیا گیا تاکہ یکسانیت سے بچا جاسکے ۔جیسے کبھی حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ لکھا ہے، کبھی شیخ زبیرعلی زئی، کبھی صرف زبیرعلی زئی، کبھی حافظ صاحب رحمہ اللہ، کبھی محمد زبیر، کبھی حافظ محمد زبیر وغیرہ


ازقلم: شاہد نذیر،کراچی
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ماشاءاللہ ، بہت ہی عرق ریزی اور محنت سے مضمون ترتیب دیا گیا ہے ، اور حافظ زبیر علی زئی صاحب کی ’’ عالمانہ شخصیت ‘‘ کے مختلف پہلوؤں پر ایک بہترین معلوماتی اور تحقیقی تحریر ہے ۔
شاہد بھائی آپ نے ورڈ سے مضمون کاپی کیا ہے جس کی وجہ سے فونٹ ذرا چھوٹا ہے ، اگر اس کی فارمیٹنگ وغیرہ کرنے سے پہلے ایک دفعہ ’’ سیلکٹ آل ‘‘ کرکے ایڈیٹر کے بائیں طرف موجود ’’ ٹی ایکس ‘‘کو ایک دفعہ دبا لیں اور پھر فارمیٹنگ وغیرہ کریں ، تو قارئیں کافی مشقت سے بچ جائیں گے ۔
جزاک اللہ خیرا
آپ جیسے علماء کی حوصلہ افزائی سے حوصلہ بہت بلند ہو جاتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ مضمون بہت باقی تھا لیکن آپ نے اپنا قیمتی تبصرہ پیش کردیا بقیہ مضمون پڑھنے کے بعد شاید آپ کے خیالات بدل جائیں اس لئے درخواست ہے کہ اب دوبارہ تبصرہ کریں۔ تعریف کریں یا تنقید ہر دو صورتوں میں مجھے خوشی ہوگی۔

میرے پاس تو پورے مضمون کی فارمیٹنگ خراب آرہی ہے الفاظ آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں کچھ جملوں کے بیچ میں بہت فاصلہ آرہا ہے شاید میری ونڈو میں کوئی پرابلم ہوگئی ہے۔ ان پیج سے تحریر کو یونیکوڈ میں تبدیل کرنا پھر تھوڑی تھوڑی تحریر کو فارمیٹ کرکے پیش کرنا بہت مشکل کام تھا اور بدقسمتی سے میں آپ کی نصیحت نہیں پڑھ سکا۔ اس لئے فی الحال اس مضمون کو ایسے ہی برداشت کرنا پڑے گا لیکن میں ایک دو دن میں ان شاء اللہ اسے آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر دوبارہ فارمیٹ کردوں گا۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
ماشاء اللہ بہت اچھی کاوش ہے اللہ آپ کو جزاء عطا فرمائے آمین
 
Top