• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حديث تقتل عماراً الفئة الباغية کا تواتر

آصف حسین

مبتدی
شمولیت
جنوری 27، 2016
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
محترم طارق عبد اللہ صاحب آپکی بات سے 100٪ متفق ہے لیکن موضوع سے ھم نہیں بلکہ محترم اسحاق سلفی صاحب ہٹ گئے تھے جب انہوں نے کچھ تحریف قرآن ، تقیہ وغیرھم کے الزام لگائے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
آپ کے اتفاق کا شکریہ
آپکی موجودہ پوسٹس کا شروع سے مشاہدہ کریں ۔ قاضی صاحب اور اسحاق صاحب کے جواب کا انتظار فرمائیں ۔
ویسے آپ نے جاری عنوان اور اس پر دلائل کے ضمن میں کہا نہیں !
 

آصف حسین

مبتدی
شمولیت
جنوری 27، 2016
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
25
اس بحث آیا حدیث کا یہ ٹکڑا علیٰ شرط بخاری ہے یا نہیں ۔۔۔ اس کا فیصلے کرنے سے پہلے میں کہوں کہ علامہ ابن حجر نے آگے خود لکھا ہے کہ ابی سعد الخدری نے یہ حصہ کسی اور صحابی سے سنا ہے مطلب یہ بھی فرفوع ثابت ہے لہذا یہ علیٰ شرط بخاری ہی ہوگا کیونکہ بخاری نے بہت سی ایسی روایات لی ہے جن میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس صحابی نے اس روایت کو دوسرے صحابی سے سنا ہوگا جیسا کہ ابی ھریرہ کے بارے میں ہے انہوں نے رسول اللہ صلی علیہ و آلہ کے ساتھ صرف 3 سال گزارے لیکن انکے اسلام قبول کرنے سے پہلے کی روایات بھی انہوں نے نقل کی ہے جیسے ابو طالب کے بارے میں احادیث ان سے مروی ہے
 

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
السلام علیکم @ اسحاق سلفی بھائی

السلام علیکم اسحاق بھائی



حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس قول کو واضح کر دیں

لَكِن وَقع فِي رِوَايَة بن السَّكَنِ وَكَرِيمَةَ وَغَيْرِهِمَا وَكَذَا ثَبَتَ فِي نُسْخَةِ الصَّغَانِيِّ الَّتِي ذَكَرَ أَنَّهُ قَابَلَهَا عَلَى نُسْخَةِ الْفَرَبْرِيِّ الَّتِي بِخَطِّهِ زِيَادَةٌ تُوَضِّحُ الْمُرَادَ وَتُفْصِحُ بِأَنَّ الضَّمِيرَ يَعُودُ عَلَى قَتَلَتِهِ وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ وَلَفْظُهُ وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ يَدْعُوهُمْ الْحَدِيثَ

شکریہ
 

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
السلام علیکم

کوئی بھائی حافظ ابن حجر کے کلام کو واضح کر دے گا

لَكِن وَقع فِي رِوَايَة بن السَّكَنِ وَكَرِيمَةَ وَغَيْرِهِمَا وَكَذَا ثَبَتَ فِي نُسْخَةِ الصَّغَانِيِّ الَّتِي ذَكَرَ أَنَّهُ قَابَلَهَا عَلَى نُسْخَةِ الْفَرَبْرِيِّ الَّتِي بِخَطِّهِ زِيَادَةٌ تُوَضِّحُ الْمُرَادَ وَتُفْصِحُ بِأَنَّ الضَّمِيرَ يَعُودُ عَلَى قَتَلَتِهِ وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ وَلَفْظُهُ وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ يَدْعُوهُمْ الْحَدِيثَ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم

کوئی بھائی حافظ ابن حجر کے کلام کو واضح کر دے گا

لَكِن وَقع فِي رِوَايَة بن السَّكَنِ وَكَرِيمَةَ وَغَيْرِهِمَا وَكَذَا ثَبَتَ فِي نُسْخَةِ الصَّغَانِيِّ الَّتِي ذَكَرَ أَنَّهُ قَابَلَهَا عَلَى نُسْخَةِ الْفَرَبْرِيِّ الَّتِي بِخَطِّهِ زِيَادَةٌ تُوَضِّحُ الْمُرَادَ وَتُفْصِحُ بِأَنَّ الضَّمِيرَ يَعُودُ عَلَى قَتَلَتِهِ وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ وَلَفْظُهُ وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ يَدْعُوهُمْ الْحَدِيثَ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
اس بات کو سمجھنے کیلئے فتح الباری کی پوری عبارت کو دیکھنا ضروری ہے
آپ کو ’’ان باکس ‘‘ میں تفصیل بھیجی ہے ، بقیہ کلام یہاں ملاحظہ فرمالیں :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ويمكن حمله على أن المراد بالذين يدعونه إلى النار كفار قريش كما صرح به بعض الشراح لكن وقع في رواية بن السكن وكريمة وغيرهما وكذا ثبت في نسخة الصغاني التي ذكر أنه قابلها على نسخة الفربري التي بخطه زيادة توضح المراد وتفصح بأن الضمير يعود على قتلته وهم أهل الشام ولفظه ويح عمار تقتله الفئة الباغية يدعوهم الحديث
اور (جہنم کی طرف بلانے والوں ) سے مراد کفار قریش بھی ہوسکتے ہیں ،جیسا کی بعض شرح کرنے والوں نے بیان کیا ہے ۔
لیکن :
ابن السکن اور کریمہ کی (صحیح بخاری کی ) روایت میں ،اور علامہ صغانی کے نسخہ میں جس کا صغانی نے فربری کے ہاتھ سے لکھے نسخہ سے تقابل بھی کیا ہوا ہے ،اس میں یہ صراحت ہے کہ :
اس حدیث میں (جہنم کی طرف بلانے والوں ) سے مراد شامی لشکر ہے ،
جس میں یہ الفاظ ہیں کہ :
’’ افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔

واعلم أن هذه الزيادة لم يذكرها الحميدي في الجمع وقال إن البخاري لم يذكرها أصلا وكذا قال أبو مسعود قال الحميدي ولعلها لم تقع للبخاري أو وقعت فحذفها عمدا قال وقد أخرجها الإسماعيلي والبرقاني في هذا الحديث قلت ويظهر لي أن البخاري حذفها عمدا وذلك لنكتة خفية وهي أن أبا سعيد الخدري اعترف أنه لم يسمع هذه الزيادة من النبي صلى الله عليه وسلم فدل على أنها في هذه الرواية مدرجة والرواية التي بينت ذلك ليست على شرط البخاري ۔۔ الخ
جان لیجئے کہ :

یہ اضافی جملہ (تقتله الفئة الباغية ) امام حمیدی رحمہ اللہ نے ’’ الجمع بين الصحيحين ‘‘ میں اس حدیث کے ساتھ ذکر نہیں کیا ،اور کہا کہ امام بخاری نے بھی اصل میں اسے نقل نہیں کیا ۔اور حمیدی ؒ نے کہا کہ شاید صحیح بخاری سرے سے واقع ہی نہیں تھا ،یا پہلے تھا پھر امام نے اس کو(اپنی شرط پر نہ ہونے کے سبب ) حذف کردیا،
جبکہ یہ جملہ اس حدیث میں امام اسماعیلی اور امام برقانی نے بیان کیا ہے ۔حافظ صاحب فرماتے ہیں :میں جہاں تک سمجھا ہوں بخاری اسے عمداً حذف کیا ہے ۔اور حذف کرنے کی وجہ ایک پوشیدہ نکتہ ہے ،وہ یہ کہ ابو سعید ؓخدری نے اعتراف کیا ہے کہ یہ اضافی ٹکڑا انہوں نے نبی کریم سے نہیں سنا، تو واضح ہوا کہ یہ جملہ اس روایت میں مدرج ہے ، اور جو روایت اس کی وضاحت کرتی ہے وہ بخاری کی شرط پر نہیں تھی ‘‘


وقد أخرجها البزار من طريق داود بن أبي هند عن أبي نضرة عن أبي سعيد فذكر الحديث في بناء المسجد وحملهم لبنة لبنة وفيه فقال أبو سعيد فحدثني أصحابي ولم أسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال يا بن سمية تقتلك الفئة الباغية أه وبن سمية هو عمار وسمية اسم أمه وهذا الإسناد على شرط مسلم وقد عين أبو سعيد من حدثه بذلك ففي مسلم والنسائي من طريق أبي سلمة عن أبي نضرة عن أبي سعيد قال حدثني من هو خير مني أبو قتادة فذكره فاقتصر البخاري على القدر الذي سمعه أبو سعيد من النبي صلى الله عليه وسلم دون غيره وهذا دال على دقة فهمه وتبحره في الاطلاع على علل الأحاديث ‘‘


اور ابو سعید ؓخدری کی وہ روایت جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ اضافی ٹکڑا انہوں نے نبی کریم سے خود نہیں سنا، وہ ’’ البزار نے نقل کی ہے کہ :ابو سعید فرماتے ہیں :
تعمیر مسجد کے دوران سارے شرکاء ایک ایک اینٹ اٹھا کر لارہے تھے ،جبکہ عماردو دو اٹھا رہے تھے ،یہ بیان کر کے ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ
(اس سلسلے میں ) مجھے میرے ایک ساتھی نے مزید یہ بات بھی بتائی کہ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا تھا کہ :
’’ افسوس ! اے ابن سمیہ تجھے ایک باغی جماعت قتل کرے گی ،اور ابن سمیہ ۔۔عمار۔۔سے مراد عمار ہیں ۔سمیہ انکی والدہ کا نام ہے ۔
اور یہ تصریح والی سند مسلم کی شرط پر ہے۔
(آگے وہ مسلم کی سند والی روایت نقل کرکے فرماتے ہیں ) کہ امام بْخاری نے صرف اس متن پر اکتفا کیا جو ابوسعید نے خود نبی اکرم ﷺ سے سنا تھا ،
اور انہوں نے اس روایت کا جو حصہ دوسرے راوی سے سنا بخاری ؒ اسے نقل نہیں کیا ۔
اور یہ بات امام بخاری کے دقت فہم ،اور علم حدیث و علل حدیث میں تبحر پر دلالت کرتا ہے ،
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جزاك الله خيرا
علمی ، دقیق اور غیر مبہم وضاحت فرمائی ۔ هم اپنا دین کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا هے اور ہم انہی مصادر سے دلائل دیتے هیں ، اللہ آپ کے علم میں وسعت دے اور آپکی حق کلامی میں استحکام دے ۔ آمین
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جزاك الله خيرا
علمی ، دقیق اور غیر مبہم وضاحت فرمائی ۔ هم اپنا دین کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا هے اور ہم انہی مصادر سے دلائل دیتے هیں ، اللہ آپ کے علم میں وسعت دے اور آپکی حق کلامی میں استحکام دے ۔ آمین
والسلام
السلام علیکم ورحمۃاللہ
بہت شکریہ
جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عمار تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار "ایک جائزہ"

اس روایت کو روافض اور نیم روافض حضرت معاویہؓ کے خلاف پیش کرتے ہیں


أخبرنا إسماعيل الصفار قال: سمعت أبا أمية محمد بن إبراهيم يقول: سمعت في حلقة أحمد بن حنبل، ويحيى بن معين، وأبي خيثمة، والمعيطي، وذكروا: "تقتل عمارا الفئة الباغية" فقالوا: ما فيه حديث صحيح

ہمیں اسماعیل الصفار نے خبر دی کہا میں نے ابو امیہ محمد بن ابراہیم کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے امام احمد، امام یحیی بن معین، امام ابوخثیمہ اور امام معیطی کے حلقہ میں سنا کہ وہاں ذکر کیا گیا کہ: حضرت عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا، انہوں نے کہا: اس کے متعلق صحیح حدیث نہیں ہے۔

[كتاب المنتخب من علل الخلال :۲۲۲]

امام یحیی بن معین نے دقاق یزید بن ہثیم بن طہمان کی روایت میں کہا: دراوردی نے علاء بن عبدالرحمن سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عمارؓ سے فرمایا: تجھے باغی گروہ قتل کرے گا، یہ روایت دراوردی کی کتاب میں نہیں پائی جاتی، مجھے اس نے خبر دی جس نے دراوردی سے کتاب العلاء سنی اس صحیفہ میں یہ حدیث نہیں ہے اور یہ ایک واقعہ ہے رسولﷺ نے فرمایا ہے، اور دراوردی کا حافظہ کوئی شے نہیں اس کی کتاب زیادہ صحیح ہے۔

میں نے عبداللہ بن ابراہیم سے سنا آپ نے کہا: میں نے اپنے باپ کو کہتے ہوئے سنا کے میں نے امام احمد بن حنبلؒ کو فرماتے ہوئے سنا: حضرت عمارؓ کے متعلق اٹھائیس حدیثیں روایت کی گئی ہیں کہ: آپؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا، ان میں سے کوئی صحیح حدیث نہیں۔

ابن رجبؒ نے فتح الباری ۴۹۴/۲ پر کہا: یہ اسناد معروف نہیں ہے اور امام احمدؒ سے اس کے خلاف روایت کا گیا، یعقوب بن شیبہ السدوسی نے ان کی مسند کے حصے مسند عمارؓ میں کہاسمعت أحمد بن حنبل سئل عن حديث النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في عمار: تقتلك الفئة الباغية فقال أحمد: كما قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قتلته الفئة الباغية وقال: فی هذا غیر حدیث صحیح عن النبیﷺ وکره ان یتکلم فی هذا اباکثر من ‌هذا

میں نے امام احمدؒ سے سنا جبکہ آپ سے نبیﷺ کی حضرت عمارؓ کے متعلق حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا: حضرت عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا تو امام احمدؒ نے فرمایا: جیسا کہ رسولﷺ نے فرمایا: آپؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا اور آپ نے کہا: اس بارے میں نبیﷺ سے مروی صحیح حدیث نہیں ہے اور آپؒ نے اس کے متعلق اس سے زیادہ بات کرنا ناپسند کیا۔

[منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ۴۱۴/۴، السنة للخلال ٤٦٣/۲]

بخاری کے اکثر نسخوں میں اس اضافہ تقتله الفئة الباغية کا ذکر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ امام حُمیدی نے الجمع بین الصحیحین میں اس کا تذکرہ نہیں کیا اور آپ نے کہا: امام بخاریؒ نے یہ اضافہ بالکل ذکر نہیں کیا، آپ نے کہا: شاید یہ امام بخاریؒ سے واقع نہیں ہوا یا واقع ہوا اور عمداً اسے حذف کردیا۔

[فتح الباري شرح صحيح البخاري ٥٤٢/۱]

جن لوگوں نے اس اضافے کی نفی کی ان میں سے ایک امام مزیؒ آپ نے تحفتہ الاشراف ۴۲۷/۳ پر کہا: اس عمارؓ کو باغی گروہ قتل کرے گا نہیں ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے اس اضافے کو ثابت کیا ہے چناچہ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری ٥٤٢/۱ پر ذکر کیا ہے کہ ابن السکن، کریمہ وغیرہما کی روایت میں یہ اضافہ موجود ہے اور الصنعانی کے نسخہ میں بھی موجود ہے اور صنعانی نے ذکر کیا ہے کہ میں نے اس نسخے کو فربری ک نسخے سے تقابل کیا ہے، اسماعیل اور برقانی نے اس حدیث میں اضافے کو تخریج کیا ہے۔

مدرج ہونے کی وجہ سے بھی یہ اضافہ معلول ہے، حافظ ابن حجرؒ نے کہا: میرے لیے یہ بات ظاہر (راجع) ہوئی ہے کہ امام بخاریؒ نے اس اضافہ کو عمداً حذف کیا اور یہ ایک خفیہ نکتے کی وجہ سے کیا اور وہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت ابوسعید خدریؓ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آپ نے یہ اضافہ نبی کریمﷺ سے نہیں سنا، پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں یہ اضافہ مُدرج ہے، اور وہ روایت جو بیان ہوئی وہ امام بخاریؒ کی شرط پر نہیں ہے اور اسے امام بزارؒ نے داود بن ابی ہند کے طریق سے روایت کیا وہ ابونضرہ سے وہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے راوی ہیں چناچہ آپ نے مسجد کی تعمیر اور ان کا ایک ایک اینٹ اٹھانے کا ذکر کیا ہے اور اس میں ہے کہ حضرت ابوسعیدؓ نے کہا: مجھ سے میرے اصحاب نے بیان کیا اور میں نے یہ بات رسولﷺ سے نہیں سنی کہ آپﷺ نے فرمایا: اے ابن سمیہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا، اور ابن سمیہ، حضرت عمارؓ ہیں، آپ کی والدہ کا نام سمیہ ہے، یہ سند مسلم کی شرط پر ہے، حضرت ابوسعید خدریؓ سے جس نے بیان کی آپ نے اس کی تعین کی ہے چناچہ مسلم اور نسائی میں ابو سلمہ کے طریق سے ہے کہ وہ ابونضرہ سے وہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے راوی، آپ نے کہا: مجھ سے اس نے بیان کیا جو مجھ سے بہتر ہے یعنی ابوقتادہ نے پھر یہی حدیث ذکر کی، پس امام بخاریؒ نے حدیث کی اتنی مقدار پر اکتفاء کیا جو حضرت ابوسعیدؓ نے نبی کریمﷺ سے سنا تھا آپ کے علاوہ کو چھوڑ کر، اور یہ بات امام بخاریؒ کی دقت فہم اور علل حدیث پر اطلاع کے تبحر پر دلالت کرتی ہے۔
 
Top