یہ حدیث تو اس وقت بیان کی تھی۔۔۔
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے نبیﷺ اور اللہ کے عدو کی بیٹی کو ایک ہی چھت کے نیچے رکھنے کا سوچ رہے تھے۔۔۔
اُس موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم حسنین رضی اللہ عنھم جنت میں عورتوں کی سردار کو تکلیف دینے پر یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔۔۔
آپ سے درخواست ہے کہ پوری حدیث یہاں پیش کردیں۔۔۔
ویسے تو یہ بیان کرنا اس دھاگہ کے موضوع سے میل نہیں کھاتا لیکن بادشاہ سلامت کے حکم پر عمل کرنا اس بندہ ناچیز کے لئے باعث شرف ہے !
لیجئے وہ تمام ہی روایت کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جس میں سیدۃ النساء اہل جنت، زوجہ مولا علی، والدہ محترمہ سرداران اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کو بیان کیا گیا ہے لیکن ماننا آپ نے پھر بھی نہیں لیکن جو صحیح بخاری کو اصح ترین کتاب بعد کتاب اللہ دل سے مانتے ہیں وہ ضرور اس پر یقین کریں گے ۔
رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی
" فاطمة بضعة مني، فمن أغضبها أغضبني ".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
حدیث نمبر : 3714 ،حدیث نمبر : 3767
فائدہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ارشادات کے مطابق فاطمہ علیہا السلام رسول اللہ کے جسم کا حصہ ہیں اس لئے ان کی ناراضگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی ہے
امام بخاری کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام جن لوگوں سے ناراض اس دینا سے رخصت ہوئیں کا بیان
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، أن فاطمة ـ عليها السلام ـ بنت النبي صلى الله عليه وسلم أرسلت إلى أبي بكر تسأله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفاء الله عليه بالمدينة وفدك، وما بقي من خمس خيبر، فقال أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " لا نورث، ما تركنا صدقة، إنما يأكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال ". وإني والله لا أغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حالها التي كان عليها في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم فأبى أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة منها شيئا فوجدت فاطمة على أبي بكر في ذلك فهجرته، فلم تكلمه حتى توفيت، وعاشت بعد النبي صلى الله عليه وسلم ستة أشهر، فلما توفيت، دفنها زوجها علي ليلا، ولم يؤذن بها أبا بكر وصلى عليها
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ' کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ' ان سے عقیل نے ' ان سے ابن شہاب نے ' ان سے عروہ نے ' ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبر وں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ' ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے 'البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں خدا کی قسم جو صدقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا ' جس حال میں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکرنے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینامنظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر رضی اللہ عنہما کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔
حدیث نمبر : 4240 - 4241
فائدہ
یاد رہے نقل کفر کفر ناباشد
امام بخاری کے مطابق فاطمہ علیہا السلام باغ فدک کے معاملے میں حضرت ابوبکر سے ناراض ہوگئیں تھی حتی کہ آپ کا وصال ہوگیا جب وہ اس دارفانی سے کوچ کرگئیں تو مولا علی نے ان کی وصال کی خبر حضرت ابوبکر کو نہ دی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھ کر رات میں ہی سپرد خاک کردیا
امام بخاری کے مطابق ان لوگوں کا بیان جنہوں نے فاطمہ کی ناراضگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی والے فرمان کو سن کر فاطمہ علیہ السلام کی ناراضگی والے عمل کو ترک کیا
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني علي بن حسين، أن المسور بن مخرمة، قال إن عليا خطب بنت أبي جهل، فسمعت بذلك، فاطمة، فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يزعم قومك أنك لا تغضب لبناتك، هذا علي ناكح بنت أبي جهل، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعته حين تشهد يقول " أما بعد أنكحت أبا العاص بن الربيع، فحدثني وصدقني، وإن فاطمة بضعة مني، وإني أكره أن يسوءها، والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد ". فترك علي الخطبة. وزاد محمد بن عمرو بن حلحلة عن ابن شهاب عن علي عن مسور، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وذكر صهرا له من بني عبد شمس فأثنى عليه في مصاهرته إياه فأحسن قال " حدثني فصدقني، ووعدني فوفى لي ".
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ سے علی بن حسین نے بیان کیا اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہعلی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد: میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا) ایک ٹکڑا ہے، اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے، خدا کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ محمد بن عمر وبن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔
حدیث نمبر : 3729
فائدہ
اس حدیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہ اس بات کو پسند نہیں فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع ہو اور یہ کہ فاطمہ علیہا السلام کو کوئی تکلیف دے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں سوکن کی موجودگی سے فاطمہ علیہا السلام کو تکلیف ہوتی اور جب مولا علی علیہ السلام نے یہ فرمان سنا تو فوری طور سے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کا اردہ ترک کردیا ظاہر ہے جب ناراضگی والا امر نہ رہا تو وہ ان سے راضی ہوگئیں
اب اس حدیث کو بیان کرنے کے مطالبے کے پیچھے جو ناصبی سوچ کار فرما تھی اس کا رد خود امام بخاری نے یہ بیان فرماکر کر دیا کہ
فترك علي الخطبة
مولا علی علیہ السلام نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا
امام بخاری کے مطابق علی و فاطمہ (زوجین )کی آپس کی ناراضگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رد عمل کا بیان
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة، فلم يجد عليا في البيت فقال " أين ابن عمك ". قالت كان بيني وبينه شىء، فغاضبني فخرج فلم يقل عندي. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان " انظر أين هو ". فجاء فقال يا رسول الله، هو في المسجد راقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع، قد سقط رداؤه عن شقه، وأصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه ويقول " قم أبا تراب، قم أبا تراب ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا ، انھوں نے اپنے باپ ابوحازم سہل بن دینار سے ، انھوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب اٹھو۔
حدیث نمبر : 441
فائدہ
سبحان اللہ
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کی آپس کی خفگی کا وہ معنی نہیں لیا جاسکتا جو ناصبی ذہین میں پیدا ہوتا ہےعلی و فاطمہ کی آپس کی خفگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مبارک بتا رہا ہے کہ آپ نے علی علیہ السلام کو ابوتراب کا خطاب عطاء فرمایا جو مولا علی علیہ السلام کو سب سے ذیادہ پیارا تھا۔
آخر میں اللہ سے یہی دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو بشمول اہل سنت والجماعت ناصبیت کی فریب کاریوں سے محفوظ رکھے آمین