• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
مصلی کی امامت
کیا یہ کوئی دلیل ہے ؟
عقل والوں کے لئے دن اور رات میں نشانیاں ہیں۔۔۔
کس چیز کی؟؟؟۔۔۔
یہ اعتراض رافضی خود رافضیوں سے کرے۔۔۔
ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ویسے تو یہ پوسٹ اس دھاگے کے عنوان سے غیر متعلق ہے مگر آپ نے جو خلافت کے حصول کے لئے بحث مباحثہ کا الزام مولا علی پر لگا یا ہے صرف اس بات کی ترید کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں آپ کی ہی پوسٹ کردہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ

اور اس بات پر مولا علی علیہ السلام کا جواب یہ تھا ۔


اس مکالمے سے کہاں ظاہر ہورہا ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے خلافت کی خواہش کا اظہار کیا بلکہ جب حضرت عباس انہیں کہا کہ " آؤ خلافت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد کیسے ملے گی تو حضرت مولا علی علیہ السلام نے سختی سے انکار کردیا
ویسے آپ نے جو صحیح بخاری کی روایت پیش کی اس میں حضرت عباس کے اس جملے کو کیوں حذف کردیا ؟؟؟؟؟
فأخذ بيده عباس بن عبد المطلب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال له أنت والله بعد ثلاث عبد العصا،‏‏‏‏
ترجمہ از داؤد راز
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ تم، خدا کی قسم تین دن کے بعد زندگی گزارنے پرتم مجبور ہو جاؤ گے۔
اور مولا علی علیہ السلام کا یہ جملہ بھی غور کرنے کے قابل ہے جیسے آپ نے کسی اور انداز میں بیان کیا ہے
فقال علي إنا والله لئن سألناها رسول الله صلى الله عليه وسلم فمنعناها لا يعطيناها الناس بعده
تر جمہ از داؤد راز
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم! اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق کچھ پوچھا اور آپ نے انکار کر دیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کر دیں گے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 4447

آپ خود ہی ان دونوں جملوں پر غور کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بنو ہاشم کے لئے حالات کیا ہونے والے تھے جس کا اندیشہ مولا علی علیہ السلام کو بھی تھا اور حضرت عباس کو بھی ۔ رسول اللہ کی حیات میں بھی بنو ہاشم سے قریش کا رویہ بغض عناد پر مبنی تھا جس کی شکایت ایک بار خود حضرت عباس نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ میں کی
ترجمہ از ڈاکٹر طاہر القادری
''حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو (جذبات سے عاری) ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔''
مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/206 : خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

حضرت عباس کا یہ اندیشہ بے جا نہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں بنو ہاشم کے ساتھ اس طرح کا رویہ تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تو بنو ہاشم کے ساتھ قریش کا سلوک مذید بد تر ہونا تھا اور وہ ہوا بھی ایسی لئے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر اپنے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکرار کے ساتھ یہ ارشاد فرمانا پڑا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
" اے لوگوں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔''
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2408
اگر بات ایسی ہی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی خلافت کو تسلیم کیوں کیا ؟؟؟ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ قریش کے اس رویے سے بے خبر تھے - اور اگر واقعی میں ایسا تھا تو حضرت عمر رضی الله عنہ کا یہ عمل قابل تحسین تھا کہ انہوں نے نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد فوری طور پر حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا - تا کہ بنو ہاشم اور بنو قریش میں خلافت کے بارے میں فتنہ نہ کھڑا نہ ہو جائے -جب کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مورد الزام ٹھرا رہے ہیں کہ -"کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت اور آنحضرت کی مفارقت کا غم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ بغیر غسل و کفن مصیبت زدہ خاندان رسالت میں چھوڑ کر ابو بکر کیلئے بیعت لینے سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف دوڑیں "

آپ کہتے ہیں کہ یہ موقع محل نہیں تھا کہ ابھی نبی کی میت حجرے میں تھی اور سب خلافت کی فکر میں تھے -

سوال ہے کہ کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو بیماری و موت کی شدت میں تھے تو حضرت عبّاس رضی الله عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو مکالمہ ہوا کیا وہ موقع محل کے لحاظ سے تھا ؟؟؟ کہ وہ دونوں اس وقت خلافت کے بارے میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے - جب حضرت عبّاس رضی الله عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا کہ آؤ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا؟ آپ ہمیں خلافت دے جائیں تو بھی ہمیں معلوم ہوجائے اور اگر آپ کسی اور کو خلافت دے دیں تو پھر ہمارے متعلق اس کو وصیت کرجائیں تو حضرت علی رضی الله عنہ کو جواب میں کہنا چاہیے تھا کہ یہ موقع نہیں ہے اس قسم کی باتوں کا اس بارے میں بعد میں بھی بات ہو سکتی ہے - لیکن آپ رضی الله عنہ نے اپنی خواہش ظاہر کر دی - آپ رضی الله عنہ که سکتے تھے کہ بنو ہاشم کو اقتدار و امارت سے کیا دلچسپی - ہمیں تو پہلے ہی نبی کی طرف سے فضیلت کی خوشخبری مل چکی ہے - لیکن آپ رضی الله عنہ نے بھی دبے لفظوں میں اس خواہش کا اظہار کر دیا -کہ اگر نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو ہمیں کبھی بھی خلافت نہیں ملے گی - لہذا انہوں نے اس وقت نبی کریم سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا -

جو حدیث آپ نے اہل بیت سے متعلق بیان کی ہے اس میں ان کی فضیلت کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں -لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اہل بیت صرف حضرت علی رضی الله عنہ اور ان کی آل اولاد ہی ہے - "اہل" خاندان کو کہتے ہیں اور ظاہر ہے اس میں سب سے پہلے آپ صل الله علیہ وسلم کی ازواج آتی ہیں - اور آپ صل الله علیہ وسلم کا یہ تین بار یہ فرمانا کہ میں تمہیں اہل بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ میرے بعد چوں کہ میری ازواج سے کسی کے لئے نکاح جائز نہیں تو اس لئے ان کا خیال رکھنا اور ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا - کیوں کہ ان کا کوئی سرپرست نہیں ہو گا - باقی رہی آپ صل الله علیہ وسلم کی بیٹیاں تو ان کا درجہ بہرحال ازواج مطہرات کے بعد آتا ہے اور ان کے سرپرست بھی موجود تھے ان کی خبر گیری کے لئے - لیکن ازواج مطہرات کا معاملہ ایسا نہیں تھا -

باقی اس موضوع سے متعلق آپ کی خدشات دور کرنے کے لئے میں نے آپ کو مشوره دیا تھا کہ آپ محمود احمد عباسی کی کتاب حقیقت خلافت و ملوکیت پہلے ضرور پڑھ لیں - پھر جو بھی اعترضات ہو تو پیش کریں - اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ باغی گروہ جس نے حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو شہید کیا وہ حقیقت میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا گروہ تھا یا پھر عبدللہ بن سبا یمنی کے پیروکار تھے ؟؟ اس کتاب میں آپ کی پسندیدہ کتاب علامہ ابن کثیر کی البدایہ ونہایہ کا اور ابو مخنف لوط بن یحییٰ کی روایات کے ریفرنس بھی موجود ہے - جن کی روشنی میں ہی مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ دور عثمان رضی الله عنہ میں مصر کے موالی بن کر گئے اور وہیں عبدللہ بن سبا یمنی کے پیروکاروں کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے (واللہ عالم) -
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ا انہوں نے نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد فوری طور پر حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا -

کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب میں لکھا ہے کہ سیدہ النساء اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو اپنے یہاں بلایا صلح کرنے کے لئے اور یہ شرط رکھی کہ آپ اکیلے آئیں کسی کو اپنے ساتھ نہ لائے کیونکہ مولا علی علیہ السلام کو حضرت عمر کی موجودگی پسند نہیں تھی اگر اس ناپسنددگی کو امام بخاری کے الفاظ میں بیان کروں تو شاید کسی کے دل آزاری ہو لیکن میں تو صرف نقل کروں گا کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد امام بخاری کے الفاظ یہ ہیں مولا علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراہت ہوتی تھی ایک بار پھر معذرت کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد اور پھر یہ کوئی کفر بھی نہیں اگر ہوتا تو امام بخاری بیان نہ کرتے

آپ یہ فرمارہیں ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے فوری طور سے حضرت ابو بکر کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیا جبکہ امام بخاری کے مطابق اس صلح کی مدت کم از کم 6 یا 7 ماہ بنتی ہے کیونکہ امام بخاری کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے 6 ماہ بعد سیدہ النساء اہل جنت زوجہ مولا علی والدہ سرداران اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصل ہوا اور اما م بخاری کے ہی مطابق حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر سے شدید ناراض ہوکر اس دارفانی سے کوچ کرگئیں اور امام بخاری ہی حضرت فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہےکہ
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
اور یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تبارک تعالیٰ کی ناراضگی ہے
اگر میری اس تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی کا طلب گار ہوں کیونکہ میں نے وہی نقل کیا ہے جو امام بخاری نے بیان کیا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
یہ حدیث تو اس وقت بیان کی تھی۔۔۔
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے نبیﷺ اور اللہ کے عدو کی بیٹی کو ایک ہی چھت کے نیچے رکھنے کا سوچ رہے تھے۔۔۔
اُس موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم حسنین رضی اللہ عنھم جنت میں عورتوں کی سردار کو تکلیف دینے پر یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔۔۔
آپ سے درخواست ہے کہ پوری حدیث یہاں پیش کردیں۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ کہتے ہیں کہ یہ موقع محل نہیں تھا کہ ابھی نبی کی میت حجرے میں تھی اور سب خلافت کی فکر میں تھے -

سوال ہے کہ کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو بیماری و موت کی شدت میں تھے تو حضرت عبّاس رضی الله عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو مکالمہ ہوا کیا وہ موقع محل کے لحاظ سے تھا ؟؟؟ کہ وہ دونوں اس وقت خلافت کے بارے میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے - جب حضرت عبّاس رضی الله عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا کہ آؤ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا؟ آپ ہمیں خلافت دے جائیں تو بھی ہمیں معلوم ہوجائے اور اگر آپ کسی اور کو خلافت دے دیں تو پھر ہمارے متعلق اس کو وصیت کرجائیں تو حضرت علی رضی الله عنہ کو جواب میں کہنا چاہیے تھا کہ یہ موقع نہیں ہے اس قسم کی باتوں کا اس بارے میں بعد میں بھی بات ہو سکتی ہے - لیکن آپ رضی الله عنہ نے اپنی خواہش ظاہر کر دی - آپ رضی الله عنہ که سکتے تھے کہ بنو ہاشم کو اقتدار و امارت سے کیا دلچسپی - ہمیں تو پہلے ہی نبی کی طرف سے فضیلت کی خوشخبری مل چکی ہے - لیکن آپ رضی الله عنہ نے بھی دبے لفظوں میں اس خواہش کا اظہار کر دیا -کہ اگر نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو ہمیں کبھی بھی خلافت نہیں ملے گی - لہذا انہوں نے اس وقت نبی کریم سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا -

انا للہ وانا الہ راجعون
اگر ایسی بات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت مولا علی علیہ السلام تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک میں ہی موجود تھے ان سے سقیفہ بنی ساعدہ کتنی دور تھا وہ اکیلے ہی خلافت حاصل کرنے کے لئے وہاں پہنچ جاتے کیونکہ حضرت عمر کی طرح ان کو کسی کی کا انتطار نہیں کرنا تھا ۔لیکن آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر نہیں گئے مولا علی علیہ السلام کے دو ٹوک جواب کو آپ بحث و مباحثہ کس بناء پر گمان کررہیں ہیں یہ مجھے سمجھ نہیں آیا اگر یہ بحث ومباحثہ بھی تھا تو اس وقت رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ہی تھے لیکن جو لوگ سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف گئے وہ رسول اللہ کے وصا ل کے بعد کی بات غور کریں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
انا للہ وانا الہ راجعون
جو لوگ سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف گئے وہ رسول اللہ کے وصا ل کے بعد کی بات غور کریں
اس روایت کے روای کا نام بھی بتادیں؟؟؟۔۔۔
جس واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ کو امام طبری رحمہ اللہ نے رقم کیا ہے۔۔۔
بھاگنا نہیں اب۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جو حدیث آپ نے اہل بیت سے متعلق بیان کی ہے اس میں ان کی فضیلت کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں -


اب اتنے بھی نادان نہ بنئے
جو حدیث پیش کی اس کو اس دلیل کے طور سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں بھی اہل قریش کا رویہ باب ایمان اہل بیت علیہ السلام کے ساتھ بغض و عناد والا تھا جس کی شکایت بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گاہ باگاہے کی جاتی رہی ہیں ان شکایت کی ہی بناء پر غدیر خم کے اپنے خطاب میں تکرار کے ساتھ مجمع عام یہ ارشاد فرمایا
"میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔''
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے علی بن حسین نے بیان کیا اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں)پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد: میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔
اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ حدیث تو اس وقت بیان کی تھی۔۔۔
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے نبیﷺ اور اللہ کے عدو کی بیٹی کو ایک ہی چھت کے نیچے رکھنے کا سوچ رہے تھے۔۔۔
اُس موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم حسنین رضی اللہ عنھم جنت میں عورتوں کی سردار کو تکلیف دینے پر یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔۔۔
آپ سے درخواست ہے کہ پوری حدیث یہاں پیش کردیں۔۔۔
ویسے تو یہ بیان کرنا اس دھاگہ کے موضوع سے میل نہیں کھاتا لیکن بادشاہ سلامت کے حکم پر عمل کرنا اس بندہ ناچیز کے لئے باعث شرف ہے !

لیجئے وہ تمام ہی روایت کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جس میں سیدۃ النساء اہل جنت، زوجہ مولا علی، والدہ محترمہ سرداران اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کو بیان کیا گیا ہے لیکن ماننا آپ نے پھر بھی نہیں لیکن جو صحیح بخاری کو اصح ترین کتاب بعد کتاب اللہ دل سے مانتے ہیں وہ ضرور اس پر یقین کریں گے ۔
رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی
‏"‏ فاطمة بضعة مني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمن أغضبها أغضبني ‏"‏‏.‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔
حدیث نمبر : 3714 ،حدیث نمبر : 3767

فائدہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ارشادات کے مطابق فاطمہ علیہا السلام رسول اللہ کے جسم کا حصہ ہیں اس لئے ان کی ناراضگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی ہے
امام بخاری کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام جن لوگوں سے ناراض اس دینا سے رخصت ہوئیں کا بیان
حدثنا يحيى بن بكير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا الليث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عقيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عروة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن فاطمة ـ عليها السلام ـ بنت النبي صلى الله عليه وسلم أرسلت إلى أبي بكر تسأله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفاء الله عليه بالمدينة وفدك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما بقي من خمس خيبر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ما تركنا صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنما يأكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال ‏"‏‏.‏ وإني والله لا أغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حالها التي كان عليها في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم فأبى أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة منها شيئا فوجدت فاطمة على أبي بكر في ذلك فهجرته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم تكلمه حتى توفيت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعاشت بعد النبي صلى الله عليه وسلم ستة أشهر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما توفيت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ دفنها زوجها علي ليلا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولم يؤذن بها أبا بكر وصلى عليها

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ' کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ' ان سے عقیل نے ' ان سے ابن شہاب نے ' ان سے عروہ نے ' ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبر وں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ' ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے 'البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں خدا کی قسم جو صدقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا ' جس حال میں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکرنے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینامنظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر رضی اللہ عنہما کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔
حدیث نمبر : 4240 - 4241
فائدہ
یاد رہے نقل کفر کفر ناباشد
امام بخاری کے مطابق فاطمہ علیہا السلام باغ فدک کے معاملے میں حضرت ابوبکر سے ناراض ہوگئیں تھی حتی کہ آپ کا وصال ہوگیا جب وہ اس دارفانی سے کوچ کرگئیں تو مولا علی نے ان کی وصال کی خبر حضرت ابوبکر کو نہ دی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھ کر رات میں ہی سپرد خاک کردیا

امام بخاری کے مطابق ان لوگوں کا بیان جنہوں نے فاطمہ کی ناراضگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی والے فرمان کو سن کر فاطمہ علیہ السلام کی ناراضگی والے عمل کو ترک کیا

حدثنا أبو اليمان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا شعيب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني علي بن حسين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن المسور بن مخرمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال إن عليا خطب بنت أبي جهل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فسمعت بذلك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاطمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يزعم قومك أنك لا تغضب لبناتك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هذا علي ناكح بنت أبي جهل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعته حين تشهد يقول ‏"‏ أما بعد أنكحت أبا العاص بن الربيع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحدثني وصدقني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإن فاطمة بضعة مني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإني أكره أن يسوءها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد ‏"‏‏.‏ فترك علي الخطبة‏.‏ وزاد محمد بن عمرو بن حلحلة عن ابن شهاب عن علي عن مسور،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وذكر صهرا له من بني عبد شمس فأثنى عليه في مصاهرته إياه فأحسن قال ‏"‏ حدثني فصدقني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ووعدني فوفى لي ‏"‏‏.
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ سے علی بن حسین نے بیان کیا اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہعلی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد: میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا) ایک ٹکڑا ہے، اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے، خدا کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ محمد بن عمر وبن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔
حدیث نمبر : 3729
فائدہ
اس حدیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہ اس بات کو پسند نہیں فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع ہو اور یہ کہ فاطمہ علیہا السلام کو کوئی تکلیف دے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں سوکن کی موجودگی سے فاطمہ علیہا السلام کو تکلیف ہوتی اور جب مولا علی علیہ السلام نے یہ فرمان سنا تو فوری طور سے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کا اردہ ترک کردیا ظاہر ہے جب ناراضگی والا امر نہ رہا تو وہ ان سے راضی ہوگئیں
اب اس حدیث کو بیان کرنے کے مطالبے کے پیچھے جو ناصبی سوچ کار فرما تھی اس کا رد خود امام بخاری نے یہ بیان فرماکر کر دیا کہ
فترك علي الخطبة‏
مولا علی علیہ السلام نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا

امام بخاری کے مطابق علی و فاطمہ (زوجین )کی آپس کی ناراضگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رد عمل کا بیان


حدثنا قتيبة بن سعيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي حازم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سهل بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم يجد عليا في البيت فقال ‏"‏ أين ابن عمك ‏"‏‏.‏ قالت كان بيني وبينه شىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فغاضبني فخرج فلم يقل عندي‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان ‏"‏ انظر أين هو ‏"‏‏.‏ فجاء فقال يا رسول الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هو في المسجد راقد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قد سقط رداؤه عن شقه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأصابه تراب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه ويقول ‏"‏ قم أبا تراب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قم أبا تراب ‏"‏‏.‏


ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا ، انھوں نے اپنے باپ ابوحازم سہل بن دینار سے ، انھوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب اٹھو۔
حدیث نمبر : 441
فائدہ
سبحان اللہ
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کی آپس کی خفگی کا وہ معنی نہیں لیا جاسکتا جو ناصبی ذہین میں پیدا ہوتا ہےعلی و فاطمہ کی آپس کی خفگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مبارک بتا رہا ہے کہ آپ نے علی علیہ السلام کو ابوتراب کا خطاب عطاء فرمایا جو مولا علی علیہ السلام کو سب سے ذیادہ پیارا تھا۔

آخر میں اللہ سے یہی دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو بشمول اہل سنت والجماعت ناصبیت کی فریب کاریوں سے محفوظ رکھے آمین
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یاد رہے نقل کفر کفر ناباشد
امام بخاری کے مطابق فاطمہ علیہا السلام باغ فدک کے معاملے میں حضرت ابوبکر سے ناراض ہوگئیں تھی حتی کہ آپ کا وصال ہوگیا جب وہ اس دارفانی سے کوچ کرگئیں تو مولا علی نے ان کی وصال کی خبر حضرت ابوبکر کو نہ دی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھ کر رات میں ہی سپرد خاک کردیا

آخر میں اللہ سے یہی دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو بشمول اہل سنت والجماعت ناصبیت اوررافضیت کی فریب کاریوں سے محفوظ رکھے آمین
اضافہ یقینا برا نہیں لگا ہوگا۔۔۔
اس کے لئےجلدی سے الگ سے تھریڈ لگائیں۔۔۔باغ فدک پر
تاکہ ہم باقی کی گفتگو وہاں کریں۔۔۔
اور جو موضوع ہے
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
اس پر مزید کچھ باقی رہ گیا ہے تو کہئے۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top