کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب میں لکھا ہے کہ سیدہ النساء اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو اپنے یہاں بلایا صلح کرنے کے لئے اور یہ شرط رکھی کہ آپ اکیلے آئیں کسی کو اپنے ساتھ نہ لائے کیونکہ مولا علی علیہ السلام کو حضرت عمر کی موجودگی پسند نہیں تھی اگر اس ناپسنددگی کو امام بخاری کے الفاظ میں بیان کروں تو شاید کسی کے دل آزاری ہو لیکن میں تو صرف نقل کروں گا کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد امام بخاری کے الفاظ یہ ہیں مولا علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراہت ہوتی تھی ایک بار پھر معذرت کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد اور پھر یہ کوئی کفر بھی نہیں اگر ہوتا تو امام بخاری بیان نہ کرتے
آپ یہ فرمارہیں ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے فوری طور سے حضرت ابو بکر کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیا جبکہ امام بخاری کے مطابق اس صلح کی مدت کم از کم 6 یا 7 ماہ بنتی ہے کیونکہ امام بخاری کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے 6 ماہ بعد سیدہ النساء اہل جنت زوجہ مولا علی والدہ سرداران اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصل ہوا اور اما م بخاری کے ہی مطابق حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر سے شدید ناراض ہوکر اس دارفانی سے کوچ کرگئیں اور امام بخاری ہی حضرت فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہےکہ
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
اور یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تبارک تعالیٰ کی ناراضگی ہے
اگر میری اس تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی کا طلب گار ہوں کیونکہ میں نے وہی نقل کیا ہے جو امام بخاری نے بیان کیا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین
آپ یہ روایت کہ :" امام بخاری کے الفاظ یہ ہیں مولا علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراہت ہوتی تھی" کسی اور تھریڈ میں بھی پیش کر چکے ہیں - اصل میں تو یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کے یہ الفاظ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ہیں نہ کہ بعد کے ؟؟؟ - کیوں کہ اسلام لانے سے پہلے ایک مسلمان کو ایک غیر مسلم سے کراہت ہونا فطری امر تھا -
لیکن یہ ممکن نہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی رضی الله عنہ اس قسم کے الفاظ استمال کیے ہوں - اس کا مطلب تو ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت عمر رضی الله عنہ کے لئے بغض تھا اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لئے خوامہ خواہ بغض رکھنا اس کے مومن ہونے کی نشانی نہیں ہے - اس سے تو الٹا حضرت علی رضی الله عنہ کی ذات پر حرف آتا ہے - اور کیا یہ منافقت نہیں کہ ایک طرف تو حضرت علی رضی الله عنہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی خلافت میں ان کے مشیر خاص ہیں اور انہی کے متعلق فرما رہے ہیں کہ مجھے ان کی موجودگی میں کراہت ہوتی ہے ؟؟؟
باقی میں نے آپ کے الزام کے جواب یہ کہا تھا کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا بغیر کسی تاخیر کے تا کہ قریش اور بنو ہاشم میں خلافت کے معاملے میں کوئی بڑا اختلاف نہ ہو - حضرت علی رضی الله عنہ کا فوری طور پر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا میں نے کہاں بیان کیا ہے ؟؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہےکہ
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
اور دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نا صرف بخوشی ان کی خلافت کی بیت کر رہے ہیں بلکہ اور دوسرے معاملات میں آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں آپ کے ساتھ ساتھ بھی ہیں - کیا ٦ ماہ بعد ہی حضرت علی رضی الله عنہ حضرت فاطمه رضی الله عنہ کی اس ناراضگی کو بھول گئے؟؟؟ اور نبی صل الله علیہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے کہ جس نے فاطمه کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ؟؟؟ یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تبارک تعالیٰ کی ناراضگی ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین