• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس روایت کے روای کا نام بھی بتادیں؟؟؟۔۔۔
جس واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ کو امام طبری رحمہ اللہ نے رقم کیا ہے۔۔۔
یہ کیا بادشاہ سلامت آپ میری پوسٹوں کو پڑھ بغیر ہی اعتراضات فرماتے ہیں سقیفہ نبی ساعدہ والی روایت تاریخ طبر ی سے نہیں بلکہ کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب سے نقل کی گئی ہے ایک بار پھر حاضر خدمت کئے دیتا ہوں
ا
سن لو بلاشبہ جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکرنے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن ماردی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکادے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذریوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈرگیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم حضرت سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کربیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6830
کیا اب بھی اس روایت کے راوی کا نام جانے کی حاجت ہے ؟؟
بھاگنا نہیں اب۔۔۔
بادشاہ سلامت یہ کیا ! اس طرح کا طرز تکلم آپ کو زیبا نہیں دیتا لگتا ہے یہ درباری مسخرے ملا دو پیازہ کی صحبت کا اثر ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اضافہ یقینا برا نہیں لگا ہوگا۔۔۔
اس کے لئےجلدی سے الگ سے تھریڈ لگائیں۔۔۔باغ فدک پر
تاکہ ہم باقی کی گفتگو وہاں کریں۔۔۔
اور جو موضوع ہے
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
اس پر مزید کچھ باقی رہ گیا ہے تو کہئے۔۔۔

حدثنا إبراهيم بن موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا عبد الوهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا خالد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عكرمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن ابن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال له ولعلي بن عبد الله ائتيا أبا سعيد فاسمعا من حديثه‏.‏ فأتيناه وهو وأخوه في حائط لهما يسقيانه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما رآنا جاء فاحتبى وجلس فقال كنا ننقل لبن المسجد لبنة لبنة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان عمار ينقل لبنتين لبنتين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمر به النبي صلى الله عليه وسلم ومسح عن رأسه الغبار وقال ‏"‏ ويح عمار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ تقتله الفئة الباغية،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عمار يدعوهم إلى الله ويدعونه إلى النار ‏"‏‏.‏
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ' کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی ' کہا ہم سے خالد نے بیان کیا عکرمہ سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے اور (اپنے صاحبزادے) علی بن عبداللہ سے فرمایا تم دونوں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے احادیث نبوی سنو۔ چنانچہ ہم حاضر ہوئے ' اس وقت ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے (رضاعی) بھائی کے ساتھ باغ میں تھے اور باغ کو پانی دے رہے تھے ' جب آپ نے ہمیں دیکھا تو (ہمارے پاس) تشریف لائے اور (چادر اوڑھ کر) گوٹ مار کر بیٹھ گئے ' اس کے بعد بیان فرمایا ہم مسجدنبوی کی اینٹیں (ہجرت نبوی کے بعد تعمیر مسجد کیلئے) ایک ایک کر کے ڈھو رہے تھے لیکن عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں لا رہے تھے ' اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے اور ان کے سر سے غبار کو صاف کیا پھر فرمایا افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ' یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کی) طرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
شہزادے حدیث شروع سے پیش کرو مثال کے طور پر "ہمیں فلاں نے خبردی اس نے فلاں کے حوالے سے بیان کیا"
یہ کیا بادشاہ سلامت آپ میری پوسٹوں کو پڑھ بغیر ہی اعتراضات فرماتے ہیں سقیفہ نبی ساعدہ والی روایت تاریخ طبر ی سے نہیں بلکہ کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب سے نقل کی گئی ہے ایک بار پھر حاضر خدمت کئے دیتا ہوں
یہ درباری مسخرے ملا دو پیازہ کی صحبت کا اثر ہے
دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ چلو آگے بڑھتے ہیں۔۔۔اور شہزادے کیوں نہ ہم اس کو خلافت والے ہی موضوع میں جاری رکھیں۔۔۔ کیا ہے نا جب کوئی پڑھنے والا گوگل پر سرچ کرے گا تو ساری معلومات اس کو ایک ہی جگہ مل جائیں گی۔۔۔ کیا کہتے ہیں؟؟؟۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
شہزادے حدیث شروع سے پیش کرو مثال کے طور پر "ہمیں فلاں نے خبردی اس نے فلاں کے حوالے سے بیان کیا"

دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ چلو آگے بڑھتے ہیں۔۔۔اور شہزادے کیوں نہ ہم اس کو خلافت والے ہی موضوع میں جاری رکھیں۔۔۔ کیا ہے نا جب کوئی پڑھنے والا گوگل پر سرچ کرے گا تو ساری معلومات اس کو ایک ہی جگہ مل جائیں گی۔۔۔ کیا کہتے ہیں؟؟؟۔۔۔
یہ کیا بادشاہ سلامت ! جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ! اس سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے کہ آپ نے اپنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کا بھی مطالعہ نہیں کیا اس لئے آپ سے گذارش عرض ہے کہ پہلے آپ اپنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کا مطالعہ فرمالیں اس میں بیان کئے گئے معانی و مطالب کے علم میں خوب طاق ہوجائیں پھراس کے بعد اس طرح کے موضوع پر اظہار خیال فرمائیں تو ذیادہ مناسب ہوگا اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئےمجھ جیسے ناقص علم بندہ ناچیز کی طرف رجوع کرنے کی حاجت پیش نہیں آئی گی یہ مناسب بھی نہیں کہ آپ جیسا صاحب علم و ہنر ان چھوٹی باتوں کے لئے ادھر ادھر مارا مارا پھیرا کریں گستاخی کی ایک بار پھر معافی

جہاں تک بات ہے خلافت کی موضوع میں اس طرح کی پوسٹینگ کو آپ نے بجا ارشاد فرمایا بادشاہ سلامت آپ کے حکم کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے گا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
کتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب میں لکھا ہے کہ سیدہ النساء اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو اپنے یہاں بلایا صلح کرنے کے لئے اور یہ شرط رکھی کہ آپ اکیلے آئیں کسی کو اپنے ساتھ نہ لائے کیونکہ مولا علی علیہ السلام کو حضرت عمر کی موجودگی پسند نہیں تھی اگر اس ناپسنددگی کو امام بخاری کے الفاظ میں بیان کروں تو شاید کسی کے دل آزاری ہو لیکن میں تو صرف نقل کروں گا کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد امام بخاری کے الفاظ یہ ہیں مولا علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراہت ہوتی تھی ایک بار پھر معذرت کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد اور پھر یہ کوئی کفر بھی نہیں اگر ہوتا تو امام بخاری بیان نہ کرتے

آپ یہ فرمارہیں ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے فوری طور سے حضرت ابو بکر کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیا جبکہ امام بخاری کے مطابق اس صلح کی مدت کم از کم 6 یا 7 ماہ بنتی ہے کیونکہ امام بخاری کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے 6 ماہ بعد سیدہ النساء اہل جنت زوجہ مولا علی والدہ سرداران اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصل ہوا اور اما م بخاری کے ہی مطابق حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر سے شدید ناراض ہوکر اس دارفانی سے کوچ کرگئیں اور امام بخاری ہی حضرت فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہےکہ
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
اور یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تبارک تعالیٰ کی ناراضگی ہے
اگر میری اس تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی کا طلب گار ہوں کیونکہ میں نے وہی نقل کیا ہے جو امام بخاری نے بیان کیا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین
آپ یہ روایت کہ :" امام بخاری کے الفاظ یہ ہیں مولا علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراہت ہوتی تھی" کسی اور تھریڈ میں بھی پیش کر چکے ہیں - اصل میں تو یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کے یہ الفاظ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ہیں نہ کہ بعد کے ؟؟؟ - کیوں کہ اسلام لانے سے پہلے ایک مسلمان کو ایک غیر مسلم سے کراہت ہونا فطری امر تھا -

لیکن یہ ممکن نہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی رضی الله عنہ اس قسم کے الفاظ استمال کیے ہوں - اس کا مطلب تو ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت عمر رضی الله عنہ کے لئے بغض تھا اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لئے خوامہ خواہ بغض رکھنا اس کے مومن ہونے کی نشانی نہیں ہے - اس سے تو الٹا حضرت علی رضی الله عنہ کی ذات پر حرف آتا ہے - اور کیا یہ منافقت نہیں کہ ایک طرف تو حضرت علی رضی الله عنہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی خلافت میں ان کے مشیر خاص ہیں اور انہی کے متعلق فرما رہے ہیں کہ مجھے ان کی موجودگی میں کراہت ہوتی ہے ؟؟؟

باقی میں نے آپ کے الزام کے جواب یہ کہا تھا کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا بغیر کسی تاخیر کے تا کہ قریش اور بنو ہاشم میں خلافت کے معاملے میں کوئی بڑا اختلاف نہ ہو - حضرت علی رضی الله عنہ کا فوری طور پر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا میں نے کہاں بیان کیا ہے ؟؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہےکہ
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
اور دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نا صرف بخوشی ان کی خلافت کی بیت کر رہے ہیں بلکہ اور دوسرے معاملات میں آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں آپ کے ساتھ ساتھ بھی ہیں - کیا ٦ ماہ بعد ہی حضرت علی رضی الله عنہ حضرت فاطمه رضی الله عنہ کی اس ناراضگی کو بھول گئے؟؟؟ اور نبی صل الله علیہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے کہ جس نے فاطمه کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ؟؟؟ یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تبارک تعالیٰ کی ناراضگی ہے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
لیکن یہ ممکن نہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی رضی الله عنہ اس قسم کے الفاظ استمال کیے ہوں -
ابھی یہ ممکن کئے دیتے ہیں
کراھت والی بات امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں بیان کی ہے جیسے قرآن کے بعد اصح ترین کتاب مانا جاتا ہے اور اس میں یہ صراحت ہے کہ حضرت فاطمہ کے وصال کے بعد جب مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو صلح کی پیشکش کی ا س وقت یہ جملہ امام بخاری نے بیان کیا لیجئے آپ کی خدمت میں پوری روایت ہی پیش کئے دیتا ہوں بمعہ ترجمہ کے اور ترجمہ بھی داؤد راز صاحب کا کیا ہوا ترجمہ ہے


حدثنا يحيى بن بكير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا الليث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عقيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عروة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن فاطمة ـ عليها السلام ـ بنت النبي صلى الله عليه وسلم أرسلت إلى أبي بكر تسأله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفاء الله عليه بالمدينة وفدك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما بقي من خمس خيبر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ما تركنا صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنما يأكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال ‏"‏‏.‏ وإني والله لا أغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حالها التي كان عليها في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم فأبى أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة منها شيئا فوجدت فاطمة على أبي بكر في ذلك فهجرته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم تكلمه حتى توفيت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعاشت بعد النبي صلى الله عليه وسلم ستة أشهر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما توفيت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ دفنها زوجها علي ليلا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولم يؤذن بها أبا بكر وصلى عليها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان لعلي من الناس وجه حياة فاطمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فالتمس مصالحة أبي بكر ومبايعته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولم يكن يبايع تلك الأشهر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأرسل إلى أبي بكر أن ائتنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يأتنا أحد معك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كراهية لمحضر عمر‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ' کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ' ان سے عقیل نے ' ان سے ابن شہاب نے ' ان سے عروہ نے ' ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبر وں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ' ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے 'البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں خدا کی قسم جو صدقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا ' جس حال میں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکرنے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینامنظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر رضی اللہ عنہما کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں علی رضی اللہ عنہ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔
صحیح بخاری :کتاب المغازی :باب: غزوہ خیبر کا بیان: حدیث نمبر: 4240 - 4241
پہلے تو آپ ترجمہ میں کی گئی تحریفات پر نظر کریں فاطمہ علیہا السلام کا ترجمہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیا گیا
كراهية لمحضر عمر‏ کا ترجمہ یہ منظور نہ تھاعمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں
‏‏‏‏ كراهية لمحضر عمر‏ یہ الفاظ امام بخاری نے اس واقع کے تسلسل میں بیان کئے ہیں اور آپ کو اس کا علم نہیں حیرت کی بات ہے کہ آپ جس کتاب کو قرآن کے بعد اصح کتاب مانتے ہوں اسی کتاب کے آپ کو معرفت نہیں اس لئے آپ سے بھی میں یہی گذارش کروں گا کہ پہلے آپ صحیح بخاری کا مطالعہ فرمالیں اس میں بیان کئے گئے معانی و مطالب میں پوری طرح طاق ہوجائے پھر اس طرح کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کریں تو بہتر ہوگا
والسلام
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
لیکن متن اتنا چھوٹا کیوں اور تشریح اتنی لمبی کس نے اور کیوں کردی
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ایک ہی کتاب میں روایت میں اتنا تضاد کچھ سمجھ نہیں آرہا
مطلب یہ کہ صحیح بخاری کےاصح ترین کتاب بعد کتاب اللہ ہونے پر سوالیہ نشان ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top