اہل سنت کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد لاکھوں مسلمان مرتد ہوگئے تھے جن سے جنگ کرنے کے لئے کئی لشکر ابوبکر نے ترتیب دئے کیا واقعی ایسا تھا
اس لئے دیکھنا پڑے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت واقعات کس طرح پیش آئے سنی کتب میں بیان ہوا کہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو عمر بن خطاب نے ایک ڈرامہ کیا اپنے غمگیں ہونے کا اور ایک شخص کو بھیج دیا ابوبکر کو بلانے ان کے گھر پر ا ابو بکر کا گھر سنح میں تھا جو مدینہ کے مشرقی سمت ایک میل کے فاصلے پر ہے جب تک ابوبکر آنہ گئے تب تک عمر بن خطاب اپنے غمگین ہونے کا ڈرامہ کرتے رہے اور کہتے رہے کہ جس نے بھی یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا میں ایسے جان سے مار دونگا کیا عمر حقیقت میں پیغمبر خدا کے ساتھ محبت کی شدت اور لگاؤ کی وجہ سے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھو دینے کے سبب غم و اندوہ کے مارے تلوار کھینچ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت کی تائید کرنے والے مسلمانوں کو دھمکاتے تھے ؟نہیں بلکہ اس طرح لوگوں کو شک میں مبتلا ء کردیا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال نہیں ہوا ابو بکر جب آگئے تو وہ اپنا سب غم بھول کر انھیں لے کر فورا سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف دوڑ پڑے جہاں انصار نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ سعد بن عبادہ کو پہلا خلیفہ بنائے گے اس مرحلے پر کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت اور آنحضرت کی مفارقت کا غم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ بغیر غسل و کفن مصیبت زدہ خاندان رسالت میں چھوڑ کر ابو بکر کیلئے بیعت لینے سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف دوڑیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انصار کے ساتھ جنگ و جدال کریں ؟ کوئی بھی محب رسول ایسا نہیں کرسکتا
اس موقع پر علی علیہ السلام اور دیگر خاندان نبوت کے افراد تجہیز و تکفین کے کام کی انجام دہی میں مصروف تھے
سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ کو خود عمر بن خطاب اس طرح بیان کرتے ہیں
سن لو بلاشبہ جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکرنے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن ماردی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکادے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذریوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈرگیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم حضرت سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کربیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6830
عمر بن خطاب کے نزدیک اس دن ابوبکر کی خلافت سے ذیادہ ان کو کوئی چیز عزیز نہیں تھی جس کے لئے ایک صحابی رسول سے بدکلامی اور بدسلوکی بھی کی گئی یہاں یہ لوگ شور شرابے میں خلافت ابوبکر انجام دے رہے تھے اور وہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دارآپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے
جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو ہی بغیر تجہیز و تکفین کے چھوڑ دیا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث من کنت مولا فھوا علی مولا کو چھوڑ دینے پر آپ کو اتنا تعجب کیوں ہے ؟
حضرت علی بن ابی طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا تھے لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ اے ابوالحسن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کیسی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اب آپ پہلے سے اچھی حالت میں ہیں۔ تو حضرت عباس نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:"مجھے معلوم ہورہا ہے کہ اس بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات عنقریب ہونے والی ہے۔ کیونکہ بنی عبد المطلب کے چہروں کی جو کیفیت موت کے وقت ہوتی ہے آؤ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا؟ آپ ہمیں خلافت دے جائیں توبھی ہمیں معلوم ہوجائے اور اگر آپ کسی اور کو خلافت دے دیں تو پھر ہمارے متعلق اس کو وصیت کرجائیں"
توحضرت علی نے کہا "خدا کی قسم اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کریں اور آپ ہم کو نہ دیں تو کبھی خلافت نہ ملے گی اور میں تو خدا کی قسم اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز سوال نہ کروں گا یہ حدیث صحیح بخاری کتاب المغازی اور" البدایہ والنہایہ" میں ابن عباس سے مروی ہے اور امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اگر خلافت کا مماملہ اتنا نازک نہیں تھا تو حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عبّاس رضی الله عنہ کے درمیان جو خلافت کے حصول سے متعلق بحث و مباحثہ ہوا تھا - آخر کیوں ہوا تھا - نبی کریم صل الله علیہ وسلم بیماری کی شدت میں تھے اور دونوں اصحاب خلافت کے حصول کے لئے بحث و مباحثہ کر رہے تھے ؟؟؟
اگر حضرت علی رضی الله عنہ کے نزدیک حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کی خلافت جائز نہیں تھی - جیسا کہ سقیفہ بن ساعدہ کے موقع پر آپ نے بائیکاٹ بی کیا تھا تو بعد میں ان کی خلفت کیوں تسلیم کر لی - اور کیوں ان کی خلافت کو میں حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے شانہ با شانہ رہے -
حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا سلسلہ ترک نہیں فرمایا تھا، نیز جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مرتدّین سے قتال کرنے کے لئے تلوار سونت کر "ذی القصہ"تشریف لے گئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی ان کے ساتھ نکلے تھے"۔