• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ حدیث صحیح ہے لیکن -

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے گروہ نے شہید نہیں کیا تھا - جیسا کہ بعد میں رافضیوں نے یہ بات مشہور کر دی -کہ ان کو باغی گروہ نے قتل کیا
اور وہ گروہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو حضرت عثمان رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں مصر کے حالات معلوم کرنے بھیجا تھا -اور وہ پھر وہ واپس نہیں آے -ان کو مصر میں عبد الله بن سبا (یہودی منافق ) کے معتقدین نے شہید کر دیا تھا -
إني لجالسٌ عندَ معاويةَ إذ دخَل رجلانِ يختصمانِ في رأسِ عمارٍ وكلُّ واحدٍ منهما يقولُ: أنا قتلتُه فقال عبدُ اللهِ بنُ عمرٍو: ليطِبْ أحدُكما به نفسًا لصاحبِه فإني سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ: تقتلُه الفئةُ الباغيةُ قال معاويةُ: ألا تُغني عنا مجنونَكَ يا عمرُو فما له معَنا قال: إني معَكم ولستُ أقاتلُ إنَّ أبي شَكاني إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال لي رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: أطِعْ أباكَ ما دام حيًّا ولا تَعصِهِ فأنا معَكم ولستُ أقاتلُ

الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث:البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 8/15

خلاصة حكم المحدث: صحيح

لنک

حضرت عبدالله بن عمرو سے روایت ہے کہ میں معاویہ کے پاس تھا کہ اتنے میں دو آدمی تکرار کرتے ہوئے آئے اور دونوں یہ دعوئ کر رھے تھے کہ حضرت عمار کو انہوں نے شھید کیا، اس پر عبداللہ بن عمرو نے ان دونوں سے کہا کہ ایک دوسرے کو مبارک دو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے کہ عمار کو باغی گروہ ھلاک کرے گا۔ اس پر معاویہ نے کہا کہ اے عمرو (یعنی ان کے والد سے کہا)! آپ اپنے اس دیوانےسے ھمیں آزاد کیوں نہیں کرا دیتے? یہ ھمارے ساتھ کیا کر رھا ھے? اس پر عبدالله بن عمرو نے کہا کہ ایک دفعہ میرے والد نے میری نبی پاک سے شکایت کی، جس پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ والد کی اطاعت کرنا، نافرمانی نہ کرنا، اس وجہ سے میں آپ کے ساتھ ھوں مگر لڑا نہیں ۔

لیجیئے عبداللہ بن عمرو کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بھی ملاحظہ فرمالیں

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے ارشاد فرمایا کہ " اے عبداللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برے لوگوں میں رہ جاؤ گے "
( صحیح بخاری حدیث نمبر480 ترجمہ داؤد راز )

تفصیل کے لئے کتاب پڑھیں :" تحقیق خلافت و ملوکیت" ( مصنف: محمود احمد عباسی ) یہ کتاب مولانا مودودی کی کتاب "خلافت و ملوکیت " کے جواب میں لکھی گئی -
میں کیا کروں کہ میں تو پہلے ہی پڑھ چکا البدایہ والنہایہ جیے ہم اردو میں تاریخ ابن کثیر کہتے ہیں جو محد ث لائبریری پر بھی دستیاب ہے اوراس کتاب کے بارے میں محد ث لائبریری کی انتظامیہ کہتی ہے کہ

" ابن کثیر نے جن حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے وہ اس قدر صحیح اور مستند ہیں کہ ان کا مقابلہ کوئی دوسری کتاب نہیں کر سکتی۔"
اب جب کوئی دوسری تاریخی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی توپھرکوئی دوسری کتاب پڑھنے کا کیا فائدہ ایسی تاریخ ابن کثیر سے اقتباس پیش خدمت ہے ابن کثیر سن 37 ھجری میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کے بارے میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی شھادت کا ذکر فرماتے ہیں کہ
" آپ صفین میں 91 سال کی عمر میں قتل ہوئے "

تاریخ ابن کثیرترجمہ البدایہ والنہایہ ۔جلد7 صفحہ 408

تاریخ ابن کثیرترجمہ البدایہ والنہایہ ۔جلد7 - تاریخ - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز

اس کے بعد ابن کثیر مذکورہ بالا روایت نقل کرتے ہیں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
شیعوں کا ایک بڑا الزام کے بعد وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین مرتد وکافر ہوگئے تھے سوائے تین آدمیوں کے پوچھا گیا وہ کون تھےِِِ؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا مقداد اور سلمان اور ابوذر۔

امام باقر فرماتے ہیں کہ تمام آدمی مرتد ہوگئے تھے صرف تین بچے تھے روای نے سوال کیا وہ کون تھے؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا مقداد بن اسود، ابوذرغفاری اور سلمان فارسی (رجال کشی صفحہ ٤ مطبوعہ بمبئی)۔۔۔
فائدہ!۔۔۔
شیعہ کی اس روایت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ وحسنین شریفین واہلبیت یہاں تک عمار بن یاسر تک ہاتھ صاف کرگئے۔۔۔

کدھر گئی وہ حدیث من کنت مولا فھوا علی مولا؟؟؟۔۔۔
شیعوں کے دعوٰی کے مطابق غدیر خم کے دن ہزاروں صحابہ کرام وہاں موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت براہ راست سنی تھی تو بہرام میں یہ کہہ سکتا ہوں کے ان ہزاروں صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرفداری کے لئے کیوں کھڑا نہیں ہوا؟؟؟۔۔۔

حتی کے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ مقداد بن عمرو اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہم بھی خلیفہ وقت ابوبکر کی خدمت میں استغاثہ لے کر کیوں نہیں آئے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا حق کیوں غصب کیا؟؟؟۔۔۔ جبکہ آپ کو پتہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے دن کیا وصیت فرمائی تھی یا کیا تحریر لکھوائی تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ تو بڑے بے باک صحابی تھے جنہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ تھا اور نہ ہی کسی سے دب کر بات کرنے کے عادی تھے اور انہیں علم تھا کہ حق بات پر سکوت اختیار کرنے والا گونگا شیطان کہلاتا ہے۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
شیعوں کا ایک بڑا الزام کے بعد وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین مرتد وکافر ہوگئے تھے سوائے تین آدمیوں کے پوچھا گیا وہ کون تھےِِِ؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا مقداد اور سلمان اور ابوذر۔

امام باقر فرماتے ہیں کہ تمام آدمی مرتد ہوگئے تھے صرف تین بچے تھے روای نے سوال کیا وہ کون تھے؟؟؟۔۔۔ تو فرمایا مقداد بن اسود، ابوذرغفاری اور سلمان فارسی (رجال کشی صفحہ ٤ مطبوعہ بمبئی)۔۔۔
فائدہ!۔۔۔
شیعہ کی اس روایت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ وحسنین شریفین واہلبیت یہاں تک عمار بن یاسر تک ہاتھ صاف کرگئے۔۔۔
اہل سنت کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد لاکھوں مسلمان مرتد ہوگئے تھے جن سے جنگ کرنے کے لئے کئی لشکر ابوبکر نے ترتیب دئے کیا واقعی ایسا تھا
کدھر گئی وہ حدیث من کنت مولا فھوا علی مولا؟؟؟۔۔۔
شیعوں کے دعوٰی کے مطابق غدیر خم کے دن ہزاروں صحابہ کرام وہاں موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت براہ راست سنی تھی تو بہرام میں یہ کہہ سکتا ہوں کے ان ہزاروں صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرفداری کے لئے کیوں کھڑا نہیں ہوا؟؟؟۔۔۔
۔
اس لئے دیکھنا پڑے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت واقعات کس طرح پیش آئے سنی کتب میں بیان ہوا کہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو عمر بن خطاب نے ایک ڈرامہ کیا اپنے غمگیں ہونے کا اور ایک شخص کو بھیج دیا ابوبکر کو بلانے ان کے گھر پر ا ابو بکر کا گھر سنح میں تھا جو مدینہ کے مشرقی سمت ایک میل کے فاصلے پر ہے جب تک ابوبکر آنہ گئے تب تک عمر بن خطاب اپنے غمگین ہونے کا ڈرامہ کرتے رہے اور کہتے رہے کہ جس نے بھی یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا میں ایسے جان سے مار دونگا کیا عمر حقیقت میں پیغمبر خدا کے ساتھ محبت کی شدت اور لگاؤ کی وجہ سے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھو دینے کے سبب غم و اندوہ کے مارے تلوار کھینچ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت کی تائید کرنے والے مسلمانوں کو دھمکاتے تھے ؟نہیں بلکہ اس طرح لوگوں کو شک میں مبتلا ء کردیا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال نہیں ہوا ابو بکر جب آگئے تو وہ اپنا سب غم بھول کر انھیں لے کر فورا سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف دوڑ پڑے جہاں انصار نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ سعد بن عبادہ کو پہلا خلیفہ بنائے گے اس مرحلے پر کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت اور آنحضرت کی مفارقت کا غم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ بغیر غسل و کفن مصیبت زدہ خاندان رسالت میں چھوڑ کر ابو بکر کیلئے بیعت لینے سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف دوڑیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انصار کے ساتھ جنگ و جدال کریں ؟ کوئی بھی محب رسول ایسا نہیں کرسکتا
اس موقع پر علی علیہ السلام اور دیگر خاندان نبوت کے افراد تجہیز و تکفین کے کام کی انجام دہی میں مصروف تھے
سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ کو خود عمر بن خطاب اس طرح بیان کرتے ہیں
سن لو بلاشبہ جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکرنے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن ماردی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکادے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذریوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈرگیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم حضرت سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کربیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6830

عمر بن خطاب کے نزدیک اس دن ابوبکر کی خلافت سے ذیادہ ان کو کوئی چیز عزیز نہیں تھی جس کے لئے ایک صحابی رسول سے بدکلامی اور بدسلوکی بھی کی گئی یہاں یہ لوگ شور شرابے میں خلافت ابوبکر انجام دے رہے تھے اور وہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دارآپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے
جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو ہی بغیر تجہیز و تکفین کے چھوڑ دیا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث من کنت مولا فھوا علی مولا کو چھوڑ دینے پر آپ کو اتنا تعجب کیوں ہے ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اہل سنت کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد لاکھوں مسلمان مرتد ہوگئے تھے جن سے جنگ کرنے کے لئے کئی لشکر ابوبکر نے ترتیب دئے کیا واقعی ایسا تھا

اس لئے دیکھنا پڑے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت واقعات کس طرح پیش آئے سنی کتب میں بیان ہوا کہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو عمر بن خطاب نے ایک ڈرامہ کیا اپنے غمگیں ہونے کا اور ایک شخص کو بھیج دیا ابوبکر کو بلانے ان کے گھر پر ا ابو بکر کا گھر سنح میں تھا جو مدینہ کے مشرقی سمت ایک میل کے فاصلے پر ہے جب تک ابوبکر آنہ گئے تب تک عمر بن خطاب اپنے غمگین ہونے کا ڈرامہ کرتے رہے اور کہتے رہے کہ جس نے بھی یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا میں ایسے جان سے مار دونگا کیا عمر حقیقت میں پیغمبر خدا کے ساتھ محبت کی شدت اور لگاؤ کی وجہ سے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھو دینے کے سبب غم و اندوہ کے مارے تلوار کھینچ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت کی تائید کرنے والے مسلمانوں کو دھمکاتے تھے ؟نہیں بلکہ اس طرح لوگوں کو شک میں مبتلا ء کردیا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال نہیں ہوا ابو بکر جب آگئے تو وہ اپنا سب غم بھول کر انھیں لے کر فورا سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف دوڑ پڑے جہاں انصار نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ سعد بن عبادہ کو پہلا خلیفہ بنائے گے اس مرحلے پر کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت اور آنحضرت کی مفارقت کا غم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ بغیر غسل و کفن مصیبت زدہ خاندان رسالت میں چھوڑ کر ابو بکر کیلئے بیعت لینے سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف دوڑیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انصار کے ساتھ جنگ و جدال کریں ؟ کوئی بھی محب رسول ایسا نہیں کرسکتا
اس موقع پر علی علیہ السلام اور دیگر خاندان نبوت کے افراد تجہیز و تکفین کے کام کی انجام دہی میں مصروف تھے
سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ کو خود عمر بن خطاب اس طرح بیان کرتے ہیں
سن لو بلاشبہ جس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصار بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکرنے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن ماردی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکادے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذریوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈرگیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم حضرت سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کربیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6830

عمر بن خطاب کے نزدیک اس دن ابوبکر کی خلافت سے ذیادہ ان کو کوئی چیز عزیز نہیں تھی جس کے لئے ایک صحابی رسول سے بدکلامی اور بدسلوکی بھی کی گئی یہاں یہ لوگ شور شرابے میں خلافت ابوبکر انجام دے رہے تھے اور وہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دارآپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے
جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو ہی بغیر تجہیز و تکفین کے چھوڑ دیا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث من کنت مولا فھوا علی مولا کو چھوڑ دینے پر آپ کو اتنا تعجب کیوں ہے ؟
حضرت علی بن ابی طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا تھے لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ اے ابوالحسن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کیسی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اب آپ پہلے سے اچھی حالت میں ہیں۔ تو حضرت عباس نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:"مجھے معلوم ہورہا ہے کہ اس بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات عنقریب ہونے والی ہے۔ کیونکہ بنی عبد المطلب کے چہروں کی جو کیفیت موت کے وقت ہوتی ہے آؤ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا؟ آپ ہمیں خلافت دے جائیں توبھی ہمیں معلوم ہوجائے اور اگر آپ کسی اور کو خلافت دے دیں تو پھر ہمارے متعلق اس کو وصیت کرجائیں" توحضرت علی نے کہا "خدا کی قسم اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کریں اور آپ ہم کو نہ دیں تو کبھی خلافت نہ ملے گی اور میں تو خدا کی قسم اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز سوال نہ کروں گا یہ حدیث صحیح بخاری کتاب المغازی اور" البدایہ والنہایہ" میں ابن عباس سے مروی ہے اور امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اگر خلافت کا مماملہ اتنا نازک نہیں تھا تو حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عبّاس رضی الله عنہ کے درمیان جو خلافت کے حصول سے متعلق بحث و مباحثہ ہوا تھا - آخر کیوں ہوا تھا - نبی کریم صل الله علیہ وسلم بیماری کی شدت میں تھے اور دونوں اصحاب خلافت کے حصول کے لئے بحث و مباحثہ کر رہے تھے ؟؟؟

اگر حضرت علی رضی الله عنہ کے نزدیک حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کی خلافت جائز نہیں تھی - جیسا کہ سقیفہ بن ساعدہ کے موقع پر آپ نے بائیکاٹ بی کیا تھا تو بعد میں ان کی خلفت کیوں تسلیم کر لی - اور کیوں ان کی خلافت کو میں حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے شانہ با شانہ رہے -

حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا سلسلہ ترک نہیں فرمایا تھا، نیز جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مرتدّین سے قتال کرنے کے لئے تلوار سونت کر "ذی القصہ"تشریف لے گئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی ان کے ساتھ نکلے تھے"۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو عمر بن خطاب نے ایک ڈرامہ کیا اپنے غمگیں ہونے کا اور ایک شخص کو بھیج دیا ابوبکر کو بلانے ان کے گھر پر
ان الفاظ پر غور کریں - کیا ایک مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ صحابی رسول صل الله علیہ وسلم کے متعلق اس قسم کے نا زیبا الفاظ بیان کرے - صحابہ کرام کے منصب خلافت سے متعلق اختلافات اپنی جگہ- لیکن صحابہ کی عظمت پر انگلی اٹھانے والے کم سے کم مسلمان نہیں ہو سکتے -

فورم ایڈمن کو چاہیے کہ اس طرح کی پوسٹ کو حذف کرے جن میں صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی شان میں گستاخی کی گئی ہو-
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
استغفر اللہ ،صحابہ کرام سے بغض رکھنے والا کبھی جنت میں نہیں جاءے گا،ایسے لوگوں کو صحابہ پر طعن کرنے کی بجاءے اپنی حیثیت کو نہیں بھولنا چاہءے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
سوال یہ ہے کہ کیا اگر خلافت کا مماملہ اتنا نازک نہیں تھا تو حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عبّاس رضی الله عنہ کے درمیان جو خلافت کے حصول سے متعلق بحث و مباحثہ ہوا تھا - آخر کیوں ہوا تھا - نبی کریم صل الله علیہ وسلم بیماری کی شدت میں تھے اور دونوں اصحاب خلافت کے حصول کے لئے بحث و مباحثہ کر رہے تھے ؟؟؟

اگر حضرت علی رضی الله عنہ کے نزدیک حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کی خلافت جائز نہیں تھی - جیسا کہ سقیفہ بن ساعدہ کے موقع پر آپ نے بائیکاٹ بی کیا تھا تو بعد میں ان کی خلفت کیوں تسلیم کر لی - اور کیوں ان کی خلافت کو میں حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے شانہ با شانہ رہے -


ویسے تو یہ پوسٹ اس دھاگے کے عنوان سے غیر متعلق ہے مگر آپ نے جو خلافت کے حصول کے لئے بحث مباحثہ کا الزام مولا علی پر لگا یا ہے صرف اس بات کی ترید کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں آپ کی ہی پوسٹ کردہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ
آؤ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا؟ آپ ہمیں خلافت دے جائیں توبھی ہمیں معلوم ہوجائے اور اگر آپ کسی اور کو خلافت دے دیں تو پھر ہمارے متعلق اس کو وصیت کرجائیں۔
اور اس بات پر مولا علی علیہ السلام کا جواب یہ تھا ۔
حضرت علی نے کہا "خدا کی قسم اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کریں اور آپ ہم کو نہ دیں تو کبھی خلافت نہ ملے گی
اس مکالمے سے کہاں ظاہر ہورہا ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے خلافت کی خواہش کا اظہار کیا بلکہ جب حضرت عباس انہیں کہا کہ " آؤ خلافت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد کیسے ملے گی تو حضرت مولا علی علیہ السلام نے سختی سے انکار کردیا
ویسے آپ نے جو صحیح بخاری کی روایت پیش کی اس میں حضرت عباس کے اس جملے کو کیوں حذف کردیا ؟؟؟؟؟
فأخذ بيده عباس بن عبد المطلب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال له أنت والله بعد ثلاث عبد العصا،‏‏‏‏
ترجمہ از داؤد راز
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ تم، خدا کی قسم تین دن کے بعد زندگی گزارنے پرتم مجبور ہو جاؤ گے۔
اور مولا علی علیہ السلام کا یہ جملہ بھی غور کرنے کے قابل ہے جیسے آپ نے کسی اور انداز میں بیان کیا ہے
فقال علي إنا والله لئن سألناها رسول الله صلى الله عليه وسلم فمنعناها لا يعطيناها الناس بعده
تر جمہ از داؤد راز
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم! اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق کچھ پوچھا اور آپ نے انکار کر دیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کر دیں گے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 4447

آپ خود ہی ان دونوں جملوں پر غور کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بنو ہاشم کے لئے حالات کیا ہونے والے تھے جس کا اندیشہ مولا علی علیہ السلام کو بھی تھا اور حضرت عباس کو بھی ۔ رسول اللہ کی حیات میں بھی بنو ہاشم سے قریش کا رویہ بغض عناد پر مبنی تھا جس کی شکایت ایک بار خود حضرت عباس نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ میں کی
ترجمہ از ڈاکٹر طاہر القادری
''حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو (جذبات سے عاری) ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔''
مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/206 : خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


حضرت عباس کا یہ اندیشہ بے جا نہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں بنو ہاشم کے ساتھ اس طرح کا رویہ تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تو بنو ہاشم کے ساتھ قریش کا سلوک مذید بد تر ہونا تھا اور وہ ہوا بھی ایسی لئے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر اپنے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکرار کے ساتھ یہ ارشاد فرمانا پڑا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
" اے لوگوں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔''
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2408
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ان الفاظ پر غور کریں - کیا ایک مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ صحابی رسول صل الله علیہ وسلم کے متعلق اس قسم کے نا زیبا الفاظ بیان کرے - صحابہ کرام کے منصب خلافت سے متعلق اختلافات اپنی جگہ- لیکن صحابہ کی عظمت پر انگلی اٹھانے والے کم سے کم مسلمان نہیں ہو سکتے -

فورم ایڈمن کو چاہیے کہ اس طرح کی پوسٹ کو حذف کرے جن میں صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی شان میں گستاخی کی گئی ہو-
معافی چاہتا ہوں آپ کی دل آزاری ہوئی آئندہ یہ خطاء نہ ہوگی ان شاء اللہ
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ نامزد کرتے تو کسے کرتے تو فرمایا ابوبکر کو پھر عمر رضی اللہ عنھم (صحیحین) اس طرح کی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلافت پر اشارات تو کردیئے اور مصلی کی امامت بھی دے دی آخری وصایا کفن دفن غسل نماز وغیرہ کے متعلق ارشاد فرما کر وصہ بھی بنا دیا (ملاحظہ ہو جلاء العیون صفحہ ٧٥، حیات القلوب جلد ٢ صفحہ ٢٩٥)
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ نامزد کرتے تو کسے کرتے تو فرمایا ابوبکر کو پھر عمر رضی اللہ عنھم (صحیحین) اس طرح کی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلافت پر اشارات تو کردیئے اور مصلی کی امامت بھی دے دی آخری وصایا کفن دفن غسل نماز وغیرہ کے متعلق ارشاد فرما کر وصہ بھی بنا دیا (ملاحظہ ہو جلاء العیون صفحہ ٧٥، حیات القلوب جلد ٢ صفحہ ٢٩٥)
مصلی کی امامت
کیا یہ کوئی دلیل ہے ؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top