لگتا ہے آپ کو نہ عربی آتی ہے نہ دین کی اتنی سمجھ ہے تو میری طرف سے سلاملیکن متن اتنا چھوٹا کیوں اور تشریح اتنی لمبی کس نے اور کیوں کردی
لگتا ہے آپ کو نہ عربی آتی ہے نہ دین کی اتنی سمجھ ہے تو میری طرف سے سلاملیکن متن اتنا چھوٹا کیوں اور تشریح اتنی لمبی کس نے اور کیوں کردی
اگر آپ نے اس نا ممکن کو ممکن کردیا ہے تو ذرا یہ بھی ثابت کردیں کہ :كراهية لمحضر عمر کے الفاظ وقتی نا پسندیدگی کے تھے یا دائمی کے ؟؟؟ کیوں کہ حدیث کے متن سے تو پتا چل رہا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے صرف وقتی طور پر حضرت عمر رضی الله عنہ کی موجودگی کو نا پسند کرتے ہوے ہی یہ الفاظ فرماے تھے -ابھی یہ ممکن کئے دیتے ہیں
کراھت والی بات امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں بیان کی ہے جیسے قرآن کے بعد اصح ترین کتاب مانا جاتا ہے اور اس میں یہ صراحت ہے کہ حضرت فاطمہ کے وصال کے بعد جب مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو صلح کی پیشکش کی ا س وقت یہ جملہ امام بخاری نے بیان کیا لیجئے آپ کی خدمت میں پوری روایت ہی پیش کئے دیتا ہوں بمعہ ترجمہ کے اور ترجمہ بھی داؤد راز صاحب کا کیا ہوا ترجمہ ہے
صحیح بخاری :کتاب المغازی :باب: غزوہ خیبر کا بیان: حدیث نمبر: 4240 - 4241
پہلے تو آپ ترجمہ میں کی گئی تحریفات پر نظر کریں فاطمہ علیہا السلام کا ترجمہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیا گیا
كراهية لمحضر عمر کا ترجمہ یہ منظور نہ تھاعمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں
كراهية لمحضر عمر یہ الفاظ امام بخاری نے اس واقع کے تسلسل میں بیان کئے ہیں اور آپ کو اس کا علم نہیں حیرت کی بات ہے کہ آپ جس کتاب کو قرآن کے بعد اصح کتاب مانتے ہوں اسی کتاب کے آپ کو معرفت نہیں اس لئے آپ سے بھی میں یہی گذارش کروں گا کہ پہلے آپ صحیح بخاری کا مطالعہ فرمالیں اس میں بیان کئے گئے معانی و مطالب میں پوری طرح طاق ہوجائے پھر اس طرح کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کریں تو بہتر ہوگا
والسلام
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبیکتاب اللہ کے بعد اصح ترین کتاب میں لکھا ہے کہ سیدہ النساء اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو اپنے یہاں بلایا صلح کرنے کے لئے اور یہ شرط رکھی کہ آپ اکیلے آئیں کسی کو اپنے ساتھ نہ لائے کیونکہ مولا علی علیہ السلام کو حضرت عمر کی موجودگی پسند نہیں تھی اگر اس ناپسنددگی کو امام بخاری کے الفاظ میں بیان کروں تو شاید کسی کے دل آزاری ہو لیکن میں تو صرف نقل کروں گا کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد امام بخاری کے الفاظ یہ ہیں مولا علی کو حضرت عمر کی موجودگی سے کراہت ہوتی تھی ایک بار پھر معذرت کیونکہ نقل کفر کفر نا باشد اور پھر یہ کوئی کفر بھی نہیں اگر ہوتا تو امام بخاری بیان نہ کرتے
آپ یہ فرمارہیں ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے فوری طور سے حضرت ابو بکر کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیا جبکہ امام بخاری کے مطابق اس صلح کی مدت کم از کم 6 یا 7 ماہ بنتی ہے کیونکہ امام بخاری کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے 6 ماہ بعد سیدہ النساء اہل جنت زوجہ مولا علی والدہ سرداران اہل جنت حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصل ہوا اور اما م بخاری کے ہی مطابق حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر سے شدید ناراض ہوکر اس دارفانی سے کوچ کرگئیں اور امام بخاری ہی حضرت فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہےکہ
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا "
اور یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تبارک تعالیٰ کی ناراضگی ہے
اگر میری اس تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی کا طلب گار ہوں کیونکہ میں نے وہی نقل کیا ہے جو امام بخاری نے بیان کیا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ عطاء فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے آمین
پہلے تو مطلقاًانکار اور جب اس ناممکن کو امام بخاری نے ممکن کردیا تو اب وقتی اور دائمی ثابت کرنے کی بات پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے کے بعد مولا علی علیہ السلام حضرت عمر سے کراھت کررہی نہیں سکتےاصل میں تو یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کے یہ الفاظ حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ہیں نہ کہ بعد کے ؟؟؟ - کیوں کہ اسلام لانے سے پہلے ایک مسلمان کو ایک غیر مسلم سے کراہت ہونا فطری امر تھا -
اگر آپ نے اس نا ممکن کو ممکن کردیا ہے تو ذرا یہ بھی ثابت کردیں کہ :كراهية لمحضر عمر کے الفاظ وقتی نا پسندیدگی کے تھے یا دائمی کے ؟؟؟ کیوں کہ حدیث کے متن سے تو پتا چل رہا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہنے صرف وقتی طور پر حضرت عمر رضی الله عنہ کی موجودگی کو نا پسند کرتے ہوے ہی یہ الفاظ فرماے تھے -
اگرآپ میری مذکورہ بالا عرض پر غور کرلیتے تو اس طرح پنترے بدلنے کی نوبت نہیں آتیآپ جس کتاب کو قرآن کے بعد اصح کتاب مانتے ہوں اسی کتاب کے آپ کو معرفت نہیں اس لئے آپ سے بھی میں یہی گذارش کروں گا کہ پہلے آپ صحیح بخاری کا مطالعہ فرمالیں اس میں بیان کئے گئے معانی و مطالب میں پوری طرح طاق ہوجائے پھر اس طرح کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کریں تو بہتر ہوگا
والسلام
تو مناقب بیان کریں روکا کس نےہے؟؟؟۔۔۔دھاگہ کا موضوع صحابی رسول حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرنا ہے ۔
سلام
وہی تو بیان کررہا ہوں آپ درمیان میں آجاتے ہیں میں تو یہ کہوں گا کہ آپ بھی حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کریں اللہ آپ کو اس کی جزاء دے گاتو مناقب بیان کریں روکا کس نےہے؟؟؟۔۔۔
مجھے حضرت علی رضی الله عنہ کے ان الفاظ کے بارے میں علم نہیں تھا - اس لئے مطلقاً انکارنہیں کیا بلکہ یہ گمان ظاہر کیا تھا کہ بظاھر ایسا ممکن نہیں -پہلے آپ نے یہ ارشاد فرمایا
پہلے تو مطلقاًانکار اور جب اس ناممکن کو امام بخاری نے ممکن کردیا تو اب وقتی اور دائمی ثابت کرنے کی بات پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے کے بعد مولا علی علیہ السلام حضرت عمر سے کراھت کررہی نہیں سکتے
اور اب یہ
اگرآپ میری مذکورہ بالا عرض پر غور کرلیتے تو اس طرح پنترے بدلنے کی نوبت نہیں آتی
ویسے بھی یہ باتیں ضمناً بیان کی گئی ہیں ورنہ اس دھاگہ کا موضوع صحابی رسول حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرنا ہے ۔
سلام
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، (کنیت ابو یقظان ) حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے اور صحابی رسول تھے- حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نےدور اسلام کے شروع میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کے والد حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اور والدہ اسلام کے پہلے شہیدوں میں سے تھے۔ حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ حبشہ کو ہجرت کرنے والوں کے سربراہ تھے۔ جنگ بدر اور دیگر جنگوں میں شریک تھے اور صلح حدیبیہ میں بھی شامل تھے۔ ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وحی الہی کے ذریے خبر دی کہ انہیں ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ اکثریت کا ماننا ہے کہ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی سرکردگی میں لڑتے ہوے شہید ہو گئے تھے - لیکن کچھ دوسرے تاریخی حقائق سے پتا چلتا ہے کہ آپ رضی الله عنہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے دور خلافت میں مصر کے موالی بن کر بھیجے گئے اور وہیں عبدللہ بن سبا یمنی کے پیروکاروں کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے (واللہ اعلم)وہی تو بیان کررہا ہوں آپ درمیان میں آجاتے ہیں میں تو یہ کہوں گا کہ آپ بھی حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کریں اللہ آپ کو اس کی جزاء دے گا