میں نے اس چیز کا دعوی کب کیا ہے؟اور میرے علم کا ذیر بحث مسلہ سے کیا تعلق۔؟
آپ کے علم اس سے یہ تعلق ہے کہ ادھر ادھر کے حوالے دیے جاتے ہیں ، چاہے ان کا موضوع سے تعلق ہو یا نہ ہو ۔
اس لیے میں نے ابتدا ہی آیت سے کی ہے ، تاکہ سب سے پہلے جس آیت کو آپ دلیل بنا رہے ہیں ، آپ خود اس کو دلیل سمجھتے ہیں یا پھر اس بنیاد پر نقل کر رہے ہیں کہ فلاں نے کہا اور علاں نے کہا ہے ؟
ترکیب کا میں اس لیے مطالبہ کر رہا ہوں کہ کسی کو وسیلہ بنانے کے لیے جو لفظ استعمال کیے جاتے ہیں ، وہ اس آیت میں سرے سے ہے ہی نہیں ، اکیلا یستفتحون ہے ۔ آپ وہ لفظ نقل کردیں جن کا معنی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیا کرتے تھے ۔
یہ آسان سی بات چھوڑ کر آپ مفسرین کے اقوال تک پہنچ جاتے ہیں ۔
آخری بات میں نے اپنی طرف سے نا کوئی بات نہیں کی بلکہ مفسرین کے حوالے دئے آپ بھی دیں۔یہ دعوی آپ کا ہے کہیہاں حضور کا ذکر نہیں۔اس پر دلائل دیں۔میں جو بات کی اس کا جواب بھی نہیں دیا اور جو مفسرین کے اوپر حوالے دیے ہیں اس کا جواب کس نے دینا ہے؟رہ گئی یہ بات کہ وہ قول ضعیف ہے تو اپنے اس دعوی کو ثابت کریں۔خالی بے سند کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔اور یہ تفسیر ابن عباس میں بھی ہے۔اور یہ بات آپ کے گھروالوں کو بھی تسلیم ہے کہ اس میںصحیح روایات بھی ہیں۔
کسی بھی مفسر کا قول با سند نقل کریں کہ یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیا کرتے تھے ، اور اس لفظ کی نشاندہی کریں جس کا معنی ہو کہ یہودی حضور کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے ۔
کسی پر جرح اس وقت ہوتی ہے ، ضعف کا حکم اس وقت لگتا ہے ، جب راوی موجود ہوں ، سند موجود ہو ، جب سرے سے سند موجود ہی نہ ہو ، تو پھر وجہ ضعیف ہی یہ ہوتی ہے کہ یہ بلا سند ہے ۔ ہم خالی بے سند کہہ رہے ہیں تو آپ اس کی سند پیش کردیں ، تاک ہم نے نہ کہیں ۔
پیش کریں ، کیا سند ہے ؟ ابن کثیر نے محمد بن اسحاق سے سنا ہے ؟ ابن کثیر اور ابن اسحاق کے درمیان صدیوں پر محیط سند پیش کریں ۔
اب اس دلیل کے بعد دوسری دلیل
روى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الداري - وكان خازن عمر - قال " أصاب الناس قحط في زمن عمر فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا , فأتى الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر " الحديث . وقد روى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور هو بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة , وظهر بهذا كله مناسبة الترجمة لأصل هذه القصة أيضا والله الموفق .
دوسری دلیل کی سند پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہیں۔
أولاً ـ عدم تصريح الأعمش بالسماع من أبي صالح ، وهو مدلس ، وعليه يحكم على الإسناد بالانقطاع ، كما هو مقرر في علم مصطلح الحديث.
ثانياً ـ إن قولَ الحافظ (بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار) ليس نصاً في تصحيح جميع السند ، بل إلى أبي صالح فقط ، ولولا ذلك لقال بإسناد صحيح ، والعلماء إنما يفعلون هذا لأسباب منها: أنهم قد لا يحضرهم ترجمة بعض الرواة ، فلا يستجيزون لأنفسهم حذف السند كله ، لما فيه من إيهام صحته ، خاصة إذا علمنا أن الحافظ ابن حجر ـ وهو سيد من كتب في تراجم الرجال ـ لم يعرف مالك الدار ، ولم يأت له بترجمة ، في أي من كتبه ، وكما أن البخاري في كتابه التاريخ /7ـ304/ وابن أبي حاتم في كتابه الجرح والتعديل /8ـ213/ لم ينقلا توثيقاً في ترجمته مالك ، عن أي أحد من علماء الجرح والتعديل ، مع كثرة اطلاعهما ، وقال الحافظ المنذري ـ وهو من المتأخرين ـ في كتابه الترغيب والترهيب /2ـ29/: ومالك الدار لا أعرفه.
جنکا مختصر جواب یہ کہ اعمش کا سمع ابوصالح سے ہو تو اس کو اتصال پر محمول کیا جاءے گا۔اور مالک دار حضرت عمر کے خازن تھے۔
یہ روایت ضعیف ہے ، اس کے متعلق فورم پر تفصیلی گفتگو
یہاں ہوچکی ہے ، پہلے اس کو پڑھیں ، اگر آپ کے پاس کوئی نیا اعتراض یا کسی اعتراض کا نیا جواب ہو تو وہیں پیش کریں ، اس پر وہیں گفتگو ہوگی ۔۔ إن شاءاللہ ۔