محمد طارق عبداللہ
سینئر رکن
- شمولیت
- ستمبر 21، 2015
- پیغامات
- 2,697
- ری ایکشن اسکور
- 762
- پوائنٹ
- 290
مناسب ہوگا اور مفید بهی ۔ ان شاء اللہ
حضرت لاجواب ہوکر ایسے ہی باتیں کرنی ہیں۔فی الحال نہ میں نے پینترا بدلا ہے نہ ضرورت۔جہاں تک افہام و تفہیم کی بات تو جس طرح آپ کےلوگ کذاب یہودیاس طرح کے الفاظ بولتے ہیں اس بارے میں کیا عرض ہے؟ہاں کوئی آئے جائیں آُ سے بھی گفتگو کر لیتے ہیں میں نے پہلے بھیکہا تھا یہاں میں مناظرانہ کرنے نہیں بلکہ افہام و تفہیم کے لئے آتا ہوں اگر کوئی بھائی اخلاق کے دائرے میں صحیح گفتگو کرے تو بات کا لطف بھی آئے گا۔آپ اسی موضوع پر گفتگو فرما سکتے ہیں۔قادری رانا صاحب !
فورم کے کسی رکن کا انتخاب کر لیں ، اور کسی بھی مسئلے پر اس سے جم کر گفتگو کر لیں ، میں نے تین چار جگہ آپ کے بارے اندازہ لگایا ہے کہ آپ انداز افہام و تفہیم والا نہیں ، جہاں کہیں آپ کو بات کا جواب نہ آئے تو پینترا بدل لیتے ہیں ۔ یہ طریقہ کار بحث جاری رکھنے کے لیے تو کارگر ہے ، لیکن مسئلہ اس سے کوئی بھی حل نہیں ہوتا ۔
اور آپ کی یہ چالاکی ہے یا لاشعوری طور پر آپ کا انداز ہی یہ ہے ، بعض دوست اس کو سمجھ نہیں پاتے ، البتہ عبدہ بھائی نے کئی ایک جگہ پر آپ کو ’’ قابو ‘‘ کیا ہوا ، جس پر آپ وہاں جواب دینے سے قاصر ہیں ، اسی طرح میں نے بھی کسی جگہ آپ کے اس رویے کو بھانپتے ہوئے ، گزارش کی تھی کہ عمومی باتیں کرنے کی بجائے ، میری بات کا اقتباس لے کر اس کے سامنے جواب دیں ، تو آپ دوبارہ اس تھریڈ میں دکھائی نہیں دیے ۔
اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ کے شروع کردہ اسی مسئلے پر گفتگو کر لیں ، آپ میری بات کا جواب دینے کا پابند ہوں گے اور میں آپ کی بات کا ، درست ؟ کوئی تیسرا اس میں حصہ نہیں لے گا ۔
یہ تھریڈ لا شعوری طور پر نظروں سے اوجھل رہا ، اس لیے بروقت جواب نہیں دے سکا ۔حضرت لاجواب ہوکر ایسے ہی باتیں کرنی ہیں۔فی الحال نہ میں نے پینترا بدلا ہے نہ ضرورت۔جہاں تک افہام و تفہیم کی بات تو جس طرح آپ کےلوگ کذاب یہودیاس طرح کے الفاظ بولتے ہیں اس بارے میں کیا عرض ہے؟ہاں کوئی آئے جائیں آُ سے بھی گفتگو کر لیتے ہیں میں نے پہلے بھیکہا تھا یہاں میں مناظرانہ کرنے نہیں بلکہ افہام و تفہیم کے لئے آتا ہوں اگر کوئی بھائی اخلاق کے دائرے میں صحیح گفتگو کرے تو بات کا لطف بھی آئے گا۔آپ اسی موضوع پر گفتگو فرما سکتے ہیں۔
1۔پہلی بات کے پہلے جز کا فی الحال جواب یہ ہے کہ یستفتحون کا تعلق دوسرے جاء سے ہے۔اور یہاں حضور مراد ہیں کہ پہلے وہ مشرکین سے حضور کا تزکرہ کرتے تھے اور بعد میں پہنچاننے سے انکار کردیا اس پر آپ چاہیے تو میں حوالوں کا ڈھیر لگا سکتا ہوں۔وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ
ذات کا وسیلہ لینا ہمارے نزدیک ظنی عقیدہ ہے جو خبر واحد سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔اور آپ کے نزدیک تو ہر عقیدہ خبر واحد سے ثابت ہوتا ہے۔دوسری بات
پھر دوسری بات جو یہاں زیر بحث آئی ، وہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ڈالنا جائز ہے یا نہیں ؟
آپ کا موقف ہے کہ جائز ہے ، آپ کے نزدیک عقیدہ کا جواز کن چیزوں سے ثابت ہوتا ہے ؟
بہت سی آیات اس پر شاہدہیں پہلے ایک پر مکمل بحث ہو جائے پھر دوسری آیت پیش کی جائے گی۔انشا اللہ۔اول : قرآن مجید
میری اوپر والی گزارش کا آپ نے یہ جواب دیا ہے :1۔ قرآن کی آیت کا یہ مفہوم ہے ۔
یہ آپ کا دعوی ہے ، حالانکہ اس پوری آیت میں کہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے ہی نہیں ، ہاں اس میں ’’ کتاب اللہ ‘‘ کا ذکر ہے ۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں :
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿٨٩﴾
اور ان کے پاس جب اللہ تعالٰی کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالٰی کی لعنت ہو کافروں پر۔
لہذا اس نقطے پر ادھر ادھر جانے کی بجائے پہلے تو یہ تو ثابت کریں کے جس چیز کا آیت میں ذکر ہی نہیں ، وہ آپ کے مفہوم یا تفسیری مراد سے کیسے ثابت کی جاسکتی ہے ؟
برائے مہربانی اس آیت سے اپن موقف ثابت کرتے ان الفاظ کو نمایاں کریں جن سے آپ نے حضور کا وسیلہ ثابت کیا ہے ۔
اور اس نقطے پر مفسرین کے حوالے نقل کرنا سود مند نہیں ، ورنہ یہ تصور کیا جائے گا کہ آپ کی دلیل قرآن کی آیت نہیں ، بلکہ مفسرین کے اقوال ہیں ۔
بات بالکل واضح ہے ، ایک تو یہ کہ جواب ہی ناقص ہے ، دوسرا غلط بھی ہے ، کیونکہ یستفتحون اور جاء دونوں ہی فعل ہیں ، فعل کا فعل سے تعلق نہیں ہوتا ، بلکہ فعل کا فاعل ، مفعول وغیرہ سے تعلق ہوتا ہے ۔1۔پہلی بات کے پہلے جز کا فی الحال جواب یہ ہے کہ یستفتحون کا تعلق دوسرے جاء سے ہے۔اور یہاں حضور مراد ہیں کہ پہلے وہ مشرکین سے حضور کا تزکرہ کرتے تھے اور بعد میں پہنچاننے سے انکار کردیا اس پر آپ چاہیے تو میں حوالوں کا ڈھیر لگا سکتا ہوں۔
میرے مذکورہ مطالبے کے متعلق آپ نے یہ سطریں رقم فرمائیں ہیں :2۔ دوسرا آپ نے مفسرین کے اقوال پر اس چیز کی بنیاد رکھی ہے ۔
تو گزارش ہے کہ آپ کا جو دعوی ہے ، اس کا تعلق فہم سے نہیں ، خبر سے ہے ، کیونکہ قرآنی آیت میں تو یہ صراحت ہے ہی نہیں کہ یہودی وسیلہ وغیرہ بناتے تھے ، لیکن آپ ایک خبر ( کہ یہودی وسیلہ بناتے تھے ) کو بنیاد بنارہے ہیں قرآنی آیت سے ایک فہم کشید کرنے کی ، گزارش ہے کہ پہلے اس خبر کو خبر کے تقاضوں کے مطابق ثابت کردیں اور اس کی سند بیان کردیں کہ فلاں آدمی کی متصل سند یہودیوں تک پہنچتی ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں آدمی نے یہودیوں کو یہ فعل کرتے دیکھا یا سنا ہے ۔ یا اس کے علاوہ اگر وہ کوئی اور مستند ذریعہ سمجھتے ہیں تو وہ بھی بیان کردیں ۔
امید ہے یہاں بھی آپ صرف مفسرین کے اقوال بیان کرنے کی بجائے ، صرف وہی پیش کریں گے جس سے اس خبر کا درست ہونا ثابت ہو جائے ، کیونکہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ ائمہ حدیث و تفسیر و تاریخ نے جو کچھ بیان کیا ہے ، اس میں صحیح ، ضعیف وغیرہ ہر قسم کی روایات ہوتی ہیں ، لہذا صرف کسی امام کا کسی بات کو نقل کرنا کافی نہیں ، بلکہ اس سے استدلال کے لیے اس کی صحت ثابت کرنا ضروری ہے ۔
اس کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بلا سند بات ہے ۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو مستند ہوتی ۔2۔دوسری شق کا جواب یہ آپ اس کی صحت کو غلط ثابت کر دیں اور اس کے ضعیف ہونے کی نشاندہی فرمائیں۔اگلی بات یہ کہ جب کوئی مفسر کسی آیت کی تفسیر کے متعلق کسی قول کو قوی جانتا ہے تو وہ بغیر کسی جرح کے اس کو نقل کردیتا ہے اور اسی قول کو اختیار کرتا ہے۔آپ کے گھر کے دو حوالہ جات دیے جا چکے جس میں آپ کے مفسرین نے اس آیت کا وہی مطلب بیان کیا ہے ۔
اس بات کا حوالہ نقل فرمادیں ، تاکہ سند رہے ۔ذات کا وسیلہ لینا ہمارے نزدیک ظنی عقیدہ ہے جو خبر واحد سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
بہتر ۔بہت سی آیات اس پر شاہدہیں پہلے ایک پر مکمل بحث ہو جائے پھر دوسری آیت پیش کی جائے گی۔انشا اللہ۔
اسی طرح احادیث مبارکہ بھی۔
اور آخر میں صرف اتمام حجت کے واسطے آپ کے گھر کے حوالے بھی اگر آپ اجازت دیں۔
عرض ہے کہ جاء فعل ہے اور اس کا فا عل حضور انور ہیں۔اور اس کا تعلق یہودیوں کے فعل یستفتحون سے ہیں۔دوسری بات میں نے کہا تھا کہبات بالکل واضح ہے ، ایک تو یہ کہ جواب ہی ناقص ہے ، دوسرا غلط بھی ہے ، کیونکہ یستفتحون اور جاء دونوں ہی فعل ہیں ، فعل کا فعل سے تعلق نہیں ہوتا ، بلکہ فعل کا فاعل ، مفعول وغیرہ سے تعلق ہوتا ہے ۔
پھر بھی اگر آپ اس پر مصر ہیں تو بتائیں کہ ان دونوں فعلوں کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟
یعنی مفسرین کے حوالہ جات کا کہ اس جاء کا فاعل اور ما عرفو کا مفعول حضور کی ذات بابرکات ہے۔س پر آپ چاہیے تو میں حوالوں کا ڈھیر لگا سکتا ہوں۔
میں نے ایک بات عرض کی تھیاس کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بلا سند بات ہے ۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو مستند ہوتی ۔
یہاں کسی کے گھر کے حوالے نہیں چلیں گے ، اس خبر کو مستند ثابت کریں تو پھر بات بنے گی ، محدثین و مفسرین نے کئی روایات بطور معلومات بیان کی ہیں ، ان کا بیان کردینا صحت کی دلیل نہیں ۔ جس نے ان روایات سے استدلال کرنا ہے ، اس کے لیے ان کی صحت ثابت کرنا ضروری ہے ۔
جہاں تک یہ بات کہ یہ بلا سند ہے تو عرض ہے کہ کیا مفسرین نے کفر و شرک کو نقل کیا ہے؟اور کیا جن آپ کے اکابرین کے حوالہ جات دیے گیے ہیں انہوں نے شرک کے قول کا اختیار کیا ہے ؟اگلی بات یہ کہ جب کوئی مفسر کسی آیت کی تفسیر کے متعلق کسی قول کو قوی جانتا ہے تو وہ بغیر کسی جرح کے اس کو نقل کردیتا ہے اور اسی قول کو اختیار کرتا ہے
بہت سے حوالہجات ہیں۔مقام نبوت و ولایت از غلام رسول سعیدی کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔اس بات کا حوالہ نقل فرمادیں ، تاکہ سند رہے ۔