محترم راجا
حلالہ کی ایک شکل وہ ہے جو قرآن وسنت سے میں موجود ہے
کہ ایک شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیتاہے یاغیرمقلدین کی نگاہوں میں تین مجالس میں تین طلاق دیتاہے۔بیوی اس پر حرام ہوگئی۔ پھر وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرتی ہے۔ دونوں کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ کسی بات پر خفاہوکردوسراشوہر طلاق دے دیتاہے یاپھر دوسرے شوہر کی موت ہوجاتی ہےتووہ عورت پہلے شوہر کی جانب لوٹ سکتی ہے اوراس کی بیوی بن سکتی ہے۔ اس میں میرے خیال سے شاید کسی کااختلاف نہیں ہوگا۔
محترم جمشید
جو نقشہ آپ نے کھینچا ہے، اس کی حقیقت میں ، واقعی کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ بے شک ایسا نکاح درست ہے جو کسی دوسرے شخص سے شادی کے بعد، اس کی وفات یا اس سے طلاق پانے کے بعد، پہلے شوہر سے کر لیا جائے۔ ہاں، اس حقیقت پر حلالہ کا لفظ منطبق کرنے میں اختلاف ہے اور شدید اختلاف ہے۔
حلالہ بذات خود ایک علیحدہ اصطلاح ہے جو اگرچہ اسی فعل کے لئے ہے، جس کا نقشہ آپ نے کھینچا، لیکن نیت کے اختلاف سے دونوں افعال بظاہر ایک ہوتے ہوئے بھی درحقیقت شرعاً ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
توالفاظ سے گزرکر حقیقت تک پہنچنے کی صلاحیت پیداکیجئے اگر محض ظاہر الفاظ پرہی قناعت کرنی ہے توپھر کھل کر کہئے کہ ہم بھی ظاہریہ ہیں۔ اشارہ النص دلالۃ النص اقتضاء النص کسی کو تسلیم نہیں کرتے۔
ہم یہی مشورہ آپ کو دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ظاہر الفاظ پر قناعت درحقیقت آپ ہی کر رہے ہیں۔ اور فقط حلال و حرام افعال کی ظاہری یکسانیت سے مرعوب ہو کر، حرام فعل کا نفاذ ثابت کر رہے ہیں۔
حنفیہ کا کہناہے کہ اگرکوئی شخص بذات خود نکاح حلالہ کیلئے راضی ہواہے تو وہ گناہ گارہے اورجواس کواس کام پر راضی کررہاہے وہ بھی گنہگارہوگا اورشدید گنہگارہوگا۔ بعض احادیث میں اسکیلئے کرائے کاسانڈ بھی استعمال ہواہے
ایسے شخص کے گنہگار ہونے میں احناف بھی دیگر مسالک کے ہم زبان ہیں۔
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اس طرح سے منعقد ہونے والا نکاح بھی صحیح نہیں۔
حنفیہ کہتے ہیں کہ باوجود گناہ کے نکاح صحیح ہوجائے گا اورایساکرانے والا گنہگار ہوں گے۔
طرفین کا موقف پیش کرنے کی حد تک ، حقیقت حال کی درست وضاحت پر شکریہ قبول کریں۔
اگرچہ حنفیہ کا یہ کہنا کہ ایک ایسا فعل جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت فرمائیں، شرعاً نافذ ہو جائے گا، عجیب و غریب اور نادر اصول ہے، اور حیلہ کی قبیح ترین شکل ہے۔
اس کی نظیر بعینہ یہی ہے کہ ایک شخص کو کسی دوسرے کی بیوی پسند آگئی وہ اس کو ترغیب دیتاہے کہ تم اپنی بیوی کوطلاق دے دو میں اس سے شادی کرلوں گا۔ اوراس کورقم وغیرہ کی بھی ترغیب دے دیتاہے ۔ اگرکوئی مال دوولت کاحریص اورغیرت سے عاری شخص مذکورہ شخص کی ترغیب کو قبول کرکے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتاہے اوردوسراشخص اس سے نکاح کرلیتاہے توکیاپہلے شوہر کاطلاق معتبر نہیں ہوگا اورعورت کا دوسرے سے نکاح صحیح نہیں ہوگا۔
باوجود کہ دونوں پہلاشوہر اوردوسراشوہر دونوں گنہگارہوں گے لیکن اس کے باوجود ان کی طلاق بھی معتبر ہوگی اوردوسرانکاح بھی صحیح ہوگا
شریعت کو کھلونا بنا کر حیلہ سازی کا کام یہود نے بھی کیا تھا۔ اور ہفتہ کے دن جب مچھلیوں کا شکار منع ہو گیا، تو انہوں نے گڑھے کھود لئے تاکہ مچھلیاں ان میں پھنس جائیں، اور وہ اگلے روز ان کا شکار کر سکیں۔ عقلی بنیادوں پر ان کی دلیل کو رد کرنا بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ
حکم کے ظاہری الفاظ کا تقاضا تو یہی تھا کہ بروز ہفتہ مچھلیاں شکار نہ کی جائیں۔ اور وہ انہوں نے نہیں کیں۔
اسی طرح کا یہ حیلہ بھی کہ جب زکوٰۃ فرض ہونے لگے تو بیوی کو ہبہ کر دیں اور اگلے سال جب بیوی پر زکوٰۃ فرض ہونے لگے تو وہ شوہر کو ہبہ کر دے۔ نہ مال پر سال پورا ہوگا اور نہ زکوٰۃ فرض ہوگی۔
اس طرح کی عقلی موشگافیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا مذاق اڑانے سے، ہم تو اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔