ایک شخص غصہ میں آکر اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتاہے اب اسے پچھتاواہوتاہے کہ یہ تومیں نے بہت براکیا
حنفیہ شافعیہ مالکیہ حنابلہ کہتے ہیں کہ تم نے ایک ساتھ تین طلاق دے کر کتاب اللہ کو مذاق بنایاہے اب اس کی سنگین سزابھگتو
اب وہ شخص حلالہ کا طریقہ ڈھونڈتاہے اورکسی دوسرے مرد کے ساتھ اپنی بیوی کی شادی کراتاہے
وہ اس دوسرے شخص سے کسی اورطریقہ سے عرض ومعروض کرسکتاہے کہ تمہیں اگلی صبح کو تین طلاق دیناہوگا۔نہیں کروگے توایساایساہوگا
لیکن نکاح نامے میں وہ ایسی کوئی شرط نہیں رکھ سکتاکہ اس نکاح کی شرط یہ ہے کہ تمہیں اگلی صبح کو طلاق دیناہوگا۔
حنفیہ کاکہناہے کہ اگرکوئی ایسی شرط لگاتابھی ہے تونکاح صحیح اورشرط باطل ہوگی!
یہ تو بہت عجیب بات ہے کہ آپ نکاح سے قبل فریقین کی نیت پر تو اعتبار نہیں کرتے۔ اور وہی نیت کاغذ پر لکھ دی جائے تو اس کا اعتبار کرتے ہیں۔
یہ نکاح نامے کا چکر تو ابھی گزشتہ صدی سے شروع ہوا ہے اس سے قبل یہ نکاح نامے کہاں تھے اور خود شریعت میں نکاح نامہ کوئی ضروری دستاویز ہی نہیں ہے۔
جب شادی کرنے والے مرد کی نیت شادی کے وقت یہی ہے کہ وہ ایک خاص مدت ( جو کہ عموماً ایک رات ہی ہوتی ہے) کے لئے خاتون سے نکاح کر رہا ہے۔ تو یہ نکاح کیسے منعقد ہو سکتا ہے؟ جبکہ ایسے نکاح پر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت بھی فرماتے ہوں اور یہ بات آپ کو بھی تسلیم ہے۔
باقی یہ بات کہ نکاح چاہے مذاق میں ہو یا سنجیدگی سے منعقد ہو جاتا ہے۔ اس حدیث سے اگر نکاح حلالہ کی دلیل ملتی ہے تو نکاح متعہ کی بھی ملتی ہے۔ اگر نکاح حلالہ درست تو پھر نکاح متعہ بھی درست۔ کیا آپ اسے تسلیم کرتے ہیں؟
نکاح کی کچھ شرائط ہیں۔ ان میں باکرہ کے لئے ولی کا ہونا شرط ہے۔ گواہان کا ہونا ضروری ہے وغیرہ۔ ویسے ہی گھر بسانے کی نیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ دونوں ہی اگر اس نیت سے نکاح کریں کہ کل ہم نے طلاق لے دے کر فارغ ہو جانا ہے تو اس میں اور چکلوں کوٹھوں پر زنا کی وارداتوں میں کیا فرق رہا؟
آپ ہی بتائیے اگر اس حدیث سے نکاح حلالہ جائز و درست ثابت ہوتا ہے، تو نکاح سے قبل طلاق کی شرط عائد کر لینے والے کا نکاح بھی درست ہونا چاہئے۔ احناف بھی اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ نکاح سے قبل ہی اگر شرط عائد کر دی جائے کہ نکاح کے بعد طلاق دے دی جائے گی۔ یا اگر لکھت پڑھت میں شرط عائد نہ ہو، لیکن دل سے نیت اور مصمم ارادہ ہی یہ ہو کہ ایک دن بعد طلاق دے کر جدا کر دینا ہے، تو ایسا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
پھر آخر ان دونوں باتوں میں کیا جوہری فرق ہے کہ :
۔ نکاح سے قبل طلاق کی شرط عائد کر دی جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
۔ نکاح سے قبل فریقین طلاق کی نیت اور مصمم ارادہ ہو، گواہان، قاضی، قریب ترین رشتہ دار سب واقف ہوں کہ یہ نکاح طلاق کی نیت سے کیا جا رہا ہے۔ تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے، اگرچہ فریقین کو گناہ ہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو نکاح حلالہ کرنے کرانے والے کے بارے میں قسم کھاتے ہیں کہ میرے پاس لائے گئے تو انہیں رجم کر دوں گا۔ اور سب جانتے ہیں کہ رجم زنا کی سزا ہے۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نکاح حلالہ کے منعقد ہو جانے کا اعتقاد رکھتے تو رجم کی سزا کا کیوں اعلان کرتے؟
اور حلالہ کو مرد کے لئے سزا قرار دینا اس سے بھی عجیب تر ہے۔ ٹھیک ہے تین طلاق سے کتاب اللہ کے ساتھ مذاق کرنے والے کو سزا ملنی چاہئے۔ لیکن خاتون کا کیا قصور؟ اسے کس جرم کی سزا دی گئی؟
حنفیہ کاکہناہے کہ اگرکوئی ایسی شرط لگاتابھی ہے تونکاح صحیح اورشرط باطل ہوگی!
یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ احناف ایسے نکاح کو درست قرار دیتے ہیں جس میں طلاق کی شرط عائد کی گئی ہو۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ احناف کے ہاں ایسا نکاح مکروہ تحریمی ہے، کیا مکروہ تحریمی قرار دینے کے باوجود ایسا نکاح منعقد ہو جاتا ہے؟ آپ کے پاس اگر اپنے موقف کے حق میں دلائل ہوں تو پیش کیجئے۔
دوسری بات یہ کہ اگر کوئی نکاح متعہ کرتا ہے تو بھی نکاح صحیح اور موقت کی شرط باطل قرار پائے گی؟