گر مغالطہ مقصود نہیں ، تو غلط فہمی ہی ہے۔
کسی دوسرے کی ترغیب و تحریص کے بعد طلاق دینے والے شخص کے بارے میں یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اس کا اپنا ارادہ نہیں؟
یہ کہہ سکتے ہیں کہ طلاق کے ارادے کی وجہ ترغیب و تحریص تھی۔
کیونکہ طلاق تو اس نے ترغیب سے متاثر ہونے کے بعد اپنے بھرپور ارادے کے ساتھ ہی دی ہے۔
ہاں جبر و اکراہ کا معاملہ ہو تو سوال بنتا ہے۔ کہ گن پوائنٹ پر کسی شخص نے طلاق دی تو اس نے اپنے ارادہ سے نہیں دی۔
حقیقت یہ ہے کہ جوبات آپ جبرواکراہ کے معاملے میں کہہ رہے ہیں اس میں بھی کہاجاسکتاہے کہ اس نے اپنے ارادے سے طلاق دی ہے۔کسی کو گن پوائنٹ پر رکھ کر طلاق کیلئے کہاجاتاہے تواس کے سامنے بھی چوائس ہوتاہے کہ وہ اپنی جان بچائے یاپھر طلاق دے۔ اوروہ پہلی صورت اختیار کرتاہے؟
اس بحث سے قطع نظر
میرسوال صرف اس قدر ہے
اگرکوئی شخص ترغیب وتحریص کی وجہ سے طلاق دیتاہے تواس کی طلاق واقع ہوجائے گی یانہیں آپ کہتے ہیں کہ ہوجائے گی اورحدیث اس پر دال ہے ثلاث جدھن جد وہزلہن جد
کہ تین چیزیں چاہے سنجیدگی سے یامذاق سے وہ واقع ہوجاتی ہیں۔
اب اسی اصول پر غورکریں کہ
جوشخص نکاح حلالہ کرتاہے اورکراتاہے آپ کہتے ہیں کہ اس کانکاح نہیں ہوا
جب کہ حدیث کہتی ہے کہ نکاح چاہے ترغیب وتحریص سے ہویاکسی اورمقصد سے ۔نکاح ہوجائے گا۔جدھن جد وہزلہن جد
ہاں چونکہ نکاح حلالہ کی حدیث میں مذمت اورلعنت وارد ہوئی ہے لہذا ہم کہتے ہیں وہ شدید گنہگار ہوگا اوراگراسلامی حکومت ہوتو تفتیش کے بعد اس کو تعزیر بھی ہوسکتی ہے۔
اس طرح دونوں حدیثوں میں پر عمل آوری ہوجاتی ہے۔
اصل موقف احناف کایہ ہے کہ نکاح درست ہے کراہت کے ساتھ
یہی موقف امام شافعی علیہ الرحمہ کابھی ہے
ہاں اگرنکاح میں کوئی شرط لگاتاہے کہ اس کو طلاق دیناہوگایاایساویساتووہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ حنفیہ اورشافعیہ کے بھی نزدیک
أما نكاح التحليل المؤقت: وهو الذي يقصد به تحليل المرأة لزوجها الأول بشرط أو اتفاق في العقد أو غيره بالنية، فهو زواج باطل غير صحيح، ولا تحل به المرأة للأول الذي طلقها، وهو معصية لعن الشرع فاعلها، سواء علم الزوج المطلّق أو جهل بذلك وهو رأي مالك وأحمد والثوري والظاهرية. وقال الحنفية والشافعية: هو صحيح مع الكراهة ما لم يشترط التحليل في العقد.