• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلب نہیں ہمارا قلب مر گیا ہے !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شام: محصورین اور زخمیوں کو لینے کے لیے آنے والی متعدد بسیں نذرآتش

اتوار 19 ربیع الاول 1438هـ - 18 دسمبر 2016م

http://ara.tv/zvgxj
العربیہ ڈاٹ نیٹ ،ایجنسیاں

b5b2b920-6f06-4092-831b-863fb465fe61_16x9_600x338.JPG

شام کے شمالی شہر حلب میں دو دیہات الفوعہ اور کفریا میں محصور شہریوں اور زخمیوں کو لے جانے کے لیے آنے والی متعدد بسوں کو حملہ کرکے جلا دیا گیا ہے۔

برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق اور شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ جبھۃ الفتح الشام نے ان بسوں پر حملہ کیا ہے۔حلب سے تعلق رکھنے والے باغی دھڑوں نے واقعے کی مذمت کی ہے۔

شامی کارکنان کا کہنا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ فتح الشام کے جنگجوؤں نے پانچ بسوں کو نذرآتش کیا ہے۔ان بسوں کو شمال مغربی صوبے ادلب میں واقع دو دیہات الفوعہ اور کفریا سے زخمیوں اور مریضوں کے انخلا کے لیے بھیجا گیا تھا۔

ان دونوں دیہات کا باغیوں نے محاصرہ کررکھا ہے۔ حلب سے تعلق رکھنے والے شامی باغیوں کے ایرانی ملیشیا اور روس کے ساتھ طے شدہ سمجھوتے کے تحت ان دونوں دیہات میں محصور دو ہزار سے زیادہ افراد اور زخمیوں کو نکالا جائے گا۔

لبنانی ملیشیا حزب اللہ کا کہنا ہے کہ فتح الشام اور ایک باغی گروپ کے درمیان لڑائی کے دوران ان بسوں کو جلایا گیا ہے۔حزب اللہ کے میڈیا نے جلائی گئی بسوں کی تعداد پانچ جبکہ شامی رصدگاہ نے چھے بتائی ہے۔

حلب سے انخلا
شامی حکومت کے تحت میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ درجنوں بسیں اور ایمبولینس گاڑیاں شمالی شہر حلب کے مشرقی حصے میں داخل ہوا چاہتی ہیں۔ان کے ذریعے باغی جنگجوؤں اور شہریوں کو نکالا جائے گا۔

حلب کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات کے بعد جمعہ کو شہریوں کا انخلا روک دیا گیا تھا۔شامی باغیوں کے گروپ احرارالشام کا ایرانی ملیشیا اور روس کے ساتھ ہفتے کو ایک سمجھوتا طے پایا تھا جس کے تحت مشرقی حلب میں محصور ہزاروں خواتین ،بچوں ،بیماروں اور زخمیوں کو نکالا جائے گا۔

اس کے تحت باغی جنگجو حلب کے مشرقی حصے کو خالی کردیں گے اور اس کے بدلے میں شامی حکومت چار قصبوں الفوعہ ،کفریا ،مضایا اور الزبدانی سے ماضی میں گرفتار کیے گئے باغی جنگجوؤں اور دیگر زخمی افراد کو رہا کردے گی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شام میں اصل مسئلہ ہے کیا؟


(پہلی باردرست حقائق جانیے)​

----------------------------

٭ مسجد جانے کو بشار الاسد کیا سمجھتا ہے؟
٭ کس طرح مختلف گروپوں نے شامی عوام پر ظلم کی انتہاء کر دی؟
٭ کون کون سے ممالک اور گروپ شامی عوام کے قتل عام میں ملوث ہیں؟

----------------------------

پروگرام ٹائم لائن میں بتا رہے ہیں حلب سے براہ راست هادي العبدالله Hadi abdullah (اردو سب ٹائٹل کے ساتھ)

-----------------------------

ویڈیو


لنک

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کفر تو ہمیشہ سے ہی اکٹھا تھا


..
مفادات کا اگر کبھی ٹکراو ہو بھی گیا تو مسمانوں کا معاملہ آتے ہی شیر شکر ہو گیے -
یہی معاملہ عالم عرب میں ہو رہا ہے - اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ نام نہاد عرب " بہار " کے جب بھی پرت اتریں گے اور سچ کے موسم کھلیں گے مغرب کا ہاتھ ہی نکلے گا - انہوں نے اپنے مفادات کے لیے عرب ملکوں کو برباد کر کے رکھ دیا - مستحکم ریاستوں کو خانہ جنگی کی نذر کر دیا گیا - ایک عشرے سے لگی اس آگ میں مجموعی طور پر کئی ملین مسلمان جان بحق ہو چکے ہیں ...

دل چسپ امر ہے کہ ان سب کا تعلق اہل سنت سے ہے - بمباری بھی اگر ہوتی ہے تو اہل سنت مرتے ہیں اور فوجیں جب زمین پر اترتی ہیں تو بھی اہل سنت ہی قتل ہوتے ہیں ...اور جو مدت تک امریکہ کی دشمنی کا منجن بیچتے رہے ، تمام دنیا کو احمق بناۓ رکھا وہ اس قتل و غارت گری میں "شیطان بزرگ " کے ہم نوالہ ہی نہیں ہر لحاظ سے مدد گار بنے ہووے ہیں -

آپ حیران نہیں ہوں گے کہ جب امریکہ نے بغداد . تکریت ، رمادی ، فلوجہ کو بمباری کر کر کے برباد کر دیا بلامبالغہ لاکھوں معصوم شہریوں کو قتل کیا ، تو شیطان بزرگ کا نعرہ لگانے والے نئی حکومت کے قیام میں ان کے ساتھ تھے ، بلکہ امریکہ نے عراق " فتح " کر کے حکومت ان کے دوستوں کے حوالے کر دی -

دوسری طرف شام میں جب بشار شکست کے دہانے پر تھا ، کوئی روز جاتا تھا کہ اس کو دمشق چھوڑنا پڑتا ، - امریکہ کے لیے مشکل تھی کہ کھل کے بشار کی مدد کرتا - کرتا بھی کس منہ سے کہ ہر دم بشار سے پاک شام کا نعرہ لگاتا رہا تھا - اور عرب حکمرانوں کی ناراضی کا بھی معمولی سا ڈر تھا ...دوسری طرف عراق میں بنے دوست ایران برادر صغیر کی رفاقت بھی عزیز تھی ، سو روس کو اذن ہوا کہ مدد کو آؤ --
روس بظاہر داعش پر حملے کے بہانے اس جنگ میں کودا ...ان پر تو شائد ایک روز بھی بمباری نہ کی لیکن شام کے معصوم عوام کو قتل کرنا شروع کر دیا ..آپ حلب پر روتے ہیں ، داریا کو بھول گیے ؟- جب اس کا سقوط ہوا تھا تب ہی روس اور امریکہ کی منافقت کا بھانڈہ سر بازار پھوٹ گیا تھا - حلب میں بھی روس کا ٹارگٹ بشار کی مدد کم اور عام شہریوں کو قتل کرنا زیادہ تھا ...سو اس نے جی بھر کے سوا سال بمباری کی ، مشرقی حلب کا کوئی محلہ سلامت نہ بچا کوئی گلی کوئی عمارت اپنی اصلی حالت میں نہ بچی ، انسانیت تو پھر نازک اور جذبات کی بنی ہوتی ہے - اور میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ روس کی اس درندگی میں ماضی میں افغانستان کی بدترین شکست کا بدلہ لینے کا خیال بھی شامل تھا -

اس بربادی میں ، تباہی میں قتل و غارت میں ایران اور اس کے فوجی قدم قدم روس کے ساتھ تھے - اوپر سے روس آگ برساتا ، نیچے سے ایرانی اس کے ثمرات سمیٹتے - جو محض علاقے کی صورت میں نہیں ، بلکہ مال ، زمین اور عورتوں کی عصمتوں کی صورت میں تھے - معصوم بچوں کی لاشوں کی صورت میں بھی - ہاں یہاں یہ " وحدت ملت " کا چورن بیچنے والے روس کے اتحادی تھے - آپ کو اندازہ نہیں ہوا کہ یہ تمام گروہ امت مسلمہ کے باب میں وحشی اور غیر مہذب ہیں ..اور جی بھر کے منافق بھی ہیں ----
اور پلانر غضب کے - اصل میں میڈیا اور بمباری ہی صرف ان کے دو ہتھیار ہیں - بمباری سے اپنی درندگی اور جانور پن کا مظاہرہ کر کے ، میڈیا کے زور پر بات کا رخ بدل لیتے ہیں- جس میڈیا کو مختاراں مائی کی عصمت لٹتی ایک گوٹھ میں نظر آ گئی ، وہی میڈیا ہزاروں معصوم لٹتی عصمتوں کی بار اندھا ہی نہیں بہرا بھی ہو گیا تھا ، آپ ذرا بی بی سی کی سائٹ پر جائیے تو آپ کو حلب کی دو خبریں بھی نہیں ملیں گی --
آپ اور ہم خارجی خارجی کا کھیل کھیلتے رہے ، ایک دوسرے پر فتوے جڑتے رہے ، داخلی حلال حرام کی بحثوں میں الجھے رہے اور تینوں مل کر سکون سے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرتے رہے -

سال بھر کی بمباری میں امریکہ ایک دن نہ بولا ، لاکھوں قتل ہووے ، ملین سے زیادہ بے گھر ...اور ڈرامے بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ شامیوں کو اہل مغرب پناہ بھی دے رہے ہیں- امداد دے رہے ہیں ، جاؤ یار یہ ڈرامے کسی اور سے کرو ،ہم اگر اپنی بات پھیلانے کی طاقت نہیں رکھتے تو کیا سمجھنے سے بھی محروم ہو گیے ؟ -

تاریخ نے ایسا ڈرامہ کم ہی دیکھا ہو گا جو شام میں سٹیج کیا گیا - جن گروپوں کی امریکہ بظاہر امداد کرتا تھا ان پر بھی روس بمباری کر رہا تھا ، معصوم شہریوں کو بلاامتیاز قتل کیا گیا ، سب خاموش رہے - اور اب مگر مچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں -
برلن میں دس بندے مارے گیے انسانیت تڑپ اٹھی ، عراق شام میں دس لاکھ مارے گیے ،انسانیت بھنگ پی کے سوئی رہی -
.
....ابوبکر قدوسی
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آپ اور ہم " خارجی داخلی " کا کھیل کھیلتے رہے ، ایک دوسرے پر فتوے جڑتے رہے ، حلال حرام کی بحثوں میں الجھے رہے اور
.... " تینوں " مل کر سکون سے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرتے رہے -
سال بھر کی بمباری میں امریکہ ایک دن نہ بولا ، لاکھوں قتل ہووے ، ملین سے زیادہ بےگھر ...اور ڈرامے بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ شامیوں کو اہل مغرب پناہ بھی دے رہے ہیں- امداد دے رہے ہیں ،جاؤ یار یہ ڈرامے کسی اور سے کرو -
ہم اگر اپنی بات پھیلانے کی طاقت نہیں رکھتے تو کیا سمجھنے سے بھی محروم ہو گیے ؟

....ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
گذشتہ پورا ہفتہ درد و غم کی خبریں ہی سننے کو ملیں ، کان ترس گئے تھے اچھی خبر سننے کو !!
رات " قطر " ٹی وی چینل پر حلب کے مظلوموں کے لئے عطیات جمع کرنے کی لائیو ٹرانسمیشن چل رہی تھی ۔
ایثار و محبت و اخوت کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ خوشی سے آنسو نہ روک پائنگے۔
اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ امت ابھی مری نہیں ہے بلکہ امید باقی ہے ۔
اگر امت میں ایسے افراد موجود ہیں تو یہ امت ان شاء الله دوبارہ اٹھے گی اور بہت کچھ سیکھ کر اٹھے گی !!
امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثاني حفظه الله و رعاه نے حلب کے مظلوموں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے چند دن پہلے جبکہ اٹھارہ دسمبر کو اليوم الوطني ( یوم آزادی) کی تقریبات کی تیاریاں بہت زور شور سے جاری تھیں، ان تقریبات کی منسوخی کا اعلان کیا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ان تقریبات پر آنے والے لاکھوں ریال کے مصارف حلب کے مظلومین کو بھیجے جائیں ۔
لہذا اس مرتبہ یوم آزادی انتھائ سادگی سے منایا گیا اور جس مقام پر یوم آزادی کی مرکزی پریڈ ہوتی تھی، وہاں کھڑے ہو کر قطر نامی چینل نے ان کے لئے کروڑوں ریال لائیو عطیات جمع کئے جو کہ ان شاء الله دو دن مزید جاری رہیں گے ۔
رات کو آخری نظر دیکھتے ہوئے دو سو بتیس ملین ریال سے اوپر جمع ہو گئے تھے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا تھا ۔
جب ایک بھائی نے دس ملین قطری ریال دیئے اور کہا کہ نام نہ لیا جائے، جس کے لئے دے رہا ہوں اسے معلوم ہے، تو ہم اتنی بڑی رقم پر حیران رہ گئے ۔
تھوڑی دیر بعد ایک اللہ کے بندے نے پچاس ملین ریال کا عطیہ کر دیا سبحان اللہ ۔
اللہ تعالی اہل قطر کو نظر بد سے بچائے، حاسدین کے حسد اور ہر شریر کے شر سے ۔۔۔ آمین یا رب !!!
عورتوں نے اپنے زیورات، جوانوں نے اپنی خوبصورت خوبصورت بڑی بڑی گاڑیاں ، بچوں نے اپنے بچت بوکسسز اور پتہ نہیں کیا کیا دیا !!!
و في ذلك فاليتنافس المتنافسون .
یہ سارامال جمع کرکے حکومت قطر کی طرف سے منظور شدہ خیراتی اداروں کے ذریعے حلب کے مظلوموں تک پہنچایا جائے گا ان شاء الله.
یہ ہے عرب کا اصل چہرہ !!

منقول......
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سقوط حلب اور سپر پاورز کی ابلیسی گیم

محسن فارانی

امریکی صدر بارک حسین اوباما نے کہا ہے کہ ”حلب میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری بشار حکومت، ایران اور روس پر عائد ہوتی ہے اور جب تک شام پر فوجی کنٹرول نہیں ہوتا، تب تک اس جنگ کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا“۔ اوباما کی یہ ”بے بسی“ دراصل دو صلیبی سپر پاورز امریکہ اور روس کی عالم اسلام کے خلاف ملی بھگت کا شاخسانہ ہے۔ 2003ءمیں عراق پر امریکی حملے کے وقت روس نے چپ سادھ لی تھی،حالانکہ عراق کے صدام حسین روس کے حلیف تھے، بلکہ ماسکو نے یو این او میں عراق پر امریکی اتحادی قبضے کے جواز کی قرارداد کے حق میں ووٹ بھی دیا تھا، پھر 2011ءمیں شام کے سفاک آمر بشار کے خلاف شامی عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو امریکی صدر اوباما نے حریت پسند شامیوں کی مدد اور بشار حکومت کے خاتمے پر زور دینا شروع کیا لیکن ستمبر 2015ءمیں جب بشار کو بچانے کے لئے روس نے شام میں فوجی مداخلت کی، روسی طیارے شامی شہروں پر بمباری کرنے لگے اور روسی طیارہ بردار بحری جہاز طرطوس کی بندرگاہ میں آن کھڑاہوا تو اوباما نے مظلوم شامیوں کو بشاری فوج، حزب اللہ، ایرانی اور روسی بھیڑیوں کے آگے ڈال کر چپ سادھ لی۔ اب اوباما اور امریکہ کے حلیف برطانوی اور فرانسیسی حلب کی تباہی پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ دوسری طرف یہود و نصاریٰ کی لونڈی اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ”حلب“ کو بجا طور پر ”جہنم“ سے تشبیہ دی ہے مگر یہ جہنم بان کی مون اور اس کے مغربی سرپرستوں کی بے عملی کا پیدا کردہ ہے۔

دوسری طرف ایران ظالم بشار حکومت کو بچانے کے لئے جو کچھ کر رہا ہے، وہ قابل مذمت ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے سقوط مشرقی حلب میں نہایت گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق پاسدارانِ انقلاب کے سینئر جنرل جواد غفاری نے کہا کہ مشرقی حلب میں محصور تمام افراد کو اجتماعی طور پر ہلاک کر دیا جائے اور کسی کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ پچھلے ہفتے ترکی اور روس کے درمیان مشرقی حلب سے شہریوں اور جنگجوؤں کے انخلاءکا معاہدہ طے پایا تھا لیکن ایرانیوں اور شامی فوج نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلب کے شہریوں کا قتل عام کیا، چنانچہ ”ڈیلی العربیہ“ کی کالم نگار ڈیانا مقلد نے لکھا کہ دمشق تہران ماسکو کا قاتل گٹھ جوڑ کسی قسم کی اقدار اور اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ عرب میڈیا کے مطابق مشرقی حلب میں بشاری فوج اور ایرانی و لبنانی ملیشیا (حزب اللہ) نے نہتے شہریوں کو چھریوں سے ذبح کرنے اور پھانسیاں دینے کے گھناؤنے جرائم کیے۔ 12 دسمبر کو فتح کے پہلے روز الصالحین، العامریہ، صلاح الدین، سیف الدولہ اور بستان القصر نامی محلوں میں 79 افراد کو سرعام پھانسیاں دیں۔ الجزیرہ کے مطابق مشرقی حلب کے چھ کلو میٹر کے رقبے میں ایک لاکھ سے زائد شہری محصور ہو کے رہ گئے تھے جہاں 17 نومبر کو شامی توپخانے کی بے رحمانہ گولہ باری اور روسی فضائی بمباری سے 100 شہری شہید اور ہزاروں زخمی ہو گئے۔

دریں اثناءالجزائری صحافی اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی مبصر انور مالک نے انکشاف کیا کہ مشرقی حلب میں بشاری فوج اور ایرانی ملیشیا نے بچوں کے قتل عام اور خواتین کی عزتیں لوٹنے کا مجرمانہ سلسلہ شروع کر دیا، چنانچہ درجنوں خواتین اور کنواری لڑکیوں نے اپنے بھائیوں اور سرپرستوں سے مطالبہ کیا کہ انہیں موت کے گھاٹ اتار کر بے عزت ہونے سے بچا لیا جائے، چنانچہ متاثرین کی طرف سے قطر میں مصری نژاد عالم ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی سرپرستی میں قائم علماءکونسل کو خط بھیج کر فتویٰ طلب کیا گیا کہ کیا ایسے حالات میں بہنوں بیٹیوں کی عزتوں کو لٹنے سے بچانے کے لئے ان کا قتل جائز ہے یا نہیں۔

شام کا خوبصورت ترین تاریخی شہر پندرہ ماہ سے جاری سفاکانہ روسی بمباری کی نذر ہو گیا۔ محترم عبداللہ طارق سہیل نے لکھا ہے کہ ”جنگ عظیم کے بعد دنیا میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی شہر بے دریغ بمباری کی زد میں آیا ہے“ نہیں، یہ روس کے صدر ولاڈیمیر پوٹن کی سفاکی کا دوسرا مظاہرہ ہے۔ اس سے پہلے ستمبر 1999ءسے جنوری 2000ءتک آزاد مسلم ریاست چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کو بھی اسی طرح فضائی بمباری سے تباہ کیا گیا تھا۔ گروزنی اور حلب دونوں تباہ شدہ شہروں کی فضائی تصویریں دیکھ لیجئے۔ ایک جیسے دلدوز مناظر دکھائی دیں گے۔ کوئی عمارت، کوئی پلازہ اور کوئی تنصیب سلامت نہ رہی۔ گروزنی اور حلب سراسر کھنڈر اور بھوتوں کے شہر بن گئے۔ صحن اور سڑکیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں شہیدوں کے خون سے لالہ زار ہو گئیں۔ شاہراہوں پر اپنے خون میں لتھڑی لاشیں انسانیت کی تذلیل پر نوحہ کناں ہیں۔

اس سفاکی پر شام کا خونخوار قصاب بشارالاسد بے شرمی اور ڈھٹائی سے کہتا ہے: حلب کی ”آزادی“ سے آج تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ شام کے لاکھوں سنیوں کے قاتل بشار کے پشت پناہ ایرانی ہیں۔ عرب ٹی وی کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ ”حلب کی فتح بحرین اور یمن کی ”آزادی“ کا نقطہ آغاز ہے۔ سقوط حلب کے بعد ایران کا توسیع پسندانہ پروگرام اگلے مرحلے میں یمن، موصل اور بحرین میں داخل ہو گا“۔ اللہ نہ کرے ایرانیوں کو یمن اور بحرین میں خونریزی کی حسرتیں پوری کرنے کا موقع ملے۔ ادھر روس نے حلب کو مکمل تباہی سے دوچار کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ”شام کا بحران سیاسی انداز ہی میں حل ہو سکتا ہے“ گویا بھیڑیوں نے خونخواری اور درندگی کو ”سیاسی انداز“ کا نام دے رکھا ہے۔ ایرانی اپوزیشن کے مطابق حلب کے معرکے میں دس ہزار سے زیادہ ایرانی فوجی ہلاک ہوئے۔ لبنانی ملیشیا کے بھی دو تین ہزار جنگجو مارے گئے جبکہ حریت پسندوں کا نقصان ایک ہزار سے بھی کم رہا۔ روحانی اور بشاری سپاہ حلب میں داخل ہوئیں تو ایک ہسپتال پر چڑھ دوڑیں۔ پہلے ڈاکٹروں اور نرسوں کو ایک ایک کر کے گولیاں ماریں، پھر 200 کے قریب زیرعلاج بچوں اور عورتوں کو اجتماعی باڑھ مار کر شہید کر دیا۔ ایرانی اپوزیشن کی خارجہ کمیٹی کے صدر محمد محدثین کے بقول مردانگی کا یہ مظاہرہ کرنے والے ایرانی القدس فورس کے جوان تھے۔ دوسری طرف حمص کے صوبے میں کیمیائی حملے میں بچوں سمیت 100 شہری شہید ہو گئے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (جنیوا) کے ترجمان روپرٹ کولولی نے بتایا کہ سرکاری افواج نے مشرقی حلب کے چار مختلف محلوں میں 11 خواتین اور 13 بچوں سمیت کم از کم 82 شہری قتل کر دیئے۔ رپورٹس کے مطابق شامی فوج اور عراقی ملیشیا نے گھروں میں گھس کر عام شہریوں کو گولیاں مار دیں، نیز نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو سڑکوں پر اور گھروں میں گولیاں ماری گئیں۔ عینی شاہد سماجی کارکن عبدالکافی الحمدو نے کہا کہ ”حلب میں یہ قیامت کا دن ہے۔ لوگ جائے پناہ کی تلاش میں ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں مگر کہیں پناہ نہیں مل رہی۔ لوگ اپنے گھروں کے ملبے میں دبے ہوئے اور زندہ ہیں مگر بمباری کی وجہ سے کوئی انہیں نکالنے والا نہیں۔ مجھے گلیوں میں عورتوں اور بچوں کی چیخ پکار سنائی دے رہی ہے“۔

گزشتہ چند ماہ سے مشرقی حلب میں درجن بھرڈاکٹر اور سماجی کارکن واٹس ایپ کے ذریعے بیرونی دنیا کو خبریں دے رہے تھے۔ بشاری افواج، ایرانی و عراقی ملیشیا اور روسی طیاروں نے نومبر کے وسط سے حلب آپریشن شروع کیا تو اس کے بعد ان ڈاکٹروں اور سماجی کارکنوں کے موبائل ایک ایک کر کے خاموش ہو گئے۔ تین بچوں کی والدہ ام لیث جن کے شوہر پچھلے سال جنگ میں مارے گئے تھے، انہوں نے 14 دسمبر کو گلوگیر ہو کر کہا: ہم تھک چکے ہیں۔ امید ختم ہو گئی ہے۔ اس جنگ میں بے تحاشا لوگ مارے جا چکے ہیں۔ میں نے انقلاب پر یقین کیا تھا مگر اب گھر والوں کے بارے میں سوچتی ہوں، ان کا کیا ہو گا!“

ایک خبر کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ شہری مشرقی حلب سے منتقل کیے جا چکے ہیں اور 3 ہزار باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے یا انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ زیادہ تر مردوں نے اپنے بیوی بچے سرکاری کنٹرول والے علاقوں میں بھیج دیے تھے تاکہ وہ سرینڈر کر دیں اور جنگ میں مارے نہ جائیں۔ 16 دسمبر کو مشرقی حلب سے 8500 افراد بسوں اور گاڑیوں میں نقل مکانی کر گئے۔ بیچ میں فائرنگ کے باعث انخلاءمعطل رہا۔ 50 زخمی ترکی منتقل کئے گئے۔ مسلم کش پوٹن جس نے گلے کی صلیب دکھا کر مسلم کش بش کو اپنے کٹر صلیبی ہونے کا یقین دلایا تھا، اب کہتا ہے کہ جنگ بندی کے لئے مذاکرات کریں گے۔ لیکن سفاک پوٹن کا یہ صریحاً دھوکا ہے!


لنک
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اجڑے حلب پر میرے قلب کی ایک خواہش

حیات عبداللہ

جیسے کسی سرد اور یخ بستہ طوفانی ہوا کے بے رحم جھونکے نیم سوختہ جان زرد پتوں کو اڑا لے جائیں۔ حلب کے سارے قلب ویسے ہی روند دیئے گئے، عہد جدید کے فرعونوں، درندوں اور جلادوں نے پوری رعونیت اور جنونیت کے ساتھ وحشت ناک موت کے تمام خونیں کھیل کھیلے، عالمی گماشتوں کی بھوکی چیلوں اور گِدھوں نے بوٹیاں نوچ لیں وجود مسلم کی، بے گناہ لوگوں کے وجود بھون دیئے گئے، آبادیوں کو تاراج کر دیا گیا۔ عورتوں اور بچوں پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ مہلک ایٹمی ہتھیاروں اور گیسوں کا بے دریغ استعمال کر کے انسانی وجودسے گوشت نوچ لئے گئے۔ وقت کے ابلیسوں کی سنگلاخ سماعتوں پر کسی آہ، کسی سسکی، کسی بین اور کسی گریہ و زاری کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ایک ہفتے کے دوران بچوں سمیت دو ہزار سے زائد مسلمان قتل کر دیئے گئے۔ 250سے زائد جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ مسجدیں خون میں نہلا دی گئیں۔ خون آشام بشاری اور روسی فوج نے شقی القلبی کی انتہا کر دی۔ انہوں نے سب کے سامنے نو بچوں اور چار خواتین کو زندہ آگ میں جلا ڈالا۔ اپنی عزتیں بچانے کے لئے سینکڑوں لڑکیوں نے خودکشیاں کر لیں۔ حلب میں واقع القدس میڈیکل کمپلیکس کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ جس میں مریض اور عملے کے 42افراد بھسم کر دیئے گئے۔ حلب قبرستان بن چکا۔ آج شام کے مسلمان کتے اور بلیاں کھانے پر مجبور ہیں۔

کئی گھروں کونگلنے کے بعد آتی ہے
مدد بھی شہر کے جلنے کے بعد آتی ہے
نہ جانے کیسی مہک آ رہی ہے بستی میں
وہی جو دودھ ابلنے کے بعد آتی ہے

اقوام عالم اور اقوام متحدہ سب خاموش تماشائی ہیں اور صرف چپ ہی نہیں بلکہ آگ اور خون کے اس کھیل پر بغلیں بجا کر روسی اور بشاری فوج کی حمایت بھی کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شام کی بشاری حکومت کے نمائندے نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ ”حلب یا دیگر شہروں میں شام اور روس کی اتحادی افواج جو کارروائیاں کر رہی ہیں وہ قانون اور دستور کے مطابق ہیں اور عوام کو دہشت گردی سے روکنے کے لئے کی جا رہی ہیں۔ اجلاس میں کسی ایک رکن نے یہ سوال نہ کیاکہ ہسپتالوں پر بمباری بھی قانون اور دستور کے مطابق ہوتی ہیں؟ کیا میڈیکل کمپلیکس میں موجود ڈاکٹر اور مریض بھی باغی تھے؟ کیا سینکڑوں ننھے مولود جن کے نازک اندام وجود کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا کیا وہ سارے بھی بغاوت پر امڈ آئے تھے؟ کیا اپنی عصمتیں بچانے کی خاطر گڑگڑاتی عورتیں بھی باغی تھیں کہ جن کو سفاکیت کے ساتھ قتل کرنا ضروری تھا۔ کیا بغاوت ایسی ہوا کرتی ہیں؟ کیا دہشت گرد اتنے لاچار ہوا کرتے ہیں؟ کیا باغی اتنے بے بس اور مجبور ہوا کرتے ہیں کہ فریادیں اور مناجاتیں ہی ان کے لبوں پر چسپاں رہ جاتی ہیں۔

حلب میں کوئی ایک ایسی عمارت نہیں جو تباہی سے بچی ہو، گھروں اور مکانوں کی حالت اس قدر ابتر اور خستہ ہے تو مکینوں کا کیا بنا ہو گا؟ تباہ حال گھروں کو دیکھ کر سینے میں ہوک اٹھتی ہے، ان کے جسم و جاں پر کتنے عذاب بیتے ہوں گے یہ تصور ہی بڑا روح فرسا ہے۔

خامشی کب چیخ بن جائے کسے معلوم ہے
ظلم کر لو جب تلک یہ بے زبانی اور ہے

برطانوی اخبار دی گارڈین نے حلب کو سب سے بڑا اجتماعی قبرستان قرار دیا ہے۔ صرف چند دنوں میں ایک لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے، ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق شام میں اب تک 5لاکھ لوگ شہید کئے جا چکے،18لاکھ لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔ شام کے 13لاکھ مسلمان اب بھی اپنے سروں پر ہمہ وقت موت کے سائے میں زندہ ہیں۔ وہ اتنی سُونی پلکوں اور اجڑی آنکھوں میں کوئی خواب سجائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے تو خوشیوں سے لدی زندگی کا مُژدہ آئے گا، شام سے متعلق امریکہ اور اقوام متحدہ کی دوہری پالیسیاں ہیں۔ وہ بشار کو نکیل ڈالنے کے بجائے ان کی حمایت کرتے ہیں۔ گاہے گاہے وہ ان کی مذمت بھی کر دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ساری عالمی طاقتیں ظالموں کی ہم نوا اور مظلوموں کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔

شام کو اجڑا دیکھ کر، لٹے پٹے حلب کے متعلق سوچ کر میرے قلب میں پیہم ایک ہی خواہش ٹکریں مار رہی ہے کہ اے کاش! کہ میری یہ مراد بر آئے کہ میں 57اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی 114جیتی جاگتی آنکھوں میں باری باری جھانک کر دیکھوں، میں ان آنکھوں کی سطح سے لے کر گہرائی تک کو کھنگال ڈالوں کہ کہیں حمیت اور غیرت موجود ہے بھی یا نہیں، میں ان مطلبی آنکھوں کے کونے کونے میں پھروں، ان کے ایک ایک در کو ٹٹولوں شاید کہیں آخری سانسیں لیتا ضمیر دکھائی دے جائے۔ چلیں غیرت و حمیت کی رمق نہ سہی ان کی آنکھوں کے لق و دق صحرا میں کوئی ایک آنسو ہی کہیںنظر آ جائے۔ میں ان کی آنکھوں میں سو سو بار جھانکوں اور وہ سوال جابہ جا چسپاں کر دوں جو حلب کے غیرت مند لوگوں نے علماءسے کیا ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے ساتھ جنسی درندگی نہیں دیکھ سکتے سو انہیں اپنے ہاتھوں قتل کرنے کی اجازت دی جائے۔ 57طاقتور لوگوں کی آنکھیں اتنی بے بس اور بے مروت کیوں ہو گئیں۔ میرا دل کرتا ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی آنکھوں کی دہلیز پر حلب کے بچوں کی بے یارومددگار آنکھیں رکھ دوں، شاید درد کا کوئی احساس ان کے جسم و جاں میں سما جائے، ممکن ہے ان کی پتھرائی آنکھوں میں کوئی ایک آنسو کہیں سے امڈ آئے

دہلیز پہ رکھ دی ہیں کس شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا

اگرچہ اجڑے نگر آباد ہو جایا کرتے ہیں، کھنڈر بنا دی جانے والی بستیوں اور سنسان شہروں میں بھی پھر بہاریں جلوہ فگن ہو جایا کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنسوؤں اور سسکیوں کی جگہ دل نواز تبسم اور دل بہار مسکراہٹوں کے شگوفے بھی کھل جایا کرتے ہیں مگر تاریخ انسانی ان کے عجب ہی ماتم کرے گی، فرعونوں اور بلیسوں کے رچائے گئے رقص بسمل پر تو ہمیشہ ہی تاریخ نوحے کرتی رہی ہے مگر اس بار جدید تہذیب کے 57اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی پر ماتم کرے گی کہ امت مسلمہ لٹ گئی۔ بہیمیت، ظلم اور درندگی نے شام کے مسلمان ہی نہیں نباتات و حیوانات تک چھید ڈالے، حلب کے درودیوار سے ایک خوف اور وحشت ٹکپتی رہی مگر اس کے باوجود اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی آنکھوں میں کوئی کرب اور ملال کے آثار تک نہیں، ان کے لبوںپر اظہار تاسف کے لئے خفیف سی لکیر میں جنبش تک نہ ہوئی.... تاریخ نوحے کرے گی، مو¿رخ سینہ کوبی کرے گا ان پتھر سے بنی 57مورتیوں کی اس مجرمانہ غفلت پر۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حلب نہیں ہمارا قلب مر گیا ہے !


اس معصوم کی آہ و زاری اور اس حالت میں اللہ سے صبر مانگنا دل کو پگھلا رہا ہے۔

 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
"معافی اے اھل شام معافی "
تم کیوں ھمیں جگانے آجاتے ھو ؟؟؟


ھم مرد٥ ابدان کو ، کہ جنکے جسم سے روح کب کی پرواز کر چکی ھے۔۔۔۔۔۔
ھم برف کی سلوں کیطرح بے حس اور ٹھنڈے ھوچکے ھیں ،تمہارا شور ھمیں سنائی نہیں پڑتا۔۔۔۔۔
ھمیں مگن رھنےدو اپنے احوال میں ۔۔۔۔
مستیوں میں ،خوش گمانیوں میں اور غلط فہمیوں میں ۔۔۔۔۔۔
تمہاری آوازیں ھمارے مرد٥ ضمیروں کو جگانے کی ناکام سعی کرتی ہیں ۔۔۔۔
راز کی بات سنو گے ؟؟؟؟
یہ آوازیں ھم تک پہنچتی ھیں بغیر کسی رکاوٹ کے ۔۔۔۔۔۔
لیکن ھم جانتے ھوئے انجان بن جاتے ھیں ایک نامعلوم خوف ھمیں گھیرے رکھتا ھے
۔۔۔۔۔
تمہیں کیا خبر کہ موت کا، قید اور معاش کا خوف کیسا ھوتا ھے؟؟؟؟ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم ھر ایسے معاملے بے نیاز ہو چلے ہو ۔۔۔۔۔
لیکن ہمیں زندگی پیاری ھے ۔۔۔ اور دنیا ۔۔۔۔۔ ہاں دنیا کی وہی محبت جو اپنی پوری قوت کیساتھ اجسام سے روح نکال کر دنیا بھر دیتی ھے۔۔۔۔۔۔
کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ھم بہت خوبصورت دنیا میں مگن ھیں۔۔۔۔۔
ھماری دنیا تو غربت ،جھوٹ،مکر اور بے ایمانی سے عبارت ھے جہاں کہیں بدامنی ھے کہیں بیماری ھے۔۔۔ کہیں غربت کہیں لیڈروں کے دھوکے ھیں کہیں کرپشن ھے۔۔۔۔ کہیں فرقے ھیں کہیں شخصیت پرستی ھے کہیں ظالمانہ جمہوریت ھے۔۔۔۔۔
لیکن ، لیکن ان سب کے باوجود ھمیں یہ "دنیا" عزیز نہیں بلکہ عزیز تر ھے
مت کہو ھمیں اسے چھوڑ نے کو ۔۔۔۔
اپنے حق میں نکلنے کو ۔۔۔۔۔۔
ہماری مجبوری سمجھو ۔۔۔
چلو ہم اپنی جگہ تمہیں رکھ کر نہیں سوچ سکتے تو تم ہی ایسا کرلو ؟؟؟؟
ہماری مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کر رھو ۔۔۔
اے مظلومو۔۔۔۔۔۔ اے بے کسوں۔۔۔۔۔۔ اے درد کی گٹھری کو ساتھ لئیے پھرنے والو ۔۔۔۔۔۔
تم جانتے ہو کہ میں نظریں چراتا ہوں ۔۔۔۔۔
تمہیں بھلانے کی شعوری کوشش کرتا ہوں ۔۔۔۔
تمہارے سسکتے بلکتے ، لہو میں تراور گرد و غبار سے لتھڑے کلیوں جیسے معصوم چہرے اس وقت میرے سامنے پوری آب و تاب سے آن کھڑے ہوتے ہیں جب میں اپنے بچوں میں مشغول ہوتا ہوں ۔۔۔۔
انہیں آرام پہنچاتا ہوں ۔۔۔۔۔
یخ بستہ کمرے میں آرام دہ بستر پہ ان پہ گرم کمبل ڈالتا ہوں ۔۔۔۔۔
تم نے کس جرم کی سزا پائی ؟؟؟؟
کچھ جانتے ہو ؟؟؟؟
کچھ معلوم ھے ؟؟؟
خبر رکھتے ہو ؟؟؟؟
آہ ۔۔۔ کہ تم امت مرحومہ کے جسد خاکی سے جڑے ہوئے ہو ۔۔۔
وہ امت جو تمہیں بھلا چکی ۔۔
مگر چند غرباء کے سوا ۔۔۔۔۔۔
جو تم پہ مرمٹے ، لٹ گئے مٹی کا پیراھن ہمیشہ کے لئے اوڑھ چکے ۔۔۔۔۔
آسمان سے گرنے والا بارود جن کا مقدر ٹھہرا ۔۔۔
لیکن وہ ڈٹے رھے ۔۔۔
اگلی صفوں کھڑے رھے ۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کیا پتہ کہ عالمی نزاکتیں کس بلا کا نام ھے ؟؟؟؟؟
بین الاقوامی اصول ، تعلقات اور ربط و ضبط کسے کہتے ہیں ؟؟؟؟؟
"معافی اے اھل شام معافی "

منقول
 
Top