فقہ حنفی کی معتبر کتاب شرح کتاب الآثار امام محمد میں یوں مرقوم ہے۔ائمہ ثلاثہ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ ائمہ اہل حدیث بخاری ومسلم ودیگر سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ ابن تیمیہ،ابن قیم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ قاضی شوکانی اورنواب صدیق حسن خان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ ناصرالدین البانی ،ابن باز،ابن عثیمین سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اوربتایئے کتنے اعترافات چاہئے آپ کو۔
آپ کی خواہش پر ہم مزید اعترافات کیلئے تیار ہیں(ابتسامہ)
عابد بھائی!۔السلام علیکم
اور کیا مرکز اغلاط امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں اور باقی سب اغلاط سے مبرّا ہیں
السلام علیکمعابد بھائی!۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔۔۔
لیکن کیا آپ کو وہ حدیث یاد نہیں جس میں اپنی نسبت صرف اپنے حقیقی والد سے منسوب کرنے کا حکم ہے۔۔۔
اس ہی لئے قرآن کی ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔
تو ایک مسلمان اپنی نسبت اسلام کی جانب منسوب کرنے کی بجائے ایک اُمتی کیطرف کیوںمنسوب کرتا ہے۔۔۔
یہ طریقہ روافض ہے۔۔۔ فقہ جعفریہ جو اپنے خود ساختہ مذہب کی نسبت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کرتے ہیں۔۔۔
اور اس بات پر تو آپ کا بھی اتفاق ہے کہ شیعہ رافضی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اپنے عقائد کی بنیاد پر ۔۔۔
کیا یہ ایک اہم سوال نہیں ہے۔۔۔
جس کا جواب دینا آپ پر فرض ہے۔۔۔ کیا ہم حدیث اور قرآن کے حکم کے خلاف نہیں جارہے؟؟؟۔۔۔
جزاکم اللہ خیراالسلام علیکم
برادر محترم
جیسے سعودی عرب کی نسبت سعود خاندان کی طرف ہے وغیرہ
میراخیال ہے کہ آپ کوشاید تنبیہ کرچکاہوں کہ آپ غلط نتائج کشید کرنے لگتے ہیں جوعبارت نقل کی ہے اس کا خلاصہ آپ نے غلط بیان کیاہے۔اگرپوسٹ کرنے سے قبل کسی سے تبادلہ خیال کرلیں توشاید اس کی نوبت نہ آئے۔فقہ حنفی کی معتبر کتاب شرح کتاب الآثار امام محمد میں یوں مرقوم ہے۔
فاذا استدلال ابوحنیفۃ بحدیث تعتقد انہ حکم بصحتہ وتوثیق رجالہ ولا نلتفت الی من خلافہ خصوصا اذ کان من ھو دونہ فی العلم والفقہ ونحکم علی الرجال انھم موثقون مقبولون ولانبالی بماقالہ ارباب الظواھر من الضعف والجرح وغیر ذالک من الوجوہ القادحۃ فی الثقاھۃ وان صدر عن کبار المشاھیر کالبخاری والمسلم۔
اس عبارت کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جس حدیث سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے استدلال کیا ہے یا حدیث ہمارے مذہب کی مؤید ہے ہمارے حنفی علماء وفقہاء کا اصول وعقیدہ یہ ہے وہ حدیث بالکل صحیح اور اس کے روای بالکل ثقہ ومعتبر (اگرچہ ضعیف اور موضوع ہی کیوں نہ ہوَ ؟ مولف) اور اس کے برعکس اگر مشاہیر آئمہ حدیث اسی حدیث کو ضعیف ومبروک اور اس کے روایوں کو غیر معتبر وناقابل اعتبار قرار دیں تو ہم ان کے قول وفتوٰی کا ٹھکرا دیں گے اگرچہ امام بخاری ومسلم ہی کیوں نہ ہو (فیا للعب)۔۔۔
آپ لوگ پتہ نہیں عقل سے کام لینے کی کوشش کیوں نہیں کرتےہمارے حنفی علماء وفقہاء کا اصول وعقیدہ یہ ہے
اس عبارت کا ترجمہ اورمطلب سرے سے ہی ترک کردیاگیاہے۔خصوصا اذ کان من ھو دونہ فی العلم والفقہ
یہ ڈبل بالکل کا تاکیدکہاں سے اخذ کیاہے۔وہ حدیث بالکل صحیح اور اس کے روای بالکل ثقہ ومعتبر
حدیث کو ضعیف ومتروک قراردینے کس جملہ کا ترجمہ اورمطلب ہے۔ راوی کے ضعیف اورمتروک ہونے سے حدیث ضعیف اورمتروک نہیں ہواکرتی ہے۔اصول حدیث میں یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ سند کے صحیح ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازمی نہیں اورسند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف وکمزور ہونالازمی نہیں۔اور اس کے برعکس اگر مشاہیر آئمہ حدیث اسی حدیث کو ضعیف ومبروک اور اس کے روایوں کو غیر معتبر وناقابل اعتبار قرار دیں تو ہم ان کے قول وفتوٰی کا ٹھکرا دیں گے اگرچہ امام بخاری ومسلم ہی کیوں نہ ہو
ابھی وقت نہیں ہے کہ اس پر تفصیلی بات کی جائے اتناعرض کردوںاگرامام ابوحنیفہ نے کسی حدیث سے استدلال کیاہے تواس سے یہ ثابت ہوگاکہ بالواسطہ طورپر امام ابوحنیفہ نے اس حدیث پر صحت کا حکم لگایاہے۔اب جن لوگوں نے مذکورہ حدیث پر اس کے برخلاف کوئی اورحکم لگایاہے ضعف کاترک کایاکسی اورکا تواس کی طرف ہم توجہ نہیں کریں گے بالخصوص اس وقت جب کہ زیراستدلال حدیث پر حکم لگانے والے کا مرتبہ علم اورفقہ میں امام ابوحنیفہ سے کمترہو۔اوررجال کے سلسلے میں ہم کہیں گے کہ تمام رجال ثقہ اورمقبول ہیں اورجوکچھ ارباب ظاہر نے روات پر جرح کا حکم لگایاہے اس کی پرواہ نہیں کریں گے۔خواہ روات پر یہ حکم لگانے والے امام بخاری اورمسلم جیسے مشاہیر ائمہ حدیث ہی کیوں نہ ہوں۔
اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ابوحنیفہ صاحب سے غلطیاں ہوئی ہیں وہ غلطیوں سے مبرا نہیں تھے، اسی لیے ان کی صرف وہی بات مانی جا سکتی ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو اور اس بات کو ٹھکرایا جا سکتا ہے جو قرآن و سنت سے متصادم ہو تو ابھی بات ختم کر لیتے ہیں۔
یہاں آپ نے عابد بھائی کو مخاطب کیا ہے لیکن یہ مغالطہ غیر مقلدین کی طرف سے اکثر اچھالا جاتا ہے تو سوچا کچھ عرض کردوںعابد بھائی!
یاد دہانیاس بات کو تسلیم کر لیں کہ ابوحنیفہ صاحب سے غلطیاں ہوئی ہیں وہ غلطیوں سے مبرا نہیں تھے، اسی لیے ان کی صرف وہی بات مانی جا سکتی ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو اور اس بات کو ٹھکرایا جا سکتا ہے جو قرآن و سنت سے متصادم ہو تو ابھی بات ختم کر لیتے ہیں۔
تو رواہ کی جرح و تعدیل میں تو آپ نے اتھارٹیز مقرر کی ہیں اور جب بات فقہ کی ہو تو آپ میں ہر کوئی اتھارٹی بنا ہوا ہے اور جس مجتھد کو چاہتا ہے جاہلانہ طریقہ سے لتاڑتا ہے ۔ اختلاف اس شخص کی علمی قابلیت پر ہے جو امام ابو حنیفہ کے اقوال کو اپنی جہالت سے قرآن و حدیث کا مخالف بنانے پر تلا ہوا ہےالغرض یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص مقام پر دوصحابہ کی عدم ملاقات کی جو بات کہی ہے تو اس بات کا تعلق محدثین وناقدین کے فن سے ہیں ، محدثین وناقدین کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ کسی دو رواۃ کے مابین عدم سماع یا عدم معاصرت یا عدم لقاء کی صراحت کریں اور محدثین کے اس طرح کے اقوال کی بنیاد محدثین کی فنی مہارت ہوتی ہے لہٰذا محدثین اپنے فن کی بات کہیں تو یہ حجت ہے یہاں محدثین سے سند کا مطالبہ مردود ہے ۔اسی طرح ناقدین جب اپنے دور سے قبل کے رواۃ کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات بتلائیں یعنی یہ بتلائیں کہ یہ فلاں کی شخص کے موت کے بعد پیدا ہوا یہ فلان کے پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا ، یا طبقہ بتلائیں تو یہ حجت ہے کیونکہ ناقدین کا یہ فیصلہ ان کے فن کا ہے ، ایسے اقوال میں یہ مطالبہ کہ فلاں راوی کی تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش یا طبقہ کی سندصحیح بھی بتلائیں تو یہ مطالبہ ہی مردود ہے ، ورنہ ہم بھی حافظ موصوف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آں جناب نے جہاں جہاں بھی سند کے انقطاع پر ناقدین کے حوالے سے تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش کے اقوال پیش کئے ہیں ان اقوال کی سند صحیح پیش کرنے کیے ساتھ ساتھ اقوال میں میں جوبات ہے اس کی بھی سند صحیح پیش کریں !!
السلام علیکمعابد بھائی!
یاد دہانی
السلام علیکمجزاکم اللہ خیرا
سعودی عرب میں بسنے والے ہر قبیلے کے فرد کی نسبت آل سعود کی طرف منسوب درست جملہ یہ ہے۔۔۔
سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت اور مجدد محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے ۔
سعودی ریاست مختلف ادوار میں
اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لئے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے ۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
1902ء میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 1913ء سے 1926ء کے دوران الاحساء، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کرلیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے ۔ 29 جنوری 1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا