• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفیوں کے لیے لمحہ فکریہ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
--------


؟؟؟؟؟

نہ تم صدمے ہمیں دیتے , نہ یوں فریاد ہم کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
ان لوگوں کے بارے بھی کچھ فرمائے جو مسلمان اِن علماء کی غلطیوں کا دفاع کرنے میں اپنے دن رات ایک کرتے ہے تاکہ ان کے علماء یا عالم کی بات ہی مانی جائے چاہے وہ بات صحیح ہو یا غلط ؟؟؟

؟؟؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ائمہ ثلاثہ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ ائمہ اہل حدیث بخاری ومسلم ودیگر سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ ابن تیمیہ،ابن قیم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ قاضی شوکانی اورنواب صدیق حسن خان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ ناصرالدین البانی ،ابن باز،ابن عثیمین سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اوربتایئے کتنے اعترافات چاہئے آپ کو۔
آپ کی خواہش پر ہم مزید اعترافات کیلئے تیار ہیں(ابتسامہ)
فقہ حنفی کی معتبر کتاب شرح کتاب الآثار امام محمد میں یوں مرقوم ہے۔
فاذا استدلال ابوحنیفۃ بحدیث تعتقد انہ حکم بصحتہ وتوثیق رجالہ ولا نلتفت الی من خلافہ خصوصا اذ کان من ھو دونہ فی العلم والفقہ ونحکم علی الرجال انھم موثقون مقبولون ولانبالی بماقالہ ارباب الظواھر من الضعف والجرح وغیر ذالک من الوجوہ القادحۃ فی الثقاھۃ وان صدر عن کبار المشاھیر کالبخاری والمسلم۔

اس عبارت کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جس حدیث سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے استدلال کیا ہے یا حدیث ہمارے مذہب کی مؤید ہے ہمارے حنفی علماء وفقہاء کا اصول وعقیدہ یہ ہے وہ حدیث بالکل صحیح اور اس کے روای بالکل ثقہ ومعتبر (اگرچہ ضعیف اور موضوع ہی کیوں نہ ہوَ ؟ مولف) اور اس کے برعکس اگر مشاہیر آئمہ حدیث اسی حدیث کو ضعیف ومبروک اور اس کے روایوں کو غیر معتبر وناقابل اعتبار قرار دیں تو ہم ان کے قول وفتوٰی کا ٹھکرا دیں گے اگرچہ امام بخاری ومسلم ہی کیوں نہ ہو (فیا للعب)۔۔۔

یہ ہے حنفیوں کا وہ اصول جس سے قرآن وحدیث کو رد کیا جاتا ہے ۔۔۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے۔

یہ تو عقیدہ روافض ہے کہ جس روایت کو امام درست کہہ دے وہی قابل قبول ہے۔۔۔
(حوالے میری تحریروں میں تلاش کئے جاسکتے ہیں)۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم
اور کیا مرکز اغلاط امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں اور باقی سب اغلاط سے مبرّا ہیں
عابد بھائی!۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔۔۔
لیکن کیا آپ کو وہ حدیث یاد نہیں جس میں اپنی نسبت صرف اپنے حقیقی والد سے منسوب کرنے کا حکم ہے۔۔۔
اس ہی لئے قرآن کی ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔
تو ایک مسلمان اپنی نسبت اسلام کی جانب منسوب کرنے کی بجائے ایک اُمتی کیطرف کیوںمنسوب کرتا ہے۔۔۔
یہ طریقہ روافض ہے۔۔۔ فقہ جعفریہ جو اپنے خود ساختہ مذہب کی نسبت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کرتے ہیں۔۔۔
اور اس بات پر تو آپ کا بھی اتفاق ہے کہ شیعہ رافضی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اپنے عقائد کی بنیاد پر ۔۔۔
کیا یہ ایک اہم سوال نہیں ہے۔۔۔
جس کا جواب دینا آپ پر فرض ہے۔۔۔ کیا ہم حدیث اور قرآن کے حکم کے خلاف نہیں جارہے؟؟؟۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
عابد بھائی!۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔۔۔
لیکن کیا آپ کو وہ حدیث یاد نہیں جس میں اپنی نسبت صرف اپنے حقیقی والد سے منسوب کرنے کا حکم ہے۔۔۔
اس ہی لئے قرآن کی ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔
تو ایک مسلمان اپنی نسبت اسلام کی جانب منسوب کرنے کی بجائے ایک اُمتی کیطرف کیوںمنسوب کرتا ہے۔۔۔
یہ طریقہ روافض ہے۔۔۔ فقہ جعفریہ جو اپنے خود ساختہ مذہب کی نسبت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کرتے ہیں۔۔۔
اور اس بات پر تو آپ کا بھی اتفاق ہے کہ شیعہ رافضی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اپنے عقائد کی بنیاد پر ۔۔۔
کیا یہ ایک اہم سوال نہیں ہے۔۔۔
جس کا جواب دینا آپ پر فرض ہے۔۔۔ کیا ہم حدیث اور قرآن کے حکم کے خلاف نہیں جارہے؟؟؟۔۔۔
السلام علیکم
برادر محترم
اگر نسبت کسی طرف منسوب کرنا برا ہے تو یہ تو آپ بھی اور دیگر بھی کرتے ہیں مثلاً اہل حدیث ،سلفی، وغیرہ۔
اور بنو قریش، بنو ہاشم، وغیرہ کے بارے میں کیا خیال ہے
اور حسب ونسب یاد رکھنے کی شرعاً اجازت ہے
اور اگر آپ یہ کہنا چاہ رہے حنفی کی نسبت صرف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کی طرف ہے تو عرض کردوں حنفیت پوری ایک جماعت یا مسلک کا نام ہے اور یہ کھلی بات ہے جو جس چیز کا بانی ہوتا ہے اسی کی طرف نسبت ہوتی ہے
جیسے سعودی عرب کی نسبت سعود خاندان کی طرف ہے وغیرہ
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم
برادر محترم
جیسے سعودی عرب کی نسبت سعود خاندان کی طرف ہے وغیرہ
جزاکم اللہ خیرا
سعودی عرب میں بسنے والے ہر قبیلے کے فرد کی نسبت آل سعود کی طرف منسوب درست جملہ یہ ہے۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
فقہ حنفی کی معتبر کتاب شرح کتاب الآثار امام محمد میں یوں مرقوم ہے۔
فاذا استدلال ابوحنیفۃ بحدیث تعتقد انہ حکم بصحتہ وتوثیق رجالہ ولا نلتفت الی من خلافہ خصوصا اذ کان من ھو دونہ فی العلم والفقہ ونحکم علی الرجال انھم موثقون مقبولون ولانبالی بماقالہ ارباب الظواھر من الضعف والجرح وغیر ذالک من الوجوہ القادحۃ فی الثقاھۃ وان صدر عن کبار المشاھیر کالبخاری والمسلم۔

اس عبارت کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جس حدیث سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے استدلال کیا ہے یا حدیث ہمارے مذہب کی مؤید ہے ہمارے حنفی علماء وفقہاء کا اصول وعقیدہ یہ ہے وہ حدیث بالکل صحیح اور اس کے روای بالکل ثقہ ومعتبر (اگرچہ ضعیف اور موضوع ہی کیوں نہ ہوَ ؟ مولف) اور اس کے برعکس اگر مشاہیر آئمہ حدیث اسی حدیث کو ضعیف ومبروک اور اس کے روایوں کو غیر معتبر وناقابل اعتبار قرار دیں تو ہم ان کے قول وفتوٰی کا ٹھکرا دیں گے اگرچہ امام بخاری ومسلم ہی کیوں نہ ہو (فیا للعب)۔۔۔
میراخیال ہے کہ آپ کوشاید تنبیہ کرچکاہوں کہ آپ غلط نتائج کشید کرنے لگتے ہیں جوعبارت نقل کی ہے اس کا خلاصہ آپ نے غلط بیان کیاہے۔اگرپوسٹ کرنے سے قبل کسی سے تبادلہ خیال کرلیں توشاید اس کی نوبت نہ آئے۔
یا حدیث ہمارے مذہب کی مؤید ہے
اس جملہ کو غلط طورپرآپ نے یاجس کسی نے بھی لکھاہے شامل کردیاہے پوری عبارت میں اس طرح کی کوئی بات نہیں۔ امام ابوحنیفہ کا کسی حدیث سے استدلال کرنااورکسی حدیث کا محض موید ہونازمین وآسمان کا فرق ہے لیکن پھر بھی قلم ہے وقت ہے انٹرنیٹ ہے فرصت چلو لکھ دیتے ہیں ایک عبارت زائد ۔کیاجاتاہے۔
ہمارے حنفی علماء وفقہاء کا اصول وعقیدہ یہ ہے
آپ لوگ پتہ نہیں عقل سے کام لینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے
یہاں عقیدہ کا کیاسوال ہے کیااصول حدیث اوراصول فقہ عقائد میں شامل ہیں۔ کیااصول حدیث اوراصول فقہ کی ہرہربات عقیدہ کا جزو بن جائے گی؟َ
خصوصا اذ کان من ھو دونہ فی العلم والفقہ
اس عبارت کا ترجمہ اورمطلب سرے سے ہی ترک کردیاگیاہے۔
وہ حدیث بالکل صحیح اور اس کے روای بالکل ثقہ ومعتبر
یہ ڈبل بالکل کا تاکیدکہاں سے اخذ کیاہے۔
اور اس کے برعکس اگر مشاہیر آئمہ حدیث اسی حدیث کو ضعیف ومبروک اور اس کے روایوں کو غیر معتبر وناقابل اعتبار قرار دیں تو ہم ان کے قول وفتوٰی کا ٹھکرا دیں گے اگرچہ امام بخاری ومسلم ہی کیوں نہ ہو
حدیث کو ضعیف ومتروک قراردینے کس جملہ کا ترجمہ اورمطلب ہے۔ راوی کے ضعیف اورمتروک ہونے سے حدیث ضعیف اورمتروک نہیں ہواکرتی ہے۔اصول حدیث میں یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ سند کے صحیح ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازمی نہیں اورسند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف وکمزور ہونالازمی نہیں۔
حرب بن شداد صاحب کی ترجمانی آپ نے دیکھ لی
یہ زیر بحث عبارت جس کو حرب بن شداد صاحب نے خوفناک بناکر پیش کیاہے اس کا مفاد صرف اس قدر ہے کہ
اگرامام ابوحنیفہ نے کسی حدیث سے استدلال کیاہے تواس سے یہ ثابت ہوگاکہ بالواسطہ طورپر امام ابوحنیفہ نے اس حدیث پر صحت کا حکم لگایاہے۔اب جن لوگوں نے مذکورہ حدیث پر اس کے برخلاف کوئی اورحکم لگایاہے ضعف کاترک کایاکسی اورکا تواس کی طرف ہم توجہ نہیں کریں گے بالخصوص اس وقت جب کہ زیراستدلال حدیث پر حکم لگانے والے کا مرتبہ علم اورفقہ میں امام ابوحنیفہ سے کمترہو۔اوررجال کے سلسلے میں ہم کہیں گے کہ تمام رجال ثقہ اورمقبول ہیں اورجوکچھ ارباب ظاہر نے روات پر جرح کا حکم لگایاہے اس کی پرواہ نہیں کریں گے۔خواہ روات پر یہ حکم لگانے والے امام بخاری اورمسلم جیسے مشاہیر ائمہ حدیث ہی کیوں نہ ہوں۔
ابھی وقت نہیں ہے کہ اس پر تفصیلی بات کی جائے اتناعرض کردوں
یہ ضروری نہیں ہے کہ جوحدیث ہمیں کمزور سند کے ساتھ ملی ہے وہ متقدمین کوبھی اسی کمزورسند کے ساتھ ملی ہو۔سند میں کمزور مابعد میں بھی لاحق ہوتی ہے تومتقدمین کیلئے اس حدیث سے استدلال میں کیاچیز مانع ہے۔
دوسری بات رجال پر جرح اجتہادی اورظنی ہے ۔اس میں ائمہ جرح وتعدیل کے اپنے اپنے اجتہادات کودخل ہے۔توایک کااجتہاد دوسرے پر حجت نہیں ہواکرتا۔بالخصوص جب کہ متقدمین کے دور میں سند کا سلسلہ بھی کم تھا اورروات بھی زیادہ تر صحیح اوردرست تھےاورانہوں نے جن سے روایت لی اس کی براہ راست ان کو زیادہ تحقیق تھی۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,095
پوائنٹ
1,155
عابد بھائی!
یاد دہانی
اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ابوحنیفہ صاحب سے غلطیاں ہوئی ہیں وہ غلطیوں سے مبرا نہیں تھے، اسی لیے ان کی صرف وہی بات مانی جا سکتی ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو اور اس بات کو ٹھکرایا جا سکتا ہے جو قرآن و سنت سے متصادم ہو تو ابھی بات ختم کر لیتے ہیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عابد بھائی!

اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ابوحنیفہ صاحب سے غلطیاں ہوئی ہیں وہ غلطیوں سے مبرا نہیں تھے، اسی لیے ان کی صرف وہی بات مانی جا سکتی ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو اور اس بات کو ٹھکرایا جا سکتا ہے جو قرآن و سنت سے متصادم ہو تو ابھی بات ختم کر لیتے ہیں۔
یاد دہانی
یہاں آپ نے عابد بھائی کو مخاطب کیا ہے لیکن یہ مغالطہ غیر مقلدین کی طرف سے اکثر اچھالا جاتا ہے تو سوچا کچھ عرض کردوں

ہر فن کے کچھ ماہر ہوتے ہیں ۔ اور ان ماہریں کا اپنے فن کے حوالہ سے اقوال عام افراد کےلئیے دلیل ہوتا ہے ۔ اور ان ماہرین سے وہی اختلاف کرے گا جو اس فن کا ماہر ہوگا ۔ ہر مہ و کہ کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ماہریں فن کے اقوال کو رد کرتا پھرے ۔
اسی طرح مجتھد مسائل کے استنباط میں ماہر ہوتا ہے اور اگر دوسرا مجتھد دیکھتا ہے کہ ایک مجتھد کا قول قرآن و حدیث سے ٹکرا رہا ہے تو وہ مجتھد پہلے مجتھد کا قول رد کر سکتا ہے ۔ ہر عامی کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایک مجتھد تھے ، ان کے قول کے متعلق اگر دوسرا مجتھد سمجھتا ہے کہ ان کے قول میں اجتھادی غلطی ہے تو وہ مجتھد اس قول کر رد کرسکتا ہے ۔
اختلاف اس میں نہیں اگر امام ابو حنیفہ کا اجتھاد درست نہ تھا تو اس رد کیا جائے گا یا نہیں ۔ بلا شبہ رد کیا جائے گا ۔ اور بلاشبہ صاحبین نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کی مخالفت کی ۔
اختلاف اس میں نہیں ایک مجتھد کا قول اگر قرآن و سنت سے ٹکرائے گا تو رد کیا چائے گا یا نہیں ہمارا اور آپ کا اختلاف اس میں ہے اس قول کو کون رد کر سکتا ہے ۔ ہمارا کہنا ہے کہ صرف ایک ایسا شخص جو اجتھاد کرنے کی صلاحیت سے متصف صرف وہ رد کرسکتا ہے اور آپ حضرات میں ہر کوئی شخص جو صرف احادیث کا تراجم پڑھتا ہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جیسے عظیم مجتھد کے علم پر جرح کرنے بیٹھ جاتا ہے

میں سمجتھا ہوں کہ آج کل دینی علوم ایک ایسا علم ہے جس میں ہر کوئي اپنے رائے دیتا ہے چاہے اس کو طہارت کا پتا ہو یا نہ ہو اور دین کے شعبوں میں فقہ ایسا مظلوم شعبہ ہوگيا ہے جس کا دل چاہتا ہے مجتھدیں کے مستنبط مسائل کو رد کرتا پھرتا ہے چاہے اس کو حدیث کے عربی متن کو بھی نہ سجمھ پائے اور دوسروں کے تراجم پر انحصار کرے
اگر دین کے دوسرے شعبہ کی بات پو مثلا رواہ کی جرح و تعدیل کی تو آپ حضرات چیخ اٹتھے ہیں ۔ آپ ہی کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں
الغرض یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص مقام پر دوصحابہ کی عدم ملاقات کی جو بات کہی ہے تو اس بات کا تعلق محدثین وناقدین کے فن سے ہیں ، محدثین وناقدین کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ کسی دو رواۃ کے مابین عدم سماع یا عدم معاصرت یا عدم لقاء کی صراحت کریں اور محدثین کے اس طرح کے اقوال کی بنیاد محدثین کی فنی مہارت ہوتی ہے لہٰذا محدثین اپنے فن کی بات کہیں تو یہ حجت ہے یہاں محدثین سے سند کا مطالبہ مردود ہے ۔اسی طرح ناقدین جب اپنے دور سے قبل کے رواۃ کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات بتلائیں یعنی یہ بتلائیں کہ یہ فلاں کی شخص کے موت کے بعد پیدا ہوا یہ فلان کے پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا ، یا طبقہ بتلائیں تو یہ حجت ہے کیونکہ ناقدین کا یہ فیصلہ ان کے فن کا ہے ، ایسے اقوال میں یہ مطالبہ کہ فلاں راوی کی تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش یا طبقہ کی سندصحیح بھی بتلائیں تو یہ مطالبہ ہی مردود ہے ، ورنہ ہم بھی حافظ موصوف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آں جناب نے جہاں جہاں بھی سند کے انقطاع پر ناقدین کے حوالے سے تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش کے اقوال پیش کئے ہیں ان اقوال کی سند صحیح پیش کرنے کیے ساتھ ساتھ اقوال میں میں جوبات ہے اس کی بھی سند صحیح پیش کریں !!
تو رواہ کی جرح و تعدیل میں تو آپ نے اتھارٹیز مقرر کی ہیں اور جب بات فقہ کی ہو تو آپ میں ہر کوئی اتھارٹی بنا ہوا ہے اور جس مجتھد کو چاہتا ہے جاہلانہ طریقہ سے لتاڑتا ہے ۔ اختلاف اس شخص کی علمی قابلیت پر ہے جو امام ابو حنیفہ کے اقوال کو اپنی جہالت سے قرآن و حدیث کا مخالف بنانے پر تلا ہوا ہے
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
عابد بھائی!
یاد دہانی
السلام علیکم
میری عقل تو یہ کہہ رہی ہے
پہلی بات تو یہ ہے کہ غلطی کس سے نہیں ہوتی
کوئی انسان ہے تو لازمی ہے کہ اس سے غلطی بھی ہو غلطی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انسان لائق اعتبار ہی نہیں رہا یا انسانیت کے قابل نہیں رہا
کچھ غلطیاں ماں باپ سے بھی ہوتی ہیں ۔تو اس کا کیا مطلب ہوا ان کو ماں باپ کہنا چھوڑ دیا جائے
اولاد سے اکثر غلطیاں ہوتی ہیں اس کا مطلب والدین اس کو اپنی اولاد تسلیم نہ کرے
دفتروں میں رات دن ملازمین سے غلطیان ہوتی ہیں،اس کا مطلب ملازمت سے برخاست کردیا جائے
استاد سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں اس کا مطلب یہ ہوا استاذی ختم
طالب علموں سے غلطیاں ہوتی ہیں اس کا مطلب یہ ہوا استاذ شاگرد کو نااہل قرار دیدے
اور اس کا کیا مطلب ہوا
کہ استاذ نے غلطی کی اور شاگرد اس کو قبول کرتے چلے جائیں اور یہ سلسلہ زمانہ مدید تک چلتا رہے،اور خیر القرون سے نکل کم تر دور تک چلا آئے اچھوں کو خبر نہ ہو کم تر لوگوں کو خبر ہوجائے
اور مزے کی بات یہ استاذ شاگردوں سے یہ بھی کہہ رہا ہو میری تعلیم غلط ہے لیکن اس کے باوجود شاگرد غلط تعلیم حاصل کرتے رہے اور وہ اپنے بعد والوں کو بھی سکھا تے رہے اور اس غلط تعلیم کا سلسلہ آپہنچتاہے اما بخاری و امام مسلم وغیرہ رحمہم اللہ اجمعین تک ۔
خلاصہ کلام یہ نکلا ہم تک جو علم پہنچا وہ غلط ہے اس لیے کسی کی بات کا بھی اعتبار نہیں ان کا بھی
جنہوں نے امام ابوحنفیہؒ کا مذکورہ (گرافکس والا) قو ل نقل کیا۔
اور اس کامطلب یہ ہوا سب غلط بس ارسلان بھائی صحیح
ایک ڈاکٹر مریضوں کو دوا دے رہا ہے اور یہ بھی کہہ رہا ہے دوا دے رہا ہوں مگر میری دوائیں غلط ہیں
میرے خیال سے تو شاید ارسلان بھائی ایسے ہی ڈاکٹروں کی دوائیں استعمال کررہے ہیں
اور ارسلان بھائی آپ کی یاد دہانی سے ایک بات اور دھیان میں آئی کہ:
وہ آدمی کتنا دیانتدار امین اور اللہ ترس ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ بھائی میری باتیں غلط ہیں ،تو وہ توعند اللہ بَری ہوگئے ا س کے باوجود لوگوں نے ان کی باتوں کو اپنایا قبول کیا یہاں تک کہ ان کے شاگردوں کے شاگرد بڑھتے چلے گئے اور امام بخاری ؒ تک چلے آئے اب بتائیں کون غلط ہوا بعد والے یا وہ جس نے اپنی براءت کا اعلان شروع میں ہی کردیا
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
جزاکم اللہ خیرا
سعودی عرب میں بسنے والے ہر قبیلے کے فرد کی نسبت آل سعود کی طرف منسوب درست جملہ یہ ہے۔۔۔
السلام علیکم
میں نے جو لکھا وہ صحیح ہے اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے:
سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت اور مجدد محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے ۔
سعودی ریاست مختلف ادوار میں
اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لئے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے ۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
1902ء میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 1913ء سے 1926ء کے دوران الاحساء، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کرلیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے ۔ 29 جنوری 1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا
 
Top