• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمران بیورو کریسی اور عوام ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب السیاسۃ الشرعیہ کی تفہیم

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:6۔

مال و دولت تین قسم ہے۔
سلطانی مال جس کا کتاب وسنت میں ثبوت موجود ہے، مال تین قسم کا ہے، مال غنیمت، مال صدقہ وخیرات، مال فئے۔ نبی کریم ﷺ کو پانچ چیزیں تمام انبیاء کے مقابلہ میں زیادہ دی گئی ہیں، تمہارے کمزوروں کی وجہ سے تمہیں روزی اور نصرت ملتی ہے۔ مالِ غنیمت {جمع کرنے والے} غانمین (یعنی جنہوں نے جنگ کے دوران دشمن کا چھوڑا ہوا مال و دولت جمع کیا، اُن) میں تقسیم کیا جائے، بنو امیہ، بنو عباس نے بھی ایسا کیا۔

وہ سلطانی مال {یعنی بیت المال} جس کی اصل کتاب و سنت میں ہے، تین قِسم کا ہے، مالِ غنیمت، مالِ صدقہ وزکوٰۃ، مالِ فئے۔ مالِ غنیمت وہ مال ہے جو کافروں سے قتال و جنگ کرکے لیا جائے، اس کا ذکر اللہ نے سورۂ انفال میں کیا ہے، اور یہ سورۃ غزوہ ٔ بدر کے موقع پر نازل ہوئی ہے، اللہ نے اس سورت کو انفال اس لیے کہا ہے کہ مسلمانوں کے مال میں زیادتی ہو رہی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ ط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ ط اِلٰی قَوْلِہٖ وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ (الانفال:1 اور 41)۔
اے پیغمبر(ﷺ)! مسلمان سپاہی تم سے مالِ غنیمت کا حکم دریافت کر تے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ مالِ غنیمت تو اللہ اور رسول (ﷺ)کا ہے … جان رکھو کہ جو چیز تم لڑائی میں لوٹ کر لاؤ، اُس کا پانچواں حصہ اللہ کا اور رسول (ﷺ)کا اور رسول (ﷺ) کے قرابتداروں کا اور یتیموں کا، محتاجوں کا، اور مسافروں کا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَکُلُوْامِمَّاغَنِمْتُمْ حَلَالًاطَیِّبًا وَّاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
تو جو کچھ تم کو غنیمت سے ہاتھ لگا ہے اُس میں حلال، طیب {اور پاکیزہ} کھاؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہر بان ہے ۔ (انفال:69)

صحیح بخاری اور مسلم میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطِیْھِمْ نَبِیٌّ قَبْلِیْ نُصَرْتُ بِا لرُّ عْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا و ِطُھُوْرًا فَاَیُّمَا رَجَلٌ مِنْ اُمَّتِیْ اَدْرَکَتْہُ الصَّلٰوۃُ فَلْیُصَلِّ وَاُحِلَّتْ لِیْ الْغَنَائِمُ وَ لَمْ تَحِلَّ لِاَحَدٍقَبْلِیْ وَ اُعْطِیْتُ الشَفَاعَۃَ وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمَہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَۃً
مجھے پانچ چیزیں دیں گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں، ایک یہ کہ ایک مہینہ کی مسافت سے میرا رعب پڑتا ہے، اور مجھے فتح دی گئی ہے، اور تمام زمین میرے لیے مسجد اور پاک کرنے کی جگہ بنائی گئی، پس میری اُمت میں سے جس کو نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لے، اور میرے لیے مالِ غنیمت حلال کیا گیا ہے، مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں تھا، مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے، اور مجھ سے پہلے نبی پیغمبر صرف اپنی قوم کے لیے بھیجے جاتے تھے اور میں { قیامت تک آنے والے دنیا کے} تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہوں۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

بُعِثْتُ بِالسَّیْفِ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ حَتّٰی یَعْْبُدُوا اللہَ وَحَدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَجُعِلَ رِزْقِیْ تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِیْ وَجُعِلَ الذُّلُّ وَ الصَّغَارُ عَلٰی مَنْ خَالَفَ اَمْرِیْ وَمَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (مسند امام احمد)
میں قیامت کے قریب تلوار لے کر مبعوث ہوا ہوں، تاکہ لوگ اللہ وحدہٗ کی عبادت کریں جس کا کوئی شریک نہیں، اور میرا رزق میرے نیزے {جیسے آجکل کے راکٹ و میزائل} کے سایہ کے نیچے گردانا {گیا ہے یعنی رکھ دیا گیا} ہے، اور جو میری مخالفت کرے گا اُس کے لیے ذلت وخواری ہے، اور جو کسی قوم سے مشابہت کرے گا وہ اُنہیں میں سے ہو گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پس فرض ہے کہ مالِ غنیمت میں سے خمس {یعنی} پانچواں حصہ نکال لیا جائے، اور اس خمس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خرچ کیا جائے اور باقی کا مال غانمین یعنی غنیمت کا مال جمع کرنے والوں پر تقسیم کر دیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’مال غنیمت ان لوگوں کے لیے ہے جو جہاد میں شریک ہیں، اور وہ ایسے لوگ جو قتال و جہاد کے لیے حاضر اور موجود رہے، قتال و جنگ کریں یا نہ کریں، اور غنیمت کا مال تقسیم کرنے میں نہ کسی کی ریاست و حکومت سے ڈرنا چاہیے نہ خاندان و نسب کی افضلیت سے مرعوب ہونا چاہیے، اور پورے عدل و انصاف سے تقسیم کر دینا چاہیے جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے خلفاء کیا کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے دوسروں کے مقابلہ میں اپنے {آپ} کو افضل وا ولیٰ سمجھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَ تُرْزَقُوْنَ اِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ
تم لوگوں کو نصرت اور رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔

مسند احمد میں سیدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، یارسول اللہ ایک آدمی قوم کی حمایت و سرداری کی حیثیت سے لڑ رہا ہے تو اس کا حصہ دوسروں کے برابر ہی ہونا چاہئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

ثَکِلُتْکَ اُمُّکَ اِبْنَ اُمِّ سَعْدٍ وَہَلْ تُرْزَقُوْنَ وَ تُنْصَرُوْنَ اِلّا بِضُعَفَائِکُمْ
اے ابن ام سعد! تمہاری ماں تم پر روئے کیا تم کو رزق اور نصرت تمہارے کمزوروں کی وجہ سے نہیں دی جاتی؟

{اس سے ثابت ہوا کہ کمانڈر انچیف اور دیگر فوجی افسران و ممبران اور عام فوجی کا حصہ ایک جیسا ہے لیکن کیا ہمارے ملک میں فوجی کی تنخواہ کم اور افسر کی زیادہ نہیں؟ اگر ہے تو وہ اللہ کو کیا جواب دیں گے}

چنانچہ خلافت بنی اُمیہ اور خلافت بنی عباس میں ما لِ غنیمت غا نمین، غنیمت حاصل کرنے والوں پر تقسیم ہوتا رہا۔ جبکہ مسلمان روم اور ترکوں اور بربر کے خلاف جنگ و جہاد کرتے تھے، ہاں امام {حاکمِ وقت} کے لیے یہ جائز ہے کہ {جو مجاہد، فوجی یا افسر} کوئی خطرناک اور اہم کام انجام دیدے، مثلاً بلند قلعے پر چڑھ گیا، اور دشمن کو شکست ہوئی، اس کے مثل کوئی دوسرا کام کیا تو اس کو نُفل یعنی زیادہ دیدے، کیونکہ خود نبی کریم ﷺ اور آپ کے خلفاء نے نُفل دیا تھا، چنانچہ سریۂ بدایہ میں نبی کریم ﷺ نے خمس کے علاوہ ایک چوتھائی اور دیا تھا، اور غزوئہ رجفہ میں خمس کے بعد ایک تہائی دیا تھا۔

ہاں اس اضافہ کے متعلق علماء کرام کے اقوال مختلف ہیں، بعض کہتے ہیں: یہ زیادتی خمس کے مال میں سے دی جائے، اور بعض کہتے ہیں، خمس کے پانچویں حصہ میں سے دی جائے، تا کہ بعض غانمین کو بعض پر فضیلت و برتری نہ ہو سکے، اور صحیح یہ ہے کہ خمس کے چوتھے حصہ میں سے زیادتی دی جائے۔ گو بعض لوگ افضل و برتر ہی کیوں نہ ہوں، لیکن یہ اضافہ کسی دینی مصلحت کی بنا پر ہونا چاہئے، خواہش نفس کو اس میں دخل نہ ہو۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے کئی مرتبہ مصلحت کی بنا پر زیادہ دیا ہے۔ اور یہی قول فقہاء شام، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کا ہے، اور اسی قول کے مطابق کہا گیا ہے کہ بلاکسی چوتھائی اور تہائی کے دیا جائے۔ اس سے زیادہ {دینے} کے لیے شرط لگائی جائے، مثلاً امام {حاکم وقت} یا سپہ سالارِ لشکر یہ کہے کہ جو شخص فلاںقلعہ سر کرے گا، یا جو فلاں کا سر لائے گا اُس کو یہ یہ {انعام} دیا جائے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب:7۔

صدقہ و زکوٰة کے مصارف
صدقہ زکوٰۃ آٹھ قسم کے لوگوں کو دیئے جانے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی ضرورت ہے۔

صدقہ و زکوٰۃ ان لوگوں کے لیے ہے، جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، ایک آدمی نے آپ سے زکوٰۃ مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا:

اِنَّ اللہَ لَمْ یَرْضَ فِی الصَّدَقَۃِ بِقَسْمِ نَبِیِّ وَلْا غَیْرِہ وَلٰکِنْ جَزَّأھا ثَمَانِیَۃَ اَجْزَائَ فَاِنْ کُنْتَ مِنْ تِلْکَ الْاَجْزَائِ اَعْطَیْتُکَ
صدقہ و زکوٰۃ کی تقسیم میں اللہ تعالیٰ نہ کسی نبی سے راضی ہے نہ غیر سے، بلکہ اُس نے خود آٹھ قسم کے لوگوں کی تقسیم کر دی ہے، اگر تم ان آٹھ قسموں سے کسی میں ہو تو تم کو بھی دوں گا۔

آٹھ قسمیں یہ ہیں:

1، 2۔ اَلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ۔ فقراء اور مساکین ہیں۔ ان کو اس قدر دیا جائے جو اُن کی ضرورت و حاجت کے لیے کافی ہو۔ غنی و مالدار کے لیے صدقہ و زکوٰۃ جائز نہیں ہے، جو قوی طاقتورہو اور کما کر کھا سکے، اس کے لیے بھی {صدقہ و زکوٰۃ} جائز نہیں ہے۔

وَالْعَامِلِیْنَ عَلِیْھَا اور عاملین زکوٰۃ۔ یہ صدقہ وزکوٰۃ وصول کرنے والے، اس کو جمع کرنے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اس کے لکھنے والے {کلرک} وغیرہ تمام اس میں شامل ہیں۔

وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ تالیف قلوب کیلئے۔ اور ہم اس کا ذکر مال فئے میں کریں گے۔

وَفِی الرِّقَابِ۔ اور گردنیں {یعنی غلام} آزاد کرانے کے لیے۔ مکاتب غلام آزاد کرانے، قیدیوں کو چھڑانے اور غلاموں کو آزاد کرانے میں صرف کی جائے، یہ قوی ترین قول ہے۔

وَالْغَارِمِیْنَ۔ غارمین وہ لوگ ہیں جو قرضدار ہوں، اور کسی طرح وہ اس کو وفا {ادا} نہ کر سکتے ہوں۔ ان کو اتنا دیا جائے کہ ان کا قرض ادا ہو جائے۔ اگر چہ قرض بہت زیادہ کیوں نہ ہو ہاں اگر معصیت الٰہی کی وجہ سے قرض ہو گیا ہے تو جب تک وہ اس معصیت سے توبہ نہ کر لیں، نہ دیا جائے۔

وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ۔ اور جو اللہ کی راہ میں ہیں انہیں دی جائے۔ اس میں وہ لوگ ہیں جو غازی ہیں۔ جنہیں اللہ کے مال میں سے اتنا نہیں ملا، جو اُن کو کافی ہوسکے اور وہ جہاد کر سکیں۔ تو اُن کو دیا جائے تاکہ جہاد میں شرکت کر سکیں، یا پورا پورا جہاد و غزوہ کا سا ما ن {دیا جائے} مثلاً گھوڑے {اور آجکل گاڑی وغیرہ}، اسلحہ {و بارود ، دیگر ہتھیار۔ تاکہ وہ} دوسرا خرچ اور اُجرت ادا کر سکیں، اور حج بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔

وَابْنِ السَّبِیْلِ اور ابن سبیل وہ آدمی ہے جو شہر شہر پھرا کرتا ہے (یعنی مسافری کی زندگی گزارتا ہے)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب:8۔

مالِ فئے کسے کہتے ہیں اور اس کا استعمال
ما لِ فئے کسے کہتے ہیں؟ عہدِ نبوی میں مال کا کوئی دیوان و دفتر نہیں تھا۔ نہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تھا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جب فتوحات ہوئیں، اور بیشمار مال و دولت آنے لگی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیوان و دفتر بنانے کا حکم فرمایا۔ رشوت قطعاً حرام ہے جو اُمراء و حکام کو ہدیہ کے نام سے دیا جاتا ہے، رشوت ہے۔

مالِ فئے کی اصل سورۂ حشر کی یہ آیتیں ہیں: غزوہ بنی النضیر کے وقت جو غزوۂ بدر کے بعد ہوا ہے یہ آیتیں نازل ہوئیں ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَآ اَفَآء اللہُ عَلٰی رَ سُوْلِہٖ مِنْھُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَارِکَابٍ وَّلٰکِنَّ اللہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo مَآ اَفَآئَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَایَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ وَمَآ اَتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا وَاتَّقُوااللہَ اِنَّ اللہَشَدِیْدُالْعِقَابِo لِلْفُقَرَآئِ الْمُھَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ اَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُوْلٰئِٓکَ ھُمْ الصَّادِقُوْنَo وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنَ وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمَo (سورۂ حشر:6 تا 10)
اور جو مال اللہ نے اپنے رسول کو بغیر لڑے مفت میں ان سے دلوایا، تو مسلمانو ! تم نے اس کے لیے کچھ دوڑ دھوپ تو نہیں کی، نہ گھوڑوں سے نہ اونٹوں سے مگر اللہ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہے قابض کرا دے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے، جو مال اللہ اپنے رسولوں کو ان بستیوں کے لوگوں سے مفت میں دلوا دے تو وہ اللہ کا حق ہے، اور رسول (ﷺ)کا، اور رسول کے قرابتداروں کا، اور یتیموں کا، اور محتاجوں کا، اور بے توشہ مسافروں کا، یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ جو لوگ تم میں مالدار ہیں یہ مال اُنہی میں {گھومتا} نہ رہے، اور مسلمانو! جو چیز پیغمبر (ﷺ) تم کو دے دیا کریں لے لیا کرو، اور جس چیز سے تم کو منع کریں اس سے باز رہو، اور اللہ کے غضب سے ڈرتے رہو، کیونکہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے، وہ مال جو بغیر لڑے مفت میں ہاتھ لگا، منجملہ اور حقداروں کے، مہا جرین کا بھی حق ہے، جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بیدخل کر دیئے گئے، اور وہ اللہ کے فضل اور خوشنودی کی طلبگاری میں لگے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی مدد کو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور یہی تو سچے مسلمان ہیں، اور ہاں وہ مال جو بغیر لڑے ہاتھ آیا ہے انکا بھی حق ہے کہ ان سے پہلے مدینہ میں رہتے اور اسلام میں داخل ہوچکے ہیں، جو اُن کی طرف ہجرت کر کے آتا ہے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، اور مال غنیمت میں سے مہاجرین کو جو کچھ بھی دیا جائے اسکی وجہ سے یہ اپنے دل میں کوئی طلب نہیں پاتے چاہے خود تنگی ہی کیوں نہ ہو {اُنہیں} اپنے {آپ} سے مقدم رکھتے ہیں، اور بخل تو سب کی طبیعتوں میں ہوتا ہے مگر جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے تو ایسے ہی لوگ فلاح پائیں گے اور ہاں جو مال بغیر لڑے ہاتھ آیا ہے انکا بھی حق ہے جو مہاجرین اولین کے بعد ہجرت کر کے آئے اور دعائیں ما نگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہ معاف کر جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ان کو جو ایمان لا چکے ہیں انکی طرف سے ہمارے دلوں میں کسی طرح کا کینہ نہ آنے پائے اور ہمارے رب! تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں مہاجرین اور انصار اور ان لوگوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جو بعد میں ان اوصاف سے متصف ہیں، پس تیسری قسم میں ہر وہ شخص داخل ہے جو اِن اوصاف سے متصف ہو۔ اور یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے جس طرح کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں داخل ہیں:

وَالَّذیْنَ اٰمَنُوْا مِنْ بَعْدُ وَ ھَاجَرُوْا وَجَاھَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنْکُمْ
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور تم مسلمانوں کے ساتھ ہو کر جہاد بھی کئے تو وہ تم ہی میں داخل ہیں۔(الانفال:75)

اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہیں:

وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحسَانٍ (توبہ:100)
اور وہ جو اُن کے بعد خلوص دل سے ایمان {و اسلام} میں داخل ہوئے۔

اور جس طرح اس اللہ تعالیٰ کے قول میں داخل ہیں:

وَاَخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ط وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (جمعہ:3)
اور دوسرے وہ لوگ جو ابھی تک اُن میں شامل نہیں ہوئے (مگر آخرکار ان میں آملیں گے) اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔

اور ’’اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابِ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ تم نے گھوڑوں اور اونٹوں کو حرکت نہیں دی، نہ جہاد کے لیے اُنہیں چلایا اور دوڑایا ہے۔ اور فقہاء کرام نے اسی معنی کے لحاظ سے کہا ہے ’’مال فئے وہ ہے جو کفار سے بغیر قتال و جنگ لیا گیا ہو‘‘ اُوْجَفْتُمْ کا مصدر ایجاف ہے اور ’’ایجاف‘‘ کے معنی قتال و جنگ ہے، اِیْجَافُ الْخَیْلِ وَ الرِّکَابِ کے معنی ہی قتال و جنگ کے ہیں۔ یعنی تم نے گھوڑوں اور اونٹوں کو حرکت نہیں دی نہ چلایا۔

اور اس قسم کے مال کو ’’ فئے‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے یہ مال و دولت بلاقتال و جنگ دلوایا ہے۔

پس اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اسی لیے دی ہے کہ اس کی عبادت کے لیے معین و مددگار بنے، اور اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ پس جبکہ کفار اللہ کی عبادت نہیں کرتے نہ اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں خرچ کرتے ہیں، تو یہ مال مسلمانوں کے لیے حلال و جائز کر دیا تاکہ یہ اس مال سے قوت حاصل کریں۔ اور اللہ کی عبادت کریں۔ کیونکہ مسلمان بندے اللہ ہی کی عبادت کیا کرتے ہیں اور اس لیے ’’مالِ فئے‘‘ ان کو دیا گیا جس کے وہ حقدار اور مستحق تھے۔ اس طرح جس طرح کسی کے میراث و ترکہ غصب کر لیا جاتا ہے، اور پھر اُسے واپس دلوایا جاتا ہے۔ اگر چہ اس سے پیشتر وہ دوسروں کے قبضے میں تھا۔ اس کا قبضہ نہیں تھا، یا جس طرح کہ یہود و نصاریٰ سے جزیہ لیا جاتا ہے، یا جس سے دشمن کے ساتھ صلح کی جاتی ہے، یا وہ مال جو سلطان کو غیر مسلموں سے ہدیہ میں ملتا ہے، یا جس طرح کہ نصاریٰ وغیرہ آبادیوں سے گزرتے وقت سواری کا انتظام کیا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

غرض! یہ کہ مالِ فئے مسلمانوں کے لیے حلال و جائز کر دیا۔ تاکہ مسلمان اس مال سے قوت حاصل کریں۔ اور اللہ کی عبادت کیا کریں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور سوداگران اور تجار اہل حرب سے جو کچھ لیا جاتا ہے، وہ مال کا دسواں حصہ یعنی عشر ہے۔ اگر یہ سوداگر ذمّی ہیں اور اپنی آبادیوں سے نکل کر دوسروں کی آبادیو ں میں تجارت کرتے ہیں تو ان سے نصف عشر یعنی بیسواں حصہ لیا جائے، خلیفہ ٔدوم سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

اور وہ مال بھی اس میں داخل ہو گا جو عہد شکنی کرنے والوں سے لیا جاتا ہے۔ اور خراج کا مال بھی اس میں شامل ہوگا، جو کفار پر لاگو کیا گیا ہے، اگر چہ اس میں سے کچھ حصہ بعض مسلمانوں پر بھی لاگو ہو جائے گا۔ (اس کی صورت یہ ہے کہ پہلے کافر کے پاس کوئی زمین تھی اور اب وہ مسلمان کے پاس آگئی تو اصل چونکہ خراجی زمین ہے، مسلمان پر بھی وہی خرا ج ہو گا، جو اصل زمین پر مقرر کیا گیا تھا)۔

اور پھر یہ کہ مالِ فئے کے ساتھ ہمہ قسم کا مال جمع کر دیا جائے گا، اور جس قدر بھی سلطانی مال ہے وہ سب مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا، مثلاً وہ مال جس کا کوئی مالک نہیں، اور اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان فوت ہو گیا اور اس کا کوئی وارث نہیں ہے، یا مالِ مغصوب، یا مال عاریت یا مال ودیعت کہ جن کے مالکوں کا پتہ نہیں اور یہ مال زمین ہے یا مال منقولہ، اور اس قسم کے دوسرے مال، یہ سب کا سب مال مسلمانوں کا ہے۔ اور بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا ۔

اور قرآن مجیدمیں صرف مال فئے کا ذکر ہے، دوسرے مال کا ذکر نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں جس قدر اموات ہوئیں ان کے وارث موجود تھے۔ صحابۂ کرام ث کا نسب سب کو معلوم تھا۔

اور اگر کوئی فوت ہو جائے اور کوئی بھی وارث نہ ہو تو اُس کا ترکہ اُس آبادی میں رہنے والوں کو دے دیا جائے، نبی کریم ﷺ اور خلفاء راشدین ث کا یہی طریقہ تھا کہ میراث و ترکہ کے لیے ادنیٰ سے ادنیٰ سبب کافی تھا جو میت میں اور اس میں پایا جائے۔

اور مسلمانوں سے باقاعدہ جو مال لیا جاتا تھا وہ {صرف} صدقہ و زکوٰۃ تھا۔ صدقہ و زکوٰۃ کے سوا ان سے کچھ {بھی ٹیکس وغیرہ} نہیں لیا جاتا تھا، اور آپ ﷺ مسلمانوں کو یہ فرماتے: مسلمان فی سبیل اللہ مال و جان سے غزوہ و جہاد میں شرکت کریں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لائیں۔

عہد ِ نبویﷺ اور عہد ِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں مال مقبوضہ جو تقسیم کیا جاتا تھا اس کا کوئی جامع دیوان و دفتر نہیں تھا بلکہ مناسب طریقہ سے مسلمانوں کو بانٹ دیا جاتا۔ عہد ِ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ میں مال اور ملک کی وسعت بہت زیادہ ہو گئی تو مقاتلین، مجاہدین اور اہل بخشش کے لیے دیوان و دفتر بنائے گئے، اور خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیوان و دفتر بنوائے، جن میں اکثر مجاہدین اور فوج کے نام درج تھے، یہ دیوان اور دفتر آج مسلمانوں کے لیے نہایت اہم اور شاندار ہیں۔

شہروں اور آبادیوں سے جو خراج اور فئے وغیرہ کا مال لیا جاتا تھا اس کے دیوان و دفتر علیحدہ تھے۔ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں اور اس سے پہلے جو مال آتا تھا، تین قسم کا تھا، جن میں ایک قسم کے مال پر امام و امیر {یعنی حاکمِ وقت} کا قبضہ ہو تا تھا، اور امام و امیر کو ہی اس کا حقدار سمجھا جاتا تھا۔ کتا ب اللہ اور سنت ِ نبوی ﷺ اور اجماعِ {اُمت} سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اور ایک قسم کا مال وہ ہے جس کا لینا امام و امیر {حاکمِ وقت} کے لیے حرام تھا، جیسے جنایات اور گناہ کی وجہ سے کوئی آدمی قتل کر دیا گیا، اس کا مال کسی اور آبادی سے بیت المال کے لیے مال وصول کیا جائے گو اس کے وارث موجود ہوں یا کو ئی حد کا مستحق ہے۔ اور کسی وجہ سے مال لے کر حد ساقط کر دی گئی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور ایک تیسری قسم وہ ہے جس کے متعلق اجتہاد کو دخل ہے، اور علماء کرام نے اس میں اختلاف کیا ہے، مثلاً کوئی آدمی مر گیا اُس کا مال ہے، اس کے ذی رحم {جیسے والدین، اولاد وغیرہ} موجود ہیں لیکن ذوی الفروض {جن کا حصہ قرآن و حدیث میں متعین ہو اِن}میں کوئی نہیں ہے، نہ کوئی عصبہ {رشتہ دار} موجود ہے، اور اس کے مثال اور واقعات، تو اس میں علماء کی راہ اور مسلک علیحدہ علیحدہ ہیں۔

اکثر والیانِ ملک اور رعیت مظالم سے دوچار ہوتے ہیں۔ والی اور امیر حلال و حرام کا پاس نہ رکھتے ہوئے رعایا سے مال وصول کرتے ہیں۔ اور رعایا اپنے فرض سے غا فل رہتے ہوئے مال کو روک لیتی ہے، مثلاً جند {فوج} و لشکر اور فلاعین زراعت پیشہ لوگوں میں ظلم ہوتا ہے یا مثلاً لوگ فرض جہاد کو ترک کر دیتے ہیں، اور والیانِ ملک بیت المال میں اللہ تعالیٰ کا مال جمع کرتے ہیں۔ لیکن حلال و حرام کا قطعاً پاس و لحا ظ نہیں کرتے، اور مال نہ ادا کرنے پر عقوبت و سزا دی جاتی ہے {جیسے آجکل ٹیکس وغیرہ وصول کرنے والے مسلمانوں پر ہی ظلم و جور کر رہے ہیں اور نہ دینے پر سزا دے رہے ہیں}، مبا ح یا واجب چیز کو چھوڑ کر ایسے کا م کر گذرتے ہیں جو والیانِ ملک کے لیے کسی طرح جائز اور حلال نہیں ہیں۔

اور اصل یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس ایسا مال ہے جس کا ادا کرنا اس کے لیے فرض ہے، مثلاً اس کے پاس کسی کی ودیعت و امانت رکھی ہوئی ہے، یا کسی سے مضاربت یا شرکت ہے یا مؤکل (ڈیلر، کلائنٹ) کا مال ہے، یا کسی یتیم کا یا وقف مال ہے، یا بیت المال کا مال ہے، یا مثلاً قرض دار ہے اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ قرض اداکر سکتا ہے، جب ایسا آدمی واجب و حق کو روک لے اور ادا نہ کرے خواہ بعینہٖ ہو، یا قرض ہو اور امام جان لے کہ یہ آدمی قرض ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے، تو ایسے آدمی کو عقوبت اور سزا دی جائے گی، یہاں تک کہ وہ اپنا مال بتادے، یا ما ل کی جگہ بتلا دے کہ فلاں مقام پر مال ہے۔ جب یہ یقین و باور ہو جائے کہ اس کے پاس مال ضرورہے، اس کو قیدو بند میں رکھ دیا جائے، اور اس وقت تک قید میں رکھا جائے کہ وہ مال ظاہر کرے، اور بتلا دے، مار مارنے کی ضرورت نہیں، اگر مال بتانے اور ادائے دَین {یعنی قرض وغیرہ} سے انکار کرے تو اُسے مارا پیٹا جائے یہاں تک کہ حقداروں کا حق ادا کرے، یا ادا کرنا ممکن ہو جائے۔ اور یہی حکم نفقہ واجبہ کا ہے، جبکہ وہ نفقہ دینے پر قدرت رکھتا ہو، جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے عروہ بن شرید عن ابیہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

اَلْوَاجِدُ یَحِلُّ عِرْ ضُہٗ وَ عُقُوْبَتُہٗ (رواہ اہل السنن)
جو {مال} پائے اور نہ دے اسکا مال عزت آبرو اور اس کو عقوبت و سزا دینا حلا ل ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پانے والے کا مال لے لینا، اس کو عقوبت و سزا دینا حلال اور جائزہے۔ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے:

مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ (بخاری و مسلم)
نادہندہ مالدار (ٹال مٹول کرنے والا) ظالم ہے۔

اور حقدار کے حق کی ادائیگی میں دیر کرنا سراسر نادہندگی اور ظلم ہے۔ اور ظالم عقوبت و سزا کا مستحق ہے۔ اور یہ متفق علیہ اصول و کلیہ ہے کہ حرام کا مرتکب اور واجب کا ترک کرنے والا مستحق عقوبت و سزا ہے، پس اگر شریعت میں اس کی سزا مقرر نہیں ہے تو ولی الامر {حاکمِ وقت، قاضی یا جج} اجتہاد سے کام لے اور اسے تعزیر کرے، اور نادہند مالدار کو سزا دے، اگر وہ {پھر بھی مال} نہ دینے پر مصر ہے تو مار ماری جائے یہاں تک کہ وہ واجب ادا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اس پر فقہاء کی صریح نص و تصریح ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے شاگردوں اور امام شافعی و امام احمدرحمہما اللہ نے اس کی پوری تصریح کر دی ہے، اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں، سب کے سب اس پر متفق ہیں۔

اور امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے سو نا چاندی اور اسلحہ و ہتھیار کے عوض صلح کی اور یہودیوں نے اس کا وعدہ کیا، تو بعض یہودیوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا، اور پوچھنے والا سعید جو حيبن اخطب کا چچا تھا، اس نے حي بن اخطب کے خزانے کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، آپ ﷺ نے فر مایا:

اَذْھَبَتْہُ الَّنفَقَاتُ وَالْحُرُوْبُ
مال خرچ ہو گیا اور لڑائیاں لے گئیں۔

اس نے کہا آپ سے ابھی تو معاہدہ ہوا اور معاہدہ کی رو سے یہ مال بہت زیاہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے سعید کو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ انھوں نے اس کو سزا دی، راوی کہتا ہے کہ میں نے حي بن اخطب کو فلاں خرابے میں گھومتے دیکھا ہے، لوگ وہاں پہنچے، اور خرابے کو گھوم پھرکر دیکھا، ٹٹولا تو بہت سا مشک اس خر ابے سے نکلا۔ ظاہر ہے کہ یہ آدمی ذمی تھا، اور ذمی کو بغیر گناہ اور حق کے عقوبت و سزا نہیں دی جاتی۔ اور یہ حکم ہر واجب اور ضروری چیز کو چھپانے والے کا ہے، جبکہ و ہ واجب و ضروری چیز کے بتلانے میں کو تاہی کرے، ترکِ واجب کی بنا پر اُسے سزا دی جائے گی ۔

وہ مال جو والیان اموال {کسٹم و انکم ٹیکس افسر، لے} لے، مسلمانوں کا مال بغیر حق، بلا استحقاق لے لیا ہو۔ ولی الامر عادل {حکمران} کا فرض ہے کہ اس مال کو اُن سے وصول کرے، مثلاً وہ ہدایا (تحفے) اور تحفے جو اُنہو ں نے اپنے عمل اور عہدے کے ذریعہ حاصل کئے ہیں، چنا نچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

ھَدَایَا الْعُمَّالِ غَلُوْلٌ
عمال (یعنی افسروں) کے (لئے) ہدایہ (تحفے تحائف لینا) غلول و غبن ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور ابراہیم حربی رحمہ اللہ اپنی کتاب الہدایا میں سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:

اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ ہَدَایَا الْاُمَرَائِ غَلُوْلٌ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اُمراء {حکام اور اہل اختیار} کے ہدایا اور تحفے غلول و غبن ہیں

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے قبیلہء ازد کے ایک آدمی کو جس کا نام ابن اللتبیہ تھا، صدقہ و زکوٰۃ وصول کرنے پر عامل {تحصیلدار} مقرر کیا، اس نے آکر ما ل پیش کیا اور کہنے لگا: یہ مال آپ کا ہے اور یہ مجھے ہدیئے میں ملا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَا بَالُ الرَّجُلِ نَسْتَعْمِلُہٗ عَلٰی الْعَمَلِ مِمَّا وَلَّانَا اللہُ فَیَقُوْلُ ھَذَا لَکُمْ وَھَذَا اُھْدِیَ اِلَیَّ فَھَلَّا جَلَسَ فِیْ بَیْتِ اَبِیْہِ اَوْ بَیْتِ اُمِّہٖ فَیَنْظُرَ اَیُھْدٰی اِلَیْھِاَمْلَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یَاْخُذُ مِنْہٗ شَیْئًا الاَّ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَحْمِلُہَ عَلَی رَقْبَتِہٖ اِنْ کَانَ بَعِیْرًا لَہٗ رُغَائٌ اَوْ بَقَرَۃً لَھَا خُوَارٌ اَوْ شَاۃً نَنْعَدٌئِ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی رَأَیْنَا عَفْرَا ِبْطَیْہِ اَللّٰھُمَّ ھَلْ بَلَّغْتُ اللّٰھُمَّ ھَلْ بَلَّغْتُ ثَلَاثًا۔
اس شخص کا کیا حال ہے جس کو ہم عمل اور کام سپرد کرتے ہیں اور وہ آکر کہتا ہے، یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیئے میں ملا ہے، کیوں وہ باپ یا ماں کے گھر میں نہ بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ یہ تحفے اور ہدایا اسے ملتے ہیں؟ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چیز بھی وہ لے گا قیامت کے دن اس کی گردن پر سوار ہو گی، اگر اونٹ ہے تو وہ چِلّا رہا ہو گا، اگر گائے ہے تو وہ بلبلاتی چیختی ہو گی، اور بکری ہے تو وہ میں میںکرتی ہو گی، اسکے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھائے اتنے اٹھائے کہ آپ کی بغل ہم نے دیکھی اور فرمایا: اے اللہ میں نے پہنچا دیا،اے اللہ میں نے پہنچا دیا۔ تین دفعہ آپ نے یہ فرمایا۔

یہی حکم ان والیان امر {بااختیار افسران و اعلیٰ سول و فوجی حکام} کا ہے جو معاملات میں ہدایا اور تحفے لے کر کسی کی امداد و اعانت کریں مثلاً {ٹھیکہ جات} بیع و شراء {خرید و فروخت}، مواجرۃ {سرکاری ملازمتیں اور نوکری}، مضاربت {پارٹنرشپ}، مساقات {نہروں و دریاؤں وغیرہ کا پانی کسانوں کو کھیتوں کے لیے دینا یا دلانا کہ کسی کی باری پہلے کر دی کسی کی بعد میں یا کسی کو پانی کم دیا اور کسی کو زیادہ}، مزارعۃ {زمین کی ٹھیکہ داری، بیج و کھاد کی فراہمی} وغیرہ۔ اس قسم کے معاملات میں کسی قسم کا بھی ہدیہ اور تحفہ لے کر کام کریں، تو اس کا بھی یہی حکم ہے، اور اسی بنا پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بعض عمال {گورنر، افسران اور حکام} سے کہ جن کے پاس مال بھی تھا، اور قرض بھی تھا، مگر خیانت کا الزام بھی نہیں تھا، آدھا آدھا کر دیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض عمال کے ساتھ ایسا سلوک اس لیے کیا کہ اُنہوں نے ولایت امر {بااختیار اور مجاز افسر و گورنر، ڈائریکٹر وغیرہ ہونے} کی حیثیت سے تحفے تحائف لیے تھے۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو والی و عامل مقرر کیا تھا، اور یہ امر اس کا مقتضی بھی تھا۔ کیونکہ سیدنا عمرص امام عادل تھے، اور مال کی صحیح تقسیم انہی کا کام تھا۔

{آج افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مساجد اور مدارس میںخوشامد اور چاپلوسی کی بیماری اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔ مساجد کی انتظامیہ تو اُس امام، خطیب، قاری، خادم اور مؤذن کو برداشت ہی نہیں کرتیں جو اُن کی خوشامد نہیں کرتے، ہاں میںہاں نہیں ملاتے بلکہ اُلٹا ان کے طعنے اور القابات سے نوازا جاتا ہے}۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جب امام اور رعایا دونوں میں تغیر آجائے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے مقدور کے مطابق اپنے فرض کو انجام دے، حرام کو چھوڑ دے، اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے مبا ح کی ہے اُسے حرام نہ کرے۔

کبھی لوگ والیان ملک {سول و فوجی حکام} سے اس لیے ابتلاء و مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں کہ یہ ہدایا اور تحفے نہیں دیتے کہ ہدایا اور تحفے دے کر ان کے مظالم سے چھوٹیں۔ اور جو فرض والی امر {گورنر و افسر} کا ہے، وہ چھوڑدیتا ہے، پھر بھی کف ظلم کے عوض ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا ان کے نزدیک محبوب ہے۔ اور باوجود اس کے کف ظلم کے عوض وہ ما ل لیتا ہے۔ اور اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کے لیے بیچتا ہے۔ اس کا تو فرض یہ تھا کہ حسب ِ قدرت و طاقت ظلم کو روکتا، اور لوگوں کی حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرتا۔ ان کی مصلحتوں کو ملحوظ رکھتا، سلطان {یعنی حاکمِ وقت} تک ان کی حاجتیں اور ضرورتیں پہنچاتا، اور سلطان کو ان اُمور سے آگاہ و باخبر کر دیتا۔ ان کے مصالح سے بھی آگاہ کر دیتا، اور ان کو مفاسد سے بچاتا، اور اس بارے میں مختلف طریقے لطیف و غیر لطیف اختیار کرتا، جس طرح کہ کاتب، منشی وغیرہ اپنی اغراض کے لیے کیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ہند بن ابی ھالہص میں ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

اَبْلِغُوْنِیْ حَاجَۃً مَنْ لَا یَسْتَطِیْعُ اِ بْلَاغًھَا فَاِنَّہٗ مَنْ اَبْلَغَ ذَا السُّلْطَانِ حَاجَۃَ مَنْ لَا یَسْتَطِیْعُ اِبْلَاغَھَا ثَبَّتَ اللہُ قَدَمَیْہِ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تُزِلُّ الْاَقُدَامُ
ان لوگوں کو جو اپنی حاجتیں اور ضرورتیں مجھ تک نہیں پہنچا سکتے، مجھ تک پہنچا دو کیونکہ جو شخص صاحب سلطنت تک ایسے لوگوں کی حاجتیں پہنچائیں جو خود نہیں پہنچا سکے تو اللہ تعالیٰ پل صراط پر اُسے ثابت قدم رکھے گا کہ جس دن بڑوں بڑوں کے قدم لڑکھڑا جائیں گے۔

اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے، اور سنن ابی داوٗد میں ابی امامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ شَفَعَ لِاَحَدٍ شَفَاعَۃً فَاھْدٰی لَہٗ عَلَیْھَا ھَدْیَۃً فَیُقْبَلُھَا فَقَدْ اَتٰی بَابًا عَظِیْمًا مِنْ اَبْوَابِ الرِّبَا
جس نے اپنے کسی بھائی کی سفارش کی، اور اس کے بدلہ اس نے ہدیہ/تحفہ بھیجا، اور اس نے اسے قبول کر لیا، تو وہ سود کے بڑے دروازے میں داخل ہو گا۔

اور ابراہیم حربی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ کسی آدمی نے کسی سے اپنی ضرورت پوری کرنے کو کہا، اور اس نے اس کی ضرورت پور ی کر دی، اور دوسرے نے ہدیہ بھیجا اور اس نے قبول کر لیا تو یہ حرام ہے۔
 
Top