القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
محترم اراکین ، تعجب ہے ان عقلوں پر جو یہاں بیٹھے کبھی خود کو عامی قرار دے کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے اپنا سارا علم اگل کر بھڑکیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
پہلے تو میں زرا مسئلہ الولاء ولبراء کے مسئلے میں قلبی و غیر قلبی والا قضیہ حل کیئے دیتا ہوں۔۔۔
محترم اراکین ، تعجب ہے ان عقلوں پر جو یہاں بیٹھے کبھی خود کو عامی قرار دے کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے اپنا سارا علم اگل کر بھڑکیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
پہلے تو میں زرا مسئلہ الولاء ولبراء کے مسئلے میں قلبی و غیر قلبی والا قضیہ حل کیئے دیتا ہوں۔۔۔
آیت ولایت اور منہج سلف صالحین
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَاء بَعْضُھُمْ اَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) (المائدة : ٥١)
'' اے اہل ایمان! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ' وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی رکھے گا تو وہ بھی انہی میں سے ہے ۔''
ایک غلطی کا ازالہ :
اس آیت مبارکہ سے مسلم حکمرانوں اور اداروں کی تکفیر پر ظاہری استدلال بوجوہ ناقص ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت میں یہ بات بالکل واضح موجود ہے کہ یہ خطاب اعتقاد ی منافقین سے ہے۔
کیونکہ اگلی آیت مبارکہ کے الفاظ ہیں:
(فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة) (المائدة : ٥٢)
'' پس آپ ۖ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی یہود و نصاری میں گھستے چلے جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم پر کوئی گردش دوراں نہ آ جائے۔''
اسی طرح اس سے اگلی دو آیات میں بھی منافقین ہی کا تذکرہ ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھٰؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ اِنَّھُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ )۔(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافرِیْنَ)
(المائدة : ٥٣۔٥٤)
'' اور اہل ایمان(ایک دوسرے سے )کہتے ہیں: کیا یہ ہیں وہ لوگ( یعنی منافقین) جنہوں نے اللہ کے بارے میں سخت قسمیں کھاکر کہا تھا کہ وہ لازماً تمہارے (یعنی مسلمانوں) کے ساتھ ہیں۔ان(منافقین) کے اعمال ضائع ہو گئے اور وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگئے۔اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا(مثلاً منافق ہو جائے گا) تو اللہ تعالی ایسی قوم کو لائیں گے جو اللہ سے محبت کرتی ہو گی اور اللہ اس سے محبت کرتے ہوں گے اور یہ قوم اہل ایمان کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہو گی۔ ''
اسی لیے امام المفسرین' امام ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیات منافقین ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔
امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
'' غیر أنہ لا شک أن الآیة نزلت فی منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ من دوائر الدھر لأن الآیة التی بعدہ ھذہ تدل علی ذلک وذلک قولہ : فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة.'' (تفسیر طبری : المائدة : ٥١)
'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایسے منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنے بارے میں آنے والے حالات کے خوف سے کسی یہودی یا عیسائی کو قلبی دوست بنا لیتا تھا۔
اس آیت مبارکہ کے بعد والی آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ آیت ہے:
"فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون نخشی أن تصیبنا دائرة۔''
پس اب ہم اس آیت کے قطعی و ظنی مفہوم کی تنقیح(وضاحت و بیان) کی طرف آتے ہیں۔
پہلا نکتہ:
اعتقادی منافق کافر ہے لیکن ۔۔۔۔۔:
اگر تو ہمارے حکمران اعتقادی منافق ہیں یعنی وہ یہود و نصاری کے مذہب کو باطل نہیں سمجھتے یا اپنے مذہب کی حقانیت کا انہیں یقین نہیں ہے اور پھربھی یہود و نصاری سے دوستی لگاتے ہیں تو ان کی تکفیر جائز ہے ۔
لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ آپۖ کے زمانے کے اعتقادی منافقین کے عقیدے کے بارے تو بذریعہ وحی آپ کو علم ہو جاتا تھا لیکن آج کل کے اعتقادی منافقین کے نفاق کے بارے علم کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ اور بعض سلف صالحین کا کہنا یہ ہے کہ اعتقادی نفاق صرف آپۖ کے زمانے میں ہی تھا اس کے بعد عملی نفاق ہے جس کا احادیث میں تذکرہ ہے۔
کیونکہ آپۖ کے زمانے میں عقیدے کا نفاق بذریعہ آیات قرآنیہ معلوم ہوتاتھا اور آج ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں ہے کہ جس کے ساتھ ہم کسی کے باطن میں جھانک کر یا کسی کا دل چیر کر یہ معلوم کر سکیں کہ اس کے دل میں بھی نفاق ہے یا نہیں ۔
پس ظالم وفاسق مسلمان حکمرانوں پر عملی نفاق کا فتویٰ تولگے گا کیونکہ ان میں عملی نفاق کی ساری نشانیاں پائی جاتی ہیں لیکن اعتقادی نفاق کا نہیں۔
بلاشبہ آج بھی اعتقادی منافق ہو سکتے ہیں لیکن بحث یہ ہو رہی ہے کہ کسی کے اعتقادی نفاق کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے اِلا یہ کہ وہ شخص خود بتلائے کہ میں اعتقادی منافق ہو۔
پس جب کوئی حکمران یا عامی اپنے اسلام کا اظہار کر رہا ہو تو اس کو اعتقادی منافق قرار دینا ناممکن' ناقابل فہم اورخلاف نصوص ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا) (النساء:٩٤)
'' جو تمہارے سامنے اپنے سلام (یعنی السلام علیکم کہے یا کلمہ شہادت)کو ظاہر کرے تو اس کو یہ نہ کہو: تم مومن نہیں ہو''۔
یہ آیت مبارکہ ان مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں صریح ہے جو حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھتے ہیں اور وہ مسلمان عقیدے کے منافق بھی ہوں۔ اگر کوئی مسلمان حکمران حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی تو رکھتا ہے لیکن ان کے مذہب کو باطل اور مذہب اسلام کو حق سمجھتا ہے تو ایسی دوستی اگرچہ حرام اورممنوع ہے لیکن اس کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایاجائے گا۔
امام رازی اور امام ابن عادل الحنبلی لکھتے ہیں:
'' موالاة الکافر تنقسم ثلاثة أقسام : الأول : أن یرضی بکفرہ، ویصوبہ،ویوالیہ لأجلہ،فھذا کافر،لأنہ راض بالکفر ومصوب لہ. الثانی : المعاشرة الجمیلة بحسب الظاھر، وذلک غیر ممنوع منہ. الثالث : المولاة : بمعنی الرکون ا لیھم والمعونة والنصرة امابسب القرابة واما بسبب المحبة مع اعتقاد أن دینہ باطل فھذا منھی عنہ ولا یوجبہ الکفر.'' (اللباب فی علوم الکتاب : آل عمران : ٢٨) (تفسیر الرازی : آل عمران : ٢٨)
'' کافر سے تعلق ولایت تین قسم پر ہے:
پہلی قسم تو یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس کے کفر پر راضی ہو اور اس کے کفر کی تصویب کرتا ہو اور اسی وجہ سے اس سے قلبی تعلق رکھتا ہو تو ایسا شخص بھی کافر ہے کیونکہ یہ کفر پر راضی بھی ہے اور کفر کی تصدیق بھی کرتا ہے۔
دوسری قسم اس تعلق کی یہ ہے کہ جس میں کسی کافر سے ظاہری طور پر اچھے طریقے سے معاشرت اختیار کرنا مقصود ہواور ایسا تعلق ممنوع نہیں ہے۔
تیسری قسم اس تعلق کی یہ ہے کہ جس میں کافروں پر اعتماد ' ان کی اعانت اور نصرت ہواور اس کا سبب یا تو قرابت داری ہو یا پھران کی محبت ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ عقیدہ بھی ہو کہ ان کا دین باطل ہے تو ایسا تعلق اگرچہ ممنوع ہے لیکن موجب کفر نہیں ہے۔''
دوسرا نکتہ :
مفاد کے تحت کفار سے دوستی :
یہ امر بالکل واضح ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ سے دوستیاں اس وجہ سے کرتی ہے کہ وہ ان سے ڈرتے ہیں۔
یعنی یہود و نصاریٰ کی ٹیکنالوجی کا ڈر' عیش پرستی' کاہلی و سستی ' موت کا خوف، مال اور عہدے کی محبت وغیرہ ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے حکمران حربی یہود و نصاری سے دوستی کرتے ہیں۔پس اس صورت میں یہ حکمران فاسق و فاجر اور عملی منافق تو قرار پائیں گے لیکن ایسے کافر نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہوں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کے طور پر ان سے ظاہری دوستی کی اجازت دی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاةً) (آل عمران : ٢٨)
''پس اہل ایمان' اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت)سے بچنا چاہو کچھ بچنا''۔
حکمرانوں کے دلوں میں کافروں اور یہود و نصاری کا جو خوف ، دبدبہ اور رعب بیٹھا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ وہ ہونا چاہیے یا نہیں لیکن اس آیت مبارکہ کایہ استثناء بہر حال یہود و نصاریٰ سے دوستی کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر میں ایک صریح مانع ہے۔
اس آیت مبارکہ میں'تقاة'سے مراد سلف صالحین نے تقیہ اور خوف دونوں لیے ہیں۔
امام شنقیطی المالکی فرماتے ہیں:
کہ اگر دشمن کے خوف کے سبب سے کوئی مسلمان ان سے تعلق ولایت کا اظہار کرے تو یہ جائز ہے۔
وہ" یأیھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری أولیاء ' کے تحت لکھتے ہیں:
'' وبین فی مو ضع آخر : أن محل ذلک،فیماا ذا لم تکن الموالاة بسبب خوف وتقیة وإن کانت بسبب ذلک فصاحبھا معذور وھو قولہ تعالی : لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْتَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة.'' (أضواء البیان : المائدة : ٥١)
'' ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہود و نصاری سے یہ تعلق ولایت کسی خوف یا بچاؤ کے سبب سے نہ ہو' اور اگر یہود و نصاری سے تعلق ولایت اس سبب( یعنی خوف یا ان کی اذیت سے بچاؤ) کے تحت ہو تو ایسا شخص معذور ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کا قول ہے:''پس اہل ایمان' اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا''۔
امام نسفی الحنفی نے بھی یہی معنی بیان فرمایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
(اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة) الا أن تخافوا من جھتھم أمرا یجب اتقاؤہ أی لا أن یکون للکافر علیک سلطان فتخافہ علی نفسک ومالک فحینئذ یجوز لک ا ظھار الموالاة وابطان المعاداة.'' (تفسیر نسفی : آل عمران : ٢٨)
(الا أن تتقوا منھم تقاة) کا معنی یہ ہے کہ تمہیں ان کی طرف سے کسی ایسے امر کا اندیشہ ہو کہ جس سے بچنا لازم ہویعنی یہ کہ کسی کافر کو تم پر غلبہ حاصل ہو اور تمہیں اس کافر سے اپنے جان اور مال کا خوف لاحق ہو تو اس وقت تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کافر سے دوستی کا اظہار کرو اور اس سے دشمنی کو چھپا لو۔''
امام بیضاوی الشافعی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے کہ خوف کے وقت دشمن کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
'' منع عن موالاتھم ظاھرا وباطنا فی الأوقات کلھا لا وقت المخافة فن اظھار الموالاة حینئذ جائز.'' (تفسیر بیضاوی : آل عمران : ٢٨)
'اللہ تعالیٰ نے جمیع حالات میں کفار سے ظاہری یا باطنی تعلق ولایت قائم کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے خوف کی حالت کے ' کیونکہ اس حالت میں کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔''
تیسرا نکتہ :
آیت کریم میں مخاطب کون ؟
یہ واضح رہے کہ(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) میں اصلاً مراد اعتقادی منافقین ہیں جیسا کہ آیت کے ْسیاق و سباق سے واضح ہے اور اس آیت کا قطعی مفہوم یہی ہے۔
لیکن تبعاً اس خطاب میں مسلمان بھی شامل ہیں۔پس اگر اعتقادی منافق مسلمان، یہود و نصاری سے دوستی رکھے تو اس کی تکفیر ہو گی جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اور اگر کوئی ظالم وفاسق مسلمان حربی یہود و نصاری سے دوستی رکھے تو پھر(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)سے مراد تحذیر میں شدت(یعنی ڈرانے اور دھمکانے میں مبالغہ) ہے۔
جیسا کہ قرآن کی آیت(فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ)اور حدیث مبارکہ((مَنْ حمل عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا)) میں اصل مقصود شدت تحذیر ہے نہ کہ ملت سے اخراج۔
امام رازی (وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) قال ابن عباس : یرید کأنہ مثلھم وھذا تغلیظ من اللہ وتشدید فی وجوب مجانبة المخالف فی الدین ونظیرہ قولہ ( ومن لم یطعمہ فانہ منی).'' (تفسیر رازی : المائدة : ٥١)
و من یتولھم منکم فانہ منھم کا معنی حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ بیان کیا ہے کہ گویا کہ وہ شخص انہی یعنی کفار کی مانند ہو گا۔اور یہ اللہ کی طرف سے دین اسلام کی مخالفت کرنے والے کفار سے کنارہ کشی کے وجوب کے بارے ایک سختی اور شدت کا اسلوب ہے اور اس کی مثال اللہ تعالی کا قول'ومن لم یطعمہ فانہ منی'ہے ۔''
امام بیضاوی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے۔ (تفسیر بیضاوی : المائدة : ٥١)۔
امام نسفی الحنفی کا رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔امام صاحب(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
'' من جملتھم وحکمہ حکمھم وھذا تغلیظ من اللہ وتشدید فی وجوب مجانبة المخالف فی الدین.'' (تفسیر نسفی : المائدة : ٥١)
'' یعنی وہ شخص من جملہ انہی میں سے ہے اور اس کا حکم وہی ہے جو ان کا حکم ہے اور یہ اللہ کی طرف سے دین اسلام کی مخالفت کرنے والے کفار سے کنار ہ کشی کے وجوب کے بارے میں ایک سختی اور شدت کا اسلوب ہے۔''
ابن عاشور المالکی نے تو اس بات پر امت کا اجماع نقل کیا ہے کہ
اگر کوئی شخص کسی کافر یا غیر مسلم سے تعلق ولایت رکھتا ہے، کفار سے محبت رکھتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے لیکن ان کے مذہب کو صحیح نہیں سمجھتااور اسلام کو دین حق سمجھتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور ضال تو ہے لیکن بالاتفاق کافر نہیں ہے۔
ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) سے مراد یا تو تحذیر و تشدید ہے یا پھر کافر کے دین کو صحیح سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ ولایت کا تعلق قائم کرنے پر یہ وعید ہے اور مختلف علماء نے اس آیت کی ان دو میں سے کوئی ایک تاویل کی ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) من شرطیة تقتضی أن کل من یتولاھم یصیر واحدا منھم...وقد تأولھا المفسرون بأحد تأویلین : ما بحمل الولایة فی قولہ ومن یتولھم علی الولایة الکاملة التی ھی الرضی بدینھم والطعن فی دین الاسلام ولذلک قال ابن عطیة : ومن تولاھم بمعتقدہ ودینہ فھو منھم فی الکفر والخلود فی النار وأما بتاویل قولہ : فنہ منھم علی التشبیة البلیغ أی فھو کواحد منھم فی استحقاق العذاب قال ابن عطیة : من تولاھم بأفعالہ من العضد ونحوہ دون معتقدھم ولا خلال بالیمان فھو منھم فی المقت والمذمة الواقعة علیھم... وقد اتفق علماء السنة علی أن ما دون الرضا بالکفر وموالاتھم علیہ من الولایة لا یوجب الخروج من الربقة السلامیة ولکنہ ضلال عظیم وھو مراتب فی القوة بحسب قوة الموالاة وباختلاف أحوال المسلمین.'' (التحریر والتنویر: المائدة : ٥١)
'' ومن یتولھم منکم فانہ منھم میں 'من' شرطیہ ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ جس نے بھی ان کفار سے تعلق ولایت قائم کیا وہ انہی میں سے ایک ہو گا...لیکن مفسرین نے اس آیت کی دو میں سے کوئی ایک تاویل کی ہے۔یا تو اللہ تعالی کے قول 'ومن یتولھم'میں ولایت سے مراد ولایت کاملہ یعنی کافروں کے دین پر راضی ہو جانا اور دین اسلام پر طعن کرناہے ۔
اسی لیے ابن عطیہ نے کہا ہے:
جس نے کفار سے تعلق ولایت اپنے عقیدے اور دین کی وجہ سے رکھاتو ایسا مسلمان کفر اور دائمی جہنمی ہونے کے اعتبار سے انہی کفار کی مانند ہے
۔
اس آیت کی دوسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ یہ تشبیہ بلیغ ہے[تشبیہ بلیغ اس کو کہتے ہیں کہ جس میں حرف تشبیہ محذوف ہو] یعنی مراد یہ ہے کہ مسلمان عذاب کا مستحق ہونے میں انہی کفار جیسا ہے
۔
ابن عطیہ نے کہا ہے:
جس مسلمان نے ان کفار سے تعلق اپنے افعال مثلاً ان کی مدد ونصرت وغیرہ کے ذریعے رکھا لیکن انکے جیسا اس کا عقیدہ نہیں ہے اور نہ ہی ان افعال کی وجہ سے اس کا ایمان غائب ہوا ہو تو ایسا مسلمان اللہ کے اس غصے اور مذمت کا مستحق ہے جو ان کفار کے بارے میں وارد ہوئی ہے
...علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب تک کفر پر رضامندی کے بغیر اور کفار سے کسی معاہدے کی بنا پر اس سے تعلق ولایت صادر ہوتو ایسا تعلق اسلام کے دائرے سے اخراج کا باعث نہیں ہے لیکن ایک بڑی گمراہی ضرور ہے اور اس گمراہی کے مراتب بھی کفار سے تعلق ولایت کی شدت اور مسلمانوں کے احوال و ظروف کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔
''
تولی موالات بارے میں سے سلف صالحین سے صرف چند اقتباسات پیش کیئے ہیں ، باقی جن حضرات کو ابھی ہضم نہیں ہوئے دلائل ، تو مزید اپنی ہی ریفرنس بک دوستی و دشمنی ترجمہ از اعجاز احمد تنویر حفظہ اللہ میں تولی موالات والا باب پڑھ لیں افاقہ ہوگا، میں بھی انشاء اللہ العزیز استفادہ عام کے لئے وہ پیش کیئے دیتا ہوں ۔۔