حاطب رضی اللہ عنہ پر کفر کا حکم کیوں نہیں لگا ؟
اگر حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل تولّی یا موالاتِ کبرٰی اور نواقضِ اسلام کے زمرے میں آتا ہے، یعنی کفر ہے تو پھر اس سے بڑھ کر تعاون کی جو بھی صورت ہو گی وہ بالاولیٰ کفر ہو گی………لیکن حاطب اپنے اس فعل میں متاول تاویل کا سہارا لیے ہوئے تھے ، اِس لیے ان پر کفر کا حکم نہیں لگا، کیونکہ معتبر تاویل بھی کفر کا حکم منطبق ہونے میں ایک مانع ہوا کرتی ہے ۔حافظ ابن حجر اور علامہ مبارکپوریفرماتے ہیں: (وَعُذْرُ حَاطِبٍ مَّاذَکَرَہٗ فَاِنَّہٗ صَنَعَ ذٰلِکَ مُتَأَوِّلًا أَنْ لَّاضَرَرَ فِیہِ)’’حاطب رضی اللہ عنہ اپنے اِس فعل میں متاول تھے،ان کا خیال تھا کہ اس مراسلت سے مسلمانوں کو کوئی ضرر و نقصان نہیں ہوگا، اِسی لیے ان کے عذرکو قبول کر لیا گیا ۔
۔ نامور سلفی عالم شیخ علوی بن عبد القادر السقاف (المشرف العام علی موقع الدرر السنیة)حاطب رضی اللہ عنہ کے قصّے کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اِس بات کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اہلِ سنت کے کسی بھی عالم نے یہ نہیں کہا کہ حاطب رضی اللہ عنہ کافر ہو گئے تھے،یا ان سے صادر ہونے والا فعل موالات یا گناہ کے زمرے میں نہیں آتا،یا مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے تعاون کرنا کفر نہیں ہے، لہٰذا جب تمام اِس بات پر متفق ہیں تو پھر کسی کو اختلاف اور شر کی کوئی نئی قسم ایجاد نہیں کرنی چاہیے………‘‘ (دیکھیے : مسئلہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ۔
الدرر السنية)
حاطب رضی اللہ عنہ خود بھی مسلمانوں کی جاسوسی کرنے کو کفر و ارتداد سمجھتے تھے۔نبی کریمﷺ کے استفسار پر انھوں نے اپنے متعلق فرمایا:
(لَمْ أَفْعَلْہُ کُفْرًا وَّلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي،وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْاِسْلَامِ)
’’میں نے یہ کام کفراور اپنے دین سے مرتد ہو کر نہیں کیا اور نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہو کر کیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری رقم:4890، و صحیح مسلم: 6351.)
ایک روایت میں ہے:
(لَاتَعْجَلْ وَاللّٰہِ!مَاکَفَرْتُ وَلَا ازْدَدْتُ لِلْاِسْلَامِ الَّا حُبًّا)
’’میرے بارے میں جلدی مت کیجئے!اللہ کی قسم میں نے کفر نہیں کیا، بلکہ اسلام کے لیے میری محبت اور زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘(صحیح البخاری:رقم 3081.)
ایک اور روایت میں ہے:
(أَمَا اِنِّي لَمْ أَفْعَلْہُ غِشًّا لِّرَسُولِ اللّٰہِﷺ وَلَا نِفَاقًا، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللّٰہَ مُظْھِرٌ رَّسُولَہٗ)
’’میں نے یہ کام رسول اللہﷺکو دھوکہ دیتے ہوئے نہیں کیا اور نہ نفاق ہی کی وجہ سے کیا ہے، مجھے علم ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو غالب کرے گا۔‘‘(مسند ابی یعلی الموصلی رقم:2261.)
ایک اور روایت میں ہے:
(وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِﷺ ! مَا کَتَبْتُہُ ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي)
’’اللہ کی قسم!اے اللہ کے رسول!میں نے اپنے دین سے مرتد ہو کر یہ (خط )نہیں لکھا۔‘‘(مسند ابی یعلی الموصلی رقم:394.)
بنابریں اگر یہ فعل کفرو ارتداد نہ ہوتا اور زنا، چوری،شراب نوشی اور قذف وغیرہ جیسے عام کبیرہ گناہوں جیسا ہوتا تو ان کا یہ کہنا کوئی معقول معنی نہ رکھتا۔مثلاً کوئی شخص مذکورہ کبیرہ گناہ کرنے کے بعد یہ نہیں کہتا کہ میں نے یہ گناہ کفر و ارتداد کی وجہ سے نہیں کیے،کیونکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ ان گناہوں کا مرتکب کافر نہیں ہوتا جیسا کہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ جس چیز کا عقل و فہم میں کوئی تصور ہی نہ ہواور وہ فی الواقع موجود بھی نہ ہو تو اس کی نفی کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہے ۔نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک بھی یہ فعل کفر و ارتداد ہی تھا۔ اسی لیے عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’مجھے اجازت دیجیے ، میں اس منافق کی گردن اڑادوں۔‘‘یہ الگ بات ہے کہ رسول اللہﷺنے حاطب رضی اللہ عنہ کے دلی طور پر مومن ہونے اور بدری صحابی ہونے کی وجہ سے من جانب اللہ مغفرت کی گواہی دے دی تھی۔
اس کے علاوہ رسول اللہﷺنے حاطب رضی اللہ عنہ کے نیک نیت اور سچا ہونے کی شہادت بھی خود ہی دی تھی۔آپ نے اُن کا جواب سن کر فرمایا :’’حاطب رضی اللہ عنہ نے تم سے جو کہا ہے ، سچ کہا ہے۔‘‘آپ نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تھی بلکہ وحی کی روشنی میں فرمائی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى،إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى،﴾
’’اور نہ وہ اپنی خواہش ہی سے بولتا ہے ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔
اب نبیﷺکے علاوہ کسی اور کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دل کے حالات جان سکے کیونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے،اس لیے عمر نے تو ظاہری عمل کی وجہ سے حاطب رضی اللہ عنہ پر کفر اورقتل کا حکم لگایا جبکہ رسول اللہﷺنے بذریعہ وحی دل کی حالت جان کر اُن کے عذر کو قبول فرمایا۔ بنابریں اب حاطب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور سے یہ حکم موقوف نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم ظاہرکے مکلف ہیں اور دل کے حالات نہیں جان سکتے ، نیز وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔لہٰذا اب ہمیں موجودہ جاسوسوں کے باطنی طور پر سچا ہونے کا علم نہیں ہو سکتا اور نہ یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی جاسوسی کفر اور ارتداد کی وجہ سے نہیں کی۔ اب جس نے بھی یہ کام کیا ، اس پر وہی ظاہری حکم لگے گا جو عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا تھا ، یعنی کفر اور قتل۔
مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا عبد الرحمن کیلانی اپنی تفسیر میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے قصے کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کر دے تو وہ کافر نہیں ہو جاتا۔مسلمان ہی رہتا ہے۔البتہ اس کا یہ جرم قابلِ مواخذہ ضرور ہے۔لیکن اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام کر جائے تو وہ منافق بھی ہے، کافر بھی ہو جاتا ہے اور قابلِ گردن زدنی بھی، اس کا یہ جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ (تیسیر القرآن:424/4.)
غور فرمائیں مولانا عبد الرحمن کیلانی نے اپنی مذکورہ عبارت میں دو صورتیں ذکر کی ہیں۔ پہلی صورت میں کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کرتا ہے تو اِس سے وہ کافر نہیں ہو جاتا ، البتہ اْنہوں نے اِس جرم کو قابلِ مواخذہ قرار دیا ہے۔مگر دوسری صورت یہ بیان کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام، یعنی جنگی راز وغیرہ فاش کرے گا تو اِس سے نا صرف وہ کافر و منافق ہوگا بلکہ قابلِ گردن زدنی بھی ہو جاتا ہے۔
شیخ امین اللہ پشاوری اپنے فتاوی الدین الخالص میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:سیدنا حاطب کا یہ قصہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے تعاون اور ان کی مدد کرنے میں اصل یہی ہے کہ یہ ارتداد اور دین اسلام سے خارج ہونا ہے۔اس کی مندرجہ ذیل تین وجوہات ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول:(دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ ھٰذَا الْمُنَافِقِ)’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن تن سے جدا کر دوں۔‘‘ایک روایت کے الفاظ ہیں:(فَقَدْ کَفَرَ)کیونکہ اس نے کفر کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہﷺنے فرمایا:’’کیا یہ بدر میں شریک نہیں ہوئے؟‘‘تو عمر نے کہا :کیوں نہیں!مگر انھوں نے عہد توڑ دیا ہے اور آپ کے خلاف آپ کے دشمن کی مدد کی ہے۔اس میں دلیل ہے کہ سیدنا عمر کے نزدیک ثابت شدہ بات یہی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا کفر اور ارتداد ہے۔
دوسری وجہ:رسول اللہﷺنے سیدنا عمر کےفہم کوبرقراررکھا۔آپ نے صرف حاطب رضی اللہ عنہ کا عذر ذکر فرما دیا۔
تیسری وجہ:حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا:
(مَافَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَّلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْاِسْلَامِ)سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ بات طے شدہ تھی کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد کرنا کفر و ارتداد اور کفر سے رضامندی ہے۔ (فتاوی الدین الخالص:221/9.)