• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کی علامات !!!!

شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
جناب من حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ بدری صحابی تھے اس لئے وہ اس فتویٰ کی زد میں نہیں آئے ۔ اس سلسلے میں بہت کچھ علماء اور محقیقین لکھ چکے ہیں شاید آپ کی معلومات اس بارے میں نہیں ہیں۔
علماے کرام نے کوئی بھی مسئلہ تشنہ نہیں چھوڑا ہر مسئلے پر لکھ چکے ہیں۔ آپ پھر اپنے قلم کو زحمت کیوں دے رہے ہیں۔ چپ کر کے بیٹھ جائیے اور پاکستانیوں کی لاشوں کو گرتا ہوا دیکھیے۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
جس قدر آزادی سے اس فورم پر تحریک طالبان کے خلاف لکھا جاتا ہے اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس فورم کو تحریک طالبان کے خلاف استعمال کیا جارھا ہے۔اور دوسری طرف جماعۃ الدوعوۃ کے متعلق معلومات شئیر کرنے پر ان کو فورم کی انتظامیہ کی جانب سے حذف کردیا جاتا ہے تو اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ فورم محض جماعۃ الدعوۃ کا پروپیگنڈہ سیل بن چکا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نفس مسئلہ پر بات کرنے کے بجائے فریق مخالف کو کسی جماعت یا فرقہ کا کارندہ قرار دے کر اس کی ہر بات کو اس جماعت کے بارے میں قائم کردہ اپنے نظریے کے تناظر میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس سلسلہ میں اگر اللہ کے بیان کردہ اس اصول:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا
کو سامنے رکھا جائے تو بہت سارے مسائل از خود ہو جائیں گے۔
اگر آپ کو آپ کے مخالف لوگوں کو کسی مخصوص جماعت کے ساتھ جوڑ کر اور تحریک طالبان کی غلط باتوں کا بے جا دفاع کر کے تسکین حاصل ہوتی ہے تو کیجئے۔
وہ لاکھوں مسلمان جو کفار کا نوالہ تر بن چکے ہیں ان کا حساب تو بہت جلد ان شاء اللہ ہو جائے گا۔
لیکن میرے ملک کی 43000 ہزار لاشوں کا حساب میں کس سے لوں؟؟
اگر آپ میری بات پر یقین کر سکتے ہیں تو بتا دوں کہ میرا جماعۃ الدعوۃ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
ارسلان بھائی نےلکھا:
نہیں بھائی، ثبوت کے بغیر کوئی بات نہیں مانی جائے گی، یوں تو کوئی بھی اٹھ کر کسی پر کوئی بات کر دے تو کیا مان لیا جائے؟
ارسلان بھائی : آپ کے نزدیک ثبوت کیا چیز یا کونسے ذرائع سے ملے ثبوت قابل اعتبار شمار ہوں گے؟؟؟

ارسلان بھائی آپ خود بیرون ملک بیٹھیں ہیں ، کبھی پاکستان آئیں آپ کو ان لوگوں سے ملاقات کروانا میری ذمہ داری ہے۔ شاید آپ اسے "ثبوت" کہتے ہیں۔
یہاں ہر پاکستانی اور بلخصوص سواتی اور وزیرستانی مسلمانوں کو ثبوت کی ضرورت نہیں ، اگر وہاں آپ کے ارد گرد کوئی خیبر پختون خواہ یا بلخصوص وزیرستان کے علاقے کا کوئی بھائی موجود ہے ، تو اس سے دریافت کر لیں کہ یہ مخلوق کیا ہے۔

جناب عالی ، بیرون ملک بیٹھ کر جس طرح آپ ثبوتوں کو کوئی ناپید چیز سمجھتے ہیں ، پاکستان میں وافر دستیاب ہیں۔

افسوس صد افسوس۔۔

اگر آپ درست بات جاننے کے اتنے متلاشی ہیں تو جلد از جلد وقت نکال کر ضرور پاکستان آئیں تاکہ آپ کو ان بیچاروں سے ملا سکوں جنکے آنکھوں کے تاروں کو تاوان (جہاد فنڈ) کے نام پر اٹھا کر ذبح کیا گیا اور کون کون سا تاجر انکی کھنڈی چھری سے کڑوروں روپے کا تاوان دے کر کیسے بچ نکلا، کس طرح کسی بچے کو مدرسے سے ہی جنت کی لالچ میں بھسم کرواتے اور پھر اس کو شہادت کی بغیر انشاء اللہ لکھی "سند شہادت " سے نوازتے ہیں جو کہ دنیا میں کہیں نہیں صرف یہاں وزیرستان میں ملتی ہے۔ اور بنک ڈکیتی کے ماہرین بھی آپ کو دکھائیں گے جو غریبوں کی جمع پونجی اپنے لئے حلال کئے ہوئے ہیں ۔اور جناب جو "بیچارے" وہاں ان کے ساتھ رہ کر اب تائب ہو چکے ہیں ، ذرا ان سے انکی داستانیں بھی سن لیں ، ، وہ محدث فورم پر نہیں آسکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں " سب ٹھیک" ہے۔۔۔ یہ تو صرف چند باتیں ہیں بھیا۔۔

اگر آپ کے نزدیک ثبوت یہ ہے کہ یہ "بد بخت " خود آپ کو فون کریں اور تسلیم کریں ، تو پھر آپ مانیں گے ورنہ نہیں تو پھر آپ اپنی جہد لاحاصل جاری رکھیئے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

ارسلان بھیا ، صرف کومنٹ لائیک کرنے سے بڑھ کر اس بارے کچھ عرض کیجئے ، اگر وقت اجازت دے تو؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھیا ، صرف کومنٹ لائیک کرنے سے بڑھ کر اس بارے کچھ عرض کیجئے ، اگر وقت اجازت دے تو؟
السلام علیکم
بھیا شاید میں کمنٹ نہ بھی کرتا لیکن آپ کی یہ بات پڑھ کر کمنٹ کر رہا ہوں۔
بھائی زیربحث موضوع پر کچھ کہنے سے پہلے بہتر ہے کہ میں اپنا موقف بتا دوں تاکہ کوئی بدگمانی نہ ہو۔

بھائی میرا تعلق نہ کسی تنظیم، نہ کسی فرقہ اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے ہے، میں ایک عام سا طالب علم ہوں الحمدللہ صرف کتاب و سنت کی پیروی کو نجات سمجھتا ہوں۔ اپنے آپ کو مسلم کہنے میں اچھا سمجھتا ہوں،میں نہ تو جماعۃ الدعوۃ کو گہرائی سے جانتا ہوں نہ کسی تحریک طالبان پاکستان کو، میرے نزدیک اہم ترین موضوع عقیدہ توحید ہے، کیونکہ جسے عقیدہ توحید سمجھ آ گیا اسے ساری سچائی سمجھ آ گئی۔
اس موضوع پر گفتگو پڑھ کر میں نے اس مسئلے کے بارے میں محدث فتوی سائٹ پر اسی موضوع کا ایک سوال میں نے پوچھا تھا کہ:
کیا اسامہ بن لادن اور اس کی جماعت کا تعلق خوارج سے ہے؟
تو اس کا بہترین جواب جو مفتی صاحب نے دیا اس کا مفہوم یہ تھا کہ:
جس چیز کے بارے میں قطعی معلومات نہ ہو ان پر کوئی فتوی لگانے یا کوئی موقف قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

میری سوالات کی لسٹ میں یہ سوال ابھی نہیں مل رہا، مل گیا تو یہاں لنک دے دوں گا۔ان شاءاللہ
میرے خیال سے یہ سوال کا مفتی صاحب نے بہترین جواب دیا۔ ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ارسلان بھائی نےلکھا:

اگر آپ درست بات جاننے کے اتنے متلاشی ہیں تو جلد از جلد وقت نکال کر ضرور پاکستان آئیں تاکہ آپ کو ان بیچاروں سے ملا سکوں جنکے آنکھوں کے تاروں کو تاوان (جہاد فنڈ) کے نام پر اٹھا کر ذبح کیا گیا اور کون کون سا تاجر انکی کھنڈی چھری سے کڑوروں روپے کا تاوان دے کر کیسے بچ نکلا، کس طرح کسی بچے کو مدرسے سے ہی جنت کی لالچ میں بھسم کرواتے اور پھر اس کو شہادت کی بغیر انشاء اللہ لکھی "سند شہادت " سے نوازتے ہیں جو کہ دنیا میں کہیں نہیں صرف یہاں وزیرستان میں ملتی ہے۔ اور بنک ڈکیتی کے ماہرین بھی آپ کو دکھائیں گے جو غریبوں کی جمع پونجی اپنے لئے حلال کئے ہوئے ہیں ۔اور جناب جو "بیچارے" وہاں ان کے ساتھ رہ کر اب تائب ہو چکے ہیں ، ذرا ان سے انکی داستانیں بھی سن لیں ، ، وہ محدث فورم پر نہیں آسکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں " سب ٹھیک" ہے۔۔۔ یہ تو صرف چند باتیں ہیں بھیا۔۔
؟
متفق۔۔۔!
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
ارسلان بھائی نے لکھا:
اس موضوع پر گفتگو پڑھ کر میں نے اس مسئلے کے بارے میں محدث فتوی سائٹ پر اسی موضوع کا ایک سوال میں نے پوچھا تھا کہ:
کیا اسامہ بن لادن اور اس کی جماعت کا تعلق خوارج سے ہے؟
تو اس کا بہترین جواب جو مفتی صاحب نے دیا اس کا مفہوم یہ تھا کہ:
جس چیز کے بارے میں قطعی معلومات نہ ہو ان پر کوئی فتوی لگانے یا کوئی موقف قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

میری سوالات کی لسٹ میں یہ سوال ابھی نہیں مل رہا، مل گیا تو یہاں لنک دے دوں گا۔ان شاءاللہ
بھائی آپ کے فتوی کے جواب کا تو علم نہیں ، یہ کچھ فتوی مجھے دریافت ہوئے ہیں ، امید ہیں تمام اراکین کے لئے مفید ہیں گے ۔ ان شاء اللہ۔
جب آپ کا لنک مل جائے تو پیش کیجئے گا۔ جزاک اللہ خیرا

اسامہ بن لادن سعودی حکومت کے بارے کہتے ہیں:
''میرا اگلا پیغام اہل حل و عقد اور حق گو علماء کے نام ہے...یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مجاہدین نے ابھی تک مکہ و مدینہ کی سر زمین پر قائم حکومت کے خلاف قتال شروع نہیں کیا۔اگر اس قتال کا آغاز ہوا تو اس کا سب سے پہلا نشانہ اس علاقے کے حکام اور کفر کے امام(یعنی آل سعود) بنیں گے۔ فی الحال ہم صرف صلیبی اتحاد کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔''
(اے اللہ! صرف تیرے لیے:ص ٨٥۔٨٦)​

ماہر بن ظافرالقحطانی کہتے ہیں:
''أفتی بن لادن شیخ المفتین ألم تروا أنھم حکموا غیر شرع أحکم الحاکمین فکانوا بہ من الکافرین.''
(حوار مع أھل التکفیر قبل التفجیر : ص٢​
“مفتی اعظم اسامہ بن لادن نے یہ کہتے ہوئے فتوی دیاہے: کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ سعودی حکمرانوں نے أحکم الحاکمین کی شریعت کے خلاف فیصلے کیے ہیں پس اس وجہ سے وہ کافر ہیں”۔


اسامہ اور القاعدہ پر سلفی علماء کا تبصرہ


سعودی عرب کے بارے سعودی سلفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ وہاں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح سوائے انتظامی معاملات کے کوئی باقاعدہ وضعی قانون نافذ نہیں ہے بلکہ قرآن وسنت کو سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی سلفی علماء کی اکثریت قانون سازی کے عمل ہی کو حرام قرار دیتی ہے' چاہے وہ فقہ حنبلی یا فقہ حنفی ہی کے مطابق کیوں نہ ہو۔ اورسعودی حکمرانوں کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ وہ اہل توحید میں سے ہیں اور توحید الوہیت کو نافذ کرنے والے ہیں۔

شیخ بن باز رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے لٹریچر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''أما ما یقوم بہ الآن محمد المسعری وسعد الفقیہ و أشباھھما من ناشری الدعوات الفاسدة الضالة فھذا بلا شک شر عظیم وھم دعاة شر عظیم وفساد کبیر والواجب الحذر من نشراتھم والقضاء علیھا واتلافھا وعدم التعاون معھم فی أی شیء یدعواا لی الفساد والشر والباطل والفتن لأن اللہ أمر بالتعاون علی البر والتقوی لا بالتعاون علی الفساد والشر ونشر الکذب ونشر الدعوات الباطلة التی تسبب الفرقة واختلال الأمن ا لی غیر ذلک؛ ھذا النشرات التی تصدر من الفقیہ أو من المسعری أو من غیرھما من دعاة الباطل ودعاة الشر والفرقة یجب القضاء علیھا واتلافھا وعدم الالتفات الیھا ویجب نصیحتھم وارشادھم للحق وتحذیرھم من ھذا الباطل ولا یجوز لأحد أن یتعاون معھم فی ھذا الشر ویجب أن ینصحوا وأن یعودواا لی رشدھم وأن یدعوا ھذا الباطل و یترکوہ ونصیحتی للمسعری والفقیہ وابن لادن وجمیع من یسلک سبیلھم أن یدعوا ھذا الطریق الوخیم وأن یتقوا اللہ ویحذروا نقمتہ وغضبہ وأن یعودواا لی رشدھم وأن یتوبوا الی اللہ مما سلف.'' (مجموع فتاوی ومقالات : جلد٩' ص ١٠٠
''فساد اور گمراہی پر مبنی افکار و دعوت پھیلانے والوں میں سے محمد المسعری اور سعد الفقیہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں جواپنی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔بلاشبہ ان کی دعوت ایک بہت بڑا شر ہے اور یہ لوگ بھی ایک بڑے شر اور فتنے و فساد کے داعی ہیں۔پس یہ لازم ہے کہ ان کی تحریروں سے بچا جائے اور ان کے نظریات کے خلاف فیصلہ کیا جائے اور ان کی کتابوں کو تلف کیا جائے اور ان کے ساتھ ہر اس کام میں عدم تعاون کیا جائے جو فتنے، فساد، باطل اور شر کی طرف لے کر جانے والاہے۔کیونکہ اللہ تعالی نے نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیا ہے اور فساد، شر، جھوٹ کی اشاعت اورایسے باطل افکار جو تفرقے اور امن و امان کی خرابی وغیرہ کا سبب بنتے ہوں، کی اشاعت سے منع فرمایا ہے۔ یہ تحریریں جو سعد الفقیہ اور مسعری وغیرہ، جو شر،باطل اور امت میں تفرقے کے داعی ہیں، کی طرف سے شائع ہوتی ہیں، ان تحریروں کے خلاف فتوی دینااور ان کو تلف کرنا اور ان کی طرف عدم التفات واجب ہے۔اور ان لوگوں کو نصیحت کرنا اور ان کی حق بات کی طرف رہنمائی اور ان کو ان باطل افکار سے ڈرانا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اس شرمیں تعاون کرے اور ان لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ نصیحت حاصل کریں اورہدایت کے رستے کی طرف پلٹ آئیں اور اس باطل کو چھوڑ دیں۔مسعری، فقیہ اور اسامہ بن لادن اور جوشخص بھی ان کے رستے کو اختیار کرے، کو میری (یعنی شیخ بن باز کی)نصیحت یہ ہے کہ وہ اس گندے رستے کو چھوڑ دیں اور اللہ سے ڈریں اور اللہ کے انتقام اور غضب سے بچیں اور رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئیں اور جوکچھ ہو چکا اس سے اللہ کی جناب میں توبہ کریں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کے ساتھ احسان کا وعدہ فرمایا ہے۔''

شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور عیوب کے بارے رائج لٹریچر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''ولقد انتشر فی الآونة الآخیرة نشرات تأتی من خارج البلاد وربما تکتب فی داخل البلاد ' فیھا سب ولاة الأمور والقدح فیھم ولیس فیھا ذکر أی خلصة من خصال الخیر التی یقومون بھا وھذہ بلا شک من الغیبة و ذا کانت من الغیبة فقراء تھا حرام وکذلک تداولھا حرام ولا یجوز أن یتداولھا ولا أن ینشرھابین الناس وعلی من رآھا أن یمزقھا أو یحرقھا لأن ھذہ تسبب الفتن تسبب الفوضی تسبب الشر ولقد حذر مفتی ھذہ المملکة شیخنا عبد العزیز بن باز وفقہ اللہ ورحمہ بالدنیا والآخرة.''
(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٢١
''آج کل مملکت عربیہ اور دوسرے ممالک سے کچھ ایسی چیزیں نشر ہو رہی ہیں جن میں سعودی حکمرانوں کو بر ابھلا کہا جاتا ہے اور ان پر طعن کیا جاتا ہے اور ان نشریات میں ان کی کسی ایسی بھلائی یا اچھی خصلت کا تذکرہ تک نہیں ہوتا، جسے وہ قائم کرتے ہیں اور یہ بلاشبہ غیبت میں شامل ہے۔ پس جبکہ یہ غیبت ہے تو اس کا پڑھنا بھی حرام ہے اور اسی طرح اس کا آگے پھیلانا بھی حرام ہے۔
ایسی نشریات کا پھیلانا یا ان کو عوام الناس کے مابین عام کرنا جائز نہیں ہے اور جو بھی شخص ایسی نشریات دیکھے وہ انہیں پھاڑ دے یا پانی میں بہا دے کیونکہ یہ فتنے، شر اور انتشار کا سبب بنتی ہیں اور مملکت عربیہ کے مفتی اعظم شیخ بن باز اس بارے متنبہ کر چکے ہیں کہ ان نشریات کو پھاڑ دینا چاہیے۔ اللہ شیخ پر دنیا اور آخرت میں رحم فرمائے۔

شیخ صالح الفوزان، اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
'' السوال:
لایخفی علیکم تاثیر أسامہ بن لادن علی الشباب فی العالم ' فالسوال ھل یسوغ لنا أن نصفہ أنہ من الخوارج لا سیما أنہ یؤید التفجیرات فی بلادنا وغیرھا؟
الجواب:
کل من اعتق ھذا الفکر ودعا لیہ وحرض علیہ فھو من الخوارج بقطع النظر عن اسمہ وعن مکانہ فھذہ قاعدة أن کل ما دعا الی ھذا الفکر و ھو الخروج علی ولاة الأمور وتکفیر واستباحة دماء المسلمین فھو من الخوارج.''

(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٢٥​
''سوال:
آپ پر نوجوان نسل میں اسامہ بن لادن کی شخصیت کی تاثیر مخفی نہیں ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان کو خوارج میں شمار کریں خاص طورپر اس وجہ سے کہ وہ ہمارے ممالک اور اس کے علاوہ مسلمان ممالک میں خود کش دھماکوں کی تائید کرتے ہیں۔
جواب:
جس کا بھی یہ فکر ہو اور جو بھی اس فکر کا داعی ہو اور اس کی لوگوں کو ترغیب دے تو خوارج میں سے ہے ، چاہے اس کا نام یا اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس فکر کا داعی ہو یعنی مسلمانوں حکمرانوں کے خلاف خروج ، ان کو کافر قرار دینے اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتا ہو تو وہ خارجی ہے۔''

شیخ عبد العزیز آل الشیخ' اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
السوال :
ھل یجوز أن یقال أن ابن لادن ضال وھل یجوز للمسلمین الذین لیس عندھم علم کاف أن یستمعوا الی خطابتہ فی الأنترنت؟
الجواب:

یا اخوانی ھؤلاء ھم سبب الشر والفساد وھم لا شک ضالون فی طریقتھم.'' (فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ١٨' -١٩
سوال:
کیا یہ جائز ہے کہ یہ کہاجائے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کا فتوی دینے کی وجہ سےاسامہ بن لادن ایک گمراہ آدمی ہے اور کیا جاہل مسلمانوں کے لیے یہ درست ہے کہ وہ انٹرنیٹ وغیرہ پر اس کےایسےخطابات سنیں جو مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ا ن کے خلاف خروج پر ابھارتے ہوں؟
جواب:
میرے بھائیو! یہ لوگ شر و فساد کی جڑ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہیں کہ یہ گمراہ ہیں۔''

ہیئہ کبار العلماء نے بھی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے قائلین کو متنبہ اورخبردار کیا ہے۔
شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں:
السوال :
لماذا لا تصدر فتاوی من کبار العلماء تحذر من رؤوس الخوارج مثل بن لادن والفقیہ والظواھری حتی لا یغتر بھم کثیر من الناس?.
الجواب :
ظھر من ھیئة کبار العلماء عدة قرارات بالتندید من ھذہ الأعمال و أصحابھا .'' ( فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر :ص ٢٥
سوال:
کبار علماء کی طرف سے ایسے فتاوی جاری کیوں نہیں ہوتے جن میں خارجیوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن، سعد الفقیہ اور ایمن الظواہری وغیرہ کے بارے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت دھوکے کا شکار نہ ہو جائے۔
جواب:
ہیئہ کبار العلماء کی طرف سے ان اصحاب اور ان کے اعمال و افعال کی مذمت میں کئی ایک قرار دادیں پاس ہو چکی ہیں۔''

شیخ صالح اللحیدان، اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کی تحریک کے بارے فرماتے ہیں:
السوال:
''ما موقف المسلم من تنظیم القاعدة ومنھجھا الذی یتزعمہ أسامة بن لادن.
الجواب:
لا شک أن ھذا التنظیم لا خیر فیہ ولا ھو فی سبیل صلاح وفلاح...ثم ھذا التنظیم ھل نظم لقتال الکفار وخراجھم من بلاد الاسلام والتوجہ الی البلاد التی ترزح تحت دول غیرا سلامیة لنشر الدین فیھا أو ھذہ القاعدة تحت الشعوب فی أوطانھا علی الخروج علی سلطانھا لیحصل بذلک سفک دماء وھدار حقوق وتدمیر منشآت واشاعة خوف.''(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٣٠
سوال:۔
'' ایک مسلمان کی القاعدہ نامی تنظیم اور اس کے منہج کے بارے کیا رائے ہونی چاہیے جس کی سربراہی جناب اسامہ بن لادن فرما رہے ہیں؟
جواب:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس تنظیم میں کوئی خیر نہیں ہے اور نہ ہی یہ اصلاح اور فلاح کے رستے پر ہے... سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنظیم کفار سے قتال اور ان کافروں کو مسلمان ممالک سے نکالنے یا ان اسلامی ممالک کی طرف توجہ دینے کے لیے کہ جو کافر حکومتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تاکہ ان میں دین اسلام کی نشر و اشاعت کی جائے، منظم کی گئی ہے یا اس تنظیم القاعدہ کا اصل کام مسلمان ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج ہے تاکہ اس سے دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بہے،حقوق تلف ہوں، تنصیبات تباہ ہوں اور مسلمان معاشروں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔''

ان فتاوی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی مسلمان حکمرانوں کی تکفیراور ان کے خلاف خروج کی تحریک کو سلفی اہل علم کے طبقے میں ذرہ برابر بھی اہمیت حاصل نہیں ہے۔
انتہائی اہم
بلاشبہ شیخ اسامہ بن لادن اور جہادی تحریکوں کے رہنماؤں کی امریکہ اور یورپین ممالک کے ظلم و کفرکے خلاف قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور کافرانہ ریاستوں کے خلاف ان کے اعمال و افعال کو ہمیشہ جمہور علماء کی تائید حاصل رہی ہے لیکن جب سے ان حضرات نے اپنے فتاوی کا رخ امریکہ اور یورپ سے موڑ کر مسلمان حکمرانوں کی طرف بالعموم اور سعودی شاہی خاندان کی طرف بالخصوص کیا ہے' اس وقت سے یہ علماء کے ہاں ایک متنازع شخصیت بن گئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے اس عمل کو تقریباً جمیع سلفی علماء ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اس جہاد کو فساد قرار دیتے ہیں۔

جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اس جواب پر مجھے ذرہ برابر حیرت نہیں ہوئی۔
علماے کرام نے کوئی بھی مسئلہ تشنہ نہیں چھوڑا ہر مسئلے پر لکھ چکے ہیں۔ آپ پھر اپنے قلم کو زحمت کیوں دے رہے ہیں۔ چپ کر کے بیٹھ جائیے اور پاکستانیوں کی لاشوں کو گرتا ہوا دیکھیے۔
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
انتہائی اہم

بلاشبہ شیخ اسامہ بن لادن اور جہادی تحریکوں کے رہنماؤں کی امریکہ اور یورپین ممالک کے ظلم و کفرکے خلاف قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور کافرانہ ریاستوں کے خلاف ان کے اعمال و افعال کو ہمیشہ جمہور علماء کی تائید حاصل رہی ہے لیکن جب سے ان حضرات نے اپنے فتاوی کا رخ امریکہ اور یورپ سے موڑ کر مسلمان حکمرانوں کی طرف بالعموم اور سعودی شاہی خاندان کی طرف بالخصوص کیا ہے' اس وقت سے یہ علماء کے ہاں ایک متنازع شخصیت بن گئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے اس عمل کو تقریباً جمیع سلفی علماء ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اس جہاد کو فساد قرار دیتے ہیں۔

جزاک اللہ خیرا
ماشاء اللہ القول السدید بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔میں اب تک کی تحریروں سے یہ ہی سمجھ پایا ہوں کہ مسلمان ملکوں کے حکمران( جو کلمہ کا اقرار کرتے ہوں) چاہے کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہوں اُن کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے ۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا بھائی جان
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
القول السدید آپ کی خواہش پر:

حاطب رضی اللہ عنہ پر کفر کا حکم کیوں نہیں لگا ؟
اگر حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل تولّی یا موالاتِ کبرٰی اور نواقضِ اسلام کے زمرے میں آتا ہے، یعنی کفر ہے تو پھر اس سے بڑھ کر تعاون کی جو بھی صورت ہو گی وہ بالاولیٰ کفر ہو گی………لیکن حاطب اپنے اس فعل میں متاول تاویل کا سہارا لیے ہوئے تھے ، اِس لیے ان پر کفر کا حکم نہیں لگا، کیونکہ معتبر تاویل بھی کفر کا حکم منطبق ہونے میں ایک مانع ہوا کرتی ہے ۔حافظ ابن حجر اور علامہ مبارکپوری﷮فرماتے ہیں: (وَعُذْرُ حَاطِبٍ مَّاذَکَرَہٗ فَاِنَّہٗ صَنَعَ ذٰلِکَ مُتَأَوِّلًا أَنْ لَّاضَرَرَ فِیہِ)’’حاطب رضی اللہ عنہ اپنے اِس فعل میں متاول تھے،ان کا خیال تھا کہ اس مراسلت سے مسلمانوں کو کوئی ضرر و نقصان نہیں ہوگا، اِسی لیے ان کے عذرکو قبول کر لیا گیا ۔

۔ نامور سلفی عالم شیخ علوی بن عبد القادر السقاف (المشرف العام علی موقع الدرر السنیة)حاطب رضی اللہ عنہ کے قصّے کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اِس بات کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اہلِ سنت کے کسی بھی عالم نے یہ نہیں کہا کہ حاطب رضی اللہ عنہ کافر ہو گئے تھے،یا ان سے صادر ہونے والا فعل موالات یا گناہ کے زمرے میں نہیں آتا،یا مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے تعاون کرنا کفر نہیں ہے، لہٰذا جب تمام اِس بات پر متفق ہیں تو پھر کسی کو اختلاف اور شر کی کوئی نئی قسم ایجاد نہیں کرنی چاہیے………‘‘ (دیکھیے : مسئلہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ۔ الدرر السنية)

حاطب رضی اللہ عنہ خود بھی مسلمانوں کی جاسوسی کرنے کو کفر و ارتداد سمجھتے تھے۔نبی کریمﷺ کے استفسار پر انھوں نے اپنے متعلق فرمایا:
(لَمْ أَفْعَلْہُ کُفْرًا وَّلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي،وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْاِسْلَامِ)
’’میں نے یہ کام کفراور اپنے دین سے مرتد ہو کر نہیں کیا اور نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہو کر کیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری رقم:4890، و صحیح مسلم: 6351.)

ایک روایت میں ہے:
(لَاتَعْجَلْ وَاللّٰہِ!مَاکَفَرْتُ وَلَا ازْدَدْتُ لِلْاِسْلَامِ الَّا حُبًّا)
’’میرے بارے میں جلدی مت کیجئے!اللہ کی قسم میں نے کفر نہیں کیا، بلکہ اسلام کے لیے میری محبت اور زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘(صحیح البخاری:رقم 3081.)

ایک اور روایت میں ہے:
(أَمَا اِنِّي لَمْ أَفْعَلْہُ غِشًّا لِّرَسُولِ اللّٰہِﷺ وَلَا نِفَاقًا، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللّٰہَ مُظْھِرٌ رَّسُولَہٗ)
’’میں نے یہ کام رسول اللہﷺکو دھوکہ دیتے ہوئے نہیں کیا اور نہ نفاق ہی کی وجہ سے کیا ہے، مجھے علم ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو غالب کرے گا۔‘‘(مسند ابی یعلی الموصلی رقم:2261.)

ایک اور روایت میں ہے:(وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِﷺ ! مَا کَتَبْتُہُ ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي)
’’اللہ کی قسم!اے اللہ کے رسول!میں نے اپنے دین سے مرتد ہو کر یہ (خط )نہیں لکھا۔‘‘(مسند ابی یعلی الموصلی رقم:394.)

بنابریں اگر یہ فعل کفرو ارتداد نہ ہوتا اور زنا، چوری،شراب نوشی اور قذف وغیرہ جیسے عام کبیرہ گناہوں جیسا ہوتا تو ان کا یہ کہنا کوئی معقول معنی نہ رکھتا۔مثلاً کوئی شخص مذکورہ کبیرہ گناہ کرنے کے بعد یہ نہیں کہتا کہ میں نے یہ گناہ کفر و ارتداد کی وجہ سے نہیں کیے،کیونکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ ان گناہوں کا مرتکب کافر نہیں ہوتا جیسا کہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ جس چیز کا عقل و فہم میں کوئی تصور ہی نہ ہواور وہ فی الواقع موجود بھی نہ ہو تو اس کی نفی کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہے ۔نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک بھی یہ فعل کفر و ارتداد ہی تھا۔ اسی لیے عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’مجھے اجازت دیجیے ، میں اس منافق کی گردن اڑادوں۔‘‘یہ الگ بات ہے کہ رسول اللہﷺنے حاطب رضی اللہ عنہ کے دلی طور پر مومن ہونے اور بدری صحابی ہونے کی وجہ سے من جانب اللہ مغفرت کی گواہی دے دی تھی۔

اس کے علاوہ رسول اللہﷺنے حاطب رضی اللہ عنہ کے نیک نیت اور سچا ہونے کی شہادت بھی خود ہی دی تھی۔آپ نے اُن کا جواب سن کر فرمایا :’’حاطب رضی اللہ عنہ نے تم سے جو کہا ہے ، سچ کہا ہے۔‘‘آپ نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تھی بلکہ وحی کی روشنی میں فرمائی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى،إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى،﴾
’’اور نہ وہ اپنی خواہش ہی سے بولتا ہے ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔
اب نبیﷺکے علاوہ کسی اور کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دل کے حالات جان سکے کیونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے،اس لیے عمر نے تو ظاہری عمل کی وجہ سے حاطب رضی اللہ عنہ پر کفر اورقتل کا حکم لگایا جبکہ رسول اللہﷺنے بذریعہ وحی دل کی حالت جان کر اُن کے عذر کو قبول فرمایا۔ بنابریں اب حاطب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور سے یہ حکم موقوف نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم ظاہرکے مکلف ہیں اور دل کے حالات نہیں جان سکتے ، نیز وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔لہٰذا اب ہمیں موجودہ جاسوسوں کے باطنی طور پر سچا ہونے کا علم نہیں ہو سکتا اور نہ یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی جاسوسی کفر اور ارتداد کی وجہ سے نہیں کی۔ اب جس نے بھی یہ کام کیا ، اس پر وہی ظاہری حکم لگے گا جو عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا تھا ، یعنی کفر اور قتل۔

مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا عبد الرحمن کیلانی ﷫اپنی تفسیر میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے قصے کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کر دے تو وہ کافر نہیں ہو جاتا۔مسلمان ہی رہتا ہے۔البتہ اس کا یہ جرم قابلِ مواخذہ ضرور ہے۔لیکن اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام کر جائے تو وہ منافق بھی ہے، کافر بھی ہو جاتا ہے اور قابلِ گردن زدنی بھی، اس کا یہ جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ (تیسیر القرآن:424/4.)

غور فرمائیں مولانا عبد الرحمن کیلانی ﷫ نے اپنی مذکورہ عبارت میں دو صورتیں ذکر کی ہیں۔ پہلی صورت میں کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کرتا ہے تو اِس سے وہ کافر نہیں ہو جاتا ، البتہ اْنہوں نے اِس جرم کو قابلِ مواخذہ قرار دیا ہے۔مگر دوسری صورت یہ بیان کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام، یعنی جنگی راز وغیرہ فاش کرے گا تو اِس سے نا صرف وہ کافر و منافق ہوگا بلکہ قابلِ گردن زدنی بھی ہو جاتا ہے۔

شیخ امین اللہ پشاوری اپنے فتاوی الدین الخالص میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:سیدنا حاطب کا یہ قصہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے تعاون اور ان کی مدد کرنے میں اصل یہی ہے کہ یہ ارتداد اور دین اسلام سے خارج ہونا ہے۔اس کی مندرجہ ذیل تین وجوہات ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول:(دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ ھٰذَا الْمُنَافِقِ)’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن تن سے جدا کر دوں۔‘‘ایک روایت کے الفاظ ہیں:(فَقَدْ کَفَرَ)کیونکہ اس نے کفر کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہﷺنے فرمایا:’’کیا یہ بدر میں شریک نہیں ہوئے؟‘‘تو عمر نے کہا :کیوں نہیں!مگر انھوں نے عہد توڑ دیا ہے اور آپ کے خلاف آپ کے دشمن کی مدد کی ہے۔اس میں دلیل ہے کہ سیدنا عمر کے نزدیک ثابت شدہ بات یہی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا کفر اور ارتداد ہے۔

دوسری وجہ:رسول اللہﷺنے سیدنا عمر کےفہم کوبرقراررکھا۔آپ نے صرف حاطب رضی اللہ عنہ کا عذر ذکر فرما دیا۔

تیسری وجہ:حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا:(مَافَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَّلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْاِسْلَامِ)سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ بات طے شدہ تھی کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد کرنا کفر و ارتداد اور کفر سے رضامندی ہے۔ (فتاوی الدین الخالص:221/9.)
کس فتوی زد میں نہیں آئے ؟؟؟
کفر کے فتوی کے یا حد کے فتوی کی ذد میں ، ذرا وضاحت کرنا پسند فرمائیں ، تاکہ ہماری ناقص معلومات میں اضافہ ہو سکے۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
یہ تحریر برادرابوالحسن علوی کی ہےنہ کہ القول السدید کی

ماشاء اللہ القول السدید بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔میں اب تک کی تحریروں سے یہ ہی سمجھ پایا ہوں کہ مسلمان ملکوں کے حکمران( جو کلمہ کا اقرار کرتے ہوں) چاہے کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہوں اُن کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے ۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا بھائی جان
 
Top