القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائی آپ نے جو فتوی کاپی پیسٹ کیا ، میں ممنون ہوں ۔ کیونکہ مجھے اس میں آسانی ہوگئی کہ میں حق بات کی وضاحت کر سکوں ، بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیئے کہ اللہ نے آپ ذریعے ہی یہ توفیق مجھے بخشی ۔۔ جزاک اللہ
جناب میں چند باتیں عرض کروں گا :
پہلی بات:
آپ کے پیش کردہ خود ساختہ "فتوی" میں انتہا کا تضاد ہے ، جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ یہ "فتوی" کسی عالم نے نہیں بلکہ دن رات ایک کر کے کسی عامی نے لکھا اور جمع ترتیب دیا ہے۔ کیوں؟
کیوں کہ کوئی عالم اتنی بھیانک غلطی نہیں کرسکتا ۔۔
کونسی غلطی؟
جناب آپ کے "فتوی" کے اقتباسات ایک دوسرے سے ہی متضاد ہیں ، کیا آپ نے پیسٹ کرنے سے پہلے خود نظر نہیں کی؟؟؟
اور آپ نے اندھے اعتماد کے ساتھ یہاں لگا دیا؟؟؟
آپ کے "فتوی" کی ایک عبارت :
وہ کہہ رہے ہیں میں نے کفر نہیں کیا ، مگر ہمارے "مفتی" صاحب مصر ہیں کہ نہیں انہوں نے کفر ہی کیا ہے ۔۔۔ عجیب۔۔۔
اور مزید حاطب رضی اللہ عنہ کے نزدیک جب تک کفر کا تعاون کسی کافر کے کفر پر راضی ہو کر نہ کیا جائے تو ارتداد نہیں بنتا جیسے کہ خود انکے اقوال اس پر شاہد ہیں۔
اور اس ضمن میں آخری بات کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ میں نے یہ کام دین کو چھوڑ کر یا مرتد بن کر نہیں کیا " یہ کام کفراور اپنے دین سے مرتد ہو کر نہیں کیا" یعنی میں نے اسلام سے محبت کے باوجود کیا ہے۔ اس میں سے یہ معنی کشید کرنا کہ حاطب رضی اللہ اپنے عمل کو کفر قرار دے رہے ہیں پرلے درجے کی جہالت و حماقت ہے۔
جب کہ عبارت سے واضح ہے کہ وہ اس چیز کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ یہ کام کرنے سے پہلے مرتد نہیں ہوئے نہ کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کام ارتداد ہے۔ افلا تعقلون؟
دوسری بات:
سمیر نے لکھا:
پہلی بات کیوں کہ وہ عمل کفر تھا ہی نہیں کیوں کہ :
اگر آج کوئی مسلمان یہ کام کرے جو حاطب رضی اللہ نے کیا اور وہ بھی یہی زبان سے کہیے کہ میں نے یہ کفر یا ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ میں مسلمان ہوں تو آپ کیا حکم لگائیں گے ایسے شخص پر؟؟؟
اور آپ نے پھر خود لکھا:
کمال ہے جناب: ابھی سب شور مچارہے تھے کہ کفر سے تعاون ہر حال میں کفر و مطلق ارتداد ہے، کوئی قلبی و غیر قلبی کی قید نہیں مگر اب خود ہی "تاویل" کا موانع بھی لے آئے!!! دلچسپ!
تیسری بات:
سمیر خان نے لکھا:
میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائی آپ نے جو فتوی کاپی پیسٹ کیا ، میں ممنون ہوں ۔ کیونکہ مجھے اس میں آسانی ہوگئی کہ میں حق بات کی وضاحت کر سکوں ، بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیئے کہ اللہ نے آپ ذریعے ہی یہ توفیق مجھے بخشی ۔۔ جزاک اللہ
جناب میں چند باتیں عرض کروں گا :
پہلی بات:
آپ کے پیش کردہ خود ساختہ "فتوی" میں انتہا کا تضاد ہے ، جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ یہ "فتوی" کسی عالم نے نہیں بلکہ دن رات ایک کر کے کسی عامی نے لکھا اور جمع ترتیب دیا ہے۔ کیوں؟
کیوں کہ کوئی عالم اتنی بھیانک غلطی نہیں کرسکتا ۔۔
کونسی غلطی؟
جناب آپ کے "فتوی" کے اقتباسات ایک دوسرے سے ہی متضاد ہیں ، کیا آپ نے پیسٹ کرنے سے پہلے خود نظر نہیں کی؟؟؟
اور آپ نے اندھے اعتماد کے ساتھ یہاں لگا دیا؟؟؟
آپ کے "فتوی" کی ایک عبارت :
جبکہ بعد میں خود اسکی حاطب رضی اللہ عنہ سے تردید بھی پیش کر دی :اگر حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل تولّی یا موالاتِ کبرٰی اور نواقضِ اسلام کے زمرے میں آتا ہے، یعنی کفر ہے تو پھر اس سے بڑھ کر تعاون کی جو بھی صورت ہو گی وہ بالاولیٰ کفر ہو گی
جناب اس میں تو حضرت حاطب رضی اللہ عنہ اپنے قلبی تعلق اور قلبی حالت کو اسلام پر قرار دے رہے ہیں کہ میں نے ایسا "کفر پر راضی" ہو کر نہیں لکھا۔(لَمْ أَفْعَلْہُ کُفْرًا وَّلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي،وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْاِسْلَامِ)
’’میں نے یہ کام کفراور اپنے دین سے مرتد ہو کر نہیں کیا اور نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہو کر کیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری رقم:4890، و صحیح مسلم: 6351.)
ایک روایت میں ہے:
(لَاتَعْجَلْ وَاللّٰہِ!مَاکَفَرْتُ وَلَا ازْدَدْتُ لِلْاِسْلَامِ الَّا حُبًّا)
’’میرے بارے میں جلدی مت کیجئے!اللہ کی قسم میں نے کفر نہیں کیا، بلکہ اسلام کے لیے میری محبت اور زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘(صحیح البخاری:رقم 3081.)
(أَمَا اِنِّي لَمْ أَفْعَلْہُ غِشًّا لِّرَسُولِ اللّٰہِﷺ وَلَا نِفَاقًا، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللّٰہَ مُظْھِرٌ رَّسُولَہٗ)
’’میں نے یہ کام رسول اللہﷺکو دھوکہ دیتے ہوئے نہیں کیا اور نہ نفاق ہی کی وجہ سے کیا ہے، مجھے علم ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو غالب کرے گا۔‘‘(مسند ابی یعلی الموصلی رقم:2261.)
ایک اور روایت میں ہے:(وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِﷺ ! مَا کَتَبْتُہُ ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي)
’’اللہ کی قسم!اے اللہ کے رسول!میں نے اپنے دین سے مرتد ہو کر یہ (خط )نہیں لکھا۔‘‘(مسند ابی یعلی الموصلی رقم:394.)
وہ کہہ رہے ہیں میں نے کفر نہیں کیا ، مگر ہمارے "مفتی" صاحب مصر ہیں کہ نہیں انہوں نے کفر ہی کیا ہے ۔۔۔ عجیب۔۔۔
اور مزید حاطب رضی اللہ عنہ کے نزدیک جب تک کفر کا تعاون کسی کافر کے کفر پر راضی ہو کر نہ کیا جائے تو ارتداد نہیں بنتا جیسے کہ خود انکے اقوال اس پر شاہد ہیں۔
اور اس ضمن میں آخری بات کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ میں نے یہ کام دین کو چھوڑ کر یا مرتد بن کر نہیں کیا " یہ کام کفراور اپنے دین سے مرتد ہو کر نہیں کیا" یعنی میں نے اسلام سے محبت کے باوجود کیا ہے۔ اس میں سے یہ معنی کشید کرنا کہ حاطب رضی اللہ اپنے عمل کو کفر قرار دے رہے ہیں پرلے درجے کی جہالت و حماقت ہے۔
جب کہ عبارت سے واضح ہے کہ وہ اس چیز کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ یہ کام کرنے سے پہلے مرتد نہیں ہوئے نہ کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کام ارتداد ہے۔ افلا تعقلون؟
دوسری بات:
سمیر نے لکھا:
اس کا جواب میرے پیارے پیارے اور میٹھے اسلامی بھائی نے خود ہی پیش کر دیا اور سارے موضوع کو سمیٹ کر رکھ دیا، میں ممنون ہوں مدنی بھائی کا۔ :)حاطب رضی اللہ عنہ پر کفر کا حکم کیوں نہیں لگا ؟
پہلی بات کیوں کہ وہ عمل کفر تھا ہی نہیں کیوں کہ :
تو جناب یہی تو ہم کہتے ہیں کہ کفر کا حکم تب لگے گا جب دلی طور پر بندہ مومن نہ رہا ہو اور کفر پر راضی ہو جائے۔اب بتائیے کیا آپ کے پاس کوئی آلہ ہے جو آج کے مسلمانوں کے دل کی کیفیت جان سکے؟یہ الگ بات ہے کہ رسول اللہﷺنے حاطب رضی اللہ عنہ کے دلی طور پر مومن ہونے اور بدری صحابی ہونے کی وجہ سے من جانب اللہ مغفرت کی گواہی دے دی تھی۔
اگر آج کوئی مسلمان یہ کام کرے جو حاطب رضی اللہ نے کیا اور وہ بھی یہی زبان سے کہیے کہ میں نے یہ کفر یا ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ میں مسلمان ہوں تو آپ کیا حکم لگائیں گے ایسے شخص پر؟؟؟
اور آپ نے پھر خود لکھا:
لیکن حاطب اپنے اس فعل میں متاول تاویل کا سہارا لیے ہوئے تھے ، اِس لیے ان پر کفر کا حکم نہیں لگا، کیونکہ معتبر تاویل بھی کفر کا حکم منطبق ہونے میں ایک مانع ہوا کرتی ہے
کمال ہے جناب: ابھی سب شور مچارہے تھے کہ کفر سے تعاون ہر حال میں کفر و مطلق ارتداد ہے، کوئی قلبی و غیر قلبی کی قید نہیں مگر اب خود ہی "تاویل" کا موانع بھی لے آئے!!! دلچسپ!
تیسری بات:
سمیر خان نے لکھا:
جناب نے پھر خود ہی اسکی تردید بھی فرما دی:اگر حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل تولّی یا موالاتِ کبرٰی اور نواقضِ اسلام کے زمرے میں آتا ہے، یعنی کفر ہے تو پھر اس سے بڑھ کر تعاون کی جو بھی صورت ہو گی وہ بالاولیٰ کفر ہو گی
جناب عالی اب ، آپ کا "کفر سے تعاون " قلبی و غیر قلبی ہر حال میں کفر ارتداد والا فتوی کہاں جائے گا؟؟؟؟مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا عبد الرحمن کیلانی اپنی تفسیر میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے قصے کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کر دے تو وہ کافر نہیں ہو جاتا۔مسلمان ہی رہتا ہے۔البتہ اس کا یہ جرم قابلِ مواخذہ ضرور ہے۔لیکن اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام کر جائے تو وہ منافق بھی ہے، کافر بھی ہو جاتا ہے اور قابلِ گردن زدنی بھی، اس کا یہ جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ (تیسیر القرآن:424/4.)
غور فرمائیں مولانا عبد الرحمن کیلانینے اپنی مذکورہ عبارت میں دو صورتیں ذکر کی ہیں۔ پہلی صورت میں کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کرتا ہے تو اِس سے وہ کافر نہیں ہو جاتا ، البتہ اْنہوں نے اِس جرم کو قابلِ مواخذہ قرار دیا ہے۔مگر دوسری صورت یہ بیان کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام، یعنی جنگی راز وغیرہ فاش کرے گا تو اِس سے نا صرف وہ کافر و منافق ہوگا بلکہ قابلِ گردن زدنی بھی ہو جاتا ہے۔