• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کی علامات !!!!

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائی آپ نے جو فتوی کاپی پیسٹ کیا ، میں ممنون ہوں ۔ کیونکہ مجھے اس میں آسانی ہوگئی کہ میں حق بات کی وضاحت کر سکوں ، بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیئے کہ اللہ نے آپ ذریعے ہی یہ توفیق مجھے بخشی ۔۔ جزاک اللہ

جناب میں چند باتیں عرض کروں گا :

پہلی بات:
آپ کے پیش کردہ خود ساختہ "فتوی" میں انتہا کا تضاد ہے ، جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ یہ "فتوی" کسی عالم نے نہیں بلکہ دن رات ایک کر کے کسی عامی نے لکھا اور جمع ترتیب دیا ہے۔ کیوں؟
کیوں کہ کوئی عالم اتنی بھیانک غلطی نہیں کرسکتا ۔۔
کونسی غلطی؟
جناب آپ کے "فتوی" کے اقتباسات ایک دوسرے سے ہی متضاد ہیں ، کیا آپ نے پیسٹ کرنے سے پہلے خود نظر نہیں کی؟؟؟
اور آپ نے اندھے اعتماد کے ساتھ یہاں لگا دیا؟؟؟


آپ کے "فتوی" کی ایک عبارت :
اگر حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل تولّی یا موالاتِ کبرٰی اور نواقضِ اسلام کے زمرے میں آتا ہے، یعنی کفر ہے تو پھر اس سے بڑھ کر تعاون کی جو بھی صورت ہو گی وہ بالاولیٰ کفر ہو گی
جبکہ بعد میں خود اسکی حاطب رضی اللہ عنہ سے تردید بھی پیش کر دی :
(لَمْ أَفْعَلْہُ کُفْرًا وَّلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي،وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْاِسْلَامِ)
’’میں نے یہ کام کفراور اپنے دین سے مرتد ہو کر نہیں کیا اور نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہو کر کیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری رقم:4890، و صحیح مسلم: 6351.)
ایک روایت میں ہے:
(لَاتَعْجَلْ وَاللّٰہِ!مَاکَفَرْتُ وَلَا ازْدَدْتُ لِلْاِسْلَامِ الَّا حُبًّا)
’’میرے بارے میں جلدی مت کیجئے!اللہ کی قسم میں نے کفر نہیں کیا، بلکہ اسلام کے لیے میری محبت اور زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘(صحیح البخاری:رقم 3081.)

(أَمَا اِنِّي لَمْ أَفْعَلْہُ غِشًّا لِّرَسُولِ اللّٰہِﷺ وَلَا نِفَاقًا، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللّٰہَ مُظْھِرٌ رَّسُولَہٗ)
’’میں نے یہ کام رسول اللہﷺکو دھوکہ دیتے ہوئے نہیں کیا اور نہ نفاق ہی کی وجہ سے کیا ہے، مجھے علم ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو غالب کرے گا۔‘‘(مسند ابی یعلی الموصلی رقم:2261.)

ایک اور روایت میں ہے:(وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِﷺ ! مَا کَتَبْتُہُ ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي)
’’اللہ کی قسم!اے اللہ کے رسول!میں نے اپنے دین سے مرتد ہو کر یہ (خط )نہیں لکھا۔‘‘(مسند ابی یعلی الموصلی رقم:394.)
جناب اس میں تو حضرت حاطب رضی اللہ عنہ اپنے قلبی تعلق اور قلبی حالت کو اسلام پر قرار دے رہے ہیں کہ میں نے ایسا "کفر پر راضی" ہو کر نہیں لکھا۔
وہ کہہ رہے ہیں میں نے کفر نہیں کیا ، مگر ہمارے "مفتی" صاحب مصر ہیں کہ نہیں انہوں نے کفر ہی کیا ہے ۔۔۔ عجیب۔۔۔


اور مزید حاطب رضی اللہ عنہ کے نزدیک جب تک کفر کا تعاون کسی کافر کے کفر پر راضی ہو کر نہ کیا جائے تو ارتداد نہیں بنتا جیسے کہ خود انکے اقوال اس پر شاہد ہیں۔

اور اس ضمن میں آخری بات کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ میں نے یہ کام دین کو چھوڑ کر یا مرتد بن کر نہیں کیا " یہ کام کفراور اپنے دین سے مرتد ہو کر نہیں کیا" یعنی میں نے اسلام سے محبت کے باوجود کیا ہے۔ اس میں سے یہ معنی کشید کرنا کہ حاطب رضی اللہ اپنے عمل کو کفر قرار دے رہے ہیں پرلے درجے کی جہالت و حماقت ہے۔
جب کہ عبارت سے واضح ہے کہ وہ اس چیز کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ یہ کام کرنے سے پہلے مرتد نہیں ہوئے نہ کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کام ارتداد ہے۔ افلا تعقلون؟


دوسری بات:


سمیر نے لکھا:
حاطب رضی اللہ عنہ پر کفر کا حکم کیوں نہیں لگا ؟
اس کا جواب میرے پیارے پیارے اور میٹھے اسلامی بھائی نے خود ہی پیش کر دیا اور سارے موضوع کو سمیٹ کر رکھ دیا، میں ممنون ہوں مدنی بھائی کا۔ :)
پہلی بات کیوں کہ وہ عمل کفر تھا ہی نہیں کیوں کہ :
یہ الگ بات ہے کہ رسول اللہﷺنے حاطب رضی اللہ عنہ کے دلی طور پر مومن ہونے اور بدری صحابی ہونے کی وجہ سے من جانب اللہ مغفرت کی گواہی دے دی تھی۔
تو جناب یہی تو ہم کہتے ہیں کہ کفر کا حکم تب لگے گا جب دلی طور پر بندہ مومن نہ رہا ہو اور کفر پر راضی ہو جائے۔اب بتائیے کیا آپ کے پاس کوئی آلہ ہے جو آج کے مسلمانوں کے دل کی کیفیت جان سکے؟

اگر آج کوئی مسلمان یہ کام کرے جو حاطب رضی اللہ نے کیا اور وہ بھی یہی زبان سے کہیے کہ میں نے یہ کفر یا ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ میں مسلمان ہوں تو آپ کیا حکم لگائیں گے ایسے شخص پر؟؟؟

اور آپ نے پھر خود لکھا:
لیکن حاطب اپنے اس فعل میں متاول تاویل کا سہارا لیے ہوئے تھے ، اِس لیے ان پر کفر کا حکم نہیں لگا، کیونکہ معتبر تاویل بھی کفر کا حکم منطبق ہونے میں ایک مانع ہوا کرتی ہے

کمال ہے جناب: ابھی سب شور مچارہے تھے کہ کفر سے تعاون ہر حال میں کفر و مطلق ارتداد ہے، کوئی قلبی و غیر قلبی کی قید نہیں مگر اب خود ہی "تاویل" کا موانع بھی لے آئے!!! دلچسپ!


تیسری بات:
سمیر خان نے لکھا:
اگر حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل تولّی یا موالاتِ کبرٰی اور نواقضِ اسلام کے زمرے میں آتا ہے، یعنی کفر ہے تو پھر اس سے بڑھ کر تعاون کی جو بھی صورت ہو گی وہ بالاولیٰ کفر ہو گی
جناب نے پھر خود ہی اسکی تردید بھی فرما دی:
مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا عبد الرحمن کیلانی اپنی تفسیر میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے قصے کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کر دے تو وہ کافر نہیں ہو جاتا۔مسلمان ہی رہتا ہے۔البتہ اس کا یہ جرم قابلِ مواخذہ ضرور ہے۔لیکن اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام کر جائے تو وہ منافق بھی ہے، کافر بھی ہو جاتا ہے اور قابلِ گردن زدنی بھی، اس کا یہ جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ (تیسیر القرآن:424/4.)
غور فرمائیں مولانا عبد الرحمن کیلانینے اپنی مذکورہ عبارت میں دو صورتیں ذکر کی ہیں۔ پہلی صورت میں کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کرتا ہے تو اِس سے وہ کافر نہیں ہو جاتا ، البتہ اْنہوں نے اِس جرم کو قابلِ مواخذہ قرار دیا ہے۔مگر دوسری صورت یہ بیان کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام، یعنی جنگی راز وغیرہ فاش کرے گا تو اِس سے نا صرف وہ کافر و منافق ہوگا بلکہ قابلِ گردن زدنی بھی ہو جاتا ہے۔
جناب عالی اب ، آپ کا "کفر سے تعاون " قلبی و غیر قلبی ہر حال میں کفر ارتداد والا فتوی کہاں جائے گا؟؟؟؟
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
القول السدید آپ کے لئے

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس میں کیا غلطی ہے اس میں یہی تو بیان کیا گیا ہے کہ اگر حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل نواقض اسلام کے زمرے میں آتا ہے ،یعنی کفر ہے تو پھر اس سے بڑھ کر تعاون کی جو بھی صورت ہوگی وہ بالاولیٰ کفر ہوگی۔یعنی جب ایک صحابی کا فعل نواقض اسلام کے زمرے میں آسکتا ہے ،کفر ہوسکتا ہے ۔تو پھر ایک عام مسلمان کفار سے جو موالات کرے گا وہ بالاولیٰ کفر ہوگا۔ہم یہاں پر حاطب رضی اللہ عنہ کا لکھا ہوا وہ خط نقل کرتے ہیں جسے انہوں نے مشرکین مکہ کی طرف لکھ کر ایک عورت کے ہمراہ روانہ کیا تھا ۔اس خط کی عبارت درج ذیل ہے۔

اسے حافظ ابن حجر عسقلانی﷫نے فتح الباري:521/7 باب غزوة الفتح میں ذکر کیا ہے:
(أَمَّا بَعْدُ:یَامَعْشَرَقُرَیْشٍ فَاِنَّ رَسُولَ اللّٰہِﷺجَاءَکُمْ بِجَیْشٍ کَاللَّیْلِ،یَسِیرُ کَالسَّیْلِ، فَوَاللّٰہِ!لَوْجَاءَ کُمْ وَحْدَہٗ لَنَصَرَہُ اللّٰہُ وَأَنْجَزَ لَہٗ وَعْدَہٗ،فَانْظُرُوا لاَِنْفُسِکُمْ وَالسَّلَامُ)
’’أمابعد!اے قریش کے لوگو!رسول اللہﷺسیاہ راتوں جیسا (ناقابلِ تسخیر)لشکر لے کر تمھاری طرف آرہے ہیں جو سیلاب کی طرح تم پر چھاجائے گا۔اللہ کی قسم اگر رسول اللہ ﷺتن تنہا بھی تمہاری طرف نکل پڑیں تو اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا اور اللہ (اپنے نبی کو فتح سے ہمکنار کر کے)اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ لہٰذا تم اپنی خبر لے لو!والسلام ۔‘‘
جناب من یہ ہے وہ خط جو حاطب رضی اللہ عنہ نے سارہ نامی عورت کو دے کر مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا ۔کوئی بھی انصاف پسند شخص اس عبارت کو پڑھنے کے بعد اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگائے گا کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے جو خط مشرکین کو لکھا تھا تو وہ یقیناً جان جائے گا کہ حاطب رضی اللہ عنہ اللہ کی مدد پر یقین رکھتے تھے اور اپنے ایمان میں پختہ تھے ۔اس خط کے ذریعے سے انہوں نے مشرکین مکہ پر رعب ڈالا تھا نہ کہ ان کی مدد کی تھی ۔وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ یہ خط مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حاطب رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر سخت وعید نازل فرمائی ۔سیدنا حاطب یقیناًاپنے دل میں مشرکین سے نفرت اور عداوت رکھتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان کے اس فعل کو مشرکین سے مودّت سے تعبیر کیا ہے!ارشاد فرمایا:﴿تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ﴾ ”تم تومحبت کی بنیاد ڈالنے کے لیے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو۔“اور فرمایا:﴿ تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ﴾”تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو۔“

ہم نے تو فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی عبارات بھی نقل کی تھیں جن پر آپ نے سرے سے کوئی تبصرہ ہی نہیں کیا ۔جبکہ یہ عبارات اس معاملے میں اہم حیثیت کی حامل ہیں ۔ذیل میں دیکھیں :
شیخ امین اللہ پشاوری اپنے فتاوی الدین الخالص میں سیدنا حاطب کا یہ واقعہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:سیدنا حاطب کا یہ قصہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے تعاون اور ان کی مدد کرنے میں اصل یہی ہے کہ یہ ارتداد اور دین اسلام سے خارج ہونا ہے۔اس کی مندرجہ ذیل تین وجوہات ہیں:
۱۔سیدنا عمر کا یہ قول:(دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ ھٰذَا الْمُنَافِقِ)’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن تن سے جدا کر دوں۔‘‘ایک روایت کے الفاظ ہیں:(فَقَدْ کَفَرَ)کیونکہ اس نے کفر کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہﷺنے فرمایا:’’کیا یہ بدر میں شریک نہیں ہوئے؟‘‘تو عمر نے کہا :کیوں نہیں!مگر انھوں نے عہد توڑ دیا ہے اور آپ کے خلاف آپ کے دشمن کی مدد کی ہے۔اس میں دلیل ہے کہ سیدنا عمر کے نزدیک ثابت شدہ بات یہی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا کفر اور ارتداد ہے۔
۲۔دوسری وجہ:رسول اللہﷺنے سیدنا عمر کےفہم کوبرقراررکھا۔آپ نے صرف حاطب کا عذر ذکر فرما دیا۔

۳۔تیسری وجہ:حاطب کا یہ کہنا:(مَافَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَّلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْاِسْلَامِ)سیدنا حاطب کا یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ بات طے شدہ تھی کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد کرنا کفر و ارتداد اور کفر سے رضامندی ہے

کیا سمجھے آپ ؟میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ کیا مطلب ہے اس تحریر کا ۔غور سے پڑھیں عمررضی اللہ عنہ فرمارہے ہیں کہ :(دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ ھٰذَا الْمُنَافِقِ)’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن تن سے جدا کر دوں۔‘‘ایک روایت کے الفاظ ہیں:(فَقَدْ کَفَرَ)کیونکہ اس نے کفر کیا ہے ۔ یہ دونوں باتیں عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فرمائیں۔کہ حاطب رضی اللہ عنہ منافق ہوگئے ہیں مجھے ان کے قتل کی اجازت مرحمت فرمائیں۔دوسری روایت کے مطابق کہ انہوں نے کفر کیا ہے اس لئے ان کی گردن ماردی جائے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا کفر اور ارتداد ہے۔اب میں القول السدیدصاحب سے پوچھتا ہوں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمررضی اللہ عنہ کے فہم کو ان کے فتویٰ کو غلط قرار دیا ؟؟؟ہرگز نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے فہم کو برقرار رکھا ۔اور اس کے جواب میں حاطب رضی اللہ عنہ کے عذر کا ذکر فرمادیا ۔ورنہ اگر عمر رضی اللہ عنہ کا فہم درست نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ سے فرماتے کہ عمر رضی اللہ عنہ تم نے ایک مومن کو کافر کہہ دیا لہٰذا کفر تم پر لوٹ آیا۔اور ایسا کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا بلکہ عمررضی اللہ عنہ کے فتویٰ کو برقرار رکھا کہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی مدد کرنا کفر اور ارتداد ہے۔

کیا وجہ ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ عمررضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ کی زد میں نہیں آئے ۔ تو ہم وہ آپ کو بتادیتے ہیں ۔ لیکن اس سے قبل میں آپ کو یہ بتادوں کہ اس تمام بحث کا دارومدار ہی اس بات پر ہے کہ موجودہ مسلم ممالک کے حکمران صلیبیوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں لہٰذا یہ تعاون کفر اور ارتداد ہے ۔

موجودہ حکمرانوں کی جاسوسی اور سیدنا حاطب کی جاسوسی میں بہت زیادہ فرق پائے جاتے ہیں ،مثلاً:
1. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوئےاور اہل بدر کو اللہ تعالیٰ کا معاف فرما دیا ہےجبکہ موجودہ حکمرانوں کو یہ شرف کبھی حاصل نہیں ہو سکتا………!
2. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خیر خواہ اور وفادار تھے جبکہ موجودہ حکمران مسلمانوں کے دشمن اور غدار ہیں………!
3. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ سے یہ فعل صرف ایک مرتبہ سرزد ہوا تھا جبکہ موجودہ حکمران ڈھٹائی کے ساتھ یہ کام بار بار کرتے ہیں………!
4. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نےاس فعل کو اپنا پیشہ اور عادت نہیں بنایا تھا جبکہ موجودہ حکمرانوں نے ڈالروں کے بدلے مسلمانوں کی جاسوسی کو اپنا پیشہ اور کاروبار بنا لیا ہے………!
5. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے سچ بولا تھا جبکہ موجودہ حکمران جھوٹے اور کذاب ہیں………!
6. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی بذریعہ وحی تصدیق ہو گئی تھی جبکہ موجودہ حکمرانوں کی تصدیق نہیں ہو سکتی کیونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے………!
7. سیدناحاطب رضی اللہ عنہ اس فعل میں متاول تھے جبکہ موجودہ حکمران اعلانیہ،فخریہ اور قصداًمسلمانوں سے ان کے دین پر عمل کرنے کی وجہ سے برسرپیکار ہیں………!
8. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ مشرکینِ مکہ کے فرنٹ لائن اتحادی نہیں تھے جبکہ موجودہ حکمران حربی کافروں کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں………!
9. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں عملاً شریک نہیں ہوئے تھے جبکہ موجودہ حکمران مسلمانوں کے خلاف جنگ میں عملاً شریک ہیں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار بنے ہوئے ہیں………!
10. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مشرکین مکہ کے حوالے نہیں کیا تھا جبکہ موجودہ حکمران چند ناپاک ڈالروں کی عوض مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر کافروں کے حوالے کرتے ہیں………!
11. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی جاسوسی کے نتیجے میں ایک مسلمان بھی قتل یا قید نہیں ہوا تھا جبکہ موجودہ حکمران جاسوسی کرتے ہی مسلمانوں کو قتل یا قید کروانے کے لیے ہیں………!
12. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کفار ومشرکین سے جہاد کرتے تھے جبکہ موجودہ حکمرانوں کی نظر میں جہاد جرم اور مجاہدین مجرم بن چکے ہیں………!
13. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ اس کےعمل سے اسلام اور مسلمانوں کو ہرگز نقصان نہیں پہنچے گا جبکہ موجودہ حکمرانوں کی جاسوسی کا مقصدہی مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے………!
14. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ موحد تھے جبکہ موجودہ حکمران رافضی،قبرپرست اور مشرکانہ عقائد و نظریات رکھتے ہیں………!(مرجئۃ العصر کی تلبیسات کا علمی محاکمہ )

اور سب سے بڑھ کر یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی بنیاد پر حاطب رضی اللہ عنہ کے نیک نیت اور سچا ہونے کی گواہی دی ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے سچا اور نیک نیت ہونے کی گواہی دے دیں اس میں کسی قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ورنہ پھر ایمان کی خیر نہیں۔

اب نبیﷺکے علاوہ کسی اور کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دل کے حالات جان سکے کیونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے،اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے تو ظاہری عمل کی وجہ سے حاطب رضی اللہ عنہ پر کفر اورقتل کا حکم لگایا جبکہ رسول اللہﷺنے بذریعہ وحی دل کی حالت جان کر اُن کے عذر کو قبول فرمایا۔ بنابریں اب حاطب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور سے یہ حکم موقوف نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم ظاہرکے مکلف ہیں اور دل کے حالات نہیں جان سکتے ، نیز وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔لہٰذا اب ہمیں موجودہ جاسوسوں کے باطنی طور پر سچا ہونے کا علم نہیں ہو سکتا اور نہ یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی جاسوسی کفر اور ارتداد کی وجہ سے نہیں کی۔ اب جس نے بھی یہ کام کیا ، اس پر وہی ظاہری حکم لگے گا جو عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا تھا ، یعنی کفر اور قتل۔

اب کون شخص ہے جویہ دعویٰ کرے کہ کسی کی دلی کیفیات کی حالت جان کر اس کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔اب کوئی شخص کسی کے قلبی اور دلی حالات کو جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔لہٰذا حکم جو لگے گا وہ ظاہر پر لگے گا جیسا کہ عمررضی اللہ عنہ نے ظاہری عمل کی وجہ سے حاطب رضی اللہ عنہ کفر اور قتل کا حکم لگایا تھا۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی علیہ السلام نے اس جاسوس عورت کے قتل کا حکم دیدیا بغیر توبہ کروائے جو حاطب رضی اللہ عنہ کا خط لیکر گئی تھی جیسے کہ حدیث میں ہے جسے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے«لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ،إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ»جب فتح مکہ کا دن آیا تو نبی علیہ السلام نے چار آدمیوں اور دو عورتوں کے علاوہ سب کو امن دے دیدیا(اسے نسائی نے روایت کیا)۔ان دو عورتوں میں سے ایک وہ تھی جو خط لیکر گئی تھی اور اسکا نام ’’سارۃ‘‘تھا!!

لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی کی قلبی اور اعتقادی کیفیت کاکوئی اعتبار نہیں ہے اعتبار صرف اس فعل کا کیا جائے گا جو کہ اس کے ظاہری کیفیت سے ظاہر ہو۔لہٰذا قلبی اور اعتقادی کیفیت کا ذکر باطل ہے۔اب ہم اس باطل عقیدے کا رد ایک دوسرے طریقے سے کریں گے تاکہ ہمارا یہ بھائی جان جائے کہ اگر کفر قولی طور پر کرلیا جائے تو حکم ظاہری قول کی بنیاد پر لگے گا قلبی اور اعتقادی کیفیت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

اللہ عزوجل نے غزوۂ تبوک میں مجاہدین صحابہ کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو کافر قرار دیا!

حدثني يونس قال، أخبرنا ابن وهب قال، حدثني هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم،
ابن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک آدمی نے غزوہ تبوک کی مجلس میں یوں کہا
عن عبد الله بن عمر قال: قال رجل في غزوة تبوك في مجلس:ما رأينا مثل قرائنا هؤلاء، أرغبَ بطونًا، ولا أكذبَ ألسنًا، ولا أﺟﺒﻦ عند اللقاء! فقال رجل في المجلس: كذبتَ، ولكنك منافق! لأخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم ونزل القرآن.
ہم نے اپنے ساتھیوں جیسے لوگ نہیں دیکھے۔یعنی اصحابِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ۔ کھانے پینے پر حریص،جھوٹی زبانوں والے اور لڑائی کے وقت بزدل ،تو مجلس میں موجود ایک آدمی نے کہا تو نے جھوٹ کہا ہے بلکہ تو منافق ہے میں ضرور اللہ کے نبی علیہ السلام کو اس کی خبر دوں گا ۔پس جب آپ کو خبرملی تو اس پر قرآن نازل ہوا۔

عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
فأنا رأيته متعلقًا بحَقَب ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم تَنْكُبه الحجارة، وهو يقول: "يا رسول الله، إنما كنا نخوض ونلعب! "، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
میں نے اس شخص کو نبی علیہ السلام کی اوٹنی کی رکابوں کے ساتھ لٹکے ہوئے دیکھا اور پتھر اسے زخمی کررہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا اے اللہ کے رسول علیہ السلام ہم تو صرف مذاق کررہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ اوراسکی آیات اور اسکے رسول کے ساتھ تم مذاق کرتے ہو۔اب بہانے نہ بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوچکے۔

قتادہ رحمہ اللہ سے ایک روایت میں یوں مروی ہے کہ انہوں نے کہا
حدثنا بشر قال، حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد،عن قتادة قوله:(وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ)، الآية، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في غزوته إلى تبوك، وبين يديه ناس من المنافقين فقالوا:"يرجو هذا الرجل أن يفتح قصور الشأم وحصونها! هيهات هيهات"!فأطلع الله نبيه صلى الله عليه وسلم على ذلك، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم:"احبسوا عليَّ الرَّكْب!فأتاهم فقال: قلتم كذا، قلتم كذا.قالوا:"يا نبي الله، إنما كنا نخوض ونلعب"، فأنزل الله تبارك وتعالى فیھا ماسمعتم۔.
کیا یہ آدمی امید رکھتا ہے کہ وہ شام کے قلعے اور محل فتح کر لے گا جبکہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دے دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس ان لوگوں کو پکڑ کے لاؤ۔جب وہ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایسے اور ایسے کہا ہے وہ کہنے لگے اے اللہ کے نبی ہم تو کھیل و مذاق کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں جو تم نے سنی ہیں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول میں( إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً)اگر ہم تم سے ایک گروہ کو معاف کریں تو دوسرے کو ضرور سزا دیں گے۔یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جس کو ان میں سے معاف کیا گیا وہ ایک آدمی ہے۔جیسے کہ ابنِ اسحاق کہتے:قال الام الطبری:حدثنا به ابن حميد قال،حدثنا سلمة، عن ابن إسحاق قال:كان الذي عُفِي عنه، فيما بلغني مَخْشِيّ بن حُمَيِّر الأشجعي،حليف بني سلمة،وذلك أنه أنكر منهم بعض ما سمع.)وہ شخص جسے ان میں سے معاف کیا گیا جو مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس کا نام مخشن بن حمیر الاشجعی تھا جو بنو سلمہ کا حلیف تھا کیونکہ اس نے جو کچھ سنا اس کا انکار کیا تھا۔

مُعَمّر سے مروی ہے وہ کہتے ہیں(حدثنا محمد بن عبد الأعلى قال، حدثنا محمد بن ثور، عن معمر قال، قال بعضهم: كان رجل منهم لم يمالئهم في الحديث، يسير مجانبًا لهم،فنزلت:( إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً)، فسُمِّي "طائفةً"وهو واحدٌ.)
ان میں سے بعض نے کہا کہ ایک آدمی ان کی بات کی طرف مائل نہ تھا بلکہ وہ ان سے ہٹ گیا تو یہ آیت نازل ہوئی اور اسے طائفہ کہا گیا جب کہ وہ اکیلا ہی تھا۔(جامع البیان للطبری172-174/6)

قرطبی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں( قِيلَ:كَانُوا ثَلَاثَةَ نَفَرٍ، هَزِئَ اثْنَانِ وَضَحِكَ وَاحِدٌ،؛ فَالْمَعْفُوُّ عَنْهُ هُوَ الَّذِي ضَحِكَ وَلَمْ يَتَكَلَّمْ)یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تین آدمی تھے جن میں دو نے مذاق کیا جبکہ تیسرا صرف ہنسا اور اس نے کوئی بات نہیں کہی۔خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں کہتے ہیں کہ اسکا نام ’’مخاشن بن حمیر‘‘تھا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان تھا لیکن اس نے منافقین کی بات سنی اور ہنس دیا اور ان پر انکار نہ کیا اور وہ کہا کرتا تھا
(حدثني يعقوب بن إبراهيم قال، حدثنا ابن علية قال، أخبرنا أيوب، عن عكرمة في قوله: (وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ) ، إلى قوله: (بأنهم كانوا مجرمين) ، قال: فكان رجل ممن إن شاء الله عفا عنه يقول:"اللهم إني أسمع آية أنا أعْنَى بها، تقشعرُّ منها الجلود، وتَجِبُ منها القلوب،اللهم فاجعل وفاتي قتلا في سبيلك، لا يقول أحدٌ: أنا غسَّلت، أنا كفَّنت، أنا دفنت"، قال: فأصيب يوم اليمامة،)
اے اللہ میں ایک آیت سنتا ہوں جس میں مجھے معاف کیا گیاجس سے جلد کانپ اٹھتی ہے اور دل دہل جاتا ہے اے اللہ میری وفات اپنی راہ میں قتل ہونا بنادے اور کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے غسل دیا جائے ،مجھے کفن دیا جائے،مجھے دفن کیا جائے۔ پس وہ یمامہ کے دن قتل ہوگیا۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان﴿قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾اس میں حکم دیا گیا کہ انہیں کہا جائے کہ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہو۔جو یہ کہتا ہے کہ انہوں نے کفر کا ارتکاب اپنی زبانوں کے ساتھ کیا جب اس سے پہلے کفر ان کے دل میں تھا۔یہ قول صحیح نہیں کیونکہ زبان کے ساتھ ایمان اور دل میں کفر بھی ہو تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے کیونکہ وہ اس مسئلہ میں ابھی تک کافر ہی ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تم نے کفر کو ظاہر کیا بعد اس کے کہ تم ایمان کا اظہار کرچکے۔یہ اظہار انہوں نے اپنے ’’خواص‘‘(یعنی اہلِ مجلس)کے ساتھ کیا اور ان کے ساتھ وہ اب بھی ایسے ہی ہیں۔جب انہوں نے نفاق کا مظاہرہ اور استہزاء کیا اور پھر ڈرے کے کوئی سورت نازل ہوجائے جو ان کے دلوں کے نفاق کو ظاہر کردے، تو وہ اپنے ایمان کے بعد کافر ہوگئے اور الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ ابھی تک منافق ہی ہیں۔(یعنی وہ منافقین تھے اور اپنے اسلام کا اظہار کرتے تھے جنہیں مسلمان ہی سمجھا جاتاتھا لیکن اس آیت کے نزول کے بعد وہ واضح کافر ہوگئے)۔(مجموع الفتاویٰ 272/7)

شیخ الاسلام ’’الصارم‘‘میں کہتے ہیں کہ یہ نص ہے اس بارے میں کہ اللہ،اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرنا کفر ہے۔پس ثابت ہوا کہ یہ صفات جس کسی میں پائی گئیں وہ منافق ہے چاہے وہ پہلے سے منافق تھا یا اس قول کے ساتھ منافق بن گیا۔

اب میں القول السدید سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ کہاں گئی ان منافقین کی قلبی اور اعتقادی کیفیت ؟اللہ تعالیٰ نے ان کی قلبی اور اعتقادی کیفیت کا کوئی اعتبار نہیں کیا بلکہ ان کے قول کو جو کہ انہوں نے زبان سے اداکیا اس کو ان کے خلاف حجت بنایا اور انہیں ان کے قول کی وجہ سے کافر قرار دیا۔لہٰذا آج بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذاق اڑائے گا اس کو کافر قراردے کر قتل کیا جائے گا ۔جو اللہ کو گالی دے گا اس کو کافر قرار دے کر قتل کیا جائے گا ۔جو بت کو سجدہ کرے گا اس کو کافر قرار دیا جائے گا ۔لہٰذا جو شخص بھی کافروں سےمسلمانوں کے مقابلے میں تعاون کرے گا وہ کافر قرار دیا جائے گا۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس میں کیا غلطی ہے اس میں یہی تو بیان کیا گیا ہے کہ اگر حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل نواقض اسلام کے زمرے میں آتا ہے ،یعنی کفر ہے تو پھر اس سے بڑھ کر تعاون کی جو بھی صورت ہوگی وہ بالاولیٰ کفر ہوگی۔یعنی جب ایک صحابی کا فعل نواقض اسلام کے زمرے میں آسکتا ہے ،کفر ہوسکتا ہے ۔تو پھر ایک عام مسلمان کفار سے جو موالات کرے گا وہ بالاولیٰ کفر ہوگا۔ہم یہاں پر حاطب رضی اللہ عنہ کا لکھا ہوا وہ خط نقل کرتے ہیں جسے انہوں نے مشرکین مکہ کی طرف لکھ کر ایک عورت کے ہمراہ روانہ کیا تھا ۔اس خط کی عبارت درج ذیل ہے۔

اسے حافظ ابن حجر عسقلانی﷫نے فتح الباري:521/7 باب غزوة الفتح میں ذکر کیا ہے:


جناب من یہ ہے وہ خط جو حاطب رضی اللہ عنہ نے سارہ نامی عورت کو دے کر مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا ۔کوئی بھی انصاف پسند شخص اس عبارت کو پڑھنے کے بعد اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگائے گا کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے جو خط مشرکین کو لکھا تھا تو وہ یقیناً جان جائے گا کہ حاطب رضی اللہ عنہ اللہ کی مدد پر یقین رکھتے تھے اور اپنے ایمان میں پختہ تھے ۔اس خط کے ذریعے سے انہوں نے مشرکین مکہ پر رعب ڈالا تھا نہ کہ ان کی مدد کی تھی ۔وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ یہ خط مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حاطب رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر سخت وعید نازل فرمائی ۔سیدنا حاطب یقیناًاپنے دل میں مشرکین سے نفرت اور عداوت رکھتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان کے اس فعل کو مشرکین سے مودّت سے تعبیر کیا ہے!ارشاد فرمایا:﴿تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ﴾ ”تم تومحبت کی بنیاد ڈالنے کے لیے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو۔“اور فرمایا:﴿ تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ﴾”تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو۔“

ہم نے تو فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی عبارات بھی نقل کی تھیں جن پر آپ نے سرے سے کوئی تبصرہ ہی نہیں کیا ۔جبکہ یہ عبارات اس معاملے میں اہم حیثیت کی حامل ہیں ۔ذیل میں دیکھیں :
شیخ امین اللہ پشاوری اپنے فتاوی الدین الخالص میں سیدنا حاطب کا یہ واقعہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:سیدنا حاطب کا یہ قصہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے تعاون اور ان کی مدد کرنے میں اصل یہی ہے کہ یہ ارتداد اور دین اسلام سے خارج ہونا ہے۔اس کی مندرجہ ذیل تین وجوہات ہیں:


۲۔دوسری وجہ:رسول اللہﷺنے سیدنا عمر کےفہم کوبرقراررکھا۔آپ نے صرف حاطب کا عذر ذکر فرما دیا۔

۳۔تیسری وجہ:حاطب کا یہ کہنا:(مَافَعَلْتُ ذٰلِکَ کُفْرًا وَّلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِینِي وَلَا رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الْاِسْلَامِ)سیدنا حاطب کا یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ بات طے شدہ تھی کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد کرنا کفر و ارتداد اور کفر سے رضامندی ہے

کیا سمجھے آپ ؟میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ کیا مطلب ہے اس تحریر کا ۔غور سے پڑھیں عمررضی اللہ عنہ فرمارہے ہیں کہ :(دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ ھٰذَا الْمُنَافِقِ)’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن تن سے جدا کر دوں۔‘‘ایک روایت کے الفاظ ہیں:(فَقَدْ کَفَرَ)کیونکہ اس نے کفر کیا ہے ۔ یہ دونوں باتیں عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فرمائیں۔کہ حاطب رضی اللہ عنہ منافق ہوگئے ہیں مجھے ان کے قتل کی اجازت مرحمت فرمائیں۔دوسری روایت کے مطابق کہ انہوں نے کفر کیا ہے اس لئے ان کی گردن ماردی جائے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا کفر اور ارتداد ہے۔اب میں القول السدیدصاحب سے پوچھتا ہوں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمررضی اللہ عنہ کے فہم کو ان کے فتویٰ کو غلط قرار دیا ؟؟؟ہرگز نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے فہم کو برقرار رکھا ۔اور اس کے جواب میں حاطب رضی اللہ عنہ کے عذر کا ذکر فرمادیا ۔ورنہ اگر عمر رضی اللہ عنہ کا فہم درست نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ سے فرماتے کہ عمر رضی اللہ عنہ تم نے ایک مومن کو کافر کہہ دیا لہٰذا کفر تم پر لوٹ آیا۔اور ایسا کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا بلکہ عمررضی اللہ عنہ کے فتویٰ کو برقرار رکھا کہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی مدد کرنا کفر اور ارتداد ہے۔

کیا وجہ ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ عمررضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ کی زد میں نہیں آئے ۔ تو ہم وہ آپ کو بتادیتے ہیں ۔ لیکن اس سے قبل میں آپ کو یہ بتادوں کہ اس تمام بحث کا دارومدار ہی اس بات پر ہے کہ موجودہ مسلم ممالک کے حکمران صلیبیوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں لہٰذا یہ تعاون کفر اور ارتداد ہے ۔

موجودہ حکمرانوں کی جاسوسی اور سیدنا حاطب کی جاسوسی میں بہت زیادہ فرق پائے جاتے ہیں ،مثلاً:
1. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوئےاور اہل بدر کو اللہ تعالیٰ کا معاف فرما دیا ہےجبکہ موجودہ حکمرانوں کو یہ شرف کبھی حاصل نہیں ہو سکتا………!
2. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خیر خواہ اور وفادار تھے جبکہ موجودہ حکمران مسلمانوں کے دشمن اور غدار ہیں………!
3. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ سے یہ فعل صرف ایک مرتبہ سرزد ہوا تھا جبکہ موجودہ حکمران ڈھٹائی کے ساتھ یہ کام بار بار کرتے ہیں………!
4. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نےاس فعل کو اپنا پیشہ اور عادت نہیں بنایا تھا جبکہ موجودہ حکمرانوں نے ڈالروں کے بدلے مسلمانوں کی جاسوسی کو اپنا پیشہ اور کاروبار بنا لیا ہے………!
5. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے سچ بولا تھا جبکہ موجودہ حکمران جھوٹے اور کذاب ہیں………!
6. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی بذریعہ وحی تصدیق ہو گئی تھی جبکہ موجودہ حکمرانوں کی تصدیق نہیں ہو سکتی کیونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے………!
7. سیدناحاطب رضی اللہ عنہ اس فعل میں متاول تھے جبکہ موجودہ حکمران اعلانیہ،فخریہ اور قصداًمسلمانوں سے ان کے دین پر عمل کرنے کی وجہ سے برسرپیکار ہیں………!
8. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ مشرکینِ مکہ کے فرنٹ لائن اتحادی نہیں تھے جبکہ موجودہ حکمران حربی کافروں کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں………!
9. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں عملاً شریک نہیں ہوئے تھے جبکہ موجودہ حکمران مسلمانوں کے خلاف جنگ میں عملاً شریک ہیں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار بنے ہوئے ہیں………!
10. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مشرکین مکہ کے حوالے نہیں کیا تھا جبکہ موجودہ حکمران چند ناپاک ڈالروں کی عوض مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر کافروں کے حوالے کرتے ہیں………!
11. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی جاسوسی کے نتیجے میں ایک مسلمان بھی قتل یا قید نہیں ہوا تھا جبکہ موجودہ حکمران جاسوسی کرتے ہی مسلمانوں کو قتل یا قید کروانے کے لیے ہیں………!
12. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کفار ومشرکین سے جہاد کرتے تھے جبکہ موجودہ حکمرانوں کی نظر میں جہاد جرم اور مجاہدین مجرم بن چکے ہیں………!
13. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ اس کےعمل سے اسلام اور مسلمانوں کو ہرگز نقصان نہیں پہنچے گا جبکہ موجودہ حکمرانوں کی جاسوسی کا مقصدہی مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے………!
14. سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ موحد تھے جبکہ موجودہ حکمران رافضی،قبرپرست اور مشرکانہ عقائد و نظریات رکھتے ہیں………!(مرجئۃ العصر کی تلبیسات کا علمی محاکمہ )

اور سب سے بڑھ کر یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی بنیاد پر حاطب رضی اللہ عنہ کے نیک نیت اور سچا ہونے کی گواہی دی ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے سچا اور نیک نیت ہونے کی گواہی دے دیں اس میں کسی قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ورنہ پھر ایمان کی خیر نہیں۔

اب نبیﷺکے علاوہ کسی اور کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دل کے حالات جان سکے کیونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے،اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے تو ظاہری عمل کی وجہ سے حاطب رضی اللہ عنہ پر کفر اورقتل کا حکم لگایا جبکہ رسول اللہﷺنے بذریعہ وحی دل کی حالت جان کر اُن کے عذر کو قبول فرمایا۔ بنابریں اب حاطب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور سے یہ حکم موقوف نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم ظاہرکے مکلف ہیں اور دل کے حالات نہیں جان سکتے ، نیز وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔لہٰذا اب ہمیں موجودہ جاسوسوں کے باطنی طور پر سچا ہونے کا علم نہیں ہو سکتا اور نہ یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی جاسوسی کفر اور ارتداد کی وجہ سے نہیں کی۔ اب جس نے بھی یہ کام کیا ، اس پر وہی ظاہری حکم لگے گا جو عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا تھا ، یعنی کفر اور قتل۔

اب کون شخص ہے جویہ دعویٰ کرے کہ کسی کی دلی کیفیات کی حالت جان کر اس کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔اب کوئی شخص کسی کے قلبی اور دلی حالات کو جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔لہٰذا حکم جو لگے گا وہ ظاہر پر لگے گا جیسا کہ عمررضی اللہ عنہ نے ظاہری عمل کی وجہ سے حاطب رضی اللہ عنہ کفر اور قتل کا حکم لگایا تھا۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی علیہ السلام نے اس جاسوس عورت کے قتل کا حکم دیدیا بغیر توبہ کروائے جو حاطب رضی اللہ عنہ کا خط لیکر گئی تھی جیسے کہ حدیث میں ہے جسے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے«لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ،إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ»جب فتح مکہ کا دن آیا تو نبی علیہ السلام نے چار آدمیوں اور دو عورتوں کے علاوہ سب کو امن دے دیدیا(اسے نسائی نے روایت کیا)۔ان دو عورتوں میں سے ایک وہ تھی جو خط لیکر گئی تھی اور اسکا نام ’’سارۃ‘‘تھا!!

لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی کی قلبی اور اعتقادی کیفیت کاکوئی اعتبار نہیں ہے اعتبار صرف اس فعل کا کیا جائے گا جو کہ اس کے ظاہری کیفیت سے ظاہر ہو۔لہٰذا قلبی اور اعتقادی کیفیت کا ذکر باطل ہے۔اب ہم اس باطل عقیدے کا رد ایک دوسرے طریقے سے کریں گے تاکہ ہمارا یہ بھائی جان جائے کہ اگر کفر قولی طور پر کرلیا جائے تو حکم ظاہری قول کی بنیاد پر لگے گا قلبی اور اعتقادی کیفیت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

اللہ عزوجل نے غزوۂ تبوک میں مجاہدین صحابہ کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو کافر قرار دیا!

حدثني يونس قال، أخبرنا ابن وهب قال، حدثني هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم،
ابن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک آدمی نے غزوہ تبوک کی مجلس میں یوں کہا
عن عبد الله بن عمر قال: قال رجل في غزوة تبوك في مجلس:ما رأينا مثل قرائنا هؤلاء، أرغبَ بطونًا، ولا أكذبَ ألسنًا، ولا أﺟﺒﻦ عند اللقاء! فقال رجل في المجلس: كذبتَ، ولكنك منافق! لأخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم ونزل القرآن.
ہم نے اپنے ساتھیوں جیسے لوگ نہیں دیکھے۔یعنی اصحابِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ۔ کھانے پینے پر حریص،جھوٹی زبانوں والے اور لڑائی کے وقت بزدل ،تو مجلس میں موجود ایک آدمی نے کہا تو نے جھوٹ کہا ہے بلکہ تو منافق ہے میں ضرور اللہ کے نبی علیہ السلام کو اس کی خبر دوں گا ۔پس جب آپ کو خبرملی تو اس پر قرآن نازل ہوا۔

عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
فأنا رأيته متعلقًا بحَقَب ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم تَنْكُبه الحجارة، وهو يقول: "يا رسول الله، إنما كنا نخوض ونلعب! "، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
میں نے اس شخص کو نبی علیہ السلام کی اوٹنی کی رکابوں کے ساتھ لٹکے ہوئے دیکھا اور پتھر اسے زخمی کررہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا اے اللہ کے رسول علیہ السلام ہم تو صرف مذاق کررہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ اوراسکی آیات اور اسکے رسول کے ساتھ تم مذاق کرتے ہو۔اب بہانے نہ بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوچکے۔

قتادہ رحمہ اللہ سے ایک روایت میں یوں مروی ہے کہ انہوں نے کہا
حدثنا بشر قال، حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد،عن قتادة قوله:(وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ)، الآية، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في غزوته إلى تبوك، وبين يديه ناس من المنافقين فقالوا:"يرجو هذا الرجل أن يفتح قصور الشأم وحصونها! هيهات هيهات"!فأطلع الله نبيه صلى الله عليه وسلم على ذلك، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم:"احبسوا عليَّ الرَّكْب!فأتاهم فقال: قلتم كذا، قلتم كذا.قالوا:"يا نبي الله، إنما كنا نخوض ونلعب"، فأنزل الله تبارك وتعالى فیھا ماسمعتم۔.
کیا یہ آدمی امید رکھتا ہے کہ وہ شام کے قلعے اور محل فتح کر لے گا جبکہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دے دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس ان لوگوں کو پکڑ کے لاؤ۔جب وہ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایسے اور ایسے کہا ہے وہ کہنے لگے اے اللہ کے نبی ہم تو کھیل و مذاق کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں جو تم نے سنی ہیں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول میں( إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً)اگر ہم تم سے ایک گروہ کو معاف کریں تو دوسرے کو ضرور سزا دیں گے۔یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جس کو ان میں سے معاف کیا گیا وہ ایک آدمی ہے۔جیسے کہ ابنِ اسحاق کہتے:قال الام الطبری:حدثنا به ابن حميد قال،حدثنا سلمة، عن ابن إسحاق قال:كان الذي عُفِي عنه، فيما بلغني مَخْشِيّ بن حُمَيِّر الأشجعي،حليف بني سلمة،وذلك أنه أنكر منهم بعض ما سمع.)وہ شخص جسے ان میں سے معاف کیا گیا جو مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس کا نام مخشن بن حمیر الاشجعی تھا جو بنو سلمہ کا حلیف تھا کیونکہ اس نے جو کچھ سنا اس کا انکار کیا تھا۔

مُعَمّر سے مروی ہے وہ کہتے ہیں(حدثنا محمد بن عبد الأعلى قال، حدثنا محمد بن ثور، عن معمر قال، قال بعضهم: كان رجل منهم لم يمالئهم في الحديث، يسير مجانبًا لهم،فنزلت:( إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً)، فسُمِّي "طائفةً"وهو واحدٌ.)
ان میں سے بعض نے کہا کہ ایک آدمی ان کی بات کی طرف مائل نہ تھا بلکہ وہ ان سے ہٹ گیا تو یہ آیت نازل ہوئی اور اسے طائفہ کہا گیا جب کہ وہ اکیلا ہی تھا۔(جامع البیان للطبری172-174/6)

قرطبی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں( قِيلَ:كَانُوا ثَلَاثَةَ نَفَرٍ، هَزِئَ اثْنَانِ وَضَحِكَ وَاحِدٌ،؛ فَالْمَعْفُوُّ عَنْهُ هُوَ الَّذِي ضَحِكَ وَلَمْ يَتَكَلَّمْ)یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تین آدمی تھے جن میں دو نے مذاق کیا جبکہ تیسرا صرف ہنسا اور اس نے کوئی بات نہیں کہی۔خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں کہتے ہیں کہ اسکا نام ’’مخاشن بن حمیر‘‘تھا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان تھا لیکن اس نے منافقین کی بات سنی اور ہنس دیا اور ان پر انکار نہ کیا اور وہ کہا کرتا تھا
(حدثني يعقوب بن إبراهيم قال، حدثنا ابن علية قال، أخبرنا أيوب، عن عكرمة في قوله: (وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ) ، إلى قوله: (بأنهم كانوا مجرمين) ، قال: فكان رجل ممن إن شاء الله عفا عنه يقول:"اللهم إني أسمع آية أنا أعْنَى بها، تقشعرُّ منها الجلود، وتَجِبُ منها القلوب،اللهم فاجعل وفاتي قتلا في سبيلك، لا يقول أحدٌ: أنا غسَّلت، أنا كفَّنت، أنا دفنت"، قال: فأصيب يوم اليمامة،)
اے اللہ میں ایک آیت سنتا ہوں جس میں مجھے معاف کیا گیاجس سے جلد کانپ اٹھتی ہے اور دل دہل جاتا ہے اے اللہ میری وفات اپنی راہ میں قتل ہونا بنادے اور کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے غسل دیا جائے ،مجھے کفن دیا جائے،مجھے دفن کیا جائے۔ پس وہ یمامہ کے دن قتل ہوگیا۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان﴿قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾اس میں حکم دیا گیا کہ انہیں کہا جائے کہ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہو۔جو یہ کہتا ہے کہ انہوں نے کفر کا ارتکاب اپنی زبانوں کے ساتھ کیا جب اس سے پہلے کفر ان کے دل میں تھا۔یہ قول صحیح نہیں کیونکہ زبان کے ساتھ ایمان اور دل میں کفر بھی ہو تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے کیونکہ وہ اس مسئلہ میں ابھی تک کافر ہی ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تم نے کفر کو ظاہر کیا بعد اس کے کہ تم ایمان کا اظہار کرچکے۔یہ اظہار انہوں نے اپنے ’’خواص‘‘(یعنی اہلِ مجلس)کے ساتھ کیا اور ان کے ساتھ وہ اب بھی ایسے ہی ہیں۔جب انہوں نے نفاق کا مظاہرہ اور استہزاء کیا اور پھر ڈرے کے کوئی سورت نازل ہوجائے جو ان کے دلوں کے نفاق کو ظاہر کردے، تو وہ اپنے ایمان کے بعد کافر ہوگئے اور الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ ابھی تک منافق ہی ہیں۔(یعنی وہ منافقین تھے اور اپنے اسلام کا اظہار کرتے تھے جنہیں مسلمان ہی سمجھا جاتاتھا لیکن اس آیت کے نزول کے بعد وہ واضح کافر ہوگئے)۔(مجموع الفتاویٰ 272/7)

شیخ الاسلام ’’الصارم‘‘میں کہتے ہیں کہ یہ نص ہے اس بارے میں کہ اللہ،اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرنا کفر ہے۔پس ثابت ہوا کہ یہ صفات جس کسی میں پائی گئیں وہ منافق ہے چاہے وہ پہلے سے منافق تھا یا اس قول کے ساتھ منافق بن گیا۔

اب میں القول السدید سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ کہاں گئی ان منافقین کی قلبی اور اعتقادی کیفیت ؟اللہ تعالیٰ نے ان کی قلبی اور اعتقادی کیفیت کا کوئی اعتبار نہیں کیا بلکہ ان کے قول کو جو کہ انہوں نے زبان سے اداکیا اس کو ان کے خلاف حجت بنایا اور انہیں ان کے قول کی وجہ سے کافر قرار دیا۔لہٰذا آج بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذاق اڑائے گا اس کو کافر قراردے کر قتل کیا جائے گا ۔جو اللہ کو گالی دے گا اس کو کافر قرار دے کر قتل کیا جائے گا ۔جو بت کو سجدہ کرے گا اس کو کافر قرار دیا جائے گا ۔لہٰذا جو شخص بھی کافروں سےمسلمانوں کے مقابلے میں تعاون کرے گا وہ کافر قرار دیا جائے گا۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
جناب سمیر خان صاحب ، اب آپ یہ نہ پیسٹ کیجئے گا خوارج کے تلبیسات کے پلندے سے کہ اس خط میں جاسوسی تھی ہی نہیں ، اور نہ ہی کوئی مضر بات تھی کہ جس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان ہوسکتا۔۔

عجیب حالت ہے آپ لوگوں کہ ، ابھی کچھ دیر پہلے حاطب رضی اللہ عنہ کے فعل کو کفر شمار کر رہے تھے اور خود حاطب رضی اللہ عنہ کے اقوال سے اس کے ثبوت تراش رہے تھے۔۔
مگر اب اچانک پلٹہ۔۔
اب آپ یہ کاپی پیسٹ کریں گے وہ کام کفر تھا ہی نہیں کیونکہ خط میں کوئی ایسی بات ہی نہیں۔۔۔

میرے پیارے بھائی ، قلہ بازیاں کھانے کی بجائے ، جو حق بات ہے اسے تسلیم کرنا چاہیئے بے شک اس میں کوئی کمتری اور بے عزتی نہیں ، بلکہ یہ ایمان کے قوی ہونے کی دلیل ہے۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
برادر آپ اگر جواب نہیں دینا چاہتے تو آپ کی مرضی میں نے تو اپنا موقف بیان کردیا !

جناب سمیر خان صاحب ، اب آپ یہ نہ پیسٹ کیجئے گا خوارج کے تلبیسات کے پلندے سے کہ اس خط میں جاسوسی تھی ہی نہیں ، اور نہ ہی کوئی مضر بات تھی کہ جس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان ہوسکتا۔۔

عجیب حالت ہے آپ لوگوں کہ ، ابھی کچھ دیر پہلے حاطب رضی اللہ عنہ کے فعل کو کفر شمار کر رہے تھے اور خود حاطب رضی اللہ عنہ کے اقوال سے اس کے ثبوت تراش رہے تھے۔۔
مگر اب اچانک پلٹہ۔۔
اب آپ یہ کاپی پیسٹ کریں گے وہ کام کفر تھا ہی نہیں کیونکہ خط میں کوئی ایسی بات ہی نہیں۔۔۔

میرے پیارے بھائی ، قلہ بازیاں کھانے کی بجائے ، جو حق بات ہے اسے تسلیم کرنا چاہیئے بے شک اس میں کوئی کمتری اور بے عزتی نہیں ، بلکہ یہ ایمان کے قوی ہونے کی دلیل ہے۔۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
جناب آپ کوئی ان درجنوں افراد میں سے ایک ہیں جو یہ قلہ بازی کھا رہے ہیں تاکہ بس اپنا کوا سفید ثابت کر سکیں۔
اب حضرات دیکھئے گا ، کس طرح قلبی اور غیر قلبی کی تفریق کریں گے ہمارے یہی بھائی جو کچھ دیر قبل قلبی ق غیر قلبی کے رد میں تن من دھن سب قربان کرنے کے لئے سرگرم تھے۔


جناب من یہ ہے وہ خط جو حاطب رضی اللہ عنہ نے سارہ نامی عورت کو دے کر مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا ۔کوئی بھی انصاف پسند شخص اس عبارت کو پڑھنے کے بعد اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگائے گا کہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے جو خط مشرکین کو لکھا تھا تو وہ یقیناً جان جائے گا کہ حاطب رضی اللہ عنہ اللہ کی مدد پر یقین رکھتے تھے اور اپنے ایمان میں پختہ تھے ۔اس خط کے ذریعے سے انہوں نے مشرکین مکہ پر رعب ڈالا تھا نہ کہ ان کی مدد کی تھی ۔وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ یہ خط مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حاطب رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر سخت وعید نازل فرمائی ۔سیدنا حاطب یقیناًاپنے دل میں مشرکین سے نفرت اور عداوت رکھتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان کے اس فعل کو مشرکین سے مودّت سے تعبیر کیا ہے!ارشاد فرمایا:﴿تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ﴾ ”تم تومحبت کی بنیاد ڈالنے کے لیے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو۔“اور فرمایا:﴿ تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ﴾”تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو۔“
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔۔ بروسا جی غور فرمائیں اس روایتی قلا بازی پر!

جناب اللہ کی مدد پر یقین اور ایمان کا پختہ ہونے کا مطلب یہ کب سے ہوا کہ انسان مسلمانوں کی جاسوسی کر سکتا ہے؟؟؟ بحوالہ جواب دیجئے گا ورنہ پھر اللہ سے استغفار کیجئے گا۔
آپ کے مطابق جس بھی شخص کو اللہ پر پختہ بھروسا ہو اور مدد پر یقین ہو تو وہ جاسوسی کر سکتا ہے، اس عمل سے وہ کافر نہیں بنے گا۔ اس فہم کی بنیاد و حوالہ؟؟

استغفر اللہ ۔۔۔یہ صریح گستاخی ہے سمیر ، اللہ سے ڈر جاو۔۔
اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی فرما رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصوبوں کی جاسوسی ہو رہی ہے اسے روکیئے اور آپ کہتے ہیں وہ خط رعب کے لئے تھا ۔۔۔۔
کیا اللہ نے ایسا خط رکوایا تھا جو رعب کے لئے تھا؟؟؟
آپ کو یہ فہم کہاں سے الہام ہوا؟؟؟ ویسے یہ شیطانی الہام کے سوا کچھ بھی نہیں !!!!

یہ جس بد بخت بھی کلام ہے ، تحریر ہے وہ خود جس گستاخی کا مرتکب ہوا ہے ، میری طرف سے اسے آگاہ ضرور کر دینا کہ مرنے سے پہلے استغفار کر لے
آپ کے بقول ، انہوں(حاطب رضی اللہ عنہ) نے اگر مشرکین پر رعب ڈالا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اتنی ایمرجنسی میں اس خط کو رکوانے کے لئے صحابہ کو روانہ کیا ؟؟؟
آپ کی عقل گھاس تو نہیں کھانے چلی گئی؟؟
حضرت علی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پریشانی کے ساتھ روانہ کیا ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جو سخت رویہ اس عورت کے ساتھ اختیار کیا حتی کے اسکو برہنہ کرنے پر بھی آمادہ ہوگئے ،اور آپ ہوا میں تیر چلا رہے ہیں کہ " اس خط میں ایسا کیا تھا، وہ تو رعب ڈالنے کے لئے تھا نہ کے مدد" لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے خود ہی اس خط کو کفر سے تعبیر کیا اور اب خود اس خط کو مومنانہ قرار دے دیا۔ حضرت ان گستاخیوں سے باز آجائیے کیوں کہ اس کے چکر میں آپ نے ایک یا دوسری جگہ پر صحابہ پر جھوٹ ضرور باندھا ہے۔ العیاذ باللہ۔

اللہ ہمیں ایسی دور کی گمراہی سے محفوظ فرما۔ آمین
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
ہم نے تو فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی عبارات بھی نقل کی تھیں جن پر آپ نے سرے سے کوئی تبصرہ ہی نہیں کیا ۔جبکہ یہ عبارات اس معاملے میں اہم حیثیت کی حامل ہیں
جناب الشیخ امین اللہ حفظہ اللہ کے اگر میں جہاد پاکستان کو فساد کہنے والے ، اور افغانستان میں آئی ایس آئی اور پاکستان کے امریکہ کے خلاف جنگ میں کردار کو تسلیم کرنے کے بارے فتوی اور آئی ایس آئی کے تعاون سے جہاد کو حلال قرار دینے پر فتوی پیش کیا تو آپ کا تبصرہ والا سرا گم ہو جائے گا۔

الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ ، ایک عالم دین ہیں اور ان کی ہر بات لی جائے گی جو قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین کے مطابق ہو اور ہر وہ بات چھوڑی جائے گی جس میں انہوں نے خطا کھائی ہو۔
ہم علماء کے مقلد نہیں ، بحمد اللہ تعالی۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
برادر یقینآ اب آپ کے پاس دلائل ختم ہوچکے ہیں لہٰذا اب آپ فتویٰ ہی لگائیں گے۔اور دوسروں کی بات کو شیطانی الہام سے تعبیر کریں گے۔ ویسے برادر میں آپ کی اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ یہ وطیرہ اہل باطل کا ہے جسے آپ نے اپنالیا ہے۔ اور اہل توحید کے ساتھ یہ وطیرہ ہمیشہ پیش آیا ہے۔ذیل میں ، میں یہ خط دوبارہ پیش کئے دیتا ہوں ۔ پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ میرے پوسٹ میں وہ خط دکھائی نہیں دے رہا ہے:
اب ہم آپ کے سامنے حاطب کے خط کا متن نقل کرتے ہیں ۔اسے حافظ ابن حجر عسقلانی﷫نے فتح الباري:521/7 باب غزوة الفتح میں ذکر کیا ہے:
(أَمَّا بَعْدُ:یَامَعْشَرَقُرَیْشٍ فَاِنَّ رَسُولَ اللّٰہِﷺجَاءَکُمْ بِجَیْشٍ کَاللَّیْلِ،یَسِیرُ کَالسَّیْلِ، فَوَاللّٰہِ!لَوْجَاءَ کُمْ وَحْدَہٗ لَنَصَرَہُ اللّٰہُ وَأَنْجَزَ لَہٗ وَعْدَہٗ،فَانْظُرُوا لاَِنْفُسِکُمْ وَالسَّلَامُ)
’’أمابعد!اے قریش کے لوگو!رسول اللہﷺسیاہ راتوں جیسا (ناقابلِ تسخیر)لشکر لے کر تمھاری طرف آرہے ہیں جو سیلاب کی طرح تم پر چھاجائے گا۔اللہ کی قسم اگر رسول اللہ ﷺتن تنہا بھی تمہاری طرف نکل پڑیں تو اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا اور اللہ (اپنے نبی کو فتح سے ہمکناار کر کے)اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ لہٰذا تم اپنی خبر لے لو!والسلام ۔‘‘
اب یہ تو قارئین ہی فیصلہ کریں گے حاطب رضی اللہ عنہ کے اس خط سے کیا ثابت ہورہا ہے۔والسلام

آپ نے لکھا کہ:
الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ ، ایک عالم دین ہیں اور ان کی ہر بات لی جائے گی جو قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین کے مطابق ہو اور ہر وہ بات چھوڑی جائے گی جس میں انہوں نے خطا کھائی ہو۔
ہم علماء کے مقلد نہیں ، بحمد اللہ تعالی۔
آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی جو بات میں نے درج کی ہے وہ قرآن وسنت اور فہم سلف صالحین کے مخالف ہے۔اور آپ نے اس معاملے میں فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کو خطاکار قرار دے دیا ہے۔
آپ نے فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی بات کو بھی غلط قرار دے دیا۔لگتا ہے شیخ صاحب سے بات بنی نہیں ۔ جب ہی تو اس بری طرح سے آپ نے ان کا رد کردیا ہے۔ ورنہ تو اسی فورم پر ان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادئے گئے تھے ۔ اور جن لوگوں کو آپ تکفیری کہتے ہیں ، شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی الدین الخالص کے فتاویٰ درج کرکے ان کا رد کرنے کی کوشش کی تھی۔

جناب آپ کوئی ان درجنوں افراد میں سے ایک ہیں جو یہ قلہ بازی کھا رہے ہیں تاکہ بس اپنا کوا سفید ثابت کر سکیں۔
اب حضرات دیکھئے گا ، کس طرح قلبی اور غیر قلبی کی تفریق کریں گے ہمارے یہی بھائی جو کچھ دیر قبل قلبی ق غیر قلبی کے رد میں تن من دھن سب قربان کرنے کے لئے سرگرم تھے۔




لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔۔ بروسا جی غور فرمائیں اس روایتی قلا بازی پر!

جناب اللہ کی مدد پر یقین اور ایمان کا پختہ ہونے کا مطلب یہ کب سے ہوا کہ انسان مسلمانوں کی جاسوسی کر سکتا ہے؟؟؟ بحوالہ جواب دیجئے گا ورنہ پھر اللہ سے استغفار کیجئے گا۔
آپ کے مطابق جس بھی شخص کو اللہ پر پختہ بھروسا ہو اور مدد پر یقین ہو تو وہ جاسوسی کر سکتا ہے، اس عمل سے وہ کافر نہیں بنے گا۔ اس فہم کی بنیاد و حوالہ؟؟

استغفر اللہ ۔۔۔یہ صریح گستاخی ہے سمیر ، اللہ سے ڈر جاو۔۔
اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی فرما رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصوبوں کی جاسوسی ہو رہی ہے اسے روکیئے اور آپ کہتے ہیں وہ خط رعب کے لئے تھا ۔۔۔۔
کیا اللہ نے ایسا خط رکوایا تھا جو رعب کے لئے تھا؟؟؟
آپ کو یہ فہم کہاں سے الہام ہوا؟؟؟ ویسے یہ شیطانی الہام کے سوا کچھ بھی نہیں !!!!

یہ جس بد بخت بھی کلام ہے ، تحریر ہے وہ خود جس گستاخی کا مرتکب ہوا ہے ، میری طرف سے اسے آگاہ ضرور کر دینا کہ مرنے سے پہلے استغفار کر لے
آپ کے بقول ، انہوں(حاطب رضی اللہ عنہ) نے اگر مشرکین پر رعب ڈالا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اتنی ایمرجنسی میں اس خط کو رکوانے کے لئے صحابہ کو روانہ کیا ؟؟؟
آپ کی عقل گھاس تو نہیں کھانے چلی گئی؟؟
حضرت علی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پریشانی کے ساتھ روانہ کیا ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جو سخت رویہ اس عورت کے ساتھ اختیار کیا حتی کے اسکو برہنہ کرنے پر بھی آمادہ ہوگئے ،اور آپ ہوا میں تیر چلا رہے ہیں کہ " اس خط میں ایسا کیا تھا، وہ تو رعب ڈالنے کے لئے تھا نہ کے مدد" لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے خود ہی اس خط کو کفر سے تعبیر کیا اور اب خود اس خط کو مومنانہ قرار دے دیا۔ حضرت ان گستاخیوں سے باز آجائیے کیوں کہ اس کے چکر میں آپ نے ایک یا دوسری جگہ پر صحابہ پر جھوٹ ضرور باندھا ہے۔ العیاذ باللہ۔

اللہ ہمیں ایسی دور کی گمراہی سے محفوظ فرما۔ آمین
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

اس کا جواب میرے پیارے پیارے اور میٹھے اسلامی بھائی نے خود ہی پیش کر دیا اور سارے موضوع کو سمیٹ کر رکھ دیا، میں ممنون ہوں مدنی بھائی کا۔ :)

تو جناب یہی تو ہم کہتے ہیں کہ کفر کا حکم تب لگے گا جب دلی طور پر بندہ مومن نہ رہا ہو اور کفر پر راضی ہو جائے۔اب بتائیے کیا آپ کے پاس کوئی آلہ ہے جو آج کے مسلمانوں کے دل کی کیفیت جان سکے؟

اگر آج کوئی مسلمان یہ کام کرے جو حاطب رضی اللہ نے کیا اور وہ بھی یہی زبان سے کہیے کہ میں نے یہ کفر یا ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ میں مسلمان ہوں تو آپ کیا حکم لگائیں گے ایسے شخص پر؟؟؟

جزاک اللہ خیرا بھائی جان
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
جو عالم دین ہیں اور ان کی ہر بات لی جائے گی جو قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین کے مطابق ہو اور ہر وہ بات چھوڑی جائے گی جس میں انہوں نے خطا کھائی ہو۔
ہم علماء کے مقلد نہیں ، بحمد اللہ تعالی۔
جزاک اللہ خیرا بھائی جان
 
Top