• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کے بارے میں حکم؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مھترم بھائی اگر اس سے مراد آپ کی وہ نام نہاد مجاہدین ہیں جو قرآن و حدیث کو سمجھے بغیر محض تکفیر کی بنیاد پر پاکستان یا مسلم ممالک میں جہاد یا لڑائی شروع کر کے فساد اور جہاد کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور اس میں انکو شرعی دلائل دے کر انکو منع کرنے والے علماء یا عوام کی ہی تکفیر شروع کر دیتے ہیں اور انکا قتل شروع کر دیتے ہیں تو انکے خارجی ہونے میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے البتہ جہاں علماء کے ٹھوس دلائل موجود ہوں اس کے مطابق تکفیر کرنے والے کو خارجی کہنا درست نہیں اگرچہ دوسری طرف بھی کثیر علماء ہوں
عبدہ بھائی! اگر حکم کی بات ہے تو خوارج کہلوائے جانے کے حقدار پہلے علماء ہیں، بعد میں عوام!! کیونکہ عوام کے پاس تو ایک عذر جہالت موجود ہے!!
یہ تو ان دلائل پر منحصر ہے کہ آیا ان کے پاس دلیل کیاہے اور طرز دلالت کیا ہے، کیونکہ سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرنے والے بزعم خویش قرآن سے دلیل رکھتے تھے!!! فتدبر!!
میں تو کسی کو خارجی نہیں کہتا، سوائے چند ایک کے، اور وہ ویسے علماء و مفتیان ہیں!! جو اپنے اس منہج کا علی الاعلان بیان کرتے ہیں۔وگرنہ دیگر کے لئے میں صرف اتنا کہا کرتا ہوں کہ یہ خوارج کا طرز استدلال اور خوارج کے منہج سے موافقت اور ان کے نقش قدم پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
وہی انداز ہے ظالم کا خوارج والا!!
جب ان جہلا کے خارجی ہونے میں بقول آپ کے'' کیا اختلاف ہو سکتا ہے'' تو ان علماء کے کون سے ''سرخاب کے پر '' ہیں کہ انہیں کسی صورت گمراہ نہیں کہا جاسکتا، وہ بھی اس ایک مسئلہ میں؟
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مگر اسکا جواب نہیں ملا بلکہ آپ نے اسکا جواب یوں دیا
جواب کا آپ نے اقتباس بھی لیا اور پھر بھی فرما رہیں ہیں کہ جواب نہیں ملا!
ہمارے جواب میں کون سی کمی رہ گئی ہے کہ یہ کہا جائے کہ جواب مکمل نہیں؟ یہ تو ممکن ہے کہ آپ کے مؤقف کے خلاف جواب ہو، جواب تو بہر حال مکمل ہے!!
صرف اور صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ تکفیر کی حد تک کسی سلفی عالم کو خارجی یا گمراہ کہنا کسی صورت درست نہیں اگر اسکے پاس تاویلات موجود ہوں البتہ اسکو اجتہادی غلطی پر کہا جا سکتا ہے
عبدہ بھائی! اتنی ہی محنت اس کام میں کرلیں کہ ان علماء کو سمجھائیں کہ وہ تکفیر معین کرتے ہوئے وہ بھی خیال رکھیں کہ کسی کے پاس تاویلات موجود ہو سکتی ہیں، کوئی کسی کو کافر قرار دے دے ، مگر جب کافر قرار دینے والے کو مسئلہ تکفیر میں گمراہ قرار دیا جائے، تو ساری تاویلیں یاد آجائیں!! زبردست جناب!!
جب حقیقت میں تمام اہل حدیث علماء یہ مانتے ہیں کہ خالی حکمرانوں کی تکفیر کرنے سے کوئی عالم یا عوام خارجی نہیں ہوتی تو پھر اس کا اقرار کیوں نہیں کیا جاتا
عبدہ بھائی! یہ بھی خوب کہ صرف حکمرانوں کی تکفیر سے کسی کا خارجی ، تکفیری یا گمراہ ہونا قرار نہیں پاتا، حکمران تو فتاوی تکفیر کا تختہ مشق ہیں، جو چاہئے ان کی تکفیر کرتا پھرے، کیا ہوتا ہے اس سے!!
عبدہ بھائی! مسئلہ خوارج میں حکمرانوں کی تکفیر ہی بنیادی امر ہے!! اور آپ نے تو بہت آسانی سے کہہ دیا ''تمام اہل حدیث علماء'' یہ کہتے ہیں!!
حکمرانوں کو کیا آپ نے ''كُکڑی'' سمجھا ہے، کہ مزے سے خود بھی کھاو اور دوسروں کو بھی کھلاو!!
میرا یہ مکمل یقین ہے کہ آپ کو شاید ہی کوئی نمایاں پاکستانی اہل حدیث عالم ملے جو آپ کو لکھ کر یہ فتوی دینے پر تیار ہو کہ جو بھی عالم پاکستانی غیر پاکستانی مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرتا ہے وہ عالم خارجی یا تکفیری ہے اگر آپ کے پاس کوئی ایک بھی ایسا عالم ہے تو مجھے اس کا فتوی لازم دکھائیں یا کم از کم نام ہی بتا دیں تاکہ میں ان سے رابطہ کر کے اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ کر سکوں کہ کوئی اہل حدیث عالم ایسا بھی پاکستان میں موجود ہے جو صرف حکمرانوں کی تکفیر کرنے پر کسی عالم کے تکفیری یا خارجی ہونے کا فتوی دے سکتا ہے
لیکن محترم بھائی یاد رکھیں یہاں بات فتوی کی ہو رہی ہے عام تقریر وغیرہ کی نہیں کیونکہ فتوی دیتے ہوئے علماء احتیاط کرتے ہیں ورنہ وہ عمومی طور پر تو لاشعوری طور پر بہت کچھ کہ جاتے ہیں
عبدہ بھائی! یہ بہت بعد کی بات ہے!!
پہلے دلائل پر بات ہو ، بعد میں دور حاضر کے علماء کی بات!!
 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
سوال یہ ہے کہ خوارج کے بارے میں ہمارے اسلاف رحمہم اللہ کا کیا فیصلہ تھا ؟
کیا وہ مرتد ہیں؟ یا
دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں؟
مسلمان ہیں لیکن کبائر کے مرتکب ہیں

اور سابقہ زمانوں کے خوارج اور آج جن پر خوارج کا حکم لگایا جا رہا ہے وہ ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں؟
یا حالات اور وقت کو مدنظر رکھا جائے گا؟


مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا الْأَزْرَقُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: كُنْتُ أَتَمَنَّى أَنْ أَلْقَى رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنِي عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِيتُ أَبَا بَرْزَةَ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقُلْتُ: يَا أَبَا بَرْزَةَ حَدِّثْنَا بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ: فِي الْخَوَارِجِ فَقَالَ: أُحَدِّثُكَ بِمَا سَمِعَتْ أُذُنَايَ، وَرَأَتْ عَيْنَايَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِيرَ، فَكَانَ يَقْسِمُهَا وَعِنْدَهُ رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُومُ الشَّعْرِ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ بَيْنَ عَيْنَيْهِ أَثَرُ السُّجُودِ، فَتَعَرَّضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ فَلَمْ يُعْطِهِ شَيْئًا، ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ خَلْفِهِ فَلَمْ يُعْطِهِ شَيْئًا. فَقَالَ: وَاللَّهِ يَا مُحَمَّدُ مَا عَدَلْتَ مُنْذُ الْيَوْمَ فِي الْقِسْمَةِ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضَبًا شَدِيدًا، ثُمَّ قَالَ: «وَاللَّهِ لَا تَجِدُونَ بَعْدِي أَحَدًا أَعْدَلَ عَلَيْكُمْ مِنِّي قَالَهَا» . ثَلَاثًا: ثُمَّ قَالَ: «يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ، كأَنَّ هَذَا مِنْهُمْ، هَدْيُهُمْ هَكَذَا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ لَا يَرْجِعُونَ إِلَيْهِ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِهِ، سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، قَالَهَا ثَلَاثًا، شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ» قَالَهَا: ثَلَاثًا.


الْأَزْرَقُ بْنُ قَيْسٍ، شَرِيكِ بْنِ شِهَابٍ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے تمنا تھی کہ اصحاب رسول میں سے کسی سے ملوں اور ان سے خوارج کی حدیث پوچھوں- پس میں أَبَا بَرْزَةَ سے بعض اصحاب کے ساتھ یوم عرفہ کے دن ملا- پس کہا: اے أَبَا بَرْزَةَ کوئی روایت بیان کریں جو آپ نے رسول الله سے خوارج کے بارے میں سنی ہو- پس انہوں نے کہا: میں سناتا ہوں جو میرے کانوں نے سنا اور آنکھوں نے دیکھا- میں نے دیکھا کہ ایک شخص … رسول الله کے پاس آیا جس کا لباس سفید اور ماتھے پر سجدہ کا اثر تھا … رسول الله نے اس کو کچھ نہ دیا .. پس وہ بولا: والله اے محمّد! آج تم نے تقسیم میں انصاف نہیں کیا- پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم غضب ناک ہوئے اور کہا : و الله میرے بعد کوئی نہ ہو گا جو تم سے ایسا عدل کرے تین دفعہ کہا- پھر کہا مشرق سے لوگ نکلیں گے یہ ان میں سے ہو گا یہ قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے آگے نہ جائے گا، دین سے ایسے نکلیں گے جیسے کمان سے تیر جو پلٹ کر نہ آئے اور ہاتھ سینے پر رکھا ان لوگوں کی نشانی سر منڈوانا ہو گی اور یہ نکلتے رہیں گے حتی کہ ان کا آخری گروہ نکلے پس جب دیکھو تو قتل کر دو تین دفعہ کہا بد ترین مخلوق اور بعد میں نے والے


امام حاکم نے بھی اس کو اس سند سے روایت کیا ہے اور کہتے ہیں هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

تلخيص الذهبي میں الذھبی اس پر سکوت کرتے ہیں لیکن میزان میں اس کے راوی کو لا يعرف کہتے ہیں

اس کی سند میں شَرِيكِ بْنِ شِهَابٍ ہے – الذھبی ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں لکھتے ہیں

شريك بن شهاب عن أبي برزة. بصري. لا يعرف إلا برواية الأزرق بن قيس عنه.


شَرِيكِ بْنِ شِهَابٍ ، أبي برزة سے روایت کرتے ہیں- بصری ہیں میں ان کو صرف الأزرق بن قيس کی روایت سے جانتا ہوں


ابن ابی شیبہ اور مسند الرویانی میں میں اسی مجھول راوی کی سند سے ہے

لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ


یہ گروہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری مسیح دجال کے ساتھ ہو گا


ابن حبان نے اپنے انداز میں اس مجھول راوی کو ثقہ قرار دیا ہے

لیکن الذھبی کی رائے درست ہے – راوی شريك بن شهاب پر نہ جرح ہے نہ توثیق ، لہذا وہ مجھول ہے

تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں المزی کہتے ہیں

قَال: شَرِيك ليس بذاك المشهورشریک ایسا مشھور نہیں

مسند احمد اور المستدرك على الصحيحين میں بعض روایات جو قَتادة عن شَهْرِ بن حَوْشَب کی سند سے نقل ہوئی ہیں ان میں ہے کہ عبدُ الله بن عمرو بن العاص نے نوف البکالی سے سوال کیا .. اور پھر عبد الله نے حدیث سنائی کہ میری امت میں سے مشرق سے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا جب بھی ان کی نسل نکلے گی اسے ختم کردیا جائے گا یہ قول دس دفعہ کہا یہاں تک کہ ان کے آخری حصے میں دجال نکل آئے گا۔

اس کی سند میں شہر بن حوشب ہے

النَّسَائِيُّ کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں

ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے

أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے

يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ کہتے ہیں

عَبْدِ اللهِ بنِ عَوْنٍ، قَالَ: إِنَّ شَهْراً تَرَكُوْهُاس کو متروک کہتے ہیں

الذھبی کہتے ہیں اس کی حدیث حسن ہے اگر متن صحیح ہو اور اگر متن صحیح نہ ہو تو اس سے دور رہا جائے کیونکہ یہ ایک احمق مغرور تھا

الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں اس پر لکھتے ہیں

قُلْتُ: مَنْ فَعَلَهُ لِيُعِزَّ الدِّيْنَ، وَيُرْغِمَ المُنَافِقِيْنَ، وَيَتَوَاضَعَ مَعَ ذَلِكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ، وَيَحْمَدَ رَبَّ العَالِمِيْنَ، فَحَسَنٌ، وَمَنْ فَعَلَهُ بَذْخاً وَتِيْهاً وَفَخْراً، أَذَلَّهُ اللهُ وَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَإِنْ عُوْتِبَ وَوُعِظِ، فَكَابَرَ، وَادَّعَى أَنَّهُ لَيْسَ بِمُخْتَالٍ وَلاَ تَيَّاهٍ، فَأَعْرِضْ عَنْهُ، فَإِنَّهُ أَحْمَقٌ مَغْرُوْرٌ بِنَفْسِهِ.


اس سے سنن اربعا اور مسلم نے مقرونا روایت لی ہے

کتاب رجال صحیح مسلم از ابن مَنْجُويَه (المتوفى: 428هـ) کے مطابق

مسلم نے صرف ایک روایت کہ کھمبی ، من میں سے ہے لی ہے

اس روایت میں نوف البکالی ہے جس کا حال مستور ہے اور ابن عباس اس کو کذاب کہتے تھے یہ کعب الاحبار کا سوتیلا بیٹا تھا

بحر الحال بعض لوگوں نے ان روایات کو صحیح مانتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے- لیکن جب راوی مجھول ہے یا مجروح ہے تو اس کی حدیث کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟ واضح رہے کہ خارجی کہنے کی صورت میں ایک بہت بڑا گناہ سر زرد ہو گا ، اگر ملزم خارجی نہ ہوا

خوارج جو علی رضی الله کے دور میں نکلے وہ بالکل ختم نہیں ہوئے بلکہ فرقوں میں بٹ گئے آج بھی ان کا ایک فرقہ عمان پر حکومت کر رہا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جب ان جہلا کے خارجی ہونے میں بقول آپ کے'' کیا اختلاف ہو سکتا ہے'' تو ان علماء کے کون سے ''سرخاب کے پر '' ہیں کہ انہیں کسی صورت گمراہ نہیں کہا جاسکتا، وہ بھی اس ایک مسئلہ میں؟
محترم بھائی بس مجھے یہی جواب چاہئے ٓپ کا اور اسی کے بارے میں نے کہا تھا کہ آپ نے جواب نہیں دیا مگر اوپر آپ کے پیرے سے پہلی دفعہ مجھے لگ رہا ہے کہ آپ نے جواب دے دیا ہے جو پہلے ایسے جواب نہیں دیا تھا پس اب میں اپنا سوال بھی دوبارہ لکھتا ہوں اور آپ کا جو جواب میں سمجھا ہوں اسکو بھی دوبارہ لکھتا ہوں آپ اپنے جواب کی تصدیق کر دیں تاکہ اسی کے تناظر میں میں اپنی بات کی وضاحت کر سکوں جزاکم اللہ خیرا

میرا سوال
آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ چند سلفی موحد علماء کچھ مسلمان حکمرانوں کو کچھ تاویلات کی بنیاد پرکافر کہ رہے ہیں تو کیا ہمیں ان سلفی علماء کو خآرجی اور گمراہ اور تکفیری ہی سمجھنا چاہئے یا اجتہادی غلطی پر سمجھنا چاہئے

آپ کا جواب:
جب جاہل عوام کو حکمرانوں کو کافر کہنے کی وجہ سے خآرجی اور تکفیری اور گمراہ کہنے میں کوئی اختلاف نہیں تو ہمیں ان سلفی علماء کو بھی بالاتفاق خارجی اور تکفیری اور گمراہ سمجھنا اور کہنا چاہئے

محترم بھائی اسکی وضاحت کر دیں اللہ آپ کو اس پر جزائے خیر دے امین

عبدہ بھائی! یہ بھی خوب کہ صرف حکمرانوں کی تکفیر سے کسی کا خارجی ، تکفیری یا گمراہ ہونا قرار نہیں پاتا، حکمران تو فتاوی تکفیر کا تختہ مشق ہیں، جو چاہئے ان کی تکفیر کرتا پھرے، کیا ہوتا ہے اس سے!!
عبدہ بھائی! مسئلہ خوارج میں حکمرانوں کی تکفیر ہی بنیادی امر ہے!! اور آپ نے تو بہت آسانی سے کہہ دیا ''تمام اہل حدیث علماء'' یہ کہتے ہیں!!
حکمرانوں کو کیا آپ نے ''كُکڑی'' سمجھا ہے، کہ مزے سے خود بھی کھاو اور دوسروں کو بھی کھلاو!!
محترم بھائی یہاں میں آپ کو صحیح سمجھا نہیں سکا تھا وہ ایسے کہ میرے جملے کو آپ نے کچھ اور طرح سمجھ لیا حالانکہ وہ کسی اور طرح لکھا گیا تھا اسی طرح کا معاملہ مندرجہ ذیل تھریڈ میں بھی پیش آیا تھا
ایدھی صاحب قادیانی کافر ہیں
یہاں میں نے لکھا تھا کہ
کوئی خالی حکمرانوں کو کافر کہنے سے کوئی تکفیری ہو جاتا ہے

اسکا اصل معنی یہ تھا کہ کوئی انسان اگر حکمران کو کافر کہ دیتا ہے تو کیا خالی اسی کام کی وجہ سے بھی وہ خارجی ہو جائے گا
ویسے اس جملہ سے یہ بھی احتمال نکلتا ہے کہ کوئی انسان عوام کی بجائے خالی حکمرانوں کو ہی کافر سمجھتا ہے تو وہ خآرجی ہو گا

پس آپ نے شاید دوسرا احتمال سمجھ لیا اس میں میں معذرت کرتا ہوں اور بتاتا چلوں کہ میری مراد پہلی بات تھی
خیر یہ ایک ضمنی وضاحت ہے تاکہ یہ وضاحت ہو جائے کہ حکمرانوں سے میری کوئی ذاتی رنجش والی بات نہیں اصل بات میں نے اوپر سوال اور آپ کے جواب کی صورت میں لکھی ہے آپ اسکی تصدیق کر دیں تو میں اپنی بات کی وضاحت کر سکوں گا جزاکم اللہ خیرا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کا جواب:
جب جاہل عوام کو حکمرانوں کو کافر کہنے کی وجہ سے خآرجی اور تکفیری اور گمراہ کہنے میں کوئی اختلاف نہیں تو ہمیں ان سلفی علماء کو بھی بالاتفاق خارجی اور تکفیری اور گمراہ سمجھنا اور کہنا چاہئے
یہ بات میں نے کہاں لکھی ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم بھائی بس مجھے یہی جواب چاہئے ٓپ کا اور اسی کے بارے میں نے کہا تھا کہ آپ نے جواب نہیں دیا مگر اوپر آپ کے پیرے سے پہلی دفعہ مجھے لگ رہا ہے کہ آپ نے جواب دے دیا ہے جو پہلے ایسے جواب نہیں دیا تھا پس اب میں اپنا سوال بھی دوبارہ لکھتا ہوں اور آپ کا جو جواب میں سمجھا ہوں اسکو بھی دوبارہ لکھتا ہوں آپ اپنے جواب کی تصدیق کر دیں تاکہ اسی کے تناظر میں میں اپنی بات کی وضاحت کر سکوں جزاکم اللہ خیرا

میرا سوال
آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ چند سلفی موحد علماء کچھ مسلمان حکمرانوں کو کچھ تاویلات کی بنیاد پرکافر کہ رہے ہیں تو کیا ہمیں ان سلفی علماء کو خآرجی اور گمراہ اور تکفیری ہی سمجھنا چاہئے یا اجتہادی غلطی پر سمجھنا چاہئے

آپ کا جواب:
جب جاہل عوام کو حکمرانوں کو کافر کہنے کی وجہ سے خآرجی اور تکفیری اور گمراہ کہنے میں کوئی اختلاف نہیں تو ہمیں ان سلفی علماء کو بھی بالاتفاق خارجی اور تکفیری اور گمراہ سمجھنا اور کہنا چاہئے

محترم بھائی اسکی وضاحت کر دیں اللہ آپ کو اس پر جزائے خیر دے امین


محترم بھائی یہاں میں آپ کو صحیح سمجھا نہیں سکا تھا وہ ایسے کہ میرے جملے کو آپ نے کچھ اور طرح سمجھ لیا حالانکہ وہ کسی اور طرح لکھا گیا تھا اسی طرح کا معاملہ مندرجہ ذیل تھریڈ میں بھی پیش آیا تھا
ایدھی صاحب قادیانی کافر ہیں
یہاں میں نے لکھا تھا کہ
کوئی خالی حکمرانوں کو کافر کہنے سے کوئی تکفیری ہو جاتا ہے

اسکا اصل معنی یہ تھا کہ کوئی انسان اگر حکمران کو کافر کہ دیتا ہے تو کیا خالی اسی کام کی وجہ سے بھی وہ خارجی ہو جائے گا
ویسے اس جملہ سے یہ بھی احتمال نکلتا ہے کہ کوئی انسان عوام کی بجائے خالی حکمرانوں کو ہی کافر سمجھتا ہے تو وہ خآرجی ہو گا

پس آپ نے شاید دوسرا احتمال سمجھ لیا اس میں میں معذرت کرتا ہوں اور بتاتا چلوں کہ میری مراد پہلی بات تھی
خیر یہ ایک ضمنی وضاحت ہے تاکہ یہ وضاحت ہو جائے کہ حکمرانوں سے میری کوئی ذاتی رنجش والی بات نہیں اصل بات میں نے اوپر سوال اور آپ کے جواب کی صورت میں لکھی ہے آپ اسکی تصدیق کر دیں تو میں اپنی بات کی وضاحت کر سکوں گا جزاکم اللہ خیرا
السلام و علیکم و رحمت اللہ- محترم عبدہ بھائی -

پہلے ہم اس بات کا تعین تو کر لیں کہ مروجہ جمہوری نظام "طاغوتی نظام " ہے یا نہیں؟؟ - اگر یہ "طاغوتی" نظام ہے - تو اس کو چلانے والے حکمران بلا جمع کافر ٹھہرتے ہیں - قرآن کی رو سے :

اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ -
کیا انہوں نے اپنے لیے (اللہ کے) کچھ ایسے شریکِ مقرر کر لیے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت کا (ایسا نظام) مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟ اگر فیصلے کی بات طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اگر آپ کے یا ہمارے علماء کے لئے یہ نظام طاغوتی نہیں ہے تو حکمرانوں کی حیثیت بھی ایک عام معاصی کی سی ہو گی.- یعنی یا تو آپ اِس انتظام کو جو اللہ مالک الملک کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے کردہ شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری مرجع ٹھہرا رکھنے سے عبارت ہے ’طاغوتی‘ ہی قرار نہ دیں۔۔تو اس صورت میں تو حکمران بھی کافر نہیں ایک عام سے گناہ گار ٹھہرتے ہیں-

یا پھر اگر آپ یا یا ہمارے علماء اِس عمل کو جو اللہ مالک الملک کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے کردہ شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری مرجع ٹھہرا رکھنے“ سے عبارت ہے ’عام گناہوں‘ سے مختلف ایک گناہ قرار دیں اور اِس کو وہ ’ظلمِ عظیم‘ مانیں جس کو قرآنی اصطلاح میں ’شرک‘ اور ’کفر‘ کہا جاتا ہے- تو اس صورت میں ان حکمرانوں کو کافر قرار دینا اسلامی احکامات کے مطابق نا صرف جائز ہے بلکہ واجب ہو جاتا ہے-

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے درباری ملّا سرعام اس(کفریہ) جمہوری نظام کو طاغوتی کہنے کے بجاے اس کو مختلف قیل و قال سے مشرف با اسلام کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کہیں اس چکر میں حکمرانوں پر مرتد ہونے کا فتویٰ نہ لگ جائے - اور شامت ان کی اپنی آجاے -

لیکن آخر الله رب العزت کا فیصلہ تو یہی ہے کہ :

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سوره بنی اسرائیل ٨٩
اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا-
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ -
کیا انہوں نے اپنے لیے (اللہ کے) کچھ ایسے شریکِ مقرر کر لیے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت کا (ایسا نظام) مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟ اگر فیصلے کی بات طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
یہ ترجمہ کس نے کیا ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ ترجمہ کس نے کیا ہے؟
وعلیکم سلام و رحمت الله -

یہ احمد علی صاحب کا ترجمہ ہے - اگر اس میں کہیں غلطی ہے تو تصیح کردیں -البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ مذکورہ آیت میں " الدِّيْنِ " کا لفظ استمعال ہوا ہے جس میں عبادات سے لے کر معاشرت و سیاست شرعی تک سب کچھ شامل ہے- اب یہ فریقین پر ہے کہ وہ مروجہ کفریہ جمہوری نظام حکومت کو قران و حدیث کی روشنی میں "کفر"مانتے ہیں یا اپنے باطل نظریات کے ذریے اس طاغوتی نظام کو زبردستی مشرف با اسلام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر احمد علی صاحب سے آپ کی مراد احمد علی لاہوری ہیں تو ان کا ترجمہ تو درج ذیل ہے:
''کیا ان کے اور شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ نکالا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ کا وعدہ نہ ہوا ہوتا تو ان کا دنیا ہی میں فیصلہ ہو گیا ہو تا اور بیشک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے''
اگر کوئی اور احمد علی صاحب ہیں تو ان کا تعارف کروادیں، اور ان کے ترجمہ کا نام اور اشاعت بتلا دیں۔
جزاک اللہ!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر احمد علی صاحب سے آپ کی مراد احمد علی لاہوری ہیں تو ان کا ترجمہ تو درج ذیل ہے:
''کیا ان کے اور شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ نکالا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ کا وعدہ نہ ہوا ہوتا تو ان کا دنیا ہی میں فیصلہ ہو گیا ہو تا اور بیشک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے''
اگر کوئی اور احمد علی صاحب ہیں تو ان کا تعارف کروادیں، اور ان کے ترجمہ کا نام اور اشاعت بتلا دیں۔
جزاک اللہ!
وعلیکم سلام رحمت الله وبرکاتہ

جی میں احمد علی لاہوری کو نہیں جانتا - ممکن یہ وہی ہوں- بہرحال اگر ترجمے میں نقص ہے تو آپ تصیح فرما دیں یا آیت کا صحیح مفہوم بیان کردیں - شکریہ - کیا آپ کے نزدیک غیر الله کے قانون کو ماننا اور نافذ العمل کرنا الله کے ساتھ شرک نہیں ؟؟؟
 
Top