- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی!!
رہی بات حامد کمال الدین کی، تو وہ حافظ سعید حفظ اللہ کے چھوٹے بھائی ہوں یا بڑے بھائی! ان کی ویب سائٹ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رجحان سلفی علماء کی جانب ہے، لیکن ان میں مولانا مودودی کے اثرات بھی کافی نظر آتے ہیں!! خیر !!
اب آیا ہے نام جس پر اصل مدعا قائم کیا گیا ہے!! وہ ہے شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ کا!!
شیخ فوزان کیاکہتے ہیں! ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا بیان کرتے ہیں!!
جس کسی نے بھی اسے ہر حال میں کفر اکبر قرار دیا ہے ، اس معاملے میں اس نے سلفی منہج یعنی سلف الصالحین کے منہج سے انحراف کیا ہے!!
عبدہ بھائی! معلوم ہوتا ہے کہ آپ دلائل سے زیادہ علماء پر حکم لگانے ، لگوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں!!
خیر ! ویسے آپ کی بیان کردہ دونوں صورتیں بھی ہیں ، اور اس کے علاوہ بھی ہیں!
ویسے ایک بات اور کہ وضعی قوانین کا ''ہر حال'' میں کفر اکبر تو کیا، کفر اصغر ہونا بھی صحیح نہیں!!
یہ اہل الرائے کا انداز ہے کہ کسی ایک جگہ سے اصول بنا لیا، اور پھر کسی دلیل ماثور کو اپنے اس اصول کی بنا پر رد کر دیا!! دلیل ماثور ہر صورت مقدم ہوگی!! خواہ اس سے اصول میں استثناء پیدا ہو! یہ اس اصول کا دائرہ کار محدود رہ جائے!
مزید یوں بیان کردوں کہ: ہر عمل ایمان کے وجود کی نفی نہیں کرتا، بلکہ ایمان مع معصیت ، بلکہ گناہ کبیرہ کے ساتھ بھی ایمان کا وجود ثابت ہے!! اور بعض اعمال سے ایمان صلب ہو جاتا ہے!!
شراب نوشی، زنا کاری، جوا، یہ تمام اعمال ما انزل الله کے صریح مخالف ہیں!!
پھر یہ کہنا بھی صحیح ہوا کہ :
''مجھے حیرت ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری وضعی قوانین کے معاملہ میں تو اعتقاد کی شرط کے بغیر کفر کا حکم لگاتے ہیں، مگر شراب نوشی، زنا کاری، جوا کے مرتکب کے معاملے میں اعتقاد کی شرط لگاتے ہیں!! '' فتدبر!!
اور اگر ان معاملات میں بھی شیخ امین اللہ پشاوری اعتقاد کی شرط نہیں لگاتے ، پھر تو معاملہ بہت خراب ہے!!
جہاں تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہے جانے کی بات ہے، تو میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہنے کے باوجود بھی انہیں گمراہ ہی سمجھتا ہوں! کسی مسلمان کو گمراہ سمجھتے ہوئے اس کے لئے رحمت کی دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں!! کیونکہ امام ابو حنیفہ کو رحمہ اللہ لکھنا ، ان کے گمراہ ہونے کی نفی نہیں!!یہاں کوئی اختلاف ہی نہیں کہ اسے اجتہادی اختلاف قرار دیا جائے!!
بالفرض محال آپ کی بات مان بھی لی جائے!! تو یہ تو بتلائیے کہ آپ کے نزدیک کون اجتہادی غلطی پر ہے؟ امام ابو حنیفہ کو گمراہ کہنے والے یا امام ابو حنیفہ کو رحمہ اللہ کہنے والے؟
اجتہادی غلطی اگر استدلال، استنباط، و عدم علم دلیل کی بنا پر ہو تو اسے اجتہادی غلطی قرار دیا جانا بلکل صحیح ہے! لیکن اگر غلطی کی بنیاد ہی ایک مردود اصول ہو، جیسے کہ خبر واحد کو قبول نہ کرنے کا ، تو اسے اجتہادی غلطی نہیں، بلکہ گمراہی قرار دیا جائے گا!! فتدبر!!
آپ شیخ محمد بن ابراھیم کو غلط فہمی کی بنا پر حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے گروہ میں شمار کر رہے ہیں!
وہ عبارت پبر پیش
لہٰذا آپ کا شیخ الاسلام کے تاتاریوں کی تکفیر کے فتوے کو دلیل بنانا درست نہیں! خیر یہ دلیل آپ نے نہیں لیکن محمد علی جواد نے پیش کی تھی!
آپ نے یہاں اس کی علت میں مجھ سے اختلاف کیا تھا۔ جو کسی صورت نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ علت تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ خود بیان کر چکے ہیں!
اب جو آپ نے بات کی ہے، وہ علت کا بیان نہیں !!
آپ کا اعتراض یہ ہے کہ تاتاریوں کا قول تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی پیش نہیں کیا! تو پھر شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کو حکمرانوں کا قول پیش کرنے کی حاجت کیوں؟
صاف صاف کہہ دیں کہ ایسے اقوال موجود نہیں!! اور اگر ہیں تو پیش کریں!! وہ کہتے ہیں کہ:
پیش کر غافل گر دلیل دفتر میں ہے!!
ویسے آپ بہت دور کی کوڑی لائیں ہیں!! ہم آپ سے ایک سوال کرتے ہیں! میں شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کی گواہی پر سوال اٹھا دیتا ہوں، آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی گواہی پر اعتراض کر دیں!!
میں یہ مدعا اٹھاتا ہوں کہ شیخ امین اللہ پشاوری اور طلحہ سعید نے اپنی کم فہمی کی بنا پر حکمرانوں کے مبینہ اقوال سے جو عقائد کشید کئے ہیں، یہ ان کی غلطی ہے، آپ یہ اعتراض شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر کر دیں!!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی طرف سے جواب میں دے دوں گا،شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کی طرف سے جواب آپ دے دیں!!
یہاں بھی آپ ایک بہت اہم نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تاتاریوں کا قول اگر نقل نہیں کیا، تو اس کا معنی یہ نہیں کہ اس کا کوئی وجود ہی نہيں ہوگا!! کیونکہ عدم ذکر عدم وجود نہیں ہوتا!!
وہ بھی اگر نقل نہیں کیا تو!! جبکہ جو عبارت میں نے پیش کی ہے اس میں تاتاریوں کے اقوال بھی موجود ہیں۔
میرے بھائی! شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کا حکمرانوں کے اقوال سے کفر اکبر و کفر بواح کشید کرنا ضرور اجتہادی غلطی ہو سکتا ہے، مگر مسئلہ صرف یہ نہیں! مسئلہ یہ ہے کہ بقول آپ کےوہ اس گروہ میں شامل ہیں:
کیا اس بات کی حاجت ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی عبارت میں دلیل و استدلال کی نشاندہی کی جائے؟؟ اگر یہ عبارت اس کی محتاج ہے تو حکم کریں ہم آپ کا فرمان بجا لائیں گے!!
شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کے دلائل جب آپ بیان کریں گے تو آپ کو بتلایا جاسکے گا ان دلیل میں کیا نقص ہے!! ابھی تک تو یہ ہوائی بات ہے!!
یہ بات اوپر واضح کی گئی ہے کہ: ایک بار پھر پیش کر دیتا ہوں:
صحیح ، یہ آپ کا حق ہے کہ آپ تحکیم ما انزل اللہ کے تحت وضعی قوانین پر دلائل قائم کریں! لیکن یہ آپ کا حق نہیں کہ آپ ان دلائل کی زد میں آنے والے دیگر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو موضوع سے خارج قرار دیں!! وہ کہتے ہیں نا کہ:تحکیم بغیر ما انزل اللہ سے یہاں میری مراد صرف وضعی قوانین کا کسی ملک پر نفاذ ہے جیسا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین نافذ ہیں باقی تحکیم بغیر ما انزل اللہ میرا موضوع نہیں ہے
بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی!!
عبدہ بھائی! ایک تو آپ شیخ امین اللہ پشاوری کو ہر بار بیچ میں لے آتے ہیں!! خیر!!اب ان وضعی قوانین کو نافذ کرنے والوں پر شرعی حکم کے بارے سلفی علماء کے دو گروہ ہیں پہلا گروہ اسکو ہر حال میں کفر سمجھتا ہے چاہے وہ اسکے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے یا نہ رکھے مثلا امین اللہ پشاوری، حامد کمال الدین (حافظ سعید حفظہ اللہ کے چھوٹے بھائی) ، سعودی مفتی اعظم محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ، شیخ فوزان رحمہ اللہ وغیرہ۔
رہی بات حامد کمال الدین کی، تو وہ حافظ سعید حفظ اللہ کے چھوٹے بھائی ہوں یا بڑے بھائی! ان کی ویب سائٹ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رجحان سلفی علماء کی جانب ہے، لیکن ان میں مولانا مودودی کے اثرات بھی کافی نظر آتے ہیں!! خیر !!
اب آیا ہے نام جس پر اصل مدعا قائم کیا گیا ہے!! وہ ہے شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ کا!!
شیخ فوزان کیاکہتے ہیں! ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا بیان کرتے ہیں!!
جی ! اور یہی سلف الصالحین کا مؤقف ہے!اسکے ساتھ ساتھ سلفی علماء کا دوسرا گروہ ان وضعی قوانین کے نفاذ کو اس وقت کفر اکبر سمجھتا ہے جب اسکے نفاذ کو جائز سمجھتے ہوئے کیا جائے ورنہ وہ اسکے نفاذ کو کفر دون کفر سمجھتا ہے
بلکل اختلاف ہے!! شیخ محمد بن ابراھیم اور شیخ فوزان کا یہ مؤقف نہیں کہ جو آپ نے بیان کیا ہے!!میرے خیال میں ان باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں ہو گا
سلفی علماء وضعی قوانین کے نفاذ کو ہر حال میں کفر اکبر سمجھنے والوں کو گمراہ قرار دیتے ہیں! اور اسے خوارج طرز و اسلوب سمجھتے ہیں۔اب میں اس سلسلے میں اپنے سوالات رکھتا ہوں
سوال نمبر 1:
میرا سوال ہے کہ
پہلا گروہ جو وضعی قوانین کے نفاذ کو ہر حال میں کفر اکبر سمجھتے ہیں انکے اس عمل کے بارے دوسرے سلفی علماء مندرجہ ذیل میں سے کون سا حکم لگاتے ہیں
× یہ پہلا علماء کا گروہ اجتہادی غلطی پر ہے یا
× یہ علماء گمراہ اور خارجی ہیں
×کسی سلفی عالم نے اسکے کفر اکبر ہونے کا فتوی دیا ہی نہیں ہے
آخری صورت (کہ کسی عالم نے ایسا فتوی دیا ہی نہیں) پر میرے لئے بحث کرنا عبث رہے گی کیونکہ میرے نزدیک کوے کو سفید کہنے والے کو سمجھانا ممکن نہیں ہے
جس کسی نے بھی اسے ہر حال میں کفر اکبر قرار دیا ہے ، اس معاملے میں اس نے سلفی منہج یعنی سلف الصالحین کے منہج سے انحراف کیا ہے!!
عبدہ بھائی! معلوم ہوتا ہے کہ آپ دلائل سے زیادہ علماء پر حکم لگانے ، لگوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں!!
کفر اصغر یعنی معصیت کو حلال سمجھنا بلکل کفر اکبر ہے!اوپر جن دو سلفی علماء کے گروہوں کا ذکر ہے وہ وضعی قوانین کے مرتکب کے بارے حکم میں اختلاف تب کرتے ہیں جب وہ قوانین نافذ کرنے والا اس نفاذ کرنے کو جائز نہ سمجھتا ہو لیکن اگر ان قوانین کو نافذ کرنے والا انکو جائز بھی سمجھتا ہو تو پھر تمام سلفی علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا کرنے والا کفر اکبر کا مرتکب ہو گا
بھائی جان! وہ اسے قرآن و سنت کے مخالف سمجھ کر جائز نہیں سمجھتے!! یہ بات تو پاکستان کے آئین کے ہی خلاف ہے!!!پاکستان کے حکمرانوں کے بیانا ت کو اٹھا کر اگر دیکھا جائے تو یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ وہ ان قوانین کو نافذ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں
کیوں بھائی! آخر کیوں اس بات پر متفق ہونا چاہئے! وہ معصیت کو معصیت جان کر تو جائز قرار نہیں دے رہا!! اگر یہ قاعدہ رہا تو پھرمجھے نہیں معلوم کہ اس قاعدہ کی رو سے سلف الصالحین میں سے کون بچے گا!! کون سا مجتہد اس قاعدہ کی زد میں نہیں آئے گا!!اب اس طرح جائز سمجھ کر وضعی قوانین نافذ کرنے کی وجہ سے کوئی انکو کفر اکبر کا مرتکب جانے تو اس پر تو دوسرے گروہ والے کو بھی متفق ہونا چاہئے
دوسرے گروہ کے دلائل کو آپ تومقید نہ کرو! کہ ان دو میں سے کون سی دلیل ہے؟؟ وہ ان سے پوچھ لیں کہ کون سی دلیل ہے!! ان علماء کے پاس دلیل ماثور ہے!تو پھر دوسرے گروہ والے مندرجہ ذیل میں سے کس دلیل کے تحت اسکو کفر دون کفر سمجھ رہے ہوتے ہیں
×دوسرے گروہ کے ہاں ایسا کوئی پیغام نہیں ملتا جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ یہ ان وضعی قوانین کے نافذ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں یا
× ان دوسرے گروہ والوں کے ہاں جائز سمجھ کر وضعی قوانین نافذ کرنے والا بھی کفر اکبر کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ کفر دون کفر کا مرتکب
خیر ! ویسے آپ کی بیان کردہ دونوں صورتیں بھی ہیں ، اور اس کے علاوہ بھی ہیں!
ویسے ایک بات اور کہ وضعی قوانین کا ''ہر حال'' میں کفر اکبر تو کیا، کفر اصغر ہونا بھی صحیح نہیں!!
شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ کا مؤقف بیان کرنے میں آپ سے خطاء ہو رہی ہے!!سوال نمبر 3:
سعودی مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ نے وضعی قوانین کے نافذ کرنے والے کو کفر اکبر کا مرتکب کہتے ہوئے یہ کہا کہ یہاں پر ہمیں انکے اعتقاد کو دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کچھ نواقض ایسے ہوتے ہیں جن میں اعتقاد کو دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ انسان ایسا کرتا ہی تب ہے جب وہ اسکے درست ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو
جبکہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ان عرب علماء کے پاس تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے کفر دون کفر اور نماز کے معاملہ میں دونوں جگہ دلیل ماثور ہے!!اسی طرح ایک دفعہ شیخ امین اللہ پشاوری کے سامنے میں اور محترم طاہر اسلام عسکری بھائی اور محترم فہد اللہ مراد بھائی بیٹھے تھے تو اسی بات پر سوال ہو رہا تھا کہ آج کے عرب علماء اس وضعی قوانین کے نفاذ کے عمل میں اعتقاد کی شرط لازمی لگاتے ہیں تو شیخ نے کہا تھا کہ مجھے ان پر حیرت ہوتی ہے کہ یہی عرب علماء نماز کے معاملہ میں تو اعتقاد کی شرط کے بغیر کفر کا حکم لگاتے ہیں مگر یہاں وضعی قوانین کے مفاذ کے معاملہ میں اعتقاد کی شرط لگاتے ہیں
نہیں! عمل عمل پر موقوف ہے!!ان دونوں شیوخ کی بات درست ہونے یا غلط ہونے سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کی وجہ سے اٹھنے والے ایک سوال کا جواب چاہئے کہکیا اعتقاد کیا ہر معاملہ میں دیکھا جائے گا یا بعض دفعہ صرف کفر بواح کا عمل دیکھ کر ہی کفر کا حکم لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ جادو ، گستاخی رسول یا پھر عرب علماء کا بے نمازی کے کفر کا حکم وغیرہ-
یہ اہل الرائے کا انداز ہے کہ کسی ایک جگہ سے اصول بنا لیا، اور پھر کسی دلیل ماثور کو اپنے اس اصول کی بنا پر رد کر دیا!! دلیل ماثور ہر صورت مقدم ہوگی!! خواہ اس سے اصول میں استثناء پیدا ہو! یہ اس اصول کا دائرہ کار محدود رہ جائے!
مزید یوں بیان کردوں کہ: ہر عمل ایمان کے وجود کی نفی نہیں کرتا، بلکہ ایمان مع معصیت ، بلکہ گناہ کبیرہ کے ساتھ بھی ایمان کا وجود ثابت ہے!! اور بعض اعمال سے ایمان صلب ہو جاتا ہے!!
شراب نوشی، زنا کاری، جوا، یہ تمام اعمال ما انزل الله کے صریح مخالف ہیں!!
پھر یہ کہنا بھی صحیح ہوا کہ :
''مجھے حیرت ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری وضعی قوانین کے معاملہ میں تو اعتقاد کی شرط کے بغیر کفر کا حکم لگاتے ہیں، مگر شراب نوشی، زنا کاری، جوا کے مرتکب کے معاملے میں اعتقاد کی شرط لگاتے ہیں!! '' فتدبر!!
اور اگر ان معاملات میں بھی شیخ امین اللہ پشاوری اعتقاد کی شرط نہیں لگاتے ، پھر تو معاملہ بہت خراب ہے!!
محترم ابن داود بھائی آپ کی اوپر تمام باتوں کا جواب میں تب ممکن ہے جب آپ میرے اوپر والی پوسٹ کے سوال نمبر ایک کا جواب دیں گے
آپ کے تینوں سوالات کے جوابات تحریر کر دئیے گئے ہیں۔پس آپ سے انتہائی مودبانہ گزارش ہے کہ پمیرے سوال نمبر ایک کا جواب دے دیں جزاکم اللہ خیرا
ابن ملجم او ر طاہر القادری کے معاملے میں آپ متفق ہیں کہ اسے اجتہادی غلطی کی چادر کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا!!جہاں تک ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہنے کی بات ہے تو وہ درست ہے کچھ نے ایسا کہا اور دوسروں سلفی حضرات نے اسکا رد بھی کیا ہوا ہے اور رد کرنے والے زیادہ ہیں البتہ ابن ملجم یا طاہر القادری وغیرہ کے بارے شاید اختلاف نہ ہو پس میرا اور آپ کا اختلاف اسی میں ہے کہ میرے نزدیک جنہوں نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہا اور جنہوں نے انکو رحمہ اللہ کہا میرے ہاں وہ دونوں سلفی علماء قابل قدر ہیں البتہ ان میں ایک اجتہادی غلطی پر ہے
جہاں تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہے جانے کی بات ہے، تو میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہنے کے باوجود بھی انہیں گمراہ ہی سمجھتا ہوں! کسی مسلمان کو گمراہ سمجھتے ہوئے اس کے لئے رحمت کی دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں!! کیونکہ امام ابو حنیفہ کو رحمہ اللہ لکھنا ، ان کے گمراہ ہونے کی نفی نہیں!!یہاں کوئی اختلاف ہی نہیں کہ اسے اجتہادی اختلاف قرار دیا جائے!!
بالفرض محال آپ کی بات مان بھی لی جائے!! تو یہ تو بتلائیے کہ آپ کے نزدیک کون اجتہادی غلطی پر ہے؟ امام ابو حنیفہ کو گمراہ کہنے والے یا امام ابو حنیفہ کو رحمہ اللہ کہنے والے؟
اجتہادی غلطی اگر استدلال، استنباط، و عدم علم دلیل کی بنا پر ہو تو اسے اجتہادی غلطی قرار دیا جانا بلکل صحیح ہے! لیکن اگر غلطی کی بنیاد ہی ایک مردود اصول ہو، جیسے کہ خبر واحد کو قبول نہ کرنے کا ، تو اسے اجتہادی غلطی نہیں، بلکہ گمراہی قرار دیا جائے گا!! فتدبر!!
بلکل یہ آپ کا حق ہے، لیکن آپ سے ایک التماس ہے کہ ان علماء سے کسی مؤقف کا انتساب ان کی عبارات کے ساتھ کیجئے گا!!اسی طرح میری نزدیک محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ یا شیخ امین اللہ یا حامد کمال الدین وغیرہ یہ سب بھی قابل قدر ہیں جس طرح ابن باز رحمہ اللہ یا شیخ البانی رحمہ اللہ قابل قدر ہیں البتہ آپ کا ان دونوں گروہوں کے علماء کے بارے موقف سامنے آنے پر میں اپنے موقف کا دفاع کروں گا
آپ شیخ محمد بن ابراھیم کو غلط فہمی کی بنا پر حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے گروہ میں شمار کر رہے ہیں!
عبدہ بھائی! آپ کو شیخ الاسلام اب تیمیہ رحمہ اللہ کی جو عبارت پیش کی گئی تھی وہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تاتاریوں کی کفر اعتقادی بنا پر کی تھی!!محترم بھائی میرے نزدیک واقعی علت کا اختلاف ہے اگر آپ کو نہیں لگتا تو میں اسکو آج کے حکمران اور تاتاری حکمران کے موازنہ کی صورت میں سمجھانا چاہوں گا
ہمارے ہاں ایمان تین چیزوں کا مجموعہ ہے یعنی دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار اور عمل بالجوارح۔ پس ہم تاتاریوں اور موجودہ حکمرانوں کی دلی حالت تو کسی صورت نہیں جان سکتے البتہ عمل اور قول دیکھ کر کفر کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور یہ فیصلہ عام آدمی بھی نہیں کر سکتا صرف جید عالم ہی کر سکتا ہے اب آپ نے جو نشانیاں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول سے دکھائی ہیں چاہے وہ عمل کی صورت میں ہیں یا قول کی صورت میں وہ آج کے حکمرانوں میں بھی دیکھ لیں
جہاں تک آپ کی بات کہ کون سے آج کے حکمران نے ان عقائد کا اقرار کیا ہے تو پھر یہ سوال تاتاریوں کے کافر ہونے پر بھی اٹھتا ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کون سے تاتاری حکمران کا ذاتی قول نقل کیا ہے جس میں انہوں نے ان عقائد کا اقرار کیا ہو ورنہ خالی گواہی تو شیخ امین اللہ کی اور ہماری جماعۃ لدعوہ کے طلحہ سعید حفظہ اللہ کی اور سیکڑوں دوسرے علماء کی موجود ہے جو میں یہاں آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں کہ یہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں
وہ عبارت پبر پیش
اور آپ کا بیان مندرجہ ذیل ہے:تاتاریوں کی تکفیر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ان کی تکفیر کی وجوہات صراحتاً بیان کی ہیں:
قَالَ أَكْبَرُ مُقَدِّمِيهِمْ الَّذِينَ قَدِمُوا إلَى الشَّامِ وَهُوَ يُخَاطِبُ رُسُلَ الْمُسْلِمِينَ وَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِمْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. فَقَالَ هَذَانِ آيَتَانِ عَظِيمَتَانِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُحَمَّدٍ وجنكسخان. فَهَذَا غَايَةُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ أَكْبَرُ مُقَدِّمِيهِمْ إلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَأَكْرَمِ الْخَلْقِ عَلَيْهِ وَسَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ وَخَاتَمِ الْمُرْسَلِينَ وَبَيْنَ مَلِكٍ كَافِرٍ مُشْرِكٍ مِنْ أَعْظَمِ الْمُشْرِكِينَ كُفْرًا وَفَسَادًا وَعُدْوَانًا مِنْ جِنْسِ بُخْتِ نَصَّرَ وَأَمْثَالِهِ. وَذَلِكَ أَنَّ اعْتِقَادَ هَؤُلَاءِ التَّتَارِ كَانَ فِي جنكسخان عَظِيمًا فَإِنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ ابْنُ اللَّهِ مِنْ جِنْسِ مَا يَعْتَقِدُهُ النَّصَارَى فِي الْمَسِيحِ وَيَقُولُونَ إنَّ الشَّمْسَ حَبَّلَتْ أُمَّهُ وَأَنَّهَا كَانَتْ فِي خَيْمَةٍ فَنَزَلَتْ الشَّمْسُ مِنْ كُوَّةِ الْخَيْمَةِ فَدَخَلَتْ فِيهَا حَتَّى حَبِلَتْ. وَمَعْلُومٌ عِنْد كُلِّ ذِي دِينٍ أَنَّ هَذَا كَذِبٌ. وَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ وَلَدُ زِنًا وَأَنَّ أَمَّهُ زَنَتْ فَكَتَمَتْ زِنَاهَا وَادَّعَتْ هَذَا حَتَّى تَدْفَعَ عَنْهَا مَعَرَّةَ الزِّنَا وَهُمْ مَعَ هَذَا يَجْعَلُونَهُ أَعْظَمَ رَسُولٍ عِنْدَ اللَّهِ فِي تَعْظِيمِ مَا سَنَّهُ لَهُمْ وَشَرَعَهُ بِظَنِّهِ وَهَوَاهُ حَتَّى يَقُولُوا لِمَا عِنْدَهُمْ مِنْ الْمَالِ. هَذَا رِزْقُ جنكسخان وَيَشْكُرُونَهُ عَلَى أَكْلِهِمْ وَشُرْبِهِمْ وَهُمْ يَسْتَحِلُّونَ قَتْلَ مَنْ عَادَى مَا سَنَّهُ لَهُمْ هَذَا الْكَافِرُ الْمَلْعُونُ الْمُعَادِي لِلَّهِ وَلِأَنْبِيَائِهِ وَرَسُولِهِ وَعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ. فَهَذَا وَأَمْثَالُهُ مِنْ مُقَدِّمِيهِمْ كَانَ غَايَتُهُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَنْ يَجْعَلَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْزِلَةِ هَذَا الْمَلْعُونِ.
مجلد 28 صفحه 521 ۔ 522
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية
قَالَ أَكْبَرُ مُقَدَّمِيهِمْ الَّذِينَ قَدِمُوا إلَى الشَّامِ، وَهُوَ يُخَاطِبُ رُسُلَ الْمُسْلِمِينَ، وَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِمْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ فَقَالَ: هَذَانِ آيَتَانِ عَظِيمَتَانِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ: مُحَمَّدٌ، وَجِنْكِيزْ خَانْ، فَهَذَا غَايَةُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ أَكْبَرُ مُقَدَّمِيهِمْ إلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَكْرَمِ الْخَلْقِ عَلَيْهِ، وَسَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ، وَخَاتَمِ الْمُرْسَلِينَ، وَبَيْنَ مَلِكٍ كَافِرٍ مُشْرِكٍ مِنْ أَعْظَمِ الْمُشْرِكِينَ، كُفْرًا وَفَسَادًا وَعُدْوَانًا مِنْ جِنْسِ بُخْتِ نَصَّرَ وَأَمْثَالِهِ.
وَذَلِكَ أَنَّ اعْتِقَادَ هَؤُلَاءِ التَّتَارِ كَانَ فِي جِنْكِيزْ خَانْ عَظِيمًا فَإِنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ ابْنُ اللَّهِ مِنْ جِنْسِ مَا يَعْتَقِدُهُ النَّصَارَى فِي الْمَسِيحِ، وَيَقُولُونَ: إنَّ الشَّمْسَ حَبَّلَتْ أُمَّهُ، وَأَنَّهَا كَانَتْ فِي خَيْمَةٍ فَنَزَلَتْ الشَّمْسُ مِنْ كُوَّةِ الْخَيْمَةِ فَدَخَلَتْ فِيهَا حَتَّى حَبِلَتْ، وَمَعْلُومٌ عِنْدَ كُلِّ ذِي دِينٍ أَنَّ هَذَا كَذِبٌ.
وَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ وَلَدُ زِنًا، وَأَنَّ أُمَّهُ زَنَتْ فَكَتَمَتْ زِنَاهَا، وَأَخْفَتْ هَذَا حَتَّى تَدْفَعَ عَنْهَا مَعَرَّةَ الزِّنَا، وَهُمْ مَعَ هَذَا يَجْعَلُونَهُ أَعْظَمَ رَسُولٍ عِنْدَ اللَّهِ فِي تَعْظِيمِ مَا سَنَّهُ لَهُمْ، وَشَرَعَهُ بِظَنِّهِ، وَهُوَ حَتَّى يَقُولُوا لِمَا عِنْدَهُمْ مِنْ الْمَالِ هَذَا رِزْقُ جِنْكِيزْ خَانْ، وَيَشْكُرُونَهُ عَلَى أَكْلِهِمْ وَشُرْبِهِمْ، وَهُمْ يَسْتَحِلُّونَ قَتْلَ مَنْ عَادَى مَا سَنَّهُ لَهُمْ هَذَا الْكَافِرُ الْمَلْعُونُ الْمُعَادِي لِلَّهِ وَلِأَنْبِيَائِهِ وَرَسُولِهِ وَعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ.
فَهَذَا وَأَمْثَالُهُ مِنْ مُقَدَّمِيهِمْ كَانَ غَايَتُهُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَنْ يَجْعَلَ مُحَمَّدًا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِمَنْزِلَةِ هَذَا الْمَلْعُونِ،
مجلد 03 صفحه 521 ۔ 542
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية
ان اسلام کے مدعی تاتاریوں میں سے جو لوگ شام آئے ، ان میں سب سے بڑے تارتاری نے مسلمانوں کے پیامبروں سے خطاب کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو مسلمان اور ان کے قریب ثابت کرتے ہوئے کہا: یہ دو عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ کی طرف سے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک محمد عربی ہیں اور دوسرا چنگیز خان ہے۔ پس یہ ان کا وہ انتہائی عقیدہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول جو مخلوق میں سے سب سے بزرگ ' اولاد آدم کے سردار اور نبیوں کی مہر ہیں' انہیں اور ایک کافر اور مشرکین میں سب سے بڑھ کر مشرک' فسادی' ظالم اور بخت نصر کی نسل کو برابر قرار دیا؟ ۔ ان تاتاریوں کا چنگیز خان کے بارے عقیدہ بہت ہی گمراہ کن تھا۔ ان نام نہاد مسلمان تاتاریوں کا تو یہ عقیدہ تھا کہ چنگیز خان اللہ کا بیٹاہے اور یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت مسیح کے بارے عقیدہ تھا۔ یہ تاتاری کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی ماں سورج سے حاملہ ہوئی تھی ۔ وہ ایک خیمہ میں تھی جب سورج خیمہ کے روشندان سے داخل ہوا اور اس کی ماں میں گھس گیا۔ پس اس طرح اس کی ماں حاملہ ہو گئی ۔ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے...اس کے ساتھ ان تاتاریوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہ چنگیز خان کو اللہ کا عظیم ترین رسول قرار دیتے ہیں کیونکہ چنگیز خان نے اپنے گمان سے ان کے لیے جو قوانین جاری کیے ہیں یا مقرر کیے ہیں یہ ان قوانین کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ان کے پاس مال ہے ' اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے اور اپنے کھانے اور پینے کے بعد(اللہ کی بجائے) چنگیز خان کا شکر اداکرتے ہیں اور یہ لوگ اس مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں جو ان کے ان قوانین کی مخالفت کرتا ہے جو اس کافر ملعون' اللہ ' انبیاء و رسل ' محمد عربی اور اللہ کے بندوں کے دشمن نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ پس یہ ان تاتاریوں اور ان کے بڑوں کے عقائدہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد محمد عربی کو چنگیز خان ملعون کے برابر قرار دیتے ہیں۔
اختصار کے ساتھ یوں کہ:
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔
2-تاتاری حکمرانوں کے کافر ہونے پر ہمارا اتفاق ہے البتہ اسکی علت پر اختلاف ہو سکتا ہے
اب ان وضعی قوانین کو نافذ کرنے والوں پر شرعی حکم کے بارے سلفی علماء کے دو گروہ ہیں پہلا گروہ اسکو ہر حال میں کفر سمجھتا ہے چاہے وہ اسکے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے یا نہ رکھے
یعنی آپ تحكیم بغير ما انزل الله میں تکفیر میں اعتقادی شرط کے قائل نہیں!!اسی طرح ایک دفعہ شیخ امین اللہ پشاوری کے سامنے میں اور محترم طاہر اسلام عسکری بھائی اور محترم فہد اللہ مراد بھائی بیٹھے تھے تو اسی بات پر سوال ہو رہا تھا کہ آج کے عرب علماء اس وضعی قوانین کے نفاذ کے عمل میں اعتقاد کی شرط لازمی لگاتے ہیں تو شیخ نے کہا تھا کہ مجھے ان پر حیرت ہوتی ہے کہ یہی عرب علماء نماز کے معاملہ میں تو اعتقاد کی شرط کے بغیر کفر کا حکم لگاتے ہیں مگر یہاں وضعی قوانین کے مفاذ کے معاملہ میں اعتقاد کی شرط لگاتے ہیں
لہٰذا آپ کا شیخ الاسلام کے تاتاریوں کی تکفیر کے فتوے کو دلیل بنانا درست نہیں! خیر یہ دلیل آپ نے نہیں لیکن محمد علی جواد نے پیش کی تھی!
آپ نے یہاں اس کی علت میں مجھ سے اختلاف کیا تھا۔ جو کسی صورت نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ علت تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ خود بیان کر چکے ہیں!
اب جو آپ نے بات کی ہے، وہ علت کا بیان نہیں !!
آپ کا اعتراض یہ ہے کہ تاتاریوں کا قول تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی پیش نہیں کیا! تو پھر شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کو حکمرانوں کا قول پیش کرنے کی حاجت کیوں؟
صاف صاف کہہ دیں کہ ایسے اقوال موجود نہیں!! اور اگر ہیں تو پیش کریں!! وہ کہتے ہیں کہ:
پیش کر غافل گر دلیل دفتر میں ہے!!
ویسے آپ بہت دور کی کوڑی لائیں ہیں!! ہم آپ سے ایک سوال کرتے ہیں! میں شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کی گواہی پر سوال اٹھا دیتا ہوں، آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی گواہی پر اعتراض کر دیں!!
میں یہ مدعا اٹھاتا ہوں کہ شیخ امین اللہ پشاوری اور طلحہ سعید نے اپنی کم فہمی کی بنا پر حکمرانوں کے مبینہ اقوال سے جو عقائد کشید کئے ہیں، یہ ان کی غلطی ہے، آپ یہ اعتراض شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر کر دیں!!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی طرف سے جواب میں دے دوں گا،شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کی طرف سے جواب آپ دے دیں!!
یہاں بھی آپ ایک بہت اہم نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تاتاریوں کا قول اگر نقل نہیں کیا، تو اس کا معنی یہ نہیں کہ اس کا کوئی وجود ہی نہيں ہوگا!! کیونکہ عدم ذکر عدم وجود نہیں ہوتا!!
وہ بھی اگر نقل نہیں کیا تو!! جبکہ جو عبارت میں نے پیش کی ہے اس میں تاتاریوں کے اقوال بھی موجود ہیں۔
میرے بھائی! شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کا حکمرانوں کے اقوال سے کفر اکبر و کفر بواح کشید کرنا ضرور اجتہادی غلطی ہو سکتا ہے، مگر مسئلہ صرف یہ نہیں! مسئلہ یہ ہے کہ بقول آپ کےوہ اس گروہ میں شامل ہیں:
لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھیں !!اب ان وضعی قوانین کو نافذ کرنے والوں پر شرعی حکم کے بارے سلفی علماء کے دو گروہ ہیں پہلا گروہ اسکو ہر حال میں کفر سمجھتا ہے چاہے وہ اسکے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے یا نہ رکھے
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی عبارت میں اگر پکی ٹھکی دلیل نہیں ، تو پھر پکی ٹھکی دلیل کسے کہتے ہیں!!!محترم بھائی پکی ٹھٹی دلیل کا ہی تو تقاضا کیا ہے کہ اوپر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کون سی پکی ٹھٹھی دلیل دی ہے جو شیخ امین اللہ یا محترم طلحہ سعید حفظہ اللہ نے نہیں دی
کیا اس بات کی حاجت ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی عبارت میں دلیل و استدلال کی نشاندہی کی جائے؟؟ اگر یہ عبارت اس کی محتاج ہے تو حکم کریں ہم آپ کا فرمان بجا لائیں گے!!
شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کے دلائل جب آپ بیان کریں گے تو آپ کو بتلایا جاسکے گا ان دلیل میں کیا نقص ہے!! ابھی تک تو یہ ہوائی بات ہے!!
یہ فرق مد نظر رکھنا پڑتا ہے !! ورنہ پھر اہل الرائے اور اہل الحدیث کا فرق بھی ختم ہو جائے گا!! کیونکہ خطا تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے!!جزاکم اللہ خیرا محترم بھائی یہی میں کہنا چاہتا ہوں کہ جو عالم کسی اجتہادی غلطی کی بنیاد پر کسی کی تکفیر کرتا ہے تو اسکو خارجی اور تکفیری نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس طرح ہم موحدین کا اپنا نقصان ہوتا ہے اتفاق ختم ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تعین کون اور کیسے کرے گا کہ فلاں تکفیر اجتہادی غلطی کی بنیاد پر ہے اور فلاں خارجی ہونے کی وجہ سے ہے پس میرے نزدیک تو جو علماء تکفیر کے فتوی کے بعد بھی اہل سنت میں مقبول رہے ہوں اور انہوں نے دلائل کی بنیاد پر ہی تکفیر کی ہو تو وہ خآرجی نہیں ہوں گے واللہ اعلم
یہ بات اوپر واضح کی گئی ہے کہ: ایک بار پھر پیش کر دیتا ہوں:
التماس: طلحہ سعید بھائی سے میرا سلام عرض کیجئے گا!! وہ مجھے اسی نام سے جانتے ہیں!!غلطی اگر استدلال، استنباط، و عدم علم دلیل کی بنا پر ہو تو اسے اجتہادی غلطی قرار دیا جانا بلکل صحیح ہے! لیکن اگر غلطی کی بنیاد ہی ایک مردود اصول ہو، جیسے کہ خبر واحد کو قبول نہ کرنے کا ، تو اسے اجتہادی غلطی نہیں، بلکہ گمراہی قرار دیا جائے گا!! فتدبر!!
Last edited: