• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کے بارے میں حکم؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
خوارج ، ان کے عقیدے کی بناء پر پہچانا جائے گا نہ کہ امریکہ سے اخذکی ہوئی اصطلاحات سے ۔
ان کا عقیدہ یہ ہوگا کہ ہر گناہ کبیرہ کا مرتکب اسلام سے خارج ہے ۔ مثلاً زانی وغیرہ۔
یہ خلیفہ المسلمین سے بغاوت کے مرتکب ہوں گے ۔
قرآن کی غلط توجیہات پیش کریں گے ۔
متفق
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ سب علامات اور پہچان اپنی جگہ
میرا اصل سوال یہ ہے کہ یہ کافر ہیں یا مسلمان؟
بالخصوص عصر حاضر کے وہ لوگ جن پر خوارج کا فتوی لگایا جا رہا ہے اپنے اعمال کی روشنی میں ان پر کیا حکم لگایا جائے گا؟
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
اس اثر کی صحت درکار ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:

أَهْلِ النَّهْرِ أَهُمْ مُشْرِكُونَ؟ قَالَ : " مِنَ الشِّرْكِ فَرُّوا "، قِيلَ : فَمُنَافِقُونَ هُمْ؟ قَالَ : " إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا "، قِيلَ لَهُ : فَمَا هُمْ؟ قَالَ : " قَوْمٌ بَغَوْا عَلَيْنَا "

’’کہ کیا وہ مشرک ہیں؟سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا شرک سے ہی تو وہ بھاگے ہیں۔کہا گیا کہ کیا وہ منافق ہیں؟فرمایا:منافق تو اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں(مگر یہ ایسے نہیں بڑے عبادت گزار ہیں)پوچھا گیایہ پھر کون اور کیسے ہیں؟فرمایا:انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔اس لیے ہم نے ان سے قتال کیا ہے‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:37942،بیہقی:ج:8،ص:174)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس اثر کی صحت درکار ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:

أَهْلِ النَّهْرِ أَهُمْ مُشْرِكُونَ؟ قَالَ : " مِنَ الشِّرْكِ فَرُّوا "، قِيلَ : فَمُنَافِقُونَ هُمْ؟ قَالَ : " إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا "، قِيلَ لَهُ : فَمَا هُمْ؟ قَالَ : " قَوْمٌ بَغَوْا عَلَيْنَا "

’’کہ کیا وہ مشرک ہیں؟سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا شرک سے ہی تو وہ بھاگے ہیں۔کہا گیا کہ کیا وہ منافق ہیں؟فرمایا:منافق تو اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں(مگر یہ ایسے نہیں بڑے عبادت گزار ہیں)پوچھا گیایہ پھر کون اور کیسے ہیں؟فرمایا:انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔اس لیے ہم نے ان سے قتال کیا ہے‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:37942،بیہقی:ج:8،ص:174)
عن شقيق بن سلمة ، قال : قال رجل : من يتعرف البغاة يوم قتل المشركون ؟ يعني أهل النهروان ، فقال علي بن أبي طالب : " من الشرك فروا ، قال : فالمنافقون ؟ قال : المنافقون لا يذكرون الله إلا قليلا ، قال : فما هم ؟ قال : قوم بغوا علينا فنصرنا عليهم *
السنن الكبرى للبيهقي - كتاب القسامة
كتاب قتال أهل البغي - باب الدليل على أن الفئة الباغية منهما لا تخرج بالبغي عن
حديث:‏15554‏

سنن بہیقی میں کچھ کلمات کے فرق کے ساتھ یہی روایت اس طرح موجود ہے اور امام بیہقی کی تبویب توجہ کے قابل ہے اور حکم اس پر جو لگایا جا رہا ہے وہ موقوف کا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس اثر کی صحت درکار ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:

أَهْلِ النَّهْرِ أَهُمْ مُشْرِكُونَ؟ قَالَ : " مِنَ الشِّرْكِ فَرُّوا "، قِيلَ : فَمُنَافِقُونَ هُمْ؟ قَالَ : " إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا "، قِيلَ لَهُ : فَمَا هُمْ؟ قَالَ : " قَوْمٌ بَغَوْا عَلَيْنَا "

’’کہ کیا وہ مشرک ہیں؟سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا شرک سے ہی تو وہ بھاگے ہیں۔کہا گیا کہ کیا وہ منافق ہیں؟فرمایا:منافق تو اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں(مگر یہ ایسے نہیں بڑے عبادت گزار ہیں)پوچھا گیایہ پھر کون اور کیسے ہیں؟فرمایا:انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔اس لیے ہم نے ان سے قتال کیا ہے‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:37942،بیہقی:ج:8،ص:174)
اس اثر کی سند بالکل صحیح ہے ؛
اور اسکے مفہوم ومراد کو سمجھنے کیلئے آپ ۔۔مصنف ابن ابی شیبہ۔۔کا خوارج والا پورا باب غور سے پڑھیں :

خوارج.jpg
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس اثر کی صحت درکار ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:

أَهْلِ النَّهْرِ أَهُمْ مُشْرِكُونَ؟ قَالَ : " مِنَ الشِّرْكِ فَرُّوا "، قِيلَ : فَمُنَافِقُونَ هُمْ؟ قَالَ : " إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا "، قِيلَ لَهُ : فَمَا هُمْ؟ قَالَ : " قَوْمٌ بَغَوْا عَلَيْنَا "

’’کہ کیا وہ مشرک ہیں؟سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا شرک سے ہی تو وہ بھاگے ہیں۔کہا گیا کہ کیا وہ منافق ہیں؟فرمایا:منافق تو اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں(مگر یہ ایسے نہیں بڑے عبادت گزار ہیں)پوچھا گیایہ پھر کون اور کیسے ہیں؟فرمایا:انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔اس لیے ہم نے ان سے قتال کیا ہے‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:37942،بیہقی:ج:8،ص:174)
اس کے لئے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان مبارکہ پر غور کر لیا جائے تو یہ الجھن دور ہوسکتی ہے کہ خوارج مشرک ہیں یا نہیں کیونکہ ان خوارج نے شیر خدا حضرت علی پر نعوذباللہ مشرک ہونے کا فتویٰ لگایا تھا

أيُّما امرئٍ قالَ لأخيهِ : يا كافِرُ . فقد باءَ بِها أحدُهما . إن كانَ كما قالَ . وإلَّا رجعَت عليهِ
الراوي : عبدالله بن عمر المحدث :مسلم

المصدر : صحيح مسلم الصفحة أو الرقم: 60 خلاصة حكم المحدث :صحيح

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا" تم میں سے کوئی بھی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان میں سے کوئی ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے، اگر اس نے کہا، جیسا کہ وہ تھا اور اگر نہیں تو یہ اسی کی طرف پلٹے گا۔''
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
سوال یہ ہے کہ خوارج کے بارے میں ہمارے اسلاف رحمہم اللہ کا کیا فیصلہ تھا ؟
کیا وہ مرتد ہیں؟ یا
دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں؟
مسلمان ہیں لیکن کبائر کے مرتکب ہیں
سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس معاملے میں بہت سے لوگ بہت سی باتوں سے یا جاہل ہوتے ہیں یا کچھ وجوہات سے کی وجہ سے تجاہل عارفانہ کا ارتکاب کرتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تجاہل عارفانہ خواہش نفس کی وجہ سے ہوتا ہے بلکہ بہت سے مخلص لوگوں کے سامنے مصلحتیں اور سد ذرائع جیسی فقہی ضرورتیں ہوتی ہیں جن پر پھر کبھی بات کریں گے
اسی لحاظ سے یہ سمجھنا چاہیے کہ خارجی اور تکفیری ایک ہی چیز کا نام نہیں البتہ خارجیوں کے اندر بھی دوسرے کی تکفیر کرنے کی ایک خاصیت پائی جاتی ہے مگر یہ خاصیت یعنی دوسرے کی تکفیر کرنے کی عادت تو اور بہت سے گروہوں میں بھی پائی جاتی ہے چناچہ معتزلہ اپنے آپ کو ہی صرف اہل توحید سمجھتے تھے باقیوں کو تو وہ توحید والا ہی نہیں سمجھتے تھے اسی طرح آج جماعت المسلمین بھی اپنے آپ کو ہی مسلمان سمجھتے ہے وہ تو اہل حدیث کو بھی مشرک سمجھتے ہے اسی طرح بریلویوں کے بڑے علماء کے فتوے آپ کو وھابیوں کی تکفیر کے مل جائیں گے اسی طرح اللجنہ الدائمہ کا غالبا رافضی عقائد کی تکفیر کا فتوی موجود ہے اسی طرح آج کچھ جید اور مخلص علماء کا حکمرانوں کی تکفیر کا فتوی بھی موجود ہے
یہاں یہ یاد رکھیں کہ اوپر بتائی گئی تکفیر میں کچھ جائز اور کچھ ناجائز تکفیر ہے تو جو جائز تکفیر ہے اسکو تو ویسے بھی کوئی عالم خارجی نہیں کہے گا مر جو ناجائز تکفیر ہے کیا خالی اس تکفیر کرنے کی وجہ سے کوئی عالم انکو خارجی کہتا ہے
میری پہلی گزارش
پس میرے خیال میں پہلے تو خارجی کی ایک درست تعریف پر اتفاق کرنا چاہئے یا اسکی وضاحت کرنی چاہئے تاکہ معاملہ سلجھ سکے

سابقہ خارجی
میرے علم کے مطابق اگرچہ سابقہ خارجیوں کے بارے صحابہ وغیرہ کا اختلاف تھا مگر اوپر بتائی گئی روایت کے مطابق علی رضی اللہ عنہ انکو کافر نہیں سمجھتے تھے اور چونکہ لڑائی بھی علی رضی اللہ عنہ کی انکے ساتھ تھی تو علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی زیادہ اہمت ہو گی
اسی لئے میرے خیال میں وہ خارجی اسلام سے خارج تو نہیں تھے البتہ انکو سزا دینا انکی بغاوت کی وجہ سے اس پر کسی کو اختلاف نہیں تھا
میرے اس خیال کی تائید مندرجہ ذیل فتوی سے بھی ہوتی ہے جو شیخ محمد صالح المنجد کی زیر نگرانی چلنے والی ویب سائیٹ اسلام سوال و جواب پر ۱۹۲۵۶۴ نمبر کا فتوی ہے
لنک
اس میں وہ کہتے ہیں
دین میں جہالت یا تاویل کی بنا پر پیدا ہونے والے عذر میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ متأول کا عذر جاہل سے زیادہ قابلِ قبول ہونا چاہئے، اس لئے کہ وہ اپنے عقیدے سے بہرہ ور ہے، اور اسے سچا سمجھتے ہوئے اس پر دلائل بھی دیتا ہے، اوراسکا دفاع بھی کرتا ہے، اسی طرح عملی یا علمی مسائل میں بھی جہالت یا تاویل کے عذر بننے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کی چاہت کرنے والے متأول پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا، بلکہ اسے فاسق بھی نہیں کہنا چاہئے، بشرطیکہ اس سے اجتہاد میں غلطی ہوئی ہو، یہ بات علماء کے ہاں عملی مسائل میں معروف ہے، جبکہ عقائد کے مسائل میں بہت سے علماء نے خطاکاروں کو بھی کافر کہہ دیا ہے، حالانکہ یہ بات صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں، نہ ہی تابعین کرام سے اور نہ ہی ائمہ کرام میں سے کسی سے ثابت ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اصل میں اہل بدعت کی ہے" انتہی، "منہاج السنۃ" (5/239)
اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان پر حدود جاری نہیں ہونگی، -جیسے کہ قدامہ بن مظعون کو شراب پینے کے بارے میں تاویل کرنے پر حد لگائی گئی- اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ اس کی مذمت نہ کی جائے یا تعزیری سزا نہ دی جائے، بلکہ انکے اس غلط نظریے کو گمراہی اور کفر کہا جائے گا، -جیسے کہ اسکی تفصیل آئندہ آئیگی-اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سے جنگ بھی کرنی پڑے، کیونکہ اصل ہدف لوگوں کو انکے گمراہ کن عقیدہ سے محفوظ کرنا ، اور دین کی حفاظت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر کوئی مسلمان اجتہادی تاویل یا تقلید کی بنا پر واجب ترک کردے، یا پھر کسی حرام کام کا ارتکاب کرے اس شخص کا معاملہ میرے نزدیک بالکل واضح ہے، اسکی حالت تاویل کرنے والے کافر سے بہتر ہے، اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تاویل کرنے والے باغی سے لڑانی نہ کروں، یا تاویل کرتے ہوئے شراب پینے پر کوڑے نہ لگاؤں، وغیرہ وغیرہ، اسکی وجہ یہ ہے کہ تاویل کرنے سے دنیاوی سزا مطقا ختم نہیں ہوسکتی، کیونکہ دنیا میں سزا دینے کا مقصد شر کو روکنا ہوتا ہے" انتہی "مجموع الفتاوی" (22/14)
اور کچھ ایسے بھی ہیں جو گمراہ، بدعتی، فاسق ہیں مثلا: تاویل کرنے والے خارجی اور معتزلی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہیں کرتے، لیکن اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہ ہوگئے، اور اپنے تئیں سمجھتے رہے کہ ہم حق پر ہیں، اسی لئے صحابہ کرام خوارج کی بدعت پر حکم لگانے کیلئے متفق تھے، جیسے کہ انکے بارے میں احادیث صحیحہ میں ذکر بھی آیا ہے، اسی طرح صحابہ کرام انکے اسلام سے خارج نہ ہونے پر بھی متفق تھے اگرچہ خوارج نے خونریزی بھی کی اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب کیلئے شفاعت کے انکاری بھی ہوئےاسکے علاوہ بھی کافی اصولوں کی انہوں نے مخالفت کی ، خوارج کی تاویل نے صحابہ کرام کوتکفیر سے روک دیا۔




اور سابقہ زمانوں کے خوارج اور آج جن پر خوارج کا حکم لگایا جا رہا ہے وہ ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں؟
یا حالات اور وقت کو مدنظر رکھا جائے گا؟
میرے خیال میں سابقہ خوارج اور موجودہ دور کے خوارج میں فرق کرنے سے پہلے میری اوپر پہلی گزارش کا جواب آنا ضروری ہے کہ خارجی کون ہوتا ہے
فی الحال میں اس خارجی کی بات کر رہا ہوں کہ جو خالی تکفیر ہی نہ کرے بلکہ حکمرانوں کی تکفیر کر کے انکے خلاف خروج بھی کرے
یہاں موجودہ اور سابقہ خوارج میں ایک بڑا فرق ہے لیکن یہ میری رائے ہے جسکی علم کی بنیاد پر کسی بھائی سے اصلاح کروانی ہے
اس فرق کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ دیکھیں کہ اوپر لنک پر موجود فتوی میں بھی کہا گیا ہے کہ تاویل والے پر حکم لگانے میں توقف کیا جائے گا البتہ سزا کا معاملہ علیحدہ ہے تو میرے خیال میں سابقہ خوارج کی تاویل کے پیچھے کسی صحابی وغیرہ کا کوئی فتوی موجود نہیں تھا مگر آج کے خوارج کی تاویل کے پیچھے چند مخلص علماء کے فتوے بھی شاید موجود ہیں تو انکی سزا کا معاملہ تو علیحدہ رہے گا مگر تاویل کو زیادہ قبول کیا جائے گا واللہ اعلم
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میرے خیال میں سابقہ خوارج کی تاویل کے پیچھے کسی صحابی وغیرہ کا کوئی فتوی موجود نہیں تھا مگر آج کے خوارج کی تاویل کے پیچھے چند مخلص علماء کے فتوے بھی شاید موجود ہیں تو انکی سزا کا معاملہ تو علیحدہ رہے گا مگر تاویل کو زیادہ قبول کیا جائے گا واللہ اعلم
صحیح بخاری میں منقول ہے کہ
’’ لا یجاوز ایمانھم حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ فاینما لقیتموھم فاقتلوھم۔‘‘
’’ان کا ایمان ان کے نرخرے سے آگے نہیں بڑھے گا ، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔ تم انہیں جہاں پائو قتل کر دو۔‘‘

امام ابو منصور بغدادی نے خوارج کے دو فرقوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک یزید بن ابی انیسہ خارجی کے پیروکار تھے جس نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ عجمیوں میں ایک رسول بھیجے گا جس پرکتاب نازل فرمائے گا اور وہ شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دے گا ۔ ان کا ایک فرقہ میمونیہ نے سورت یوسف کے قرآن ہونے کا یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایسی سورت قرآن کس طرح ہو سکتی ہے جس میں داستان محبت بیان کی گئی ہو (الفرق بین الفرق بحوالہ اسلامی مذاہب)
 
Top