سوال یہ ہے کہ خوارج کے بارے میں ہمارے اسلاف رحمہم اللہ کا کیا فیصلہ تھا ؟
کیا وہ مرتد ہیں؟ یا
دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں؟
مسلمان ہیں لیکن کبائر کے مرتکب ہیں
سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس معاملے میں بہت سے لوگ بہت سی باتوں سے یا جاہل ہوتے ہیں یا کچھ وجوہات سے کی وجہ سے تجاہل عارفانہ کا ارتکاب کرتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تجاہل عارفانہ خواہش نفس کی وجہ سے ہوتا ہے بلکہ بہت سے مخلص لوگوں کے سامنے مصلحتیں اور سد ذرائع جیسی فقہی ضرورتیں ہوتی ہیں جن پر پھر کبھی بات کریں گے
اسی لحاظ سے یہ سمجھنا چاہیے کہ خارجی اور تکفیری ایک ہی چیز کا نام نہیں البتہ خارجیوں کے اندر بھی دوسرے کی تکفیر کرنے کی ایک خاصیت پائی جاتی ہے مگر یہ خاصیت یعنی دوسرے کی تکفیر کرنے کی عادت تو اور بہت سے گروہوں میں بھی پائی جاتی ہے چناچہ معتزلہ اپنے آپ کو ہی صرف اہل توحید سمجھتے تھے باقیوں کو تو وہ توحید والا ہی نہیں سمجھتے تھے اسی طرح آج جماعت المسلمین بھی اپنے آپ کو ہی مسلمان سمجھتے ہے وہ تو اہل حدیث کو بھی مشرک سمجھتے ہے اسی طرح بریلویوں کے بڑے علماء کے فتوے آپ کو وھابیوں کی تکفیر کے مل جائیں گے اسی طرح اللجنہ الدائمہ کا غالبا رافضی عقائد کی تکفیر کا فتوی موجود ہے اسی طرح آج کچھ جید اور مخلص علماء کا حکمرانوں کی تکفیر کا فتوی بھی موجود ہے
یہاں یہ یاد رکھیں کہ اوپر بتائی گئی تکفیر میں کچھ جائز اور کچھ ناجائز تکفیر ہے تو جو جائز تکفیر ہے اسکو تو ویسے بھی کوئی عالم خارجی نہیں کہے گا مر جو ناجائز تکفیر ہے کیا خالی اس تکفیر کرنے کی وجہ سے کوئی عالم انکو خارجی کہتا ہے
میری پہلی گزارش
پس میرے خیال میں پہلے تو خارجی کی ایک درست تعریف پر اتفاق کرنا چاہئے یا اسکی وضاحت کرنی چاہئے تاکہ معاملہ سلجھ سکے
سابقہ خارجی
میرے علم کے مطابق اگرچہ سابقہ خارجیوں کے بارے صحابہ وغیرہ کا اختلاف تھا مگر اوپر بتائی گئی روایت کے مطابق علی رضی اللہ عنہ انکو کافر نہیں سمجھتے تھے اور چونکہ لڑائی بھی علی رضی اللہ عنہ کی انکے ساتھ تھی تو علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی زیادہ اہمت ہو گی
اسی لئے میرے خیال میں وہ خارجی اسلام سے خارج تو نہیں تھے البتہ انکو سزا دینا انکی بغاوت کی وجہ سے اس پر کسی کو اختلاف نہیں تھا
میرے اس خیال کی تائید مندرجہ ذیل فتوی سے بھی ہوتی ہے جو شیخ محمد صالح المنجد کی زیر نگرانی چلنے والی ویب سائیٹ اسلام سوال و جواب پر ۱۹۲۵۶۴ نمبر کا فتوی ہے
لنک
اس میں وہ کہتے ہیں
دین میں جہالت یا تاویل کی بنا پر پیدا ہونے والے عذر میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ متأول کا عذر جاہل سے زیادہ قابلِ قبول ہونا چاہئے، اس لئے کہ وہ اپنے عقیدے سے بہرہ ور ہے، اور اسے سچا سمجھتے ہوئے اس پر دلائل بھی دیتا ہے، اوراسکا دفاع بھی کرتا ہے، اسی طرح عملی یا علمی مسائل میں بھی جہالت یا تاویل کے عذر بننے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کی چاہت کرنے والے متأول پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا، بلکہ اسے فاسق بھی نہیں کہنا چاہئے، بشرطیکہ اس سے اجتہاد میں غلطی ہوئی ہو، یہ بات علماء کے ہاں عملی مسائل میں معروف ہے، جبکہ عقائد کے مسائل میں بہت سے علماء نے خطاکاروں کو بھی کافر کہہ دیا ہے، حالانکہ یہ بات صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں، نہ ہی تابعین کرام سے اور نہ ہی ائمہ کرام میں سے کسی سے ثابت ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اصل میں اہل بدعت کی ہے" انتہی، "منہاج السنۃ" (5/239)
اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان پر حدود جاری نہیں ہونگی، -جیسے کہ قدامہ بن مظعون کو شراب پینے کے بارے میں تاویل کرنے پر حد لگائی گئی- اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ اس کی مذمت نہ کی جائے یا تعزیری سزا نہ دی جائے، بلکہ انکے اس غلط نظریے کو گمراہی اور کفر کہا جائے گا، -جیسے کہ اسکی تفصیل آئندہ آئیگی-اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سے جنگ بھی کرنی پڑے، کیونکہ اصل ہدف لوگوں کو انکے گمراہ کن عقیدہ سے محفوظ کرنا ، اور دین کی حفاظت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر کوئی مسلمان اجتہادی تاویل یا تقلید کی بنا پر واجب ترک کردے، یا پھر کسی حرام کام کا ارتکاب کرے اس شخص کا معاملہ میرے نزدیک بالکل واضح ہے، اسکی حالت تاویل کرنے والے کافر سے بہتر ہے، اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تاویل کرنے والے باغی سے لڑانی نہ کروں، یا تاویل کرتے ہوئے شراب پینے پر کوڑے نہ لگاؤں، وغیرہ وغیرہ، اسکی وجہ یہ ہے کہ تاویل کرنے سے دنیاوی سزا مطقا ختم نہیں ہوسکتی، کیونکہ دنیا میں سزا دینے کا مقصد شر کو روکنا ہوتا ہے" انتہی "مجموع الفتاوی" (22/14)
اور کچھ ایسے بھی ہیں جو گمراہ، بدعتی، فاسق ہیں مثلا: تاویل کرنے والے خارجی اور معتزلی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہیں کرتے، لیکن اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہ ہوگئے، اور اپنے تئیں سمجھتے رہے کہ ہم حق پر ہیں، اسی لئے صحابہ کرام خوارج کی بدعت پر حکم لگانے کیلئے متفق تھے، جیسے کہ انکے بارے میں احادیث صحیحہ میں ذکر بھی آیا ہے، اسی طرح صحابہ کرام انکے اسلام سے خارج نہ ہونے پر بھی متفق تھے اگرچہ خوارج نے خونریزی بھی کی اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب کیلئے شفاعت کے انکاری بھی ہوئےاسکے علاوہ بھی کافی اصولوں کی انہوں نے مخالفت کی ، خوارج کی تاویل نے صحابہ کرام کوتکفیر سے روک دیا۔
اور سابقہ زمانوں کے خوارج اور آج جن پر خوارج کا حکم لگایا جا رہا ہے وہ ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں؟
یا حالات اور وقت کو مدنظر رکھا جائے گا؟
میرے خیال میں سابقہ خوارج اور موجودہ دور کے خوارج میں فرق کرنے سے پہلے میری اوپر پہلی گزارش کا جواب آنا ضروری ہے کہ خارجی کون ہوتا ہے
فی الحال میں اس خارجی کی بات کر رہا ہوں کہ جو خالی تکفیر ہی نہ کرے بلکہ حکمرانوں کی تکفیر کر کے انکے خلاف خروج بھی کرے
یہاں موجودہ اور سابقہ خوارج میں ایک بڑا فرق ہے لیکن یہ میری رائے ہے جسکی علم کی بنیاد پر کسی بھائی سے اصلاح کروانی ہے
اس فرق کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ دیکھیں کہ اوپر لنک پر موجود فتوی میں بھی کہا گیا ہے کہ تاویل والے پر حکم لگانے میں توقف کیا جائے گا البتہ سزا کا معاملہ علیحدہ ہے تو میرے خیال میں سابقہ خوارج کی تاویل کے پیچھے کسی صحابی وغیرہ کا کوئی فتوی موجود نہیں تھا مگر آج کے خوارج کی تاویل کے پیچھے چند مخلص علماء کے فتوے بھی شاید موجود ہیں تو انکی سزا کا معاملہ تو علیحدہ رہے گا مگر تاویل کو زیادہ قبول کیا جائے گا واللہ اعلم