سنتِ نبوی میں خوارج کی صفات
مصنف: شیخ عمار الصیاصنۃ
اتوار 16 ربيع الآخر 1435 ھ ـ موافق 16 فروری 2014 ء
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، ’’خوارج‘‘ ان کلمات میں سے ہے جو حالیہ ایام میں بہت کثرت سے دہرائے جا رہے ہیں، اور اس لفظ کا اطلاق بعض جماعتوں اور تنظیموں پر حق اور باطل دونوں طریقے پر کیا جا رہا ہے، جس کے پیش نظر اب یہ ضروری ہو چکا ہے کہ اس پر کچھ دیر توقف کرتے ہوئے، خوارج کی صفات کو واضح انداز میں بالکل ویسے ہی بیان کیا جائے جیسے سنتِ نبویﷺ میں بیان ہوئی ہیں ،حتی کہ لوگ خود پران صفات کی قربت کےاعتباروحساب سے متوازن انداز سے اِطلاق کرنے لگیں اور پھر ان صفات سے احتراز برتنے کی جدوجہد کریں۔
سنتِ نبوی ﷺ میں امت کے فرقوں میں سے خوارج کے فرقے سے زیادہ کسی اور کی تنبیہ نہیں کی گئی ہے، ان کے متعلق صحیح اور حسن سند کے ساتھ ۲۰ سے زائد احادیث وارد ہوئی ہیں، اور یہ امت کے اوپر ان کےشدید نقصان ، لوگوں پر اپنے معاملہ کی تلبیس اور دھوکے کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ ان کا ظاہر خیروتقوی پر ہے،لیکن ان کا مذہب فقط آراء اور افکار تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہ خونریزی کی طرف تجاوز کرتا ہے۔
سنتِ نبوی میں ان کی ثابت شدہ صفات:
۱)کم سِن: ان کی کثرت کم سِن نوجوان ہوتے ہیں، ان کے اندر اہل خبر اور اہل تجربہ شیوخ اور کبار کی قلت ہوتی ہے، ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: (حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ)، حافظ ابن حجرؒ الفتح الباری (12/287) میں لکھتے ہیں: ’ الْحَدَثُ ‘ کا مطلب ہے ’کم عمر،کم سِن‘۔
۲)طیش اور بے قوفی: عمومی طور پر خوارج اورجو انکے فکری پیروکار ہیں، ان کا تعلق اس (کم عمر) نوجوان طبقے سے ہوتا ہے جن کی طبیعت میں بےقراری، عجلت پسندی، جوش کا غلبہ ہوتا ہے، قلتِ نظر اور فہم وفراست کی کمی ہوتی، تنگ نظراور بصیرت سے محروم ہوتے، جس طرح (متفق علیہ) حدیث میں بیان ہوتا ہے: [آخری زمانے میں ایک قوم ظاہرہو گی جو کم عمر کم سِن ہوں گے،بےوقوف کم عقل ہوں گے] اور ’ والأحلام‘ :دانش مندی اور عقلمندی ہے، اور ’ السَّفه‘: ناپختگی اور ناعاقبت اندیشی کا نام ہے۔
۳)غروروتکبر: خوارج کا گروہ اللہ کے بندوں کے بارے میں غرور و تکبر کرنے اور اپنے نفس اور اعمال کے بارے میں تعجب کرنے کے طور پر معروف ہے، اسی لیے یہ تکبر میں اپنے ہاتھوں سے کمائے ہوئے اعمال اور افعال کے سبب بہت آگےبڑھ جاتے ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
[ان میں ایک قوم ظاہر ہو گی جو عبادت میں بہت ریاضت کرنے والی ہوگی حتی کہ لوگ ان کو دیکھ کر تعجب کریں گے، اور یہ اپنے نفس پر بھی (خودپسندی کی وجہ سے) تعجب کریں گے اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے] (مسند احمد میں صحیح سند سے روایت ہے)
ان کا غرور انہیں علم کے دعوی کی طرف لے جائے گا، اور یہ علماء کی تحقیر کریں گے، اورکسی عظیم سانحہ کے سامنے بھی بلا تجربہ اور بلا تفکر کھڑے ہوں گے، اور اہل فقہ اور اہل رائے سے رجوع ہرگز نہیں کریں گے۔
۴)عبادت میں انتھک مشقت: یہ نماز و روزہ، ذکرو اذکار،قربانی و ایثار میں اہل عبادت میں سے ہوتے ہیں، اور یہی وہ چیز ہے جو ان سے متعلق دوسروں کو دھوکے میں ڈالتی ہے، اسی لیے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیان میں واضح طور پر اسی صفت سے متعلق تنبیہ فرمائی گئی ہے:
[وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی ،نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی، نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی] (صحیح مسلم) اور فرمایا:
[ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانوگےاور انکےروزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے] (متفق علیہ) جب صحابہؓ کی نمازیں انکی نمازوں کے مقابلے میں حقیرہیں، تو پھر اُن کا معاملہ کیسا ہو گا جو صحابی نہیں ہیں؟! جب عبداللہ بن عباسؓ کی ان ملاقات ہوئی تو بیان فرمایا:
[میں ایسی قوم میں گیا جن سے زیادہ میں نے کسی کو عبادت میں ریاضت کرتے نہ دیکھا تھا، ان کے ہاتھ ایسے تھے گویا اونٹ کے پاؤں اور ان کے چہروں پر سجدوں کے نشانات نمایاں تھے] (مصنف عبدالرزاق) ۵) قرآن سے متعلق سوء فہم رکھنا: ان کی کثرت قرآن کو پڑھنے والی اور اس سے استدلال کرنے والی ہے، لیکن بغیر فقہ وعلم کے، بلکہ یہ قرآنی ایات کو موضوع سے ہٹ کر بیان کرتے ہیں، اسی لیے ان کی احادیث میں یہ صفت بیان ہوئی:
[وہ قرآن پڑھیں گے اور یہ گمان کریں گے یہ ان کے حق میں ہے، اور یہ انہی کے اوپر دلیل ہے]، [یہ کتاب اللہ کی تلاوت سے اپنی زبانیں تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا]،[یہ قرآن کو پڑھیں گے، لیکن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا] امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
[ان کو قرآن کی تلاوت سے فقط اپنی زبانوں کو تر رکھنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا، اور یہ ان کے حلق سے نیچے ان کے دل میں نہیں اتر سکےگا،قرآن کی تلاوت سے زبان کو تر رکھنا قرآن کا اصل مطلوب نہیں ہے، بلکہ مطلوب تو اس کو دل میں اتار کر اس پر غورو فکر کرناہے] شیخ اسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
[سب سے پہلی بدعت وہ خوارج کی بدعت کے مثل تھی جس میں قرآن سے متعلق سوء فہم رکھا گیا، انہوں نے قرآن سے تعارض کا قصد نہ کیا تھا، لیکن ان کا قرآن سے فہم کی مراد باطل تھی] اسی لیے عبداللہ بن عمرؓ نے ان خوارج کے بارے میں فرمایا:
[یہ قرآن کی اُن آیات کی طرف گئے جو کفار کے لیے نازل ہوئیں، اور اس کا اِطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا] (امام بخاری نے اسے تعلیق کے طور پر بیان کیا ہے) فتح البار ی میں حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’ ان کو [قراء، پڑھنے والے] اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی تلاوت اور عبادات میں بہت ریاضت کرتے تھے حالانکہ وہ قرآن مجید(احکاماتِ شریعہ) کی تاویل کر کے وہ باطل بات مراد لیتے تھے، جو اس میں مذکور نہ ہوتی تھی، اپنی مستبدانہ (جابرانہ، متشدد) رائے کو اختیار کرتے تھے، زہدو خشوع میں جزویات کا حد سے زیادہ خیال رکھنے والے تھے اور اسی طرح کے دیگر امورِ شریعہ میں یہ رویہ اپناتے تھے ‘‘ ۶) بہترین خوبصورت کلام پیش کریں گے: ان کا بیان بہت ہی بہترین ہوتا ہے، اس کے بیان کی حلاوت اور بلاغت کے بارے میں کوئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا!!، یہ تو اصحاب ِمنطق اور اصحاب ِمناظرہ ہیں، یہ شریعت کی تحکیم کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ حکم صرف اللہ کے لیے ہو جائے، اور اہل کفروارتدار سے قتال کرتے ہیں،لیکن ان کے افعال ان تمام بہترین باتوں کی مخالفت پر ہوتے ہیں!!
جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
[بہترین بات کہنے والے اور بدترین افعال کرنے والےہیں]،[کلمۂ حق کے بارے میں کلام کرنے والے ہیں]،[لوگوں کے سامنے (دھوکہ دہی کے لیےنیک ترین) لوگوں کی بہترین بات بیان کرنے والےہیں] السندی[ حاشيته على سنن النسائي ] میں کہتے ہیں:
[ہر وہ (خوارج ہے) جو خیارِ امت(امت کے نیک ترین لوگ) کے بعض ظاہری اقوال پر کلام کرتا ہے ، مثلاً إن الحكم إلا لله (حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے)، اُن (اقوال) کی نقل کرے،اُن کی طرز پر لوگوں کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دے] ۷)تکفیر کرنا اور خون کو مباح قرار دینا: یہ ان کی وہ صفت ہے جو دیگر(فرقوں) سے ان کا فرق کرتی ہے، بغیر حق کے تکفیر کرنا اور اپنے مخالفین کے خون کو بہانا مباح(جائز) قرار دینا، جیسا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
[اہل اسلام کو قتل کر یں گے اور مشرکین کو چھوڑ دیں گے] (متفق علیہ)
[اور یہ (سب سے بڑی (بری) صفت ہے جس کو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خوارج سے متعلق بیان کیا ہے] (مجموع الفتاوی) ان اہل اسلام کو قتل کرنے کا سبب ان کی تکفیر ہے، قرطبیؒ [المفهم] میں کہتے ہیں:
[پس یہ اس لیے کہ جب یہ ان پر کفر کا حکم لگاتے ہیں جو مسلمانوں میں سے ان کے خلاف خروج کرتا ہے، تو یہ ان کے خون کو حلال جانتے ہیں] ابن تیمیہؒ [مجموع الفتاوی] میں کہتے ہیں:
[یہ اہل قبلہ کے خون کو حلال اس اعتقاد کے ساتھ کرتےہیں کہ یہ مرتدین ہیں اور یہ (اصلی) کفار( جو مرتدین نہیں ہیں )کے مقابلے میں اِن (اہل قبلہ) کے خون کو زیادہ حلال جانتے ہیں] اور فرمایا:
[جو ان کی بدعت کی مخالفت کرے اس کی تکفیرکرتے ہیں، اور اس کےجان و مال کو حلال جانتے ہیں، اور یہی حال اہل بدعت کا ہوتا ہے کہ وہ بدعت کا آغاز کرتے ہیں اور جو انکی مخالفت کرتا ہے اس کی تکفیر کرتے ہیں] (مجموع الفتاوی) خوارج کے نزدیک اس تکفیر کرنے کی بہت ساری صورتیں ہو سکتی ہیں:
جیسا کہ کبائر گناہ کے مرتکب کی تکفیر یا مطلقاً کسی گناہ کی بنیاد پر تکفیر،یاایسے گناہ پر تکفیر جو اصلاً گناہ ہی نہیں ہے، یا ظن اور شبہات پر تکفیر یا امورِ احتمال (امکانات) ہونے کی بنیاد پر تکفیر یا ایسے امور پر تکفیر جن میں اختلافِ رائے اور اجتہاد جائز ہوتا ہے، یا شروط(تکفیر) کی تحقیق کے بغیر تکفیر اور موانع (تکفیر) میں کوتاہی کی بنیاد پر تکفیر ، جہالت وتاویل پر عذر نہیں دیتے، کچھ مخصوص اقوال پر تکفیر کو لازم کرنا،بغیر کسی محکمے، فیصلے، توبہ کے ان لوگوں کے خون کو مباح قرار دیتے جو ان کی تکفیر کر دیتے۔
اسی لیے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان خوارج کے بارے میں فرمایا:
[یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے]
[ان کے دین سے نکل جانے کی مشابہت اس تیر سے دی گئی جو اپنی قوت اور تیزی کے سبب شکار کے اندر داخل ہو کر اس شدت سےدوسری طرف سے خروج کرتا ہے کہ شکار کے جسم پر کسی بھی قسم کا کوئی آثار(نشان) نہیں چھوڑتا ہے] (عمدة القاري) صحیح مسلم میں ہے: [ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں]، مسند احمد میں جید سند کے ساتھ روایت ہے: [ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جو ان (خوارج) کوقتل کریں اور جو ان (خوارج)کے ہاتھوں قتل ہوں]، ابن حجر ؒکہتے ہیں: [بلاشبہ خوارج امتِ محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں شریر ترین بدعتی فرقہ ہے] ۸) ایسے شعار اخذ کرنا جو ان کو باقی لوگوں سے ممتاز کرتےہیں: ہر عہد اوردور میں ان کے کچھ مخصوص شعارہوتے ہیں جن سے یہ دوسروں سے ممتاز ہوتے تھے، یہ شعار جھنڈوں، لباس کے رنگ، شکل و صورت یا دیگر متعلقہ چیزوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
دورِ علی ؓ بن ابی طالب میں ان کا شعار بالوں کو منڈوانا تھا، جیسا کہ اس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے اس قول سے خبر دی تھی: [ان کی نشانی سروں کو منڈوانا ہے] (صحیح بخاری) شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ مجموع الفتاوی (28/ 497) میں کہتے ہیں:
[یہ نشانی (سروں کو منڈوانا) اولین خوارج کی تھی جو چوڑے سینوں والے تھے، البتہ خوارج کے لیے یہ صفت لازم نہیں ہے] امام قرطبیؒ [المفهم] میں کہتے ہیں:
[ ( ان کی نشانی سر منڈوانا تھا) یعنی:انہوں نے اپنے لیے یہ علامت اس لیےخاص کی کیونکہ وہ دنیا کی زینت کو ترک کر چکے تھے، اور یہ شعار اس لیے بنایا تاکہ اس کے ذریعے ان کی پہچان ہو سکے]
http://justpaste.it/iso2