دین اسلام ایک جامع مذہب اور کامل ضابطہ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کےلیے ہر سمت ہدایت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔جتنے انبیاء کرام دنیا میں آئے ان سب نے سب سے پہلے توحید کا درس دیا۔ایک اللہ کی طرف بلایا ۔بہت سے لوگ ایمان بھی لائے یہ سلسہ نبیّ پہ آکر ختم ہوا۔آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد انسان ایک بار پھر شرک کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ ۔اللہ نے انسان اور جنوں کو اس لیے پیدا فرمایا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں ۔اور اس کے کسی\ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ شرک صرف یہ ہی نہیں کہ انسان اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنا لے بلکہ آج شرک ہمارے عقائد ہماری رسم و رواج میں بھی سما چکا ہے۔
ہمارے معاشرے میں آج کل دم کے نام پہ تعویذ گنڈے کرائے جاتے ہیں جس میں شرک کا عنصر چھپا ہوا ہوتا ھے۔جبکہ ان کی شرعی حقیقت کیا ہے؟ان کے بارے میں اللہ کے رسول نے کیا فرمایا؟
عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہےوہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیّ کو فرماتے ہوےسنا کہ جھاڑ پھونک تعویذ اورحب کے اعمال[اس سے مراد شیطانی عمل ہے}سب شرک ہے۔{مسند احمد }۳۸۱/۱
ابو داود میں یہ واقعہ ان الفاظ میں منقول ہے۔
عبداللہ بن مسعود رض کی بیوی سیدہ زینب رض فرماتی ے کہ ایک دفعہ میرے شوہر عبداللہ رض نے میری گردن میں ایک دھاگہ دیکھا اور پوچھنے لگے یہ دھاگہ کیسا ہے ؟میں نے عرض کی یہ دھاگہ مجھے دم کرکے دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی انھوں نے وہ دھاگہ میری گردن سے کاٹ پھینکا اور کہا تم عبداللہ رض کاخاندان ہو تم شرک سے بے نیاز ہو میں نے آپّ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جھاڑ پھونک تعویذ اور حب کے اعمال شرک ہے۔میں نے عرض کی میری آنکھ میں چبھن محسوس ہوتی تھی چناچہ میں فلاں یہودی کے گھر دم کرانے جایا کرتی تھی اس کے دم کرنے سے مجھے سکون سا ہوجایا کرتا تھا ۔سیدنا عبداللہ رض بولے یہ شیطانی عمل ہے۔وہی اپنے ہاتھ سے چبھن کرتا تھا اور جب دم کر دیا جاتا تو اپنا ہاتھ روک لیتا۔لہذا تمھارے لیے اس طرح کہہ دینا کافی تھا جسطرح رسولّ فرماتے تھےکہ
اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لا شفاء الا شفاءک شفاء لا یغادر سقما۔
ترجمہ؛اے کائنات کے پروردگار تکلیف کو دور فرمادے اور تیری شفاء ہی دراصل شفاء ہے شفا عطا فرما کیوں کہ تو ہی بخشنے والا ہے ایسی شفا عطا فرما جس کے بعد کسی قسم کی تکلیف نہ رہے۔{سنن ابی داود حدیث نمبر ۳۸۸۳
اسکا مطلب یہ نہیں کہ دم کرناغلط ہے بلکہ رسولّ نے بھی خود دم کیا اور آپّ کو دم کیا بھی گیا ہے۔اور آپّ نے اسکی اجازت ہی نہیں دی بلکہ دم کرنے کا حکم بھی دیا ہے اگر دم قرآنی آیات پہ مشتمل ہے تو جائز پے۔البتہ اس دم کی ممانعت ہے جو عربی زبان میں نہ ہو کونکہ اکثر اوقات عربی الفاظ کفریہ ہوتے ہےیا ایسے الفاظ پہ مشتمل ہوتے ہیں جس میں شرکیہ کلمات پائے جاتے ہے
علمائے امت کا اس با ت پہ اتفاق ہے ایسا دم جس میں درج ذیل ۳ شرائط پائی جائے وہ دم جائز ہے۔
۱] وہ دم جو کلام اللہ ،اسماء اللہ، یا اس کی صفات پہ مبنی ہو ۔
[۲] وہ دم جو عربی زبان میں ہو ،اسکے معنی بھی واضح اور مشہور ہو اور شریعت کے مطابق ہوں۔
[۳] یہ کہ دم کرنے والا اور کروانے والا یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ دم خود کوئی بااثر چیز نہیں بلکہ سارا معاملہ اللہ کی تقدیر سے وابستہ ہے اگر اللہ نے چاہا تو اثر ہو گا۔
یعنی دم کرنا جائز ہے بشرتیکہ وہ شرکیہ نہ ہو خود نبیّ جب رات سونے کےلیے بستر پہ جاتے تو اپنے پرسورۃ الفلق، الناس، اور الاخلاص پڑھ کہ اپنے ہاتھوں پہ پھونکتے اور اسے تمام جسم پہ پھیر لیتے جب آپّ بیمار ہوئے تو حضرت عائشہ رض آپّ پہ دم کرتی تھیں اور برکت کے لیے آپّ کا ہاتھ آپّ کے جسم مبارک پہ پھرتی تھیں ۔
تو ایسا دم کرنے میں کوئی قباحت نہیں جو قرآنی آیات پہ مشتمل ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ نبیّ نے فرمایا جس شخص نے اپنے گلے یا بازو میں کوئی تعویذ یا دھاگہ لٹکایا ۔تو اس کی ذمہ داری اسی دھاگے تعویذ کے سپرد کر دی جاتِی ہے۔
[سنن ابی داود حدیث نمبر:۳۸۸۳]
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص بھی کوئی تعویذ لٹکائے یا دھاگہ با ندھتا ہے تو وہ حقیقتا غیر اللہ سے تعلق
جوڑتا ہے اور تعویذ دھاگے اور جادو ٹونے سے جس نے وابستگی اختیا ر کرلی تو اللہ تعالی ایسے شخص کو اسی اشیاء کے سپرد کر دیتا ہے ۔اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔ اور اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔
اور جس شخص کے دل کا تعلق اللہ کے ساتھ استوار ہو گیا ۔اور اس نے اپنی تمام حاجات کی ذمہ داری اللہ پہ ڈا ل دی اللہ کی طرف ہی رجوع کیا اور تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دیے ۔تو اللہ تعالی اس کی تمام ضررویات کو خود پورا کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے ۔اس کی تمام حاجات کا خود کفیل بن جاتا ہے۔
سعید بن جبیر رض اللہ عنہ کہتے ہیں ۔رسولّ نے فرمایا " جو شخص کسی کے گلے سے تعویذ وغیرہ کاٹ دے تو اس کو ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔" [مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر ۳۵۲۴۔ و حدیث نمبر،۳۵۱۸]
ان تمام حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف اللہ کے آگے سر کو جھکایا جائے ۔کوئی بیماری یا تکلیف جو بھی انسان پہ آتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اللہ ہی کے حکم سے شفاء ملتی ہے۔اس لیے بجائے غیر شرعی عمل کرکے اللہ کو ناراض کیا جائے ۔ تو اللہ کو ہی پکارا جائے اس کے آگے اپنی تمام حاجت اور پریشانی رکھی جاے اللہ سے جیسا جو گمان رکھے گا اللہ کو ویسا ہی پا ئے گا،۔
ا براہیم بن نخعی کوفی ر۔ح فرماتے ہیں ۔بہت سے علماء کرام فقہاء تعویذات کو وہ قرآن کی آیات پہ مشتمل ہوں یا غیر قرآن، پر مکروہ قرار دیتے ہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس کی ہر حال میں اطاعت کرنے والا بنا دے اور ہر معاملے میں اپنی طرف رجوع کرنے والا بنا دے ان تمام غیر شرعی عمل کرنے سے بچائے۔ امین۔
ہمارے معاشرے میں آج کل دم کے نام پہ تعویذ گنڈے کرائے جاتے ہیں جس میں شرک کا عنصر چھپا ہوا ہوتا ھے۔جبکہ ان کی شرعی حقیقت کیا ہے؟ان کے بارے میں اللہ کے رسول نے کیا فرمایا؟
عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہےوہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیّ کو فرماتے ہوےسنا کہ جھاڑ پھونک تعویذ اورحب کے اعمال[اس سے مراد شیطانی عمل ہے}سب شرک ہے۔{مسند احمد }۳۸۱/۱
ابو داود میں یہ واقعہ ان الفاظ میں منقول ہے۔
عبداللہ بن مسعود رض کی بیوی سیدہ زینب رض فرماتی ے کہ ایک دفعہ میرے شوہر عبداللہ رض نے میری گردن میں ایک دھاگہ دیکھا اور پوچھنے لگے یہ دھاگہ کیسا ہے ؟میں نے عرض کی یہ دھاگہ مجھے دم کرکے دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی انھوں نے وہ دھاگہ میری گردن سے کاٹ پھینکا اور کہا تم عبداللہ رض کاخاندان ہو تم شرک سے بے نیاز ہو میں نے آپّ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جھاڑ پھونک تعویذ اور حب کے اعمال شرک ہے۔میں نے عرض کی میری آنکھ میں چبھن محسوس ہوتی تھی چناچہ میں فلاں یہودی کے گھر دم کرانے جایا کرتی تھی اس کے دم کرنے سے مجھے سکون سا ہوجایا کرتا تھا ۔سیدنا عبداللہ رض بولے یہ شیطانی عمل ہے۔وہی اپنے ہاتھ سے چبھن کرتا تھا اور جب دم کر دیا جاتا تو اپنا ہاتھ روک لیتا۔لہذا تمھارے لیے اس طرح کہہ دینا کافی تھا جسطرح رسولّ فرماتے تھےکہ
اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لا شفاء الا شفاءک شفاء لا یغادر سقما۔
ترجمہ؛اے کائنات کے پروردگار تکلیف کو دور فرمادے اور تیری شفاء ہی دراصل شفاء ہے شفا عطا فرما کیوں کہ تو ہی بخشنے والا ہے ایسی شفا عطا فرما جس کے بعد کسی قسم کی تکلیف نہ رہے۔{سنن ابی داود حدیث نمبر ۳۸۸۳
اسکا مطلب یہ نہیں کہ دم کرناغلط ہے بلکہ رسولّ نے بھی خود دم کیا اور آپّ کو دم کیا بھی گیا ہے۔اور آپّ نے اسکی اجازت ہی نہیں دی بلکہ دم کرنے کا حکم بھی دیا ہے اگر دم قرآنی آیات پہ مشتمل ہے تو جائز پے۔البتہ اس دم کی ممانعت ہے جو عربی زبان میں نہ ہو کونکہ اکثر اوقات عربی الفاظ کفریہ ہوتے ہےیا ایسے الفاظ پہ مشتمل ہوتے ہیں جس میں شرکیہ کلمات پائے جاتے ہے
علمائے امت کا اس با ت پہ اتفاق ہے ایسا دم جس میں درج ذیل ۳ شرائط پائی جائے وہ دم جائز ہے۔
۱] وہ دم جو کلام اللہ ،اسماء اللہ، یا اس کی صفات پہ مبنی ہو ۔
[۲] وہ دم جو عربی زبان میں ہو ،اسکے معنی بھی واضح اور مشہور ہو اور شریعت کے مطابق ہوں۔
[۳] یہ کہ دم کرنے والا اور کروانے والا یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ دم خود کوئی بااثر چیز نہیں بلکہ سارا معاملہ اللہ کی تقدیر سے وابستہ ہے اگر اللہ نے چاہا تو اثر ہو گا۔
یعنی دم کرنا جائز ہے بشرتیکہ وہ شرکیہ نہ ہو خود نبیّ جب رات سونے کےلیے بستر پہ جاتے تو اپنے پرسورۃ الفلق، الناس، اور الاخلاص پڑھ کہ اپنے ہاتھوں پہ پھونکتے اور اسے تمام جسم پہ پھیر لیتے جب آپّ بیمار ہوئے تو حضرت عائشہ رض آپّ پہ دم کرتی تھیں اور برکت کے لیے آپّ کا ہاتھ آپّ کے جسم مبارک پہ پھرتی تھیں ۔
تو ایسا دم کرنے میں کوئی قباحت نہیں جو قرآنی آیات پہ مشتمل ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ نبیّ نے فرمایا جس شخص نے اپنے گلے یا بازو میں کوئی تعویذ یا دھاگہ لٹکایا ۔تو اس کی ذمہ داری اسی دھاگے تعویذ کے سپرد کر دی جاتِی ہے۔
[سنن ابی داود حدیث نمبر:۳۸۸۳]
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص بھی کوئی تعویذ لٹکائے یا دھاگہ با ندھتا ہے تو وہ حقیقتا غیر اللہ سے تعلق
جوڑتا ہے اور تعویذ دھاگے اور جادو ٹونے سے جس نے وابستگی اختیا ر کرلی تو اللہ تعالی ایسے شخص کو اسی اشیاء کے سپرد کر دیتا ہے ۔اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔ اور اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔
اور جس شخص کے دل کا تعلق اللہ کے ساتھ استوار ہو گیا ۔اور اس نے اپنی تمام حاجات کی ذمہ داری اللہ پہ ڈا ل دی اللہ کی طرف ہی رجوع کیا اور تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دیے ۔تو اللہ تعالی اس کی تمام ضررویات کو خود پورا کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے ۔اس کی تمام حاجات کا خود کفیل بن جاتا ہے۔
سعید بن جبیر رض اللہ عنہ کہتے ہیں ۔رسولّ نے فرمایا " جو شخص کسی کے گلے سے تعویذ وغیرہ کاٹ دے تو اس کو ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔" [مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر ۳۵۲۴۔ و حدیث نمبر،۳۵۱۸]
ان تمام حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف اللہ کے آگے سر کو جھکایا جائے ۔کوئی بیماری یا تکلیف جو بھی انسان پہ آتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اللہ ہی کے حکم سے شفاء ملتی ہے۔اس لیے بجائے غیر شرعی عمل کرکے اللہ کو ناراض کیا جائے ۔ تو اللہ کو ہی پکارا جائے اس کے آگے اپنی تمام حاجت اور پریشانی رکھی جاے اللہ سے جیسا جو گمان رکھے گا اللہ کو ویسا ہی پا ئے گا،۔
ا براہیم بن نخعی کوفی ر۔ح فرماتے ہیں ۔بہت سے علماء کرام فقہاء تعویذات کو وہ قرآن کی آیات پہ مشتمل ہوں یا غیر قرآن، پر مکروہ قرار دیتے ہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس کی ہر حال میں اطاعت کرنے والا بنا دے اور ہر معاملے میں اپنی طرف رجوع کرنے والا بنا دے ان تمام غیر شرعی عمل کرنے سے بچائے۔ امین۔