• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دور حاضر کے احناف جہمیہ ہیں!!

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
یا ر ابن داود صاحب : آپ مجھے تو الزام دیتے ہیں کہ میں نے حضرت تھانوی کا قول صحیح نہیں پڑھا ، حالانکہ آپ وہاں پر دیکھے اور تمام ناظریں سے گزارش ہے کہ وہ دیکھ لیں کہ حضرت تھانوی نے فرمایا ہے کہ متاخرین نے جو مبتدعہ کا قول لیاہے وہ ایک خاص ضرورت کے تحت ہے وہ کیا ہے آپ ہی وہاں مشاہدہ فرما لیں !!!!!!!!!
الفاظ یہ ہیں :
متاخرین نے ان مبتدعین کے مذہب کو اختیار کیا ہے
جی جناب ! اور یہ مبتدعہ جہمی ہیں، اور اعتراف ہے مولانا اشرف علی تھانوی کا کہ دور حاضر کے حنفی جہمی ہیں، اور آپ نے بھی یہی اعتراف کر لیا ہے کہ دور حاضر کے حنفیہ جہمی ہیں، بشمول آپ کے!!!!
ویسے متاخرین کا بھی جواب نہیں کہ جو غیر مقلدین آج جس تجسیم میں واقع ہیں اور یہود ونصاری سے مشابہت آئی ہے کیا وہ اچھا ہے یا آپ کے مزعومہ مبتدعہ سے مشابہت ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث جنہیں اہل البدعۃ والضلال "غیر مقلد" کہتے ہیں، تجسیم ان کے عقیدہ میں نہیں پایا جاتا، ہاں مگر اہل البدعۃ والضلال کے دماغ میں!!!
جناب من! اللہ کی صفات میں تاویل کرنے والوں کو حکیم الامت دیوبندیہ جہمی اور مبتدعہ قرار دے رہے ہیں!! اور متاخرین احناف کی جہمیہ سے مشابہت نہیں ان کے جہمی ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے!!!!
رہی بات اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث کی تو ان کی یہود ونصاری کے کسی باطل عقیدے سے مشابہت نہیں!!
اگر بات یہ ہو تو صحابہ کے عقیدہ کو کیا کہو گے!!!!
باقی حضرت تھانوی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ متاخرین کا مذھب بھی وہی ہے جو متقدمیں کا ہے ،
حکیم الامت دیوبندیہ نے بلکل یہ بات لکھی ہے!! مگر یہ ایک لطیفہ سے کم نہیں کیونکہ وہ پہلے یہ لکھ چکے ہیں کہ متاخرین نے مبتدعہ (جہمیہ )کے مذہب کو اختیار کیا ہے!!! یعنی صفات باری تعالیٰ میں تاویل کو اور متقدمین صفات باری تعالیٰ میں تاویل کو اختیار نہیں کرتے، یہ بات بھی وہ اس سے قبل کر چکے ہیں!!!
ہم تو اپنا عقیدہ ڈنکے کے چوٹ پہ ہر غیر مقلد کے سامنے بیاں کرتے ہیں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ تاویل تو آپ بھی کرتے ہے ،
جناب من! عیسائی بھی اپنے عقیدہ کو ڈنکے کی چوٹ پر بیان کرتے ہیں ، ہاں لیکن دفاع نہیں کر سکتے!!! بس یہی معاملہ آپ کا بھی ہے!! یہ اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث ہی ہیں جو اپنا عقیدہ بیان بھی کرتے ہیں اور اس کا دفاع بھی کرتے ہیں!!! مگر متاخرین حنفیہ نے تو اپنے متقدمین کے عقیدہ کو بھی اسی لئے ترک کر دیا کہ وہ عیسائیوں اور جہمیوں کے اعتراضات کے مقابلہ میں اپنے متقدمین کے عقیدہ کا دفاع کرنے کے قابل نہ تھے ، تو خود ہی جہمی بن گئے!!!!
نہیں تو تاویل کی تعریف کریں اور اپنے مسلک کو بتقاضائے آپ کے دعوی کے سالف صالحین سے ثابت کریں ؟؟؟؟؟ پھر میں بھی اپنی تفویض کو اسلاف سے ثابت کروں گا ،
جناب من! اس بات کے لئے دوسرا تھریڈ قائم کر لیں!! یہاں موضوع ہے " دور حاضر کے احناف جہمیہ ہیں!!"
حالانکہ آپ وہاں پر دیکھے اور تمام ناظریں سے گزارش ہے کہ وہ دیکھ لیں
ویسے کیا فرماتے ہیں غیر مقلدیں حضرات بیچ اس مسئلہ میں : کہ سلف صالحین کے عقیدہ کو ماننا تقلید فی عقیدہ نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ صرف ان سوالات کے جوابات دیں کوئی احناف کی طرف نہیں جائے گا جب تک یہ بات ختم نہ ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جناب تو کیا یہ تھریڈ ہی احناف کے عقیدہ پر قائم کیا گیا ہے!! آپ کہتے ہوں احناف کی طرف کوئی نہیں جائے گا!!! یہ عجیب بات ہے!!! نہیں جناب آپ یہ سوال ایک نیا تھریڈ قائم کر کے وہاں کر دیں!! ان شاء اللہ کافی و شافی جواب دیا جائے گا، مگر اس تھریڈ کا موضوع ہے،" دور حاضر کے احناف جہمیہ ہیں!!
آپ کی ایک بات آپ کو یاد دلا دوں:
ابن داود صاحب : بندہ کو فرار لفظ کا پتہ بھی نہیں ، اختیار کرنا تو دور کی بات ہے
 

قاسم

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
97
پوائنٹ
0
ابن داود صاحب : کیوں بار بار آپ کو سمجھنا پڑھتا ہے یار اپنی ہار کا سامنا کرنے ڈرتے ہو، ہر ادنی طالب علم بھی حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے کلام سے سمجھتا ہے بلکہ صریح نص ہے کہ متاخریں نے مبتدعہ کا مسلک اختیار کیا ہے ایک خاص ضرورت سے اگر وہ ضرورت غیر مقلدیت کے فنا ئیت کی صورت میں ختم ہو تو یہ اختیار بھی ختم ہوگا آگے ارشاد ہے کہ ورنہ متاخرین کا اعتقاد وہی ہے جو متقدمین کا ہے یعنی تفویض ، باقی ہر ادنی طالب علم سمجھتا ہے کہ یہ تاویل مستقل اختیار نہیں کی گیا اس لئے تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ متاخرین کامذہب وہی ہے جو متاخرین کا ہے یہ غلط ہے تھوڑا آگے جاکر پھر فرماتا کہ اہل سنت والجماعۃ تنزیہ کے قائل ہیں ، اب آپ بتائیں کہ اس میں غلط فہمی کے کیا وجوہات ہیں ، ساتھ میں اگر احناف کی تجسیم آپ ثابت کریں تو بندہ رجوع کیلئے تیار ہے ،
باقی یہ بھی بتاوں کہ یہ تاویل صرف حنفیہ بوقت ضرورت نہیں کرتے بلکہ شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں ، نصوص طلب کرنے کی شاید ضرورت نہیں آئیگی ، مزے کی بات یہ ہے کہ خود آپ ہی انہی کو اہل حدیث قرار دیتے ہیں جیساکہ ذیل میں آپ یوں گویا ہے :
ارے جناب!! ابھی پیراگراف میں آپ نے کہا تھا کہ صرف موضوع سے متعلق گفتگو کریں گے!! مگر کوئی بات نہیں !! ابھی آپ نئے نئے آئیں ہیں !! ویسے مری پچھلی تحریر سے آپ کو اندازہ تو ہو جانا چاہئے تھا کہ اس کا جواب تو آپ کو کما حقہ دیا جائے گا!!
ایک بات ذرا اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیں!! امام مالک اور ان کے شاگرد یا ان سے منسوب مالکہ ہوں، یا امام شافعی اور ان کے شاگرد یا ان سے منسوب شوافع ہوں یا امام احمد بن حنبل اور ان کے شاگرد یا ان سے منسوب حنابلہ ہوں، یا کوئی اور امام اور ان کے شاگرد ہوں!!! یہ تمام کہ تمام اہل الحدیث ہیں، گر وہ مقلد نہ ہوں!!!!
http://www.kitabosunnat.com/forum/تاریخ-25/تاریخ-میں-سند-کی-حیثیت-5600/
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن داود صاحب : کیوں بار بار آپ کو سمجھنا پڑھتا ہے یار اپنی ہار کا سامنا کرنے ڈرتے ہو،
جناب من! سمجھا تو ہم آپ کو رہے ہیں اور وہ بھی آپ کے حکیم الامت کی عبارت!! اور آپ ہو کہ اردو بھی نہیں سمجھ پا رہے!!! اور جناب من!! 2006 میں میں نے اپنی ہار مان لی تھی ، اور اس ہار کے بعد میں ہی میری اصل جیت ہوئی ہے!! اس وقت میں ایک دیوبندی تھا جو اہل الحدیث کے دلائل کے سامنے ہار گیا تھا۔ لہذا جناب!! اگر ہار سے ڈرنے والی کوئی بات کوئی بات مجھ میں نہیں ، الحمدللہ!!!
ہر ادنی طالب علم بھی حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے کلام سے سمجھتا ہے بلکہ صریح نص ہے کہ متاخریں نے مبتدعہ کا مسلک اختیار کیا ہے ایک خاص ضرورت سے
یہ بات بھی لکھا کریں کہ وہ مبتدعہ جن کا عقیدہ متاخرین احناف نے اختیار کیا ہے، وہ جہمیہ ہیں، یعنی متاخرین احناف نے جہمی عقیدہ اختیار کیا ہے!!
وہ ضرورت کیا تھی یہ بھی تو تھانوی صاحب نے بتلائی ہے!!
متاخرین حنفیہ نے تو اپنے متقدمین کے عقیدہ کو بھی اسی لئے ترک کر دیا کہ وہ عیسائیوں اور جہمیوں کے اعتراضات کے مقابلہ میں اپنے متقدمین کے عقیدہ کا دفاع کرنے کے قابل نہ تھے ، تو خود ہی جہمی بن گئے!!!!
اگر وہ ضرورت غیر مقلدیت کے فنا ئیت کی صورت میں ختم ہو تو یہ اختیار بھی ختم ہوگا
ایں خیال است و محال است و جنوں!!
کیونکہ اہل الحدیث کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لا يضرهم من خذلهم ولا من خالفهم حتى يأتيهم أمر الله وهم على ذلك
میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا ، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حالت پر ہیں گے
آگے ارشاد ہے کہ ورنہ متاخرین کا اعتقاد وہی ہے جو متقدمین کا ہے
اس بے سروپا بات کا بطلان ایک بار پھر پیش کیئے دیتا ہوں:
متقدمین احناف کا عقیدہ بقول حکیم الامت دیوبندیہ:
کہ حدیثیں اپنے ظاہر پر رکھی جائیں یعنی یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی ہیں اور پیر بھی اور آنکھ بھی اور کان سب چیزیں ہیں مگر ہم ان کی کیفیات سے آگاہ نہیں ہیں جیسا وہ خدائے بے مثل ہے اور جیسا اس کی ذات کا کما حقہ ادراک نہیں ہو سکتا ایسے ہی اس کے صفات کا ادراک بھی محال ہے اور سلف صالحین و علماءمتقدمین کا یہی مذہب تھا
متاخرین احناف کا عقیدہ بقول حکیم الامت دیوبندیہ:
جہمیہ جو ایک فرقہ اسلامیہ ہے وہ ان امور میں تاویل کرتے ہیں۔ مثلا يد الله فوق ايديهم میں ید سے مراد قوت کہتے ہیں۔
اور متاخرین نے ان مبتدعین کے مذہب کو اختیار کیا ہے
حکیم الامت دیوبندیہ نے بلکل یہ بات لکھی ہے!! مگر یہ ایک لطیفہ سے کم نہیں کیونکہ وہ پہلے یہ لکھ چکے ہیں کہ متاخرین نے مبتدعہ (جہمیہ )کے مذہب کو اختیار کیا ہے!!! یعنی صفات باری تعالیٰ میں تاویل کو اور متقدمین صفات باری تعالیٰ میں تاویل کو اختیار نہیں کرتے، یہ بات بھی وہ اس سے قبل کر چکے ہیں !!!
یعنی تفویض ،
اوراس تفویض کا تو حکیم الامت دیوبندیہ نے تذکرہ تک نہیں کیا!!
باقی ہر ادنی طالب علم سمجھتا ہے کہ یہ تاویل مستقل اختیار نہیں کی گیا
لو جناب!! اب قاسم صاحب کے بقول ان کا عقیدہ بھی صبح و شام بدلتا رہتا ہے!! ان کا تو عقیدہ مستقل نہیں رہتا!!!
اس لئے تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ متاخرین کامذہب وہی ہے جو متاخرین کا ہے یہ غلط ہے
آپ یہ جملہ لکھنے میں خطا کر گئے ہیں!! تصحیح کر لیں!!!
تھوڑا آگے جاکر پھر فرماتا کہ اہل سنت والجماعۃ تنزیہ کے قائل ہیں ، اب آپ بتائیں کہ اس میں غلط فہمی کے کیا وجوہات ہیں ،
ہمیں قطعی کوئی غلط فہمی نہیں!!! اس میں غلط فہمی کی کوئی وجہہ نہیں!! ہم بلکل حکیم الامت دیوبندیہ کے اس اقرار کق قبول کرتے ہیں کہ دور حاضر کے احناف جہمیہ ہیں!!!!
ساتھ میں اگر احناف کی تجسیم آپ ثابت کریں تو بندہ رجوع کیلئے تیار ہے ،
ارے جناب! ہم نے دعوی کیا دور حاضر کے احناف کے جہمیہ ہونے پر، سو ہم نے وہ ثابت کیا ہے!!! ہم نے احناف پر تجسیم کا دعوی ہی نہیں کیا !!!
باقی یہ بھی بتاوں کہ یہ تاویل صرف حنفیہ بوقت ضرورت نہیں کرتے بلکہ شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں ،
جناب من!! جو یہ تاویل کرتے ہیں وہ اشعری ، ماتریدی، جہمی و معتزلی ہوتے ہیں!!! اور کچھ شافعیہ ، مالکیہ اور حنابلہ کا اشعری ، ماتریدی، جہمی و معتزلہ ہونا ممکن ہے!!
نصوص طلب کرنے کی شاید ضرورت نہیں آئیگی ، مزے کی بات یہ ہے کہ خود آپ ہی انہی کو اہل حدیث قرار دیتے ہیں جیساکہ ذیل میں آپ یوں گویا ہے :
ارے جناب!! ابھی پیراگراف میں آپ نے کہا تھا کہ صرف موضوع سے متعلق گفتگو کریں گے!! مگر کوئی بات نہیں !! ابھی آپ نئے نئے آئیں ہیں !! ویسے مری پچھلی تحریر سے آپ کو اندازہ تو ہو جانا چاہئے تھا کہ اس کا جواب تو آپ کو کما حقہ دیا جائے گا!!
ایک بات ذرا اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیں!! امام مالک اور ان کے شاگرد یا ان سے منسوب مالکہ ہوں، یا امام شافعی اور ان کے شاگرد یا ان سے منسوب شوافع ہوں یا امام احمد بن حنبل اور ان کے شاگرد یا ان سے منسوب حنابلہ ہوں، یا کوئی اور امام اور ان کے شاگرد ہوں!!! یہ تمام کہ تمام اہل الحدیث ہیں، گر وہ مقلد نہ ہوں!!!!
جناب من! جو بھی جہمی ہوگا، وہ خود کو اہل السنت والجماعت اہل الحدیث کہلواتا رہے، اس کے کہلوانے سے وہ اہل السنت والجماعت اہل الحدیث نہیں ہو جائے گا!! جیسے قادیانی خود کو مسلمان کہلواتے ہیں ، لیکن کیا خود کو مسلمان کہلوانے سے وہ قادیانی بھی مسلمان ہو جاتے ہیں!!!
اور آپ دور حاضر کے احناف کی مثال ہی لے لیں!! کہلواتے تو وہ بھی خود کو اہل السنت والجماعت ہو، لیکن کیا وہ اہل السنت والجماعت کہلوانے سے اہل السنت والجماعت ہو جاتے ہو!! قطعی نہیں!! بلکہ وہ رہتے جہمی کے جہمی ہی ہیں!!!
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
ابن داودبھائی حضرت تھانوی کے قول پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی میں حضرت کا کلام سمجھا دیتا ہوں قاسم آپ بھی آجائیں اور جمشید کو بھی بلا لیں اور کوئی ہو تو وہ بھی آجائے۔

حضرت تھانوی فرماتے ہیں:
متاخرین نے ان مبتدعین کے مذہب کو اختیار کیا ہے ایک خاص ضرورت سے اور وہ یہ ہے کہ نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہوتی تھی یعنی جیسا کہ وہ قائل ہیں کہ تین بھی خدا ہیں اور ایک بھی ہے مگر سمجھ نہیں آسکتا ہے ایسے اہل السلام کے یہاں بھی ان امور کے باب میں گفتگو تھی تو گویا اس اعتراض صوری کے رفع کرنے کو یہ طریق اختیار کیا گیا لیکن اعتقاد متاخرین کا وہی ہے جو متقدمین کا مذہب ہے بعض لوگ یوں سمجھ گئے ہیں کہ متاخرین کا مذہب وہ ہے جو مبتدعین کا ہے یہ غلط ہے
تو گویا اس اعتراض صوری (یعنی جو زبان پر ہے ) کے رفع کرنے کو یہ طریق اختیار کیا گیا لیکن اعتقاد (یعنی جودل میں ہے )متاخرین کا وہی ہے جو متقدمین کا مذہب ہے
مطلب یہ ہے کہ منہ پر کچھ ہے اور دل میں کچھ۔آپ مجھے بتائیں کہ منافق کیوں براہوتا ہے؟

اِس کو عملا کیوں سمجھیں کہ کوئی کہتا ہے کہ میں عیسی علیہ السلام معبود مانتا ہوں، اور جب اُس سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے یہ کیوں کہا تو وہ کہےکہ عیسائیوں سے جوڑ مقصود تھا ، دل میں تو میں صرف اللہ تعالی ہی کو معبود مانتا ہوں، تو اب کوئی اِس شخص کی فضول بکواس کو قبول کرے گا؟

کیونکہ ایمان نام ہے زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تصدیق کرنے کا، اِس لئے یہ دل و زبان کے تضاد پر مشتمل ایمان و عقیدہ مردود ہے۔

دوسری بات حضرت تھانوی نے فرمائی کہ عیسائیوں سے مشابہت کو ختم کرنے کے لئے ہم نے اعتقاد کو بدل ڈالا، (چاہے آپ یہ کہ لیں کہ صرف زبان پر بدلا ہے ، مگر ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہیں کہ زبان سے بدلے یا دل سے بدلے ، تبدیلی ثابت ہوجائے گی، اور زبان سے بدلنا دل سے بدلنا ہے اور دل سے بدلنا زبان سے بدلنا ہے۔)

یہ دلیل کئی اعتبار سے بھونڈی ہے:

اولاً تو عقیدے میں کتربیونت کا اختیار تو اللہ تعالی کے بنی کو بھی حاصل نہیں تھا، امتیوں کی کیا مجال!

ثانیاً عیسائی اپنے اِس عقیدے کے ساتھ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دور سےبھی پہلے سے موجود ہیں، اور قرآن میں عیسائیوں کے اِس عقیدے کا تذکیرہ موجود ہے، اُس کے باوجود نہ اللہ نے ایسا کوئی ایساعقیدہ (جہمیائی تنزیہ کا عقیدہ ) بیان کیا، نہ اللہ کے نبیﷺ نے، نہ صحابہؓ نے ایسا سمجھا ، نہ تابعینؒ نےایسا سمجھا، نہ ائمہ اربعہ ؒنے ایسا سمجھابالخصوص امام ابوحنیفہ ؒنے، نہ تبع تابعینؒ ایسا سمجھااور نہ ائمہ متبوعین ؒکے شاگردوں نے ایسا سمجھا

نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت تھانوی کی عیسائیوں والی دلیل قرآن کے نزول سے لے کر تمام زمانوں میں موجود رہی ہے، پھر بھی نہ اللہ تعالی نے جہمیہ کے عقیدےکو قرآن میں اُترااور نہ اُس کے کسی نیک بندے کو (جن کا اتباع ہم پر واجب ہو) اِس کو بیان کرنے کی ضرورت پڑی ۔ اِس لئے ہمیں بھی اِسکی ضرورت نہیں۔

ثالثاً اِس مقولے کو لکھنے والے اور اِس پر نظر ثانی کرنے والے مفتی تقی عثمانی صاحب خود اِس عیسائیوں والی دلیل کو فضول اور جہالت پر مبنی سمجھتے ہیں (اور اِس کے غلطی پر ہونے کے دلائل دئیے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ دلائل بھی از خود غلط ہیں اور صحیح بات اِن سب غلط فہمیوں کے سوا ہے)۔ اِس کا تذکیرہ انھوں نے خود اپنی ایک کتاب جسے انھوں عیسائیوں کے لئےلکھا اُس میں کیا ہے، تو ثابت ہوا کہ خود مولف اور مقرر کو اعتماد نہیں ہے اپنی عبث دلیل پر ۔

رابعاً یہ دلیل خود عیسائیوں نے ہندوستانی ماتریدیوں سے لی ہے، (بقول مفتی تقی عثمانی کے) وہ (عیسائی )کہتے ہیں کہ جیسے تمہارے نزدیک اللہ تعالی کی صفات متشابہ ہیں (جبکہ بات ایسی نہیں ہے) اس ہی طرح ہمارا عقیدہ تثلیث متشابہ ہے۔ یعنی پہلے امت میں خود فساد بنٹااور اب پیداشدہ فساد کو ختم کرنے کے لئے ایک ماقبل فساد کو (دراصل اُس ہی پر انے فساد کو جس سے یہ فساد پیدا ہواتھا ) دلیل بنادیا۔ واہ واہ واہ

بعض لوگ یوں سمجھ گئے ہیں کہ متاخرین کا مذہب وہ ہے جو مبتدعین کا ہے
اور وہ صحیح سمجھتے ہیں کیونکہ وہ لوگ تصوفی مراقبوں میں نہیں پڑے ہوئے بلکہ ہوش و ہواس میں اصول دین پر نظرکیئے ہوئے ہیں۔

میں اور بھی نکات بیان کرسکتا ہوں، مگر یہ بھی بہت ہیں۔


اب میرے وہ دیوبندی بھائی جو اِس پوسٹ کو پڑھ کر پریشان ہو گئے اُن کے لئے مشورہ:

بات دراصل یہ ہے کہ مہند میں جس پر طبقہ درطبقہ علماءدیوبند کا اجماع ہے اُس میں یہ لکھا ہے کہ ہندوستانی علماء (دیوبندی) کو عقائد کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے، ورنہ ایسا ہی گوڑآمبا بن جائے گا جیسے کہ اُوپر بیان کا کہ معلوم نہیں کون کیا عقید رکھنا چاہ رہاتھا۔

اصل میں اگر آپ جمہور علماء دیوبند کا مطالعہ کریں گے تو آپ اور حیران وپریشان ہو جائیں گے ، کیونکہ اِن میں سے اکثر عقائد کے معاملے میں بڑے سخت کنفوز تھے ۔ دراصل ہم (دیوبندی ) نہ تو جہمیہ ہیں، اور نہ کوئی اور اصل میں ہم وہ ہیں جنہوں نے دین کا علم پختگی سے حاصل نہیں کیا اور لیکن امت کے بڑے بڑے گمراہ فرقوں میں منہ دے دیا ہے، تو اب ہم نہ تیتر رہے ہیں اور نہ بٹیر ، انتہائی ناسمجھیوں کا ایک پیچیدہ مجموعہ ہیں:

غالی صوفیہ
جہمیہ
مرجیہ
معتزلہ
ماتریدیہ
اشعریہ
اہل سنت و الجماعت
وغیرہ وغیرہ کے کچھ کچھ نکات کا بے تکا مجموعہ ہیں،

اگر کچھ کنفیوژنز کا مطالعہ کرنا ہے تو دارالعلوم دیوبند کے موجودہ شیخ الحدیث کو پڑھیں اور سردھنیں:
[url=http://www.haqqforum.com/vb/showthread.php?16909-اصلی-سلفی-اور-آج-کے-سلفی-حصہ-دوم&p=86257#post86257]اصلی سلفی اور آج کے سلفی حصہ دوم[/URL]
اور اگر اِس کا بھی مطالعہ کریں یہ شیخ حارث ہمام ہیں انھوں نے دیوبند اور عرب دنوں جگہ سے تعلیم حاصل کی ہے ، انگریزی میں ہے :
Announcement Deobandis & Their Internal Conflicts in Aqeedah Manhaj

بزرگوں کے اتباع کا تقاضہ ہے کہ وہی عقید رکھا جا ئے جو دل میں ہے کیونکہ حضرت تھانوی نے دل والے یعنی متقدمین کے اعتقاد ہی کو پسند کیا ہے اور اِس ہی کو سلف نے بھی پسند کیا ہے۔اور یہی قرآن و حدیث کے مطابق بھی ہے۔

حضرت تھانوی نے اپنی اور کتب میں صراحت کے ساتھ سلف کے عقیدے کو بیان کیا ہے اور اُس ہی سے جڑنے کو کہا ہے یہ اور بات ہے کہ حضرت کے کلام میں بڑا اضطراب ہے۔

اس لئے حرمین کے علماء کو مضبوطی سے پکڑیں کہ نصوص میں ہے کہ حرمین فتنے فساد سے سلامت رہے گا، اوروہاں فتنہ قرار نہیں پکڑسکتا۔ طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ جج و عمرے پر جاتے ہیں اُن سے کتب منگوالی جائیں، اور آن لائن تو سعودیہ عربیہ نے بہت سا موادمہیا کیا ہوا ہے ،مثلاً
Islam in world's languages: Holy Quran, Books, Audio, Articles, Fatawa, Video پر اردو میں چلے جائیں۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
جنید صاحب نے بات کو سمجھنے کی کچھ ناکام کوشش کی مگر کوشش تو کی سو وہ مبارکباد کے مستحق ہیں
پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہیکہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے اور اس خطا سے نہ کوئی ولی مبرا ہوسکتا ہے نہ کوئی نبی’ اسی وجہ سے کوئی شخص اپنا مافی الضمیر بڑے فصیح انداز میں بیان کرتا ہے مگر دوسرا شخص آکر اس میں ایسی ایسی صریح غلطیاں نکالدیتا ہے کہ سامنے والا بعض دفعہ دنگ رہ جاتا ہے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگا کیونکہ یہ بات سب کے نزدیک متفق علیہ ہے انسان خطا کا پتلا ہے۔
فقصہ کچھ یوں ہیکہ ہر عالم کی تالیفات عمر کے مختلف مراحل میں مختلف احوال سے کزرتیں ہیں چنانچہ بعض دفعہ ابتداء عمر میں انسان کی رائے کچھ اور ہوتی ہے جو عمر ڈھلتے ڈھلتے تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ عالم اپنی کوشش کی حد تک جہاں جہاں اسے یاد ہو وہ اپنی رائے کی تصحیح کرلیتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی سامنے آتی ہیکہ بعض دفعہ عمر کے ابتدائی مرحلہ اپنا مافی الضمیر اداء کرتا ہے مگر چند سالوں کے بعد اسے ان باریکیوں کا احساس ہوجاتا ہے جس سے وہ پہلے لا علم تھا چنانچہ حتی الوسع جہاں تک ہوسکے وہ اپنے کلام میں ترمیم کرلیتا ہے۔
بعض دفعہ وہ کہتا کچھ اور ہے مگر الفاظ اسکا ساتھ نہیں دیتے۔
اب سوال یہ ہیکہ ہم ان باتوں کی تحقیق کیسے کریں؟
تو اسکا جواب یہ ہیکہ اس عالم تالیفات کی تاریخ کا سب سے پہلے علم ہونا ضروری ہے اس سے یہ فائدہ ہوتا ہیکہ تعارض کے وقت متاخر التالیف کتاب میں مذکورہ قول قابل اعتبار سمجھا جائے اور پہلا قول مرجوح ومنسوخ کے درجہ میں ہو۔
دوسری صورت یہ ہیکہ ایک مسئلہ میں کئی کتابوں پر بحث کی ہو کہیں مفصل اور کہیں مجمل اس صورت میں کسی ایک کتاب کو اختیار کرکے دوسری کتابوں کو چھوڑدینا اور اس رائے کو لیکر اس قائل کیطرف منسوب کردینا خیانت تک پہونچ سکتا ہے ہاں اگر تحقیق سے اتنا ثابت ہوجائے کہ تمام کتابوں کے مطالعہ کے بعد یہ رائے اس قائل کی معلوم ہوتی ہے تو یہ درست ہے۔
لیکن اگر آپکے فرصت نہیں اور کسی عالم کی کسی کتاب میں اعتراض شدہ مواد آپکو مل گیا تو اس وقت تک آپ اس موضوع پر سکونت اختیار کرینگے جب تک آپکو تحقیق نہ ہوجائے وگرنہ آپ عند اللہ سوء الظن اور بعض دفعہ غیبت یا بہتان کے مرتکب بھی ہوسکتے ہیں۔
لہذا اگر ان اصولوں کی بنیاد پر کوئی شخص کسی عالم کی متنازعہ بات سامنے لاتا ہے تو اس پر بحث ہوسکتی ہے وگرنہ ہر جگہ سے کاٹ پیٹ کر دو تین سطور کو متنازعہ بنانے میں تو ہر شخص ماہر ہوتا ہے۔
حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس اللہ سرہ بہت بڑے اور پائے کے عالم تھے مگر ہم انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے بعد کسی شخص کو بھی معصوم تصور نہیں کرتے لہذا آپکو ضرور بالضرور یہ حق حاصل ہیکہ انکے کلام میں اگر آپکو کچھ متنازعہ باتیں نظر آرہی ہیں تو ضرور بالضرور پیش فرمائیں مگر ان قواعد وضوابط کا ضرور بالضرور خیال رکھئے گا کیونکہ خدانخواستہ دین کی خدمت کے نام پر آپ اپنی آخرت نہ تباہ کر بیٹھیں۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
بعض بیچاروں نے اپنے حق میں یہ دلیل بھی دی ہیکہ اہل حرمین کا عقیدہ اختیار کرلو کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہیکہ حرمین میں کبھی بھی فساد داخل نہیں ہوگا
میرے خیال سے بشیر احمد سہسوانی صاحب ہم سے پہلے یہ خطا کرچکے ہیں کہ انھوں نے مفتی حرم احمد زینی دحلان صاحب کے خلاف چار پانچ سو صفحہ کی کتاب لکھ ڈالی شاید ہماری طرح وہ بھی اس بات سے نابلد تھے کہ اہل حرمین کا عقیدہ ایمان کی کسوٹی ہے۔
میں تو یہیں کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کو دھوکا دینا چھوڑ دو اور کتاب وسنت واجماع امت واقوال سلف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالو
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
محترم ابن داود بھائی انتہائی معذرت کےساتھ عرض کرناچاہوں گا کہ میں درج بالا اقتباسات تھانوی صاحب کےحوالے سے پڑھے ہیں لیکن حقیقت ہےمجھے ان میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔ میرخیال میں تھانوی صاحب نےدوتین باتیں کی ہیں وہ باالکل بجاہیں۔ مثالا آپ فرماتےہیں ان صفات کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔تویہ صحیح ہے سلف کےمنہج کےمطابق ہے کہ ہم ان صفات کی کیفیت کا انکارنہیں کرتےلیکن ہمیں معلوم نہیں یعنی اس کا کوئی خاص تعین نہیں کرسکتے۔دوسر ی بات جو آپ نےمحل اعتراض ٹھرائی ہےوہ یہ ہےکہ جہمیہ کےساتھ متاخرین کی موافقت کا مؤقف تو اس حوالے سےتھاوی صاحب میرےخیال میں صرف ایک اسلوب کی وضاحت کرناچاہتےہیں۔یعنی جہمیہ کےہاں تو ان صفات سے مجازی معنی مراد لیاجاتاہے ساتھ اصلی معنی کا انکارکردیاجاتاہےمثال کےطور پر ید(ہاتھ)سے اگر قوت وقدرت مراد لی ہےتو اصلی معنی ہاتھ کا انکار کردیاہے۔اس باب میں اہل سنت کا مؤقف تو یہ ہےکہ یہ مجازی معنی مراد لیاجا سکتاہےلیکن اصلی معنی برقرار رکھاجائے۔اس کا انکارنہ کیاجائے۔اسی وجہ سے ہم عام طور پر والذی نفسی بیدہ کا ترجمہ قسم ہےاس ذات کی جس کے قبضہءقدرت میں میری جان ہےکر جاتےہیں ۔تو اگر اصلی معنی کا اقرار کرتےہوے یہ ترجمہ کیاجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔تو میرےخیا ل میں تھانوی صاحب نےدراصل اسلوب کی وضاحت فرمائی ہے کہ متاخرین نےاسلوب معتزلہ والا اپنایاہےتاکہ عیسائیت کی طرح تجسیم وتشبیہ نہ ہو جائے۔چناچہ اسی وجہ سے تھانوی صاحب فرمارہےہیں کہ متاخرین کا اعتقاد متقدمین کاہی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم ابن داود بھائی انتہائی معذرت کےساتھ عرض کرناچاہوں گا کہ میں درج بالا اقتباسات تھانوی صاحب کےحوالے سے پڑھے ہیں لیکن حقیقت ہےمجھے ان میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔ میرخیال میں تھانوی صاحب نےدوتین باتیں کی ہیں وہ باالکل بجاہیں۔ مثالا آپ فرماتےہیں ان صفات کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔تویہ صحیح ہے سلف کےمنہج کےمطابق ہے کہ ہم ان صفات کی کیفیت کا انکارنہیں کرتےلیکن ہمیں معلوم نہیں یعنی اس کا کوئی خاص تعین نہیں کرسکتے۔دوسر ی بات جو آپ نےمحل اعتراض ٹھرائی ہےوہ یہ ہےکہ جہمیہ کےساتھ متاخرین کی موافقت کا مؤقف تو اس حوالے سےتھاوی صاحب میرےخیال میں صرف ایک اسلوب کی وضاحت کرناچاہتےہیں۔یعنی جہمیہ کےہاں تو ان صفات سے مجازی معنی مراد لیاجاتاہے ساتھ اصلی معنی کا انکارکردیاجاتاہےمثال کےطور پر ید(ہاتھ)سے اگر قوت وقدرت مراد لی ہےتو اصلی معنی ہاتھ کا انکار کردیاہے۔اس باب میں اہل سنت کا مؤقف تو یہ ہےکہ یہ مجازی معنی مراد لیاجا سکتاہےلیکن اصلی معنی برقرار رکھاجائے۔اس کا انکارنہ کیاجائے۔اسی وجہ سے ہم عام طور پر والذی نفسی بیدہ کا ترجمہ قسم ہےاس ذات کی جس کے قبضہءقدرت میں میری جان ہےکر جاتےہیں ۔تو اگر اصلی معنی کا اقرار کرتےہوے یہ ترجمہ کیاجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔تو میرےخیا ل میں تھانوی صاحب نےدراصل اسلوب کی وضاحت فرمائی ہے کہ متاخرین نےاسلوب معتزلہ والا اپنایاہےتاکہ عیسائیت کی طرح تجسیم وتشبیہ نہ ہو جائے۔چناچہ اسی وجہ سے تھانوی صاحب فرمارہےہیں کہ متاخرین کا اعتقاد متقدمین کاہی ہے۔
تھانوی صاحب کی عبارت جو شروع میں نقل کی گئی تھی پر نظر ثانی کرتے ہیں :

« مولانا صاھب رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت سے اہل علم یہ فرماتے ہیں کہ حدیثیں اپنے ظاہر پر رکھی جائیں (١) یعنی یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی ہیں اور پیر بھی اور آنکھ بھی اور کان سب چیزیں ہیں مگر ہم ان کی کیفیات سے آگاہ نہیں ہیں جیسا وہ خدائے بے مثل ہے اور جیسا اس کی ذات کا کما حقہ ادراک نہیں ہو سکتا ایسے ہی اس کے صفات کا ادراک (٢) بھی محال ہے اور سلف صالحین و علماءمتقدمین کا یہی مذہب تھا اور جہمیہ جو ایک فرقہ اسلامیہ ہے وہ ان امور میں تاویل کرتے ہیں۔ مثلا يد الله فوق ايديهم میں ید سے مراد قوت کہتے ہیں۔
اور متاخرین نے ان مبتدعین کے مذہب کو اختیار کیا ہے ایک خاص ضرورت (٣)سے اور وہ یہ ہے کہ نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہوتی تھی یعنی جیسا کہ وہ قائل ہیں کہ تین بھی خدا ہیں اور ایک بھی ہے مگر سمجھ نہیں آسکتا ہے ایسے اہل السلام کے یہاں بھی ان امور کے باب میں گفتگو تھی تو گویا اس اعتراض صوری کے رفع کرنے کو یہ طریق اختیار کیا گیا لیکن اعتقاد متاخرین کا وہی ہے جو متقدمین کا مذہب ہے بعض لوگ یوں سمجھ گئے ہیں کہ متاخرین کا مذہب وہ ہے جو مبتدعین کا ہے یہ غلط ہے اور اصل امر وہ ہے جو مذکورہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ »
کتاب: تقریر ترمذی
محمد اشرف علی تھانوی صاحب
تحقیق و تخریج و تحشیہ: مولانا عبدالقادر صاحب
تقدیم و نظرثانی: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
ناشر: ادارہ تالیفات اشرفیہ۔ چوک فوارہ ملتان پاکستان صفحہ 189۔ 190
١

نصوص صفات کو ظاہر پر رکھنے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ جو ظاہر سے پھیر کر کسی اور معنی میں لیتا ہے گویا یہ دعوی کرنا چاہتا ہے کہ میں صفات الہیہ کی حقیقت سے آگاہ ہوں ۔۔۔۔۔
یہاں دو اعتراضات ہیں : پہلی بات اسی کی کیا دلیل ہے کہ یہاں ظاہر معنی اللہ کی شایان شان نہیں حالانکہ اللہ یا اس کے رسول نے خود یہ لفظ استعمال فرمایا ہے ؟
تأویل کرکے جس معنی کی طرف پھیرا گیا ہے اس کی کیا دلیل ہے کہ یہی معنی ذات الہی کے لائق ہے ؟

٢

نصوص صفات کے حوالے سے دو باتیں ہیں : ایک ہیں صفات کے معانی مثلا ید سے مراد ہاتھ رجل سے مراد پاؤں وغیرہ ۔ دوسرا صفات کی کیفیات مثلا ہاتھ یا پاؤں کیسے ہیں ؟ ۔ معنی معلوم جبکہ کیفیت نا معلوم ۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ید و رجل مخلوق کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے لہذا خالق کے لیے اگر اس کو مان لیا جائے تو مشابہت لازم آئے گی ۔۔۔۔اور اسی بنیاد پر بڑے بڑے فیصلہ کردیے گئے ہیں مثلا فلاں مجسم فلاں کتاب التوحید کی بجائے کتاب الشرک فلاں کافر ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ بات ہی سرے سے غلط ہے ۔۔۔۔ کیونکہ اتحاد اسماء سے اتحاد مسمیات لازم نہیں ۔۔۔۔ اب ہاتھ پاؤں انسان کے بھی ہوتے ہیں اورہاتھی کو بھی ہاتھ پاؤں سے متصف قرار دیا جاتا ہے اب اس کا کیا مطلب ہے کہ انسان اور ہاتھی کے ہاتھ پاؤں ایک جیسے ہیں ؟ حاشا و کلا ۔
یہ سب باتیں تو ان کے لیے ہیں جو تمام صفات کاانکا رکرتے ہیں البتہ جو بعض صفات کو مان لیتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس پتہ نہیں کیا پیمانہ ہے ؟ اگر کچھ صفات مان کر تشبیہ لازم نہیں آتی توپھر بعض دوسری مان کا تشبیہ کیوں لازم آتی ہے؟
٣

یہ ضرورت اپنی طرف سے ایجاد کردہ ہےٰ ۔۔۔ عیسائی حضور کے دور میں بھی تھے صحابہ کے دور میں بھی تھے ۔۔۔۔۔ حضور نے یا کسی صحابی نے ایسا کام کیا ہے؟
اگر اس طرح کی ضرورتوں کی وجہ سے مداہنت شروع ہو جاتی تو یقینا مسلم و غیر مسلم میں خط امتیاز تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ۔
ایک کام کو مبتدعین کی کاوش تسلیم کرنے کے باوجود اس کا قائل ہوجانا یا جو قائل ہوئے ہیں ان کے موقف کی صحت ثابت کرنے کے لیے عذر تلاش کرنا پتہ نہیں کہاں کا اصول ہے؟
بلکہ اس طرح کی تاویلات نے دوسرے لوگوں کو بھی موقعہ فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی من مانی بات قرآن و حدیث سے یہ کہتے ہوئے ثابت کر لیتے ہیں کہ : اجی یہاں ظاہر معنی نہیں بلکہ حدثنی قلبی عن ربی کو ترجیح ہوگی ۔

بعض فضلاء کی باتوں سے محسوس ہوا کہ گویا تھانوی صاحب یا موجودہ احناف کا مبتدعین (مثلا اشاعرہ و ماتریدیہ ) والا عقیدہ نہیں ہے بلکہ متقدمین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے اس کے لیے کوئی ثبوت ہونا چاہیے
اور یہ بات بھی درست محسوس نہیں ہوتی کہ ظاہری معنی کا انکار کیے بغیر مجازی معنی مراد لیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ تأویل کرنے والے حضرات تأویل نہ کرنے والوں کو تجسیم و تشبیہ کے طعنے دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ اس سلسلے میں جھوٹی کہانیاں گھڑنے یا ان کی تائید کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔
اگر ظاہری معنی بھی ٹھیک ہے تو پھر یہ سب کچھ کیوں کیا جاتا ہے ؟
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
جنید صاحب نے بات کو سمجھنے کی کچھ ناکام کوشش کی مگر کوشش تو کی سو وہ مبارکباد کے مستحق ہیں
پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہیکہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے اور اس خطا سے نہ کوئی ولی مبرا ہوسکتا ہے نہ کوئی نبی’ اسی وجہ سے کوئی شخص اپنا مافی الضمیر بڑے فصیح انداز میں بیان کرتا ہے مگر دوسرا شخص آکر اس میں ایسی ایسی صریح غلطیاں نکالدیتا ہے کہ سامنے والا بعض دفعہ دنگ رہ جاتا ہے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگا کیونکہ یہ بات سب کے نزدیک متفق علیہ ہے انسان خطا کا پتلا ہے۔
فقصہ کچھ یوں ہیکہ ہر عالم کی تالیفات عمر کے مختلف مراحل میں مختلف احوال سے کزرتیں ہیں چنانچہ بعض دفعہ ابتداء عمر میں انسان کی رائے کچھ اور ہوتی ہے جو عمر ڈھلتے ڈھلتے تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ عالم اپنی کوشش کی حد تک جہاں جہاں اسے یاد ہو وہ اپنی رائے کی تصحیح کرلیتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی سامنے آتی ہیکہ بعض دفعہ عمر کے ابتدائی مرحلہ اپنا مافی الضمیر اداء کرتا ہے مگر چند سالوں کے بعد اسے ان باریکیوں کا احساس ہوجاتا ہے جس سے وہ پہلے لا علم تھا چنانچہ حتی الوسع جہاں تک ہوسکے وہ اپنے کلام میں ترمیم کرلیتا ہے۔
بعض دفعہ وہ کہتا کچھ اور ہے مگر الفاظ اسکا ساتھ نہیں دیتے۔
اب سوال یہ ہیکہ ہم ان باتوں کی تحقیق کیسے کریں؟
تو اسکا جواب یہ ہیکہ اس عالم تالیفات کی تاریخ کا سب سے پہلے علم ہونا ضروری ہے اس سے یہ فائدہ ہوتا ہیکہ تعارض کے وقت متاخر التالیف کتاب میں مذکورہ قول قابل اعتبار سمجھا جائے اور پہلا قول مرجوح ومنسوخ کے درجہ میں ہو۔
دوسری صورت یہ ہیکہ ایک مسئلہ میں کئی کتابوں پر بحث کی ہو کہیں مفصل اور کہیں مجمل اس صورت میں کسی ایک کتاب کو اختیار کرکے دوسری کتابوں کو چھوڑدینا اور اس رائے کو لیکر اس قائل کیطرف منسوب کردینا خیانت تک پہونچ سکتا ہے ہاں اگر تحقیق سے اتنا ثابت ہوجائے کہ تمام کتابوں کے مطالعہ کے بعد یہ رائے اس قائل کی معلوم ہوتی ہے تو یہ درست ہے۔
لیکن اگر آپکے فرصت نہیں اور کسی عالم کی کسی کتاب میں اعتراض شدہ مواد آپکو مل گیا تو اس وقت تک آپ اس موضوع پر سکونت اختیار کرینگے جب تک آپکو تحقیق نہ ہوجائے وگرنہ آپ عند اللہ سوء الظن اور بعض دفعہ غیبت یا بہتان کے مرتکب بھی ہوسکتے ہیں۔
لہذا اگر ان اصولوں کی بنیاد پر کوئی شخص کسی عالم کی متنازعہ بات سامنے لاتا ہے تو اس پر بحث ہوسکتی ہے وگرنہ ہر جگہ سے کاٹ پیٹ کر دو تین سطور کو متنازعہ بنانے میں تو ہر شخص ماہر ہوتا ہے۔
حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس اللہ سرہ بہت بڑے اور پائے کے عالم تھے مگر ہم انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے بعد کسی شخص کو بھی معصوم تصور نہیں کرتے لہذا آپکو ضرور بالضرور یہ حق حاصل ہیکہ انکے کلام میں اگر آپکو کچھ متنازعہ باتیں نظر آرہی ہیں تو ضرور بالضرور پیش فرمائیں مگر ان قواعد وضوابط کا ضرور بالضرور خیال رکھئے گا کیونکہ خدانخواستہ دین کی خدمت کے نام پر آپ اپنی آخرت نہ تباہ کر بیٹھیں۔
اسلام علیکم،

محمد یعقوب صاحب آپ نے اتنا بڑا تھریڈ لکھ دیا اِس مفروضے کے ساتھ کہ میں نے حضرت تھانوی کی کسی ایک کتاب یا اولین کتب کا مطالعہ کر کے حضرت پر رد کردیاہے، پر ایسا نہیں ہے، ایک تو میں نے جو رد لکھا ہے وہ اُن لوگوں کے لئے ہے جو حضرت کے خیالات سے اپنے عقائد تشکیل دیتے ہیں، اوردوسری بات یہ ہے کہ حضرت تھانوی کے آخری مضامین حرمین سریفین کےعلماء کے سلفی منہج (یعنی صحابہ کے منہج) سے کچھ قریب تھے، جیسے کہ بوادر وغیرہ میں درج ہے۔ باقی جہاں حضرت سےغلطی ہوئی ہےتوہم پر واجب ہے کہ اُسے ہم مٹادیں تاکہ امت فتنے سے محفوظ ہو جائے۔

حضرت ٹھیٹ قرآن و حدیث کو یونانی منطق ، ہندوستانی تصوف اورجوگیانی خیالات سے ۱۰۰% ممتاز نہیں کر پائے تھے، اور خلط مبحث کے شکار ہو جاتے تھے، بہرکیف اب ہم پر تو قرآن و حدیث کا ہی اتباع لازم،نہ کہ مضطرب تخیلات کا۔

لہذا اُن کی بس اچھی باتیں لائق اتباع و لائق تعظیم ہیں۔
 
Top