پہلی تراویح۔۔مساجد بھری تھیں۔۔مرد،خواتین،بزرگ اور بچے۔۔کچھ تمیز نہ تھی!
دھیمی سی مسکراہٹ چہرے پر نمودار ہو گئی“چار دن ٹھہر کر ان خواتین کی تناسبِ آمد ٹھیک سے معلوم ہوجائے گی“
پانچ سے چھ دن میں حاضری کم ہو گئی۔۔۔
“دیکھ لیجیے۔۔۔میں نے کہا ناں تھا“میں بڑائی سے بولی۔
“السلام علیکم ۔۔رمضان مبارک“
“خیر مبارک“میں ناگواری سے بولی“ہفتے بعد یاد آ گیا کہ رمضان المبارک کا آغاز ہے“ہاتھ آیا موقع میں کیوں ضائع جانے دیتی۔
“جی۔۔جنہیں ہفتے قبل رمضان المبارک کا علم ہو گیا تھا۔۔ان کا حال دیکھ رہا تھا“ضمیر آخر کو میرا ضمیر ہے!“باجی ایک بات پوچھوں؟ماشاء اللہ!اللہ نے آپ کو بہت علم دے رکھا ہے“
“ہاں پوچھو۔۔۔۔“
“مساجد میں فرض نماز ادا کرنا خواتین کے لیے افضل ہے؟“
“جی نہیں گھر میں“
“اچھا۔۔میں سمجھا تھا کہ مسجد میں افضل ہے۔ اور وہ۔۔تراویح فرض ہے ناں؟لوگ پڑھتے ہی نہیں ہیں۔“
“نہیں۔۔ سنت ہے۔۔پڑھ لی تو اجر کبیر۔۔نہ پڑھی تو گناہ نہیں“
“جب مسجد میں آنا لازم ہے نہ تراویح پڑھنا فرض ہے تو لوگ معتوب کیوں ٹھہریں؟؟جن لوگوں کو اللہ نے اس سال استطاعت دے رکھی ہے کہ وہ مسجد میں تراویح پڑھیں۔۔انہیں طنز و تکبر کی بجائے اسسے ڈرنا چاہیے کہ کیا علم اگلے سال وہ گھر میں بھی تراویح ادا نہ کر سکیں“