اخت ولید
سینئر رکن
- شمولیت
- اگست 26، 2013
- پیغامات
- 1,792
- ری ایکشن اسکور
- 1,297
- پوائنٹ
- 326
چھ سالہ وردہ جھولا جھولتے ہوئے اچانک سر اٹھا کر آسمان پر چھائے گہرے بادلوں کو دیکھنے لگی’’جب اللہ تعالٰی خوش ہوتے ہیں ناں تو بارش دیتے ہیں‘‘وہ مسکرا کر مجھے دیکھنے لگی۔
میں اس کی باتوں کو نظرانداز کر نے کی کوشش میں تھی مگر وہ باتیں ہی ایسی کرتی تھی کہ میرا ارتکاز خراب ہو رہا تھا!
’’اور جب۔ ۔ ‘‘وہ دوبارہ بولنے لگی تو میں نے اپنی توجہ اس کی طرف کر دی’’اور خوش ہوتے ہیں ناں تو ’بے‘۔ ۔‘‘میں ٹھٹھر کر رہ گئی’’اور جب اور خوش ہوتے ہیں ناں تو بیٹا دیتے ہیں‘‘میں اپنی جگہ ساکت تھی!وہی مرحلہ پیش آگیا ،جس کا خوف تھا۔
’’اور جب۔ ۔ ‘‘وہ ایک لمحے کو رکی تھی’’اور جب اورزیادہ خوش ہوتے ہیں ناں تو۔۔ ‘‘میں ’بیٹے‘ میں گم تھی۔ ۔ شاید اب مجھے مزید سے سروکار نہیں تھا’’جب اور زیادہ خوش ہوتے ہیں ناں تو ’بیٹی‘ دیتے ہیں‘‘میں نے گھوم کر اسے دیکھا۔ ۔وہ بدستور مسکرا رہی تھی!
’’یہ کس نے بتایا وردہ کو؟‘‘خوشی و حیرت کے احساس نے صرف یہی پوچھنے دیا۔
’’میری ماما نے۔ ۔ وہ جب باتیں کرتی ہیں ناں تو مجھے بھی پتا چل جاتا ہے‘‘وہ دوبارہ جھولا جھولنے لگ گئی!
معاشرے میں’’مجھے بیٹا چاہیے بس‘‘ کے بڑھتے رجحان نے سخت متفکر کر ڈالا تھا۔۔کل شام کی بحث کا اختتام اس بات پر ہوا تھا کہ یہ ماں ہی ہے جو اولاد کو بیٹا،بیٹی میں فرق اور افضل و احقر بتلاتی ہے۔ ۔ ورنہ یہ بچے جو کل کو جوان ہونے ہیں ،کہاں اس کا فرق جانتے ہیں؟وہ تو وہی جانتے ہیں جو ماں ،خالہ،پھپھو،دادی یا نانی بچپن میں بتلاتی ہے۔ ۔ اور آج کے واقعے نے اس پر مہر ثبت کر دی!!
میں اس کی باتوں کو نظرانداز کر نے کی کوشش میں تھی مگر وہ باتیں ہی ایسی کرتی تھی کہ میرا ارتکاز خراب ہو رہا تھا!
’’اور جب۔ ۔ ‘‘وہ دوبارہ بولنے لگی تو میں نے اپنی توجہ اس کی طرف کر دی’’اور خوش ہوتے ہیں ناں تو ’بے‘۔ ۔‘‘میں ٹھٹھر کر رہ گئی’’اور جب اور خوش ہوتے ہیں ناں تو بیٹا دیتے ہیں‘‘میں اپنی جگہ ساکت تھی!وہی مرحلہ پیش آگیا ،جس کا خوف تھا۔
’’اور جب۔ ۔ ‘‘وہ ایک لمحے کو رکی تھی’’اور جب اورزیادہ خوش ہوتے ہیں ناں تو۔۔ ‘‘میں ’بیٹے‘ میں گم تھی۔ ۔ شاید اب مجھے مزید سے سروکار نہیں تھا’’جب اور زیادہ خوش ہوتے ہیں ناں تو ’بیٹی‘ دیتے ہیں‘‘میں نے گھوم کر اسے دیکھا۔ ۔وہ بدستور مسکرا رہی تھی!
’’یہ کس نے بتایا وردہ کو؟‘‘خوشی و حیرت کے احساس نے صرف یہی پوچھنے دیا۔
’’میری ماما نے۔ ۔ وہ جب باتیں کرتی ہیں ناں تو مجھے بھی پتا چل جاتا ہے‘‘وہ دوبارہ جھولا جھولنے لگ گئی!
معاشرے میں’’مجھے بیٹا چاہیے بس‘‘ کے بڑھتے رجحان نے سخت متفکر کر ڈالا تھا۔۔کل شام کی بحث کا اختتام اس بات پر ہوا تھا کہ یہ ماں ہی ہے جو اولاد کو بیٹا،بیٹی میں فرق اور افضل و احقر بتلاتی ہے۔ ۔ ورنہ یہ بچے جو کل کو جوان ہونے ہیں ،کہاں اس کا فرق جانتے ہیں؟وہ تو وہی جانتے ہیں جو ماں ،خالہ،پھپھو،دادی یا نانی بچپن میں بتلاتی ہے۔ ۔ اور آج کے واقعے نے اس پر مہر ثبت کر دی!!