• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی مدارس ۔۔۔ ایک دلخراش رخ

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
جب تک مدارس ’’فرد واحد‘‘کے گرد گھومتے رہیں گے،یہ شکایت ہوتی رہے گی،جس مدرسے میں شوری کا نظام جتنااچھااوربہترہوگا،وہاں اس طرح کی شکایات اتنی ہی کم ہوں گی، شوریٰ میں بھی مسئلہ یہ ہوتاہے کہ مہتمم صاحب اپنی پسند کے افراد کو شوریٰ میں منتخب کرتے ہیں جو ’’من تراحاجی بگویم تومراملابگو‘‘کے مصداق کام کرتے ہیں۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
مسائل کےباب میں دقت یہ ہوتی ہے کہ ہرشخص چاہتاہے کہ ملک میں جو سب سےزیادہ نام آورعالم دین ہے اس سے ہی مسئلہ پوچھیں،بالخصوص وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دولت اوردوسرے اعتبار سے کچھ ممتاز بنایاہے وہ لوگ محلے کے مفتی ،عالم کو خاطر میں لاتے ہی نہیں، وہ مسئلہ پوچھیں گے ملک کے سب سےبڑے اورنامور عالم دین سے ہی، ایسی ہی صورت میں علماء پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مرے تھے جن کے لیے ....وہ رہے وضو کرتے
اجنبی فون تھا ..میں نے وصول کیا .. ایک بہت بڑے اور معروف بزرگ کا نام لیا ...کسی زمانے میں محترم پاکستان کے بڑے اساتذہ میں شمار ہوتے تھے ... کچھ کتب بھی تصنیف کی تھیں .. لیکن سب سے بڑا کارنامہ ایک نہایت شاندار تفسیر تھی .. جو شائع ہونے کے شائد چالیس برس بعد بھی مقبول عام ہے ..مولانا میرے والد محترم کے بھی استاد تھے ...اور ان کی شہادت کے بعد بھی مجھ سے بہت شفقت سے پیش آتے رہے ... خاصی طویل عمر پائی ... اور برسوں حدیث پڑھا کر دنیا سے رخصت ہووے .. ہاں میں ذکر کر رہا تھا فون کا ..خاتون مجھ سے مخاطب تھیں ..مولانا کا حوالہ دیا میں مودب سا ہو گیا کہ آج برسوں بعد کسی نے ان کا حوالہ دے کر بات کی تھی ...پھر وہ بول رہیں تھیں اور میں سن نہیں رہا تھا ...سن ہو چکا تھا ...مولانا کی اہلیہ محترمہ کا پیغام مجھ کو سنا رہی تھیں کچھ حالات بتا رہی تھیں ...قصہ غم تھا کہ دوا کے پیسے نہیں اور بڑھاپا عذاب کی صورت ہو چلا ہے ...شوہر مدت ہوئی جنت مکانی ہووے اور آپ اکیلی غم جہاں کو جھیلنے بیٹھی ہیں ...ہاں میں ذکر کرنا بھول گیا مولانا کی اولاد نرینہ نہ تھی کہ کوئی بیٹا ہوتا جو والدین کا سہارا ہوتا ..مولانا کا بڑھاپا بھی لاچاری میں ہی گزرا تھا .. مگر خرابی کی یہ صورت نہ تھی ..جو آج خاتون مجھے سنا رہی تھیں ...لیکن جب انہوں نے پیغام بھرے انداز میں کہا کہ "اماں جی " کہہ رہی تھیں کہ میں خود لاہور آ جاتی ہوں تو ایک چیخ اور کرا ہ نما آواز میرے حلق سے نکلی کہ "نہیں نہیں انھیں نہ کہیے گا یہاں آنے کو" ..الفاظ تو یہی تھے کہ "ناحق ان کو تکلیف ہو گی میں کچھ کرتا ہوں"
...مگر سچی بات کہوں میرا ضمیر ابھی اتنا "مضبوط " نہیں ہوا کہ وہ لاہور آتی ، اپنا دامن میرے آگے پھیلاتیں ، دوائی کا سوال کرتیں اور میرا ضمیر مجھ کو آرام سے رہنے دیتا ...ہاں میں بھی کسی مذہبی سیاسی جماعت کا لیڈر ہوتا ، یا کسی مدرسے کا مہتمم ہوتا تو پھر مجھ کو کوئی دقت نہ ہوتی ان کا سامنا کرنے کو .... میں نے ان کو روکا ..امید دلائی .. کہ الله خیر کرے گا ..فون بند ہو چکا تھا ..اور ادھر دل کا قرار رخصت ہو چکا تھا ..مولانا سے گھریلو تعلقات ہوتے تو ممکن تھا کھچ حالات سے آگہی رہتی ....آج دو دن ہو گئے میں ویسا ہی بے سکون ہوں کہ جو لوگ ایک چپڑاسی کی تنخواہ سے بھی کم میں گزارہ کر کے نصف نصف صدی تک اسباق حدیث دلوں میں راسخ کرتے ہیں ان کے بڑھاپے کا ہم کیا سامان کرتے ہیں ؟... مہتمم حضرات کے چونچلے ، ان کی اولادوں تک کے نخرے کہ شائد اقبال نے ان کے بارے میں کہا تھا "
گھر پیر کا ، بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
ہم کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
....اصولی طور پر جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ ایسے بزرگ ، اساتذہ کہ جن کی اولاد نرینہ نہ ہو ، یا مالی حالات خراب ہو گئے ہوں اور ان کا بڑھاپا خراب ہو رہا ہو ..ان کے حالات کی کھوج رکھے ،اور ان کی دوا اور غذا کا سامان کرے ......مگر یہ درجن بھر حضرت الامیر تو خود سدا کے "حضرت الغریب" ٹھرے ..کسی اور کی باری کیا آئے ......ہاں چلتے چلتے آخری بات کہ یہ جو مذھبی سیاسی جماعتیں ہیں نا ..ان کی نام نہاد سیاست انہی گڈری پوشوں کے طفیل باقی ہے ..وگرنہ ان کی اوقات ...بس بہت معذرت ...
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
...اور ہاں میں اس معاملے میں کچھ عملی قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہوں ...کون شریک سفر ہو گا ؟.................ابو بکر قدوسی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مدارس دینیہ کے مدرسین کی معاشی حالت زار اور اس کے ممکنہ حل

سمیع اللہ سعدی
چلیں پہلے آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سنے دو واقعات سے ابتداء کریں ،لاہور کے ایک بڑے صاحب تصنیف بزرگ،جو لاہور کے سب سے بڑے ادارے میں اعلی درجہ کے مدرس تھے ،ان کے بڑے بیٹے سے ملاقات ہوئی ،والد صاحب کے احوال بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ جب والد صاحب کا انتقال ہوا ،تو اہل مدرسہ نے دو ماہ کا الٹی میٹم دیا کہ مکان خالی کر دیں ،اس وقت جو بیتی ہم پر ،وہ بیتی ۔ ایک معمر عالم دین کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے ایک مدرسہ میں پچیس سال کے قریب تدریس کی ،دوران تدریس امامت کی نہ کوئی اور مصروفیت،اب جب بدن ساتھ چھوڑنے لگا ،تو اہل مدرسہ نے کہا کہ مکان خالی کر دیں ،اور گھر کو روانہ ہو جائیں ،معمر عالم دین نجی مجالس میں روتے ہوئے شکوہ کناں رہتے ہیں کہ میں نے جوانی مدرسہ کے لیے وقف کردی،اب بڑھاپے میں میرا اتنا حق نہیں بنتا کہ مجھے سر چھپانے کے لیے مدرسہ ایک مکان ہی دے ۔
ان واقعات میں قصور اہل مدرسہ کا بھی نہیں،کہ جب خالی سیٹ پر متبادل مدرس آئے گا تو لا محالہ پچھلے مدرس کی سہولیات اسے متنقل ہوں گی۔مدرسین دوران تدریس جس طرح کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں ،وہ تو سب پر عیاں ،اس کے علاہ اچانک موت کی صورت میں اہل و عیال یا ناگہانی بیماری کی صورت میں ان پر جو بیتتی ہے ،وہ قیامت سے کم نہیں ،اس حوالے سے "رب مبلغ اوعی من سامع"کو دیکھتے ہوئے چند ممکنہ حل دوستوں کی خدمت میں پیش کروں گا ،احباب کی نظر میں جو ممکن ہے وہ بھی شیئر کریں ،شاید اتر جائے "بڑوں "کے دل میں "ہماری " بات :
حل نمبر ۱:
اس کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ وفاق ایک "چیرٹی فنڈ برائے مدرسین" قائم کرے ،جس کا مقصد صرف اور صرف مدرسین کی کفالت و تعاون ہو ،اور وہ مدرسین کے لیے درجہ ذیل امور سر انجام دے :
۱۔مخصوص سروس اور عمر والے مدرسین کو آسان شرائط پر کاروبار کے لیے قرضہ دینا۔
۲۔بڑی بیماری کی صورت میں مدرس اور اس کے اہل خانہ کا علاج و معالجہ۔
۳۔ناگہانی موت یامدرس ناکارہ ہونے کی صورت میں مدرس اور اہل خانہ کے لیے مکان و کفالت کا بندوبست کرنا
اب سوال یہ ہے کہ چیرٹی فنڈ میں پیسے کہاں سے آئیں گے؟
اس حوالے سے متعدد راستے ہیں،قائد وفاق ہر سال وفاق کے قائد کی حیثیت سے مختلف ملکوں کے دورے پر رہتے ہیں ،کبھی ترکی ،قطر تو کبھی سعودی عرب ،وہاں سے ایوارڈ لیتے ہیں ،اگر ان ملکوں کی حکومتوں اور شیوخ کے سامنے اس چیرٹی فنڈ کا قضیہ رکھیں ،تو ایک سال میں کروڑوں جمع ہوسکتے ہیں۔
دوسری صورت یہ کہ بیرون ملک مخیر حضرات سے ایک تحریک کے ذریعے اس فنڈ کے لیے پیسے جمع کئے جاسکتے ہیں، یقین کریں یورپ و امریکہ میں اب بھی ایسے دیندار اور مالدار مسلمان بستے ہیں ،جو اس فنڈ میں لاکھوں ڈالر بخوشی دینے کو تیار ہونگے۔
تیسری صورت حکومت پاکستان سے اس کے لیے مختص رقم کی درخواست کی جاسکتی ہے ،ہمارے حکومتی ارکان اتنے گئے گزرے نہیں ،کہ اس حوالے سے کوئی تعاون نہ کریں ۔
یہ نہ ہو تو یہ صورت تو موجود ہے کہ وفاق میں رجسٹرڈ مدارس سے ماہانہ یا سالانہ کی بنیاد پر مدارس کے کوائف اور مدرسین کی تعداد کے اعتبار سے پیسے جمع کیا کریں، صرف کراچی کے بڑے مدارس ماہانہ لاکھوں روپے دے سکتے ہیں ،جس مدرسہ میں طلباء کا وظیفہ ہزاروں میں ہو ،جہاں کروڑوں کی عمارات مہینوں میں تعمیر ہو ،ان کے لیے چند لاکھ کوئی مسئلہ نہیں ،بس مسئلہ یہ ہے کہ اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی ہے ۔
حل نمبر ۲
جب تک اجتماعی فنڈنگ کا معاملہ شروع نہیں ہوتا ،تو مدارس انفرادی طور پر بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں ،مدارس اپنے قواعد و ضوابط میں تبدیلی لاتے ہوئے ایک خاص معیار اور مدت سروس مقرر کریں ،اس معیار پر پہنچنے کے بعد مدرس کے لیے مکان کا بندوبست مدرسہ کرے ،جو ان کی ملکیت میں ان کی خدمات کے اعزاز میں دی جائے ۔پوری زندگی ایک مدرسہ میں وقف کرنے کے بعد ایک مدرس کا کم از کم یہ حق تو بنتا ہے کہ اسے سر چھپانے کی جگہ مدرسہ فراہم کرے ۔مدارس کا ماہانہ خرچہ لاکھوں میں ہے ،دس بارہ یا پندرہ سال کے بعد ایک مدرس کے لیے مکان کا بندوبست کرنا مدرسہ کے لیے کوئی چنداں مشکل نہیں ، مدارس خود اپنے چندے میں سے ہر ماہ بنام مدرسین کچھ فنڈ مختص کیا کریں ،تو ایک مدت کے بعد اس میں اچھی خاصی رقم جمع ہوسکتی ہے ۔
حل نمبر۳
مدارس ذاتی طور پر رفاہی اداروں اور فلاحی ٹرسٹس کے سامنے مدرسین کا یہ مسئلہ رکھ سکتے ہیں ،بلکہ اب تو خود دینی طبقے کے کافی سارے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں ،انہیں اس طرح متوجہ کیا جاسکتا ہے ۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے بہت سارے فلاحی ادارے کام کر ہے ہیں ،ان کی خدمات بھی لی جاسکتی ہیں۔اس سے سب کا نہیں ،پر کافی سارے مدارس کے مدرسین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔اور ان کی کفالت کا اچھابندوبست ہوسکتا ہے ۔
حل نمبر۴
مدارس دوران تدریس ایک خاص معیار مقرر کر کے مدرسین کو آسان شرائط پر قرضہ بھی فراہم کر سکتے ہیں ،جس سے مدرس ایک کاروبار شروع کرے ۔کم از کم اس سے یہ تو ہوگا کہ مدرس کی ذاتی آمدنی کا کوئی ذریعہ ہوگا ۔مدرس کے بیمار ہونے کی صورت میں مزید تدریس جاری نہ رکھنے یا فوتگی کی صورت میں اس کے اہل خانہ کا اس آمدنی سے گزر بسر رہے گا ۔اور دوسروں کے دست نگر نہیں ہوں گے۔اگر ہر مدرسہ دو سالوں بعد اپنے ایک مدرس کو آمدنی کے حوالے سے خود کفیل کرے ،تو اسے جہاں مدرسین کا مدرسہ کے ساتھ تعلق میں بے پناہ مضبوطی آئے گی ،وہاں مدرسہ کو بھی کافی سہولت مل سکتی ہے کہ تنخواہیں لیٹ ہونے کی صورت میں مدرسین کے حوالے سے کسی قسم کی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا ۔
حل نمبر ۵
ہر مدرسہ اپنے معاونین کی مدد سے ایک فنڈ تشکیل دے سکتا ہے ،جو مدرسین کی کفالت و تعاون کے لیے مختص ہو ۔اسی فنڈ سے مدرسین کے لیے مکان کا بندوبست اور فوتگی یا بیماری کی صورت میں مدرسین اور ان کے اہل خانہ کی کفالت کا معتدبہ بندوبست ہو سکتا ہے ۔
حل نمبر۶
مدارس میں مدرسین کی درجہ بندی کا رواج بالکل نہیں ہے ،مدرسین کی ترقی اور اس کی تنخواہ میں اضافہ مکمل طور پر مہتمم کی صوابدید پر ہوتا ہے ۔اس کے لیے وفاق ضابطہ بندی کر سکتا ہے ۔ قابلیت ،ڈگریوں ،تجربہ اور دیگر مہارتوں کے اعتبار سے مدرسین کی درجہ بندی ہونی چاہیے ،اور ہر سکیل کی تنخواہ کا ایک معیار ہونا چاہیے ۔کم از کم تنخواہ سے لیکر زیادہ سے زیادہ تنخواہ تک نظام ہونا چاہیے ۔درجہ بندی نہ ہونے کا نتیجہ ہے مدارس کے مدرسین کی تنخواہوں میں بہت بڑا فرق ہے ،آج بھی بلوچستان و خیر پختونخواہ میں ایک اعلی درجہ کے مدرس کی جو تنخواہ ہے وہ کراچی میں ایک ادنی درجے کے قاری صاحب کی تنخواہ ہوتی ہے ۔وفاق کو اس حوالے سے قدم اٹھانا چاہیے اور سرکاری ٹیچرز کے طرز پر ایک نظام ترتیب دینا چاہیے ۔اگر ایک مدرسہ افورڈ نہیں کر سکتا تو وہ تعداد میں کمی کرے ۔بھیڑ اکٹھی کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟اللہ نے ہر شخص کو اس کی وسعت کے بقدر دین کی خدمت کا مکلف بنایا ہے ۔پر افسوس ،یہاں کیف کی بجائے تعداد اور کثرت کو ہی ترقی ،قبولیت کا معیار سمجھا جاتا ہے ،سمجھ نہیں آتا ،دینی طبقے جمہوریت کی بھر پور مخالفت کے باوجود کیسے اپنے کو جانچنے کے لیے جمہوریت کو معیار بنا لیتے ہیں ؟اور محض طلباء و اساتذہ کی کثرت کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے ،چاہے نتائج نہ ہونے کے برابر ہی کیوں نہ ہو ۔اگر آج بھی مدرسین کو درجہ بندی کے اعتبار سے تنخواہیں ملیں ،تو ان کی کافی ساری مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔
حل نمبر۷
ہر مدرس کو اس حوالے سے ذاتی طور پر بھی سوچنے اور ایک طویل منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔حدیث کے مطابق اپنے ورثاء کو فقیر اور دوسروں کا دست نگر چھوڑنے سے انہیں مالی حوالے سے خود کفیل کر کے چھوڑنا کئی گنا افضل اور اللہ کی خوشنودی کا سبب ہے ۔عمومی طور پر ہمارے دینی حلقوں میں مدرسین کے حوالے سے ایک سوچ یہ پھیلائی جاتی ہے کہ اپنی ذاتی آمدنی کے لیے کوشش کرنا "توکل " کے خلاف ہے اور اسے "خدمت دین "میں رکاوٹ باور کرایا جاتا ہے ،حالانکہ دینی و شرعی حوالے سے یہ فکر و سوچ غلطی پر مبنی ہے ۔ہر آدمی پر اللہ نے اس کے اہل و عیال کا نفقہ واجب کیا ہے ،تو واجب کی ادائیگی کے لیے کوشش کسی بھی حوالے سے "مروجہ خدمت دین "سے کم نہیں ،خصوصا جبکہ مدرس کی نیت ہی اس کوشش سے کار تدریس میں مزید اطمینان ہو ۔مدرس ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ رقم رکھ کر ذاتی فنڈ تخلیق کر سکتا ہے ،کسی واقف سے قرض لیکر کاروبار کھڑا کر سکتا ہے ،پارٹ ٹائم کوئی اور جاب کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے ۔اہل مدارس کو چاہیے کہ اس حوالے سے مدرسین کو سپورٹ کرے اور ان کی اس کوشش میں روڑے نہ اٹکائے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مہتممین حضرات اس حوالے سے مدرسین کا تعاون تو کجا،مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں ،آج بھی ہمارے مدارس میں اعلی درجے کے مدرس کی تنخؤاہ ایک "چپڑاسی"کے برابر ہوتی ہے ،لیکن اس پر خارجی مصروفیات کے حوالے سے اتنی پابندیاں ہوتی ہیں ،کہ وہ مزید کسی کام کا نہیں رہتا ۔کم از کم اس حوالے سے اکابرین دیوبند کا یہ رویہ نہیں تھا ،خصوصا حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات میں اس چیز کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں ،نیز ہمارے ہاں تنخواہ بڑھانے کے لیے درخواست دینا یا اس کا مطالبہ کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے ،حالانکہ حضرت مدنی رحمہ اللہ نے دار العلوم دیوبند میں صدر مدرس لگتے وقت نہایت اعلی تنخؤاہ کا مطالبہ سامنے رکھا تھا ،جسے اہل مدرسہ نے منظور کیا تھا ۔حضرت مدنی کا تنخؤاہ کی زیادتی کا مطالبہ توکل اور بزرگی کے خلاف نہیں ،تو آج کے کسی مدرس کا یہ عمل کیونکر توکل کے خلاف ہوگیا؟؟
 
Last edited:

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104
بہت ہی عمدہ تجزیہ کیا ہے خضر بھائی حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دینی خدمات کا معاوضہ

گزشتہ دنوں کسی دوست نے واٹس ایپ پر جمعیۃ علماء ہند صوبہ دہلی کے صدر اور مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی کے مہتمم مولانا محمد مسلم قاسمی کے اس فتویٰ کا ایک صفحہ بھجوایا ہے جو ائمہ مساجد اور مدارس و مکاتب کے اساتذہ کی تنخواہوں کے بارے میں ہے اور اس پر کچھ دیگر حضرات کے دستخط بھی ہیں۔ اس کا ایک حصہ ملاحظہ فرما لیجئے:
’’کل قیامت کے دن یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ مسجد میں ماربل، اے سی، بہترین قالین اور عمدہ جھاڑ فانوس وغیرہ لگائے تھے یا نہیں؟ لیکن اگر اتنی کم تنخواہ دی جس سے روزمرہ کی عام ضروریات زندگی بھی پوری نہ ہو سکیں تو یہ ان کی حق تلفی ہے جس کا حساب یقینا اللہ کے ہاں دینا پڑے گا۔ مسجد و مدرسہ کی آمدنی کے سب سے زیادہ مستحق امام، مؤذن اور اساتذہ ہیں۔ یہ جتنے اچھے اور خوشحال رہیں گے مسجد اور مدرسوں کا نظام اتنا ہی اچھا چلے گا۔ صرف امام کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی بھی ذمہ داری ڈالنا اور جھاڑو وغیرہ دینے کے کام پر مامور کرنا یہ ان کی توہین ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حاملین قرآن (قرآن کا علم رکھنے والے) کی تعظیم کرو، بے شک جس نے ان کی عزت کی اس نے میری عزت کی (الجامع الصغیر ۱/۱۴)۔ تنخواہ اچھی دینا بھی ان کی عزت کرنے میں داخل ہے اور حدیث میں ہے کہ حاملین قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے اور اس کو بڑھاوا دینے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی توہین کی اس پر اللہ کی لعنت ہے (الجامع الصغیر ۱/۱۴۲)۔ تنخواہ کم ہونے اور ضروریات زندگی زیادہ ہونے کی وجہ سے امام اور اساتذہ ہو کر وہ کسی مالدار صاحب خیر سے سوال کرنے کی جرأت کر بیٹھتے ہیں اور بعض دفعہ سوال پورا نہ ہونے کی صورت میں سخت ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ ایسے حالات میں تنخواہ نہ بڑھا کر انہیں پریشانی میں ڈالنا بھی ایک طرح کی توہین ہی ہے۔ لہٰذا امام اور اساتذہ کی تنخواہیں ان کے گھر کے خرچہ کے مطابق موازنہ کر کے مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھاتے رہنا چاہیے۔ سال پورا ہونے کا انتظار یا تنخواہ بڑھانے کے معاملہ میں تنگ دلی سے کام لینا یا دیگر نامناسب شرط و قید لگانا صحیح نہیں- (مستفاد از فتاوٰی رحیمیہ قدیم ۵۳۵/۴)‘‘
یہ فتویٰ ۱۷ اپریل ۲۰۱۸ء کو جاری کیا گیا ہے اور اس میں ہمارے دینی ماحول کے ایک ایسے پہلو کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور پورے جنوبی ایشیا کے عمومی ماحول میں دن بدن سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمارے ہاں یہ غلط تصور رواج پا گیا ہے کہ دینی خدمات کسی معاوضہ کے بغیر سرانجام دینی چاہئیں اور کسی دینی خدمت پر وظیفہ یا تنخواہ کا تقاضہ کرنا ثواب اور اجر سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خدمت ان کے سپرد کی اور اس کی انجام دہی کے بعد آنحضرتؐ نے انہیں کچھ حق الخدمت پیش کیا جو انہوں نے یہ کہہ کر قبول کرنے میں تامل کیا کہ میں نے تو یہ خدمت اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سرانجام دی ہے اور میری مالی حالت بہتر ہے مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جناب رسول اللہ نے ان کی یہ بات قبول نہیں کی اور فرمایا کہ ’’خذہ و تمولہ‘‘ اس کو وصول کرو اور اپنے مال میں شامل کرو، اس کے بعد اگر تمہاری مرضی ہو تو صدقہ کر دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دینی خدمت پر حق الخدمت ادا کرنا ضروری ہے، اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے دینی خدمت کا ثواب و اجر ختم نہیں ہو جاتا۔
اسی طرح یہ بات ہمارے ہاں معمول بن گئی ہے کہ دینی خدمات سرانجام دینے والوں کی تنخواہیں اور دیگر سہولتیں عام طور پر کم از کم معیار پر مقرر کی جاتی ہیں۔ کچھ خدا ترس اور معیاری دینی مدارس و مراکز اساتذہ اور ائمہ و حفاظ کو معقول مشاہرے دیتے ہیں اور سہولتیں بھی مہیا کرتے ہیں مگر ان کی تعداد اکثریت میں بہرحال نہیں ہے۔ جبکہ عمومی ماحول یہ ہے کہ جس شخص کو ہم امامت، اذان، تعلیم قرآن کریم، دینی تدریس اور اس نوعیت کی کوئی ذمہ داری سونپ رہے ہیں اور اس کے اوقات کار کو اس کام کے لیے مخصوص کر رہے ہیں اس کا وظیفہ مقرر کرتے وقت ہم اس بات کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے کہ اس سے اس کی اور اس کے کنبہ کی روزمرہ کی ضروریات اس علاقہ کے عرف کے مطابق باوقار طریقہ سے پوری ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ ضروریات اور اخراجات کے تعین میں قرآن کریم نے ’’عرف‘‘ کو معیار قرار دیا ہے اور اس کی پابندی کا حکم دیا ہے۔ ’’متاعاً بالمعروف‘‘ کے ارشاد گرامی کے ساتھ ساتھ یتیم کے مال کی نگرانی اور انتظام کرنے والے کے لیے قرآن کریم میں ’’فلیأکل بالمعروف‘‘ فرمایا گیا ہے۔ جبکہ اس عرف کا دائرہ متعین کرتے وقت ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس ارشاد گرامی کو سامنے رکھنا ہوگا جو انہوں نے خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کرتے وقت صحابہ کرامؓ کی مشاورت کے دوران فرمایا تھا کہ جس سے وہ مدینہ منورہ کے ایک عام شہری کی طرح باعزت زندگی گزار سکیں اور اسی پر فیصلہ ہوگیا تھا۔ اس لیے مؤذن، امام، خطیب، مدرس، قاری اور دینی خدمت کے مختلف شعبوں کے رجال کار کا وظیفہ اور سہولتیں مقرر کرتے وقت یہ بات بہرحال ملحوظ رکھنا ہوگی کہ وہ جس علاقہ میں رہتے ہیں وہاں کے عمومی ماحول کے مطابق ان کے کنبہ کی ضروریات زندگی اس وظیفہ سے باعزت طور پر پوری ہو جائیں، ورنہ یہ نا انصافی اور حق تلفی شمار ہوگی۔
ایک اور بات بھی ہمارے ہاں کہہ دی جاتی ہے کہ جب ایک امام اور مدرس خود اس تنخواہ پر راضی ہے اور اسے قبول کر رہا ہے تو پھر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں تامل ہے اس لیے کہ ہمارے ہاں کسی شخص کو قاری اور عالم کے طور پر تعلیم و تربیت دینے کے دوران اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ دینی خدمت کے سوا کوئی اور کام نہ کر سکے بلکہ اس کے کوئی متبادل ہنر یا ذریعۂ روزگار سیکھنے کی عام طور پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں ایک عالم دین کوئی متبادل ذریعہ اختیار کرنے کی اول تو استعداد اور صلاحیت ہی نہیں رکھتا اور اگر کوئی شخص اپنی ذاتی محنت اور توجہ سے ایسا کر لیتا ہے تو اسے خود اپنے اساتذہ، ساتھیوں اور ماحول کی طرف سے تحقیر و استخفاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ معاشرتی طور پر مجبور ہو جاتا ہے کہ دینی خدمت ہی کے دائرے میں رہے اور اسی کو معاش کا ذریعہ بنائے، چنانچہ اس مجبوری کے باعث وہ کم وظیفے پر راضی ہو جاتا ہے کہ چلو کچھ نہ ہونے سے تو یہ بہتر ہے۔ تو کیا اس کی یہ رضا شرعاً رضا شمار ہوگی ؟ صاحبِ ہدایہ نے حضرت امام ابوحنیفہؒ سے یہ اصول نقل کیا ہے کہ ’’لا رضاء مع الاضطرار‘‘ یعنی اضطرار اور مجبوری کی حالت کی رضا کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں آج کی مساجد و مدارس میں اس کیفیت کے ساتھ دینی خدمات سرانجام دینے والے زیادہ تر حضرات اس کا اولین مصداق ہیں جو مسلسل زیادتی اور حق تلفی کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور پہلو پر بھی غور فرما لیں کہ بعض حضرات سادگی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ فارغ اوقات میں کوئی اور کام بھی تو کر سکتے ہیں۔ اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ بات زیادہ تر ان لوگوں کی طرف سے کی جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ علماء کرام کو دینی خدمات تو بلامعاوضہ سرانجام دینی چاہئیں اور فارغ اوقات میں متبادل ذریعہ اختیار کر کے روزگار کا بندوبست کرنا چاہیے۔ یہ حضرات آج کے اس مسلمہ بین الاقوامی ضابطے کو بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی ڈیوٹی کے اوقات کار کا تعین ضروری ہے جو عام طو رپر یومیہ چھ یا آٹھ گھنٹے ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے اوقات کا اس کی گھریلو ضروریات، آرام، بیوی بچوں اور تفریح وغیرہ کے لیے فارغ ہونا اس کا بنیادی انسانی حق ہے جو اس کی ضروریات زندگی میں شامل ہے۔ اوقات کار کے حوالہ سے آج کے مسلمہ قانون کو اگر سامنے رکھا جائے جس سے اسلام بھی انکار نہیں کرتا تو ہمارے اساتذہ، ائمہ اور دینی خدمت کے دیگر رجال کار پہلے ہی اس دائرہ سے زیادہ وقت دے رہے ہیں اس لیے اس سے ہٹ کر ان پر کسی مزید ڈیوٹی اور کام کی ذمہ داری ڈالنا ان کی حق تلفی اور ان کے ساتھ نا انصافی کی بات ہوگی۔
دہلی کے مولانا مفتی محمد مسلم قاسمی کے مذکورہ فتویٰ کو دیکھ کر یہ چند معروضات پیش کرنے کا موقع مل گیا ہے ورنہ یہ مسئلہ بہت زیادہ توجہ اور فکرمندی کا تقاضہ کرتا ہے جو اہل فتویٰ کی دینی ذمہ داری میں شامل ہے بلکہ اس طرف توجہ نہ دینے والے حضرات بھی میری طالب علمانہ رائے میں اس نا انصافی میں شریک ہی سمجھے جائیں گے۔ رمضان المبارک کے رخصت ہونے کے بعد شوال المکرم کے دوران ہمارے ہاں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے جس میں مدارس و مساجد کے سال بھر کے معاملات طے پاتے ہیں اس لیے دینی مدارس کے وفاقوں، دینی جماعتوں، افتاء و ارشاد کے بڑے مراکز اور مسلمہ علمی شخصیات سے گزارش ہے کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ فرمائیں اور مساجد و مدارس کے شعبوں میں ان کے منتظمین کے لیے کچھ باقاعدہ اصول و ضوابط وضع کر کے ان کی راہنمائی کریں تاکہ وہ ان کی روشنی میں ائمہ، مدرسین، مؤذنین اور دینی خدمات کے دیگر رجال کار کے ساتھ مسلسل ہونے والی اس نا انصافی کی تلافی کے لیے کوئی معقول راستہ اختیار کر سکیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک عالمِ دین کا واقعہ

مجھے کرناٹکا مسلم متحدہ محاذ کی میٹنگ میں جانا تھا۔ایک آٹو میرے قریب آکر رک گیا میں نے کہا ابراہیم اسٹریٹ جانا ہے۔آٹو میں سوار ہو گیا۔ڈرائیور شکل و صورت سے اچھے، بھلے اور مہذب معلوم ہورہے تھے۔نام پوچھا تو کہا حافظ عقیل احمد پھر انہوں نےکہا میں عالم دین بھی ہوں۔18 سالوں سے امامت و خطبات کے بعد 6 مہینوں سے اطمینان و سکون کی سانس کے رہا ہوں اور زندگی آٹو چلا کر بسر کر رہا ہوں۔میں نے کہا آپ کا منصب
ومقام تو بہت بلند ہے۔قوم کی اصلاح کر سکتے ہیں تعلیم و تر بیت کا اچھا موقعہ ہے آپ نے اچانک روٹ تبدیل کیوں کیا؟ مولانا نے فرمایا برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ہر کام کے لئے مسجد کے صدر سے رجوع ہونا ،ذمہ داران کو خوش رکھنا، ان کے پسند کے آدمی کی تعریف کرنا، اور نا پسند کی غیبت کرنا، ان کے مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے کسی اجتماع اور پروگرام میں جا نہیں سکتے ۔میں نے کئی مرتبہ ان کی ڈانٹ سنا ہے۔ان کی انفرادی زندگی بے عملی کا شکار ہے۔چھوٹ غیبت، دھوکا ،گالیاں، دھمکی عام سی بات ہے رشوت لیتے اور دیتے ہیں یہاں تک کہ سودی کاروبار کرتے ہوے میں نے دیکھا ہے۔امامت کی زندگی سے تنگ آگیا تھا اللہ نے حلال روزی کا موقع عنایت کیا اس میں بہت سکون ہے۔میں نے کہا ہر مسجد کے ذمہ داران ایسے نہیں ہوتے۔ متقی اور پرہیزگاروں کی بڑی تعداد ہے۔مولانا نے فرمایا جس مسجد کا امام ان کے بارے میں گواہی دے کہ ہمارے صدر سیکریٹری متقی و پرہیز گار ہیں تو ہیں ور نہ نہیں انہوں نےکہا ایک بڑی اکثریت اس سے خالی ہے۔مولانا نے فرمایا مسجد کے صدر کا انتخاب مالدار، سیاست کی بنیاد پر ہوتا ہے،حیثیت و مقام کا خیال رکھا جاتا ہے اور ڈرانے دھمکانے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔میں نے کہا آٹو ڈرائیور کے تجربات بتایئں تو کہا فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ظہر تک گھومتا ہوں اللہ کا شکر ہے کہ مسجدسے ماہانہ جورقم ملتی تھی اس سے زیادہ آدھے دن کی محنت میں مل جاتی ہے۔نماز عصر کے بعد بچوں کو تعلیم دیتا ہوں۔لوگوں سے ملاقاتیں کرتا ہوں۔بیوی بچوں کے ساتھ سکون سے ہوں۔
(محمد یوسف کنی )
منقول
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نئے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان علمائے کرام کو اگر تدریس اور امامت نہیں ملتی اور وہ معاشی حوالے سے پریشان ہیں تو ان کے لیے سب سے بہترین ذریعہ روزگار تجارت ہے
اور اگر آپ کا کوئی عزیز رشتہ دار تجارت کر رہا ہے تو اس کے ساتھ شامل ہو جائیں اور تجارت سیکھ کر پھر خود سے شروع کریں
.... مہتمم حضرات کے سامنے ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنا کوئی کام دھندہ شروع کرے اور رزق حلال کمائے خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے
مدرسین کو دو چار ہزار دیکر ان کو یہ کہنا کہ اس میں برکت ہو گی آپ۔اپنا خرچہ چلاو انتہائی لایعنی اور فضول بات ہے اگر دو چار ہزار میں اتنی ہی برکت ہے تو مہتمم حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنا خرچہ بھی کم کریں اور مدرسین جتنی تنخواہ لیں پھر معلوم ہو گا کہ کہ برکت کسے کہتے ہیں اللہ تعالی ضرور برکت دیتا ہے اس سے انکار نہیں لیکن ایک بندہ کی روزہ مرہ زندگی کے اخراجات سے آمدن انتہائی کم ہو تو وہ گھر کا خرچہ کیسے چلائے گا مہتمم حضرات سال میں تین تین عمرے کریں حج پر جائیں اعلی ترین ہوٹلوں پر ان کے ڈنر ہوں اولادیں ان کی گل چھڑے اڑائیں ان کی شاہی خرچیاں لاکھوں تک پہنچیں اور غریب مدرس کو اس پر بھلایا جائے کہ آپ کی تنخواہ میں برکت ہو گی یہ سب سے زیادہ مدرسین کا استحصال ہے
میرے جاننے والے کئی قیمتی ساتھی معاشی پریشانیوں کی وجہ سے کوئی علمی کام نہیں کر سکے اور نوبت یہاں تک۔پہنچ چکی ہے کہ نوجوان فضلاء اب رکشہ بھی چلا رہے ہیں اس وقت معاش کا مسئلہ سب سے اہم۔ہے جب آدمی معاشی طور پر آسودہ حال ہوتا ہے تو وہ علمی کام بھی کرتا ہے اور دین کی خدمت بھی نہیں تو پریشانیوں میں اس کی۔سب صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خضرحیات بھائی نوجوان فضلاء کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ ہمارے مدارس میں کوئی تعلیمی مشیر نہیں ہوتا جو دوران تعلیم انہیں رہنمائی مہیا کرے کہ وہ مستقبل میں کس کس فیلڈ میں جا سکتے ہیں یا ممکنہ کون کون سے مجالات ایسے ہیں جہاں وہ اپنی خدمات پیش کر کے عزت سے اپنی روزی بھی کما سکیں اور دین کی خدمت بھی کر سکیں
ہمارے طلباء وفاق المدارس ، مدارس، فاضل عربی، مختلف کورسز وغیرہ وغیرہ کی ڈگریوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں لیکن بغیر کسی تعلیمی منصوبہ بندی کے میں ایسے کئی طلباء جانتا ہوں جس زمانے میں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں اے ٹی ٹی سی میں بطور کوآرڈینیٹر خدمات انجام دے رہا تھا یقین کریں کہ کیا جامعہ الرشید، کیا بنوری ٹاون اور کیا دارالعلوم کورنگی اور کیا ہمارے معروف مدارس سب کا ایک ہی حال تھا طلباء اپنے لفافے لے کر آتے تھے سر یہ ہماری ڈگریز ہیں اب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟
تو جب ان کی زندگی کے قیمتی آٹھ سال لے کر انہیں صرف چند کتب پڑھا کر مخصوص اسباق پڑھا کر میدان حیات کی تلخ وادیوں میں دھکے دے دیتے ہیں تو پھر یہی کچھ ہو گا
کسی مدرسہ میں نصاب کمیٹی نہیں
کسی مدرسہ میں تعلیمی مشیر نہیں
کسی مدرسہ میں چیرٹی فنڈ نہیں
یہ ٹھیک ہے کہ وسائل کی کمی ہے بسااوقات شدید کمی ہوتی ہے لیکن کیا جو کام موجودہ وسائل کے اندر ممکن ہیں کیا وہ بھی نہیں کیے جا سکتے
اس لیے اس معاملے کو مجموعی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے جو ہونا تھا سو ہو چکا
اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ ہم مدارس کے مہتمم حضرات تک رسائی حاصل کر یں (مجموعہ علماء اھل حدیث میں تقریبا تمام معروف مدارس کے مہتمم موجود ہیں وہاں یہ بات کر کے دیکھ لیں کہیں سے کوئی جواب نہیں آئے گا)
لہذا اس کا ایک قریبی اور ممکنہ حل یہ ہے کہ آنے والے فضلاء کو مدارس کے ساتھ ساتھ دیگر مجالات زندگی میں کام کرنے کے گر بھی بتا سکیں
حیدرآباد میں کسی زمانے میں جماعت اسلامی کا ایک مدرسہ ہوا کرتا تھا جو اب ختم ہو چکا ہے اس میں طالب علم کو پڑھائی کے ساتھ ہنر بھی سکھائے جاتے تھے اور ٹیکنیکل تعلیم بھی دلوائی جاتی تھی نتیجتا اس مدارس کے کچھ طلباء سے میں واقف ہوں جو دین کی علمی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں اور عملی خدمت بھی بلکہ ان میں سے ایک تو باقاعدہ مالی تعاون بھی کرتے ہیں باقاعدہ خطیب ہیں دروس بھی دیتے ہیں لیکن اپنا گزر اوقات اپنے کاروبار سے کرتے ہیں
 
Top