مدارس دینیہ کے مدرسین کی معاشی حالت زار اور اس کے ممکنہ حل
سمیع اللہ سعدی
چلیں پہلے آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سنے دو واقعات سے ابتداء کریں ،لاہور کے ایک بڑے صاحب تصنیف بزرگ،جو لاہور کے سب سے بڑے ادارے میں اعلی درجہ کے مدرس تھے ،ان کے بڑے بیٹے سے ملاقات ہوئی ،والد صاحب کے احوال بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ جب والد صاحب کا انتقال ہوا ،تو اہل مدرسہ نے دو ماہ کا الٹی میٹم دیا کہ مکان خالی کر دیں ،اس وقت جو بیتی ہم پر ،وہ بیتی ۔ ایک معمر عالم دین کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے ایک مدرسہ میں پچیس سال کے قریب تدریس کی ،دوران تدریس امامت کی نہ کوئی اور مصروفیت،اب جب بدن ساتھ چھوڑنے لگا ،تو اہل مدرسہ نے کہا کہ مکان خالی کر دیں ،اور گھر کو روانہ ہو جائیں ،معمر عالم دین نجی مجالس میں روتے ہوئے شکوہ کناں رہتے ہیں کہ میں نے جوانی مدرسہ کے لیے وقف کردی،اب بڑھاپے میں میرا اتنا حق نہیں بنتا کہ مجھے سر چھپانے کے لیے مدرسہ ایک مکان ہی دے ۔
ان واقعات میں قصور اہل مدرسہ کا بھی نہیں،کہ جب خالی سیٹ پر متبادل مدرس آئے گا تو لا محالہ پچھلے مدرس کی سہولیات اسے متنقل ہوں گی۔مدرسین دوران تدریس جس طرح کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں ،وہ تو سب پر عیاں ،اس کے علاہ اچانک موت کی صورت میں اہل و عیال یا ناگہانی بیماری کی صورت میں ان پر جو بیتتی ہے ،وہ قیامت سے کم نہیں ،اس حوالے سے "رب مبلغ اوعی من سامع"کو دیکھتے ہوئے چند ممکنہ حل دوستوں کی خدمت میں پیش کروں گا ،احباب کی نظر میں جو ممکن ہے وہ بھی شیئر کریں ،شاید اتر جائے "بڑوں "کے دل میں "ہماری " بات :
حل نمبر ۱:
اس کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ وفاق ایک "چیرٹی فنڈ برائے مدرسین" قائم کرے ،جس کا مقصد صرف اور صرف مدرسین کی کفالت و تعاون ہو ،اور وہ مدرسین کے لیے درجہ ذیل امور سر انجام دے :
۱۔مخصوص سروس اور عمر والے مدرسین کو آسان شرائط پر کاروبار کے لیے قرضہ دینا۔
۲۔بڑی بیماری کی صورت میں مدرس اور اس کے اہل خانہ کا علاج و معالجہ۔
۳۔ناگہانی موت یامدرس ناکارہ ہونے کی صورت میں مدرس اور اہل خانہ کے لیے مکان و کفالت کا بندوبست کرنا
اب سوال یہ ہے کہ چیرٹی فنڈ میں پیسے کہاں سے آئیں گے؟
اس حوالے سے متعدد راستے ہیں،قائد وفاق ہر سال وفاق کے قائد کی حیثیت سے مختلف ملکوں کے دورے پر رہتے ہیں ،کبھی ترکی ،قطر تو کبھی سعودی عرب ،وہاں سے ایوارڈ لیتے ہیں ،اگر ان ملکوں کی حکومتوں اور شیوخ کے سامنے اس چیرٹی فنڈ کا قضیہ رکھیں ،تو ایک سال میں کروڑوں جمع ہوسکتے ہیں۔
دوسری صورت یہ کہ بیرون ملک مخیر حضرات سے ایک تحریک کے ذریعے اس فنڈ کے لیے پیسے جمع کئے جاسکتے ہیں، یقین کریں یورپ و امریکہ میں اب بھی ایسے دیندار اور مالدار مسلمان بستے ہیں ،جو اس فنڈ میں لاکھوں ڈالر بخوشی دینے کو تیار ہونگے۔
تیسری صورت حکومت پاکستان سے اس کے لیے مختص رقم کی درخواست کی جاسکتی ہے ،ہمارے حکومتی ارکان اتنے گئے گزرے نہیں ،کہ اس حوالے سے کوئی تعاون نہ کریں ۔
یہ نہ ہو تو یہ صورت تو موجود ہے کہ وفاق میں رجسٹرڈ مدارس سے ماہانہ یا سالانہ کی بنیاد پر مدارس کے کوائف اور مدرسین کی تعداد کے اعتبار سے پیسے جمع کیا کریں، صرف کراچی کے بڑے مدارس ماہانہ لاکھوں روپے دے سکتے ہیں ،جس مدرسہ میں طلباء کا وظیفہ ہزاروں میں ہو ،جہاں کروڑوں کی عمارات مہینوں میں تعمیر ہو ،ان کے لیے چند لاکھ کوئی مسئلہ نہیں ،بس مسئلہ یہ ہے کہ اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی ہے ۔
حل نمبر ۲
جب تک اجتماعی فنڈنگ کا معاملہ شروع نہیں ہوتا ،تو مدارس انفرادی طور پر بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں ،مدارس اپنے قواعد و ضوابط میں تبدیلی لاتے ہوئے ایک خاص معیار اور مدت سروس مقرر کریں ،اس معیار پر پہنچنے کے بعد مدرس کے لیے مکان کا بندوبست مدرسہ کرے ،جو ان کی ملکیت میں ان کی خدمات کے اعزاز میں دی جائے ۔پوری زندگی ایک مدرسہ میں وقف کرنے کے بعد ایک مدرس کا کم از کم یہ حق تو بنتا ہے کہ اسے سر چھپانے کی جگہ مدرسہ فراہم کرے ۔مدارس کا ماہانہ خرچہ لاکھوں میں ہے ،دس بارہ یا پندرہ سال کے بعد ایک مدرس کے لیے مکان کا بندوبست کرنا مدرسہ کے لیے کوئی چنداں مشکل نہیں ، مدارس خود اپنے چندے میں سے ہر ماہ بنام مدرسین کچھ فنڈ مختص کیا کریں ،تو ایک مدت کے بعد اس میں اچھی خاصی رقم جمع ہوسکتی ہے ۔
حل نمبر۳
مدارس ذاتی طور پر رفاہی اداروں اور فلاحی ٹرسٹس کے سامنے مدرسین کا یہ مسئلہ رکھ سکتے ہیں ،بلکہ اب تو خود دینی طبقے کے کافی سارے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں ،انہیں اس طرح متوجہ کیا جاسکتا ہے ۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے بہت سارے فلاحی ادارے کام کر ہے ہیں ،ان کی خدمات بھی لی جاسکتی ہیں۔اس سے سب کا نہیں ،پر کافی سارے مدارس کے مدرسین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔اور ان کی کفالت کا اچھابندوبست ہوسکتا ہے ۔
حل نمبر۴
مدارس دوران تدریس ایک خاص معیار مقرر کر کے مدرسین کو آسان شرائط پر قرضہ بھی فراہم کر سکتے ہیں ،جس سے مدرس ایک کاروبار شروع کرے ۔کم از کم اس سے یہ تو ہوگا کہ مدرس کی ذاتی آمدنی کا کوئی ذریعہ ہوگا ۔مدرس کے بیمار ہونے کی صورت میں مزید تدریس جاری نہ رکھنے یا فوتگی کی صورت میں اس کے اہل خانہ کا اس آمدنی سے گزر بسر رہے گا ۔اور دوسروں کے دست نگر نہیں ہوں گے۔اگر ہر مدرسہ دو سالوں بعد اپنے ایک مدرس کو آمدنی کے حوالے سے خود کفیل کرے ،تو اسے جہاں مدرسین کا مدرسہ کے ساتھ تعلق میں بے پناہ مضبوطی آئے گی ،وہاں مدرسہ کو بھی کافی سہولت مل سکتی ہے کہ تنخواہیں لیٹ ہونے کی صورت میں مدرسین کے حوالے سے کسی قسم کی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا ۔
حل نمبر ۵
ہر مدرسہ اپنے معاونین کی مدد سے ایک فنڈ تشکیل دے سکتا ہے ،جو مدرسین کی کفالت و تعاون کے لیے مختص ہو ۔اسی فنڈ سے مدرسین کے لیے مکان کا بندوبست اور فوتگی یا بیماری کی صورت میں مدرسین اور ان کے اہل خانہ کی کفالت کا معتدبہ بندوبست ہو سکتا ہے ۔
حل نمبر۶
مدارس میں مدرسین کی درجہ بندی کا رواج بالکل نہیں ہے ،مدرسین کی ترقی اور اس کی تنخواہ میں اضافہ مکمل طور پر مہتمم کی صوابدید پر ہوتا ہے ۔اس کے لیے وفاق ضابطہ بندی کر سکتا ہے ۔ قابلیت ،ڈگریوں ،تجربہ اور دیگر مہارتوں کے اعتبار سے مدرسین کی درجہ بندی ہونی چاہیے ،اور ہر سکیل کی تنخواہ کا ایک معیار ہونا چاہیے ۔کم از کم تنخواہ سے لیکر زیادہ سے زیادہ تنخواہ تک نظام ہونا چاہیے ۔درجہ بندی نہ ہونے کا نتیجہ ہے مدارس کے مدرسین کی تنخواہوں میں بہت بڑا فرق ہے ،آج بھی بلوچستان و خیر پختونخواہ میں ایک اعلی درجہ کے مدرس کی جو تنخواہ ہے وہ کراچی میں ایک ادنی درجے کے قاری صاحب کی تنخواہ ہوتی ہے ۔وفاق کو اس حوالے سے قدم اٹھانا چاہیے اور سرکاری ٹیچرز کے طرز پر ایک نظام ترتیب دینا چاہیے ۔اگر ایک مدرسہ افورڈ نہیں کر سکتا تو وہ تعداد میں کمی کرے ۔بھیڑ اکٹھی کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟اللہ نے ہر شخص کو اس کی وسعت کے بقدر دین کی خدمت کا مکلف بنایا ہے ۔پر افسوس ،یہاں کیف کی بجائے تعداد اور کثرت کو ہی ترقی ،قبولیت کا معیار سمجھا جاتا ہے ،سمجھ نہیں آتا ،دینی طبقے جمہوریت کی بھر پور مخالفت کے باوجود کیسے اپنے کو جانچنے کے لیے جمہوریت کو معیار بنا لیتے ہیں ؟اور محض طلباء و اساتذہ کی کثرت کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے ،چاہے نتائج نہ ہونے کے برابر ہی کیوں نہ ہو ۔اگر آج بھی مدرسین کو درجہ بندی کے اعتبار سے تنخواہیں ملیں ،تو ان کی کافی ساری مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔
حل نمبر۷
ہر مدرس کو اس حوالے سے ذاتی طور پر بھی سوچنے اور ایک طویل منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔حدیث کے مطابق اپنے ورثاء کو فقیر اور دوسروں کا دست نگر چھوڑنے سے انہیں مالی حوالے سے خود کفیل کر کے چھوڑنا کئی گنا افضل اور اللہ کی خوشنودی کا سبب ہے ۔عمومی طور پر ہمارے دینی حلقوں میں مدرسین کے حوالے سے ایک سوچ یہ پھیلائی جاتی ہے کہ اپنی ذاتی آمدنی کے لیے کوشش کرنا "توکل " کے خلاف ہے اور اسے "خدمت دین "میں رکاوٹ باور کرایا جاتا ہے ،حالانکہ دینی و شرعی حوالے سے یہ فکر و سوچ غلطی پر مبنی ہے ۔ہر آدمی پر اللہ نے اس کے اہل و عیال کا نفقہ واجب کیا ہے ،تو واجب کی ادائیگی کے لیے کوشش کسی بھی حوالے سے "مروجہ خدمت دین "سے کم نہیں ،خصوصا جبکہ مدرس کی نیت ہی اس کوشش سے کار تدریس میں مزید اطمینان ہو ۔مدرس ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ رقم رکھ کر ذاتی فنڈ تخلیق کر سکتا ہے ،کسی واقف سے قرض لیکر کاروبار کھڑا کر سکتا ہے ،پارٹ ٹائم کوئی اور جاب کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے ۔اہل مدارس کو چاہیے کہ اس حوالے سے مدرسین کو سپورٹ کرے اور ان کی اس کوشش میں روڑے نہ اٹکائے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مہتممین حضرات اس حوالے سے مدرسین کا تعاون تو کجا،مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں ،آج بھی ہمارے مدارس میں اعلی درجے کے مدرس کی تنخؤاہ ایک "چپڑاسی"کے برابر ہوتی ہے ،لیکن اس پر خارجی مصروفیات کے حوالے سے اتنی پابندیاں ہوتی ہیں ،کہ وہ مزید کسی کام کا نہیں رہتا ۔کم از کم اس حوالے سے اکابرین دیوبند کا یہ رویہ نہیں تھا ،خصوصا حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات میں اس چیز کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں ،نیز ہمارے ہاں تنخواہ بڑھانے کے لیے درخواست دینا یا اس کا مطالبہ کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے ،حالانکہ حضرت مدنی رحمہ اللہ نے دار العلوم دیوبند میں صدر مدرس لگتے وقت نہایت اعلی تنخؤاہ کا مطالبہ سامنے رکھا تھا ،جسے اہل مدرسہ نے منظور کیا تھا ۔حضرت مدنی کا تنخؤاہ کی زیادتی کا مطالبہ توکل اور بزرگی کے خلاف نہیں ،تو آج کے کسی مدرس کا یہ عمل کیونکر توکل کے خلاف ہوگیا؟؟