تصوير كا دوسرا رخ یہ بیچارے مہتمم
اکثر دینی مدارس کے مہتمم علماء ہوتے ہیں اور اپنے معاصر مدرسین سے زیادہ تعلیمیافتہ اور باصلاحیت نہیں تویقینا ان کے برابر کے ضرور ہوتے ہیں، ہمارے نمایاں مدارس کی تو تقریبا یہی روایت ہے، بلکہ بعض مدارس کے مہتمم ہی وہاں کے شیخ الحدیث بھی ہوتے ہیں، آج کل سوشل میڈیا پر بعض جذباتی نوجوان اور ناعاقبت اندیش مدارس کی خیر خواہی کے نام پر سارا نزلہ مہتمم پر گرا رہے ہیں، آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دیں، تاکہ کسی ایک فریق کے ساتھ نا انصافی نہ ہو.
یہ الہ آباد کے ایک ادارہ کے مہتمم ہیں، سکول جاب، بہترین صلاحیتوں کے مالک مدرسہ کے بہتر انتظام وانصرام کی خاطر اپنی سرکاری ملازمت چھوڑی، مدرسہ کی مالی معاونت کے سلسلہ میں دوران سفر شہید ہوئے، ایک عرصہ ہوا مجھے معلوم پڑا ان کی بیوہ بیمار ہیں، عیادت کے لیے ان کے گھر گیا، گھر کی صورت حال اندر کے فقر وفاقہ کا پتا دے رہی تھی، الوداع ہوتے ہوئے بہت شرماتے شرماتے کچھ خدمت پیش کی اور عرض کی آپ بڑی بہن ہیں، چھوٹے بھائی کی یہ خدمت قبول فرما لینا، وہ گویا پھوٹ کر روپڑیں کہا، بیٹا میں بہت کسمپرسی کی حالت میں ہوں، کسی کو بتا بھی نہیں سکتی، آپ میرے بیٹے ہیں آپ نے بروقت مدد کی،،،،،،، چلیں عالم اور مدرس تو پھر مدرس ہوتا ہے، مہتمم بیچارے کو تو ہم علماء کی صف ہی سے نکال باہر کرتے ہیں نا، در در کی ٹھوکر یں کھا کر راتوں کوجاگ کر، اپنی اولاد تک کی بعض ضروریاتِ زندگی کو نظرانداز کرکے یہ مدرسہ کا منتظم، یہ ظالم نہ رعایت کا مستحق ہے، نہ شکریے کا اور نہ ہی کسی کلمہ خیر،
یہ مجموعہ علماء ہی کا ایک اجلاس تھا جس میں ایک نامور شیخ الحدیث نے سینکڑوں علماء کی موجودگی میں باتوں باتوں میں کسی کے دوش پر سوار ہو کرکہا تھا،جس قبرستان میں مہتمم سپرد خاک ہو میں اس کے قریب سے گزرنا گناہ سمجھتا ہوں، اور افسوس کہ بھری محفل میں کسی نے مہتمم کی عزت کو قابل دفاع نہ سمجھا
یہ کوٹ رادھا کشن کے ایک مہتمم ہیں کالج میں پروفیسر تھے، مدرسہ کی خاطر جاب کو خیر باد کہا، اور ایک رمضان میں میرے پاس اپنی ذات کے لیے سوال کرنے آئے میں انہیں بھی کبھی فراموش نہیں کرسکتا،،،
یہ ضلع اوکاڑہ ایک اور مہتمم ہیں جن کی وفات کے بعد اولاد کے پاس مکان تک نہیں، در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں. یہ تو وہ کہانیاں ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں،،،،،
بعض احباب مہتمم اور مدرسین کے معاشی تفاوت کا بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ان سے عرض ہے کہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے اکثر مدارس کے مہتمم اور مدرس یکساں طور پر مالی مشکلات سے دوچار ہیں،
بسا أوقات مہتمم اور مدرس کی ذاتی ونجی زندگی میں تفاوت اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ مہتمم زکوۃ وخيرات میں کرپشن کررہا ہے اور مدرس بیچارہ قابل رحم ہے، نہیں بلکہ وہ تفاوت کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے ایسے ہی جیسے ایک ہی ادارے کے اساتذہ کے بھی معاشی حالات مختلف ہوسکتے ہیں،،،،ایک مدرس صرف تدریسی فرائض سرانجام دے رہا ہے اور صرف ادارے سے تنخواہ حاصل کررہا ہے، جبکہ دوسرا مدرس ساتھ کسی مسجد میں امام وخطيب بھی ہے تو دونوں کے معاشی حالات برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟
اسی طرح بعض اداروں کے مہتمم خاندانی طور پر کاروباری ہیں، ان کا ذریعہ آمدن ذاتی ہوتا ہے،
بعض لوگوں کو مہتمم کی گاڑی پر بہت غصہ آتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مدرس نے سال بھر میں چند سفر کرنے ہیں، جبکہ مہتمم نے ہمہ وقت در در کی ٹھوکریں کھانی ہیں، میں ایسے مہتمم کو جانتا ہوں جو موٹر سائیکل پر کثرت سفر کی وجہ سے کمر کے مہروں کے مریض ہیں
متعدد مثالیں ایسی ہیں کہ مہتمم کی اس درد سر اور کثرتِ سفر کو دیکھتے ہوئے کچھ مخیر حضرات اپنی ذاتی گرہ سے مہتمم کے لیے گاڑی کا انتظام کردیتے ہیں،
جنہوں نے عمر بھر کوئی ادارہ قائم کیا نہ مشکلات سے آگاہ وہ فیس بک کی وال پہ مہتمم حضرات کو رگید کر اور اساتذہ کی قابل رحم حالت کو بیان کرتے ہوئے یہ ضرور سوچیں کہ اس تحریک کے اثرات کیا ہوں گے.؟
بعض لوگ مدرسین کرام کی تنخواہوں کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کمپیئر کرتے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دینی مدارس سرکاری ادارے نہیں ہیں، ان کو اپنے اپنے علاقے کے پرائیویٹ سکولز سے کمپیئر کریں، تب آنکھیں کھلیں گی اور پتا چلے گا دینی مدارس میں کیا خیر وبرکت ہے.
بعض لوگ دہائی دیتے ہیں 15000 میں ایک متوسط گھرانے کا بجٹ بنا کر دکھا دیں، سوال یہ ہے کہ آپ ہمیں مسجدوں کی اپیلوں، سفیروں، مسجدوں کے گلوں سے حاصل ہونے والی رقم سے مدرسے کا بجٹ بنا کر دکھا دیں. آپ بیس ہزار کوروتے ہیں اور مہتمم اس بات کوکہ بیس ہزار اللہ کرے شعبان تک دے سکیں اور اس میں ہمارے اساتذہ کرام کے سامنے ہمیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے
اساتذہ کی فلاح وبہبود اور پر کشش تنخواہیں کس مہتمم کی ترجیح اول نہ ہوتی ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاونین تعاون دیتے ہوئے پابند کرتے ہیں کہ یہ رقم طلبہ کی دعوت کےلیے ہے، بعض کہتے ہیں یہ مسجد کی فلاں ضرورت کے لیے ہے، ظاہر ہے ہمیں اس کے مطابق ہی کرنا ہوتا ہے. بعض احباب نے پانچ چھ لاکھ طلبہ کی پرتکلف دعوتوں پر خرچ کیا، جبکہ ادارے کے پاس آخری مہینوں میں تنخواہ دینے کو فنڈز نہیں تھے، قرض حسن لے کر ادا ہو رہی ہوتی ہیں، اس متبرع کی یہی ڈیمانڈ ہوتی یا نذر...
بعض دفعہ عالی شان عمارت دیکھ کر لوگ غلط فہمیاں پال لیتے ہیں کہ ان کے پاس بڑے فنڈز ہیں، حالانکہ وہ عالیشان عمارات بعض محسنین افراد یا اداروں نے بنوائی ہوتی ہیں اور وہ محسنین یا ادارے اپنے لیے صدقہ جاریہ کے متمنی ہوتے ہیں، اسی مقصود کے لیے وہ سرمایہ لگا رہے ہوتے ہیں، یہ زر کثیر صرف ایک ہی دفعہ وہ خرچ کرپاتے ہیں، جبکہ تنخواہوں کے لیے ماہانہ بنیادوں پر تعاون چاہیے ہوتا ہے، جس کے لیے ان کے اپنے حالات سازگار نہیں ہوتے یا پھر وہ آمادہ نہیں ہوتے،،، اس صورت حال میں مہتمم کا کیا قصور ہے یہی نا کہ جس مد کے لیے رقم آئی اس نے کامل ایمانداری سے اسی مد میں صرف کردی؟!
اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے کہ مہینے کے آخر میں مہتمم کاکیا حال ہوتا ہے، اور کس طرح تنخواہوں کا انتظام ہوتا ہے,؟ بالخصوص سال کے آخر میں مہتمم کے ساتھ کیا بیتتی ہےیہ درد کسی کو نہیں ہمارے بعض معاونین جو پندرہ سال پہلے سالانہ پانچ ہزار دیتے تھے اب بھی وہیں کھڑے ہیں،،،لیکن..... مہتمم نے تو بہر حال تنخواہوں میں سالانہ اضافہ کرنا ہے
اگر یہ فیس بکی دانشور اور ناقدین واقعی دینی مدارس کے ساتھ مخلص ہیں تو کسی ایک فریق مدرس یا مہتمم کو باہم دشمن باور کرانے کی بجائے اس سماج کا رونا روئیں جو مدارس کی خدمت میں بخل سے کام لیتا ہے، یا کسی ایک ادارے کے کوائف لے کر وہاں کے مدرسین کی مثالی تنخواہوں، رہائش گا ہوں، اور پنشن کی ذمہ داری لے لیں، اس پورے تعاون کا آڈٹ بھی اپنے ذمے رکھیں، سارے دینی مدارس نہیں، صرف ایک مدرسے کا اس انداز میں تعاون حاصل کرلیں،تو یہ ایک مثالی قدم ہوگا،،،، اور اس سے اندازہ ہوگا، کہ آپ مدارس کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟ محض دو ایک مدرسین کا رونا رونا ، مہتمم کوبدنام کرنا، مدارس کی زبوں حالی کے مرثیے لکھنا اور وہ فیس بک کی وال پر یہ دیکھے بغیر کہ اس کے اثرات کیا ہیں، کوئی خیر کا کام نہیں، بلکہ اگر اس سے دوچار لوگوں کا بھلا ہو بھی جائے، تو بھی ہماری نگاہوں میں اثمہما اکبر من نفعہما کا مصداق ہے.
اعتراف حقیقت
یقینا مدارس بہت ساری مشکلات سے دوچار ہیں، مجھے ان سے انکار نہیں، یہاں ہر پہلو میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے اس کا ادراک ہے اور اعتراف بھی
مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے ان اصلاحات کے لیے مدرس اور مہتمم کو دو فریق بنا کر پیش کرنا کیا ضروری ہے؟ اور وہ بھی پبلک فورم پر، اصل معاملہ نظام وضع کرنے، میکانزم، انفراسٹرکچر اور بنیادی ضابطہ اخلاق طے کرنے کا ہے، بدقسمتی کے ساتھ جو کسی بھی طرح منظم ہے نہ طے شدہ اور خود اس کے پیچھے بھی دینی مدارس کو درپیش معاشی مسائل اہم وجہ ہیں. ہم یہ سب تبصرے کرتے ہوئے مجموعی طور پر پاکستان کی معاشی صورتحال اور یہاں ہر شعبہ تعلیم کو درپیش مسائل نظر انداز کردیتے ہیں، ہم ایک ایسے ماحول میں ہیں، جہاں مزدور کی ماہانہ آمدن کم ازکم بیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور پرائیویٹ سکول میں ایم اے پاس ٹیچر کی تنخواہ دس ہزار، جہاں پی. ایچ ڈی لوگ فارغ پھر رہے، جہاں کے متعددپرائیویٹ سکولز میں ایک بعض ایم اے پاس فیمیل ٹیچرز کی تنخواہ چار ہزار سے متجاوز نہیں، یہاں مجموعی طور پر تعلیم کا شعبہ قابل رحم ہے اور دینی تعلیم کا شعبہ بالخصوص کچھ زیادہ ہی قابل رحم، اس لیے بیچارے مہتمم کو معاف کرتے ہوئے مدرسین کرام اور دینی اداروں کی بہتری کے لئے جو کرسکتے ہیں کریں، جو لکھ سکتے ہیں للکھیں.
(ڈاکٹرعبيد الرحمن محسن صاحب)
#اساتذہ_مدارس