• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی مدارس ۔۔۔ ایک دلخراش رخ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مدارس کےاساتذہ کو عزت دو ۔۔۔۔۔۔عبدالباسط بلوچ

مدارس کی خدمات اپنی جگہ مدارس کا ماحول اپنی جگہ،مدارس کی تعلیم اور اس کا معیار یہ بھی الگ بحث ہے ۔کیا تیار ہورہا ہے اور کس لیے یہ بھی میرا مطمع نظر نہیں نہ مجھے اس سے آج کچھ سروکارہے۔آج میں جو درد آپ سے باٹنا چاہتا ہو وہ مدارس کے اساتذہ کے ساتھ روا رکھا جانے والا وہ رویہ ہے جس کو دیکھ اور سن کر نسل نو میں سے کوئی مدرسے کا استاد بننا پسند نہیں کرتا ۔میں اپنے بہت سے احباب کو جانتا ہو جو با صلاحیت بھی تھے اور جذبہ خدمت سے سرشار بھی لیکن انہوں نے مدارس کی تدریس کو جان بوجھ کر اختیار نہیں کیا ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ارباب مدارس وقت تو لیتے ہیں لیکن اس کی قدر بھی نہیں کرتے ،میں مدارس کی دنیا میں موجود اساتذہ کو دیکھتا ہو تو مجھے محسوس ہوتا ہے ان میں سے بعض کو ادارہ رکھنا نہیں چاہتا اور بعض کو کوئی اور سرکاری نوکری ابھی تک نہیں ملی ۔ارباب مدارس کا رویہ بھی ان کے ساتھ زر خرید غلاموں جیسا ہے گویا کہ ان کے اندر بو ہی کو مار دیا جاتا ہے ۔اگر میں پچھلے دس سال کا جائزہ لو تو یہ واضح ہوتا ہے بہت سے قابل افراد بھی ان کی بے رخی کا شکار ہو کر مدارس سے اتنے دور جا چکے ہیں کہ ان کی واپسی ناممکن ہے ۔تنخواہوں کے معاملے میں اگر میں کہو تو بجا ہو گا کہ اساتذہ کرام کو الٹی چھری کے ساتھ ذبح کیا جاتا ہے ۔ارباب مدارس کی اپنی ٹھاٹھ باٹھ اور انداز سے یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ ہم تو کوئی تم پر احسان کر رہے ہیں جو آپ کو مدرسے میں رکھا ہوا ہے ۔میں کئی ایسے دوستوں سے واقف ہو جو شوق اور جذبہ کے باوجود مدارس میں آنا نہیں چاہتے ۔اس کی وجہ مدارس کے ارباب کا وہ رویہ ہے جو جوہر قابل کو اس کی معاشی ضروریات کے پورا ہونے کی یقین دہانی کروانے میں ناکام رہے ہیں ۔اور مدارس کے نظام کو بس چل رہا ہے چلنے دو کے اصول کے تحت چلا رہےہیں ۔اپنی سہولیات پوری لینے پر اصرار ہے اور اساتذہ کو توکل عزیمت اور صبر کا درس دینے پر مصر ہیں ۔مجھے آپ کے خلوص پر شک نہیں مجھے تو اپنے ان مستقبل کے معمار گرو کی پتلی حالت اور معاشی قتل رولا دیتا ہے جب وہ سارا مہینہ ایسے گزار دیتا ہے بس بہتر ہو جائے گا ۔کبھی اس بارہ ہزارمیں وہ مہتمم بھی لگژری لائف سٹائل گزار کر دیکھا دے جو کہ ناممکن ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تصوير كا دوسرا رخ یہ بیچارے مہتمم

اکثر دینی مدارس کے مہتمم علماء ہوتے ہیں اور اپنے معاصر مدرسین سے زیادہ تعلیمیافتہ اور باصلاحیت نہیں تویقینا ان کے برابر کے ضرور ہوتے ہیں، ہمارے نمایاں مدارس کی تو تقریبا یہی روایت ہے، بلکہ بعض مدارس کے مہتمم ہی وہاں کے شیخ الحدیث بھی ہوتے ہیں، آج کل سوشل میڈیا پر بعض جذباتی نوجوان اور ناعاقبت اندیش مدارس کی خیر خواہی کے نام پر سارا نزلہ مہتمم پر گرا رہے ہیں، آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دیں، تاکہ کسی ایک فریق کے ساتھ نا انصافی نہ ہو.
یہ الہ آباد کے ایک ادارہ کے مہتمم ہیں، سکول جاب، بہترین صلاحیتوں کے مالک مدرسہ کے بہتر انتظام وانصرام کی خاطر اپنی سرکاری ملازمت چھوڑی، مدرسہ کی مالی معاونت کے سلسلہ میں دوران سفر شہید ہوئے، ایک عرصہ ہوا مجھے معلوم پڑا ان کی بیوہ بیمار ہیں، عیادت کے لیے ان کے گھر گیا، گھر کی صورت حال اندر کے فقر وفاقہ کا پتا دے رہی تھی، الوداع ہوتے ہوئے بہت شرماتے شرماتے کچھ خدمت پیش کی اور عرض کی آپ بڑی بہن ہیں، چھوٹے بھائی کی یہ خدمت قبول فرما لینا، وہ گویا پھوٹ کر روپڑیں کہا، بیٹا میں بہت کسمپرسی کی حالت میں ہوں، کسی کو بتا بھی نہیں سکتی، آپ میرے بیٹے ہیں آپ نے بروقت مدد کی،،،،،،، چلیں عالم اور مدرس تو پھر مدرس ہوتا ہے، مہتمم بیچارے کو تو ہم علماء کی صف ہی سے نکال باہر کرتے ہیں نا، در در کی ٹھوکر یں کھا کر راتوں کوجاگ کر، اپنی اولاد تک کی بعض ضروریاتِ زندگی کو نظرانداز کرکے یہ مدرسہ کا منتظم، یہ ظالم نہ رعایت کا مستحق ہے، نہ شکریے کا اور نہ ہی کسی کلمہ خیر،
یہ مجموعہ علماء ہی کا ایک اجلاس تھا جس میں ایک نامور شیخ الحدیث نے سینکڑوں علماء کی موجودگی میں باتوں باتوں میں کسی کے دوش پر سوار ہو کرکہا تھا،جس قبرستان میں مہتمم سپرد خاک ہو میں اس کے قریب سے گزرنا گناہ سمجھتا ہوں، اور افسوس کہ بھری محفل میں کسی نے مہتمم کی عزت کو قابل دفاع نہ سمجھا
یہ کوٹ رادھا کشن کے ایک مہتمم ہیں کالج میں پروفیسر تھے، مدرسہ کی خاطر جاب کو خیر باد کہا، اور ایک رمضان میں میرے پاس اپنی ذات کے لیے سوال کرنے آئے میں انہیں بھی کبھی فراموش نہیں کرسکتا،،،
یہ ضلع اوکاڑہ ایک اور مہتمم ہیں جن کی وفات کے بعد اولاد کے پاس مکان تک نہیں، در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں. یہ تو وہ کہانیاں ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں،،،،،
1️⃣بعض احباب مہتمم اور مدرسین کے معاشی تفاوت کا بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ان سے عرض ہے کہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے اکثر مدارس کے مہتمم اور مدرس یکساں طور پر مالی مشکلات سے دوچار ہیں،
بسا أوقات مہتمم اور مدرس کی ذاتی ونجی زندگی میں تفاوت اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ مہتمم زکوۃ وخيرات میں کرپشن کررہا ہے اور مدرس بیچارہ قابل رحم ہے، نہیں بلکہ وہ تفاوت کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے ایسے ہی جیسے ایک ہی ادارے کے اساتذہ کے بھی معاشی حالات مختلف ہوسکتے ہیں،،،،ایک مدرس صرف تدریسی فرائض سرانجام دے رہا ہے اور صرف ادارے سے تنخواہ حاصل کررہا ہے، جبکہ دوسرا مدرس ساتھ کسی مسجد میں امام وخطيب بھی ہے تو دونوں کے معاشی حالات برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟
اسی طرح بعض اداروں کے مہتمم خاندانی طور پر کاروباری ہیں، ان کا ذریعہ آمدن ذاتی ہوتا ہے،
2️⃣بعض لوگوں کو مہتمم کی گاڑی پر بہت غصہ آتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مدرس نے سال بھر میں چند سفر کرنے ہیں، جبکہ مہتمم نے ہمہ وقت در در کی ٹھوکریں کھانی ہیں، میں ایسے مہتمم کو جانتا ہوں جو موٹر سائیکل پر کثرت سفر کی وجہ سے کمر کے مہروں کے مریض ہیں
متعدد مثالیں ایسی ہیں کہ مہتمم کی اس درد سر اور کثرتِ سفر کو دیکھتے ہوئے کچھ مخیر حضرات اپنی ذاتی گرہ سے مہتمم کے لیے گاڑی کا انتظام کردیتے ہیں،
جنہوں نے عمر بھر کوئی ادارہ قائم کیا نہ مشکلات سے آگاہ وہ فیس بک کی وال پہ مہتمم حضرات کو رگید کر اور اساتذہ کی قابل رحم حالت کو بیان کرتے ہوئے یہ ضرور سوچیں کہ اس تحریک کے اثرات کیا ہوں گے.؟
3️⃣بعض لوگ مدرسین کرام کی تنخواہوں کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کمپیئر کرتے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دینی مدارس سرکاری ادارے نہیں ہیں، ان کو اپنے اپنے علاقے کے پرائیویٹ سکولز سے کمپیئر کریں، تب آنکھیں کھلیں گی اور پتا چلے گا دینی مدارس میں کیا خیر وبرکت ہے.
4️⃣بعض لوگ دہائی دیتے ہیں 15000 میں ایک متوسط گھرانے کا بجٹ بنا کر دکھا دیں، سوال یہ ہے کہ آپ ہمیں مسجدوں کی اپیلوں، سفیروں، مسجدوں کے گلوں سے حاصل ہونے والی رقم سے مدرسے کا بجٹ بنا کر دکھا دیں. آپ بیس ہزار کوروتے ہیں اور مہتمم اس بات کوکہ بیس ہزار اللہ کرے شعبان تک دے سکیں اور اس میں ہمارے اساتذہ کرام کے سامنے ہمیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے
5️⃣ اساتذہ کی فلاح وبہبود اور پر کشش تنخواہیں کس مہتمم کی ترجیح اول نہ ہوتی ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاونین تعاون دیتے ہوئے پابند کرتے ہیں کہ یہ رقم طلبہ کی دعوت کےلیے ہے، بعض کہتے ہیں یہ مسجد کی فلاں ضرورت کے لیے ہے، ظاہر ہے ہمیں اس کے مطابق ہی کرنا ہوتا ہے. بعض احباب نے پانچ چھ لاکھ طلبہ کی پرتکلف دعوتوں پر خرچ کیا، جبکہ ادارے کے پاس آخری مہینوں میں تنخواہ دینے کو فنڈز نہیں تھے، قرض حسن لے کر ادا ہو رہی ہوتی ہیں، اس متبرع کی یہی ڈیمانڈ ہوتی یا نذر...
بعض دفعہ عالی شان عمارت دیکھ کر لوگ غلط فہمیاں پال لیتے ہیں کہ ان کے پاس بڑے فنڈز ہیں، حالانکہ وہ عالیشان عمارات بعض محسنین افراد یا اداروں نے بنوائی ہوتی ہیں اور وہ محسنین یا ادارے اپنے لیے صدقہ جاریہ کے متمنی ہوتے ہیں، اسی مقصود کے لیے وہ سرمایہ لگا رہے ہوتے ہیں، یہ زر کثیر صرف ایک ہی دفعہ وہ خرچ کرپاتے ہیں، جبکہ تنخواہوں کے لیے ماہانہ بنیادوں پر تعاون چاہیے ہوتا ہے، جس کے لیے ان کے اپنے حالات سازگار نہیں ہوتے یا پھر وہ آمادہ نہیں ہوتے،،، اس صورت حال میں مہتمم کا کیا قصور ہے یہی نا کہ جس مد کے لیے رقم آئی اس نے کامل ایمانداری سے اسی مد میں صرف کردی؟!
6️⃣اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے کہ مہینے کے آخر میں مہتمم کاکیا حال ہوتا ہے، اور کس طرح تنخواہوں کا انتظام ہوتا ہے,؟ بالخصوص سال کے آخر میں مہتمم کے ساتھ کیا بیتتی ہےیہ درد کسی کو نہیں ہمارے بعض معاونین جو پندرہ سال پہلے سالانہ پانچ ہزار دیتے تھے اب بھی وہیں کھڑے ہیں،،،لیکن..... مہتمم نے تو بہر حال تنخواہوں میں سالانہ اضافہ کرنا ہے
اگر یہ فیس بکی دانشور اور ناقدین واقعی دینی مدارس کے ساتھ مخلص ہیں تو کسی ایک فریق مدرس یا مہتمم کو باہم دشمن باور کرانے کی بجائے اس سماج کا رونا روئیں جو مدارس کی خدمت میں بخل سے کام لیتا ہے، یا کسی ایک ادارے کے کوائف لے کر وہاں کے مدرسین کی مثالی تنخواہوں، رہائش گا ہوں، اور پنشن کی ذمہ داری لے لیں، اس پورے تعاون کا آڈٹ بھی اپنے ذمے رکھیں، سارے دینی مدارس نہیں، صرف ایک مدرسے کا اس انداز میں تعاون حاصل کرلیں،تو یہ ایک مثالی قدم ہوگا،،،، اور اس سے اندازہ ہوگا، کہ آپ مدارس کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟ محض دو ایک مدرسین کا رونا رونا ، مہتمم کوبدنام کرنا، مدارس کی زبوں حالی کے مرثیے لکھنا اور وہ فیس بک کی وال پر یہ دیکھے بغیر کہ اس کے اثرات کیا ہیں، کوئی خیر کا کام نہیں، بلکہ اگر اس سے دوچار لوگوں کا بھلا ہو بھی جائے، تو بھی ہماری نگاہوں میں اثمہما اکبر من نفعہما کا مصداق ہے.
اعتراف حقیقت
یقینا مدارس بہت ساری مشکلات سے دوچار ہیں، مجھے ان سے انکار نہیں، یہاں ہر پہلو میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے اس کا ادراک ہے اور اعتراف بھی
مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے ان اصلاحات کے لیے مدرس اور مہتمم کو دو فریق بنا کر پیش کرنا کیا ضروری ہے؟ اور وہ بھی پبلک فورم پر، اصل معاملہ نظام وضع کرنے، میکانزم، انفراسٹرکچر اور بنیادی ضابطہ اخلاق طے کرنے کا ہے، بدقسمتی کے ساتھ جو کسی بھی طرح منظم ہے نہ طے شدہ اور خود اس کے پیچھے بھی دینی مدارس کو درپیش معاشی مسائل اہم وجہ ہیں. ہم یہ سب تبصرے کرتے ہوئے مجموعی طور پر پاکستان کی معاشی صورتحال اور یہاں ہر شعبہ تعلیم کو درپیش مسائل نظر انداز کردیتے ہیں، ہم ایک ایسے ماحول میں ہیں، جہاں مزدور کی ماہانہ آمدن کم ازکم بیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور پرائیویٹ سکول میں ایم اے پاس ٹیچر کی تنخواہ دس ہزار، جہاں پی. ایچ ڈی لوگ فارغ پھر رہے، جہاں کے متعددپرائیویٹ سکولز میں ایک بعض ایم اے پاس فیمیل ٹیچرز کی تنخواہ چار ہزار سے متجاوز نہیں، یہاں مجموعی طور پر تعلیم کا شعبہ قابل رحم ہے اور دینی تعلیم کا شعبہ بالخصوص کچھ زیادہ ہی قابل رحم، اس لیے بیچارے مہتمم کو معاف کرتے ہوئے مدرسین کرام اور دینی اداروں کی بہتری کے لئے جو کرسکتے ہیں کریں، جو لکھ سکتے ہیں للکھیں.
(ڈاکٹرعبيد الرحمن محسن صاحب)
#اساتذہ_مدارس​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دینی اداروں کے اساتذہ کرام کی تنخواہیں: تشویش ناک صورت حال

قابل قدر دوست حافظ خضر حیات صاحب نے دینی اداروں کے اساتذہ کی تنخواہوں اور سہولیات میں اضافے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک تحریک کا آغاز کیا ہے اور اپنی وال پر اس حوالے سے بہت سی تحریریں اور ذاتی واقعات جمع کر دیے ہیں کہ جس میں تصویر کے دونوں رخ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر آپ کے پاس بھی اس سلسلے میں کوئی واقعہ ہو تو اسے کمنٹس میں شیئر کر دیں تا کہ بعد میں ان تمام تحریروں کو ایک کتابچے کی صورت میں جمع کر دیا جائے۔
یہ بات درست ہے کہ ایک دینی مدرسہ میں، چاہے بریلویوں کا ہو یا دیوبندیوں کا یا اہل حدیثوں کا بلکہ اس میں آپ معاصر اسلامی تحریکوں کو بھی شامل کر لیں جیسا کہ جماعت اسلامی، جماعۃ الدعوۃ، تبلیغی جماعت اور تنظیم اسلامی وغیرہ، ان سب دینی اداروں اور جماعتوں میں اساتذہ کی تنخواہیں اور سہولیات، ان کے علم، قابلیت، محنت اور اوقات کار کے اعتبار سے گویا کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کسی دینی مدرسے کا شیخ الحدیث جتنی تنخواہ لیتا ہے، ایک یونیورسٹی میں گارڈ کی تنخواہ اس سے زیادہ ہے۔ اور یہ میں اندازے اور قیاس کی نہیں بلکہ یقینی بات کر رہا ہوں۔
دینی اداروں کے منتظمین اور مہتمین کو جب اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ فنڈز کی کمی کا رونا روتے ہیں لیکن وہی دینی ادارے اپنی ایکٹینشن کے لیے ایسی عمارتیں کھڑی کرنے میں کروڑوں لگا دیں گے کہ جن کا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ اپنے ادارے کی ایڈورٹرزمنٹ اور پروپیگیشن میں اس قدر سرمایہ ہینڈ بلز، پمفلٹس، لیف لیٹس، بینرز اور فلیکسز وغیرہ کی پبلشنگ پر لگا دیں گے کہ جس سے سینکڑوں اساتذہ کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکتی تھیں اور یہ سب دینی لٹریچر سڑکوں پر رُل رہا ہوتا ہے اور بعد میں مقدس اوراق کے کسی ڈبے کی زینت بن جاتا ہے۔
پھر دینی اداروں کے منتظمین اور مہتمین کی اکثریت ایسی ہے کہ جن کا نہ تو اپنا کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی کوئی ملازمت لیکن ان کی رہائش، کھانا پینا، گاڑیاں اور لائف اسٹائل دیکھیں تو وہ بہت ہی شاہانہ ہے۔ جن فنڈز کی کمی کا وہ رونا روتے ہیں، وہ کبھی ان کی اپنی بنیادی ضرورتیں بلکہ آسائشیں پوری ہونے کے وقت بھی کم نہیں پڑے، یہ عجیب صورت حال ہے۔ پھر بعض منتظمین تنخواہ تو کم لیتے ہیں لیکن ادارے سے رہائش، یوٹیلیٹی بلز، گاڑی اور فیول وغیرہ کی مد میں ماہانہ لاکھوں کی سہولیات وصول کر لیتے ہیں اور یہی سہولیات اسی ادارے کے ملازمین یا اساتذہ کو دیتے وقت فنڈز کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔
بھئی، مولانا رعایت اللہ فاروقی صاحب اس ساری صورت حال پر ایک جملے میں خوب تبصرہ کرتے ہیں کہ اس سب کچھ کے باوجود کل قیامت کے دن اگر کسی دینی مدرسہ کا مہتم یا دینی ادارے کا منتظم حساب کتاب سے بچ گیا تو ہم سب مسلمان بچ جائیں گے۔ یہ اللہ عزوجل کو ان خیراتی اور زکاتی فنڈز کے استعمال کا حساب کتاب کیسے دے پائیں گے جو واش رومز کی ٹائیلوں اور ہینڈ بلز کے پیپر پر تو لگ رہا ہے لیکن کسی استاذ اور ملازم کی بنیادی ضرررت کو پورا کرنے میں نہیں؟ دینی داروں کا پورا مالیاتی نظام مذہبی ایکسپلائیٹیشن کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ بس اساتذہ سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ دین کے نام پر قربانی دو، دین اختیار کیا ہے تو اب قربانی دینی پڑے گی تو بھئی تم نے بھی تو دین اختیار کیا ہے نا، تمہاری قربانی کدھر ہے؟ ساری قربانی اور ایثار ان مساکین کے حصے میں ہی آنا ہے۔
مسئلے کا حل ایک ہی ہے کہ دینی اداروں کے ملازمین اور اساتذہ کے لیے مسابقتی تنخواہوں (competitive salaries) اور سہولیات کا اجراء کیا جائے ورنہ تو یہ برین ڈرین (brain drain) ہوتا رہے گا یعنی اچھے اور باصلاحیت افراد کی اکثریت کالجز اور یونیورسٹیز جوائن کر لیں گے اور مدارس اور دینی اداروں کے حصے میں پھوک باقی رہ جائے گا۔ اور پھر یہ رونا روئیں گے کہ دیکھو وہ دنیا دار ہو گئے ہیں کہ دین چھوڑ کر دنیا کے پیچھے لگ گئے ہیں حالانکہ بعض اوقات وہ دنیا دار ان دینداروں سے زیادہ دینی کام کر رہے ہوتے ہیں، بس ان کی دینی کام کی ڈیفی نیشن ذرا الگ ہے کہ ان کے نزدیک دینی کام وہی ہے جو ان کے ادارے کا کام ہو۔
یا پھر دوسرا اور سیدھا سادہ حل یہ ہے کہ ایک عام استاذ اور ملازم کی سطح پر آ کر زندگی گزارو کہ صرف وہی سہولت حاصل کرو کہ جو ادارے کے تمام اساتذہ اور ملازمین کو حاصل ہو اور انہی کے پَے اسکیل کے مطابق تنخواہ حاصل کرو اور انہی کے لائف اسٹائل کے مطابق تمہارا لائف اسٹائل ہو تو پھر کسی کو تم پر اعتراض نہیں ہو گا۔ اور پھر اگر تم فنڈز کی کمی کا رونا روؤ گے تو لوگ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں گے۔ اور سب اہم بات کہ اللہ کے ہاں کل حساب دینے میں آسانی رہے گی۔ باقی اگر تم ادارے کے لیے محنت زیادہ کرتے ہو تو تم نے یہ محنت اللہ کے لیے کی ہے یا دنیا کے لیے۔ اگر اللہ کے لیے کی ہے تو آخرت میں اجر کے طلبگار رہو، دنیا میں تو اس کا حصہ یوں حیلے بہانے سے وصول نہ کرو۔
تو مسئلہ فنڈز کی کمی سے زیادہ فنڈز کے استعمال میں ترجیحات کا ہے کہ منتظمین اور مہتمین فنڈز اسی مد میں خرچ کرنا پسند کرتے ہیں کہ جس سے ان کے زیر کنٹرول مدرسہ، ادارہ اور جماعت مضبوط ہو نہ کہ ملازمین، اساتذہ اور جماعتی کارکنان کیونکہ ادارہ اور جماعت ان کی سلطنت جو ہے اور ہر بادشاہ اپنی سلطنت کی حدود کی توسیع میں حریص ہوتا ہے۔ اللہ انہیں ہدایت دے لیکن ان کی اکثریت کے پاس ایسی تاویلیں ہیں کہ جنہیں سن کر قرآن مجید کی یہ آیت یاد آ جاتی ہے: أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا۔ ترجمہ: کیا آپ نے اس شخص ہر غور نہیں کیا کہ جس کے لیے اس کا برا عمل خوبصورت بنا دیا گیا ہے اور اب وہ اپنے اس برے عمل کو خوبصورت دیکھ رہا ہے۔
(ڈاکٹر زبیر صاحب ، @ابوالحسن علوی )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مدارس کے آغاز' فنڈنگ' انتظامی ڈھانچے اور باہمی ربط سمیت سارے معاملات پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک بنیاد کو ٹھیک نہیں کریں گے اور ابتدائی مدارس و تخصص کے اداروں تک کا نظام اور معیارات نہیں بنیں گے اس وقت تک ہم ان مسائل کو شکار رہیں گے۔ آج آپ تنخواہیں ٹھیک کر لیں تو کل کوئی اور مسئلہ نکل آئے گا۔ مدارس کی فنڈنگ کے نظام پر جامع تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس کے کون کون سے ماڈلز ہمارے ہاں رائج ہیں اور یہ سنجیدہ نوعیت کا کام ہے۔ بڑے مدارس جیسے دارالعلوم کراچی وغیرہ'درمیانے درجے کے مدارس اور چھوڑے ادارے سب کے لئے یکساں پالیسی نہیں بن سکتی۔
( ڈاکٹر عزیز الرحمن صاحب)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فنڈنگ کو ضوابط میں لانا ایک اہم امر ہے لیکن اساتذہ کی تعیناتی کے اصول و ضوابط طے کرنا اس سے بھی اہم ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
#اساتذہ_مدارس تحریک شروع کرنے کا فائدہ ہوا، اس قسم کی بعض کوششیں سامنے آئیں۔ ملاحظہ کیجیے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علمائے کرام کی خدمت ، بہت بڑی سعادت
محترمی و مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مساجد و مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں بالکل معمولی ہوتی ہیں ۔اکثر علمائے کرام پریشانی میں زندگی گزارتے ہیں ۔علمائے کرام بھی انسان ہیں ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہم پر فرض ہے ۔انھوں نے چوبیس گھنٹے دین کے لیے وقف کررکھے ہیں ۔ ان کی ضروریات بھی ہماری طرح ہیں ۔ ارباب مدارس و مساجد کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اچھے وظائف مقرر کریں اور وہ علمائے کرام کے حقوق احسن انداز میں ادا کریں ۔ہم تک تقریبا سو مستحق علمائے کرام کی درخواستیں آچکی ہیں ۔بعض کے ذاتی گھر نہیں ،بعض کی آمدن اخراجات سے بہت کم ہے ،بعض دائمی بیمار ہیں ان کے پاس علاج کے لیے پیسہ نہیں ، وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بعض کی اولاد اعلی تعلیم کے حصول سے محروم ہیں ۔اور سب سے اہم کتنے ہی علمائے کرام ساری زندگی مساجد و مدارس میں دینی کام کرتے رہتے ہیں جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو انھیں مسجد و مدرسہ سے چھٹی دے دی جاتی ہے اور ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا جاتا ۔ ہمارا عزم ہے کہ ان علمائے کرام کی مستقل پینشن مقرر کی جائے تاکہ وہ بقیہ زندگی سکون سے گزار سکیں ۔
ہم نے حسب توفیق ان مستحق علمائے کرام کے ساتھ تعاون کرنا ہے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں آپ کا پیسہ پوری امانت داری کے ساتھ مستحقین تک پہنچایا جائے گا ۔اور جس کو بھی آپ کا پیسہ دیا جائے گا اس کے مکمل کوائف آپ تک پہنچائے جائیں گے تاکہ آپ خود بھی تحقیق کرسکیں ۔ان شاء اللہ۔
ہمارے مقاصد :
۱: اللہ تعالی کی رضا کے لیے مستحق علمائے کرام کے ساتھ تعاون کرنا ۔
۲: معاشرے کے بہترین لوگ علمائے کرام خود کفیل ہوں۔
۳: مہنگائی کے دور میں ان کی ضروریات پوری کرنا تاکہ وہ دلجمعی کے ساتھ دین حنیف کا کام کرتے رہیں ۔
یاد رہے کہ یہ ایسا مظلوم شعبہ ہے کہ جس پر کوئی بھی توجہ نہیں کررہا ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تک آدمی اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ تعالی اس کی مدد کرتا رہتا ہے ۔ایک حدیث میں ارشاد فرمایا : تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہے یا مظلوم ۔آئیں اس مشن میں ہمارے دست و بازو بنیں اور علمائے کرام جو انبیائے کرام علیم السلام کے وارث ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔
آپ کابھائی
محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی
رئیس ابن حنبل انٹرنیشنل ٹرسٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واٹس اپ :00923024056187
ایمیل : ialhusainwy@gmail.com۔
ویب سائٹ :www.ihitrust.com
ایڈریس : جامعہ اما م احمد بن حنبل بائی پاس ،قصور
بینک اکاونٹ :..ibraheem​
. MCB Ban k Limited
0214 kasur Branch Near bhllay shah dar bar 0878917761006509
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مدارس کے معمر اساتذہ کےساتھ بالعموم ذمہ داران کا رویہ بہت افسوسناک ہی رہتا ہے ۔ یہ وہ اساتذہ ہوتے ہيں جو اپنی عمر مدرسے کی خدمت میں گزارے ہوئے ہوتے ہيں لیکن کبھی انہیں تھینک یو نہیں کہا جاتا، انہیں ایسے رخصت کیا جاتا ہے جیسے سر سے کوئی بھاری بوجھ اتارا جارہا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ جو اساتذہ تھوڑے " سمجھدار " ہوتے ہیں وہ اسی بات میں بھلائی دیکھتے ہیں کہ چھوٹا ہی سہی کوئی اپنا ادارہ کھول لیا جائے ۔ اس چکر میں ہر چند کہ ان کی اپنی علمی صلاحیت کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے لیکن وہ ذمہ داران مدارس کے استبدادی رویے سے تو آزاد ہوہی جاتے ہیں !!
بزرگوں کا احترام اور ان کے ساتھ بہترسلوک ایسے بھی اخلاق کا تقاضہ ہے لیکن اگر وہ بزرگ معمار قوم بھی ہوں ، شیخ الحدیث و التفسیر اور استاذ الادب و النحو بھی ہوں تو سوچنے کی بات ہے کہ ان کا احترام کس قدر ضروری ہونا چاہیے ۔ ہمارے یہاں عجیب و غریب انداز میں انتقام کی نفسیات کام کرتی ہے ، ہم اپنی قوت کا استعمال کمزور اساتذہ پرکرتے ہيں اور یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اس رویے سے کمیونٹی بلڈنگ ( تعمیر ملت ) کو کتنی ٹھیس لگتی ہے، جن بزرگوں نے اپنی پوری عمر ، صلاحیت اور انرجی آپ کے ادارے کی خدمت میں لگادی اگر آپ انہيں احترام نہیں دے سکتے ، انہیں تھینک یو نہیں کہ سکتے ، ان کو فيئر ویل نہیں دے سکتے تو آپ کو لکھ لینا چاہیے کہ بطور ملت آپ اپنی آئندہ نسل کو جہالت ، بدتہذیبی اور بے مروتی کا ورثہ سونپ رہے ہيں ۔
(ثناءاللہ صادق تیمی)​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مدارس اساتذہ کی قلیل اجرتیں

مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کے کام کی نوعیت کا اندازہ لگایا جائے تو سکول و کالج کے اساتذہ سے زیادہ وقت دیتے ہیںکیونکہ مدارس کے اساتذہ کی اکثریت مدارس میں ہی قیام پذیر ہوتی ہے جو 24گھنٹے کے ملازم سمجھے جاتے ہیں۔چند ایک مدارس کے علاوہ اکثر مدارس کے اساتذہ کو بہت کم تنخواہ دی جاتی ہے ، بلکہ مدارس میں تنخواہ کی بجائے وظیفہ کی اصطلاح رائج ہے جس کا مطلب اکثر یہ لیا جاتا ہے کہ اصل اجر تو تمہیں اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے البتہ نظام زندگی چلانے کے لیے کچھ اعزازیہ مقرر کردیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ مدارس کے اساتذہ کرام کو مہتمم حضرات کی طرف سے اس قدر کم وظیفہ دیا جاتا ہے کہ جس سے وہ زندہ رہ سکیں۔
ہر سال وفاق المدارس اور دیگر وفاق سے ہزاروں طلباء فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں سے صرف چند ایک ہی اپنی قابلیت کی بنا پر مدارس میں تدریس کے لیے منتخب ہوتے ہیں،جن کی معاشی ضروریات کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ نئے مدرس کی تعیناتی کے وقت مدارس کے مہتممین کا رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ ”ہمیں مدرس کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ آ ہی گئے ہیں تو آپ کو رکھ لیتے ہیں لیکن یاد رہے کہ مدرسہ کے مالی حالات فی الحال ٹھیک نہیں ہیں،جب حالات قدرے بہتر ہوں گے تو آپ کا مناسب وظیفہ مقرر کر دیا جائے گا”
دوسری طرف مہتمم حضرات اور ان کے بچوں کی شاہانہ زندگی سے کسی طور پر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ مدرسہ کے مالی حالات خراب ہیں، اکثر مدارس میں سالہا سال سے تعمیر و توسیع کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جس پر بلاشبہ کروڑوں روپے خرچ اٹھتا ہے’ اگر مدرسہ کے مالی حالات واقعی خراب ہیں تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ تعمیر و ترقی کا کام بھی روک دیا جاتا لیکن ایسا نہیںہوتا کیونکہ مدرسہ کی تعمیر و ترقی اور مدرسہ کی تمام پراپرٹی کو مہتمم حضرات اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قابل، باصلاحیت اور قدیم مدرسین کے ہوتے ہوئے بھی مہتمم حضرات اپنے بچوں کو جانشین بناتے ہیں’ یہ مورثی سلسلہ طویل عرصے سے چلتا آ رہا ہے’ مدرسین کے لیے اس موضوع پر بات کرنا شجر ممنوعہ کے مترادف ہے، اگر کسی مدرس نے ہمت کر کے اس موضوع پر بات کر لی تو اسے بدترین گستاخ تصور کرتے ہوئے اور مدرسہ کے انتظام و انصرام میں بے جا مداخلت کا مرتکب سمجھتے ہوئے مدرسہ سے نکال دیا جاتا ہے۔ کیونکہ مدرسہ کے معاملات کو سرانجام دینا اور فیصلہ سازی کا اختیار صرف مہتمم صاحب کا ہی حق ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق مختلف مدارس کے مدرسین سے سوال پوچھا گیا کہ آپ اپنے بچوں کا مستقبل دینی مدارس میں دیکھتے ہیں یا عصری تعلیم گاہوں میں؟ 99فیصد مدرسین کا جواب تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے عصری تعلیم گاہیں پسند کرتے ہیں تاکہ جو مشکلات انہوں نے برداشت کی ہیں ان کے بچے ان تکالیف سے محفوظ رہیں۔
کہنے کی حد تک ہر مسلک کے مدارس کا اپنا اپنا وفاق ہے ۔ ان پانچ وفاقوں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم تنظیمات المدارس بھی ہے’ جس میں مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیم سے لے کر دیگر ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔ لیکن مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہوں بارے وفاق المدارس کا کوئی ضابطہ یا قانون نہیں ہے کہ جس کے تحت مدارس کے اساتذہ کی کم ازکم تنخواہ کا اعلان کر دیا جائے کہ اس سے کم اجرت پر اگر کسی مدرسے نے استاد کی خدمات لیں تو ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اگر آج تک مدارس کے وفاق اساتذہ کی تنخواہوں سے متعلق کوئی متفقہ ضابطہ یا قانون مرتب نہیں کر سکے تو اس کی بنیادی وجہ بھی مہتممین حضرات کا موروثی رویہ ہے کیونکہ وفاق المدارس میں بھی اکثریت مہتممین حضرات کی ہے وہ کیونکر چاہیں گے کہ وہ اپنے لیے از خود مشکل کا انتخاب کریں۔
مدرسین کو اپنے جال میں پھانسنے کا مہتممین کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ روئے زمین پر جتنے لوگ سانس لے رہے ہیں ان سب میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے تمہیں منتخب کیا ہے۔ اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ اجرت کا سوال کرکے اپنے اعمال کو ضائع مت کرو۔ کم عمر نوجوان مدرسین چونکہ مہتممین کے اس داؤ سے بالکل واقف نہیںہوتے اس لیے ان کی بات پر سر تسلیم خم کر دیتے ہیں’ مہتممین ایک طرف نئے مدرسین کو یہ درس دیتے ہیں کہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں ، حفاظت دین کے مراکزہیں تو دوسری طرف ان کی شاہانہ زندگی میں ان کے قول و فعل کا تضاد نظر آتاہے،کیونکہ حفاظت دین کا درس صرف مدرسین کے لیے ہوتا ہے جبکہ مہتمم اور ان کے بچوں کے لئے حفاظت دین کے لئے بھاری تنخواہ بھی ضروری ہے ۔
مدارس کے مدرسین کی تنخواہیں کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ مہتممین کے شاگرد ہونا بھی ہے، استاد شاگرد میں چونکہ احترام کا مقدس رشتہ قائم ہوتا ہے اس لیے مدرس احتراماً کچھ نہیں بولتا، یوں مہتممین کے ہاتھوں مدرسین کے استحصال کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔ ستم بالائے ستم تو یہ کہ اگر کوئی اس موضوع پر بات کرنے کی جرات کرے یا اس موضوع پر کچھ لکھنے کی جسارت کرے تو اسے اسلام کے خلاف تصور کیا جاتاہے اور مہتممین ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہو کر اسلام کو در پیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے میدان میں کود پڑتے ہیں منطق اور فلسفہ انہوں نے پڑھ رکھا ہوتا ہے اس لئے ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں کہ اعتراض کرنے والے کو منہ کی کھانی پڑتی ہے یوں ان کی اجارہ داری برقرار رہتی ہے ۔
حافظ احتشام محمود
 
Last edited:

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
الحمدللہ
مساجد و مدارس میں کام کرنے والے مستحق علمائے کرام کی خدمت کے حوالے سے ایک سال سے کچھ نہ کچھ پیش رفت ہو رہی ہے ۔ مزید بہتری کی طرف کوشش جاری ہے ۔ ہماری ٹیم نے ایک مستقل پیج بھی لانچ کردیا تھا جو
https://web.facebook.com/خدمۃ-لاصحاب-الحدیث-409064216526942/?modal=admin_todo_tour
دیکھا جا سکتا ہے ۔
آپ بھی اس تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں ۔۔۔۔باتیں کرنا بھی ایک اہم کام ہے لیکن عملا کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔۔۔جو ساری زندگی باتیں ہی کرتے رہتے ہیں اور عملی کوئی کام نہیں کرتے انھیں عمل کی طرف قدم اٹھانا چاہیے ۔۔
الحمدللہ ثم الحمدللہ اس بابرکت کام کو عملا ایک سال پہلے شروع کردیا گیا تھا جس کے تحت کئی کام ہو چکے ہیں اور کئی منصوبے جاری ہیں ۔۔۔۔اچھے ساتھیوں کی ضرورت ہے ۔۔۔مخیر حضرات تک یہ بات پہنچانے کی کمی ہے ورنہ وہ اپنا پیسہ لگانے کے لیے تیار ہیں ۔۔۔آئیں اس مبارک شعبہ کو فعال کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔
 

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
90
اہل پاک و ہند کے منتظمین کا مساجد و مدارس کے علماء کے ساتھ سلوک
یہ بات میں نے اپنے یہاں بھی دیکھی ہے کہ منتظمین کا سلوک مسجد کے امام وخطیب اور مدرسہ کے استاذہ کے ساتھ تقریبا ایسا ہے جیسے پاک و ہند میں برتا جاتا ہے

یہاں کے مزدور کی جتنی تنخواہ ہے اسی کے مساوی ایک مفتی کو تنخواہ دی جارہی ہے لیکن دوسرے مصاریف میں خرچ کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ،مثال کے طور پر مسجد کے ایک منارہ کیلئے 1 کروڑ روپے سے زائد کی رقم خرچ کردی گئی جس کے متعلق سن کر مجھے بہت افسوس اور حیرانگی بھی ہوئی اور میں نے بعض کمیونٹی کے لوگوں سے اس بارے بابت بھی کی کہ اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ یہاں بہت سی مساجد ایسی بھی ہیں جن کے منارے نہیں ہیں

اور مفتی صاحب جوکہ ایک نوجوان شخصیت ہے اور جن کے ذمہ بعض نمازوں کی امامت بشمول خطبہ جمعہ اور مدرسہ میں بچوں کو پڑھانا اور عالم کلاس کو " علم صرف " پڑھانا وغیرہ شامل ہے اور انہی کے والد صاحب مجھ سے شکوہ کررہے تھے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود تنخواہ کیا دی جارہی ہے ؟ جو یہاں ایک مزدور کو ایک گھنٹہ کی اجرت ملتی ہے وہی انکو ملتی ہے

یہی حال دوسرے علماء کا ہے اور پھر کئی علماء کو دیکھا جوکہ فقط امامت کی ڈیوٹی لے لیتے ہیں اور اس کے علاوہ کسب حلال کیلئے اپنے آپ کو دوسرےکاموں میں مشغول کرلیتے ہیں اور بعض علماء کو دیکھا جو امامت یا تدریس کی بجائے کسی دوسرے شعبہ کو اپنا کر درس و تدریس کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں

اور اب ان منتظمین کی اکثریت پاک و ہند کے نفوس پر مشتمل ہے اور وہی ذہنیت یہاں بھی پائی جاتی ہے ، اب گاڑیوں کی کار پارکنگ کیلئے مسجد کی پارکنگ ناکافی ہے جس کیلئے ساتھ والے چرچ کی پارکنگ کرایہ پر لی گئی ہے اور اس کیلئے تقریبا 1 لاکھ روپے سے زائد رقم ماہانہ چرچ کی انتظامیہ کو ادا کی جاتی ہے لیکن مدرس کی تنخواہ میں اضافہ بالکل بھی قابل غور نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی یہاں پاک و ہند کی طرح قران کی تعلیم مفت دی جاتی ہے بلکہ ہر بچہ سے ماہوار تقریبا 4500 روپے لیے جاتے ہیں

پھر یہاں جو مدرس ہیں وہ 5 دن مدرسہ میں پڑھاتے ہیں اور دو دن کی مزید ٹیوشن کی تلاش میں ہوتے ہیں جس سے کچھ اضافی آمدن ہوسکے

اب بہت سے ایسے علماءکو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جوکہ کسی کمپنی میں یا کنسٹریکشن اور سنٹری کے کاموں یا مکینک اور ڈرائیونگ یا پھر ہوٹل وغیرہ کے کاموں میں لگ چکے ہیں کیونکہ درس و تدریس میں اتنی معقول تنخواہ ملتی ہی نہیں

اب اسی طرح ایک صاحب ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچے ،وہ ایک مسجد کیلئے عمرہ سے واپسی پر دو ڈیجیٹل اوقات صلاۃ کی گھڑیاں لائے اور کچھ عرصہ کے بعد کچھ سیٹنگ میں گڑبڑ ہوگئی تو انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ مسجد کیلئے صلاۃ پینل چاہیے اورچاہیے بھی 4 عدد ،میں نے پوچھا بھائی چار کی ضرورت کیوں ہے تو جواب ملا کہ حال،برآمدہ ،تہہ خانہ اورعورتوں کی نماز کی جگہ کیلئے چاہیے ،مجھ یہ سن کر بہت تعجب ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ اتنے صلاۃ پینل کا آپکو کس نے کہا ہے ؟ جواب ملا کہ انتظامیہ نے مجھ سے اسکی فرمائش کی ہے اور میں فی سبیل اللہ لگانا چاہتا ہوں ،اب یہ فرمائش تقریبا 1 لاکھ روپے کے خرچ کی تھی

میں نےکہا بھائی آپ جو گھڑیاں سعودیہ سے لائے ہیں وہ میرے پاس لے آئیں میں ان شاءاللہ ٹھیک کردونگا اور اگر صلاۃ پینل کی ضرورت بھی ہے تو بھی ایک عدد پوری مسجد کیلئے کافی ہے باقی جگہوں پر عام کلاک ہی کافی ہوگا اور انتظامیہ سے میری بات کروادیں میں انہیں یہ بات بھی بتاسکوں کے فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے

ان صاحب نے کچھ عرصہ بعد رابطہ کے بعد بتایا کہ انتظامیہ نے آپ کی بجائے کسی اور سے صلاۃ پینل منگوانے کی فرمائش کی ہے اور آپ سے رابطہ کرنے کو منع کیا ہے جب میں نے انہیں بتایا کہ آپ کہہ رہے ہو فضول خرچی گناہ ہے ،اب انتظامیہ کے ہاتھ اللہ کے نام پر دینے کیلئے مرغا لگا ہوا تھا اور وہ اسے ذبح کرنے پر تلے ہوئے تھے
 
Top