- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
اللہ تعالی ہدایت دے۔اہل پاک و ہند کے منتظمین کا مساجد و مدارس کے علماء کے ساتھ سلوکیہ بات میں نے اپنے یہاں بھی دیکھی ہے کہ منتظمین کا سلوک مسجد کے امام وخطیب اور مدرسہ کے استاذہ کے ساتھ تقریبا ایسا ہے جیسے پاک و ہند میں برتا جاتا ہے
یہاں کے مزدور کی جتنی تنخواہ ہے اسی کے مساوی ایک مفتی کو تنخواہ دی جارہی ہے لیکن دوسرے مصاریف میں خرچ کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ،مثال کے طور پر مسجد کے ایک منارہ کیلئے 1 کروڑ روپے سے زائد کی رقم خرچ کردی گئی جس کے متعلق سن کر مجھے بہت افسوس اور حیرانگی بھی ہوئی اور میں نے بعض کمیونٹی کے لوگوں سے اس بارے بابت بھی کی کہ اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ یہاں بہت سی مساجد ایسی بھی ہیں جن کے منارے نہیں ہیں
اور مفتی صاحب جوکہ ایک نوجوان شخصیت ہے اور جن کے ذمہ بعض نمازوں کی امامت بشمول خطبہ جمعہ اور مدرسہ میں بچوں کو پڑھانا اور عالم کلاس کو " علم صرف " پڑھانا وغیرہ شامل ہے اور انہی کے والد صاحب مجھ سے شکوہ کررہے تھے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود تنخواہ کیا دی جارہی ہے ؟ جو یہاں ایک مزدور کو ایک گھنٹہ کی اجرت ملتی ہے وہی انکو ملتی ہے
یہی حال دوسرے علماء کا ہے اور پھر کئی علماء کو دیکھا جوکہ فقط امامت کی ڈیوٹی لے لیتے ہیں اور اس کے علاوہ کسب حلال کیلئے اپنے آپ کو دوسرےکاموں میں مشغول کرلیتے ہیں اور بعض علماء کو دیکھا جو امامت یا تدریس کی بجائے کسی دوسرے شعبہ کو اپنا کر درس و تدریس کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں
اور اب ان منتظمین کی اکثریت پاک و ہند کے نفوس پر مشتمل ہے اور وہی ذہنیت یہاں بھی پائی جاتی ہے ، اب گاڑیوں کی کار پارکنگ کیلئے مسجد کی پارکنگ ناکافی ہے جس کیلئے ساتھ والے چرچ کی پارکنگ کرایہ پر لی گئی ہے اور اس کیلئے تقریبا 1 لاکھ روپے سے زائد رقم ماہانہ چرچ کی انتظامیہ کو ادا کی جاتی ہے لیکن مدرس کی تنخواہ میں اضافہ بالکل بھی قابل غور نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی یہاں پاک و ہند کی طرح قران کی تعلیم مفت دی جاتی ہے بلکہ ہر بچہ سے ماہوار تقریبا 4500 روپے لیے جاتے ہیں
پھر یہاں جو مدرس ہیں وہ 5 دن مدرسہ میں پڑھاتے ہیں اور دو دن کی مزید ٹیوشن کی تلاش میں ہوتے ہیں جس سے کچھ اضافی آمدن ہوسکے
اب بہت سے ایسے علماءکو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جوکہ کسی کمپنی میں یا کنسٹریکشن اور سنٹری کے کاموں یا مکینک اور ڈرائیونگ یا پھر ہوٹل وغیرہ کے کاموں میں لگ چکے ہیں کیونکہ درس و تدریس میں اتنی معقول تنخواہ ملتی ہی نہیں
اب اسی طرح ایک صاحب ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچے ،وہ ایک مسجد کیلئے عمرہ سے واپسی پر دو ڈیجیٹل اوقات صلاۃ کی گھڑیاں لائے اور کچھ عرصہ کے بعد کچھ سیٹنگ میں گڑبڑ ہوگئی تو انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ مسجد کیلئے صلاۃ پینل چاہیے اورچاہیے بھی 4 عدد ،میں نے پوچھا بھائی چار کی ضرورت کیوں ہے تو جواب ملا کہ حال،برآمدہ ،تہہ خانہ اورعورتوں کی نماز کی جگہ کیلئے چاہیے ،مجھ یہ سن کر بہت تعجب ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ اتنے صلاۃ پینل کا آپکو کس نے کہا ہے ؟ جواب ملا کہ انتظامیہ نے مجھ سے اسکی فرمائش کی ہے اور میں فی سبیل اللہ لگانا چاہتا ہوں ،اب یہ فرمائش تقریبا 1 لاکھ روپے کے خرچ کی تھی
میں نےکہا بھائی آپ جو گھڑیاں سعودیہ سے لائے ہیں وہ میرے پاس لے آئیں میں ان شاءاللہ ٹھیک کردونگا اور اگر صلاۃ پینل کی ضرورت بھی ہے تو بھی ایک عدد پوری مسجد کیلئے کافی ہے باقی جگہوں پر عام کلاک ہی کافی ہوگا اور انتظامیہ سے میری بات کروادیں میں انہیں یہ بات بھی بتاسکوں کے فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے
ان صاحب نے کچھ عرصہ بعد رابطہ کے بعد بتایا کہ انتظامیہ نے آپ کی بجائے کسی اور سے صلاۃ پینل منگوانے کی فرمائش کی ہے اور آپ سے رابطہ کرنے کو منع کیا ہے جب میں نے انہیں بتایا کہ آپ کہہ رہے ہو فضول خرچی گناہ ہے ،اب انتظامیہ کے ہاتھ اللہ کے نام پر دینے کیلئے مرغا لگا ہوا تھا اور وہ اسے ذبح کرنے پر تلے ہوئے تھے
آپ کہاں کی بات کر رہے ہیں؟