• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی مدارس ۔۔۔ ایک دلخراش رخ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ملازم فوت ہوا، لیکن انتظامیہ زندہ تھی

خوشخطی اللہ کی نعمت ہے، جو عبد اللہ کیلانی (فرضی نام) صاحب کو بھی عطا ہوئی تھی، کمپوزنگ کے دور سے پہلے کتب اور مجلات کی نشر واشاعت بھی ’خطاط اور کاتب‘ کی رہین منت ہوا کرتی تھی، عبد اللہ کیلانی کو ایک بدنام زنامہ ماہنامے نے بطور کاتب و خطاط رکھ لیا، اللہ کی طرف سے جتنی مہلت تھی، پیشہ ورانہ صلاحتیں دیتے رہے، تنخواہ وصول کرتے رہے، قادرِ مطلق کی طرف سے بلاوا آگیا، عبد اللہ کیلانی وفات پاگئے، پسماندگان میں سات بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا، گھر کا سربراہ رخصت ہوجائے، تو کیا بیتتی ہے، اس کا اندازہ مجلے کی انتظامیہ کو تھا، وفات ملازم کی ہوئی تھی، لیکن ادارہ کا ضمیر زندہ تھا، عبد اللہ کی وفات کے بیس بائیس سال بعد تک بھی اس کی تنخواہ جاری رکھی گئی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی کیا جاتا رہا، حتی کہ عبد اللہ کا بیٹا جوان ہو کر ملازم ہوا اور گھر کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوگیا.
ملازم کی قدر دانی اور اس کے پسماندگان کے ساتھ حسن سلوک کی یہ مثال سن کر بندہ حیران و ششدر رہ جاتا ہے، بالخصوص اس لیے بھی کہ یہ مجلہ اور ادارہ نہ کوئی مسجد تھی، نہ مدرسہ تھا اور نہ ہی معروف معنوں میں اس کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق تھا، بلکہ یہ وہ مجلہ اور ادارہ ہے، جو لادینیت کا استعارہ ہے، جس کے خلاف درجن سے زائد کتابیں معرض وجود میں آچکی ہیں، درجنوں علما اس ’لادین‘ کا رد کرچکے ہیں... لاکھوں کروڑں کا سرمایہ اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے صرف کیا جارہا ہے، یہ کوششیں جتنی بھی قابل قدر اور مبارک ہوں لیکن یہ ساری کی ساری محنتیں اس بیٹے کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہیں، جسے باپ کی وفات کے بعد بائیس سال تک کسی نے سہارا بن کر دکھایا ہے۔
مجھے نہ کوئی اس ادارے سے ہمدردی ہے، نہ اس کے منحرف اور لادین منتظم و بانی سے کوئی محبت ہے، بلکہ دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے، ورنہ اس کا بندوبست کرلے، لیکن میں شرمسار ہوتا ہون، اپنے گریبان میں جھانک اور اپنے کنبے و قبیلے کو دیکھ کر.... کہ یہاں کاتبوں؍ خادموں کو چھوڑیں اساتذہ و شیوخ الحدیث کے مرنے کے بعد تو جو ہونا سو ہونا، ان کی زندگی میں وہ خود اور ان کی اولادیں بنیادی ضروریات کے لیے ہاتھ پھیلانے تک پہنچ جاتی ہیں۔
میں ایک مذہبی آدمی ہوں، میں ایک لادین کے اس حسنِ سلوک اور اپنی بدسلوکی کے لیے سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں دے سکتا کہ انہیں امریکہ فنڈ دیتا ہے، جبکہ ہمیں سعودیہ و ترکی سے بھی نہیں ملتا، وہ اپنی لادینیت کو پھیلانے کے لیے مال کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ ہم اہلِ حق کسی کو دنیا اور پیسے کا لالچ نہیں دیتے، ان کی نظر دنیاوی مفادات پر ہے، جبکہ ہم توکل اور اخلاص سے شبعان و سیر ہو کر کام کرتے اور کرواتے ہیں، وہ لوگوں کی عیاشی کے خواہاں، جبکہ ہم انہیں زہد ورع کے عادی بنانا چاہتے ہیں۔
اسی لادین مفکر کے ڈرائیور کے تاثرات سن لیں کہ جو کہ اہل حدیث ہے، کہنے لگے کہ ہمیں ان کے چہروں پر روحانیت و نور نظر نہیں آتا، لیکن ان لوگوں کا حسنِ اخلاق، وعدہ کی پابندی، خیر خواہی جیسی خوبیاں ہمیں ان پر قربان ہونے کا جذبہ تک پیدا کردیتی ہیں !
آخر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دینی حلقوں میں بھی خیر ناپید نہیں ہے، اور یہاں ’ خیر‘ سے مراد مال اور نیک جذبہ دونوں ہیں لیکن بہرصورت خیر اور اہل خیر کو عام کرنے کی ضرورت ہے، عالی شان بلڈنگیں، مسجدیں، مدارس شان وشوکت سے لبریز مجالس و محافل منعقد اور نت نئے پراجیکٹس لانچ کرنے کے ساتھ ساتھ علماء و ملازمین کی عزت و تکریم ، بہبود و تعاون کے رجحان کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ حفظ ، تجوید، قرآن، حدیث، فقہ، نحو وصرف، تخصص، درس نظامی کے مثالی ادارے بہت بن گئے، مزید ان شاءاللہ بنیں گے، لیکن ایسی مسجدیں، ادارے اور عمارتیں بھی معرض وجود میں آنی چاہییں، جن میں باقی سب معیارات کے ساتھ وہاں دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے بھی کوئی مثالی نظام ہو، کہ لادین مجلے اور ادارے کی انتظامیہ کے حسن سلوک کے مقابلے میں اسے پیش کیا جاسکے۔
نہ کرنا ہو ہزار بہانے ورنہ سیکڑوں درسگاہوں، اور ہزاروں عالی شان عمارتوں میں سے کسی ایک کو بھی صوبہ یا علاقے کے علماء کی بہتری کے لیے ’وقف‘ کردیا جائے، تو شاید حالات بہت مختلف ہوں.
اللہ تعالی ہم سب کو خیر کی توفیق عطا فرمائے۔
#اساتذہ_مدارس
#بہبود_علماء​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دینی مدارس میں تعلیمی اصلاح ... کیوں اور کیسے؟
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
مدارسِ دینیہ کے مذکورہ اغراض ومقاصد، ان کے تاریخی پس منظر اورانکی جلیل ُالقدر خدمات کے باوجود، مدارسِ دینیہ عام طو ر پر تنقید کا نشانہ بنے رہتے ہیں اور اپنوں اور بیگانوں کی مجلسوں میں اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرے ہوتے رہتے ہیں۔ بالخصوص ان کا نصابِ تعلیم ہر وقت تختہٴ مشق ستم بنا رہتا ہے، اس مضمون کا عنوان بھی یہی ہے : "دینی مدارس میں تعلیمی اصلاح،کیوں اور کیسے؟"
جس کا مطلب یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ میں تعلیمی اصلاح یعنی نصاب کی تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی کیوں ضروری ہے ؟ اور اس ضرورت کو کس انداز سے پورا کیا جائے ؟ گویا اس عنوان کے دو پہلو یا دوحصے ہیں۔جہاں تک اس کے پہلے حصے کا تعلق ہے تو راقم کی گزارشات کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ مدارسِ دینیہ کے نصاب میں سر ے سے بنیادی تبدیلی اور اصلاح کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ تبدیلی اور اصلاح کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں اس سے اس کے اصل مقاصد حاصل نہ ہو رہے ہوں۔ جب دینی مدارس کے قیام کا مقصد انجینئر،سائنس دان یا ڈاکٹر اوروکیل وغیرہ پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف علومِ قرآن وحدیث میں مہارت پید ا کرنا، دین کی تبلیغ ودعوت کی استعداد حاصل کرنا اور مسلمان عوام کی دینی رہنمائی کی فریضہ انجام دینا ہے اورمدارسِ دینیہ سے یہ مقاصد حاصل ہور ہے ہیں، تقریباً دو سو سال سے یہ مدارس انہی مقاصد کے لیے قائم ہیں، اورتمام تر مشکلات اور نہایت بے سروسامانی کے باوجود اپنے مقصد ِوجود کو پورا کر رہے ہیں تو پھر ان کی تعلیمی اصلاح کی ضرورت واہمیت پر کیوں اتنا زور دیا جاتا ہے ؟
اگر کسی ڈاکٹر سے یہ مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر ی کے ساتھ ساتھ وکالت یا انجینئرنگ کی تعلیم بھی ضرور حاصل کرے، کسی وکیل سے یہ کہنا مناسب نہیں کہ وہ ڈاکٹری یا سائنس کاعلم بھی ضرور حاصل کرے، اسی طرح بھی ایک فن کے ماہر کے لیے ضرور ی نہیں کہ وہ دوسرے فنون میں بھی ماہر ہو تو پھر علمائے دین ہی کے لیے یہ کیوں ضروری ہوکہ وہ دینی علو م میں تخصّص کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی تخصص حاصل کریں؟ اس لیے راقم کے خیال میں دینی مدارس کے تعلیمی نصاب میں اِصلاح کے مطالبے میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔
لیکن اس کے باوجود یہ مطالبہ بڑی شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے، تو آخر اس کی کیا و جہ ہے ؟ جہاں تک راقم نے اس پر غور کیا ہے تو اس کے چند اسباب سمجھ میں آتے ہیں :
٭ یہ مطالبہ کرنے والے مختلف لوگ ہیں اوراس سے ان کے اغراض ومقاصد بھی مختلف ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو علما کے ساتھ ہمدردی اوراخلاص کا تعلق رکھتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ علما کی معاشرے میں وہ قدرو منزلت نہیں ہے جو اُن کی ہونی چاہیے یا اُن کی آمدنیاں اُن کی معاشی ضروریات اورتمدنی سہولیات کی متکفل نہیں ہیں، تو وہ چاہتے ہیں کہ علما دینی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ، کسب ِمعاش کے لیے کچھ اورہنر سیکھ لیں تا کہ وہ معاشرے کے دست ِنگر نہ رہیں یا عسرت وتنگ دستی کا شکار نہ ہوں۔ اس لیے ان کی تجویز ہوتی ہے کہ مدارسِ میں دست کاریوں کے سکھانے کا اہتمام بھی ہو۔ اس تجویز میں کار فرما جذبہ، اگرچہ اخلاص وہمدردی ہی ہے، لیکن اس پر عمل کرنے کا نقصان یہ ہو گا کہ اس طرح علما کی اکثریت اپنے مقصد سے غافل ہو جائے گی۔
علما کے لیے یہی مناسب اور ان کے شایانِ شان ہو گا کہ اللہ نے انہیں قرآن وحدیث کے فہم سے نوازا ہے، تووہ اپنی زندگی قرآن وحدیث کی نشرواشاعت اوراس کی تعلیم وتدریس میں ہی گزاریں۔ ان کا اصل سرمایہ،اعتماد وتوکل علی اللہ ہے، ان کی نظر یں مادّی سہولتوں کی بجائے اُخروی اَجروثواب پر ہونی چاہئیں۔ رہی دست نگر ی کی بات، تو یہ بھی خلافِ واقعہ ہے۔ آخر علما شب و روز اپنے آپ کو دینی خدمت کے لیے وقف رکھتے ہیں، معاشرہ اِس کے عوض ان کی معاشی کفالت کا بندوبست کرتا ہے، تو اس میں دسست نگری والی بات کیا ہے؟یہ تو محنت ا ور خدمت کا معاوضہ اور صلہ ہے۔ جس طرح معاشرے کے اَور افراد دیگر معاشرتی خدمات سر انجام دیتے ہیں، درزی کپڑے سیتا ہے،حکیم اورڈاکٹر علاج معالجہ کرتا ہے، ایک شخص 'سیل مینی ' کرتا ہے، یہ سب اپنی اپنی محنت وخدمت اور قابلیت کا معاوضہ لیتے ہیں۔ علماء بھی دینی خدمات سر انجام دے کر معاشرے سے معاوضہ وصول کر لیتے ہیں، تو اسے دست نگری کیوں سمجھا جائے ؟ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو کیا اس میں کوئی معقولیت ہے ؟
اورجہاں تک قلیل آمدنی کی بات ہے تو یہ اگر چہ بہت حدتک صحیح ہے لیکن علما کے نزدیک اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اُن کو اَپنا معیارِ زندگی سادہ ہی رکھنا چاہئے تا کہ وہ معاشرے میں ایک نمونہ بن کر رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اہل دین کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی کر کے علما کی قدر افزائی کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے تاکہ علما کی حوصلہ افزائی ہو نہ کہ ان کی حوصلہ شکنی۔ ان کا موجودہ رویہ حوصلہ شکنی پر مبنی ہے جس سے علما اور علومِ دین کی ناقدری ہو رہی ہے اوریوں معاشرے میں دین کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔
مساجد ومدارس کا انتظام کرنے والے،بے دین لوگ تو نہیں ہوتے۔ اہل ایمان اور دین سے محبت رکھنے والے ہی ہوتے ہیں۔ یہ مساجد ومدارس کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے لوگوں سے وصول کرتے اور خرچ کرتے ہیں، ان کا سالانہ بجٹ لاکھوں اورکروڑوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر یہ اربابِ اہتمام خطابت وامامت سے یا تعلیم وتدریس سے وابستہ علما کی تنخواہوں میں بھی معقول اضافہ کر دیں، تو یقینا جہاں ان کے دیگر اخراجات کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوجاتا ہے،تنخواہوں کی مدمیں ہونے والے تھوڑے سے اضافے کا بندوست بھی اللہ تعالیٰ فرما سکتا ہے ... یہ صحیح طریقہ تو اختیار کرنے سے گریز کیا جائے اور انہیں کسب ِمعاش کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرنے کی تلقین کی جائے، جو نہایت خطرناک راستہ ہے جس سے دین کا کام سخت متاثرہونے کا اندیشہ ہے۔
٭ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کا نصاب معمولی سے فرق یا اضافے کے ساتھ سکول، کالج اور یونیورسٹی والا کر دیا جائے۔ ان کی ڈگریاں بھی میٹرک، ایف اے،بی اے اورایم اے کے برابر ہوں اوران کے ڈگری یافتہ اصحاب سرکاری اداروں میں ملازمتیں کر سکیں۔
اس تجویز کے پیش کرنے والے کون ہیں؟ ا ور اس سے ان کااصل مقصد کیا ہے ؟ کیا واقعی اس میں اخلاصِ نیت اورہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے یا نہیں؟ اس سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ اس تجویز پر عمل کرنے سے علما کے دینی کردار کا خاتمہ اوردینی مدارس کے مقصد ِوجود کی نفی ہو جائے گی۔ اس سے دینی مدارس سے امام وخطیب، مصنف ومدرّس اوردین کے داعی ومبلغ بننے بند ہو جائیں گے جو ا ن کااصل مقصدہے اور یہاں سے بھی کلرک، بابو اور زندگی کے دیگر شعبوں میں کھپ جانے والے افراد ہی پیدا ہوں گے، جیسے دنیوی تعلیم کے اداروں سے پیدا ہو رہے ہیں۔ جب کہ دینی مدارس کے قیام اور ان کے الگ وجود کا مقصد شریعت کے ماہرین اور صرف دین اور دینی ضروریات کے لئے کام کرنے والے رجالِ کار پیدا کرنا ہے۔ اس اعتبار سے ان مدارس کی حیثیت تخصیصی شعبوں کی طرح ہے۔ جیسے میڈیکل کا، انجینئرنگ کا، معاشیات کا اور دیگرکسی علم کا شعبہ ہے۔ ان میں سے ہرشعبے میں صرف اسی شعبے سے تعلق رکھنے والی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے، دیگر علوم کی تعلیم کی نہ صرف ضرورت سمجھی نہیں جاتی، بلکہ اسے اصل تعلیم کے لیے سخت نقصان دِہ سمجھا جاتا ہے۔
البتہ اس قسم کا نصاب ایک ایسی اسلامی مملکت میں ہو سکتا ہے جو اسلام کے ساتھ مخلص ہو اور اسلامی تعلیمات ونظریات کا خصوصی اہتمام... نرسری سے لے کر ایم اے تک ... ہو اور اپنے عوام کی اسلامی تعلیم وتربیت کے جذبے سے سرشار ہو۔ وہاں دینی مدارس کے الگ مستقل اور متوازی وجود کی شاید ضرورت نہ رہے۔ صرف یونیورسٹیوں میں علومِ شرعیہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے دیگرشعبہ ہائے زندگی سے متعلق علوم وفنون میں تخصص کی طرح، درجہ تخصص رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، یہ مدارسِ دینیہ ہی دینی علوم کے واحد مراکز بھی ہیں اوران میں درجہ تخصص حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔
٭ تعلیمی اصلاح کی ایک تیسری صورت یہ بھی پیش کی جاتی ہے، بلکہ بہت سی جگہوں پر ا س پر عمل بھی ہو رہا ہے، اور وہ یہ کہ جدید اور قدیم دونوں تعلیم کا ملغوبہ تیار کیا جائے۔ تا کہ ایسے افراد تیار ہوں جن میں قدیم وجدید کا امتزاج اور دونوں علوم میں ان کو مہارت ہو۔ یہ تصور یقینا بڑ اخوش کن اورمسرت آگیں ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ تجربہ کئی جگہ کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی مبینہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں قسم کے علوم اپنی اپنی جگہ شدید محنت اور توجہ کے متقاضی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عربی مدارس میں طلبا رات دِن محنت کرتے ہیں اور آٹھ سال اس پر صرف کرتے ہیں، اس کے باوجود ہزاروں میں سے چند طالب علم ہی صحیح معنوں میں علمی استعداد سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور دعوت وتبلیغ یا تعلیم وتدریس یا تصنیف وتالیف اور افتاء وتحقیق کے میدان میں کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔یہی صورت حال دنیوی تعلیم کے شعبوں کی ہے۔ دنیوی تعلیم کے اداروں میں بھی طلبا محنت کرتے ہیں، بلکہ ٹیوشنوں پر بھی ایک معتد بہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ لیکن نتائج چالیس فی صد سے بھی کم حاصل ہوتے ہیں، جب الگ الگ مستقل طور پر تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ یہ ہے، تو جب بیک وقت دونوں علوم طالب علموں کو پڑھائے جائیں گے تو ان کے پلے کیا پڑے گا؟
اس طرح کے اداروں سے فارغ ہونے والے نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ علومِ شریعت میں بھی وہ خام ہوں گے جس کی وجہ سے وہ دینی اورعلمی حلقوں میں درخورِ اعتنا نہیں سمجھے جائیں گے اوردنیاوی تعلیم میں بھی وہ اُدھورے اور ناقص ہوں گے، اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی انکی کھپت مشکوک رہے گی۔ وہ آدھے تیتر، آدھے بٹیریا ... نیم حکیم خطرئہ جان اور نیم ملا خطرئہ ایمان ... ہی کا مصداق ہوں گے۔
٭ ایک چوتھا گروہ ہے، جو نصاب میں صرف اس حدتک تبدیلی کا خواہاں ہے کہ منطق وفلسفے کی کتابوں کی بجائے عصر حاضر کے فتنوں، تحریکوں اوراِزموں کو سمجھنے کے لیے بعض ضروری جدید علوم کی تدریس کا انتظام کیا جائے۔ اس تبدیلی سے یقینا علماءِ کرام کے کردار کو زیادہ موٴثر اورمفید بنایا جاسکتا ہے۔ جس کے علما اور اصحابِ مدارس قطعاً مخالف نہیں ہیں۔ بلکہ حسب ِاستطاعت بعض بڑے مدارس میں ان کا اہتمام بھی ہے۔ اور اس میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے، جیسے انگریزی زبان کی تدریس، معاشیات کی تعلیم وغیرہ۔ کیونکہ اس تبدیلی اور اہتمام سے مدارسِ دینیہ کا اصل نصاب متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تکمیل ہوتی ہے اور ا س سے دین اسلام کی برتری کا وہ مقصد حاصل ہوتا ہے جو مدارسِ دینیہ کا اصل مقصد ہے۔
اس تجویز کو ایک دوسرے انداز سے بھی بروئے کار لا یا جاسکتا ہے کہ مدارسِ دینیہ کے نصاب میں قدرے تخفیف کر کے اس کی مدتِ تکمیل چھ سال کر دی جائے اور اس کے بعد دو یا تین سال ان فارغ التحصیل طلبا کو جدیدتعلیم اورجدید نظریات سے آگاہ کیا جائے۔
ایک تعلیمی اصلاح یہ بھی ضروری ہے کہ جدل ومباحثہ پر مبنی کتابوں اور فقہیات کے حصوں میں کمی کر کے قر آ ن وحدیث کے مضامین اور علوم کو زیادہ اہمیت اور زیادہ وقت دیا جائے اور ممکن ہو تو فقہی مقارنہ کا انتظام کیا جائے تاکہ طلبا میں فقہی جمود اور تنگی کی بجائے وسعت ِنظر بھی پید اہو اور وسعت ِظرف بھی جس کی آج کل بڑی شدید ضرورت ہے۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے قیام کا اصل مقصد دینی علوم کی تدریس ہے تا کہ اس کے ذریعے سے دینی اقدار وروایات کا تحفظ کیا جائے۔ یہ کام اور کوئی ادارہ نہیں کر رہا ہے، بلکہ دین کو ملیا ملیٹ کرنے کی مذموم مساعی زور شور سے جاری ہیں۔ اس لیے مدارسِ دینیہ کے تعلیمی نصاب میں اس انداز کی اصلاح کا کوئی جواز نہیں ہے جو اس کے اصل مقصد ِوجود کے منافی ہو۔ تا ہم ایسی اصلاحات ضروری ہیں جن سے علماءِ کرام کے کردار کو زیاد ہ موٴثر بنایا جا سکے اوردعوت وتبلیغ میں عصری تقاضوں اوراسالیب کو ملحوظ رکھا جا سکے۔ وَما عَلينَا إلاّ البَلاغ المُبين
 
Top