- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ملازم فوت ہوا، لیکن انتظامیہ زندہ تھی
خوشخطی اللہ کی نعمت ہے، جو عبد اللہ کیلانی (فرضی نام) صاحب کو بھی عطا ہوئی تھی، کمپوزنگ کے دور سے پہلے کتب اور مجلات کی نشر واشاعت بھی ’خطاط اور کاتب‘ کی رہین منت ہوا کرتی تھی، عبد اللہ کیلانی کو ایک بدنام زنامہ ماہنامے نے بطور کاتب و خطاط رکھ لیا، اللہ کی طرف سے جتنی مہلت تھی، پیشہ ورانہ صلاحتیں دیتے رہے، تنخواہ وصول کرتے رہے، قادرِ مطلق کی طرف سے بلاوا آگیا، عبد اللہ کیلانی وفات پاگئے، پسماندگان میں سات بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا، گھر کا سربراہ رخصت ہوجائے، تو کیا بیتتی ہے، اس کا اندازہ مجلے کی انتظامیہ کو تھا، وفات ملازم کی ہوئی تھی، لیکن ادارہ کا ضمیر زندہ تھا، عبد اللہ کی وفات کے بیس بائیس سال بعد تک بھی اس کی تنخواہ جاری رکھی گئی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی کیا جاتا رہا، حتی کہ عبد اللہ کا بیٹا جوان ہو کر ملازم ہوا اور گھر کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوگیا.
ملازم کی قدر دانی اور اس کے پسماندگان کے ساتھ حسن سلوک کی یہ مثال سن کر بندہ حیران و ششدر رہ جاتا ہے، بالخصوص اس لیے بھی کہ یہ مجلہ اور ادارہ نہ کوئی مسجد تھی، نہ مدرسہ تھا اور نہ ہی معروف معنوں میں اس کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق تھا، بلکہ یہ وہ مجلہ اور ادارہ ہے، جو لادینیت کا استعارہ ہے، جس کے خلاف درجن سے زائد کتابیں معرض وجود میں آچکی ہیں، درجنوں علما اس ’لادین‘ کا رد کرچکے ہیں... لاکھوں کروڑں کا سرمایہ اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے صرف کیا جارہا ہے، یہ کوششیں جتنی بھی قابل قدر اور مبارک ہوں لیکن یہ ساری کی ساری محنتیں اس بیٹے کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہیں، جسے باپ کی وفات کے بعد بائیس سال تک کسی نے سہارا بن کر دکھایا ہے۔
مجھے نہ کوئی اس ادارے سے ہمدردی ہے، نہ اس کے منحرف اور لادین منتظم و بانی سے کوئی محبت ہے، بلکہ دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے، ورنہ اس کا بندوبست کرلے، لیکن میں شرمسار ہوتا ہون، اپنے گریبان میں جھانک اور اپنے کنبے و قبیلے کو دیکھ کر.... کہ یہاں کاتبوں؍ خادموں کو چھوڑیں اساتذہ و شیوخ الحدیث کے مرنے کے بعد تو جو ہونا سو ہونا، ان کی زندگی میں وہ خود اور ان کی اولادیں بنیادی ضروریات کے لیے ہاتھ پھیلانے تک پہنچ جاتی ہیں۔
میں ایک مذہبی آدمی ہوں، میں ایک لادین کے اس حسنِ سلوک اور اپنی بدسلوکی کے لیے سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں دے سکتا کہ انہیں امریکہ فنڈ دیتا ہے، جبکہ ہمیں سعودیہ و ترکی سے بھی نہیں ملتا، وہ اپنی لادینیت کو پھیلانے کے لیے مال کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ ہم اہلِ حق کسی کو دنیا اور پیسے کا لالچ نہیں دیتے، ان کی نظر دنیاوی مفادات پر ہے، جبکہ ہم توکل اور اخلاص سے شبعان و سیر ہو کر کام کرتے اور کرواتے ہیں، وہ لوگوں کی عیاشی کے خواہاں، جبکہ ہم انہیں زہد ورع کے عادی بنانا چاہتے ہیں۔
اسی لادین مفکر کے ڈرائیور کے تاثرات سن لیں کہ جو کہ اہل حدیث ہے، کہنے لگے کہ ہمیں ان کے چہروں پر روحانیت و نور نظر نہیں آتا، لیکن ان لوگوں کا حسنِ اخلاق، وعدہ کی پابندی، خیر خواہی جیسی خوبیاں ہمیں ان پر قربان ہونے کا جذبہ تک پیدا کردیتی ہیں !
آخر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دینی حلقوں میں بھی خیر ناپید نہیں ہے، اور یہاں ’ خیر‘ سے مراد مال اور نیک جذبہ دونوں ہیں لیکن بہرصورت خیر اور اہل خیر کو عام کرنے کی ضرورت ہے، عالی شان بلڈنگیں، مسجدیں، مدارس شان وشوکت سے لبریز مجالس و محافل منعقد اور نت نئے پراجیکٹس لانچ کرنے کے ساتھ ساتھ علماء و ملازمین کی عزت و تکریم ، بہبود و تعاون کے رجحان کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ حفظ ، تجوید، قرآن، حدیث، فقہ، نحو وصرف، تخصص، درس نظامی کے مثالی ادارے بہت بن گئے، مزید ان شاءاللہ بنیں گے، لیکن ایسی مسجدیں، ادارے اور عمارتیں بھی معرض وجود میں آنی چاہییں، جن میں باقی سب معیارات کے ساتھ وہاں دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے بھی کوئی مثالی نظام ہو، کہ لادین مجلے اور ادارے کی انتظامیہ کے حسن سلوک کے مقابلے میں اسے پیش کیا جاسکے۔
نہ کرنا ہو ہزار بہانے ورنہ سیکڑوں درسگاہوں، اور ہزاروں عالی شان عمارتوں میں سے کسی ایک کو بھی صوبہ یا علاقے کے علماء کی بہتری کے لیے ’وقف‘ کردیا جائے، تو شاید حالات بہت مختلف ہوں.
اللہ تعالی ہم سب کو خیر کی توفیق عطا فرمائے۔
#اساتذہ_مدارس
#بہبود_علماء
ملازم کی قدر دانی اور اس کے پسماندگان کے ساتھ حسن سلوک کی یہ مثال سن کر بندہ حیران و ششدر رہ جاتا ہے، بالخصوص اس لیے بھی کہ یہ مجلہ اور ادارہ نہ کوئی مسجد تھی، نہ مدرسہ تھا اور نہ ہی معروف معنوں میں اس کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق تھا، بلکہ یہ وہ مجلہ اور ادارہ ہے، جو لادینیت کا استعارہ ہے، جس کے خلاف درجن سے زائد کتابیں معرض وجود میں آچکی ہیں، درجنوں علما اس ’لادین‘ کا رد کرچکے ہیں... لاکھوں کروڑں کا سرمایہ اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے صرف کیا جارہا ہے، یہ کوششیں جتنی بھی قابل قدر اور مبارک ہوں لیکن یہ ساری کی ساری محنتیں اس بیٹے کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہیں، جسے باپ کی وفات کے بعد بائیس سال تک کسی نے سہارا بن کر دکھایا ہے۔
مجھے نہ کوئی اس ادارے سے ہمدردی ہے، نہ اس کے منحرف اور لادین منتظم و بانی سے کوئی محبت ہے، بلکہ دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے، ورنہ اس کا بندوبست کرلے، لیکن میں شرمسار ہوتا ہون، اپنے گریبان میں جھانک اور اپنے کنبے و قبیلے کو دیکھ کر.... کہ یہاں کاتبوں؍ خادموں کو چھوڑیں اساتذہ و شیوخ الحدیث کے مرنے کے بعد تو جو ہونا سو ہونا، ان کی زندگی میں وہ خود اور ان کی اولادیں بنیادی ضروریات کے لیے ہاتھ پھیلانے تک پہنچ جاتی ہیں۔
میں ایک مذہبی آدمی ہوں، میں ایک لادین کے اس حسنِ سلوک اور اپنی بدسلوکی کے لیے سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں دے سکتا کہ انہیں امریکہ فنڈ دیتا ہے، جبکہ ہمیں سعودیہ و ترکی سے بھی نہیں ملتا، وہ اپنی لادینیت کو پھیلانے کے لیے مال کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ ہم اہلِ حق کسی کو دنیا اور پیسے کا لالچ نہیں دیتے، ان کی نظر دنیاوی مفادات پر ہے، جبکہ ہم توکل اور اخلاص سے شبعان و سیر ہو کر کام کرتے اور کرواتے ہیں، وہ لوگوں کی عیاشی کے خواہاں، جبکہ ہم انہیں زہد ورع کے عادی بنانا چاہتے ہیں۔
اسی لادین مفکر کے ڈرائیور کے تاثرات سن لیں کہ جو کہ اہل حدیث ہے، کہنے لگے کہ ہمیں ان کے چہروں پر روحانیت و نور نظر نہیں آتا، لیکن ان لوگوں کا حسنِ اخلاق، وعدہ کی پابندی، خیر خواہی جیسی خوبیاں ہمیں ان پر قربان ہونے کا جذبہ تک پیدا کردیتی ہیں !
آخر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دینی حلقوں میں بھی خیر ناپید نہیں ہے، اور یہاں ’ خیر‘ سے مراد مال اور نیک جذبہ دونوں ہیں لیکن بہرصورت خیر اور اہل خیر کو عام کرنے کی ضرورت ہے، عالی شان بلڈنگیں، مسجدیں، مدارس شان وشوکت سے لبریز مجالس و محافل منعقد اور نت نئے پراجیکٹس لانچ کرنے کے ساتھ ساتھ علماء و ملازمین کی عزت و تکریم ، بہبود و تعاون کے رجحان کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ حفظ ، تجوید، قرآن، حدیث، فقہ، نحو وصرف، تخصص، درس نظامی کے مثالی ادارے بہت بن گئے، مزید ان شاءاللہ بنیں گے، لیکن ایسی مسجدیں، ادارے اور عمارتیں بھی معرض وجود میں آنی چاہییں، جن میں باقی سب معیارات کے ساتھ وہاں دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے بھی کوئی مثالی نظام ہو، کہ لادین مجلے اور ادارے کی انتظامیہ کے حسن سلوک کے مقابلے میں اسے پیش کیا جاسکے۔
نہ کرنا ہو ہزار بہانے ورنہ سیکڑوں درسگاہوں، اور ہزاروں عالی شان عمارتوں میں سے کسی ایک کو بھی صوبہ یا علاقے کے علماء کی بہتری کے لیے ’وقف‘ کردیا جائے، تو شاید حالات بہت مختلف ہوں.
اللہ تعالی ہم سب کو خیر کی توفیق عطا فرمائے۔
#اساتذہ_مدارس
#بہبود_علماء