- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
یار زندہ صحبت باقی۔!میری رائے کے مطابق الدیوبندیہ میں نقل ہر واقعہ کو کرامت کے تحت شمار کرنا ممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے کوئی ایسا واقعہ جو کرامت کی ذیل میں نہ آتا ہو لیکن مجھے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا
کسی دوسرے کے انکار کی کیا اہمیت۔ خود دیوبندی حضرات ان واقعات کا نہ صرف یہ کہ انکار نہیں کرتے بلکہ بے جا و ناجائز تاویلات و دفاع تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جیسا کہ آپ نے بھی اپنی اس پوسٹ میں ثبوت دیا ہے۔دیوبندی حضرات نے جو کرامات کے واقعات کا ذکر کیا ہے ، اگر کوئی اس واقعہ کا انکار کرے اور کہے یہ سچا واقعہ نہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں
یہ بعض صورتوں میں بالکل درست ہے کیونکہ عوام الناس ان سے گمراہ ہوتے ہیں۔اصل اعتراض تب ہوتا ہے جب کسی کرامات والے واقعہ کو ذکر کے کہا جاتا ہے کہ بطور کرامت یہ واقعہ ممکن نہیں اور کوئی شرکیہ عقیدہ ہم پر تھوپ دیا جاتا ہے .
اور بعض صورتوں میں بطور رد عمل کے ہو سکتا ہے جو ظاہر ہے غلط ہے۔
کسی مردہ شخص کا زندوں کو نفع دینا اگر تو دنیاوی کاموں کے اعتبار سے ہے تو اس میں بھلا کیا حرج؟ یعنی ایک شخص مر گیا لیکن کنواں کھدوا گیا۔ زندہ لوگ پانی پی رہے ہیں، تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ مردے بھی فیض پہنچاتے ہیں؟فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيي الله الموتى ويريكم آياته لعلكم تعقلون
القرآن
ایک مسلم (خواہ و اہل حدیث ہو یا دیوبندی ) کا عقیدہ یہ ہے کہ صاحب قبر کسی کو نفع یا نقصان نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے کہ بنی اسرائیل کہ ایک مردہ شخص نے اہل خانہ کو اپنے قاتل کا بتا کر قاتل کو پکڑوانے میں مدد کی ۔ اب آپ عقیدہ کا انکار کریں گے یا واقعہ کا (دونوں صورت میں دائرہ اسلام سے باہر ہوجائیں گے ) واحد صورت یہ بچتی ہے واقعہ کو بصور کرامت مانا جائے اور عقیدہ میں بھی کوئي تبدیلی نہ کی جائے
ایک شخص مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد کسی نبی نے بطور معجزہ اس کو زندہ کر دیا بحکم الٰہی، اور وہ چلنے پھرنے بولنے چالنے لگا تو مثلاً وصیت کر کے مر گیا اور اہل خانہ کو نفع پہنچا گیا، تو یہ معجزہ نبی کا ہوا یا اس شخص کی کرامت ہوئی؟ ظاہر ہے نبی کا معجزہ ہے۔
آپ نے جو واقعہ بنی اسرائیل کا پیش کیا ہے۔ اگر یہ وہی ہے کہ جو گائے کا ٹکڑا مارنے سے زندہ ہوا تو یہ اس مردے کی کرامت تھی یا اس وقت کے زندہ نبی کا معجزہ تھا؟ کیا اللہ نے براہ راست بنی اسرائیل سے کلام کیا تھا؟
میرا اس پر کوئی مطالعہ نہیں ہے کہ آیا مرنے کے بعد بھی کسی نبی یا ولی سے کرامت کا ظہور ممکن ہے یا نہیں۔
انس خضر حیات کفایت اللہ برادران سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں اہلحدیث کے درست مؤقف سے آگاہ فرمائیں۔
بہرحال، برسبیل تنزل مان لیا جائے کہ مردہ نبی یا ولی سے بھی معجزات و کرامات کا ظہور ممکن ہے۔ لیکن آخر کرامت یا معجزہ کی حقیقت بھی تو کوئی چیز ہے یا نہیں؟ اور یہ حقیقت میری نظر میں تو یہ ہے کہ معجزہ یا کرامت سے حق والوں کی پہچان مقصود ہوتی ہے، عموماً کسی ضرورت کے تحت ان کا ظہور ہوتا ہے، لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی مقصود ہوتی ہے، وغیرہ۔
بھائی، کرامت کی حقیقت کو ذہن میں رکھیں اور پھر بتائیں کہ اگر کرامت یہ ہو کہ فلاں قبر کی مٹی سے فیض پہنچ رہا ہے، تو یہ کرامت قبر پرست لوگوں کی دلیل بنے گی یا مؤحدین کی؟ عوام الناس قبر پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوں گے یا قبروں سے فیوض حاصل ہونے کی نفی کریں گے؟جب قرآن میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک مردہ نے اپنے قاتلوں کی پہچان کرانے میں اہل خانہ کی بطور کرامت مدد کی تو اس طرح کے واقعات جو دیوبند کی کتب میں علماء نے تحریر کیے ہیں تو ان کی بنا پر دیوبندیوں پر غلط عقائد تھوپنے کی وجہ ؟؟
بلکہ دیوبندی علماء نے تو وہ واقعات بھی نقل کر رکھے ہیں کہ جس میں قبروں پر مراقب ہونے سے روٹی مل گئی، یا ویسے بہت سے علوم حاصل ہو گئے۔ اب آپ بتائیے کہ آپ اسے مردے کی کرامت مانیں گے تو قبر پر مراقبہ کرنے والوں کو کیسے روکیں گے؟ وہ جواب میں واقعہ پیش کر کے کہیں گے کہ بطور کرامت مردے سے علوم کا حاصل ہونا، فیض و نفع حاصل ہونا ممکن ہے تو کیوں مراقب نہ ہوں؟
سمجھتا تو میں بھی یہی ہوں۔ لیکن آگبوٹ والے واقعے میں استعانت کو توسل قرار دینے کی جو آپ نے تاویل کی ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بریلویوں کا استعانت کے تحت جو عقیدہ ہے، آپ اسے توسل کے تحت قبول کرتے ہیں۔ ورنہ دونوں میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ واللہ اعلم۔ ویسے اس کی تائید فتاویٰ عالمگیری کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے:جب کہ بریلوی یا غوث الاعظم المدد کہ کر مردوں سے مانگنے کے جواز کے قائل ہیں اور ہم نہیں ، یہی دیوبندی اور بریلوی حضرات میں ایک نمایاں فرق ہے
جس شخص نے آپ کی خدمت میں سلام کہنے کی تاکید کی ہو آپ کو اس کا سلام بھی عرض کرے پس یوں کہے کہ یارسول اللہ فلاں بن فلاں نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے اور وہ آپ کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتا ہے سو آپ اس کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے شفاعت کریں۔ [عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۲۸۲ طبع مصر]
تصرف سے میرے ذہن میں وہ واقعہ تھا کہ جب ایک دیوبندی عالم قبر کی منوں مٹی کے نیچے سے "جسد عُنصری" کے ساتھ دار العلوم میں تشریف لے آئے تھے۔ اور پھر یہ غور کیجئے کہ بریلویوں کا عقیدہ بھی یہی تو ہے کہ خدائے قدیر نے اولیائے کاملین کی روحوں کو عالم برزخ میں بھی تصرف کی قدرت بخشی ہے اور وہ زندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اور آپ بھی یہی کچھ "کرامت" کے ضمن میں ثابت کر رہے ہیں۔ کیا بریلوی اسے کرامت نہیں مانتے ؟ کچھ اور مانتے ہیں؟ وہ بھی تو بطور کرامت ہی مردوں کو زندوں کی مدد کرنے اور تصرف پر باذن اللہ قادر مانتے ہیں۔ اور آپ بھی یہی کچھ مان رہے ہیں۔ تو فرق کہاں ہے اور کیا ہے؟ جبکہ خود دیوبندی عالم احسن گیلانی کا اعتراف موجود ہے کہ:اگر تصرف سے مراد زندہ کو کوئی فائدہ پہنچانا ہے تو اس کی وضاحت اوپر کردی کئی ہے ، اگر کچھ اور ہے تو وضاحت کریں
"پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں۔" (حاشیہ سوانح قاسمی 334/1)
لیجئے بزرگوں کی ارواح کا تصرف تو ثابت ہی تھا، فوت شدہ سے مدد لینے کا بھی انکار نہیں۔ تو پیچھے اب بریلویوں سے تفریق کے لئے بچا کیا؟
میرے بھائی، اگر لفظ "ہمیشہ" کا ہونا ضروری قرار پائے تو شاید کسی واقعہ یا تحریر میں ہمیشہ غیب کی بات بتانے کا ذکر نہ مل سکے ۔ لیکن مثال کے طور پر درج ذیل کرامت دیوبندی خواتین کے لئے لکھی گئی مشہور کتاب "بہشتی زیور" سے "حضرت سری سقطی کی ایک مریدنی کا ذکر" ملاحظہ فرمائیے۔ہم نے کہیں نہیں کہا یا واقعہ تحریر نہیں کیا فلاں بزرگ ہمیشہ غیب کی بات بتادیتے تھے ، ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایک بزرگ کو کثرت سے کشف ہوتا تھا ، اور کثرت سے کشف ہونا کوئی غیر شرعی امر نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی کثرت سے کشف ہوا اور کئی حکم ربی بطور کشف سے آگاہ ہوے
مثلا جنگ بدر کی قیدیوں سے متعلق فیصلہ یا اذان کا الفاظ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے واقعہ پردہ کے احکامات وغیرہ (ایک تفصیلی لسٹ ہے ) تو کیا حضرت جبرائیل علیہ السلام معاذ اللہ پہلے حضرت عمر رضي اللہ عنہ کو امر ربی بتاتے پھر حکم نازل ہوتا
"ان بزرگ کے ایک مرید بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پیر کی ایک مریدنی تھی ان کا لڑکا مکتب میں پڑھتا تھا۔ استاد نے کسی کام کو بھیجا وہ کہیں پانی میں جا گرا اور ڈوب کر مر گیا۔ استاد کو خبر ہوئی اس نے حضرت سری ؒ کے پاس جا کر خبر کی ۔ آپ اٹھ کر اس مریدنی کے گھر گئے اور صبر کی نصیحت کی۔ وہ مریدنی کہنے لگی کہ حضرت آپ یہ صبر کا مضمون کیوں فرما رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ تیرا بیٹا ڈوب کر مر گیا۔ تعجب سے کہنے لگی میرا بیٹا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں تیرا بیٹا۔ کہنے لگیں کہ میرا بیٹا کبھی نہیں ڈوبا اور یہ کہہ کر اس جگہ پہنچیں اور جا کر بیٹے کا نام لے کر پکارا۔ اے ظار! اس نے جواب دیا کہ کیوں اماں اور پانی سے زندہ نکل کر چلا آیا۔ حضرت سری ؒ نے حضرت جنید سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس عورت کا ایک خاص ایسا مقام اور درجہ ہے کہ اس عورت پر جو مصیبت آنے والی ہوتی ہے اس کو خبر کر دی جاتی ہے اور اس کی خبر نہیں ہوئی تھی اس لئے اس نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔"
یہاں وہی "ہمیشگی" کا تصور کارفرما ہے جس کی تردید عقیدہ کی زبان میں کی جاتی ہے۔
پھر یہ بھی بتائیے گا کہ آیا یہ مقام اور درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل رہا یا نہیں؟
حضرت ساریہ والا واقعہ کسی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں۔حضرت عمر رضي اللہ عنہ حضرت ساریہ کو ہزاروں میل فاصلے سے آواز دی ، نہ صرف اواز دی بلکہ خطرہ سے اگاھ بھی کیا اور اس طرح ہزاروں میل کے فاصلے سے بطور کرامت ان کی مدد کی ۔ تو اگر کسی شیخ نے بطور کرامت اپنے مرید کی مدد کی تو عقیدہ کا بگاڑ کہاں سے آیا ؟؟؟؟؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ساریہ کی ایران میں مدد کی جب کہ وہ خود مدینہ میں تھے تو اس مستند واقعہ کو ہم کرامت کہتے ہیں تو اگر کوئی شیخ بطور کرامت کسی کی مدد کردے تو ہم اس کو کیوں کرامت نہیں کہتے اور کیوں اس کو عقیدہ کا بگاڑ کہتے ہیں اور دیوبندوں کو کیوں شرکیہ عقیدہ سے متھم کرتےہیں
اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امدادکا ہوگا۔خیال کرنے سے آپ نے مراد کیوں استمداد ہی لی ہے توسل بھی تو لے سکتے تھے ؟؟ چوں کہ آپ نے استمداد کا معنی لیا ہے تو پہلے آپ بتائيں گے کہ آپ نے استمداد کیوں معنی لیا ، اور توسل معنی کیوں نہ لیا ۔۔۔
پیر کی طرف خیال کرنے کے بعد یہ عرض کس سے کی گئی تھی؟ پیر سے یا اللہ سے؟
توسل تو یہ ہوتا ہے کہ مانگا اللہ سے جائے اور اس مانگنے میں کسی کا وسیلہ دے دیا جائے۔
براہ راست پیر سے "عرض کرنا" کہ اس وقت "مدد" کریں، یہ استمداد لغیراللہ نہیں، تو پھر بریلوی بھی بہرحال استمداد لغیراللہ کے مرتکب نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔