• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقائد میں اختلاف مسلک اہل حدیث کے افراد کو کیوں نظر نہیں آتا

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
میری رائے کے مطابق الدیوبندیہ میں نقل ہر واقعہ کو کرامت کے تحت شمار کرنا ممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے کوئی ایسا واقعہ جو کرامت کی ذیل میں نہ آتا ہو لیکن مجھے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا
یار زندہ صحبت باقی۔!

دیوبندی حضرات نے جو کرامات کے واقعات کا ذکر کیا ہے ، اگر کوئی اس واقعہ کا انکار کرے اور کہے یہ سچا واقعہ نہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں
کسی دوسرے کے انکار کی کیا اہمیت۔ خود دیوبندی حضرات ان واقعات کا نہ صرف یہ کہ انکار نہیں کرتے بلکہ بے جا و ناجائز تاویلات و دفاع تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جیسا کہ آپ نے بھی اپنی اس پوسٹ میں ثبوت دیا ہے۔


اصل اعتراض تب ہوتا ہے جب کسی کرامات والے واقعہ کو ذکر کے کہا جاتا ہے کہ بطور کرامت یہ واقعہ ممکن نہیں اور کوئی شرکیہ عقیدہ ہم پر تھوپ دیا جاتا ہے .
یہ بعض صورتوں میں بالکل درست ہے کیونکہ عوام الناس ان سے گمراہ ہوتے ہیں۔
اور بعض صورتوں میں بطور رد عمل کے ہو سکتا ہے جو ظاہر ہے غلط ہے۔



فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيي الله الموتى ويريكم آياته لعلكم تعقلون
القرآن
ایک مسلم (خواہ و اہل حدیث ہو یا دیوبندی ) کا عقیدہ یہ ہے کہ صاحب قبر کسی کو نفع یا نقصان نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے کہ بنی اسرائیل کہ ایک مردہ شخص نے اہل خانہ کو اپنے قاتل کا بتا کر قاتل کو پکڑوانے میں مدد کی ۔ اب آپ عقیدہ کا انکار کریں گے یا واقعہ کا (دونوں صورت میں دائرہ اسلام سے باہر ہوجائیں گے ) واحد صورت یہ بچتی ہے واقعہ کو بصور کرامت مانا جائے اور عقیدہ میں بھی کوئي تبدیلی نہ کی جائے
کسی مردہ شخص کا زندوں کو نفع دینا اگر تو دنیاوی کاموں کے اعتبار سے ہے تو اس میں بھلا کیا حرج؟ یعنی ایک شخص مر گیا لیکن کنواں کھدوا گیا۔ زندہ لوگ پانی پی رہے ہیں، تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ مردے بھی فیض پہنچاتے ہیں؟
ایک شخص مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد کسی نبی نے بطور معجزہ اس کو زندہ کر دیا بحکم الٰہی، اور وہ چلنے پھرنے بولنے چالنے لگا تو مثلاً وصیت کر کے مر گیا اور اہل خانہ کو نفع پہنچا گیا، تو یہ معجزہ نبی کا ہوا یا اس شخص کی کرامت ہوئی؟ ظاہر ہے نبی کا معجزہ ہے۔
آپ نے جو واقعہ بنی اسرائیل کا پیش کیا ہے۔ اگر یہ وہی ہے کہ جو گائے کا ٹکڑا مارنے سے زندہ ہوا تو یہ اس مردے کی کرامت تھی یا اس وقت کے زندہ نبی کا معجزہ تھا؟ کیا اللہ نے براہ راست بنی اسرائیل سے کلام کیا تھا؟
میرا اس پر کوئی مطالعہ نہیں ہے کہ آیا مرنے کے بعد بھی کسی نبی یا ولی سے کرامت کا ظہور ممکن ہے یا نہیں۔
انس خضر حیات کفایت اللہ برادران سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں اہلحدیث کے درست مؤقف سے آگاہ فرمائیں۔

بہرحال، برسبیل تنزل مان لیا جائے کہ مردہ نبی یا ولی سے بھی معجزات و کرامات کا ظہور ممکن ہے۔ لیکن آخر کرامت یا معجزہ کی حقیقت بھی تو کوئی چیز ہے یا نہیں؟ اور یہ حقیقت میری نظر میں تو یہ ہے کہ معجزہ یا کرامت سے حق والوں کی پہچان مقصود ہوتی ہے، عموماً کسی ضرورت کے تحت ان کا ظہور ہوتا ہے، لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی مقصود ہوتی ہے، وغیرہ۔


جب قرآن میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک مردہ نے اپنے قاتلوں کی پہچان کرانے میں اہل خانہ کی بطور کرامت مدد کی تو اس طرح کے واقعات جو دیوبند کی کتب میں علماء نے تحریر کیے ہیں تو ان کی بنا پر دیوبندیوں پر غلط عقائد تھوپنے کی وجہ ؟؟
بھائی، کرامت کی حقیقت کو ذہن میں رکھیں اور پھر بتائیں کہ اگر کرامت یہ ہو کہ فلاں قبر کی مٹی سے فیض پہنچ رہا ہے، تو یہ کرامت قبر پرست لوگوں کی دلیل بنے گی یا مؤحدین کی؟ عوام الناس قبر پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوں گے یا قبروں سے فیوض حاصل ہونے کی نفی کریں گے؟
بلکہ دیوبندی علماء نے تو وہ واقعات بھی نقل کر رکھے ہیں کہ جس میں قبروں پر مراقب ہونے سے روٹی مل گئی، یا ویسے بہت سے علوم حاصل ہو گئے۔ اب آپ بتائیے کہ آپ اسے مردے کی کرامت مانیں گے تو قبر پر مراقبہ کرنے والوں کو کیسے روکیں گے؟ وہ جواب میں واقعہ پیش کر کے کہیں گے کہ بطور کرامت مردے سے علوم کا حاصل ہونا، فیض و نفع حاصل ہونا ممکن ہے تو کیوں مراقب نہ ہوں؟

جب کہ بریلوی یا غوث الاعظم المدد کہ کر مردوں سے مانگنے کے جواز کے قائل ہیں اور ہم نہیں ، یہی دیوبندی اور بریلوی حضرات میں ایک نمایاں فرق ہے
سمجھتا تو میں بھی یہی ہوں۔ لیکن آگبوٹ والے واقعے میں استعانت کو توسل قرار دینے کی جو آپ نے تاویل کی ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بریلویوں کا استعانت کے تحت جو عقیدہ ہے، آپ اسے توسل کے تحت قبول کرتے ہیں۔ ورنہ دونوں میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ واللہ اعلم۔ ویسے اس کی تائید فتاویٰ عالمگیری کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے:

جس شخص نے آپ کی خدمت میں سلام کہنے کی تاکید کی ہو آپ کو اس کا سلام بھی عرض کرے پس یوں کہے کہ یارسول اللہ فلاں بن فلاں نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے اور وہ آپ کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتا ہے سو آپ اس کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے شفاعت کریں۔ [عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۲۸۲ طبع مصر]

اگر تصرف سے مراد زندہ کو کوئی فائدہ پہنچانا ہے تو اس کی وضاحت اوپر کردی کئی ہے ، اگر کچھ اور ہے تو وضاحت کریں
تصرف سے میرے ذہن میں وہ واقعہ تھا کہ جب ایک دیوبندی عالم قبر کی منوں مٹی کے نیچے سے "جسد عُنصری" کے ساتھ دار العلوم میں تشریف لے آئے تھے۔ اور پھر یہ غور کیجئے کہ بریلویوں کا عقیدہ بھی یہی تو ہے کہ خدائے قدیر نے اولیائے کاملین کی روحوں کو عالم برزخ میں بھی تصرف کی قدرت بخشی ہے اور وہ زندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اور آپ بھی یہی کچھ "کرامت" کے ضمن میں ثابت کر رہے ہیں۔ کیا بریلوی اسے کرامت نہیں مانتے ؟ کچھ اور مانتے ہیں؟ وہ بھی تو بطور کرامت ہی مردوں کو زندوں کی مدد کرنے اور تصرف پر باذن اللہ قادر مانتے ہیں۔ اور آپ بھی یہی کچھ مان رہے ہیں۔ تو فرق کہاں ہے اور کیا ہے؟ جبکہ خود دیوبندی عالم احسن گیلانی کا اعتراف موجود ہے کہ:
"پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں۔" (حاشیہ سوانح قاسمی 334/1)

لیجئے بزرگوں کی ارواح کا تصرف تو ثابت ہی تھا، فوت شدہ سے مدد لینے کا بھی انکار نہیں۔ تو پیچھے اب بریلویوں سے تفریق کے لئے بچا کیا؟

ہم نے کہیں نہیں کہا یا واقعہ تحریر نہیں کیا فلاں بزرگ ہمیشہ غیب کی بات بتادیتے تھے ، ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایک بزرگ کو کثرت سے کشف ہوتا تھا ، اور کثرت سے کشف ہونا کوئی غیر شرعی امر نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی کثرت سے کشف ہوا اور کئی حکم ربی بطور کشف سے آگاہ ہوے
مثلا جنگ بدر کی قیدیوں سے متعلق فیصلہ یا اذان کا الفاظ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے واقعہ پردہ کے احکامات وغیرہ (ایک تفصیلی لسٹ ہے ) تو کیا حضرت جبرائیل علیہ السلام معاذ اللہ پہلے حضرت عمر رضي اللہ عنہ کو امر ربی بتاتے پھر حکم نازل ہوتا
میرے بھائی، اگر لفظ "ہمیشہ" کا ہونا ضروری قرار پائے تو شاید کسی واقعہ یا تحریر میں ہمیشہ غیب کی بات بتانے کا ذکر نہ مل سکے ۔ لیکن مثال کے طور پر درج ذیل کرامت دیوبندی خواتین کے لئے لکھی گئی مشہور کتاب "بہشتی زیور" سے "حضرت سری سقطی کی ایک مریدنی کا ذکر" ملاحظہ فرمائیے۔
"ان بزرگ کے ایک مرید بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پیر کی ایک مریدنی تھی ان کا لڑکا مکتب میں پڑھتا تھا۔ استاد نے کسی کام کو بھیجا وہ کہیں پانی میں جا گرا اور ڈوب کر مر گیا۔ استاد کو خبر ہوئی اس نے حضرت سری ؒ کے پاس جا کر خبر کی ۔ آپ اٹھ کر اس مریدنی کے گھر گئے اور صبر کی نصیحت کی۔ وہ مریدنی کہنے لگی کہ حضرت آپ یہ صبر کا مضمون کیوں فرما رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ تیرا بیٹا ڈوب کر مر گیا۔ تعجب سے کہنے لگی میرا بیٹا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں تیرا بیٹا۔ کہنے لگیں کہ میرا بیٹا کبھی نہیں ڈوبا اور یہ کہہ کر اس جگہ پہنچیں اور جا کر بیٹے کا نام لے کر پکارا۔ اے ظار! اس نے جواب دیا کہ کیوں اماں اور پانی سے زندہ نکل کر چلا آیا۔ حضرت سری ؒ نے حضرت جنید سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس عورت کا ایک خاص ایسا مقام اور درجہ ہے کہ اس عورت پر جو مصیبت آنے والی ہوتی ہے اس کو خبر کر دی جاتی ہے اور اس کی خبر نہیں ہوئی تھی اس لئے اس نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔"
یہاں وہی "ہمیشگی" کا تصور کارفرما ہے جس کی تردید عقیدہ کی زبان میں کی جاتی ہے۔
پھر یہ بھی بتائیے گا کہ آیا یہ مقام اور درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل رہا یا نہیں؟


حضرت عمر رضي اللہ عنہ حضرت ساریہ کو ہزاروں میل فاصلے سے آواز دی ، نہ صرف اواز دی بلکہ خطرہ سے اگاھ بھی کیا اور اس طرح ہزاروں میل کے فاصلے سے بطور کرامت ان کی مدد کی ۔ تو اگر کسی شیخ نے بطور کرامت اپنے مرید کی مدد کی تو عقیدہ کا بگاڑ کہاں سے آیا ؟؟؟؟؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ساریہ کی ایران میں مدد کی جب کہ وہ خود مدینہ میں تھے تو اس مستند واقعہ کو ہم کرامت کہتے ہیں تو اگر کوئی شیخ بطور کرامت کسی کی مدد کردے تو ہم اس کو کیوں کرامت نہیں کہتے اور کیوں اس کو عقیدہ کا بگاڑ کہتے ہیں اور دیوبندوں کو کیوں شرکیہ عقیدہ سے متھم کرتےہیں
حضرت ساریہ والا واقعہ کسی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں۔

خیال کرنے سے آپ نے مراد کیوں استمداد ہی لی ہے توسل بھی تو لے سکتے تھے ؟؟ چوں کہ آپ نے استمداد کا معنی لیا ہے تو پہلے آپ بتائيں گے کہ آپ نے استمداد کیوں معنی لیا ، اور توسل معنی کیوں نہ لیا ۔۔۔
اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امدادکا ہوگا۔

پیر کی طرف خیال کرنے کے بعد یہ عرض کس سے کی گئی تھی؟ پیر سے یا اللہ سے؟
توسل تو یہ ہوتا ہے کہ مانگا اللہ سے جائے اور اس مانگنے میں کسی کا وسیلہ دے دیا جائے۔
براہ راست پیر سے "عرض کرنا" کہ اس وقت "مدد" کریں، یہ استمداد لغیراللہ نہیں، تو پھر بریلوی بھی بہرحال استمداد لغیراللہ کے مرتکب نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم بھائی آپ کی بات سو فیصد ٹھیک ہے میں تو ان میں رہا ہوں تو مماتیوں کے عقائد توحید و بدعت کے لحاظ سے کافی بہتر ہیں بلکہ حیاتیوں کی انکے پیچھے نماز بھی نہیں ہوتی جیسے نوائے دل بھائی نے شاہد کوئی تھریڈ شروع کیا ہے کہ حیاتی کہ نماز مماتی کے پیچھے- جس میں تبلیغی جماعت کے مفتی کا فتوی درج ہے
جہاں تک حیاتیوں کے عقائد کا تعلق ہے تو میرے خیال میں ان کے بزرگوں کے واقعات میں تو بالکل بریلویوں والے عقائد ہیں صرف ایک خیال رکھا گیا ہے کہ جیسے بینک والوں نے غالبا ضیاء الحق کے دور میں سود کا نام مارک یپ رکھ کر حلال کر لیا تھا یا آج کوئی پیشاب کی باتل بھر کے اسکے اوپر شربت بزوری کا لیبل لگا دے
جہاں تک حیاتی عوام کا تعلق ہے تو وہ اس شرک سے بچنا تو چاہتے ہیں مگر انکا یہ بچنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسلمان پیدائشی مسلمان ہونے کی وجہ سے بہت سے کام کرتا ہے- ان میں سب سے بڑی بیماری شیطان نے جو ڈالی ہے وہ بزرگوں کی غیر مشروط تعظیم اور اتباع ہے پس یہ چیز انکو شرک کے رد کی توفیق نہیں دیتی حالانکہ دل انکا کھٹک رہا ہوتا ہے-پس میں چاہتا ہوں کہ جس چیز سے دل کھٹک رہا ہے اسی پر لوہار کی طرح بار بار ضرب لگائیں تو ہو سکتا ہے بزرگوں کی غیر مشروط تعظیم والی بیماری بھی کم ہو جائے کیونکہ ان پر بریلویوں سے کم محنت کرنی پڑے گی کیونکہ ان کے پاس سکیل ہے مگر وہ سکیل شیطان بریلویوں کے مقابلے میں تو نکالنے دیتا ہے مگر اپنے معاملے میں اسکو ملبس کر دیتا ہے اس پر بھی ان شاء اللہ علیحدہ تفصیل سے لکھو گا اللہ قبول فرمائے امین
کیا مطلب آپ دیوبندی تھے؟ مجھے اپنا نمبر دے دیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یار زندہ صحبت باقی۔!
آپ نے جو واقعہ بنی اسرائیل کا پیش کیا ہے۔ اگر یہ وہی ہے کہ جو گائے کا ٹکڑا مارنے سے زندہ ہوا تو یہ اس مردے کی کرامت تھی یا اس وقت کے زندہ نبی کا معجزہ تھا؟ کیا اللہ نے براہ راست بنی اسرائیل سے کلام کیا تھا؟
میرا اس پر کوئی مطالعہ نہیں ہے کہ آیا مرنے کے بعد بھی کسی نبی یا ولی سے کرامت کا ظہور ممکن ہے یا نہیں۔
اس متعلق امام ابن تیمیہ وغیرہ نے لکھا ہے :شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ''شرک کی اقسام میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی ضروریات فوت شدہ اولیاء اللہ سے طلب کرے، ان کے نام سے استغاثہ کرے اور ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائے، حقیقت یہ ہے کہ یہی شرک کی جڑ ہے۔جوشخص فوت ہوچکا، اس کے اعمال منقطع ہو چکے۔ وہ تو اب خود اپنی ذات کے نفع و نقصان پر بھی قدرت نہیں رکھتا چہ جائیکہ دوسروں کی ضروریات میں کام آئے، ان کی فریاد سنے یا یہ کہے کہ وہ اللہ سے اسکی سفارش کرے گا۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ طالب و مطلوب اور شافع و مشفوع دونوں برابر ہیں''۔
احناف کی مشہور کتا ب ''فتاویٰ البزازیہ''میں لکھا ہے کہ : ''جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بزرگانِ دین اور مشائخ کی روحیں حاضر ہیں اور ہمارے بارے میں علم رکھتی ہیں، وہ کافر ہو جاتا ہے۔
شیخ صنع اللہ حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب ''الردّعلی من ادعی ان للاولیاء تصَرفات فِی الحیات و بعد الممات علی سبیلِ الکرامۃ''میں تحریر فرماتے ہیں کہ:''دورِ حاضر میں مسلمانوں میں کچھ گروہ اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو اپنی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی اس عالم میں قدرت، تصرف حاصل ہے اور شدائد و بلیات میں اُن سے استغاثہ اور استعانت کی جا سکتی ہے کیونکہ اُن کی سعی و ہمت سے مشکلات رفع ہوتی ہیں۔ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے ان کی قبروںپر آتے ہیں اور ان سے حاجات رفع کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ یہ اصحابِ کرامت تھے۔ وہ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اِن میں ابدال بھی تھے اور نقباء بھی، اوتاد بھی تھے اور نجباء بھی، ان کی تعداد ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتی ہے۔ قطب وہ ہے جو لوگوں کی فریادیں سنتے ہیں اور ان ہی پر اس نظام کا دارومدار ہے۔ ان کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں، جانور بھی ذبح کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولیاء ا ن کو مستحق اجر گردانتے ہیں''۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یار زندہ صحبت باقی۔!


کسی دوسرے کے انکار کی کیا اہمیت۔ خود دیوبندی حضرات ان واقعات کا نہ صرف یہ کہ انکار نہیں کرتے بلکہ بے جا و ناجائز تاویلات و دفاع تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جیسا کہ آپ نے بھی اپنی اس پوسٹ میں ثبوت دیا ہے۔
ہم ناجائز تاویلات نہیں کرتے ، جو واقعات کرامت کے ضمن میں شمار ہوسکتے ہیں ہم ان کو کرامت کے تحت شمار کرتے ہیں اور کسی کے ایمان پر کوئي شک نہیں کرتے
یہ بعض صورتوں میں بالکل درست ہے کیونکہ عوام الناس ان سے گمراہ ہوتے ہیں۔
اور بعض صورتوں میں بطور رد عمل کے ہو سکتا ہے جو ظاہر ہے غلط ہے۔
احادیث کی کتب میں کئی کرامات موجود ہیں جن میں کسی امتی نے غیب کی خبر دی تو کہیں عوام الناس کسی امتی کو عالم الغیب نہ سمجھ لیں اور گمراہ نہ ہوجائیں تو ان احادیث کو کتاب سے محو کردیں گے ؟؟؟؟
بہرحال، برسبیل تنزل مان لیا جائے کہ مردہ نبی یا ولی سے بھی معجزات و کرامات کا ظہور ممکن ہے۔ لیکن آخر کرامت یا معجزہ کی حقیقت بھی تو کوئی چیز ہے یا نہیں؟ اور یہ حقیقت میری نظر میں تو یہ ہے کہ معجزہ یا کرامت سے حق والوں کی پہچان مقصود ہوتی ہے، عموماً کسی ضرورت کے تحت ان کا ظہور ہوتا ہے، لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی مقصود ہوتی ہے، وغیرہ۔
بالکل کرامت کا ظھور کسی مقصد سے ہوتا ہے ، علماء دیوبند سے جو کرامات ہوئیں وہ ان کے متبعین کی حق پر استقامت اور ان کے دل کی تقویت کے لئيے تھیں ، اس کی اور وجوھ بھی ہو سکتیں ہیں
بھائی، کرامت کی حقیقت کو ذہن میں رکھیں اور پھر بتائیں کہ اگر کرامت یہ ہو کہ فلاں قبر کی مٹی سے فیض پہنچ رہا ہے، تو یہ کرامت قبر پرست لوگوں کی دلیل بنے گی یا مؤحدین کی؟ عوام الناس قبر پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوں گے یا قبروں سے فیوض حاصل ہونے کی نفی کریں گے؟
بلکہ دیوبندی علماء نے تو وہ واقعات بھی نقل کر رکھے ہیں کہ جس میں قبروں پر مراقب ہونے سے روٹی مل گئی، یا ویسے بہت سے علوم حاصل ہو گئے۔ اب آپ بتائیے کہ آپ اسے مردے کی کرامت مانیں گے تو قبر پر مراقبہ کرنے والوں کو کیسے روکیں گے؟ وہ جواب میں واقعہ پیش کر کے کہیں گے کہ بطور کرامت مردے سے علوم کا حاصل ہونا، فیض و نفع حاصل ہونا ممکن ہے تو کیوں مراقب نہ ہوں؟
یہ اعتراض آپ کا وہی ہے جو آپ نے اوپر پیش کیا
مکرر عرض ہے کیا اس خوف سے کہیں عوام الناس کسی امتی کو عالم الغیب نہ سمجھ لیں کیا اپ ان احادیث کے محو کرنے کے حق میں جن میں کسی امتی نے غیب کے علم کی خبر دی ؟؟؟؟؟
بریلوی بھی اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے لئیے انہی احادیث کا سہارا لیتے ہیں جس میں کسی امتی کا علم غیب میں سے کوئي خبر دینا ہوتا ہے
سمجھتا تو میں بھی یہی ہوں۔ لیکن آگبوٹ والے واقعے میں استعانت کو توسل قرار دینے کی جو آپ نے تاویل کی ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بریلویوں کا استعانت کے تحت جو عقیدہ ہے، آپ اسے توسل کے تحت قبول کرتے ہیں۔ ورنہ دونوں میں کوئی جوہری فرق نہیں۔
بریلوی حضرات عموما جن بزرگوں سے استعانت کرتے ہیں ان کو توسل کے تحت ماننا اس لئيے ممکن نہیں کیوں کہ وہ ان کے نام نذر و نیاز کرتے ہیں ، چڑھاوے چڑھاتے ہیں ، حتی کہ ان کی قبور پر سجدہ بھی کرتے ہیں جب کہ دیوبند میں ایسی کوئی خرافات نہیں ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہاں مراد توسل ہی ہے
ویسے اس کی تائید فتاویٰ عالمگیری کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے:
جس شخص نے آپ کی خدمت میں سلام کہنے کی تاکید کی ہو آپ کو اس کا سلام بھی عرض کرے پس یوں کہے کہ یارسول اللہ فلاں بن فلاں نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے اور وہ آپ کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتا ہے سو آپ اس کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے شفاعت کریں۔ [عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۲۸۲ طبع مصر]
میں مذکورہ عبارت سے آپ کا مقصد نہیں سمجھا ، کیا آپ کچھ وضاحت کریں گے
تصرف سے میرے ذہن میں وہ واقعہ تھا کہ جب ایک دیوبندی عالم قبر کی منوں مٹی کے نیچے سے "جسد عُنصری" کے ساتھ دار العلوم میں تشریف لے آئے تھے۔ اور پھر یہ غور کیجئے کہ بریلویوں کا عقیدہ بھی یہی تو ہے کہ خدائے قدیر نے اولیائے کاملین کی روحوں کو عالم برزخ میں بھی تصرف کی قدرت بخشی ہے اور وہ زندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اور آپ بھی یہی کچھ "کرامت" کے ضمن میں ثابت کر رہے ہیں۔ کیا بریلوی اسے کرامت نہیں مانتے ؟ کچھ اور مانتے ہیں؟ وہ بھی تو بطور کرامت ہی مردوں کو زندوں کی مدد کرنے اور تصرف پر باذن اللہ قادر مانتے ہیں۔ اور آپ بھی یہی کچھ مان رہے ہیں۔ تو فرق کہاں ہے اور کیا ہے؟
جب توسل یا کرامت ہوتا ہے تو اس بزرگ کے نام پر چڑھاوے ، نذر و نیاز ، سجدے نہیں ہوتے ، جب صرف استعانت مراد ہوتی ہے تو مذکورہ خرافات بھی ہوتیں ہیں
میرے بھائی، اگر لفظ "ہمیشہ" کا ہونا ضروری قرار پائے تو شاید کسی واقعہ یا تحریر میں ہمیشہ غیب کی بات بتانے کا ذکر نہ مل سکے ۔ لیکن مثال کے طور پر درج ذیل کرامت دیوبندی خواتین کے لئے لکھی گئی مشہور کتاب "بہشتی زیور" سے "حضرت سری سقطی کی ایک مریدنی کا ذکر" ملاحظہ فرمائیے۔
"ان بزرگ کے ایک مرید بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پیر کی ایک مریدنی تھی ان کا لڑکا مکتب میں پڑھتا تھا۔ استاد نے کسی کام کو بھیجا وہ کہیں پانی میں جا گرا اور ڈوب کر مر گیا۔ استاد کو خبر ہوئی اس نے حضرت سری ؒ کے پاس جا کر خبر کی ۔ آپ اٹھ کر اس مریدنی کے گھر گئے اور صبر کی نصیحت کی۔ وہ مریدنی کہنے لگی کہ حضرت آپ یہ صبر کا مضمون کیوں فرما رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ تیرا بیٹا ڈوب کر مر گیا۔ تعجب سے کہنے لگی میرا بیٹا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں تیرا بیٹا۔ کہنے لگیں کہ میرا بیٹا کبھی نہیں ڈوبا اور یہ کہہ کر اس جگہ پہنچیں اور جا کر بیٹے کا نام لے کر پکارا۔ اے ظار! اس نے جواب دیا کہ کیوں اماں اور پانی سے زندہ نکل کر چلا آیا۔ حضرت سری ؒ نے حضرت جنید سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس عورت کا ایک خاص ایسا مقام اور درجہ ہے کہ اس عورت پر جو مصیبت آنے والی ہوتی ہے اس کو خبر کر دی جاتی ہے اور اس کی خبر نہیں ہوئی تھی اس لئے اس نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔"
یہاں وہی "ہمیشگی" کا تصور کارفرما ہے جس کی تردید عقیدہ کی زبان میں کی جاتی ہے۔
یہ ہمیشگی نہیں کہلائے گی ، ایک کرامت مسلسل کہلائے گی ، اور کرامت مسلسل کی واضح مثال قرآن میں موجود ہے جب حضرت مریم علیہ السلام کے پاس جب بھی جضرت زکریا علیہ السلام آتے تو ان کے پاس رزق پاتے
پھر یہ بھی بتائیے گا کہ آیا یہ مقام اور درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل رہا یا نہیں؟
یہ اعتراض انتہائی فضول ہے ، کتنی ہی کرامات ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں تو کیا اس قبیل سے کہ یہ معجزہ نبی سے ثابت نہیں اگر صحابہ کی کرامت سچ سمجھی جائے گی تو نبی کی تنقیص لازم آئے گی تو صحابی کی کرامت کا انکار کیا جائے گا ؟؟؟ عجیب منطق ہے !!!
حضرت ساریہ والا واقعہ کسی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں۔
آپ خصرات اس روایت کے قائل ہیں ملاحظہ ہو یہ فتوی
جہاں تک حضرت عمر �کے واقعہ یَا سَارِیَة الْجَبَلَ (4) کا تعلق ہے ، یہ واقعہ سنداً بلاشبہ قابل قبول ہے لیکن یہ بطور کرامت ہے
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1506
اب تو آپ کے فتاوی پر اس سند کو صحیح کہا گيا ہے تو اب بتائیں آپ اس واقعہ کے تعلق سے میرے سوالات کا کیا جواب دیں گے
اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امدادکا ہوگا۔
پیر کی طرف خیال کرنے کے بعد یہ عرض کس سے کی گئی تھی؟ پیر سے یا اللہ سے؟
توسل تو یہ ہوتا ہے کہ مانگا اللہ سے جائے اور اس مانگنے میں کسی کا وسیلہ دے دیا جائے۔
براہ راست پیر سے "عرض کرنا" کہ اس وقت "مدد" کریں، یہ استمداد لغیراللہ نہیں، تو پھر بریلوی بھی بہرحال استمداد لغیراللہ کے مرتکب نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔
اگر ہم یہ عقیدہ رکتھے کے فلاں بزرگ مدد کر سکیتے ہیں تو بریلوی حضرات کی طرح چڑھاوے چڑھا رہے ہوتے کما ذکر
دوم مذکورہ قصہ میں اگلا جملا بھی پڑھ لیں
اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میرا اس پر کوئی مطالعہ نہیں ہے کہ آیا مرنے کے بعد بھی کسی نبی یا ولی سے کرامت کا ظہور ممکن ہے یا نہیں۔
انس خضر حیات کفایت اللہ برادران سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں اہلحدیث کے درست مؤقف سے آگاہ فرمائیں۔
صحیح معجزات و کرامات اور ان بزرگوں کے واقعات میں دو بڑے فرق ہیں
1-معجزات اور کرامات چاہے مرنے سے پہلے ہوں یا بعد میں ان انسان کا اختیار نہیں ہوتا اسکی مثالیں بھری پڑی ہیں کہ انبیاء سے معجزات کا مطالبہ کیا گیا مگر وہ نہ دکھا سکے اور اعتراف بھی کیا بلکہ کروایا گیا جیسے قل لا اقول لکم عندی خزائن اللہ------
اور
ترمذی ابن ماجہ مستدرک وغیرہ میں جابر بن عبد اللہ رضی االلہ عنھما والی روایت جو ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ----- کے شان نزول کے بارے میں ہے کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارا باپ واپس آنا چاہتا تھا مگر یہ اللہ کے قانون کے خلاف تھا لیکن تمھاری بات جبرائیل کے ذریعے اللہ پہنچا دے گا اور یہ آیت نازل ہوئی یعنی جابر رضی اللہ عنہ اپنے باپ کے بارے پریشان ہیں مگر باپ ڈائریکٹ انکو نہیں بتا سکتا بلکہ وحی کا سہارا لیا ہے


اب غور کریں کہ جب ہمارا عقیدہ ہو کہ جب اللہ چاہے تو کرامت ہو سکتی ہے تو پھر کبھی ہم ان بزرگوں سے مدد نہیں مانگیں گے پس کرامت ہمارا عقیدہ خراب نہیں کرے گی


بس یہی فرق ہے شرعی طور پر ثابت کرامات اور ان بزرگوں کی گھڑی گئی کرامات میں-

اوپر سے چونکہ یہ کرامات شیطان کی طرف سے گھڑوائی گئی ہیں جو انی لکما لمن الناصحین کے تحت ہمدردی دکھاتے ہوئے یہ سب کرتا ہے پس ان کرامات میں بھی کچھ ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ اندر پیشاب بھر کر اوپر شربت بزوری کا لیبل لگا دیا گیا ہے جیسے کہ آبگوٹ والی مثال میں لکھا ہے کہ اپنے پیر روشن ضمیر کی طرف خیال کیا کہ اس سے زیادہ مدد کا کیا وقت ہے یہ پیشاب ہے- اور بعد میں لکھا ہے اللہ کار ساز قادر مطلق ہے یہ اوپر شربت بزوری کا لیبل ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یار زندہ صحبت باقی۔!
آپ نے جو واقعہ بنی اسرائیل کا پیش کیا ہے۔ اگر یہ وہی ہے کہ جو گائے کا ٹکڑا مارنے سے زندہ ہوا تو یہ اس مردے کی کرامت تھی یا اس وقت کے زندہ نبی کا معجزہ تھا؟ کیا اللہ نے براہ راست بنی اسرائیل سے کلام کیا تھا؟
میرا اس پر کوئی مطالعہ نہیں ہے کہ آیا مرنے کے بعد بھی کسی نبی یا ولی سے کرامت کا ظہور ممکن ہے یا نہیں۔
ہم ناجائز تاویلات نہیں کرتے ، جو واقعات کرامت کے ضمن میں شمار ہوسکتے ہیں ہم ان کو کرامت کے تحت شمار کرتے ہیں اور کسی کے ایمان پر کوئي شک نہیں کرتے

احادیث کی کتب میں کئی کرامات موجود ہیں جن میں کسی امتی نے غیب کی خبر دی تو کہیں عوام الناس کسی امتی کو عالم الغیب نہ سمجھ لیں اور گمراہ نہ ہوجائیں تو ان احادیث کو کتاب سے محو کردیں گے ؟؟؟؟

بالکل کرامت کا ظھور کسی مقصد سے ہوتا ہے ، علماء دیوبند سے جو کرامات ہوئیں وہ ان کے متبعین کی حق پر استقامت اور ان کے دل کی تقویت کے لئيے تھیں ، اس کی اور وجوھ بھی ہو سکتیں ہیں

یہ اعتراض آپ کا وہی ہے جو آپ نے اوپر پیش کیا
مکرر عرض ہے کیا اس خوف سے کہیں عوام الناس کسی امتی کو عالم الغیب نہ سمجھ لیں کیا اپ ان احادیث کے محو کرنے کے حق میں جن میں کسی امتی نے غیب کے علم کی خبر دی ؟؟؟؟؟
بریلوی بھی اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے لئیے انہی احادیث کا سہارا لیتے ہیں جس میں کسی امتی کا علم غیب میں سے کوئي خبر دینا ہوتا ہے


بریلوی حضرات عموما جن بزرگوں سے استعانت کرتے ہیں ان کو توسل کے تحت ماننا اس لئيے ممکن نہیں کیوں کہ وہ ان کے نام نذر و نیاز کرتے ہیں ، چڑھاوے چڑھاتے ہیں ، حتی کہ ان کی قبور پر سجدہ بھی کرتے ہیں جب کہ دیوبند میں ایسی کوئی خرافات نہیں ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہاں مراد توسل ہی ہے

میں مذکورہ عبارت سے آپ کا مقصد نہیں سمجھا ، کیا آپ کچھ وضاحت کریں گے


جب توسل یا کرامت ہوتا ہے تو اس بزرگ کے نام پر چڑھاوے ، نذر و نیاز ، سجدے نہیں ہوتے ، جب صرف استعانت مراد ہوتی ہے تو مذکورہ خرافات بھی ہوتیں ہیں

یہ ہمیشگی نہیں کہلائے گی ، ایک کرامت مسلسل کہلائے گی ، اور کرامت مسلسل کی واضح مثال قرآن میں موجود ہے جب حضرت مریم علیہ السلام کے پاس جب بھی جضرت زکریا علیہ السلام آتے تو ان کے پاس رزق پاتے

یہ اعتراض انتہائی فضول ہے ، کتنی ہی کرامات ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں تو کیا اس قبیل سے کہ یہ معجزہ نبی سے ثابت نہیں اگر صحابہ کی کرامت سچ سمجھی جائے گی تو نبی کی تنقیص لازم آئے گی تو صحابی کی کرامت کا انکار کیا جائے گا ؟؟؟ عجیب منطق ہے !!!

آپ خصرات اس روایت کے قائل ہیں ملاحظہ ہو یہ فتوی
جہاں تک حضرت عمر �کے واقعہ یَا سَارِیَة الْجَبَلَ (4) کا تعلق ہے ، یہ واقعہ سنداً بلاشبہ قابل قبول ہے لیکن یہ بطور کرامت ہے
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1506
اب تو آپ کے فتاوی پر اس سند کو صحیح کہا گيا ہے تو اب بتائیں آپ اس واقعہ کے تعلق سے میرے سوالات کا کیا جواب دیں گے


اگر ہم یہ عقیدہ رکتھے کے فلاں بزرگ مدد کر سکیتے ہیں تو بریلوی حضرات کی طرح چڑھاوے چڑھا رہے ہوتے کما ذکر
دوم مذکورہ قصہ میں اگلا جملا بھی پڑھ لیں



یا ساریۃ الجبل والی روایت کے تمام تر طرق ضعف سے بھرے پڑے ہیں
کسی سند میں أیوب بن خواط متروک ہے
تو کسی میں سیف بن عمر کذاب ہے
کسی میں واقدی کذاب ہے
تو کسی میں فرات سائب وضاع ہے ۔
صرف ایک سند ایسی ہے کہ جسکا ضعف اتنا شدید نہیں ہے اور وہ ہے محمد بن عجلان والی سند ۔
لیکن یاد رہے کہ اس سند میں بھی ابن عجلان کا عنعنہ ہے اور ابن عجلان مدلس راوی ہے ۔ لہذا وہ سند بھی ضعیف ہی ہے ۔
الغرض اس روایت کا تعدد طرق اسکے ضعف میں اضافہ ہی کا باعث بنتا ہے نہ کہ کمی کا !
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یا ساریۃ الجبل والی روایت کے تمام تر طرق ضعف سے بھرے پڑے ہیں
کسی سند میں أیوب بن خواط متروک ہے
تو کسی میں سیف بن عمر کذاب ہے
کسی میں واقدی کذاب ہے
تو کسی میں فرات سائب وضاع ہے ۔
صرف ایک سند ایسی ہے کہ جسکا ضعف اتنا شدید نہیں ہے اور وہ ہے محمد بن عجلان والی سند ۔
لیکن یاد رہے کہ اس سند میں بھی ابن عجلان کا عنعنہ ہے اور ابن عجلان مدلس راوی ہے ۔ لہذا وہ سند بھی ضعیف ہی ہے ۔
الغرض اس روایت کا تعدد طرق اسکے ضعف میں اضافہ ہی کا باعث بنتا ہے نہ کہ کمی کا !
مرنے کے بعد کسی ولی سے کرامت کا ظہور ، اس سے تو آپ کی کتابیں بھری پڑی ہیں کیا یہ ممکن کہ کسی ولی سے یا نبی سے مرنے کے بعد کرامت کا ظہور ہوا ہو ؟ اور اس کا آپ نے کوئی جواب ہی نہیں دیا ہے:
اس متعلق امام ابن تیمیہ وغیرہ نے لکھا ہے :شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ''شرک کی اقسام میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی ضروریات فوت شدہ اولیاء اللہ سے طلب کرے، ان کے نام سے استغاثہ کرے اور ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائے، حقیقت یہ ہے کہ یہی شرک کی جڑ ہے۔جوشخص فوت ہوچکا، اس کے اعمال منقطع ہو چکے۔ وہ تو اب خود اپنی ذات کے نفع و نقصان پر بھی قدرت نہیں رکھتا چہ جائیکہ دوسروں کی ضروریات میں کام آئے، ان کی فریاد سنے یا یہ کہے کہ وہ اللہ سے اسکی سفارش کرے گا۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ طالب و مطلوب اور شافع و مشفوع دونوں برابر ہیں''۔
احناف کی مشہور کتا ب ''فتاویٰ البزازیہ''میں لکھا ہے کہ : ''جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بزرگانِ دین اور مشائخ کی روحیں حاضر ہیں اور ہمارے بارے میں علم رکھتی ہیں، وہ کافر ہو جاتا ہے۔
شیخ صنع اللہ حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب ''الردّعلی من ادعی ان للاولیاء تصَرفات فِی الحیات و بعد الممات علی سبیلِ الکرامۃ''میں تحریر فرماتے ہیں کہ:''دورِ حاضر میں مسلمانوں میں کچھ گروہ اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو اپنی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی اس عالم میں قدرت، تصرف حاصل ہے اور شدائد و بلیات میں اُن سے استغاثہ اور استعانت کی جا سکتی ہے کیونکہ اُن کی سعی و ہمت سے مشکلات رفع ہوتی ہیں۔ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے ان کی قبروںپر آتے ہیں اور ان سے حاجات رفع کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ یہ اصحابِ کرامت تھے۔ وہ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اِن میں ابدال بھی تھے اور نقباء بھی، اوتاد بھی تھے اور نجباء بھی، ان کی تعداد ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتی ہے۔ قطب وہ ہے جو لوگوں کی فریادیں سنتے ہیں اور ان ہی پر اس نظام کا دارومدار ہے۔ ان کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں، جانور بھی ذبح کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولیاء ا ن کو مستحق اجر گردانتے ہیں''۔
آپ حدیث ،آثار اور انبیاء کی کرامات اور عام لوگوں کے بے سند اور من گھڑت قصوں میں فرق کیوں نہیں کرتے ؟آپ صرف اپنی ہار کی وجہ سے حق بات کو تسلیم نہیں کرتے حالاں کہ آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آپ اس طرح کے قصوں کو نہیں مانتے اگر آپ ان سے براءت کا اعلان کریں گے تو دوسرے لوگوں کو فائدہ ہوگا
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اوپر سے چونکہ یہ کرامات شیطان کی طرف سے گھڑوائی گئی ہیں جو انی لکما لمن الناصحین کے تحت ہمدردی دکھاتے ہوئے یہ سب کرتا ہے پس ان کرامات میں بھی کچھ ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ اندر پیشاب بھر کر اوپر شربت بزوری کا لیبل لگا دیا گیا ہے جیسے کہ آبگوٹ والی مثال میں لکھا ہے کہ اپنے پیر روشن ضمیر کی طرف خیال کیا کہ اس سے زیادہ مدد کا کیا وقت ہے یہ پیشاب ہے- اور بعد میں لکھا ہے اللہ کار ساز قادر مطلق ہے یہ اوپر شربت بزوری کا لیبل ہے
محترم یہ تو نہ مانوں والی بات ہے
جب واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ اللہ کارساز مطلق ہے تو یقینا سائل نے بطور توسل اپنے پیر کی طرف خیال کیا ہے
جہاں تک اس بوتل میں مال کچھ اور لیبل کچھ لگانے والی منطق ہے تو ایک مثال قرآن سے بھی دیتا ہوں ، اگر یہ واقعہ کسی دیوبندی کتاب میں ہوتا تو یقینا بوتل میں مال کچھ اور لیبل کچھ کی مثال ضرور آچکی ہوتی
جب حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت مریم علیہ السلام کے پاس آئے تو کہا
قال إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلاما زكيا
میں تمہیں لڑکا دینے آیا ہوں
ایک دوسری جگہ قرآن فرماتا ہے کہ
يَهَبُ لِمَنْ يَشَاء إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاء الذُّكُورَ
اللہ تبارک و تعالی جسے چاھتا ہے بیٹا دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے ، تو اگر آپ کی منطق پر چلا جائے تو یہاں معاذ اللہ آپ کہیں گے شرکیہ واقعہ پر توحید کی لیبل
کسی کے ایک قول دیکھ اس شخص کے متعلق کوئي رائے نہیں قائم کی جا سکتی تو ایک شخص کے قول پر کس طرح ایک پورے مسلک کے عقائد اخذ کیے جاسکتے ہیں
آپ ہمارے فتاوی دیکھیں ، اگر ہم کسی غیر حاضر شخص سے استمداد کے قائل ہوتے تو کیا ہمارا جو استمداد کے متعلق مستند دینی درسگا ہوں کے فتاوی ہیں وہ فتاوی ہوتے ؟؟؟؟؟ مالکم کیف تحکمون ۔
اگر صرف ایک واقعہ سے کسی جماعت کا عقیدہ معلوم کیا جانا آپ کے ہاں ایک مستند منطق ہے تو اس منطق کی بنیاد پر مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہونا چائیے کہ ملائکہ بیٹے عطا کرسکتے ہیں کیوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے وھب کا لفظ ااستعمال کیا جو اللہ تباک و تعالی نے استعمال کیا اور باذن اللہ کے لقظ کا اضافہ بھی نہ کیا
محترم صرف ایک واقعہ میں ایک جملہ کو لے کر (جس کی مناسبب تاویل ممکن ہے ) کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرلینا کہ دیوبندی حضرات اپنے بزرگوں کو مافوق الاسباب پکارتے ہیں ایک عظیم خیانت ہے ۔ اور اگر وضاحت کا جملہ اگلی سطر میں موجود ہے تو اس کو ملاوٹی مال ، اوریجنل لیبل والی منطق کہنا سمجھ سے بالا تر ہے
آپ حضرت جبرائیل عیلیہ السلام کے قول کی تشریح کریں گے یا بنا تشریح کیے ان کے قول سے کوئ عقیدہ بنا لیں گے ؟؟؟؟ سوچئیے گا ضرور
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یا ساریۃ الجبل والی روایت کے تمام تر طرق ضعف سے بھرے پڑے ہیں
کسی سند میں أیوب بن خواط متروک ہے
تو کسی میں سیف بن عمر کذاب ہے
کسی میں واقدی کذاب ہے
تو کسی میں فرات سائب وضاع ہے ۔
صرف ایک سند ایسی ہے کہ جسکا ضعف اتنا شدید نہیں ہے اور وہ ہے محمد بن عجلان والی سند ۔
لیکن یاد رہے کہ اس سند میں بھی ابن عجلان کا عنعنہ ہے اور ابن عجلان مدلس راوی ہے ۔ لہذا وہ سند بھی ضعیف ہی ہے ۔
الغرض اس روایت کا تعدد طرق اسکے ضعف میں اضافہ ہی کا باعث بنتا ہے نہ کہ کمی کا !
اس لنک کو دیکھ لیں ، آپ کی محدث فتوی کمیٹی اس واقعہ کی سند کو صحیح قرار دے رہی ہے ،
جہاں تک حضرت عمر �کے واقعہ یَا سَارِیَة الْجَبَلَ (4) کا تعلق ہے ، یہ واقعہ سنداً بلاشبہ قابل قبول ہے لیکن یہ بطور کرامت ہے
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1506
پہلے محدث فتوی پر تصحیح کروائیں پھر اس واقعہ کو ضعیف بتائيے گا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم یہ تو نہ مانوں والی بات ہے
یہ ہمیشگی نہیں کہلائے گی ، ایک کرامت مسلسل کہلائے گی ، اور کرامت مسلسل کی واضح مثال قرآن میں موجود ہے جب حضرت مریم علیہ السلام کے پاس جب بھی جضرت زکریا علیہ السلام آتے تو ان کے پاس رزق پاتے

یہ اعتراض انتہائی فضول ہے ، کتنی ہی کرامات ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں تو کیا اس قبیل سے کہ یہ معجزہ نبی سے ثابت نہیں اگر صحابہ کی کرامت سچ سمجھی جائے گی تو نبی کی تنقیص لازم آئے گی تو صحابی کی کرامت کا انکار کیا جائے گا ؟؟؟ عجیب منطق ہے !!!

آپ خصرات اس روایت کے قائل ہیں ملاحظہ ہو یہ فتوی
جہاں تک حضرت عمر �کے واقعہ یَا سَارِیَة الْجَبَلَ (4) کا تعلق ہے ، یہ واقعہ سنداً بلاشبہ قابل قبول ہے لیکن یہ بطور کرامت ہے
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1506
اب تو آپ کے فتاوی پر اس سند کو صحیح کہا گيا ہے تو اب بتائیں آپ اس واقعہ کے تعلق سے میرے سوالات کا کیا جواب دیں گے
جو کرامات کتب احادیث میں لکھی گئی ہیں ان کا مقصد تو یہ ثابت کرنا ہے کہ ولی سے کرامت کا ظہور اس کی زندگی میں ممکن ہے لیکن آپ نے اپنی کتابوں میں من گھڑت واقعات کیوں لکھے ہیں ؟ مردوں کے واقعات سے کچھ تو ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟
 
Top