• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقائد میں اختلاف مسلک اہل حدیث کے افراد کو کیوں نظر نہیں آتا

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میں نے دیوبندیوں کے کچھ ایسے مسائل جمع کئے ہیں جن کے بارے میں اہل حدیثوں اور عام دیوبندیوں کا بھی یہی خیال ہے کہ ان میں دیوبندیوں اور بریلویوں کا اختلاف ہے۔ یہ دیوبندیوں کا ڈھکوسلہ ہے کہ یہ بریلویوں سے مختلف ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بریلوی، دیوبندی اور قادیانی ہم مسلک ہیں۔

بھائی امیج نظر نہیں آ رہا ہے
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
دیوبندیوں اور بریلویوں میں فرق؟

نجانے کیوں بہت سے لوگوں کو یہ تلخ حقیقت ہضم نہیں ہوتی کہ دیوبندی حضرات بھی بعینہ اسی طرح کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں جیسے کہ بریلوی یا رافضی۔طالب الرحمن شاہ صاحب حفظہ اللہ کی کتاب دیوبندیت تاریخ و عقائد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوبندی حضرات عقائد میں بریلویوں کے ہم قدم اور قدم بہ قدم ہیں بلکہ بعض اوقات توکفر و شرک میں بریلویوں سے بھی دو قدم آگے ہیں۔پھر بھی ایک گروہ مشرک وکافر اور دوسرا گروہ موحدو توحید پرست؟؟؟ان لوگوں پر حیرت اور افسوس ہے جن کے نزدیک جب کفر اور شرک پر بریلوی یا رافضی ٹھپہ لگا ہو تو وہ واقعی کفر اور شرک ہوتا ہے اور ان لوگوں کے پیچھے نہ تو نماز جائز ہوتی ہے اور نہ ان سے محبت لیکن اسی کفر اور شرک پر اگر دیوبندی ٹھپہ لگا ہو توان کا دل اسے قبول نہیں کرتا اور فوراً تاؤیل کی فکر ہوتی ہے اور ان کے پیچھے نماز بھی جائز ہوتی ہے بلکہ جواز پر اصرار ہوتا ہے اور ان سے محبت بھی ضروری ٹھہرتی ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون

یہ دوہرے پیمانے درست نہیں۔ دیوبندی جو عقائد رکھتے ہیں اگر وہ کفریہ اور شرکیہ نہیں تو ہمیں بریلویوں اور رافضیوں کو بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد سے پاک قرار دینا چاہیے۔ ایک ہی طرح کے عقائد پر بریلوی اور رافضی نفرت اور دیوبندی محبت کے مستحق کیوں؟؟؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

جس بیچارے کا مضمون آپ لوگ کہیں کاپی پیسٹ کرتے ہو کبھی کبھی اس کا حوالہ بھی دے دیا کرو۔ یہ درخواست اس لئے ہے کہ بعض اوقات اصل مصنف کے بارے میں ہی لوگ شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اس نے ہی کسی کا مضمون چوری یا نقل کیا ہوگا۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جزاء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا)یا اللہ تعالیٰ کو کسی انسان میں مدغم سمجھناایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے۔عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء)قرار دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو تبصرہ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
امین
محترم بھائی میں نے پوچھا تھا کہ یہاں بات کرنی ہے یا نہیں کرنی-اس پر عبارۃ النص کی بجائے اشارۃ النص سے مجھے لگ رہا ہے کہ آپ ادھر شروع کرنا چاہتے ہیں محترم بھائی واللہ اگر آیت ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اور دوسرا موقف رکھنے والے ہمارے معزز علماء کا خیال نہ ہوتا تو بات نہ کرتا
محترم بھائی اس سلسلے میں تمہیدا یہ بتانا چاہوں گا کہ کسی کے قول یا عمل پر کفر کا حکم لگانے سے پہلے جائز تاویل کو مانع تکفیر کے طور پر دیکھنا لازمی ہوتا ہے چنانچہ موجودہ صورت حال کے تناظر میں دو باتیں ذہن میں رکھیں
1۔ کسی کا قولی عقیدہ عملی عقیدے کے خلاف ہو اور جب اس پر اسکی گرفت کریں تو وہ قولی عقیدے کو برقرار رکھتے ہوئے عملی عقیدے میں نا جائز تاویلیں شروع کر دے تو اس پر کافر کی بجائے منافق کا حکم لگانا زیادہ بہتر ہو گا جیسے عبد اللہ بن ابی
2۔ کسی کا قولی عقیدہ عملی عقیدے کے خلاف ہو اور جب اس پر اسکی گرفت کریں تو وہ قولی عقیدے کو برقرار رکھتے ہوئے عملی عقیدے میں جائز تاویلیں شروع کر دے تو اس کو غلط تو کہیں گے مگر منافق یا کافر کا فتوی نہیں آئے گا مثال کے طور پر وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشھود کے بارے عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ فتاوی اہل حدیث جلد 1 صفحہ 153 پر (محدث لائبریری میں ملاحظہ کر سکتے ہیں) کہتے ہیں

"یہ چار قسمیں توحید کی صوفیا کے ہاں معروف ہیں اخیر کی دو وہی ہیں جن کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے یعنی توحید حالی(وحدۃ الشھود) اور توحید الہی (وحدۃ الوجود)- یہ اصطلاحات زیادہ تر متاخرین صوفیا(ابن عربی رحمہ اللہ) کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں متقدمین کی کتب میں نہیں- ہاں مراد انکی صحیح ہے وحدۃ الشھود کا ذکر اس حدیث میں ہے-ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک- یہ حالت چونکہ راضت اور مجایدہ سے تعلق رکھتی ہے اس لئے یہ عقل سے سمجھنے کی شے نہیں ہاں اسکی مثال عاشق معشوق سے دی جا سکتی ہے عاشق جس پر معشوق کا تخیل اتنا غالب ہوتا ہے کہ کہ تمام اشیاء اسکی نظر میں کالعدم ہوتی ہیں خاص کر خدا کی ذات سے کسی کو عشق ہو جائے تو چونکہ تمام اشیاء اس کے اثار اور صفات کا مظہر ہیں اس لئے اس حالت کا زیادہ اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ ہر شئی میں اسکو خدا نظر آتا ہے وہ شئی نظر نہیں آتی جیسے شیشہ میں چہرے پر نظر پڑتی ہے نہ کہ شیشے پر----------------
اب رہی توحید وحدۃ الوجود تو اس کے بارے بہت دنیا بہکی ہوئی ہے بعض تو اسکو ہمہ اوست سمجھتے ہیں یعنی ہر شئ عین خدا ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ تمام موجودات وحدت حقیقی کا عکس ہیں جیسے ایک شخص کے گرد بہت سے شیشے رکھ دیں تو ہر ایک میں اسکا ہی عکس نظر آئے گا اور بعض کلی جزی کی مثال کہتے ہیں غرض دنیا عجیب گھورک دھندے میں پڑی ہوئی ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ-
صحیح بات یہ ہے کہ اگر اسکا یہ مطلب سمجھا جائے کہ سوا خدا کے کوئی شے حقیقتا موجود نہیں اور جو نظر آرہا ہے یہ محض توہمات ہیں تو یہ سراسر گمراہی ہے-لیکن اگر اسکا یہ مطلب ہے کہ موجودات انسانی ایجادات کی طرح نہیں کہ انسان کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں بلکہ یہ انکا وجود خدا کے سہارے پر ہے اگر ادھر سے قطع تعلق فرض کیا جائے تو انکا کوئی وجود نہیں تو یہ مطلب صحیح ہے جیسے بجلی کا کرنٹ قمقموں کے لئے ہے گویا حقیقت میں اس وقت ہر شے فانی ہے مگر ایک علمی رنگ میں اسکو سمجھنا ہے اور ایک حقیقت کا سامنے آنا ہے علمی رنگ میں تو سمجھنے والے بہت ہیں مگر حقیقت کا اس طرح سے سامنے آنا جیسے جیسے آنکھوں سے کوئی شے دیکھی جاتی ہے یہ خاص ارباب بصیرت کا حصہ ہے گویا قیامت والی فنا اس وقت ان لوگوں کے سامنے ہے پس ایۃ کریمہ کل شئی ھالک الا وجھہ انکے حق میں نقد ہے نہ کہ ادھار-ابن عربی، رومی، جامی وغیرہ کے کلمات اس توحید میں متشبہ ہیں اسلئے بعض انکے بارے اچھا اعتقاد رکھتے ہیں بعض برا-ابن تیمیہ وغیرہ ابن عربی سے بہت بدظن ہیں-مگر میرا خیال ہے کہ جب تک انکا کلام متحمل ہے(جیسے جامی کا اوپر کلام ہے جو اصل میں ابن عربی کا ہے) تو پھر انکے حق میں سوئے ظنی ٹھیک نہیں-انکا معاملہ خدا کے سپرد ہو چکا تو اب کرید کی کیا ضرورت- جیسے آیت ہے تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون"

محترم بھائی آخر میں میرے نظریات حیاتی دیوبندی کے بارے مندرجہ ذیل ہیں
1۔جو گزر چکے انکے عمل کو مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں مگر انکے کفر کا اقرار یا انکار سب سے کرانا مناسب نہیں
2۔جو موجود ہیں ان میں جو قول اور عمل دونوں سے شرک میں گر چکے ہیں تو یہ مطلقا کافر ہیں مگر چونکہ پریکٹیکل میں ہم چونکہ ظاہر کے مکلف ہیں سینہ چیر کر نہیں دیکھ سکتے اس لئے ہمیں یہ کم ہی نظر آتے ہیں
3۔جو موجود ہیں اور قول اور عمل سے ظاہرا شرک سے پاک ہیں مگر بزرگوں کی شرکیہ باتوں پر تاویل کرتے ہیں یا دل تو کڑھتا ہے مگر رد کی ہمت نہیں-ان کے بارے میں میں احتیاط کرتا ہوں
4-جو موجود ہیں اور قول سے تو نہیں مگر کچھ اعمال سے شرک میں ملوث ہیں ان سے مانع تکفیر دیکھتے ہوئے سخت رویہ رکھ سکتے ہیں

محترم بھائی تیسرے نمبر والے بھی چونکہ ہیں تو ہم سب پر مطلقا ایک حکم نہیں لگا سکتے ہاں انکی کتابوں کے تمام واقعات پر کھل کر رد کرنا چاہئے اور جو ان واقعات کی وجہ سے شرک یا باطنی صوفیت میں گر چکے ہیں انکا بھی کھل کر رد کرنا چاہئے
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو امین
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم تلمیذ بھائی،
یہ موضوع عقیدہ کا ہے اور بہت اہم ہے۔
اس معاملے میں غلطی دونوں طرف ہی پائی جاتی ہے۔
"زلزلہ"، "زیر و زبر" ہو یا "الدیوبندیہ" ۔۔ ان میں غلطی یہ ہے کہ ہر واقعے سے ہی عقائد اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ اکثر واقعات وہ ہیں، جنہیں کرامت کے ذیل میں شمار کیا جانا بالکل ممکن ہے۔
میری رائے کے مطابق الدیوبندیہ میں نقل ہر واقعہ کو کرامت کے تحت شمار کرنا ممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے کوئی ایسا واقعہ جو کرامت کی ذیل میں نہ آتا ہو لیکن مجھے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا

اور دیوبندی حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر ایسے واقعے کا دفاع فرض عین کی طرح کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے عقیدہ سے براہ راست متصادم ہو، یا اس کو کرامت کے ذیل میں لینا ممکن ہی نہ ہو یا اس سے عوام الناس کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔
دیوبندی حضرات نے جو کرامات کے واقعات کا ذکر کیا ہے ، اگر کوئی اس واقعہ کا انکار کرے اور کہے یہ سچا واقعہ نہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں
اصل اعتراض تب ہوتا ہے جب کسی کرامات والے واقعہ کو ذکر کے کہا جاتا ہے کہ بطور کرامت یہ واقعہ ممکن نہیں اور کوئی شرکیہ عقیدہ ہم پر تھوپ دیا جاتا ہے .


بہرحال، آپ کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ واقعات سے عقائد اخذ کرنا درست نہیں۔ مکمل طور پر درست اس لئے نہیں کہ مثلاً :
اب آپ نے مثال دیں ہیں ان کو ایک ایک کرکے دیکھتے ہیں

عقیدہ یہ ہو کہ قبروں سے فیوض پہنچنا ممکن نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ قبر سے فیض پہنچ رہا ہے، تو یہاں عقیدہ کا واقعہ سے براہ راست ٹکراؤ ہے، ایسی صورت میں یا عقیدہ یا واقعہ کسی ایک کی تردید ضروری ہوتی ہے۔
عقیدہ یہ ہو کہ مرنے کے بعد ارواح مدد نہیں کر سکتیں یا دنیا میں نہیں آ سکتیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فلاں بزرگ مرنے کے بعد تشریف لائے اور لین دین کیا، یا صلح صفائی کروا دی ، وغیرہ تو یہ عقیدہ سے متصادم بات ہے، جو قابل قبول نہیں ہونی چاہئے
فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيي الله الموتى ويريكم آياته لعلكم تعقلون
القرآن
ایک مسلم (خواہ و اہل حدیث ہو یا دیوبندی ) کا عقیدہ یہ ہے کہ صاحب قبر کسی کو نفع یا نقصان نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے کہ بنی اسرائیل کہ ایک مردہ شخص نے اہل خانہ کو اپنے قاتل کا بتا کر قاتل کو پکڑوانے میں مدد کی ۔ اب آپ عقیدہ کا انکار کریں گے یا واقعہ کا (دونوں صورت میں دائرہ اسلام سے باہر ہوجائیں گے ) واحد صورت یہ بچتی ہے واقعہ کو بصور کرامت مانا جائے اور عقیدہ میں بھی کوئي تبدیلی نہ کی جائے
جب قرآن میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک مردہ نے اپنے قاتلوں کی پہچان کرانے میں اہل خانہ کی بطور کرامت مدد کی تو اس طرح کے واقعات جو دیوبند کی کتب میں علماء نے تحریر کیے ہیں تو ان کی بنا پر دیوبندیوں پر غلط عقائد تھوپنے کی وجہ ؟؟
جب کہ بریلوی یا غوث الاعظم المدد کہ کر مردوں سے مانگنے کے جواز کے قائل ہیں اور ہم نہیں ، یہی دیوبندی اور بریلوی حضرات میں ایک نمایاں فرق ہے
عقیدہ یہ ہو کہ عطائی طور پر بھی کسی کو کائنات میں تصرف کا اختیار حاصل نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فوت شدہ بزرگ کائنات میں تصرف کرتے نظر آ رہے ہوں تو واقعہ کو کرامت کیسے مانیں؟
اگر تصرف سے مراد زندہ کو کوئی فائدہ پہنچانا ہے تو اس کی وضاحت اوپر کردی کئی ہے ، اگر کچھ اور ہے تو وضاحت کریں
عقیدہ یہ ہو کہ غیب کا علم کسی کو نہیں دیا جاتا، ہاں غیب کی بعض خبروں پر مطلع ہو جانا، اس کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ اب واقعہ یہ ہو کہ اللہ نے فلاں بزرگ کو ایسا علم دے دیا کہ وہ اپنے پاس حاضر ہونے والوں کے سلام کہتے ہی دل کی باتوں سے آگاہ ہو جاتے تھے، تو یہ کرامت نہیں کہلائی جا سکتی، کیونکہ عقیدہ کے بالکل الٹ ہے۔
ہم نے کہیں نہیں کہا یا واقعہ تحریر نہیں کیا فلاں بزرگ ہمیشہ غیب کی بات بتادیتے تھے ، ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایک بزرگ کو کثرت سے کشف ہوتا تھا ، اور کثرت سے کشف ہونا کوئی غیر شرعی امر نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی کثرت سے کشف ہوا اور کئی حکم ربی بطور کشف سے آگاہ ہوے
مثلا جنگ بدر کی قیدیوں سے متعلق فیصلہ یا اذان کا الفاظ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے واقعہ پردہ کے احکامات وغیرہ (ایک تفصیلی لسٹ ہے ) تو کیا حضرت جبرائیل علیہ السلام معاذ اللہ پہلے حضرت عمر رضي اللہ عنہ کو امر ربی بتاتے پھر حکم نازل ہوتا
عقیدہ یہ ہو کہ کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ جب چاہیں کرامت دکھا دیں۔ لیکن واقعہ یہ ہو کہ جب بھی کوئی شخص فلاں بزرگ کے پاس جاتا وہ فوری اس کے دل کا حال بتا دیتے، یا خواتین کے پیٹ کی بات بتا دیتے یا ولی دعویٰ کرتے نظر آئیں کسی کرامت کا۔ تو یہ کرامت عقیدہ سے متصادم ہے یا نہیں؟
مجھے معلوم نہیں آپ نے جب چاہیں کرامت دکھا دیں ، کہاں سے کشید کیا ہے ، اگر اس مراد کسی ولی کا اپنی کرامت سے پہلے کہنا کہ وہ ایسا کر سکتا ہے تو یہ بلا شبہ ممکن ہے
کرامت بلا شبہ کسی ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی ، ہاں یہ ممکن ہے کہ ولی کرامات کے ظھور سے پہلے اس کرامات کا ظاہر ہونا بتادے ، جب سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کا محل لانے کی بات تھی تو ایک وزیر نے بطور کرامت وہ محل پلک جھپکنے سے پہلے محل حاضر کردیا اور اس کرامت کے ظھور سے پہلے اس نے خود کہا کہ میں ایسا کردوں گا یہ بھی دعوی کرامت ہے
مجھے معلوم نہیں کہ کتاب و سنت سے فوت شدہ بزرگوں کے دنیا والوں کی امداد کرنے کی کون سی دلیل علمائے دیوبند کے ہاتھ آئی ہے۔ میرے خیال میں اس عقیدہ کی تائید میں یہ علماء کتاب و سنت میں مذکور "واقعات" ہی کو اس عقیدہ کی بنیاد بناتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ آپ اس پر روشنی ڈال سکیں تو فبہا۔
قرآن کے حوالہ سے بتادیا گيا ہے کہ ایک مردہ نے بطور کرامت دنیا میں زندہ فرد کی بطور کرامت مدد کی
ایک ایک اعتراض پر اوپر روشنی ڈال دی گئی ہے

یہ تو تھیں، عمومی باتیں۔ ایک خاص واقعہ جس کا جواب حاصل کرنے کی عرصے سے تمنا تھی۔ اس پر اگر آپ تبصرہ کر دیں تو مشکور رہوں گا۔ پہلے واقعہ ملاحظہ کر لیجئے۔
"مولانا اشرف علی تھانوی مولوی نظام الدین صاحب کرانوی سے ، وہ مولوی عبداللہ ہراقی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نہایت معتبر شخص ولائتی بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست جو بقیۃ السلف حجۃ الخلف قدوۃ السالکین زہدۃ العارفین شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا حاجی امداد اللہ صاحب چشتی صابری تھانوی ثم المکی سلمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت تھے، حج خانہ کعبہ کو تشریف لے جاتے تھے۔ بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے۔ آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھا کہ چکر کھا کر غرق ہو جائے یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں، اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امداد کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے۔ اسی وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی۔
ادھر تو یہ قصہ پیش آیا ، ادھر اگلے روز مخدومِ جہاں اپنے خادم سے بولے ذرا میری کمر تو دباؤ، نہایت درد کرتی ہے۔ خادم نے کمر دباتے پیراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کہ کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اُتر گئی ہے۔ پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے، کمر کیوں کر چھلی فرمایا کچھ نہیں۔ پھر پوچھا، آپ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا، حضرت یہ تو کہیں رگڑ لگی ہے اور آپ تو کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے۔ فرمایا ایک آگبوٹ ڈوبا جاتا تھا اس میں تمہارا دینی اور سلسلے کا بھائی تھا اس کی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا۔ آگبوٹ کو کمر کا سہارا دے کر اوپر کو اٹھایا۔ جب آگے چلا اور بندگانِ خدا کو نجات ملی، اسی سے چھل گئی ہوگی اور اسی وجہ سے درد ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنا"۔ (کرامات امدادیہ ص 36)
حضرت عمر رضي اللہ عنہ حضرت ساریہ کو ہزاروں میل فاصلے سے آواز دی ، نہ صرف اواز دی بلکہ خطرہ سے اگاھ بھی کیا اور اس طرح ہزاروں میل کے فاصلے سے بطور کرامت ان کی مدد کی ۔ تو اگر کسی شیخ نے بطور کرامت اپنے مرید کی مدد کی تو عقیدہ کا بگاڑ کہاں سے آیا ؟؟؟؟؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ساریہ کی ایران میں مدد کی جب کہ وہ خود مدینہ میں تھے تو اس مستند واقعہ کو ہم کرامت کہتے ہیں تو اگر کوئی شیخ بطور کرامت کسی کی مدد کردے تو ہم اس کو کیوں کرامت نہیں کہتے اور کیوں اس کو عقیدہ کا بگاڑ کہتے ہیں اور دیوبندوں کو کیوں شرکیہ عقیدہ سے متھم کرتےہیں

سوال تو بہت سارے ہیں۔ لیکن فی الحال مجھے صرف ایک ہی اہم سوال پوچھنا ہے کہ آیا دیوبندی عقیدہ کی رو سے یہ بات جائز و درست ہے کہ ایک شخص جہاز میں سوار ہو اور جہاز ڈوب رہا ہو تو وہ مافوق الاسباب، غیراللہ سے مدد طلب کرے؟
اس واقعہ کی بنیاد پر کوئی عامی دیوبندی مثلاً آپ، اس سے ملتے جلتے حالات میں اپنے "پیر روشن ضمیر" کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا پسند کریں گے؟ جب کہ واقعہ سے ثابت بھی ہے کہ ایسی صورت میں دیوبندی پیر کا اپنے دیوبندی مرید کی مدد کرنا بالکل ممکن ہے۔
خیال کرنے سے آپ نے مراد کیوں استمداد ہی لی ہے توسل بھی تو لے سکتے تھے ؟؟ چوں کہ آپ نے استمداد کا معنی لیا ہے تو پہلے آپ بتائيں گے کہ آپ نے استمداد کیوں معنی لیا ، اور توسل معنی کیوں نہ لیا ۔۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
خیال کرنے سے آپ نے مراد کیوں استمداد ہی لی ہے توسل بھی تو لے سکتے تھے ؟؟ چوں کہ آپ نے استمداد کا معنی لیا ہے تو پہلے آپ بتائيں گے کہ آپ نے استمداد کیوں معنی لیا ، اور توسل معنی کیوں نہ لیا ۔۔۔

اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امداد کا ہوگا۔


بلکہ دن محشر کے بھی جس وقت قاضی ہو خدا
آپکا دامن پکڑ کر یہ کہوں گا برملا
اے شہہ نور محمد وقت ہے امداد کا

اوپر امداد اللہ مکی کے واقعے کا ٹکڑا لکھا ہے اور امداد اللہ مکی کی شرکیہ نعت اپنے پیر نور محمد کے بارے لکھی ہے-جن سے مراد ہم نے توسل کی بجائے استمداد (مدد طلب کرنا) لیا ہے اس پر آپ نے سوال کر دیا کہ ہم اسکو توسل کیوں نہیں سمجھ سکتے تو بھئی ہماری سمجھ تو بعد میں بتائیں گے پہلے ذرا یہ بتائیں کہ اوپر آپ نے بریلویوں کو اپنے سے فرق سمجھتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ
جب کہ بریلوی یا غوث الاعظم المدد کہ کر مردوں سے مانگنے کے جواز کے قائل ہیں اور ہم نہیں ، یہی دیوبندی اور بریلوی حضرات میں ایک نمایاں فرق ہے

اب الٹا آپ سے سوال ہے کہ آپ نے المدد غوث الاعظم کا قصہ تو سنا ہو گا کہ وہ بھی اسی طرح کشتی ڈوبنے کا واقعہ ہے تو آج کوئی المدد غوث الاعظم کہتا ہے تو آپ نے اس سے توسل کیوں مراد نہیں لیا آپ نے المدد غوث الاعظم سے استمداد مراد کیسے لے لیا






مجھے معلوم نہیں آپ نے جب چاہیں کرامت دکھا دیں ، کہاں سے کشید کیا ہے ، اگر اس مراد کسی ولی کا اپنی کرامت سے پہلے کہنا کہ وہ ایسا کر سکتا ہے تو یہ بلا شبہ ممکن ہے
میری رائے کے مطابق الدیوبندیہ میں نقل ہر واقعہ کو کرامت کے تحت شمار کرنا ممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے کوئی ایسا واقعہ جو کرامت کی ذیل میں نہ آتا ہو لیکن مجھے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا
کیا ہم باقی اسی طرح کے واقعات بھی آپکی تسلی کے لئے نکال کر دکھائیں
میرے بھائی اللہ سے ڈر جائیں اور سوچیں کہ جس شرک کو آپ نا پسند کرتے ہیں اسکے آپ کیا قربانی دے سکتے ہیں ہم آپ سے آپ کے بزرگوں کی قربانی نہیں مانگتے کہ آپ انکو غلط کہیں ہم کہتے ہیں کہ جس طرح انصاف پسند دیوبندی کم از کم اس عمل کو غلط کہتے ہیں تو آپ کم از کم یہ کہ دیں کہ یہ قصے غلط ہیں مگر ان سے منسوب غلط کیے گیئے ہیں میں گارنٹی دیتا ہوں کہ اس سے آپ کے بزرگوں کی بے حرمتی نہیں ہو گی کیوں کہ عبد القادر جیلانی سے غلط منسوب واقعات سے جیسے انکی بے حرمتی ہم نہیں کرتے
دیکھو یہ کتنا آسان سودا ہے کہ جس سے عبد القادر جیلانی کی طرح عزت بھی رہ جائے گی اور آپ کا ضمیر بھی ملامت نہیں کرے گا
لیکن اگر ایسا نہیں کیا تو پھر ہر ذی شعور کو یہی لگے گا کہ شیطان آپ سے یہ آسان کام بھی نہیں کروانا چاہتا کیونکہ پھر اسکو اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ پر عمل کروانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ وہ ہمیشہ پہلے بزرگوں کا اعتقاد ہی اتنا پیدا کرتا ہے کہ پھر وہ اشرف رسول اللہ، چشتی رسول اللہ وغیرہ بھی کہ دے تو کوئی غور کرنے کے قابل نہ ہو
آپ صحابی کی پیروی کی بات کرتے ہیں کبھی غور کیا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی ماں تک سے کہتے ہیں کہ تمھارے جیسی 70 مائیں قربان کر دو اسلام پر- تو ہم اپنے ذہن میں بنائے ایک تصور کو ختم نہ کر سکیں جس پر ہمارا دل ہمیشہ کھٹکتا رہے سوچیں کیا اس واقعے کی تردید سے اسلام ختم ہو جائے گا دین تباہ ہو جائے گا جو دل کے اندیشہ کے باوجود اسکے دفاع میں کتاوں کی کتابیں لکھ دی جائیں
ہمارے لئے صرف پہنچانا ہے کیونکہ انما علیک البلاغ و علینا الحساب کہ آپ پر پینچانا ہے اور حساب لینا تو میرے ذمے ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دیوبندیوں اور بریلویوں کا مشترکہ عقائد - سماع موتیٰ کا عقیدہ
1424345_589098924479316_869560008_n.jpg
جب کہ قرآن کا فیصلہ !!!
قبروں میں مدفون مردے نہیں سنتے۔
القرآن:
فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ - -Surah Roum 52

بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (١) اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں (٢) جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں۔
'' آپﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ '' [النحل:۸۰]
''اللہ جسے چاہتا ہے ، سنواتا ہے، مگر (اے نبی!) آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔ '' [فاطر: ۲۲]
'' یعنی اس شخص سے زیادہ گمراہ اور کون ہے جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو آواز دے۔ حالانکہ وہ قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔'' [الاحقاف:۶ ، ۵]
سماع موتیٰ کا عقیدہ رکھنے سے درج بالا قرآنی آیات کا انکار ہوجائے گا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم بھائی ہر انسان کو اپنی سوچ رکھنے کا حق ہے اور دوسرے کو اس پر قائل کرنے کا حق بھی حاصل ہے مگر اپنی سوچ کے خلاف برداشت نہ کرنا صرف اس وقت ٹھیک ہوتا ہے جب اگلے کے پاس جائز تاویل نہ ہو
واللہ میں نہیں جانتا کہ آپ کونسے حکیم صاحب کی کونسے رویے کی بات کر رہے ہیں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے بڑے علماء بشمول عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ وغیرہ بھی پھر آپکے اس دوہرے پیمانے (یعنی دورخی) کے فتوے میں آ سکتے ہیں-میرے خیال میں عام اہل حدیث انکے عقائد کی ناواقفی کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے کیونکہ اب تو یہ بواقعات بچہ بچہ جان چکا ہے-میرے خیال میں وہ قول اور عمل میں فرق کرتے ہیں-بریلوی اور اہل تشیعہ اللہ کے علاوہ دوسروں سے مانگنے کا کھلے عام اقرار کرتے ہیں جس پر کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی لیکن محترم بھائی دیوبندی عالم کے پاس کسی بھی وقت جا کر پوچھیں کہ میں جب ڈوب رہا ہوں تو کیا امداد اللہ یا اشرف علی تھانوی وغیرہ سے مدد مانگ سکتا ہوں تو وہ لازمی اسکو شرک کہے گا ہاں جب یہی بات انکی کتاب کے بزرگوں کے واقعات سے دکھائی جائے گی تو وہ بزرگوں کی اندھی حمایت کی وجہ سے اسکی تاویل کرنے پر تل جائے گا
محترم بھائی میں نے اہل حدیث لوگوں کی کتابوں میں بھی اسی طرح کی مدد کرنے والے واقعات دیکھے ہیں جن میں کچھ مدد اور غیب کے بارے ہیں اور کچھ وحدۃ الوجود بارے ہیں حتی کہ ابن عربی کے عقیدے کی تاویل کرنے والے بھی میں نے دیکھے ہیں-اگرچہ دیوبندی کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہیں- اب کچھ اہل حدیث ایسا لکھنے والوں کو مشرک نہیں کہتے-
پس میری یہ گزارش ہے کہ آپ کو جو دلائل سے راجح بات نظر آتی ہے اسکی پیروی کریں اور اس پر دوسروں کو بھی بے شک مائل کریں مگر مائل کرنے کا طریقہ میں فرق ملحوظ رکھنا ہو گا مثلا جس بات پر دوسرے کو مائل کر رہے ہیں اگر وہ بھی اپنے پاس جائز دلائل رکھتا ہے تو پھر اسکے عقیدے پر طنز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ دوہرا پن ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ میرے خیال میں یہ دلیل بہتر نہیں بلکہ میری دلیل بہتر ہے- اس طرح کی غلطی کبھی مجھ سے بھی لا شعوری طور پر ہو جاتی ہےبعد میں علم ہونے پر اللہ کی توفیق سے رجوع کر لیتا ہوں- ہاں اگر دوسرے کے پاس جائز دلائل نہ ہوں اور وہ ہٹ دھرمی پر تلا ہو تو پھر آپ کا مائل کرنے کا طریقہ فرق ہو سکتا ہے-
اسی سلسلے میں ایک مثال بتاتا چلوں کہ محترم مبشر ربانی حفظہ اللہ اپنی کتاب کلمہ گو مشرک میں بریلویوں کی جہالت عذر نہ ہونے پر ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی لے کر آئے ہیں جس میں آگے ابن باز کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ عذر تو نہیں مگر اگر کچھ علماء کسی اور تاویل کی وجہ سے بریلویوں کو مشرک نہیں سمجھتے تو باقی علماء کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ان علماء بھائیوں پر مشرک کو مشرک نہ سمجھنے پر ناقض اسلام کا فتوی لگائیں


یہ بات تو واقعی ٹھیک ہے کہ اس سے کچھ تو پھر یہ شرکیہ عقیدہ ہی بنا لیتے ہیں جیسے امداد اللہ مکی سے مدد مانگنے والے دیوبندی نے یہ عقیدہ ہی بنا لیا تھا اور کچھ اس میں گرنے کے قریب ہوتے ہیں البتہ ساروں کا یہ حال نہیں زیادہ تر اسکو غلط تو سمجھتے ہیں مگر بزرگوں کی محبت کی وجہ سے اسکی کوئی تاویل کرنا چاہتے ہیں تاکہ شرک سے بھی بچا جا سکے اور بزرگوں کو بھی بچایا جا سکے

نوٹ: محترم بھائی میں یہ نہیں کہتا کہ آپکے دلائل ٹھیک نہیں لیکن میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ دوسرے علماء کے پاس دلائل نہیں البتہ میری اپنی ناقص عقل کے مطابق دوسرے علماء کا پہلو زیادہ محتاط اور راجح ہے ہاں آپ کے ساتھ تبادلہ خیال سے میرے ناقص علم میں اضافہ ہو جائے تو میں نہیں کہ سکتا-اب آپ چونکہ علم میں بڑے اور سینیئر ہیں تو آپکے حکم کا انتظار ہے کہ آگے چپ رہنا ہے یا بات کرنی ہے ادھر ہی یا دوسری جگہ-
اللہ آپکے جذبہ توحید کو قبول فرمائے امین
دیوبندی لوگوں کے مختلف عقائد ہیں جیسے حیاتی اور مماتی ہیں ان دونوں کے عقائد مختلف ہین اس پر بھی غور کر لیا جاے تو مناسب ہے میرے قریب رہنے والے دیوبندی حضرات بریلویوں سے بہت مختلف ہیں ہاں بعض حیاتی دیوبندی کے عقائد میں کچھ گڑ بڑ ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دیوبندی لوگوں کے مختلف عقائد ہیں جیسے حیاتی اور مماتی ہیں ان دونوں کے عقائد مختلف ہین اس پر بھی غور کر لیا جاے تو مناسب ہے میرے قریب رہنے والے دیوبندی حضرات بریلویوں سے بہت مختلف ہیں ہاں بعض حیاتی دیوبندی کے عقائد میں کچھ گڑ بڑ ہے
محترم بھائی آپ کی بات سو فیصد ٹھیک ہے اللہ آپ کو جزا دے امین میں تو ان میں رہا ہوں تو مماتیوں کے عقائد توحید و بدعت کے لحاظ سے کافی بہتر ہیں بلکہ حیاتیوں کی انکے پیچھے نماز بھی نہیں ہوتی جیسے نوائے دل بھائی نے شاہد کوئی تھریڈ شروع کیا ہے کہ حیاتی کہ نماز مماتی کے پیچھے- جس میں تبلیغی جماعت کے مفتی کا فتوی درج ہے
جہاں تک حیاتیوں کے عقائد کا تعلق ہے تو میرے خیال میں ان کے بزرگوں کے واقعات میں تو بالکل بریلویوں والے عقائد ہیں صرف ایک خیال رکھا گیا ہے کہ جیسے بینک والوں نے غالبا ضیاء الحق کے دور میں سود کا نام مارک یپ رکھ کر حلال کر لیا تھا یا آج کوئی پیشاب کی باتل بھر کے اسکے اوپر شربت بزوری کا لیبل لگا دے
جہاں تک حیاتی عوام کا تعلق ہے تو وہ اس شرک سے بچنا تو چاہتے ہیں مگر انکا یہ بچنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسلمان پیدائشی مسلمان ہونے کی وجہ سے بہت سے کام کرتا ہے- ان میں سب سے بڑی بیماری شیطان نے جو ڈالی ہے وہ بزرگوں کی غیر مشروط تعظیم اور اتباع ہے پس یہ چیز انکو شرک کے رد کی توفیق نہیں دیتی حالانکہ دل انکا کھٹک رہا ہوتا ہے-پس میں چاہتا ہوں کہ جس چیز سے دل کھٹک رہا ہے اسی پر لوہار کی طرح بار بار ضرب لگائیں تو ہو سکتا ہے بزرگوں کی غیر مشروط تعظیم والی بیماری بھی کم ہو جائے کیونکہ ان پر بریلویوں سے کم محنت کرنی پڑے گی کیونکہ ان کے پاس سکیل ہے مگر وہ سکیل شیطان بریلویوں کے مقابلے میں تو نکالنے دیتا ہے مگر اپنے معاملے میں اسکو ملبس کر دیتا ہے اس پر بھی ان شاء اللہ علیحدہ تفصیل سے لکھو گا اللہ قبول فرمائے امین
 
Top