مصروفیت کی وجہ سے سارے جواب نہیں دے سکا تھا اب پیش خدمت ہیں
محترم
تلمیذ بھائی آپ کی اس تھریڈ میں پرانی پوسٹوں اور یہ اوپر والی منطق سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مدد کرنے یا نہ کرنے کے تحت آپ کے نزدیک دیوبندی اور بریلوی کے مندرجہ ذیل نظریات ہیں-آپ ان کی توثیق کر دیں تاکہ آگے بات چل سکے اگر تردید کریں گے تو آپکی تمام پوسٹوں کی تردید ہو جائے گی جو میں ان شاء اللہ ثابت کروں گا
دیوبندی کا عقیدہ:بزرگ کرامت کے تحت مدد کر سکتے ہیں کسی انسان کو جب بھی کوئی مشکل ہو تو اپنے بزرگ کا تصور کر کے کہ سکتا ہے کہ اے بزرگ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا- تو اسکی مدد کی جا سکتی ہے- لیکن وہ انسان اس کے بدلے اس بزرگ کے لئے چڑھاوے، نذرونیاز یا سجدہ نہیں کر سکتا-
بریلوی کا عقیدہ:بزرگ کرامت کے تحت مدد کر سکتے ہیں کسی انسان کو جب بھی کوئی مشکل ہو تو اپنے بزرگ کا تصور کر کے کہ سکتا ہے کہ اے بزرگ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا- تو اسکی مدد کی جا سکتی ہے- وہ انسان اس کے بدلے اس بزرگ کے لئے چڑھاوے، نذرونیاز یا سجدہ بھی کر سکتا ہے-
آپ توثیق کر دیں
بعض اولیاء اللہ سے غلبہ حال میں کلمات و افعال خارج ہوتے ہیں ان کلمات کے متعلق علماء دیوبند کا موقف و مسلک یہ ہے کہ ان اقوال جو بظاہر سطح سنت و شریعت سے ہٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کی بنیاد پر ان ولی کے متعلق شرک کا فتوی نہیں لگاتے اور نہ اس کے بالمقابل غلو محبت سے ان مبہم و موہم کلمات کو دین اصلی سمجتھے ہوئے اس کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کردیں اور جو نہ مانے اسے اسلام سے خارج قرار دے دیں
یہ دونوں راہ غلط ہیں
جب ایک شخص جو عام حالات میں پابند شریعت و متبع سنت ہے اس کے اس طرح کے اقوال کی ممکن و صحیح توجیہ و محمل بیان کیا جاتا ہے
اس لئیے ہم اس طرح کے مبہم و موہم اقوال کو زور لگا کر کسی باطل معنی پر محمول کرنے کی سعی کے بجائے اس کے اصلی اور صحیح محمل جب کہ وہ موجود ہو پر محمول کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان الفاظ کی عمومی تبلیغ و تقلید کو ممنوع کہتے ہیں
اس مختصر تمہید کے بعد ہم آپ کی پوسٹ کی طرف آتے ہیں
آپ نے کہا کہ
بزرگ کرامت کے تحت مدد کر سکتے ہیں
مذید کرامت صرف اللہ کے اختیار میں ہوتی ہے اور صاحب کرامت کا کرامت کے ظھور پر کوئي اختیار نہیں ہوتا
کسی انسان کو جب بھی کوئی مشکل ہو تو اپنے بزرگ کا تصور کر کے کہ سکتا ہے کہ اے بزرگ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا-
پہلی بات
آپ نے کرامات امدادیہ سے واقعہ نقل کرتے ہوئے کچھ الفاظ بڑھا دیے ہیں مثلا اے بزرگ
دوسری بات
ہم ایسے موہم کلمات کی مناسب و ممکن توجیہ بیان کرتے ہیں جیسا کہ اوپر تمہید میں بیان ہوا ہے
تیسری بات
ہم ایسے موہم کلمات کی تبلیغ و تقلید ممنوع قرار دیتے ہیں جیسا کہ اوپر تمہید میں بیان ہوا ہے اور ہمارا فتوی اسی پر ہے
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=22361
خلاصہ یہ ہے مذکورہ قصہ میں کلمہ چوں کہ موہم ہے اس لئيے اس کو کہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اگر چہ اس کی ممکن توجیہ موجود ہے
قرآن سے مثال
قال إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلاما زكيا
میں تمہیں لڑکا دینے آیا ہوں
ایک دوسری جگہ قرآن فرماتا ہے کہ
يَهَبُ لِمَنْ يَشَاء إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاء الذُّكُورَ
اللہ تبارک و تعالی جسے چاھتا ہے بیٹا دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے ،
بلا شبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہیں لڑکا دیتا ہوں (یہاں وھب کا لفظ استعمال ہوا اور بغیر کسی باذن اللہ کی اضافت کے ساتھ ) تو کیا آپ اس کی اجازت دیں گے کہ آپ کے علماء یہ بیان کرتے رہیں حضرت مریم علیہا السلام کو بیٹا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عطا کیا
اگر چہ جبرائیل علیہ السلام نے یہی کہا کہ میں بیٹا وھب کرنے آیا ہوں لیکن ہم کو اس انداز میں بات کرنے کی اجازت نہیں
اسی طرح آگبوٹ والے واقعہ میں موہم کلمہ کو اگر چہ صحیح محمل پر رکھا جاسکتا ہے لیکن موہم ہونے کی وجہ سے یہ کلمہ کہنے کی اجازت نہیں
محترم بھائی یہ سند واقعی کچھ محدثین کے نزدیک ٹھیک ہے البتہ وہ اسکو بخاری کی ایک حدیث کے تحت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر اللہ کی طرف سے خود جاری ہونے کی بات کرتے ہیں جس پر عمر رضی اللہ عنہ کا قول بھی بتاتے ہیں کہمجھے خود ان الفاظ کا پتا نہیں چلا اس پر بعد میں تفصیل سے بات ہو گی
ٹھیک ہے کوئی جلدی نہیں ، جب آپ ان الفاظ سے آگاہ ہو تو بتادیجئیے گا