• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقائد میں اختلاف مسلک اہل حدیث کے افراد کو کیوں نظر نہیں آتا

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جو کرامات کتب احادیث میں لکھی گئی ہیں ان کا مقصد تو یہ ثابت کرنا ہے کہ ولی سے کرامت کا ظہور اس کی زندگی میں ممکن ہے لیکن آپ نے اپنی کتابوں میں من گھڑت واقعات کیوں لکھے ہیں ؟ مردوں کے واقعات سے کچھ تو ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟
آپ اکثر جگہ کنفیوزن کا شکار ہوجاتے ہیں ، آپ کا اشارہ کس واقعہ کی طرف ہے وضاحت فرمادیں ،، ایسا نہ میں کسی اور واقعہ کی نسبت سے لکھ دوں اور آپ کا اشارہ کوئی اور واقعہ ہو ۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ اکثر جگہ کنفیوزن کا شکار ہوجاتے ہیں ، آپ کا اشارہ کس واقعہ کی طرف ہے وضاحت فرمادیں ،، ایسا نہ میں کسی اور واقعہ کی نسبت سے لکھ دوں اور آپ کا اشارہ کوئی اور واقعہ ہو ۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا
اب آپ کی بات ادھوری ہے کہ آپ نے کس واقعہ کے بارے پوچھا ہے ؟ میں نے یہ پوچھا تھا : مرنے کے بعد کسی ولی سے کرامت کا ظہور ، اس سے تو آپ کی کتابیں بھری پڑی ہیں کیا یہ ممکن کہ کسی ولی سے یا نبی سے مرنے کے بعد کرامت کا ظہور ہوا ہو ؟ اور اس کا آپ نے کوئی جواب ہی نہیں دیا ہے:
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ''شرک کی اقسام میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی ضروریات فوت شدہ اولیاء اللہ سے طلب کرے، ان کے نام سے استغاثہ کرے اور ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائے، حقیقت یہ ہے کہ یہی شرک کی جڑ ہے۔جوشخص فوت ہوچکا، اس کے اعمال منقطع ہو چکے۔ وہ تو اب خود اپنی ذات کے نفع و نقصان پر بھی قدرت نہیں رکھتا چہ جائیکہ دوسروں کی ضروریات میں کام آئے، ان کی فریاد سنے یا یہ کہے کہ وہ اللہ سے اسکی سفارش کرے گا۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ طالب و مطلوب اور شافع و مشفوع دونوں برابر ہیں''۔
احناف کی مشہور کتا ب ''فتاویٰ البزازیہ''میں لکھا ہے کہ : ''جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بزرگانِ دین اور مشائخ کی روحیں حاضر ہیں اور ہمارے بارے میں علم رکھتی ہیں، وہ کافر ہو جاتا ہے۔
شیخ صنع اللہ حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب ''الردّعلی من ادعی ان للاولیاء تصَرفات فِی الحیات و بعد الممات علی سبیلِ الکرامۃ''میں تحریر فرماتے ہیں کہ:''دورِ حاضر میں مسلمانوں میں کچھ گروہ اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو اپنی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی اس عالم میں قدرت، تصرف حاصل ہے اور شدائد و بلیات میں اُن سے استغاثہ اور استعانت کی جا سکتی ہے کیونکہ اُن کی سعی و ہمت سے مشکلات رفع ہوتی ہیں۔ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے ان کی قبروںپر آتے ہیں اور ان سے حاجات رفع کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ یہ اصحابِ کرامت تھے۔ وہ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اِن میں ابدال بھی تھے اور نقباء بھی، اوتاد بھی تھے اور نجباء بھی، ان کی تعداد ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتی ہے۔ قطب وہ ہے جو لوگوں کی فریادیں سنتے ہیں اور ان ہی پر اس نظام کا دارومدار ہے۔ ان کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں، جانور بھی ذبح کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولیاء ا ن کو مستحق اجر گردانتے ہیں''۔
آپ حدیث ،آثار اور انبیاء کی کرامات اور عام لوگوں کے بے سند اور من گھڑت قصوں میں فرق کیوں نہیں کرتے ؟آپ صرف اپنی ہار کی وجہ سے حق بات کو تسلیم نہیں کرتے حالاں کہ آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آپ اس طرح کے قصوں کو نہیں مانتے اگر آپ ان سے براءت کا اعلان کریں گے تو دوسرے لوگوں کو فائدہ ہوگا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
مصروفیت کی وجہ سے سارے جواب نہیں دے سکا تھا اب پیش خدمت ہیں
بریلوی حضرات عموما جن بزرگوں سے استعانت کرتے ہیں ان کو توسل کے تحت ماننا اس لئيے ممکن نہیں کیوں کہ وہ ان کے نام نذر و نیاز کرتے ہیں ، چڑھاوے چڑھاتے ہیں ، حتی کہ ان کی قبور پر سجدہ بھی کرتے ہیں جب کہ دیوبند میں ایسی کوئی خرافات نہیں ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہاں مراد توسل ہی ہے
جب توسل یا کرامت ہوتا ہے تو اس بزرگ کے نام پر چڑھاوے ، نذر و نیاز ، سجدے نہیں ہوتے ، جب صرف استعانت مراد ہوتی ہے تو مذکورہ خرافات بھی ہوتیں ہیں
اگر ہم یہ عقیدہ رکتھے کے فلاں بزرگ مدد کر سکیتے ہیں تو بریلوی حضرات کی طرح چڑھاوے چڑھا رہے ہوتے کما ذکر
دوم مذکورہ قصہ میں اگلا جملا بھی پڑھ لیں
محترم تلمیذ بھائی آپ کی اس تھریڈ میں پرانی پوسٹوں اور یہ اوپر والی منطق سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مدد کرنے یا نہ کرنے کے تحت آپ کے نزدیک دیوبندی اور بریلوی کے مندرجہ ذیل نظریات ہیں-آپ ان کی توثیق کر دیں تاکہ آگے بات چل سکے اگر تردید کریں گے تو آپکی تمام پوسٹوں کی تردید ہو جائے گی جو میں ان شاء اللہ ثابت کروں گا
دیوبندی کا عقیدہ:بزرگ کرامت کے تحت مدد کر سکتے ہیں کسی انسان کو جب بھی کوئی مشکل ہو تو اپنے بزرگ کا تصور کر کے کہ سکتا ہے کہ اے بزرگ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا- تو اسکی مدد کی جا سکتی ہے- لیکن وہ انسان اس کے بدلے اس بزرگ کے لئے چڑھاوے، نذرونیاز یا سجدہ نہیں کر سکتا-
بریلوی کا عقیدہ:بزرگ کرامت کے تحت مدد کر سکتے ہیں کسی انسان کو جب بھی کوئی مشکل ہو تو اپنے بزرگ کا تصور کر کے کہ سکتا ہے کہ اے بزرگ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا- تو اسکی مدد کی جا سکتی ہے- وہ انسان اس کے بدلے اس بزرگ کے لئے چڑھاوے، نذرونیاز یا سجدہ بھی کر سکتا ہے-

آپ توثیق کر دیں



جہاں تک حضرت عمر �کے واقعہ یَا سَارِیَة الْجَبَلَ (4) کا تعلق ہے ، یہ واقعہ سنداً بلاشبہ قابل قبول ہے لیکن یہ بطور کرامت ہے
اب تو آپ کے فتاوی پر اس سند کو صحیح کہا گيا ہے تو اب بتائیں آپ اس واقعہ کے تعلق سے میرے سوالات کا کیا جواب دیں گے
محترم بھائی یہ سند واقعی کچھ محدثین کے نزدیک ٹھیک ہے البتہ وہ اسکو بخاری کی ایک حدیث کے تحت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر اللہ کی طرف سے خود جاری ہونے کی بات کرتے ہیں جس پر عمر رضی اللہ عنہ کا قول بھی بتاتے ہیں کہ مجھے خود ان الفاظ کا پتا نہیں چلا اس پر بعد میں تفصیل سے بات ہو گی

دوم مذکورہ قصہ میں اگلا جملا بھی پڑھ لیں
اللہ تعالی سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے
اس کا جواب اوپر شربت بزوری کے لیبل کے تحت دے دیا ہے
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
امین
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
مصروفیت کی وجہ سے سارے جواب نہیں دے سکا تھا اب پیش خدمت ہیں

محترم تلمیذ بھائی آپ کی اس تھریڈ میں پرانی پوسٹوں اور یہ اوپر والی منطق سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مدد کرنے یا نہ کرنے کے تحت آپ کے نزدیک دیوبندی اور بریلوی کے مندرجہ ذیل نظریات ہیں-آپ ان کی توثیق کر دیں تاکہ آگے بات چل سکے اگر تردید کریں گے تو آپکی تمام پوسٹوں کی تردید ہو جائے گی جو میں ان شاء اللہ ثابت کروں گا
دیوبندی کا عقیدہ:بزرگ کرامت کے تحت مدد کر سکتے ہیں کسی انسان کو جب بھی کوئی مشکل ہو تو اپنے بزرگ کا تصور کر کے کہ سکتا ہے کہ اے بزرگ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا- تو اسکی مدد کی جا سکتی ہے- لیکن وہ انسان اس کے بدلے اس بزرگ کے لئے چڑھاوے، نذرونیاز یا سجدہ نہیں کر سکتا-
بریلوی کا عقیدہ:بزرگ کرامت کے تحت مدد کر سکتے ہیں کسی انسان کو جب بھی کوئی مشکل ہو تو اپنے بزرگ کا تصور کر کے کہ سکتا ہے کہ اے بزرگ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا- تو اسکی مدد کی جا سکتی ہے- وہ انسان اس کے بدلے اس بزرگ کے لئے چڑھاوے، نذرونیاز یا سجدہ بھی کر سکتا ہے-

آپ توثیق کر دیں
بعض اولیاء اللہ سے غلبہ حال میں کلمات و افعال خارج ہوتے ہیں ان کلمات کے متعلق علماء دیوبند کا موقف و مسلک یہ ہے کہ ان اقوال جو بظاہر سطح سنت و شریعت سے ہٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کی بنیاد پر ان ولی کے متعلق شرک کا فتوی نہیں لگاتے اور نہ اس کے بالمقابل غلو محبت سے ان مبہم و موہم کلمات کو دین اصلی سمجتھے ہوئے اس کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کردیں اور جو نہ مانے اسے اسلام سے خارج قرار دے دیں
یہ دونوں راہ غلط ہیں
جب ایک شخص جو عام حالات میں پابند شریعت و متبع سنت ہے اس کے اس طرح کے اقوال کی ممکن و صحیح توجیہ و محمل بیان کیا جاتا ہے
اس لئیے ہم اس طرح کے مبہم و موہم اقوال کو زور لگا کر کسی باطل معنی پر محمول کرنے کی سعی کے بجائے اس کے اصلی اور صحیح محمل جب کہ وہ موجود ہو پر محمول کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان الفاظ کی عمومی تبلیغ و تقلید کو ممنوع کہتے ہیں
اس مختصر تمہید کے بعد ہم آپ کی پوسٹ کی طرف آتے ہیں
آپ نے کہا کہ
بزرگ کرامت کے تحت مدد کر سکتے ہیں
مذید کرامت صرف اللہ کے اختیار میں ہوتی ہے اور صاحب کرامت کا کرامت کے ظھور پر کوئي اختیار نہیں ہوتا
کسی انسان کو جب بھی کوئی مشکل ہو تو اپنے بزرگ کا تصور کر کے کہ سکتا ہے کہ اے بزرگ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا-
پہلی بات
آپ نے کرامات امدادیہ سے واقعہ نقل کرتے ہوئے کچھ الفاظ بڑھا دیے ہیں مثلا اے بزرگ
دوسری بات
ہم ایسے موہم کلمات کی مناسب و ممکن توجیہ بیان کرتے ہیں جیسا کہ اوپر تمہید میں بیان ہوا ہے
تیسری بات
ہم ایسے موہم کلمات کی تبلیغ و تقلید ممنوع قرار دیتے ہیں جیسا کہ اوپر تمہید میں بیان ہوا ہے اور ہمارا فتوی اسی پر ہے
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=22361
خلاصہ یہ ہے مذکورہ قصہ میں کلمہ چوں کہ موہم ہے اس لئيے اس کو کہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اگر چہ اس کی ممکن توجیہ موجود ہے

قرآن سے مثال


قال إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلاما زكيا
میں تمہیں لڑکا دینے آیا ہوں
ایک دوسری جگہ قرآن فرماتا ہے کہ

يَهَبُ لِمَنْ يَشَاء إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاء الذُّكُورَ
اللہ تبارک و تعالی جسے چاھتا ہے بیٹا دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے ،
بلا شبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہیں لڑکا دیتا ہوں (یہاں وھب کا لفظ استعمال ہوا اور بغیر کسی باذن اللہ کی اضافت کے ساتھ ) تو کیا آپ اس کی اجازت دیں گے کہ آپ کے علماء یہ بیان کرتے رہیں حضرت مریم علیہا السلام کو بیٹا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عطا کیا
اگر چہ جبرائیل علیہ السلام نے یہی کہا کہ میں بیٹا وھب کرنے آیا ہوں لیکن ہم کو اس انداز میں بات کرنے کی اجازت نہیں
اسی طرح آگبوٹ والے واقعہ میں موہم کلمہ کو اگر چہ صحیح محمل پر رکھا جاسکتا ہے لیکن موہم ہونے کی وجہ سے یہ کلمہ کہنے کی اجازت نہیں

محترم بھائی یہ سند واقعی کچھ محدثین کے نزدیک ٹھیک ہے البتہ وہ اسکو بخاری کی ایک حدیث کے تحت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر اللہ کی طرف سے خود جاری ہونے کی بات کرتے ہیں جس پر عمر رضی اللہ عنہ کا قول بھی بتاتے ہیں کہمجھے خود ان الفاظ کا پتا نہیں چلا اس پر بعد میں تفصیل سے بات ہو گی
ٹھیک ہے کوئی جلدی نہیں ، جب آپ ان الفاظ سے آگاہ ہو تو بتادیجئیے گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بعض اولیاء اللہ سے غلبہ حال میں کلمات و افعال خارج ہوتے ہیں ان کلمات کے متعلق علماء دیوبند کا موقف و مسلک یہ ہے کہ ان اقوال جو بظاہر سطح سنت و شریعت سے ہٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کی بنیاد پر ان ولی کے متعلق شرک کا فتوی نہیں لگاتے
محترم بھائی میرا اپنے تجربے کی بنیاد پر اندازہ کہ کچھ کھٹکتا ہے وہ سچ تھا

دوسری بات-ہم ایسے موہم کلمات کی مناسب و ممکن توجیہ بیان کرتے ہیں جیسا کہ اوپر تمہید میں بیان ہوا ہے
تیسری بات-ہم ایسے موہم کلمات کی تبلیغ و تقلید ممنوع قرار دیتے ہیں جیسا کہ اوپر تمہید میں بیان ہوا ہے اور ہمارا فتوی اسی پر ہے
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=22361
دیوبند کے امداد اللہ مکی کے شرکیہ قول پر اوپر والے لنک کا فتوی
حضرت علی، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہم کو
1-اس نیت اور عقیدہ سے پکارنا کہ وہ ہماری آواز سن کر ہماری رہبری اور مدد کریں گے، شرک ہے۔ البتہ
2-اس عقیدہ سے خالی ہوکر محض جذبہ محبت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح خطاب کرنا جس میں بظاہر استمداد کا شبہ ہو شرک نہیں
جس طرح شعراء فرط محبت میں اپنی محبوبہ وغیرہ کو خطاب کرتے ہیں جب کہ ان کا عقیدہ یہ بالکل نہیں ہوتا کہ میرا محبوب حاضر اور سن رہا ہے بلکہ وہ فرطِ محبت میں اس طرح کلام کرتے ہیں
محترم بھائی آپ نے اوپر جس دیوبند کے فتوی کا لنک دیا ہے اس کو میں نے یہاں پیسٹ کر کے دو نمبروں میں تقسیم کر دیا ہے
اب اللہ کو گواہ بنا کر بتائیں کہ


امداد اللہ مکی والی پکار اس فتوی کے پہلے نمبر کے تحت آتی ہے یا دوسرے نمبر کے تحت- کیا جو ڈوب رہا تھا اسکو ڈوبتے ہوئے پہلے نمبر کے مطابق مدد کرنا یاد آیا تھا یا پھر دوسرے نمبر کے مطابق اسکو ڈوبتے ہوئے محبت یاد آگئی تھی جس سے امداد کا شبہ پیدا ہو گیا تھا-خصوصا جب اس واقعہ میں لکھا ہو کہ

اسکی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جب ایک شخص جو عام حالات میں پابند شریعت و متبع سنت ہے اس کے اس طرح کے اقوال کی ممکن و صحیح توجیہ و محمل بیان کیا جاتا ہے
اس لئیے ہم اس طرح کے مبہم و موہم اقوال کو زور لگا کر کسی باطل معنی پر محمول کرنے کی سعی کے بجائے اس کے اصلی اور صحیح محمل جب کہ وہ موجود ہو پر محمول کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان الفاظ کی عمومی تبلیغ و تقلید کو ممنوع کہتے ہیں
محترم بھائی ہمارے اسلاف بھی ایسا کرتے ہیں جیسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام لکھی ہے
محترم بھائی عقیدہ کے مسئلہ میں خفی امور میں ہمارے اسلاف سے کوئی کوتاہی ہو بھی گئی تو اس کی بنیاد پر ان کو کافر نہیں کہا گیا مثلا ابن حجر عسقلانی کا الاسماء و الصفات میں تفویض کا عقیدہ جس پر عرب علماء نے فتح الباری کے صفحات کے حوالہ سے ان غلطیوں کی نشاندہی کر رکھی ہے جس پر غالبا ابن باز کی تقریظ بھی شاہد موجود ہے پس ہمارے اسلاف نے اس کا رد کیا ہے لیکن ابن حجر عسقلانی کو اسلام سے تو کیا اہل سنت سے بھی خارج نہیں کیا البتہ بے جا تاویل نہیں کی لیکن آپ تو ظاہری امور میں بھی رد کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے- ہم آپ سے انکو اسلام سے خارج کرنے کی بات تو نہیں کر رہے البتہ بے جا تاویل سے آپ اپنے احبار کو تو بچا لیں گے لیکن آپ کے بقول امداد کے شبہ (اور ہمارے بقول امداد کے یقین) کی وجہ سے باقی امت کو شرک کے گڑھے میں گرانے کا سبب بن سکتے ہیں
جہاں تک آپ کے صحیح معنی پر محمول کرنے کی بات ہے تو وہ اوپر آپ پر واضح کر دی ہے
مذید کرامت صرف اللہ کے اختیار میں ہوتی ہے اور صاحب کرامت کا کرامت کے ظھور پر کوئي اختیار نہیں ہوتا
محترم بھائی میری اوپر بات پر اس وضاحت کا کوئی اثر نہیں پڑتا
ویسے اس پر ایک بات بتاؤں کہ کرامت کے عقیدہ کے لئے یہ شرط میں نے بتائی تھی کہ بزرگ کا اختیار نہیں ہوتا لیکن اسکا ایک فائدہ بھی لکھا تھا کہ جب مجھے پتا ہو کہ بزرگ اپنی مرضی سے نہیں دے سکتا تو میں اس سے نہیں مانگوں گا یعنی 1-کسی سے مانگنا اور 2-اسکے پاس دینے کا اختیار ہونا یہ دو چیزیں آپس میں منسلک ہیں پس جب کوئی کسی سے مانگتا ہے تو وہ اس کے پاس اختیار مان رہا ہوتا ہے پس آپ کے بزرگوں کا عمل قول کے خلاف ہے
پہلی بات
آپ نے کرامات امدادیہ سے واقعہ نقل کرتے ہوئے کچھ الفاظ بڑھا دیے ہیں مثلا اے بزرگ
محترم بھائی اصل آپکے لکھے گئے واقعہ میں لکھا ہے کہ اسکی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا اب آپ بتائیں کہ گریہ زاری اس نے امداد اللہ کے نام سے کی ہو گی جو کہ معرفہ (علم) ہے یا پھر حرف ندا سے کی ہو گی یعنی یا بزرگ جو کہ معرفہ (معرف باللام ہے ) -اب آپ جانتے ہیں کہ علم کا معرفہ ہونا معرف باللام سے زیادہ ہے پس میں نے کم تر درجہ لکھا ہے جس پر اعتراض نہیں کر سکتے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
قرآن سے مثالقال إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلاما زكيا
میں تمہیں لڑکا دینے آیا ہوں
بلا شبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہیں لڑکا دیتا ہوں (یہاں وھب کا لفظ استعمال ہوا اور بغیر کسی باذن اللہ کی اضافت کے ساتھ ) تو کیا آپ اس کی اجازت دیں گے کہ آپ کے علماء یہ بیان کرتے رہیں حضرت مریم علیہا السلام کو بیٹا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عطا کیا
اگر چہ جبرائیل علیہ السلام نے یہی کہا کہ میں بیٹا وھب کرنے آیا ہوں لیکن ہم کو اس انداز میں بات کرنے کی اجازت نہیں
اسی طرح آگبوٹ والے واقعہ میں موہم کلمہ کو اگر چہ صحیح محمل پر رکھا جاسکتا ہے لیکن موہم ہونے کی وجہ سے یہ کلمہ کہنے کی اجازت نہیں
محترم بھائی تین واقعے ہیں
1۔اوپر قرآن کا واقعہ
2۔امداد اللہ مکی کا واقعہ
3۔بریلویوں کا غوث اعظم کو پکارنے کا واقعہ
آپ دلائل سے دوسرے واقعے کو پہلے کی طرح ثابت کریں میں دوسرے واقعے کو تیسرے کی طرح ثابت کرتا ہوں
کیا یہ چیلنج قبول ہے

تلمیذ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کیا یہ چیلنج قبول ہے

تلمیذ
محترم بھائی میں یہ نہیں کہتا کہ آپ دل سے شرک کو قبول کرتے ہیں یا شرک کرتے ہیں بلکہ مجھے صرف بے جا حمایت میں بزرگوں کی غلط بات کا رد نہ کرنے کا دکھ ہوتا ہے
محترم بھائی بزرگوں سے محبت دو طرح سے ہوتی ہے
1۔اس طرح محبت ہو کہ یہ عقیدہ بنا لیں کہ ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی اور اگر واضح غلطی نظر بھی آ جائے تو دور کی تاویلیں کر کے اسکو رد کریں اس سے شیطان اس بزرگ کے کندھے پہ غلط عقائد کی بندوق رکھ کر اپنا کام چلاتا ہے جو آپ کے بزرگوں سے کروا رہا ہے
2۔اس طرح محبت کریں کہ ان سے غلطی کی نا جائز تاویل تو نہ کریں لیکن اس کی وجہ سے انکو اسلام سے خارج یا اسکی عزت کم نہ کریں-اس طرح شیطان آپ کے بزرگوں کا کندھا استعمال کرنے سے مایوس ہو جائے گا
اوپر میں نے لکھا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا رد کیا ہے تو کیا ابن حجر عسقلانی ہماری نظروں سے گر گئے ہیں ہم ہر جگہ بلوغ المرام اور فتح الباری کا حوالہ دے رہے ہوتے ہیں پس رد سے ان کی توہیں نہیں ہوتی جو آپ کو شاہد ڈر ہے اگر آپ کو ایسا ڈر نہیں تو پھر غور کریں کہ کیا آپ شیطان کے بہکانے کی وجہ سےدوسری والی محبت تو نہیں کر رہے
پس آپ ہم پر بزرگوں کی محبت کا الزام نہیں لگا سکتے البتہ دوسری محبت کا الزام لگا سکتے ہیں جو اچھا الزام ہے کہ شیطان ہمارے بزرگوں کے کندھے پر غلط عقیدے کی بندوق نہیں رکھ سکتا جیسے کرامات اہل حدیث کو ہم سب رد کرتے ہیں
تلمیذ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یا پھر حرف ندا سے کی ہو گی یعنی یا بزرگ جو کہ معرفہ (معرف باللام ہے ) -اب آپ جانتے ہیں کہ علم کا معرفہ ہونا معرف باللام سے زیادہ ہے پس میں نے کم تر درجہ لکھا ہے جس پر اعتراض نہیں کر سکتے
محترم بھائی میں جلدی اور ذہنی طور پر کچھ اور سوچنے کی وجہ سے منادی کو معرف باللام لکھ گیا اب دیکھا تو پتا چلا-معذرت
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آپ ہمارے فتاوی دیکھیں ، اگر ہم کسی غیر حاضر شخص سے استمداد کے قائل ہوتے تو کیا ہمارا جو استمداد کے متعلق مستند دینی درسگا ہوں کے فتاوی ہیں وہ فتاوی ہوتے ؟؟؟؟؟ مالکم کیف تحکمون ۔

بدقسمتی سے ایک ایک بات پر مفصل گفتگو ہو ہی نہیں پاتی اور موضوع کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔ ورنہ اس اہم موضوع پر آپ کے ساتھ تسلی سے گفتگو کرتا۔ خیر، آپ کی درج بالا بات کے جواب میں عرض ہے کہ درج ذیل فتویٰ ملاحظہ فرمائیے اور پھر اس کا جواب عنایت فرما دیں کہ یہ کیونکر استمداد لغیراللہ کی حدود سے خارج ہے؟

فتویٰ لنک


سوال:
اگر کوئی شخص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر یہ کہے کہ یا رسول اللہ، آپ اللہ کے دربار میں میری شفاعت کر دینا تو کیا اس طرح ڈائریکٹ رسول اللہ سے مانگنا جائز ہے؟




جواب:
روضہٴ اقدس پر حاضر ہوکر اس طرح دعا کی درخواست کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


لیجئے فتویٰ کی زبان میں غیراللہ سے استمداد کا آپ کا مطالبہ پورا ہوا۔
مزید اس ضمن میں احسن گیلانی صاحب کی ایک اہم عبارت پہلے پیش کی جا چکی ہے۔ مکرر ملاحظہ ہو:

"پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں۔" (حاشیہ سوانح قاسمی 334/1)

اہل قبور سے فیض بھی آپ کے یہاں بالکل جائز و درست قرار پاتا ہے:
فتویٰ لنک

سوال: حضرت کیا بزرگوں کا فیض عالم ا برزخ سے بھی جاری رہتا ہے ؟ اس کی دلیل کیا ہے ؟ حضرت اس زمانے کے سلفی حضرات کیوں تصوف کو برا کہتے ہیں جب کے امت مسلمہ کے اکابرین تصوف سے مناسبت رکھتے تھے۔

جواب: بزرگان دین اور اولیائے کرام کی ارواح سے فیض تو ہوتا ہے، ہم اس کا انکار نہیں کرتے، "دلائل السلوک" میں بہت ساری احادیث اور واقعات لکھے ہوئے ہیں، مگر حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ یہ کاملین کے لیے ہے، عوام کے لیے یہ ممنوع ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ان میں بہت سی بدعقیدگیاں اورخرافات پیدا ہوتی ہیں۔ غیرمقلدین تو تصوف کو، بزرگان دین کو مانتے ہی نہیں، وہ تو حضرات صحابہٴ کرام کی باتوں کو بھی حجت نہیں مانتے ہیں ان لوگوں نے تو سعودیہ میں اپنے آپ کو اہل حق میں دِکھانے کے لیے اپنا نام "سلفی" رکھ لیا ہے۔ شروع میں ان لوگوں نے اپنا نام "وہابی" رکھا، پھر اس کے بعد بدل کر اپنا نام "محمدی" رکھا، اس کے بعد اپنی جماعت کا نام "اہل حدیث" رکھا اور اب بدل کر "سلفی" نام رکھ لیا، گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں، یہ تو اہل حق میں سے نہیں ہیں، ان کا قول پیش کرنے سے کیا فائدہ۔
 
Top