عبدہ
بات جہاں سے میں نے شروع کی تھی کچھ اس طرح تھی بریلوي مسلک اور دیوبندی مسلک کی کتب میں کئی خرق العادہ واقعات درج ہیں ، لیکن دیوبند مسلک کے افراد اس سے کبھی بھی یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتے کہ عالم الغیب اللہ تبارک و تعالی کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے یا کوئي اور بھی مدد کرسکتا ہے اور نہ کبھی ہم بطور استمداد یا رسول اللہ کہنے کے قائل ہیں جبکہ بریلوی حضرات کے ہاں ایک عام معمول ہے اور یہ ایک بریلوی اور دیوبندی مسلک میں واضح فرق ہے
اب جس اعتراض پر ہم پہنچے ہیں وہ کچھ اس طرح ہے کہ اگر دیوبند اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا تو دیوبند کی کتب میں کیوں استمداد والے واقعات موجود ہیں بطور مثال ایک واقعہ تحریر کیا گیا جس میں یہ الفاظ ہیں
اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امداد کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے
یہاں بات اب نیک و متبع سنت افراد کی تفرادات کی ہے ۔ تفردات فقہاء سے بھی ہوئے ہیں اور محدثین سے بھی اور نیک افراد سے بھی ۔ اگر کوئی فقیہ ایسے مسئلہ کا استنباط کرتا ہے جو دوسرے فقہاء امت کو غلط لگا تو اس مسئلہ کا رد کیا جائے گا اور کوئی تاویل نہیں کی جاتی ۔ مثلا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بعض مسائل سے صاحبین کو اختلاف ہوا اور دیگر فقہاء حنفی کو بھی صاحبین کا قول اقرب الی الحق لگا تو انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول چھوڑ کر صاحبین کے قول پر فتوی دیا اور فقہ حنفی کا عمل صاحبین کے فتوی پر ہوا
ایک تفردات عقیدہ سے متعلق ہوتی ہے ۔ مثلا کسی متبع سنت نے کوئی ایسی بات کہ دی جو بظاہر اسلامی عقائد کے خلاف لگ رہی ہے تو کیا موقف ہونا چاہئیے ، یہاں اہل حدیث ، دیوبند اور بریلوی حضرات کے موقف میں فرق ہے
اہل حدیث موقف
عبدہ بھائی کے الفاظ میں
محترم بھائی عقیدہ کے مسئلہ میں خفی امور میں ہمارے اسلاف سے کوئی کوتاہی ہو بھی گئی تو اس کی بنیاد پر ان کو کافر نہیں کہا گیا مثلا ابن حجر عسقلانی کا الاسماء و الصفات میں تفویض کا عقیدہ جس پر عرب علماء نے فتح الباری کے صفحات کے حوالہ سے ان غلطیوں کی نشاندہی کر رکھی ہے جس پر غالبا ابن باز کی تقریظ بھی شاہد موجود ہے پس ہمارے اسلاف نے اس کا رد کیا ہے لیکن ابن حجر عسقلانی کو اسلام سے تو کیا اہل سنت سے بھی خارج نہیں کیا البتہ بے جا تاویل نہیں کی
بریلوی موقف
بریلوی حضرات ان تفردات کو اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں اور ان پر عمل شروع کردیتے ہیں ، یا رسول اللہ وغیرہ کہنا اسی قبیل سے ہے
دیوبندی حضرات کا موقف
بعض اولیاء اللہ سے غلبہ حال میں کلمات و افعال خارج ہوتے ہیں ان کلمات کے متعلق علماء دیوبند کا موقف و مسلک یہ ہے کہ ان اقوال جو بظاہر سطح سنت و شریعت سے ہٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کی بنیاد پر ان ولی کے متعلق شرک کا فتوی نہیں لگاتے اور نہ اس کے بالمقابل غلو محبت سے ان مبہم و موہم کلمات کو دین اصلی سمجتھے ہوئے اس کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کردیں اور جو نہ مانے اسے اسلام سے خارج قرار دے دیں
یہ دونوں راہ غلط ہیں
جب ایک شخص جو عام حالات میں پابند شریعت و متبع سنت ہے اس کے اس طرح کے اقوال کی ممکن و صحیح توجیہ و محمل بیان کیا جاتا ہے
اس لئیے ہم اس طرح کے مبہم و موہم اقوال کو زور لگا کر کسی باطل معنی پر محمول کرنے کی سعی کے بجائے اس کے اصلی اور صحیح محمل جب کہ وہ موجود ہو پر محمول کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان الفاظ کی عمومی تبلیغ و تقلید کو ممنوع کہتے ہیں
آگبوٹ والا واقعہ ان موقف کی روشنی میں
اب اسی مذکورہ واقعہ کے متعلق اگر ہم دونوں موقف کی نظر سے دیکھیں تو یہ نتائج آئيں گے
اہل حدیث حضرات کہیں گے یہ شرکیہ جملہ سے اس لئیے رد کیا جاتا ہے
دیوبندی حضرات کہیں گے یہ ایک متبع سنت مرید کا قول ہے جس کی باقی زندگی میں شرکیہ عقائد کی جھلک نظر نہیں آتی تو اس کا مطلب ہے اس نے استمداد لغیر اللہ نہیں کی بلکہ بطور توسل یہ کلمات کہے ، لیکن چوں کہ یہ کلمات موھم ہیں اس لئیے کسی اور کو کہنے کی اجازت نہیں
قرآنی واقعہ اور تینوں مسلک کے مواقف
اب اس موقف کو قرآن کے ایک واقعہ پر اپلائی کرکے دیکھتے ہیں جس واقعہ کو میں بار بار ذکر کر رہا ہوں لیکن کوئي جواب نہیں آرہا ہے
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا
قال إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلاما زكيا
میں تمہیں لڑکا دینے آیا ہوں
(یہاں وھب کا لفظ استعمال ہوا اور بغیر کسی باذن اللہ کی اضافت کے ساتھ )
اہل حدیث موقف کے روشنی میں ، حضرات جبرائیل علیہ السلام کا قول شرکیہ ہے کیوں اللہ تبارک و تعالی کے علاوہ کوئی لڑکا یا لڑکی نہیں دے سکتا اس لئیے ان کا یہ قول شرکیہ ہونے کی وجہ رد کیا جائے گا
بریلوی موقف ، چوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے لڑکا وھب کرنے کی نسبت اپنے طرف کی اس لئیے ہم بھی بزرگوں سے اولاد مانگ سکتے ہیں
دیوبندی موقف
حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک مقرب فرشتہ ہیں تو وہ شرکیہ بات نہیں کہ سکتے ان کی مراد یہی تھی کہ اس لڑکے کو تمہیں عطاء ہونے کا سبب جبرائیل علیہ السلام کا نفخہ تھا اور اسی سبب کی وجہ سے انہوں نے وھب کی نسبت اپنی طرف کر لی لیکن ہم کو یہ کہنے کی اجازت نہیں جبرائیل علیہ السلام نے مریم علیہ السلام کو بیٹا عطاء کیا
یہاں دو امور واضح ہیں
دیوبندی موقف اور بریلوی موقف میں فرق واضح ہے
دوسرا اوپر آگبوٹ والے واقعے میں اہل حدیث موقف غلط ہے اور مین نے جو موقف اپنایا وہ صحیح ہے