• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقائد میں اختلاف مسلک اہل حدیث کے افراد کو کیوں نظر نہیں آتا

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم بھائی دیوبندی اور بریلوی کے موقف میں جو فرق واضح آپ نے کیا ہے اس پر اعتراض اوپر پوسٹ میں کر دیا ہے
دوسرا جو آپ نے لکھا ہے کہ آگبوٹ والے واقعے میں اہل حدیث کا موقف غلط اور آپ کا ٹھیک ہے اور اس پرآپ نے کچھ دلائل بھی دئیے ہیں

میرا اس پر یہ کہنا ہے کہ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہو سکتی ہے اگر مندرجہ ذیل چیز پہلے ثابت ہو جائے
جبرائیل علیہ السلام والا واقعہ اور آگبوٹ والا واقعہ مخاطب کو ایک جیسی کنفیوزن ڈالتا ہے

مگر یہ بات ہی غلط ہے اس پر اوپر بھی میں نے لکھا تھا مزید بھی اگر کہیں گے تو لکوں گا اور یہاں بھی ایک اور بات لکھ دیتا ہوں کہ آپ بھی ایسا نہیں سمجھتے
وہ ایسے کہ آپ نے جہاں تین موقف لکھ کر اپنے موقف کو ٹھیک ثابت کیا ہے وہاں دانستہ قرآن والا واقعہ لکھا ہے آگبوٹ والا واقعہ نہیں لکھا چونکہ آپ کو پتا تھا کہ ان میں فرق ہے
دونوں واقعات کی مماثلت اوپر ذکر دی گئی ہے

اس کو ثابت کرنے کے لئے آپ والی بات کو میں آگبوٹ والے واقعہ پر فٹ کر کے لکھتا ہوں
واقعہ:ڈوبنے والے نے مایوس ہو کر اپنے پیر کا خیال کیا اور کہا کہ اس وقت سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا جس پر پیر نے کہا کہ ڈوبنے والے کہ گریہ زاری نے مجھے بیٹھنے نہیں دیا
اس واقعے پر
1-بریلوی موقف یہ ہے کہ یہ جائز ہے اور ہم مانگ بھی سکتے ہیں اور وہ دے بھی سکتے ہیں
2-دیوبندی موقف یہ ہے کہ اگر یہ دیوبندی کہے تو جائز ہے اور وہ خطا کار نہیں ہے البتہ ہم اسکی تاویل کریں گے اور اگر بریلوی کہے تو نا جائز ہے اور وہ خطا کار ہے
غلط ۔ یہاں بات دیوبندی و بریلوی کی نہیں متبع سنت کی ہے ، جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں وضاحت کی گئی

3-اہل حدیث کا موقف ہے کہ اگرچہ ہم امداد اللہ پر شرک کا فتوی نہیں لگاتے مگر یہ بات چاہے بریلوی کہے چاہے دیوبندی کہے چاہے اہل حدیث کا عالم کرامات اہل حدیث میں کہے یہ غلط ہے البتہ اگر کہنے والا باقی مکمل متبع سنت ہے تو اسکو اسکی خطا کہیں گے
کیا آپ حضرات جبرائیل علیہ السلام کو بھی خطا کا ر کہیں گے ، اگر نہیں تو کیا ہم وہ جملہ کہ سکتے ہیں کہ حضرت مریم علیہ السلام کو بیٹا جبرائیل علیہ السلام نے عطا کیا

نوٹ:دونوں واقعوں میں فرق یہ ہے کہ ایک واقعہ میں جائز تاویل ممکن ہے اور دوسرے واقعے میں جائز تاویل ممکن نہیں
محترم تلمیذ بھائی
محترم میں سمجھ رہا ہوں کہ جو جملہ آگبوٹ والے واقعہ میں ذکر ہے آپ کے نذدیک اس کی جائز تاویل ممکن نہیں اور مجھے گمان ہو رہا ہے اصل محل النزاع یہی امر ہے کہ اس کی جائز ممکن ہے یا نہیں ؟؟؟؟
کیا آپ توثیق کردیں گے ؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بدقسمتی سے ایک ایک بات پر مفصل گفتگو ہو ہی نہیں پاتی اور موضوع کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔ ورنہ اس اہم موضوع پر آپ کے ساتھ تسلی سے گفتگو کرتا۔ خیر، آپ کی درج بالا بات کے جواب میں عرض ہے کہ درج ذیل فتویٰ ملاحظہ فرمائیے اور پھر اس کا جواب عنایت فرما دیں کہ یہ کیونکر استمداد لغیراللہ کی حدود سے خارج ہے؟

فتویٰ لنک


سوال:
اگر کوئی شخص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر یہ کہے کہ یا رسول اللہ، آپ اللہ کے دربار میں میری شفاعت کر دینا تو کیا اس طرح ڈائریکٹ رسول اللہ سے مانگنا جائز ہے؟




جواب:
روضہٴ اقدس پر حاضر ہوکر اس طرح دعا کی درخواست کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


لیجئے فتویٰ کی زبان میں غیراللہ سے استمداد کا آپ کا مطالبہ پورا ہوا۔
ہم اس بات کے قائل ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر کی گئی عرض کو سنتے ہیں ( کبھی ٹائم ہوا تو ان شاء اللہ اس پر بھی بات کریں گے ) تو اگر کوئي ان کی قبر پر جا کر شفاعت کی درخواست کرتا ہے تو استمداد لغیر اللہ نہیں ، سائل نے شفاعت کی درخواست کی کل قیامت کو شفاعت میں مجھے بھی یاد رکھنا ، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاعت بھی کردی تو اس کو قبول کرنا یا رد کرنا اللہ کے اختیار میں ہے
ہاں اگر کوئی جاکر اولاد مانگے یا اسی طرح کا کچھ اور تو یہ بلاشبہ استمداد کہلائے گی


مزید اس ضمن میں احسن گیلانی صاحب کی ایک اہم عبارت پہلے پیش کی جا چکی ہے۔ مکرر ملاحظہ ہو:
"پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں۔" (حاشیہ سوانح قاسمی 334/1)
کسی مسلک کے ترجمان اس کے مستند مدارس ہوتے ہیں نہ کہ علماء کے تفردات
اس لئیے کسی ایک عالم کا قول پوریے مسلک پر تھوپنا کچھ مناسب طرز عمل نہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
وہ شخص خواہ بریلوی ہو یا دیوبندی یا مجھول الحال تینوں صورت میں اس سمجھایا جائے گا ، بھائی یہ شرکیہ جملہ ہے ۔ مدد کے لئیے صرف اللہ کو پکارو مشکل کشا صرف اللہ کی ذات ہے
محترم بھائی یہی بات جب ہم امداد اللہ مکی والے مرید کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر وہاں پر آپ کا مندرجہ ذیل حکم آڑے آ جاتا ہے

عبدہ
اس لئیے ہم اس طرح کے مبہم و موہم اقوال کو زور لگا کر کسی باطل معنی پر محمول کرنے کی سعی کے بجائے اس کے اصلی اور صحیح محمل جب کہ وہ موجود ہو پر محمول کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان الفاظ کی عمومی تبلیغ و تقلید کو ممنوع کہتے ہیں
یہ الفاظ میں نے اوپر پوسٹ میں بھی لکھے تھے مگر شاہد آپ نے نہیں پڑھے
اب اگر آپ کہیں کہ امداد اللہ کا مرید تو متبع سنت تھا اس لئے آپ اس کو دعوت نہیں دے سکتے مگر یہ ڈوبنے والا بریلوی متبع سنت نہیں تھا اسلئے اسکو میں شرک سے بچاؤں گا تو محترم بھائی میرے خیال میں اس کو سمجھانے سے آپ کی جماعت پر حرف نہیں آتا تھا مگر اس دیوبندی کو سمجھانے میں آپ کی جماعت پر حرف آتا ہے پس محترم بھائی آپ اس امداد اللہ مکی کے پیر کو نہ سمجھائیں مگر ہمیں تو سمجھانے دیں اس سے ہماری جماعت پر تو کوئی حرف نہیں آئے گا
ویسے آپ کو بتا دوں کہ ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی سمجھاتے ہیں اور اس سے جماعت کی بے عزتی محسوس نہیں کرتے بلکہ الحمد للہ عزت ہوتی ہے

جہاں تک موہم جملہ کی جائز تاویل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں جو موقف اپنایا اس کچھ خدوخال مکرر عرض ہیں
1- موہم جملہ کسی متبع سنت شخص سے صادر ہوا جس کی ساری زندگی شریعت کے مطابق چل رہی ہو
2- موہم جملہ کی جائز تاویل ممکن ہو
3- اس موہم جملہ کو آئندہ کسی کو کہنے کی نہ تبلیغ کی جائے بلکہ روکا جائے
(نوٹ : یہاں بعض افراد کو شائد خیال آئے یہ میرا موقف ہے لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ حنفی علماء کا مسلک ہے تو ان افراد کے لئیے عرض ہے بعینہ یہی دیوبند کا موقف قاری حنیف طیب نے اپنی کتاب "دیوبند کا مسلکی مزاج " میں تحریر کیا اور کتاب کو حنفی علماء کی تائید ہے جس میں تقی عثمانی بھی شامل ہیں )
محترم بھائی آپ کی تینوں باتیں سو فیصد ٹھیک ہے اور یہ میں نے اوپر مختلف پوسٹوں میں لکھی ہیں واقعی آپ کے اکثر علماء ایسا ہی کہتے ہیں اسی لیے میں نے انکو مشرک نہیں کہا (ہو سکتا ہے خالی کہتے ہوں جس وجہ سے میرے بھائیوں کو اپکے بارےشبہات ہیں )
البتہ محترم بھائی آپ اللہ کو گواہ بنا کر اپنے دو نمبر پوائنٹ پر غور کریں کہ اسکو آپ نے میری اوپر کی مثال میں ایسی تاویل قبول نہیں کی جو بالکل آگبوٹ واقعے کی طرح تھی- بلکہ ڈونبے والے کو شرک سے بچنے کی تلقین کی اب آپ بتائیں کہ اپنے امداد اللہ مکی کے مرید کو بھی کبھی آپ نے اپنی کسی کتاب میں اس واقعہ کا حوالہ دے کر کی جیسا کہ آپ نے 3 نمبر پوائنٹ میں لکھا ہے کہ انکو روکا جائے گا

محترم بھائی آپ کے ماہانہ تجلی کے مدیر کے علاوہ سیکڑوں حیاتیوں نے بھی غلطی کہا ہے تو بھائی ہم امداد اللہ کی بات نہیں کر رہے ہم تو انکے مرید کی غلطی کی بات کر رہے ہیں جو جان بوجھ کے نہیں تھی میں تو آپ کو بھی نہیں کہ رہا کہ جان بوجھ کہ آپکی باتوں میں تضاد ہے بلکہ آپ تو واقعی اپنے بزرگوں سے محبت ہے مگر لا شعوری طور پر اس محبت کی حد بھی ہے اللہ مجھے اور آپ کو بخش دے امین

نوٹ: محترم تلمیذ بھائی مجھ سے واقعی لا شعوری طور پر آپ کو چیلنج لکھنے کی غلطی ہو گئی جس پر آپ سے انتہائی معذرت ہے مگر یہ ردعمل میں میرا غلو تھا جو آپ کے یاد دلانے پر چھوڑ کر معافی مانگی اللہ ہمیں ولم یصروا علی ما فعلو وھم یعلمون پر عمل کی توفیق دے امین
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ہم اس بات کے قائل ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر کی گئی عرض کو سنتے ہیں ( کبھی ٹائم ہوا تو ان شاء اللہ اس پر بھی بات کریں گے ) تو اگر کوئي ان کی قبر پر جا کر شفاعت کی درخواست کرتا ہے تو استمداد لغیر اللہ نہیں ، سائل نے شفاعت کی درخواست کی کل قیامت کو شفاعت میں مجھے بھی یاد رکھنا ، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاعت بھی کردی تو اس کو قبول کرنا یا رد کرنا اللہ کے اختیار میں ہے
ہاں اگر کوئی جاکر اولاد مانگے یا اسی طرح کا کچھ اور تو یہ بلاشبہ استمداد کہلائے گی
اولاد مانگنے اور شفاعت مانگنے میں "مانگنے" یا "استمداد" کے لحاظ سے کیا جوہری فرق ہے؟
مفتی صاحب نے ڈائریکٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنا کس دلیل سے جائز قرار دیا۔ اور یہ کیونکر استمداد لغیراللہ نہیں ہے؟
ہمارے نزدیک تو آج کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی براہ راست مانگنا، اور چاہے وہ ان کی قبر پر مانگا جائے یا کہیں دور سے، یہ اللہ کے غیر سے مافوق الاسباب مدد لینے کے ہی معنوں میں ہے۔

اصل مسئلہ ان کرامات کے تعلق سے یہیں ہے۔ کہ جس مرید کو آپ بار بار "متبع سنت" اور "صحیح العقیدہ" باور کروا کر بریلوی و دیوبندی میں فرق تسلیم کروانا چاہ رہے ہیں۔ وہ ہمارے نزدیک صحیح العقیدہ ہے ہی نہیں۔ آپ غیراللہ سے مافوق الاسباب شفاعت مانگنے کے قائل ہیں، تو بریلوی حضرات غیراللہ سے سب کچھ مانگنے کے قائل ہیں۔ اس سے شرک کی حقیقت میں تو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ کیا مانگا جا رہا ہے۔ غیراللہ سے مافوق الاسباب مانگنا شرک ہے، کیا مانگا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

بات یہ ہے کہ بریلوی جس بات کو برملا تسلیم کرتے ہیں، علمائے دیوبند اسے کبھی تصوف کی آڑ میں تو کبھی خواص کی آڑ میں تسلیم کرتے ہیں۔
اور احسن گیلانی صاحب کی عبارت اسی بدعقیدگی کا برملا اظہار ہے اور کچھ نہیں۔

کسی مسلک کے ترجمان اس کے مستند مدارس ہوتے ہیں نہ کہ علماء کے تفردات
اس لئیے کسی ایک عالم کا قول پوریے مسلک پر تھوپنا کچھ مناسب طرز عمل نہیں
آپ کی بات بجا، سوال یہ ہے کہ آیا کسی دیوبندی "عالم" نے بھی ان کے اس نظریے کو ان کا تفرد قرار دیا ہے؟
آپ کا کہنا، معاف کیجئے گا، مسلک دیوبند میں تو کوئی مقام نہیں رکھتا۔
جبکہ مجھے یقین ہے کہ دیگر دیوبندی علماء نے اس عبارت کا بھی دفاع ہی کیا ہوگا، بس ڈھونڈنا پڑے گا۔ آپ اگر اپنی بات پر قائم رہیں تو ہم یہ بھی ڈھونڈ لانے کو تیار ہیں۔
بہرحال، یہ بھی آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے اس عبارت کو ان کا تفرد تسلیم کیا، گویا اسے غلط قرار دے دیا۔

آپ کو یہ ایک عبارت ان کا تفرد معلوم ہو رہی ہے یہ تو فقط بات شروع کرنے کے لئے بطور مثال عرض کی گئی تھی۔ اب آپ ذرا درج ذیل عبارت پر نظر دوڑائیے اور پھر بتائیے کہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کے مسند نشینوں کا یہ عقیدہ کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے یا یہ بھی ان کا تفرد ہی ہے۔ یاد رہے یہ عبارت بریلوی کتاب "زلزلہ" کے جواب میں لکھی جانے والی کتاب "انکشاف" سے لی جا رہی ہے جس کا مقصد ہی کرامات کے ذریعہ علمائے دیوبند کے عقائد کشید کرنے والوں کو غلط ثابت کرنا اور اپنے مؤقف کی درست وضاحت پیش کرنا تھا۔

" پوشیدہ باتوں کا معلوم کرنا کشف ہے۔ اس کی دو قسم ہے۔ کشف صغریٰ ، کشف کبریٰ۔ کشف صغریٰ کو کشف کونی بھی کہتے ہیں۔ یعنی سالک اپنی قلبی توجہ سے زمین و آسمان، ملائکہ، ارواح، اہل قبور، عرش، کرسی، لوح محفوظ الغرض دونوں جہاں کا حال معلوم کر لے اور مشاہدہ کر لے۔ " [اصطلاحات صوفیہ ص 136، انکشاف ص 35]

اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ یہ آنکھوں سے لہو کی بوند ٹپکنے کی بات ہے یا نہیں؟ اگر اپنے گھر کے بزرگوں کے حق میں یہ عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق ہے کہ وہ اپنی قلبی توجہ سے زمین و آسمان، ملائکہ، ارواح، اہل قبور، عرش، کرسی، لوح محفوظ الغرض دونوں جہاں کے احوال معلوم کر لیتے ہیں تو پھر آپ ہی بتائیے کہ اس کے بعد اب کون سا علم باقی رہ جاتا ہے جس پر شرک کا حکم لگایا جائے گا؟

تلمیذ بھائی، عقیدے کا اور وہ بھی عقیدہ توحید کا مسئلہ ہے۔ مسلکی عصبیت کو ایک جانب رکھ دیجئے اور یہ فیصلہ کیجئے کہ کیا درج بالا عقائد اسلامی عقائد کہلائے جا سکتے ہیں؟
اگر بزرگوں کے حق میں "چھوٹے کشف" کے تحت عرش، کرسی، لوح محفوظ کا مشاہدہ و معائنہ ممکن ہے تو امام الانبیاء کے حق میں بریلویوں کا یہ دعویٰ کہ ان کی نظر سے لوح محفوظ عرش کرسی کچھ بھی باہر نہیں، کیونکر غلط قرار دیا جا سکتا ہے؟
ہمیں اصطلاحات سے مطلب نہیں۔ نتائج کا یا عملاً تسلیم شدہ بات کا اعتبار کیجئے، تو جو چیز علمائے دیوبند "چھوٹے کشف" کے تحت مان رہے ہیں، وہی چیز بریلوی حضرات علم الغیب کے تحت مان لیتے ہیں۔ وہ بھی عطائی کی بات کرتے ہیں، آپ بھی یہی بات کر رہے ہیں۔ بالا عبارت سے تو بلکہ یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ فقط "قلبی توجہ" سے ظاہر و مشاہدہ میں آ جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ قلبی توجہ اختیار کی چیز ہے!!

یہ تو کشف صغریٰ کا معاملہ تھا۔ اب کشف کبریٰ کا حال پڑھئے:
ارشاد فرماتے ہیں:
" کشف کبریٰ اس کو کشف الٰہی بھی کہتے ہیں۔ یعنی ذات حق سبحانہ کا مشاہدہ اور معائنہ ہو جانا اور جملہ حجابات اور اعتبارات کا اٹھ جانا اور نور بصیرت سے خلق کو عین حق اور حق کو عین خلق دیکھنا۔ سالک کا مقصود اصلی یہی کشف ہے۔" ( اصطلاحات صوفیہ ص 120، انکشاف ص 36)
مفتیان دیوبند اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
" اس واضح تفصیل سے آپ کے شبہات یقیناً زائل ہو گئے ہوں گے ۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اکابر دیوبند بلکہ تمام اولیاءاللہ کشف کبریٰ ہی کو دراصل حصول مقصد سمجھتے ہیں اور اس کشف صغریٰ کو صرف مفید قرار دیتے ہیں۔ (انکشاف: ص 37)

"زلزلہ" کے مصنف کا تبصرہ یہ ہے:
اب یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ آب و گل کی اس دنیا میں خدا کی ذات کا معائنہ اور مشاہدہ کرنا کیا یہ شرعاً کسی انسان کے لئے ممکن بھی ہے؟ لیکن مبارک ہو مفتیان دیوبند کو جو مدعا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو درخواست کے باوجود حاصل نہ ہو سکا وہ انہوں نے اپنے اکابر کے لئے بغیر کسی زحمت کے تسلیم کر لیا۔

تلمیذ بھائی،
اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ و معائنہ ہو جانا، جملہ حجابات اٹھ جانا اور نور بصیرت سے خلق (گویا مخلوق) کو عین حق (گویا خالق، یعنی اللہ) اور حق کو عین خلق دیکھنا۔ یہ سب کیا ہے؟
کیا یہ عقائد اہل توحید کے ہو سکتے ہیں؟ کیا ان عقائد کے حامل کسی شخص کو "مؤحد" قرار دینا ممکن ہے؟ کیا ان عقائد میں اور بریلویوں کے عقائد میں کوئی جوہری فرق ہے؟

ابھی آفس سے چھٹی کا وقت ہے، باقی باتیں پھر سہی ان شاء اللہ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دونوں واقعات کی مماثلت اوپر ذکر دی گئی ہے

غلط ۔ یہاں بات دیوبندی و بریلوی کی نہیں متبع سنت کی ہے ، جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں وضاحت کی گئی

کیا آپ حضرات جبرائیل علیہ السلام کو بھی خطا کا ر کہیں گے ، اگر نہیں تو کیا ہم وہ جملہ کہ سکتے ہیں کہ حضرت مریم علیہ السلام کو بیٹا جبرائیل علیہ السلام نے عطا کیا
محترم بھائی دیکھیں دو بالکل ایک جیسے واقعات ہیں
1-امداد اللہ مکی کا آگبوٹ والا واقعہ
2-میرا کسی مسلمان کے آگبوٹ میں ڈوبنے والا فرضی واقعہ

اور تیسرا واقعہ جبرائیل والا بالکل مختلف واقعہ ہے جس پر ان دونوں واقعات کو قیاس نہیں کر سکتے

میرا پہلا سوال

کیا پہلے دونوں واقعات میں کوئی فرق ہے آپ کا جواب یقینا ہو گا نہیں کیونکہ پہلا امداد اللہ مکی کے مرید کے متبع سنت نہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں اسی طرح میرے واقعے میں ڈوبنے والے کے متبع سنت نہ ہونے پر بھی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں

میرا دوسرا سوال

آپ نے جبرائیل کے قول پر اعتراض نہیں کیا مگر میرے والے واقعے میں ڈوبنے والے کے قول پر اعتراض کیا ہے تو کیا ن دونوں اقوال میں مماثلت آپ کے نزدیک ہو گی
آپ کا جواب اوپر باتوں کے مفہوم سے سو فیصد یہی ہے کہ ان دونوں میں مماثلت نہیں ہو گی

نتیجہ

جیسے ریاضی کے مسائل میں نتیجہ نکالتے تھے آپ جان گئے کہ A اور B ایک جیسے ہیں لیکن B اور C ایک جیسے نہیں تو ایک میٹرک کے طالب علم سے پوچھیں کہ کیا A اور C برابر ہوں گے تو وہ کہے گا کبھی نہیں ہوں گے
امید ہے محترم بھائی مماثلت والے بات سمجھ آ گئی ہو گی اللہ آپ کو جزا دے امین


کیا آپ حضرات جبرائیل علیہ السلام کو بھی خطا کا ر کہیں گے ، اگر نہیں تو کیا ہم وہ جملہ کہ سکتے ہیں کہ حضرت مریم علیہ السلام کو بیٹا جبرائیل علیہ السلام نے عطا کیا

یہ سوال اوپر کی وضاحت کے بعد آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے میرے فرضی واقعے میں کہا کہ ڈوبنے والا جب کہے گا کہ اے غوث اعظم مجھے بچاؤ تو ہم اسکو خطا کار کہتے ہوئے شرک سے بچنے کی نصیحت کریں گے تو میرا سوال ہے کہ کیا پھر جبرائیل کو بھی خطاکار کہیں گے جو جواب آپکا وہی میرا-

محترم میں سمجھ رہا ہوں کہ جو جملہ آگبوٹ والے واقعہ میں ذکر ہے آپ کے نذدیک اس کی جائز تاویل ممکن نہیں اور مجھے گمان ہو رہا ہے اصل محل النزاع یہی امر ہے کہ اس کی جائز ممکن ہے یا نہیں ؟؟؟؟
کیا آپ توثیق کردیں گے ؟
محترم بھائی اسکی توثیق کے لئے آپ میری اوپر کی پوسٹیں دیکھ لیں میرے خیال میں میں نے اس کی پہلے بھی آپ کے کہنے کے با وجود توثیق کی ہوئی ہے

محترم @تلمیذبھائی میں آپ کی کچھ باتیں جن میں جائز تاویل ہوےی ہے انکو شرک کے زمرے میں نہیں لاتا جیسے کچھ بھائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں زندہ سمجھنے کے عقیدے کو بھی شرک کہتے ہیں یا سماع موتی کے اقرار کو بھی شرک کہتے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی ہونے کو بھی شرک سمجھتے ہیں تو میرا ان باتوں پر شرح صدر نہیں چنانچہ میں انکو شرک نہیں سمجھتا کیونکہ آپ کے پاس ان کی جائز تاویل ہوتی ہے البتہ دوسری وجوہات سے اسکا رد ضرور کرتا ہوں البتہ ابھی یہاں یہ موضوع نہیں
اب محترم بھائی میری اس توثیق سے بھی بات کا فیصلہ نہیں ہو گا کیونکہ اوپر میں نے واقعات کی مماثلت میں بتا دیا ہے کہ اس جیسے واقعے میں آپ بھی اس کو جائز تاویل نہیں مانتے
اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
پچھلی مشارکت میں بات تھوڑی سی ادھوری رہ گئی تھی۔ اس پوسٹ کو بھی اس کے ساتھ ہی ملا لیجئے۔

بگڑے ہوئے عقیدے کے ثبوت کے لئے یہ بھی ملاحظہ فرمائیے:
رشید احمد گنگوہی صاحب نے اپنی کتاب امدادالسلوک ص:10پر لکھا ہے کہ "مرید کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ پیر کی روح ایک جگہ مقید نہیں ہوتی۔ مرید جس جگہ بھی ہو چاہے دور ہو یا نزدیک اگر چہ مرید ذہنی طور پر پیر کے جسم سے دور ہے لیکن پیر کی روحانیت اس سے دور نہیں۔ یہ بات جان لینے کے بعد مرید ہر وقت پیر کی یاد دل میں رکھے اور قلبی تعلق اس سے ظاہر ہونا چاہیے اور ہر لمحہ اپنے پیر سے فائدہ حاصل کرتا رہے۔ مرید اپنے پیر کا محتاج ہوتا ہے۔ لہذا پیر کو اپنے قلب میں ظاہر جان کر ذہن سے اس سے طلب کرے تو پیر کی روح اللہ کے اذن سے ضرور القا کرے گی۔"

اور اب بالا عقیدے کو آگبوٹ والے واقعے پر بھی منطبق کیجئے۔
وہاں بھی مرید نے پیر روشن ضمیر کی جانب خیال کر کے ان سے استعانت طلب کی تھی۔
اور یہی کچھ گنگوہی صاحب ارشاد فرما رہے ہیں کہ پیر کو اپنے دل میں حاضر جانیں اور اس سے طلب کریں یعنی مانگیں تو اللہ کے حکم سے ضرور اس کی مدد کی جائے گی۔ اور مدد بھی پیر کی روح کرے گی۔ اب یا تو آپ پیر میں خدائی صفات مانتے ہوں کہ وہ دل کے ہر ہر گزرنے والے خیال سے ہمہ وقت واقف ہے، تب تو یہ استعانت ماتحت الاسباب کہلائی جا سکتی ہے، اور اس صورت میں بھی عقیدے کی سنگین گمراہی لازم آتی ہے۔ اور اگر آپ پیر میں یہ صفات نہ مانیں ، تو یہ مافوق الاسباب طلب حاجت ہے اور یہی ہمارے بیچ نزاع ہے کہ دیوبندی علماء خواص کو غیراللہ سے استمداد کی اجازت دیتے ہیں اور عوام سے اسے چھپاتے ہیں۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
دیوبندی موقف
حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک مقرب فرشتہ ہیں تو وہ شرکیہ بات نہیں کہ سکتے ان کی مراد یہی تھی کہ اس لڑکے کو تمہیں عطاء ہونے کا سبب جبرائیل علیہ السلام کا نفخہ تھا اور اسی سبب کی وجہ سے انہوں نے وھب کی نسبت اپنی طرف کر لی لیکن ہم کو یہ کہنے کی اجازت نہیں جبرائیل علیہ السلام نے مریم علیہ السلام کو بیٹا عطاء کیا
ممکن ہے آپ کی بات کو میں ٹھیک اور درست مان لیتا مگر اس وقت میرے سامنے ’’تبلیغی و دیوبندی جماعت کاتباہ کن صوفیت کا عقیدہ‘‘
کتاب کھلی ہوئی ہے جس میں مصنف نے فضائل اعمال سے بہت سارے اقتباسات پیش کئے ہیں جنکی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ بریلویت میں بدعقیدگی دیوبندیت سے آئی ہے اور میں نے مصنف کی صداقت کو جانچنے کے لئے کئی ایک حوالہ جات چیک بھی کئے کہیں مسلکی تعصب میں کچھ غلطی نہ کی گئی ہو۔
مگر تمام حوالہ جات درست تھے۔آج یہی تبلیغی جماعت دیوبندیت کے فروغ کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے دیوبندیت کے لئے پنیری فراہم کرتی ہے ۔جو بندہ اک بار چلہ لگا لیتا ہے پھر وہ دیوبندی بن جاتا ہے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
بھائی سچ بات یہ ہے کہ پہلے میں خود بھی ان لوگوں کو اہلِ توحید میں سے سمجھتا تھا لیکن دیوبندیوں کے اسی دوغلے پن نے مجھے بھی ان لوگوں سے متنفر کر دیا ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دیوبندی مولویوں کی دکانداری اسی وقت تک چلتی ہے جب تک لوگ جاہل ہیں، جونہی لوگ دین کا علم حاصل کرنے لگتے ہیں پھر وہ دیوبندی نہیں رہتے اور اس بات کا ان دیوبندی مولویوں کو بھی ادراک ہے اسی لیے وہ اپنے معتقدین کو قرآن و حدیث اور اہل حدیثوں سے دور رکھنے کے لیے ہر قسم کے جتن کرتے ہیں۔
دوسری طرف ان کے معتقدین کی جہالت کا یہ حال ہے کہ فضائلِ اعمال میں سے ایک قصہ میں نے ایک جاننے والے کو سنایا تو وہ پہلے پہل تو بڑا آگ بگولہ ہوا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس قسم کی شرکیہ بات فضائلِ اعمال میں ہو پھر میں نے اسے حوالہ دے کر دیکھنے کو کہا اور اگلی ملاقات پر جب اس کے خیالات پوچھے تو بولا "ایسا ہوسکتا ہے اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے" میں نے پوچھا اب یہ بات صحیح کیسے ہو گئی تو بولا "جس بزرگ کے حوالے سے یہ بات لکھی ہوئی ہے اس کے نام کے اوپر (رح) لکھا ہوا ہے"۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
اصل میں رائیونڈان کو پنیری دیتا ہے یہ جاہلوں کو گھیر گھار کر رائیونڈ لے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس شریف آدمی کو مسلمان بنائیں یہ اس کو دیوبندی بنا دیتے ہیں کہ جائو ساری عمر تقلید کا پٹہ گلے میں جاہلوں اور جانوروں کی طرح لٹکائے پھرو اور دنیا کے ساتھ اپنی آخرت بھی تباہ کر لو۔
یہ ہی بات ہے ساری
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اصل میں رائیونڈان کو پنیری دیتا ہے یہ جاہلوں کو گھیر گھار کر رائیونڈ لے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس شریف آدمی کو مسلمان بنائیں یہ اس کو دیوبندی بنا دیتے ہیں کہ جائو ساری عمر تقلید کا پٹہ گلے میں جاہلوں اور جانوروں کی طرح لٹکائے پھرو اور دنیا کے ساتھ اپنی آخرت بھی تباہ کر لو۔
یہ ہی بات ہے ساری
محترم بہتر ہے کہ احسن انداز میں گفتگو کیجئے اور یا پھر خاموش رہئے۔ یہ انداز نفرت کو فروغ دینے والا ہے، اصلاح یا تبلیغ کرنے والوں کا یہ انداز نہیں ہوتا اور خصوصاً جب کہ وہ نبوی منہج کے دعوے دار بھی ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top