ہم اس بات کے قائل ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر کی گئی عرض کو سنتے ہیں ( کبھی ٹائم ہوا تو ان شاء اللہ اس پر بھی بات کریں گے ) تو اگر کوئي ان کی قبر پر جا کر شفاعت کی درخواست کرتا ہے تو استمداد لغیر اللہ نہیں ، سائل نے شفاعت کی درخواست کی کل قیامت کو شفاعت میں مجھے بھی یاد رکھنا ، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاعت بھی کردی تو اس کو قبول کرنا یا رد کرنا اللہ کے اختیار میں ہے
ہاں اگر کوئی جاکر اولاد مانگے یا اسی طرح کا کچھ اور تو یہ بلاشبہ استمداد کہلائے گی
اولاد مانگنے اور شفاعت مانگنے میں "مانگنے" یا "استمداد" کے لحاظ سے کیا جوہری فرق ہے؟
مفتی صاحب نے ڈائریکٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنا کس دلیل سے جائز قرار دیا۔ اور یہ کیونکر استمداد لغیراللہ نہیں ہے؟
ہمارے نزدیک تو آج کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی براہ راست مانگنا، اور چاہے وہ ان کی قبر پر مانگا جائے یا کہیں دور سے، یہ اللہ کے غیر سے مافوق الاسباب مدد لینے کے ہی معنوں میں ہے۔
اصل مسئلہ ان کرامات کے تعلق سے یہیں ہے۔ کہ جس مرید کو آپ بار بار "متبع سنت" اور "صحیح العقیدہ" باور کروا کر بریلوی و دیوبندی میں فرق تسلیم کروانا چاہ رہے ہیں۔ وہ ہمارے نزدیک صحیح العقیدہ ہے ہی نہیں۔ آپ غیراللہ سے مافوق الاسباب شفاعت مانگنے کے قائل ہیں، تو بریلوی حضرات غیراللہ سے سب کچھ مانگنے کے قائل ہیں۔ اس سے شرک کی حقیقت میں تو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ کیا مانگا جا رہا ہے۔ غیراللہ سے مافوق الاسباب مانگنا شرک ہے، کیا مانگا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
بات یہ ہے کہ بریلوی جس بات کو برملا تسلیم کرتے ہیں، علمائے دیوبند اسے کبھی تصوف کی آڑ میں تو کبھی خواص کی آڑ میں تسلیم کرتے ہیں۔
اور احسن گیلانی صاحب کی عبارت اسی بدعقیدگی کا برملا اظہار ہے اور کچھ نہیں۔
کسی مسلک کے ترجمان اس کے مستند مدارس ہوتے ہیں نہ کہ علماء کے تفردات
اس لئیے کسی ایک عالم کا قول پوریے مسلک پر تھوپنا کچھ مناسب طرز عمل نہیں
آپ کی بات بجا، سوال یہ ہے کہ آیا کسی دیوبندی "عالم" نے بھی ان کے اس نظریے کو ان کا تفرد قرار دیا ہے؟
آپ کا کہنا، معاف کیجئے گا، مسلک دیوبند میں تو کوئی مقام نہیں رکھتا۔
جبکہ مجھے یقین ہے کہ دیگر دیوبندی علماء نے اس عبارت کا بھی دفاع ہی کیا ہوگا، بس ڈھونڈنا پڑے گا۔ آپ اگر اپنی بات پر قائم رہیں تو ہم یہ بھی ڈھونڈ لانے کو تیار ہیں۔
بہرحال، یہ بھی آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے اس عبارت کو ان کا تفرد تسلیم کیا، گویا اسے غلط قرار دے دیا۔
آپ کو یہ ایک عبارت ان کا تفرد معلوم ہو رہی ہے یہ تو فقط بات شروع کرنے کے لئے بطور مثال عرض کی گئی تھی۔ اب آپ ذرا درج ذیل عبارت پر نظر دوڑائیے اور پھر بتائیے کہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کے مسند نشینوں کا یہ عقیدہ کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے یا یہ بھی ان کا تفرد ہی ہے۔ یاد رہے یہ عبارت بریلوی کتاب "زلزلہ" کے جواب میں لکھی جانے والی کتاب "انکشاف" سے لی جا رہی ہے جس کا مقصد ہی کرامات کے ذریعہ علمائے دیوبند کے عقائد کشید کرنے والوں کو غلط ثابت کرنا اور اپنے مؤقف کی درست وضاحت پیش کرنا تھا۔
" پوشیدہ باتوں کا معلوم کرنا کشف ہے۔ اس کی دو قسم ہے۔ کشف صغریٰ ، کشف کبریٰ۔
کشف صغریٰ کو کشف کونی بھی کہتے ہیں۔ یعنی سالک
اپنی قلبی توجہ سے زمین و آسمان، ملائکہ، ارواح، اہل قبور، عرش، کرسی،
لوح محفوظ الغرض دونوں جہاں کا حال معلوم کر لے اور
مشاہدہ کر لے۔ " [اصطلاحات صوفیہ ص 136، انکشاف ص 35]
اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ یہ آنکھوں سے لہو کی بوند ٹپکنے کی بات ہے یا نہیں؟ اگر اپنے گھر کے بزرگوں کے حق میں یہ عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق ہے کہ وہ اپنی قلبی توجہ سے زمین و آسمان، ملائکہ، ارواح، اہل قبور، عرش، کرسی، لوح محفوظ الغرض دونوں جہاں کے احوال معلوم کر لیتے ہیں تو پھر آپ ہی بتائیے کہ اس کے بعد اب کون سا علم باقی رہ جاتا ہے جس پر شرک کا حکم لگایا جائے گا؟
تلمیذ بھائی، عقیدے کا اور وہ بھی عقیدہ توحید کا مسئلہ ہے۔ مسلکی عصبیت کو ایک جانب رکھ دیجئے اور یہ فیصلہ کیجئے کہ کیا درج بالا عقائد اسلامی عقائد کہلائے جا سکتے ہیں؟
اگر بزرگوں کے حق میں "چھوٹے کشف" کے تحت عرش، کرسی، لوح محفوظ کا مشاہدہ و معائنہ ممکن ہے تو امام الانبیاء کے حق میں بریلویوں کا یہ دعویٰ کہ ان کی نظر سے لوح محفوظ عرش کرسی کچھ بھی باہر نہیں، کیونکر غلط قرار دیا جا سکتا ہے؟
ہمیں اصطلاحات سے مطلب نہیں۔ نتائج کا یا عملاً تسلیم شدہ بات کا اعتبار کیجئے، تو جو چیز علمائے دیوبند "چھوٹے کشف" کے تحت مان رہے ہیں، وہی چیز بریلوی حضرات علم الغیب کے تحت مان لیتے ہیں۔ وہ بھی عطائی کی بات کرتے ہیں، آپ بھی یہی بات کر رہے ہیں۔ بالا عبارت سے تو بلکہ یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ فقط "قلبی توجہ" سے ظاہر و مشاہدہ میں آ جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ قلبی توجہ اختیار کی چیز ہے!!
یہ تو کشف صغریٰ کا معاملہ تھا۔ اب کشف کبریٰ کا حال پڑھئے:
ارشاد فرماتے ہیں:
" کشف کبریٰ اس کو
کشف الٰہی بھی کہتے ہیں۔ یعنی
ذات حق سبحانہ کا مشاہدہ اور معائنہ ہو جانا اور
جملہ حجابات اور اعتبارات کا اٹھ جانا اور نور بصیرت سے
خلق کو عین حق اور حق کو عین خلق دیکھنا۔ سالک کا
مقصود اصلی یہی کشف ہے۔" ( اصطلاحات صوفیہ ص 120، انکشاف ص 36)
مفتیان دیوبند اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
" اس واضح تفصیل سے آپ کے شبہات یقیناً زائل ہو گئے ہوں گے ۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اکابر دیوبند بلکہ تمام اولیاءاللہ
کشف کبریٰ ہی کو دراصل حصول مقصد سمجھتے ہیں اور
اس کشف صغریٰ کو صرف مفید قرار دیتے ہیں۔ (انکشاف: ص 37)
"زلزلہ" کے مصنف کا تبصرہ یہ ہے:
اب یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ آب و گل کی اس دنیا میں خدا کی ذات کا معائنہ اور مشاہدہ کرنا کیا یہ شرعاً کسی انسان کے لئے ممکن بھی ہے؟ لیکن مبارک ہو مفتیان دیوبند کو جو مدعا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو درخواست کے باوجود حاصل نہ ہو سکا وہ انہوں نے اپنے اکابر کے لئے بغیر کسی زحمت کے تسلیم کر لیا۔
تلمیذ بھائی،
اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ و معائنہ ہو جانا، جملہ حجابات اٹھ جانا اور نور بصیرت سے خلق (گویا مخلوق) کو عین حق (گویا خالق، یعنی اللہ) اور حق کو عین خلق دیکھنا۔ یہ سب کیا ہے؟
کیا یہ عقائد اہل توحید کے ہو سکتے ہیں؟ کیا ان عقائد کے حامل کسی شخص کو "مؤحد" قرار دینا ممکن ہے؟ کیا ان عقائد میں اور بریلویوں کے عقائد میں کوئی جوہری فرق ہے؟
ابھی آفس سے چھٹی کا وقت ہے، باقی باتیں پھر سہی ان شاء اللہ۔