جس کا دامن دلائل سے خالی ہوتا ہے وہ کبھی مشرق کی بات کرتا ہے کبھی مغرب کی ۔ یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے ۔ کھی دیوبندیوں کی جہاد پر بات ہوتی ہے اور اس کو غلط ثابت کیا جاتا ہے اس جہاد کے حوالہ سے مخالف فریق کا بیان دیا جاتا ہے تو دیوبند کے عقائد اور تعلیم کی طرف بات لے جائی جاتی ہے ۔
اس کے جواب میں تو ہم صرف یہ عرض کرسکتے ہیں کہ بھائی دن رات جھوٹ بولنے سے باز آجاؤ کیونکہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے۔ اگر آپ کے اکابرین جھوٹ بولتے رہے ہیں تو انکی تقلید آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
ہم نے دوٹوک انداز میں اپنا موقف سامنے رکھا ہے جس میں کوئی بھی ابہام نہیں لیکن آپ جان بوجھ کر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں کیونکہ یہ آپکی مجبوری ہے آپکے پاس دلائل نام کی کوئی بھی چیزنہیں پائی جاتی اسلئے آپ نے ادھر ادھر کی ہانک کر ٹائم تو پاس کرنا ہی ہے۔تاکہ لوگوں کو بتایا جاسکے کہ آپ مسلسل جواب دے رہے ہیں۔
ہم نے اپنے مضمون کے آغاز ہی میں اپنے موقف کی عام فہم انداز میں وضاحت کردی ہے دیکھئے:
اللہ اپنے دین کا کام فاجر اور فاسق سے بھی لے سکتا ہے۔اس لئے دیوبندیوں کا جہادکرنا ہر گز اس بات کی علامت یا دلیل نہیں کہ یہ لوگ حق پر ہیں۔کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے کی وجہ سے انکا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا انہیں ذرہ برابر فائدہ نہیں دے گا۔جہاد ہو یا کوئی دوسری نیکی، اللہ کی بارگاہ میں صرف صحیح العقیدہ لوگوں کی مقبول ہوتی ہے۔
پڑھنے والے ملاحظہ کریں کہ ہم نے دیوبندیوں کے جہاد کو انکے عقائد کی بنیاد پر مردود قرار دیا ہے۔ اس لئے تلمیذ صاحب کا یہ فرمانا کہ کبھی دیوبندیوں کے جہاد کی بات کی جاتی ہے اور کبھی عقائد کی، کبھی مشرق کی بات کی جاتی ہے کبھی مغرب کی سفید جھوٹ ہے۔
بات جب اسقدر واضح ہو تو انسان جھوٹ بولنے سے شرماتا ہے کیونکہ ایسا جھوٹ فورا پکڑ میں آجاتا ہے لیکن سلام ہے دیوبندیوں کی جرات کو کہ، ان کو اس معاملے میں اپنی عزت کی کوئی پرواہ نہیں۔چاہے عزت چلی جائے لیکن مذہب کا دفاع ہوجائے چاہے ایک ہی دن کے لئے کیوں نہ ہو اور دوسرے دن چاہے اس دفاع کا بھانڈا ہی کیوں نہ پھوٹ جائے۔
میں نے شیخ غلام اللہ رحمتی کا طالبان کے جہاد کے حوالہ سے بیان نقل تھا باقی احناف سے متعلق جو ان کے اختلافات تھے وہ ذکر نہ کیے کیوں کہ موضوع دیوبندیوں کا جہاد ہے نہ کہ دیوبندیوں کے عقائد ۔
شیخ غلام اللہ رحمتی کے مضمون میں وہ کون سا مقام ہے جہاں انہوں نے طالبان دیوبندیوں کے جہاد کو صحیح کہا ہے؟ اگر دیوبندیوں کا جہاد صحیح ہوتا تو وہ خود دیوبندی مذہب چھوڑ کر اہل حدیث کیوں ہوتے ؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ شیخ غلام اللہ رحمتی طالبان کو سلفی سمجھتے ہیں اسی لئے انہوں نے طالبان اور انکے جہاد کی تعریف کی ہے۔ لیکن تلمیذ صاحب نہ جانے کیوں اہل حدیث کی اس دلیل کو دیوبندیوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں؟
طالبان میں چونکہ دیوبندیوں کے علاوہ اہل حدیث بھی ہیں اس لئے ہم نے اپنے مضمون میں قریب قریب ہر جگہ طالبان کے ساتھ دیوبندی کا لفظ بطور خاص لکھا ہے تاکہ تلمیذ جیسا کوئی دیوبندی طالبان کے نام سے دھوکہ نہ دے سکے اور معلوم ہوجائے کہ ہماری تنقید مطلق طالبان اور انکے جہاد پر نہیں بلکہ ایسے طالبان پر ہے جو عقیدہ میں دیوبندی ہیں۔
امید ہے تھوڑی سی شرم کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلمیذ صاحب شیخ غلام اللہ رحمتی کے مضمون کا حوالہ نہیں دینگے جو خارج از بحث ہے۔ اہل حدیث کی دلیل دیوبندی کے حق میں پیش کرنا بددیانتی اور خیانت ہے۔
یاد رکھیں کہ موضوع دیوبندیوں کا جہاد ہے انکے عقائد کی بنیاد پر، اس مضمون میں میری تمام پوسٹ اس پر گواہ ہیں۔
اس امر میں کوئی شی کی گنجائش نہیں جس کا عقیدہ درست نہیں اس کا کوئی عمل نماز ، روزہ جہاد مقبول نہیں ۔
دیوبندیوں کا ایک عقیدہ ہے کہ قبروں سے فیض حاصل کرنا جائز ہے۔ اگر یہ عقیدہ صحیح اور اسلامی ہے تو اس پر واضح صحیح حدیث پیش کریں اور بتائیں کہ صحابہ میں کس کس کا یہ عقیدہ تھا کہ قبروں سے فیض حاصل ہوتا ہے؟
اس بات کا اعتراف دیوبندیوں کو بھی ہے کہ عقیدہ کے لئے قرآن و حدیث کی ٹھوس دلیل چاہیے ہوتی ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ تلمیذ صاحب فضول کی تاؤیل اور بے مقصد کی تشریح سے گریز کرتے ہوئے قرآن کی کوئی آیت اور کوئی صحیح حدیث پیش کریں جو اس مسئلہ پر دو ٹوک ہو۔ پس اس کوشش میں کامیابی یا ناکامی سے ہی دیوبندیوں کا اندارہ ہوجائے گا کہ انکا جہاد اور انکی نماز مقبول ہے یا مردود۔
آپ نے یہاں دیبوبندوں کے جہاد کے حوالہ سے تھریڈ قائم کیا ہے تو بحث کا موضوع بھی یہی رہنیں دیں ۔ اگر دیوبندیوں کے عقائد کے حوالہ سے بات کرنی ہے تو جہاد کا موضوع شروع کرنی کیا ضروت تھی ۔
آپ اگر صرف موضوع سے متعلق رہیں تو بات آگے بڑہ سکتی ہے ۔ آپ نے موضوع رکھا ہے دیوبندیوں کا جہاد ۔ یعنی احناف کا جہاد نام نہیں رکھا تو وہ عرب ممالک جہاں احناف جہاد کر رہے ہیں وہ اس موضوع سے کٹ گئے ،۔ پھر آپ نے جو مثالیں دیں ان میں طالبان دیوبندیوں کا نام استعمال کیا ۔ جو دیوبندی کشمیر میں جہاد کر رہے ہیں وہ اس موضوع سے کٹ گئے ۔
ہم نے اس مسئلہ کی آغاز ہی میں وضاحت کردی ہے کہ ہمارے موضوع اور ہماری بحث میں کوئی تضاد نہیں۔ آپ اپنا دماغی معائنہ کروالیں تاکہ آپ کو بات صحیح سمجھ میں آئے اور جھوٹ نہ بولنا پڑے۔
آپ اگر موضوع سے متعلق رہتے ہوئے ، ایک شخص کی ذاتی تجربات کو عقل کل نہ سمجھتے ہوئے اّپ نے جو 24 دعوے کیے کیا آپ ان کا ثبوت پیس کرسکتے ہیں یا آپ نے صرف بغیر دلیل کے ایک شخص کے دعووں کی بنیاد پر تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں اکثر لوگ دیوبندیوں کے ان کرتوتوں سے خوب واقف ہیں۔
05۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مدارس و مساجد اور قرآن کو جلادیا تھا۔
اس کے ثبوت کے لئے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتاب بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم دیکھئے: جس میں اس مسجد کی تصویر ہے جسے دیوبندیوں نے جلایا اور جلا ہوا قرآن کریم بھی تصویر میں واضح ہے۔
12۔ جب طالبان دیوبندیوں نے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
میری ٹیلیفون پر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے ہونے والی گفتگو میں خود انہوں نے مجھے بتایا کہ دیوبندی ان پر دو قاتلانہ حملے کرچکے ہیں۔
22۔ جب طالبان دیوبندیوں نے افغانستان میں رفع الیدین کرنے پر ہاتھ اور انگلی شہادت حرکت دینے پر انگلی کاٹ دی تھی۔
افغانستان سے آئے ہوئے ایک طالب علم جو اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد چھ سال پہلے افغانستان لوٹ گئے ہیں ہماری مسجد میں کچھ عرصہ امام رہے۔ انہوں نے یعنی شیخ مجیب الرحمن حفظہ اللہ نے اس بات کی گواہی دی کہ طالبان نے رفع الیدین کرنے پر اہل حدیثوں کے ہاتھ کاٹے ہیں۔
باقی باتیں بھی تقریبا ایسی ہی ہیں جن کے لئے یہ تین دلائل بھی کافی ہیں۔ ان شاء اللہ
پوسٹ کا جواب تو دے رہا ہوں لیکن امید نہیں کوئی ثبوت پیش ہوں کیوں کہ اکثر آپ دعوے کر کے غائب ہو جاتے ہیں ۔ اور شائد اسی لئیے آپ نے اپنا الگ بلاگ قائم کیا کیوں کہ وہاں آپ کے لب آذاد ہیں جو دلائل سے عاری دعوی اور مضمون پیش کرتے رہیں کوئی روک ٹوک نہیں ۔
میں تو صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ اپنی جھوٹ بولنے کی عادت سے مجبور ہو ورنہ
حنفی مذہب کے تین کذاب میں، میں جواب دے چکا ہوں اگر اسے انتظامیہ نے نامنظور کردیا تو میں کیا کروں؟ اس کے علاوہ میرے بلاگ میں کسی کو بھی تبصرہ کرنے کی پابندی نہیں نہ ہی میں کسی کے تبصرہ کو حذف کرتا ہوں۔ اس کا ثبوت یہ تبصرہ ہے دیکھئے:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے: حنفی مذہب کے تین کذاب