محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
یہ ایک وکیل ساتھی کے کلمات ہیں ذرا پڑھیں صرف بغرض معلومات
ممتاز قادری کیس کی ججمنٹ:
آج ممتاز قادری کیس کی ججمنٹ پڑھی اور پڑھنے کے بعد کچھ باتیں معلوم ہوئیں جن سے میں پہلے واقف نہ تھا اور کافی حیرت بھی ہوئی یہ ججمنٹ پڑھ کر۔ یہ کیس سب سے پہلے ایک سپیشل ٹرائل کورٹ میں چلا جس نے ممتاز قادری کو 302 اور اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 کے تحت سزائے موت سنائی جس کے خلاف جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو انہوں نے 302 کے تحت پھانسی کی سزا برقرار رکھی مگر انسدادِ دہشتگردی کی شق ہٹا دی پھر جب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تو سپریم کورٹ کی بینچ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور 302 کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی کے تحت سزائے موت بھی بحال کر دی-
سب سے پہلے ججمنٹ میں کیس کی نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس کیس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ کیا بلاسفیمی کے ارتکاب کے نتیجے میں کوئی شخص کسی کو قتل کر سکتا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ "کیا کوئی شخص کسی پر بلاسفیمی کے شبے یا اپنی دانست میں کسی بات کو بلاسفیمی سمجھ کر کسی کو قتل کر سکتا ہے؟"
کیس میں ممتاز قادری کا ڈیفینس 2 نکات پر مشتمل تھا:
1) میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں حق بجانب تھا کیونکہ اس نے بلاسفیمی کی تھی اور ایک ایسی عورت کو سپورٹ کیا تھا جس کو بلاسفیمی کے کیس میں سزا ہو چکی تھی-
2) میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں اسلئے حق بجانب تھا کیونکہ اس نے مجھے اشتعال دلایا جب وہ کوہسار مارکیٹ کے ریسٹورانٹ سے اپنے دوست کے ساتھ باہر نکلا تو میں نے اس سے کہا کہ جنابِ والہ آپ نے گورنر ہوتے ہوئے بلاسفیمی لاء کو کالا قانون کہا ہے جو آپ کے شایانِ شان نہیں- جس پر سلمان تاثیر نے آگے سے کہا نہ صرف یہ کالا قانون ہے بلکہ اس نے اس قانون کو مزید برا بھلا کہا جس پر ممتاز قادری کو مبینہ طور پر اشتعال آیا اور اس نے گولیاں چلا دیں-
پہلے نکتے کو ثابت کرنے کے لئے ممتاز قادری نے عدالت میں 2 اخباری رپورٹیں جمع کروائیں جس میں سلمان تاثیر کے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس بتائے گئے تھے اُن میں سے ایک رپورٹ تو قتل ہو جانے کے بعد شائع ہوئی تھی- دوسری رپورٹ کے بارے میں جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے اس رپورٹ کی تصدیق کی تھی کہ کس نے اسے رپورٹ کیا اور کیا واقعی یہ سلمان تاثیر کے الفاظ ہیں؟ تو ممتاز قادری کا جواب نفی میں تھا- جس پر عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ممتاز قادری نے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس براہ راست نہیں سنے بلکہ یہ Hearsay پر مبنی ہیں جن کو وہ اپنی دانست میں بلاسفیمی سمجھ بیٹھا-
دوسرے نکتے کو ٹرائل کورٹ میں تحریری طور پر کیس چلنے کے وقت جمع کروایا گیا تھا- اس بارے میں جب اس سے کہا گیا کہ وہ عدالت آ کر حلف اٹھا کر یہ بیان دے کہ سلمان تاثیر نے اس کے سامنے ایسی بات کہی تھی تو اس نے حلفیہ یہ بیان دینے سے انکار کر دیا- اس مبینہ گفتگو کے وقت تین ہی لوگ موجود تھے ایک سلمان تاثیر کا دوست شیخ وقاص دوسرا تاثیر اور تیسرا قادری- ایک انسان مارا جا چکا تھا- دوسرے کو انہوں نے عدالت میں طلب کرنے کی اپلیکیشن نہیں جمع کروائی اگر کرواتے تو یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس مٹیریل گواہ کو بلاتی اور اگر وہ نہ پیش ہوتا تو اس پر توہینِ عدالت لگ جاتی- لیکن اپیل کنندہ کی جانب سے ایسی کوئی اپلیکیشن ہی جمع نہیں کروائی گئی- خود اپیل کنندہ نے بھی حلف اٹھا کر یہ بات کہنے سے انکار کر دیا-
بس یہی وہ نکتہ تھا جس نے اس کیس کو سب سے زیادہ کمزور کر دیا اور عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا اور بلکل دُرست اخذ کیا کہ یہ بعد میں ایجاد کی گئی اپنا ڈیفینس بہتر کرنے کے لئے ایک کہانی ہے کیونکہ ٹرائل کورٹ سے پہلے تفتیشی افسر کے سامنے بھی ممتاز قادری نے قتل کے وقت ایسے کسی مکالمے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا- جس پر ممتاز قادری کے وکلاء نے کہا کہ مقتول کو گولیاں سامنے سے لگی تھیں جس سے پتا لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان ضرور کوئی مکالمہ ہوا ہوگا اور 28 گولیوں کے لگنے سے پتا لگتا ہے کہ ضرور ملزم اشتعال میں آیا ہوگا- جس پر عدالت نے کہا کہ یہ صرف قیاس آرائیاں ہیں ان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا-
ممتاز قادری کے وکلاء کی جانب سے یہ بات بھی ڈسکس کی گئی کہ بلاسفیمی کے قانون کو غلط کہنا بھی بلاسفیمی ہے اور اس بات کے حق میں ججمنٹ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے جو حوالے پیش کیے ان میں سے کوئی بھی Divine origin کا نہیں تھا بلکہ وہ کچھ سکالرز کی اس بارے میں صرف رائے تھی کہ بلاسفیمی قانون کو غلط کہنا بھی بلاسفیمی ہے- عدالت کا موقف یہ تھا کہ بلاسفیمی کیا ہے اُس کی تعریف 295 C میں موجود ہے- سلمان تاثیر کا بلاسفیمی قانون سے متعلق بیان کسی بھی صورت میں 295 C میں بیان کردہ بلاسفیمی کی تعریف میں نہیں آتا- اس ججمنٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ بلاسفیمی قانون میں پہلے بھی کئی بار ترمیم ہو چکی ہے- یہ سب سے پہلے 1866 میں انڈین پیینل کوڈ میں شامل ہوا پھر سب سے پہلی ترمیم اس میں 1927 میں ہوئی- پھر 1986 اور 1991 میں اس میں ترامیم ہوئیں- لہٰذا جس قانون میں پہلے ہی کئی بار ترامیم ہو چکی ہوں اس کا مطلب ہے وہ کوئی ساکت و جامد قانون نہیں ہے بلکہ اس کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے لہٰذا اگر کسی نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس پر نظرِ ثانی کی جائے تو یہ مطالبہ کوئی غلط بات نہیں- پھر معزز جج صاحبان نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک 2002 کے کیس کا ریفرنس دیا جس میں ججمنٹ دیتے وقت خود لاہور ہائی کورٹ نے اس قانون میں ترامیم کی کچھ سفارشات پیش کی تھیں کہ اس کے پروسیجر میں یہ یہ تبدیلیاں کی جائیں- اس کی انویسٹیگیشن کوئی عام ASI یا محرر نہ کرے بلکہ دو ایسے افسر کریں جن کو اس بارے میں مکمل علم ہو کہ بلاسفیمی کی تعریف کیا ہے اور کیا نہیں انکے ساتھ ایک غیر جانبدار مذہبی سکالر بھی ہو اور پوری تفتیش کے بعد کیس درج کیا جائے- عدالت نے ججمنٹ میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی اس قانون میں تبدیلیاں کرنے کی سفارشات کو کسی بھی صورت بلاسفیمی کہا جا سکتا ہے؟ خود ہی اسکا جواب بھی دیا ہے کہ ہرگز نہیں-
جج صاحبان نے بلاسفیمی کیسز کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھی فراہم کیے جن کے مطابق 1953 سے 2012 تک درج ہونے والے 434 بلاسفیمی کے مقدمات میں 258 خود مسلمانوں کے خلاف تھے- ظاہر ہے کوئی مسلمان تو بلاسفیمی کر نہیں سکتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اس قانون کا استعمال ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لئے کیا جاتا ہے لہٰذا اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ اس قانون پر نظر ثانی کی جائے اس کا غلط استعمال روکا جائے تو یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی بلاسفیمی ہے-
آج ممتاز قادری کیس کی ججمنٹ پڑھی اور پڑھنے کے بعد کچھ باتیں معلوم ہوئیں جن سے میں پہلے واقف نہ تھا اور کافی حیرت بھی ہوئی یہ ججمنٹ پڑھ کر۔ یہ کیس سب سے پہلے ایک سپیشل ٹرائل کورٹ میں چلا جس نے ممتاز قادری کو 302 اور اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 کے تحت سزائے موت سنائی جس کے خلاف جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو انہوں نے 302 کے تحت پھانسی کی سزا برقرار رکھی مگر انسدادِ دہشتگردی کی شق ہٹا دی پھر جب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تو سپریم کورٹ کی بینچ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور 302 کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی کے تحت سزائے موت بھی بحال کر دی-
سب سے پہلے ججمنٹ میں کیس کی نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس کیس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ کیا بلاسفیمی کے ارتکاب کے نتیجے میں کوئی شخص کسی کو قتل کر سکتا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ "کیا کوئی شخص کسی پر بلاسفیمی کے شبے یا اپنی دانست میں کسی بات کو بلاسفیمی سمجھ کر کسی کو قتل کر سکتا ہے؟"
کیس میں ممتاز قادری کا ڈیفینس 2 نکات پر مشتمل تھا:
1) میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں حق بجانب تھا کیونکہ اس نے بلاسفیمی کی تھی اور ایک ایسی عورت کو سپورٹ کیا تھا جس کو بلاسفیمی کے کیس میں سزا ہو چکی تھی-
2) میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں اسلئے حق بجانب تھا کیونکہ اس نے مجھے اشتعال دلایا جب وہ کوہسار مارکیٹ کے ریسٹورانٹ سے اپنے دوست کے ساتھ باہر نکلا تو میں نے اس سے کہا کہ جنابِ والہ آپ نے گورنر ہوتے ہوئے بلاسفیمی لاء کو کالا قانون کہا ہے جو آپ کے شایانِ شان نہیں- جس پر سلمان تاثیر نے آگے سے کہا نہ صرف یہ کالا قانون ہے بلکہ اس نے اس قانون کو مزید برا بھلا کہا جس پر ممتاز قادری کو مبینہ طور پر اشتعال آیا اور اس نے گولیاں چلا دیں-
پہلے نکتے کو ثابت کرنے کے لئے ممتاز قادری نے عدالت میں 2 اخباری رپورٹیں جمع کروائیں جس میں سلمان تاثیر کے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس بتائے گئے تھے اُن میں سے ایک رپورٹ تو قتل ہو جانے کے بعد شائع ہوئی تھی- دوسری رپورٹ کے بارے میں جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے اس رپورٹ کی تصدیق کی تھی کہ کس نے اسے رپورٹ کیا اور کیا واقعی یہ سلمان تاثیر کے الفاظ ہیں؟ تو ممتاز قادری کا جواب نفی میں تھا- جس پر عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ممتاز قادری نے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس براہ راست نہیں سنے بلکہ یہ Hearsay پر مبنی ہیں جن کو وہ اپنی دانست میں بلاسفیمی سمجھ بیٹھا-
دوسرے نکتے کو ٹرائل کورٹ میں تحریری طور پر کیس چلنے کے وقت جمع کروایا گیا تھا- اس بارے میں جب اس سے کہا گیا کہ وہ عدالت آ کر حلف اٹھا کر یہ بیان دے کہ سلمان تاثیر نے اس کے سامنے ایسی بات کہی تھی تو اس نے حلفیہ یہ بیان دینے سے انکار کر دیا- اس مبینہ گفتگو کے وقت تین ہی لوگ موجود تھے ایک سلمان تاثیر کا دوست شیخ وقاص دوسرا تاثیر اور تیسرا قادری- ایک انسان مارا جا چکا تھا- دوسرے کو انہوں نے عدالت میں طلب کرنے کی اپلیکیشن نہیں جمع کروائی اگر کرواتے تو یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس مٹیریل گواہ کو بلاتی اور اگر وہ نہ پیش ہوتا تو اس پر توہینِ عدالت لگ جاتی- لیکن اپیل کنندہ کی جانب سے ایسی کوئی اپلیکیشن ہی جمع نہیں کروائی گئی- خود اپیل کنندہ نے بھی حلف اٹھا کر یہ بات کہنے سے انکار کر دیا-
بس یہی وہ نکتہ تھا جس نے اس کیس کو سب سے زیادہ کمزور کر دیا اور عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا اور بلکل دُرست اخذ کیا کہ یہ بعد میں ایجاد کی گئی اپنا ڈیفینس بہتر کرنے کے لئے ایک کہانی ہے کیونکہ ٹرائل کورٹ سے پہلے تفتیشی افسر کے سامنے بھی ممتاز قادری نے قتل کے وقت ایسے کسی مکالمے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا- جس پر ممتاز قادری کے وکلاء نے کہا کہ مقتول کو گولیاں سامنے سے لگی تھیں جس سے پتا لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان ضرور کوئی مکالمہ ہوا ہوگا اور 28 گولیوں کے لگنے سے پتا لگتا ہے کہ ضرور ملزم اشتعال میں آیا ہوگا- جس پر عدالت نے کہا کہ یہ صرف قیاس آرائیاں ہیں ان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا-
ممتاز قادری کے وکلاء کی جانب سے یہ بات بھی ڈسکس کی گئی کہ بلاسفیمی کے قانون کو غلط کہنا بھی بلاسفیمی ہے اور اس بات کے حق میں ججمنٹ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے جو حوالے پیش کیے ان میں سے کوئی بھی Divine origin کا نہیں تھا بلکہ وہ کچھ سکالرز کی اس بارے میں صرف رائے تھی کہ بلاسفیمی قانون کو غلط کہنا بھی بلاسفیمی ہے- عدالت کا موقف یہ تھا کہ بلاسفیمی کیا ہے اُس کی تعریف 295 C میں موجود ہے- سلمان تاثیر کا بلاسفیمی قانون سے متعلق بیان کسی بھی صورت میں 295 C میں بیان کردہ بلاسفیمی کی تعریف میں نہیں آتا- اس ججمنٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ بلاسفیمی قانون میں پہلے بھی کئی بار ترمیم ہو چکی ہے- یہ سب سے پہلے 1866 میں انڈین پیینل کوڈ میں شامل ہوا پھر سب سے پہلی ترمیم اس میں 1927 میں ہوئی- پھر 1986 اور 1991 میں اس میں ترامیم ہوئیں- لہٰذا جس قانون میں پہلے ہی کئی بار ترامیم ہو چکی ہوں اس کا مطلب ہے وہ کوئی ساکت و جامد قانون نہیں ہے بلکہ اس کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے لہٰذا اگر کسی نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس پر نظرِ ثانی کی جائے تو یہ مطالبہ کوئی غلط بات نہیں- پھر معزز جج صاحبان نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک 2002 کے کیس کا ریفرنس دیا جس میں ججمنٹ دیتے وقت خود لاہور ہائی کورٹ نے اس قانون میں ترامیم کی کچھ سفارشات پیش کی تھیں کہ اس کے پروسیجر میں یہ یہ تبدیلیاں کی جائیں- اس کی انویسٹیگیشن کوئی عام ASI یا محرر نہ کرے بلکہ دو ایسے افسر کریں جن کو اس بارے میں مکمل علم ہو کہ بلاسفیمی کی تعریف کیا ہے اور کیا نہیں انکے ساتھ ایک غیر جانبدار مذہبی سکالر بھی ہو اور پوری تفتیش کے بعد کیس درج کیا جائے- عدالت نے ججمنٹ میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی اس قانون میں تبدیلیاں کرنے کی سفارشات کو کسی بھی صورت بلاسفیمی کہا جا سکتا ہے؟ خود ہی اسکا جواب بھی دیا ہے کہ ہرگز نہیں-
جج صاحبان نے بلاسفیمی کیسز کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھی فراہم کیے جن کے مطابق 1953 سے 2012 تک درج ہونے والے 434 بلاسفیمی کے مقدمات میں 258 خود مسلمانوں کے خلاف تھے- ظاہر ہے کوئی مسلمان تو بلاسفیمی کر نہیں سکتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اس قانون کا استعمال ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لئے کیا جاتا ہے لہٰذا اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ اس قانون پر نظر ثانی کی جائے اس کا غلط استعمال روکا جائے تو یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی بلاسفیمی ہے-
Last edited by a moderator: