الف کی یاء اور یاء کی الف کی شکل میں کتابت:
رَئَ ا… رَأیٰ
کلمہ
’’رَئَ ا‘‘ قرآن مجید میں (۱۱) مرتبہ وارد ہوا ہے اور ان تمام مقامات پر انسانی بصارت کی رؤیت کے معنی میں مستعمل ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’فلما جَنَّ عَلَیْہِ الّیلُ رَئَ ا کَوْکَبًا‘‘ ( الانعام :۷۶)
’’فلما رَئَ ا القمر بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّی‘‘ (الانعام :۷۷)
یہاں ان آیات مبارکہ میں انسانی رؤیت مراد ہے اور انسانی رویت محدود ہوتی ہے۔ کبھی درست ہوجاتی ہے تو کبھی خطا ہوجاتی ہے۔ہر شے کا احاطہ نہیں کرسکتی۔نیز اس کلمہ
’’رَئَ ا‘‘ کے آخر میں الف کا وجود، رکاوٹ اور حد پر دلالت کرتا ہے۔
مگر جہاں قرآن مجید رؤیت بصیرت مراد لی گئی ہے وہاں کلمہ
’’ رَأیٰ‘‘ مستعمل ہے۔اس کلمہ کے آخر میں یاء کا وجود، لا محدودیت پردلالت کرتاہے۔ اسی لیے یہ کلمہ قرآن میں صرف دو مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اور دونوں مقامات پر ہی نبی کریمﷺکے ساتھ مخصوص ہے۔ جب نبی کریمﷺاپنے معراج کے دوران ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ سے گذر گئے اور وہاں پر آپ نے جو کچھ دیکھا، حق دیکھا۔
’’مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَٰی‘‘
اللہ تعالیٰ واقعۂ معراج کی اشارہ کرتے ہوئے سورۃ النجم میں فرماتے ہیں:
’’مَا کَذَبَ الْفُؤادُ مَا رَأیٰ‘‘(النجم :۱۱)
؛؛لَقَدْ رَأیٰ مِنْ ئَ ایَٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرَٰی‘‘ (النجم :۱۸)