• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسمِ قرآنی کا اِعجاز اور اس کے معنوی اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
بِالْغَـدٰوۃِ​
یہ کلمہ ’’بِالْغَدَٰوۃِ‘‘ بھی اپنی اس غیر معروف مخصوص شکل کے ساتھ صبح کے وقت کی اہمیت اور اس وقت دعا کرنے اورنماز پڑھنے کی عظمت پردلالت کرتا ہے اور یہ کلمہ اپنی اس مخصوص شکل کے ساتھ قرآن مجید میں فقط دو مرتبہ وارد ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَٰوۃِ وَالْعَشِیِّ‘‘ (الانعام:۵۲)
’’ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَٰوۃِ وَالْعَشِیِّ‘‘ (الکہف:۲۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ہائے مؤنث کی تاء کی شکل میں کتابت:
نِعْمَۃَ … نِعْمَتَ​
کلمہ ’’نِعْمَۃَ‘‘ تائے مربوطہ کے ساتھ ، قرآن مجید میں (۲۵) مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ ’’نِعْمَتَ‘‘ تائے طویلہ کے ساتھ، قرآن مجید میں (۱۱) مرتبہ وارد ہے۔
جب ہم ان آیات کریمہ میں غور کرتے ہیں جن میں یہ کلمہ ’’نِعْمَۃَ‘‘ وارد ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ظاہر اور نظر آنے والی نعمتوں پردلالت کرتاہے جو تمام انسانوں کے لیے برابر ہیں۔
’’وَمَابِکُمْ مِنْ نِعْمَۃٍ فَمِنَ اﷲِ‘‘ (النمل:۵۳)
’’واذکروا نِعْمَۃَ اﷲ علیکم ‘‘ (المائدۃ:۷)

جبکہ کلمہ ’’نِعْمَتَ‘‘ بالتاء الطویلہ۔ ان خاص نعمتوں پردلالت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے صرف مومنوں پرکی ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَیْکُمْ إذْ کُنْتُمْ أعْدَائً فَألَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ‘‘ (آل عمران:۱۰۳)
’’وَئٰ اٖتٰکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَألْتُمُوْہُ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اﷲِ لَا تُحْصُوْھَا‘‘ (ابراہیم :۳۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
کَلِمَۃ … کَلِمَتُ​
کلمہ ’’کَلِمَۃ‘‘ تائے مربوطہ کے ساتھ، قرآن مجید میں (۲۱) مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ ’’کَلِمَتُ‘‘ تائے طویلہ کے ساتھ، قرآن مجید میں پانچ مرتبہ وارد ہے۔
جب ہم ان آیات کریمہ کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں یہ کلمات وارد ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ’’کَلِمَتُ‘‘ کی خصوصیت، اہمیت اور دلالت غیر معمولی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا‘‘ (الأنعام :۸۱۵)
’’کَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ فَسَقُوْا أنَّہُمْ لَا یُؤمِنُوْنَ‘‘ (یونس:۳۳)
’’إنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْھِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یؤمِنُوْنَ‘‘ (یونس:۹۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ​
کلمہ ’’وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ‘‘ قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہے۔اور دونوں جگہ ہی تائے مفتوحہ کے ساتھ وارد ہے تاکہ رسول اللہﷺکی نافرمانی جیسے گناہ کبیرہ کی وضاحت کرے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہﷺکی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ ’’وَمَا ئَ اتَٰکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَھَٰکُمْ عَنْہُ فَانتَھُوا‘‘ (الحشر:۷)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَیَتَنَٰجَوْنَ بِالإِثْمِ وَالْعُدْوٰنِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ‘‘ (المجادلۃ:۸)
’’یٰٓأیُّھَا الَّذِینَ ئَ امَنُوا إِذَا تَنَٰجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَٰجَوْا بِالإِثْمِ وَالْعُدْوٰنِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَٰجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَیٰ‘‘ (المجادلۃ:۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
الف کی یاء اور یاء کی الف کی شکل میں کتابت:
رَئَ ا… رَأیٰ​
کلمہ ’’رَئَ ا‘‘ قرآن مجید میں (۱۱) مرتبہ وارد ہوا ہے اور ان تمام مقامات پر انسانی بصارت کی رؤیت کے معنی میں مستعمل ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’فلما جَنَّ عَلَیْہِ الّیلُ رَئَ ا کَوْکَبًا‘‘ ( الانعام :۷۶)
’’فلما رَئَ ا القمر بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّی‘‘ (الانعام :۷۷)

یہاں ان آیات مبارکہ میں انسانی رؤیت مراد ہے اور انسانی رویت محدود ہوتی ہے۔ کبھی درست ہوجاتی ہے تو کبھی خطا ہوجاتی ہے۔ہر شے کا احاطہ نہیں کرسکتی۔نیز اس کلمہ ’’رَئَ ا‘‘ کے آخر میں الف کا وجود، رکاوٹ اور حد پر دلالت کرتا ہے۔
مگر جہاں قرآن مجید رؤیت بصیرت مراد لی گئی ہے وہاں کلمہ ’’ رَأیٰ‘‘ مستعمل ہے۔اس کلمہ کے آخر میں یاء کا وجود، لا محدودیت پردلالت کرتاہے۔ اسی لیے یہ کلمہ قرآن میں صرف دو مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اور دونوں مقامات پر ہی نبی کریمﷺکے ساتھ مخصوص ہے۔ جب نبی کریمﷺاپنے معراج کے دوران ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ سے گذر گئے اور وہاں پر آپ نے جو کچھ دیکھا، حق دیکھا۔ ’’مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَٰی‘‘
اللہ تعالیٰ واقعۂ معراج کی اشارہ کرتے ہوئے سورۃ النجم میں فرماتے ہیں:
’’مَا کَذَبَ الْفُؤادُ مَا رَأیٰ‘‘(النجم :۱۱)
؛؛لَقَدْ رَأیٰ مِنْ ئَ ایَٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرَٰی‘‘ (النجم :۱۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
لَدَا … لَدَی​
کلمہ ’’لَدَا‘‘ اس مخصوص رسم پرقرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَقُدّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّألْفَیَاسَیِّدَھَا لَدَا الْبَابِ‘‘ (یوسف :۲۵)
اس کلمہ ’’لَدَا‘‘ کے آخر میں ياور کلمہ ’’الباب‘‘ کے شروع میں الف کا وجود اس امر پر دلالت کرتاہے کہ اس کا خاوند دروازے کے بالکل قریب ہی موجود تھا، دروازے اور اس کے درمیان کوئی مسافت نہیں تھی۔
جبکہ کلمہ ’’لَدَی‘‘ بھی قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَأنْذِرْھُمْ یَوْمَ الآزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرَ کٰظِمِیْنَ‘‘ (غافر:۱۸)
اس کلمہ ’’ لَدَی‘‘ کے آخر میں ي اور کلمہ ’’ الحناجر‘‘ کے شروع میں الف کا وجود اس امر پر دلالت کرتاہے کہ ان دونوں (دل اور ہنسلی) کے درمیان التصاق کامل نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
٭نون کی الف کی شکل میں کتابت:
وَلَیَکُونًا مِّنَ الصَّٰغِرِیْنَ​
کلمہ ’’وَلَیَکُونًا‘‘ قرآن مجید میں صرف ایک جگہ وارد ہواہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَلَئِنْ لَمْ یَفْعَلْ مَا اٰمُرَہٗ لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُونًا مِنَ الصٰغِرِیْنَ‘‘ (یوسف :۳۲)
اس آیت مبارکہ میں کلمہ ’’وَلَیَکُونًا‘‘ اصل میں ’’وَلَیَکُونَنْ‘‘ تھا۔اس سے نون تاکیدکو حذف کردیاگیاہے۔اور اس جگہ تنوین لگا دی گئی ہے۔ اس کلمہ کی بناء کا اختصار معاملہ کی فوری تنفیذ اور سرعت پردلالت کرتا ہے۔کیونکہ عزیز مصر کی بیوی اپنی خواہش کی تکمیل میں سنجیدہ تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٥)قاعدۃ الفصل والوصل
ألَّا … أن لَّا​
کلمہ ’’ألَّا‘‘ موصولہ، قرآن مجید میں (۴۸) مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ ’’أن لَّا‘‘ مقطوعہ، قرآن مجید میں دس (۱۰) مرتبہ وارد ہے۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’فنون الأفنان في عجائب علوم القرآن‘‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ یہ دس حروف اپنی اصل پرلکھے گئے ہیں۔ کیونکہ ان کی اصل ’’أَن لَّا‘‘ مقطوعہ ہے جبکہ موصولہ حروف کو تلفظ کے مطابق لکھا گیا ہے اور قرب مخرج کے سبب نون کا لام میں ادغام کردیاگیا ہے۔
ہماری رائے کے مطابق اس میں متعدد اسرار و رموز ہیں جو خفیہ معانی پردلالت کرتے ہیں۔ کلمات کو قطع کرکے لکھنا، فکر وتدبر کے تنوع کافائدہ دیتا ہے۔ اسی لیے یہ کلمات مقطوعہ لکھے گئے ہیں۔تاکہ اس امر پردلالت کریں کہ کوئی بھی قول و فعل اور قرار طویل غوروفکر کے بغیرسامنے نہیں آتا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ أَنْ لَّا أقُوْلَ عَلَی اﷲِ اِلَّا الْحَقِّ‘‘ (الاعراف:۱۰۵)
’’وأَن لَّا إلٰہَ اِلَّا ھُوَ‘‘ (ہود :۱۴)
’’أَن لَّا یَدْخُلَنَّھَا الْیَوْمَ عَلَیْکُمْ مِسْکِیْنَ‘‘(القلم :۲۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
إِنَّمَا … إِنَّ مَا​
کلمہ ’’إِنَّ مَا‘‘ مقطوعہ، قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہواہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’إِنَّ مَا توعدون لاَٰت‘‘ (الانعام :۱۳۴)
امام ابن البناء المراکشی رحمہ اللہ اپنی کتاب، ’’عنوان الدلیل من مرسوم خطِّ التنزیل‘‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ ’’إنّ‘‘ تاکید یہ کا ’’ما‘‘ سے مقطوع ہونا تفصیل پردلالت کرتاہے۔یعنی اہل خیر کے لیے خیر، اور اہل شر کے لیے شر کا وعدہ کیا گیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
کُلَّمَا … کُلَّ مَا​
کلمہ ’’کُلَّمَا‘‘ سوائے دو مقامات کے قرآن مجید میں ہر جگہ موصولہ ہی وارد ہوا ہے۔ وہ دو مقامات درج ذیل ہیں:
’’ کُلَّ مَا رُدُّوا إِلَی الْفِتْنَۃِ ارْکِسُوا فِیھَا‘‘ ( النسا:۹۱)
’’وَئَ اتَٰکُمْ مِن کُلِّ مَا سَألْتُمُوہُ‘‘ (ابراہیم :۳۴)

امام مراکشی رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کلمہ ’’ کُلَّ مَا‘‘ کا مقطوع آنا پہلی آیت مبارکہ میں اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا لوٹنا ایک شے کی طرف نہیں تھا بلکہ متنوع اشیاء کی طرف تھا نیز ان کالوٹنا ایک بارنہیں بلکہ متعدد بار تھا۔اسی لیے لفظ ’’کُلَّ‘‘ اور لفظ ’’مَا‘‘ کے درمیان فاصلہ ہے۔
 
Top