السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے بار بار بدعت کے ساتھ مروجہ تروایح کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ ایک قران کو ختم کرنے کا التزام،دوران تراویح تفسیر و ترجمہ ، 6 روزہ 10 روزہ یہ چیزیں کیسے درست ہوں گی۔
مروجہ کی بات بعد میں، پہلے یہ بات کہ قرآن کریم کو ختم کرنے میں کوئی قباحت نہیں! ایک کیا دو بار ختم کریں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں!
ہاں اسے اگر کوئی تراویح کی شرط قرار دے تو یہ مسئلہ ہو گا!
ہم تو اسے شرط نہیں کہتے!
رہی بات دوران تراویح تفسیر و ترجمہ کی، تو سمجھنا چاہئے کہ یہ تراویح کا جزء نہیں، بلکہ ایک مشغلہ ہے، جو تراویح کے درمیان کیا جاتا ہے، آپ چاہیں تو اس دوران پکوڑے ، تکہ بوٹی یا جو چاہیں کھا لیں! یا چائے ہی لیں، کوئی مضائقہ نہیں!
رہی بات 6 روزہ 10 روزہ کی! تو یہ اسی طرح ہے کہ جیسے کوئی شخص 6 روز یا 10 روز تراویح پڑھے، ان ایام میں تراویح پڑھنے کا اس کو ثواب ہے، لیکن یہ گمان کہ یہ 6 روز یا 10 روز میں ترایح میں ایک قرآن ختم کرنا سے تمام رمضان کی تراویح کا قائم مقام ہو جاتا ہے، اس طرح لوگ اس سوچ کے ساتھ اس میں شرکت کرتے ہیں، درست نہیں!
پھر آپ کی فقہ حنفیہ سے رکعات کے معاملے پر بحث جس میں آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ تروایح کی رکعات 8 ہی ہیں۔ تو میں اس بات اور محترم اسحاق صاحب کی ایک پوسٹ میں کہی گئی بات کہ کسی عمل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہیں بڑھ سکتے کے تحت بیس رکعات کو بدعت کہا ۔
جی! تراویح کی 8 رکعت ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس سے زیادہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کہنا درست نہیں!
لیکن اس سے زیادہ رکعت پڑھنے کا جواز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے!
مسئلہ اس وقت ہوتا ہے، جب کوئی 8 رکعت سے زیادہ جیسے 20 رکعت تراویح کی نسبت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم کے عمل سے کرتا ہے!
اور بلکل اولیٰ یہی ہے کہ 8 رکعت ترایح اسی کیفیت و طوالت سے ادا کرنے کی کوشش کی جائے جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا!
لیکن اگر کوئی کوئی رکعت کی تعداد بڑھا کر قیام کا وقت طویل کرتا ہے، تو اس کی گنجائش ہے! کہ تراویح نوافل ہیں، اور نفل کی تعداد متعین نہیں!
پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ فقہ حنفیہ تراویح کو سنت مؤکدہ کا درجہ دیتےہیں یعنی نہ پڑھنے والے گناہ گار ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی خدشہ کے تحت تو موقوف کی تھی کہ فرض نہ ہوجائے ۔ اور نہ پڑھنے والا گناہ گار نہ ہو۔
جی! تراویح سنت مؤکدہ تو ہے، لیکن سنت مؤکہ نہ پڑھنے والے کو گناہ گار کہنا، یہ حنفیوں کا مسئلہ ہے، ہم اس سے بری ہیں!
لہٰذا آپ حنفیوں کی مروجہ تراویح کو بدعت کہتے ہیں، تو یہ مسئلہ تو آپ حنفیوں سے پوچھیں!
جب آپ مروجہ تراویح کہتے ہو میاں! تو ر اہل الحدیث میں بھی تراویح رائج و معمول ہے!
لہٰذا آپ کا ''مروجہ تراویح'' کو بدعت کہنا درست نہیں۔ ہاں! اگر آپ '' حنفیوں کی مروجہ تراویح'' یا '' مقلدین کی مروجہ تراویح'' کو بدعت کہیں، تو یہ آپ جانیں اور حنفیہ و مقلدین جانیں!